from BBC News اردو - خبریں، تازہ خبریں، بریکنگ نیو | News, latest news, breaking news https://ift.tt/2wFm0La
via IFTTT
.FOCUS WORLD NEWS MEDIA GROUP EUROPE copy right(int/sec 23,2012), BTR-2018/VR.274058.IT-
لاہور(جی سی این رپورٹ) صحافی ساجد حسین بلوچ کے دوست اور جاننے والے یہ جان کر حیران رہ گئے وہ سوئیڈن کے شہر اوپسالا سے تقریباً ایک ماہ سے لاپتہ ہیں اور اب تک ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ساجد حسین بلوچ ایک آن لائن میگزین بلوچستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں جس کے ایڈیٹوریل بورڈ نے ہفتے کے روز یہ خبر دی کہ ساجد حسین 2 مارچ سے سوئیڈن کے شہر اوپسالا سے لاپتہ ہیں اور اس سلسلے میں سوئیڈن پولیس کے پاس 3 مارچ کو مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔پریس کو جاری کردہ بیان کے مطابق ’آج کے روز (28 مارچ) تک ان کے ٹھکانے یا ان کی خیر و عافیت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں اور نہ ہی پولیس نے تحقیقات میں ہوئی پیشرفت سے ان کے اہلِ خانہ یا دوستوں کو آگاہ کیا ہے‘۔
ان کے بھائی واجد بلوچ نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے 14 روز تک اس شبے میں انتظار کیا کہ ساجد کو کہیں قرنطینہ نہ کردیا گیا ہو لیکن کافی وقت گزرنے کے بعد وہ اپنی خاموشی توڑنے پر مجبور ہوگئے۔واضح رہے کہ ساجد حسین، انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہونے کے بعد تقریباً 8 برس قبل ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
ان کی اہلیہ شہناز نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے بلوچستان میں جبری طور پر لاپتہ افراد کے معاملے پر کام کیا تھا لیکن 2012 میں منشیات کے سرغنہ امام بھیل کو بے نقاب کرنے والی رپورٹ پر انہیں موت کی دھمکیاں ملی تھیں۔
اہلیہ نے بتایا کہ انہیں یہ بھی محسوس ہوا کہ ان کا پیچھا کیا جارہا ہے، جس کے بعد جب وہ ایک تحقیقاتی کہانی پر کام کررہے تھے تو کوئٹہ میں کچھ لوگ ان کے گھر میں گھس کر ان کا لیپ ٹاپ اور کاغذات لے گئے تھے۔
اہلیہ نے مزید بتایا کہ اس واقعے کے بعد وہ ستمبر 2012 میں ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے اور اس کے بعد وطن واپس نہیں آئے۔
سوئیڈن میں موجود ان کے دوست تاج بلوچ کا کہنا تھا کہ ساجد حسین کے لاپتہ ہونے سے ایک روز قبل ان کی ملاقات ہوئی تھی اور ہر چیز معمول کے مطابق لگ رہی تھی۔
تاہم اگلے روز ان کا فون بند پایا گیا اور انہوں نے کسی کال کا جواب بھی نہیں دیا، آخری مرتبہ انہیں اس وقت سنا گیا تھا جب وہ ہاسٹل آفس میں موجود تھے اور اپنے کمرے کی چابی مانگی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ دوبارہ کال کرتے ہیں۔
تاج بلوچ نے بتایا کہ جب انہوں نے اوپسالا پولیس سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ بعض اوقات لوگ تنہائی اختیار کرلیتے ہیں تا کہ کوئی ان کی پرائیویسی متاثر نہ کرسکے تاہم زور دینے پر پولیس نے سوئیڈن کی ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) مسنگ پیپل کے ساتھ مقدمہ درج کرلیا اس کے بعد اب تک اس کیس سے متعلق کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔
دوسری جانب اہلِ خانہ کو ان کی گمشدگی کے پسِ پردہ ملوث عناصر کے بارے میں کوئی علم نہیں لیکن ان کی جانب سے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ سوئیڈن جیسے ملک جو آزادی صحافت کی حمایت کرتا ہے وہاں ایک صحافی کس طرح لاپتہ ہوسکتا ہے۔
اہلِ خانہ کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں اب بھی یقین ہے کہ سویڈش حکام ہمیں انصاف دینے سے انکار نہیں کریں گے اور ہمیں جواب ضرور ملے گا‘۔
خیال رہے کہ ساجد حسین اس سے قبل انگریزی اخبار دی نیوز کے ڈیسک ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔
لندن (جی سی این رپورٹ)سیکس ورکزز کے حقوق کے لیے سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے پھیلاو کی وجہ سے سیکس ورکرز کو بے روزگاری اور بے گھر ہونے جیسی مشکلات کا سامنا ہے۔برطانوی حکومت کی جانب سے کرونا وائرس کا مزید پھیلاو روکنے کے لیے لوگوں کو گھروں میں محدود رکھنے کے لیے لاک ڈاون کی سخت پابندیوں کا اعلان کیا گیا ہےاور گھر سے باہر رہنے والے افراد سے کسی قسم کا رابطہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔لوگوں کو سماجی دوری کے اقدامات کے دوران صرف گھر سے باہر ضروری سامان لینے جانے یا ایک بار ورزش کے لیے جانے کی اجازت ہے۔ انگلش کلیکٹیو فار پراسٹی ٹیوٹس کی ترجمان نکی ایڈمز نے دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وبا نے سیکس ورکرز کو مشکل حالات سے دوچار کر دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ‘یہ موجودہ بحران کی سنگینی میں اضافہ کر رہا ہے۔ ہم نے حالیہ سالوں میں ٹوری پارٹی کے معاشی اقدامات کی وجہ سے سیکس ورکرز کی تعداد میں اضافہ دیکھا تھا لیکن کرونا وائرس ایک بہت بڑی مصیبت ثابت ہوا ہے۔ سیکس ورک کے دوران آپ فطری طور پر قریب ہوتے ہیں۔ زیادہ تر سکیس ورکرز ایسی مائیں ہیں جو اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے یہ کام کر رہی ہیں۔ ان کی سب آمدن ختم ہو چکی ہے اور ان کے پاس کوئی رقم موجود نہیں ہے۔’ان کا مزید کہنا ہے کہ ‘ہمارے سیکس ورک کے نیٹ ورک میں بہت سی خواتین اس وقت بری حالت میں ہیں۔ ان کے پاس تھوڑی سی بھی رقم نہیں ہے۔ اگر آپ ان حالات میں بطور سیکس ورکر باہر جاتی ہیں تو آپ کو پولیس اٹھا لے گی۔ کئی خواتین بھوکی ہیں وہ باہر جاتی ہیں کہ تھوڑی رقم کما سکیں لیکن پولیس بہت سختی کر رہی ہے۔جن جگہوں پر خواتین کام کر رہی ہیں وہ پارک لینڈ اور سابقہ صنعتی علاقہ ہے جو بہت خطرناک ہیں۔ سیکس ورکرز کو مجبور نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ صحت یا آمدن میں سے کسی ایک کو چنیں۔ خواتین بہت بری حالت میں خاص طور پر وہ جو بچوں والی ہیں۔’نکی ایڈمز کا کہنا ہے کہ ان کی کئی سیکس ورکرز سے بات ہوئی ہے جو کرایہ نہ دے سکنے پر گھر سے باہر نکالے جانے کی دھمکیوں کا سامنا کر رہی ہیں کیونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے وہ کچھ کما نہیں پا رہیں۔نکی ایڈمز نے ایک اور خاتون کی مثال دی جو ایک نو سالہ بیٹی، ایک خصوصی ضروریات کے طلب گار بھائی اور ایک بوڑھی ماں کی کفیل ہیں اور سیکس ورکر ہیں اور کووڈ 19 کے پھیلاو کے بعد وہ بہت برے حالات کا سامنا کر رہی ہیں۔نکی ایڈمز کہتی ہیں ‘وہ فلیٹ جہاں یہ خاتون رہتی ہیں اور انہیں سوزن کے نام سے جانا جاتا ہے گذشتہ ہفتے سے کام نہ کر سکنے کے باعث خالی ہاتھ ہیں۔’ نکی ایڈمز پراسٹی ٹیوشن کو ڈی کریمنلائز یعنی جرائم کی فہرست سے باہر نکالنے کے لیے مہم چلا رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘ اس سے پہلے کے چار ہفتے بھی ایسے ہی تھی جب وہ معمول سے نصف کما رہی تھیں۔ جو وہ کماتی تھیں ان سے وہ اپنی 70 سالہ ماں کی خوراک اور باقی خاندان کی کفالت کرتی تھیں۔’نکی ایڈمز کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے لاک ڈاون کے اقدامات نے سیکس ورکرز کے لیے کام کرنے کو مزید خطرناک بنا دیا ہے کیونکہ اب وہ جنسی تشدد رپورٹ کرنے کے لیے پولیس کے پاس نہیں آنا چاہیں گی۔ان کا کہنا ہے کہ جسم فروشی کی سزا کے ساتھ ‘حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے سخت اقدامات’ کی وجہ سے یہ خوفزدہ ہیں۔ یہ اقدامات حکومت کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ کرونا سے متاثرہ کسی بھی فرد کو تحویل میں لے سکتے ہیں۔نکی نے مطالبہ کیا کہ حکومت سیکس ورکرز کو ان حالات میں مدد فراہم کرنے کے لیےہوم افیرز کمیٹی کے ذریعے قانونی سازی کرتے ہوئے جسم فروشی کو جرائم کی فہرست سے نکالے۔برطانیہ میں جسم فروشی اور سیکس کی خرید و فروخت غیر قانونی نہیں ہے لیکن سیکس ورکرز کا بطور گروپ کام کرنا غیر قانونی ہے۔لیڈیا کاراڈونا جو کہ ڈیکریم ناؤ کی ترجمان ہیں اور گراس روٹ لیول پر سیکس ورکرز کے حقوق کی مہم چلاتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ‘اتنی بڑی معاشی روکاوٹ کے نتیجے میں یہ واضح تھا کہ سیکس ورکر اس بحران سے بری طرح متاثر ہوں گے۔ ہم میں سے بہت سے افراد غیر قانونی اور بے ضابطہ مقامات پر کام کرتے ہیں اور ہم باقی افراد کی طرح حکومت کی امداد تک رسائی حاصل نہیں کر پائے۔ جسم فروشی کی صنعت کو جرائم سے نکالے بغیر ہم میں سے کوئی بھی مزدوروں کے بیماری کی تنخواہ کے حق کو استعمال نہیں کر سکتا۔ہم لوگوں کا غصہ دیکھ رہے ہیں کہ کچھ سیکس ورکرز کام کرنا جاری رکھ رہے ہیں اس کے باوجود کے وائرس کا خطرہ موجود ہے اور لوگ حیرت سے پوچھتے ہیں کہ سیکس ورکرز ہماری صحت کا خیال کیوں نہیں رکھ رہے؟ بھوک اور کرونا کے رسک کے درمیان فیصلہ کرنے کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ ہمیں غیر مشروط اور مکمل حمایت کے ساتھ امداد کی اشد ضرورت ہے تاکہ بنیادی آمدن کے ساتھ سیکس ورکرز کو مزید نقصان سے بچایا جا سکے۔’برطانیہ میں جسم فروشی کے حوالے سے کی جانے والی تفصیلی تحقیق جو ہوم آفس نے گذشتہ سال شائع کی تھی کے مطابق حکومتی معاشی فیصلے خواتین کو جسم فروشی کی جانب لے کر جا رہے ہیں اور اس صنعت کو جرم قرار دینا ان کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔جسم فروش خواتین نے جسمانی اور جنسی تشدد کی وجہ برطانیہ کے ایسے قوانین کو قرار دیا ہے جن کے مطابق جسم فروشی کو جرم قرار دیا گیا ہے۔دی انڈپینڈنٹ اس سے قبل رپورٹ کر چکا ہے کہ معاشی فیصلوں اور رفاعی رقوم میں کٹوتی کے باعث پبلک سیکٹر کے ملازمین کی بڑی تعداد سیکس ورکر بننے پر مجبور ہو چکی ہے۔
دنیا کے ہر ملک میں اپنی اپنی بھوت پریت کی کہانیاں ہوتی ہیں۔ لیکن برطانیہ، جہاں سے غیرمرئی واقعات اور کہانیوں کی باقاعدہ تفتیش کا آغاز ہوا تھ...
جملہ حقوق ©
WAKEUPCALL WITH ZIAMUGHAL
Anag Amor Theme by FOCUS MEDIA | Bloggerized by ZIAMUGHAL