FOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL) لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
FOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL) لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 27 مئی، 2018

سیاسی موسم اور لوٹوں کی نقل و حرکتFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

آج کل سیاسی موسم عروج پر ہے۔ سیاست کے کرتا دھرتا آئے دن میلہ سجاتے ہیں۔ بلاشبہ یہ سیاسی جلسوں کا موسم ہے۔ جیسے جیسے گرمی بڑھ رہی ہے ویسے ویسے سیاسی پارہ چڑھتا جارہا ہے۔ سیاسی جلسہ سے کسی سیاسی جماعت کی طاقت کا پتہ چلتا ہے۔ ہمارے ہاں جلسوں کا انداز ابھی تک روایتی ہے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں پارٹی سربراہان ٹی وی پر اپنا اپنا موقف بیان کرتے ہیں۔ اس طرح پارٹیوں کا لاکھوں نہیں، اربوں روپیہ بچ جاتا ہے؛ اور یہی پیسہ پارٹیاں دوسرے کاموں میں خرچ کرتی ہیں۔

اب انٹرنیٹ کا زمانہ ہے ہر کسی کے پاس موبائل ہے۔ سیاسی جلسوں کی تقاریر اور ٹاک شوز براہ راست سنے جا سکتے ہیں۔ ہر الیکشن کے قریب آتے ہی ہمارے ہاں ایک انوکھا بازار لگتا ہے۔ جسے ’’جمہوریت کا بازار‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس بازار میں الیکشن جیتنے والے گھوڑوں کی بولی لگتی ہے۔ بولی کا انداز بھی بڑا دلچسپ اور نرالا ہے۔ اس میں رنگ، نسل، قد، کاٹھ یا خوبصورتی کو نہیں بلکہ صرف الیکشن جیتنے کی صلاحیت دیکھی جاتی ہے۔ اگر ایک اصطبل میں قیمت پوری نہ لگے تو دوسرے اصطبل کا رخ کیا جاتا ہے، دوسرے میں نہ لگے تو تیسرے کا۔ عرف عام میں انہیں سیاسی فصلی بٹیرے کہا جاتا ہے جو ہوا کا رخ دیکھ کر اپنا رخ بدل لیتے ہیں۔

میں آپ کو ایک دلچسپ کہانی سناتا ہوں۔ ایک شخص شدت مرض سے کوما میں چلا گیا اور پانچ سال کوما میں رہا۔ کوما میں جانے سے پہلے وہ پیپلزپارٹی کا جذباتی کارکن تھا۔ کوما سے ہوش آنے کے چند دن بعد وہ مکمل صحت یاب ہوگیا اور نارمل زندگی گزارنے لگا۔ اس کے علاقے میں ایک سیاسی جلسہ تھا، اسے پتہ چلا تو اس کے جذبات کی انتہا نہ رہی اور وہ خوشی خوشی جلسہ میں شرکت کےلیے چلا گیا۔ جب اس نے اپنے رہنماؤں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، ندیم افضل چن اور بابر اعوان کو دیکھا تو فرط جذبات میں ‘جئے بھٹو’ کے نعرے مارنے شروع کر دیے۔ لوگوں نے اس کی طرف حیرانی سے دیکھا اور کہا کہ یہ پی پی کا نہیں بلکہ پی ٹی آئی کا جلسہ ہے، اور یہ لوگ اب پی پی سے پی ٹی آئی میں شامل ہوچکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے جیالوں نے اسے پاگل سمجھا اور دھکے دینے شروع کردیے۔ اس نے کہا کہ یہ تو وہ پی پی رہنما ہیں جنہوں نے بی بی کے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھائی تھیں؛ اور ان کا منشور روٹی، کپڑا، مکان تھا۔

الیکشن قریب آتے ہی سیاسی وفاداریاں بدلنے کا رجحان زور پکڑ گیا ہے۔ اب پی ٹی آئی کی ہوا ہے۔ ن لیگ، پی پی، ق لیگ اور دوسری جماعتوں کے رہنما جوق در جوق پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کو بھی ٹکٹوں کے سلسلے میں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ جو لوگ سالوں سے پی ٹی آئی کے لیے کام کر رہے ہیں، ٹکٹ ان کا حق بنتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ تحریک انصاف بھی  پی پی اور نون لیگ کا آمیزہ بن کر رہ جائے۔

تحریک انصاف کے بڑوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ندیم افضل چن، جسے پی پی نے نام و شہرت دی، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین اور وزیر بنایا، وہ اگر پی پی کا نہیں رہا تو تحریک انصاف کا بھی نہیں رہے گا۔ ہمارے ہاں الیکٹیبلز کا کوئی نظریہ نہیں، وہ صرف اپنا مفاد دیکھتے ہیں اور مشکل وقت میں پارٹی کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ حکومت کی مدت پوری ہونے میں مشکل سے ایک ہفتہ باقی ہے جس کے بعد حکمراں جماعت کی حالت قابل رحم ہوگی۔ کئی ن لیگی ایم این ایز اور ایم پی ایز نے اپنے جلسوں میں شرکت کرنا چھوڑ دی ہے جس سے ان کی ‘وفاداری’ کا پتہ چلتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں کچھ بھی متوقع ہے۔ کچھ سیاسی خاندان وفاداریاں بدل چکے ہیں جبکہ اکثر پر تول رہے ہیں۔

حال ہی میں تحریک انصاف نے اپنا سو دن کا منشور دیا ہے۔ جس میں جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانا بھی شامل ہے۔ وطن عزیز میں اس وقت ایک صوبہ نہیں بلکہ زیادہ صوبوں کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں پنجاب کے تین، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے دو دو صوبے بننے چاہئیں اور گلگت بلتستان صوبہ کو قانونی حیثیت دی جائے۔ دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں جن کی آبادی اور رقبہ ہم سے کم لیکن صوبے زیادہ ہیں۔ سیاسی موسم گرم ہے، دیکھیں سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post سیاسی موسم اور لوٹوں کی نقل و حرکت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2scRwdG
via IFTTT

نابینا افراد کے لیے اسمارٹ چھڑیFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

استبول: سفید چھڑی دنیا بھر میں نابینا افراد کے لیے ایک اہم مددگار آلہ تصور کی جاتی ہے۔ اب ترکی کے نوجوان ماہرین نے روایتی چھڑی میں ٹیکنالوجی شامل کرکے اسے اسمارٹ چھڑی میں تبدیل کردیا ہے اور اس ضمن میں کراؤڈ فنڈنگ کے لیے ایک ویب سائٹ بھی بنائی گئی ہے جسے ’وی واک‘ منصوبے کا نام دیا گیا ہے۔

ترکی ینگ گرو اکیڈمی کی جانب سے یہ چھڑی بنائی گئی ہے جسے جدید ٹیکنالوجی کا شاہکار کہا جاسکتا ہے۔ اس میں سب سے اہم بات اس کا الیکٹرانک ہینڈل ہے جسے کسی بھی عام سفید چھڑی سے جوڑ کر اسے اسمارٹ بنایا جاسکتا ہے۔

اس کے بعد چھڑی میں موجود الٹراساؤنڈ سینسر آن ہوجاتا ہے جو سر کی سطح تک کی رکاوٹوں، ناہموار زمین، پانی اور کیچڑ وغیرہ کو قدم رکھنے سے پہلے بھانپ لیتا ہے اور ایک آواز کے ذریعے خبردار کرتا ہے۔ بہت شور کی جگہ پر اس کا ہینڈل اسمارٹ فون کی طرح لرزش پیدا کرتا ہے جسے ہاتھوں پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔

ہینڈل میں آگے کی جانب ایک روشن ایل ای ڈی لگائی گئی ہے جسے اندھیرے میں بینائی والے خواتین و حضرات دیکھ کر چوکنا ہوسکتے ہیں۔ اس کے ٹچ پیڈ کی بدولٹ کسی اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کے ذریعے بھی اس چھڑی کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس میں موجود اسپیکر گوگل میپ اور دیگر ایپس کے ذریعے آواز سے رہنمائی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

وی واک اسمارٹ چھڑی کا سارا سافٹ ویئر اوپن سورس ہے جس میں مزید تبدیلی اور بہتری کی جاسکتی ہے۔ اسے بنانے والی ٹیم نے انٹرنیٹ پر کراؤڈ فنڈنگ کی درخواست کی ہے اور وی واک کے ایک سیٹ کی قیمت پاکستانی 35 ہزار روپے تک ہوسکتی ہے جبکہ یہ اس سال دسمبر تک عام دستیاب ہوگی۔

The post نابینا افراد کے لیے اسمارٹ چھڑی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IQVW0f
via IFTTT

صحت کا خزانہ، تخمِ ملنگاFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

 کراچی: پاکستان میں تخمِ ملنگا جیسی قدرتی نعمت کو بری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے جو صحت کا ایک خزانہ ہونے کی بنا پر طبی فوائد سے بھرپور ہے۔

صرف شربت اور فالودہ بناتے وقت ہی تخمِ ملنگا کی یاد آتی ہے لیکن تاریخ میں اس بیج کو بطور کرنسی بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ازطق سپاہی جنگ سے پہلے اسے کھاتے تھے کیونکہ یہ توانائی سے بھرپور ہوتا ہے۔ اسی بنا پر تخمِ ملنگا کو دوڑنے والے کی غذا بھی کہا جاتا ہے۔

تخمِ ملنگا کی 28 گرام مقدار میں 137 کیلوریز، 12 گرام کاربوہائیڈریٹس، ساڑھے چار گرام چکنائی، ساڑھے دس گرام فائبر، صفر اعشاریہ چھ ملی گرام مینگنیز، 265 ملی گرام فاسفورس، 177 ملی گرام کیلشیئم کے علاوہ وٹامن، معدنیات، نیاسن، آیوڈین اور تھایامائن موجود ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تخمِ ملنگا میں کئی طرح کے اینٹی آکسیڈنٹس بھی پائے جاتے ہیں۔

اب تخمِ ملنگا کے فوائد بھی جان لیجئے۔

جلد نکھارے اور بڑھاپا بھگائے

میکسکو میں تخمِ ملنگا پر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں قدرتی فینولِک (اینٹی آکسیڈنٹ) کی مقدار دوگنا ہوتی ہے اور یہ جسم میں فری ریڈیکل بننے کے عمل کو روکتا ہے۔ اس طرح ایک جانب تو یہ جلد کے لیے انتہائی مفید ہے تو دوسری جانب بڑھاپے کو بھی روکتا ہے۔

ہاضمے کے لیے مفید

فائبر کی بلند مقدار کی وجہ سے تخمِ ملنگا ہاضمے کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ السی اور تخمِ ملنگا خون میں انسولین کو برقرار رکھتے ہیں اور کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کو بھی لگام دیتے ہیں۔ طبی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ فائبر پانی جذب کرکے پیٹ بھرنے کا احساس دلاتا ہے اور وزن گھٹانے کے لیے انتہائی مفید ہے۔ اس کا استعمال معدے کے لیے مفید بیکٹیریا کی مقدار بڑھاتا ہے۔

قلب کو صحتمند رکھے

تخمِ ملنگا کولیسٹرول گھٹاتا ہے، بلڈ پریشر معمول پر رکھتا ہے اور دل کے لیے بہت مفید ہے۔ اس کا باقاعدہ استعمال خون کی شریانوں کی تنگی روکتا ہے اور انہیں لچکدار بناتا ہے۔ اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کی وجہ سے یہ دل کا ایک اہم محافظ بیج ہے۔

ذیابیطس میں مفید

تخمِ ملنگا میں الفا لائنولک ایسڈ اور فائبر کی وجہ سے خون میں چربی نہیں بنتی اور نہ ہی انسولین سے مزاحمت پیدا ہوتی ہے۔ یہ دو اہم اشیا ہیں جو آگے چل کر ذیابیطس کی وجہ بنتے ہیں۔ اسی لیے ملنگا بیج کا باقاعدہ استعمال ذیابیطس کو روکنے میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔

توانائی بڑھائے

جرنل آف اسٹرینتھ اند کنڈشننگ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق تخمِ ملنگا ڈیڑھ گھنٹے تک توانائی بڑھاتا ہے اور ورزش کرنے والوں کے لیے بہت مفید ہے۔ یہ جسم میں استحالہ (میٹابولزم) تیز کرکے چکنائی کم کرتا ہے اور موٹاپے سےبھی بچاتا ہے۔

ہڈیوں کی مضبوطی

ایک اونس تخمِ ملنگا میں روزمرہ ضرورت کی 18 فیصد کیلشیئم پائی جاتی ہے جو ہڈیوں کے وزن اور مضبوطی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس میں موجود بورون نامی عنصر فاسفورس، مینگنیز اور فاسفورس جذب کرنے میں مدد دیتا ہے اور یوں ہڈیاں اور پٹھے مضبوط رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ زنک اور دیگر اجزا منہ اور دانتوں کی صحت برقرار رکھتے ہیں۔

The post صحت کا خزانہ، تخمِ ملنگا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2KWPLbC
via IFTTT

اسرائیل کی پھیلتی سرحدیںFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

یہ 2017ء کے اوائل کی بات ہے، اسرائیل کے بیس یہودی خاندانوں نے فیصلہ کیا کہ وہ امونا نامی علاقے میں نئی بستی تعمیر کریں گے۔ یہ علاقہ مغربی کنارے (ویسٹ بینک) میں واقع ہے۔ مغربی کنارا مجوزہ آزاد فلسطینی ریاست میں شامل ہونا ہے۔ اسی لیے اسرائیل میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم بستی کی تعمیر رکوانے کے لیے اپنے سپریم کورٹ میں پہنچ گئی۔

مقدمہ اسرائیلی سپریم کورٹ کے عیسائی جج، سلیم جبران کے سامنے پیش ہوا۔ جج صاحب کو بخوبی علم تھا کہ مغربی کنارے میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہاں آزاد فلسطینی ریاست قائم کرنے کا منصوبہ ہے مگر اس نے کھلے عام انصاف اور قانون کا خون کر ڈالا۔ جسٹس سلیم جبران نے قرار دیا کہ مغربی کنارے میں جس زمین پر بھی انسانی آبادی موجود نہیں، اسے اسرائیلی حکومت اپنے قبضے میں لے سکتی ہے۔ اس زمین پر پھر یہودی بستیاں بن سکتی ہیں یا اسرائیلی حکومت چاہے تو کچھ بھی تعمیر کرلے۔

اسرائیل کے سپریم کورٹ نے گویا شرمناک کردار ادا کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت کو مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کی قانونی طور پر اجازت دے دی۔ جسٹس سلیم جبران نے یہ بھی قرار دیا کہ مغربی کنارے میں آباد تمام اسرائیلی باشندے اسرائیل کے شہری ہیں۔ لہٰذا اسرائیلی حکومت کا فرض ہے کہ نہ صرف انہیں زندگی کی تمام سہولیات فراہم کرے بلکہ ان کی حفاظت کا بھی پورا بندوبست کردے۔

دنیا کے تمام ممالک میں لوگوں کو اپنی عدالتوں سے بالعموم انصاف مل جاتا ہے۔ اسرائیل شاید واحد ملک ہے جہاں عدالتیں فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کرنے میں اپنی ظالم حکومت کا بھر پور ساتھ دیتی ہیں۔ جسٹس سلیم کے حکم پر اب اسرائیلی حکومت مغربی کنارے میں بنی تمام یہودی بستیوں کی سکیورٹی کے لیے غیر معمولی اقدامات کررہی ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے مغربی کنارے میں ’’چھوٹے چھوٹے اسرائیل‘‘ جنم لے رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ یہودی بستیاں مل کر اسرائیلی مملکت میں شامل ہو جائیں گی۔

اسرائیل کے انتہا پسند مذہبی لیڈر دراصل فلسطین کے علاقوں،مغربی کنارے اور غزہ کو اپنی مملکت کا ہی حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ماضی میں یہ علاقے یہودکی مملکتوں… یہودا اور سامریہ کا حصہ تھے۔ لہٰذا ان کٹر اسرائیلی لیڈروں کی بھر پور کوشش ہے کہ مغربی کنارے کے زیادہ سے زیادہ علاقے پر اسرائیل قابض ہوجائے۔ یہ قبضہ کرنے کا نمایاں ترین طریق کار یہ ہے کہ مغربی کنارے میں یہودی بستی بسالی جائے۔

مغربی کنارے کا رقبہ 5655 مربع کلو میٹر ہے۔ علاقے میں تقریباً 33 لاکھ افراد آباد ہیں۔ ان میں سے 85 فیصد مسلمان ہیں، 12 فیصد یہودی اور بقیہ عیسائی۔ اقوام متحدہ نے 1947ء میں مغربی کنارے کو مجوزہ فلسطینی ریاست میں شامل کیا تھا۔ مگر عربوں نے اقوام متحدہ کا پلان مسترد کردیا۔ بعدازاں اردن کی فوج نے مغربی کنارے میں ڈیرے ڈال دیئے۔

1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے مغربی کنارے پر قبضہ کرلیا۔ تب سے وہ اس علاقے پر قابض چلا آرہا ہے۔ مغربی کنارے کے کچھ علاقوں میں فلسطین اتھارٹی کی حکومت ہے مگر درحقیقت یہ برائے نام ہے۔ اسرائیل جب چاہے مغربی کنارے میں ہر قسم کے اقدامات کرسکتا ہے۔ گویا علاقے کی اصل حاکم اسرائیلی حکومت ہے۔یہی وجہ ہے، اسرائیلی حکومت نے اپنے یہودی شہریوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں اپنی بستیاں قائم کرلیں۔ مشرقی بیت المقدس کو مجوزہ آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بننا ہے۔ اسی خطے میں مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام بھی واقع ہے۔

عام مسلمان مگر نہیں جانتے کہ اسرائیلی حکومت نہایت عیاری اور چالاکی سے مغربی کنارے، مشرقی بیت المقدس اور گولان کی پہاڑیوں کا رقبہ ہتھیا رہی ہے۔ یوں وہ اپنی سرحدیں زیادہ سے زیادہ پھیلانا چاہتی ہے۔ ایک مدعا یہ بھی ہے کہ بالفرض مستقبل میں آزاد فلسطینی ریاست بن بھی جائے، تو وہ اتنی کمزور ہوکہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔

یہ سچائی تو اب سبھی جانتے ہیں کہ اسرائیل کا قیام زمین کی خرید و فروخت کے عمل سے وجود میں آیا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں امیر کبیر یہود نے فلسطینی مسلمانوں سے منہ مانگے داموں زمینیں خریدیں اور پھر وہاں یہودی گھرانے لا بسائے۔ اس طرح ارض فلسطین میں یہود کی آبادی بڑھنے لگی۔ آخر چند ہی عشروں میں آبادی اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ وہ اپنی مملکت بنانے کے خواب دیکھنے لگے۔ امریکا اور برطانیہ نے یہ خواب شرمندہ تعبیر کرنے میں یہود کے ساتھ پورا تعاون کیا۔اب اسرائیلی یہودی مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس پر بھی زمین کی خریدو فروخت کے ذریعے زیادہ سے زیادہ رقبے پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔

اس سلسلے میں مختلف ہتھکنڈے اور حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ایک عام حربہ یہ ہے کہ چند یہودی خاندان مغربی کنارے میں غیر آباد رقبے پر جا بستے ہیں۔ وہ قرب و جوار میں فصل اگاتے یا باغ لگاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ دیگر یہودی خاندان وہاں آجاتے ہیں۔ یوں بستی کے حجم میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ آخر کار اسرائیلی حکومت یہ آڑ لے کر انہیں سہولیات زندگی بہم پہنچانے لگتی ہے کہ وہ اسرائیلی شہری ہیں۔ یوں وہ بستی آخر کار اسرائیل کی ملکیت قرار پاتی ہے۔

پچھلے پچاس برس کے دوران درج بالا طریق واردات کی مدد سے مغربی کنارے میں ’’125‘‘ یہودی بستیاں وجود میں آچکیں جن میں تقریباً چار لاکھ اسرائیلی یہودی بستے ہیں۔ ان بستیوں میں سے چار تو ’’شہر‘‘ کا درجہ پاچکی۔ دیگر بستیوں میں بھی یہود کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ نیز مزید یہودی بستیاں بسانے کا سلسلہ بھی کھلے عام جاری ہے۔ مغربی کنارے میں بعض اوقات مسلمان پیسے کے لالچ میں اپنی زمینیں یہود کو فروخت کردیتے ہیں۔ مگر اب فلسطینی مسلمانوں کے درمیان یہود کو زمین فروخت کرنے والا مسلمان ناپسندیدہ قرار پاتا ہے۔ اس کو غدار سمجھا جاتا ہے کیونکہ یوں وہ ارض فلسطین پر قبضہ جمانے میں یہود کی مدد کرتا ہے۔ معاشرتی بائیکاٹ سے بچنے کی خاطر ہی اب مغربی کنارے میں شاز ہی کوئی مسلمان یہود کو زمین فروخت کررہا ہے۔ یہود تاہم بے آباد زمینوں پر قبضہ کرتے چلے جارہے ہیں اور اس ناجائز، غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل میں انہیں اسرائیلی حکومت کی بھر پور مدد حاصل ہے۔

اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کئی بار مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دے چکی مگر اسرائیلی حکومت کھلے بندوں ان کی تعمیر جاری رکھے ہوئے ہے۔وجہ یہی کہ اسے سپر پاور امریکا کی عیاں اور اکثر یورپی مملک کی درپردہ حمایت حاصل ہے۔ویسے بھی اسرائیل بذات خود ایک خطرناک عسکری طاقت بن چکا ہے۔ اسرائیلی سائنس داں دن رات تحقیق و تجربات کے ذریعے نت نئے ہتھیار ایجاد کر رہے ہیں۔

اب وہ ایسی فوجی طاقت ہے  کہ صرف سپر پاورز ہی میدان جنگ میں اس سے ٹکر لے سکتی ہیں۔افسوس ناک امر یہ کہ ترکی اور چند دیگر ملکوں کے حکمرانوں کو چھوڑ کر عالم اسلام کے بقیہ حکمران اپنی سرگرمیوں میں مست الست ہیں۔وہ زیادہ سے زیادہ اسرائیل کے خلاف مذمتی بیان دیتے ہیں۔بہت ہوا تو او آئی سی کی کانفرنس میں شرکت کر لی۔ایسی کانفرنسوں کا نتیجہ ڈھاک کے پات ہی نکلتا ہے۔فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل دیدہ دلیری سے مظالم ڈھا رہا ہے اور عالم اسلام میں کوئی مائی کا لعل نہیں جو اس کو روک سکے۔

ایساکوئی حکمران نہیں جو ارض فلسطین میں یہودی بتسیوں کی ناجائز و غیر اخلاقی تعمیر رکوا دے۔عالم اسلام کے حکمرانوں کے بے عملی اور بے حسی کی وجہ ہی سے اسرائیل نواز امریکی صدر،ڈونالڈ ٹرمپ کو یہ حوصلہ ملا کہ وہ اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کر دے۔اقوام متحدہ کی رو سے بیت المقدس ایک غیر جانب دار علاقہ ہے۔ مگر امریکا کے بظاہر قانون پسند اور انسانی حقوق کے نام لیوا حکمران طبقے نے اقوام عالم کے بنائے قانون کی دھجیاں اڑا دیں۔وہ تو اسرائیلی حکومت کا یہ نقطہ نظر مانتا ہے کہ بیت المقدس اسرائیل کا دارلحکومت ہے۔

فلسطینی مسلمان پورے یروشلم نہیں صرف مشرقی بیت المقدس کو اپنی آزاد فلسطینی ریاست کا داراحکومت بنانا چاہتے ہیں۔وہ اس لیے کہ یہیں مسجد الاقصی اور قبہ الصخرہ واقع ہیں۔ لیکن مشرقی بیت المقدس پہ مکمل قبضے کی خاطر اسرائیلی حکمران طویل عرصے سے ایک سوچے سمجھے منصوبے پر عمل کر رہے ہیں۔

1967ء میں قبضہ کرنے کے بعد اسرائیلی حکومت نے سب سے پہلے مشرقی بیت المقدس میں مقیم مسلمانوں پر مختلف قوانین زبردستی ٹھونس دئیے۔ان کا مقصد اسلامیوں کی روزمرہ زندگی کو مشکل سے مشکل تر بنانا تھا۔اور مدعا یہ تھا کہ مسلمان آخر تنگ آ کر مشرقی بیت المقدس سے چلے جائیں۔مذید براں بھاری معاوضہ دے کر مسلمانوں سے زمینیں خریدنے کا پرانا حربہ بھی آزمایا گیا۔جو فلسطینی کمزور تھے،انھیں ڈرا دھمکا کر ان سے زمینیں چھین لی گئیں۔

جب اسرائیل مشرقی بیت المقدس پہ قابض ہوا تو وہاں دو تین ہزار یہودی رہتے تھے۔بقیہ مغربی بیت المقدس چلے گئے تھے۔آج اس علاقے میں ’’دو لاکھ‘‘یہود بستے ہیں… اور یہ تمام یہودی ان زمینوں پر آباد ہیں جن کے مالک کبھی فلسطینی مسلمان تھے۔گویا اسرائیلی حکومت نے نہایت عیارانہ طریقے سے مسلمانوں کو مشرقی بیت المقدس سے بے دخل کیا اور ان کی زمین وجائیداد پر قابض ہو گئی۔زمینوں پر ایسے شاطرانہ انداز میں قبضہ جمانے کی مثال انسانی تاریخ میں کسی اور ملک میں نہیں ملتی۔

آج مشرقی بیت المقدس میں تقریباً ڈھائی لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔مگر اسرائیلی حکومت نے مختلف حربے اپنا کر ان کا جینا حرام کر رکھا ہے۔اسی لیے ہر سال بہت سے فلسطینی خاندان اپنا گھر بار اونے پونے داموں بیچ کر مغربی کنارے یا غزہ چلے جاتے ہیں۔چناں چہ مشرقی بیت المقدس میں مسلم آبادی رفتہ رفتہ کم ہو رہی ہے۔یہ ایک خطرناک بات ہے کیونکہ اس طرح مستقبل میں وہاں یہود کی آبادی بڑھ جائے گی اور اسرائیلی حکومت کا یہی تو مقصد ہے۔یوں اگر آزاد فلسطینی ریاست قائم ہوئی تو یہود کی اکثریت کے باعث مشرقی بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت بنانا بہت کٹھن مرحلہ بن جائے گا۔

صورت حال سے آشکارا ہے کہ اسرائیل بڑی عیاری وہوشیاری سے بتدریج مشرقی بیت المقدس اور مغربی کنارے پر قابض ہو رہا ہے۔اس کی سرحدیں مسلسل پھیل رہی ہیں اور دنیا بھر میں مسلمان غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔مغربی کنارے میں الفتح تنظیم کی حکومت ہے۔اس کے حکمران زبانی کلامی تو اسرائیلی حکمرانوں پر خوب برستے ہیں مگر یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کے لیے ایک ٹھوس قدم بھی نہیں اٹھا پاتے۔اہم نکتہ یہ کہ الفتح لیڈر اس ضمن میں اسرائیلی حکومت کے خلاف عملی احتجاج بھی نہیں کرتے۔ان کے طرزعمل سے ظاہر ہے کہ الفتح لیڈر اپنا اقتدار بچانا چاہتے ہیں۔انھیں ڈر ہے کہ اگر انھوں نے اسرائیل کے خلاف احتجاج کیا اور عوام کو سڑکوں پر لے آئے تو اسرائیلی حکومت ان کی حکومت ختم کر ڈالے گی۔یوں وہ تمام مراعات اور آسائشات زندگی سے محروم ہو جائیں گے۔

غزہ میں اسلامی تنظیم،حماس کی حکومت ہے۔اس کے لیڈر ذاتی مفادات پر اُمت کے مقاصد کو ترجیح دیتے ہیں۔اسی لیے وہ وقتاً فوقتاً اسرائیل کے خلاف پرزور احتجاج کرتے ہیں۔حال ہی میں جب بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی تو غزہ میں ہزارہا مسلمانوں نے اس موقع پر زبردست احتجاج کیا۔تب اسرائیلی فوجی بھوکے کتوں کی طرح ان پہ پل پڑے۔نہتے ہوتے ہوئے بھی دلیر فلسطینی مسلمانوں نے سینوں پر گولیاں کھائیں اور دنیا والوں بالخصوص عالم اسلام کے بے حس ہم مذہبوں کے دلوں اور ضمیر کو جھنجھوڑ ڈالا۔

سچ یہ ہے غزہ اور مغربی کنارے میں بستے لاکھوں فلسطینی مسلمان ایک دیوہیکل قید خانے میں نہایت تکلیف دہ اور مشکلات سے پُر زندگی گذار رہے ہیں۔اپنے لیڈروں کی نااہلی اور عالم اسلام کی بے حسی کی وجہ سے ان کا مستقبل بھی خوشگوار دکھائی نہیں دیتا۔اب تو روایتی طور پر ان کے دوست عرب ممالک کا جھکاؤ بھی اسرائیل کی جانب ہو رہا ہے۔ایسے معاندانہ حالات میں آزاد فلسطینی ریاست کا قیام مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا  ہے۔

The post اسرائیل کی پھیلتی سرحدیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IKtwce
via IFTTT

بلوچستان اقتصادی اور مالیاتی مسائل کا شکار کیوں؟FOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

قیام پاکستان کے فورا بعد ہی پا کستان میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں پارلیمنٹ میں آبادی کے اعتبار سے پارلیمانی جمہوریت کے تحت اراکین کی نشستوں کی تعداد کو 1955 ء میں ہی برابری کے اصول کو اپنایا گیا تھا اور ہمارے ہاں تمام علاقوں اور صوبوں کو یک جا کر کے ایک ون یو نٹ بنا دیا گیا حالانکہ مشرقی پاکستان کی آبادی ہمارے تمام علاقوں اورصوبوں سے زیادہ تھی۔

یہ صورتحال 1956 ء کے آئین اور پھر اس کے بعد ایوبی اقتدار میں ان کے صدارتی آئین 1962ء کے تحت بھی جاری رہی۔ اس میں بھی وفاقی بجٹ میں دونوں یونٹوں میں مالی وسائل کی تقسیم ملازمتوں میں حصہ داری کے تناسب جیسے مسائل بنیادی طور پرایسے مسائل تھے کہ جو دونوں حصوں میں خلیج بڑھاتے چلے گئے اور آخر کار دسمبر1971 ء کا سانحہ رونما ہوا اس کے بعد مغربی پاکستان ، پاکستا ن بنا جس میں ایک نئے صوبے کا اضافہ ہوا جو بلوچستان تھا۔ بدقسمتی دیکھئے کہ قائداعظم نے 1927-29 ء میں سندھ اور خیر پختوانخوا کی طرح بلوچستان کو بھی صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ انگریزوں سے کیا تھا لیکن انگریز نے 1935 کے قانون ہند میں سندھ کو تو بمئی سے الگ کردیا اور خیبر پختوانخوا کو صوبائی درجہ ملا اور اصلا حات کی گئیں مگر بلوچستان کو صوبے کا درجہ نہیں دیا گیا پھر جب پاکستان بنا تو یہاں دنیا کی بڑی ہجرت ہوئی۔

پھر بھارت کی جانب سے پانی کی اچانک بندش اور فوراً ہی کشمیر کے مسئلے پر دونوں ملکوں میں جنگ اور پھر قائد اعظم آزادی کے بعد 12 مہینے اور28 دن زندہ رہے اور اس مدت میں سے بھی وہ بیمار ی میں شدت پر بلوچستان زیارت میں تقریبا دو مہینے دس دن زیر علاج رہے۔

اس کے بعد بلوچستان مغربی پاکستان کے کوئٹہ اور قلات دو ڈویژنوں کے طور پر رہا اور 1970ء کے عام انتخابات کے موقع پر پہلی مرتبہ بلوچستان کو صو بے کا درجہ دیا گیا اور اس وقت چونکہ ملک میں جنرل یحییٰ خان کا مارشل لا تھا اس لیے یہاں اس وقت لیفٹیننٹ جنرل ریاض احمد کو پہلا صوبائی گورنر بنا یا گیا اور اس کے بعد 1972ء میں جب پہلے وزیر اعلیٰ سردار عطا اللہ مینگل کی پہلی حکومت بنی تو پہلی مرتبہ یہاں کے احساس محرومی کی کچھ جھلکیاں سب کے سامنے آئیں کہ جب ون یونٹ میں بلوچستان مغربی پاکستان کا حصہ رہا تو ملک کی معاشی، اقتصادی ترقی میں یہ علاقہ ملک کا سب سے پسماند ہ حصہ تسلیم کیا گیا ، صوبے کے پہلے دو صوبائی بجٹ صوبائی حکومت بننے سے قبل آئے۔

مالی سال 1970-71 ء کل حجم 39 کروڑ 56 لاکھ 7 ہزار تھا، اس کے بعد مالی سال 1971-72 کا کل حجم 33 کروڑ 42 لاکھ 35 ہزار تھا، اس کے بعد پہلی منتخب صوبائی حکومت بر سر اقتدار آئی جس نے اپنا پہلا بجٹ پیش کیا جس کا حجم 15 کروڑ 45 لاکھ 54 ہزار تھا جس کا خسارہ 8 کروڑ 29 لاکھ تھا جسے وفاقی حکو مت نے ادا کرنا تھا۔ یہ بجٹ صوبائی وزیر خزانہ احمد نواز بگٹی نے پیش کیا تھا ۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1973 ء کا پارلیمانی آئین دیا، اس آئین میں جہاں جمہوریت کے فروغ اور عوام کی بہبو د کے وعدے کئے گئے تھے وہاں صوبوں کے حقوق خصوصاً اقتصادی اور مالی حقوق کے تحفظ کے لیے بھی ایسے آرٹیکلز رکھے گئے جن کے تحت صوبوں کے درمیان وفاقی حکومت کے محاصل میں وفاق اور صوبوں کے حصوں کا تناسب اور پھر تما م صوبوں کے درمیان ان محاصل کی تقسیم کا تناسب اور طریقہ کار طے کیا گیا۔

یوں 1973 ء کے آئین کے مطابق ،،Council of Common Interest ،، مشترکہ مفادات کی کونسل اور اس کے اجلاس میں صوبوں کے وزرا اعلی،ٰ وزرا خزانہ، وزیر اعظم ، وفاقی وزیر خزانہ اور ان سے متعلقہ اعلیٰ افسران مقررہ مدت میں سالانہ چند اجلاس میں صوبوں سے متعلق مالیاتی اقتصادی مسائل کو حل کرنے کی کوششیں کر ینگے۔ اس طرح اس آئین میں صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم کے فارمولے کو این ایف سی ایوارڈ کے نام سے نافذ العمل کیا گیا جس میں وفاق کی جانب سے وصول کئے جانے والے محاصل کی پہلے صوبوں اور وفاق کے درمیان تقسیم کا تناسب اور پھر جو حصہ صوبوں کا ہو اسے صوبوں کے درمیان تقسیم اور اس تقسیم کا تناسب طے کیا گیا۔

یہ 1973 ء کے آئین میں ایک ایسا طریقہ کار ہے جس میں حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے آپس میں صوبوں کے درمیان اور وفاق اور صوبوں کے درمیان مسائل کو پیدا ہونے سے قبل ہی حل کرنے کی حکمت عملی کو اولیت دی گئی تھی، قومی مالیاتی ایوارڈ کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا تھا کہ یہ ایوارڈ ہر پانچ سال بعد وفاق اور صوبوں اور پھر صوبوں کے درمیان طے پائے گا، یوں پہلا قومی مالیاتی ایورڈ 1973 ء کی آئین کے صرف ایک سال بعد 1974ء میں آیا دوسرا ایوارڈ 1979ء تیسرا 1985ء چوتھا 1991 ء میں پانچواں این ایف سی ایوارڈ1995 ء میں چھٹا قومی مالیاتی ایوارڈ1997 ء میں آیا، اس کے بعد اکتوبر 1999 ء میں صدر جنرل پرویز مشروف کے اقتدار میں آنے کے بعد این ایف سی ایوارڈ تو نہیں آیا البتہ اسی کو ایک نیا نام صدارتی حکمنامہ’’ ڈسٹری بیوشن آرڈر 2006 ء ‘‘دیا گیا اور اس کے بعد آخری قومی مالیاتی ایوارڈ 2010 ء آیا تھا ۔

1972 ء میں جب طویل عرصے کے بعد ملک میں پارلیمانی جمہوریت بحال ہوئی تو اس وقت مشرقی پاکستان اپنے 147570 مربع کلو میٹر رقبے کے ساتھ بنگلہ دیش میں تبدیل ہو گیا تھا اور مغربی پاکستان اپنے 797095 مربع کلو میٹر رقبے کے ساتھ پاکستان بن گیا اور اس میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب تھا اور بلوچستان 347190 مربع کلو میٹر رقبے کے ساتھ رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ بن گیا لیکن آئین میں این ایف سی ایوارڈ میں وفاق اور صوبوں میں محاصل کی تقسیم کا تناسب تقریبا نصف نصف تھا اور صوبوں کے درمیان ان محاصل کی تقسیم آبادی کے تناسب پر تھی، یوں جب صوبے کے پہلے وزیر اعلیٰ سردار عطا اللہ مینگل کی حکومت برسر اقتدار آئی اور اس نے اپنا پہلا صوبائی بجٹ مالی سال 1972-73 دیا جس کا حجم 15 کروڑ 88 لاکھ اور خسارہ 8کروڑ 29 لاکھ تھا تو اسی وقت سے یہ سولات اٹھنے لگے کہ اگر این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں میں محاصل کی تقسیم کا تناسب صرف اور صرف آبادی کی بنیاد پر ہی رہا تو بلوچستان کی پسماندگی قیامت تک دور نہ ہوسکے گی۔

واضح رہے کہ 1973ء کا پارلیمانی آئین 1956 ء کے ایک ایوانی آئین کے مقابلے میں دو ایوانی آئین ہے اور اس میں قومی اسمبلی کے ساتھ سینٹ کو بھی قانون سازی میں شریک قرار دیا گیا ہے، مگر سینٹ کی جانب سے بجٹ کی منظوری لازمی نہیں اس زمانے میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا دونوں صوبوں میں نیپ اور جمعیت علما اسلام کی مخلوط صوبائی حکومتیں تھیں اور ان دونوں صوبوں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ چونکہ قومی اسمبلی کے مقابلے میں سینٹ میں چاروں صوبوں کی نمائندگی برابر ہوتی ہے اس لیے اسے زیادہ اختیارات دئیے جائیں، خصوصاً بجٹ کی منظوری اس سے ہو لیکن اس وقت این ایف سی ایوارڈ اور مشترکہ مفادات کی کونسل کی مشاورت آئین کے وہ آرٹیکلز تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں موثر انداز میں قابل عمل بھی تھے اور آئین کا نفاذ بھی نیا نیا تھا۔

اس لئے ان دنوں صوبوں کو یہ یقین تھا کہ مالیاتی اور اقتصادی معاملات میں ان صوبوں کو ان کے حقوق ملیں گے مگر بد قسمتی سے 1972 ء میں قائم ہونے والی بلو چستان کی پہلی صوبائی حکومت کو بھٹو نے تو ڑ دیا جس پر صوبہ خٰیبر پختونخوا میں نیپ اور جمعیت علما اسلام کی حکومت جو وزیر اعلیٰ مفتی محمودکی سربراہی میں قائم تھی اس نے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد بلوچستان میں حکومت کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا لیکن بھٹو نے صوبے میں اپنی مر ضی کی صوبائی حکومت تشکیل دیدی اور پھر اس حکومت کو اتنے ترقیاتی فنڈز ملتے رہے کہ صوبے میں کو ئی مالیاتی بحران رونما نہیں ہوا۔ ان کے دور میں بلوچستان میں روزگار اور پیداوار کی فراہمی کو مد نظر رکھتے ہوئے ترقیاتی منصوبے شروع کئے گئے جن میں کراچی کے نزدیک ضلع لسبیلہ میں حب، وندر اور اوتھل میں انڈسٹریل زون قائم کئے گئے اور یہاں بہت سے صنعتی یونٹ لگئے گئے اسی طر ح کوئٹہ میں سرکی روڈ پر بھی ایک اندسٹریل یونٹ قائم کیا گیا جس میں گھی کے کارخانے کے علاوہ روٹی پلانٹ ،دوسری صنعتیں لگائی گئیں ۔

ضلع لسبیلہ ہی میں کراچی سے نزدیک اس وقت ایشیا کی سب بڑی شپ بریکنگ انڈسٹری لگا ئی گئی، اسی طرح ایران کی مالی معاونت سے کوئٹہ بلیلی اور اوتھل دو ٹیکسٹائل فیکٹریاں لگائی گئیں ۔ بلوچستان کی پہلی یونیورسٹی نے باقاعدگی سے کام شروع کردیا ۔ بولان میڈیکل کالج قائم کیا گیا اور چین کے تعاون سے پاک ایران سرحد پر تفتان کے قریب سندک کے مقام پر تانبے ، چاندی اور سونے کے ذخائردریافت ہوئے اور کان کنی شروع ہوئی۔

بلوچستان کے صوبہ بننے کی وجہ سے یہاں تمام صوبائی محکمے اور ان کے ہیڈ آفس قائم ہوئے صوبائی سول سیکرٹریٹ وجود میں آیا، اس وقت بلوچستان کی کل آبادی 22 لاکھ تھی اور پہلی صوبائی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 23 تھی، یوں صو بہ بننے پر واقعی صوبے میں روز گار اور پیداور میں اضافہ ہوا تھا اور بے روزگاری نہ ہونے کے برابر تھی لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس پانچ، چھ سالہ دور حکومت کے بعد 90% کارخانے بند ہوگئے اور ترقی کے نام پر ناقص منصوبے بنتے رہے۔

2000 ء تا 2005 ء اگرچہ گوادر منصوبہ شروع کیا گیا لیکن اسی دوران بڑے المیے بھی رونما ہوئے۔ اس دور میں بس یہ ہوا کہ ایران کے تعاون سے جو ٹیکسٹائل ملیں کوئٹہ اور اوتھل میں لگائی گئیں تھیں ان کے علاوہ کوئٹہ کے سردار بہادر خان ریلوے ٹی بی سینٹوریم کی عمارتوں کو تین یونیورسٹیوں میں تبدیل کر دیا گیا ، میرانی ڈیم اور سپکزئی ڈیم اور کیرتھر کینال کے منصوبے شروع کئے گئے، اسی دور میں بوستان سے ژوب جانے والی نیروگیج ریلوے لائن جو 1985ء میں بند کردی گئی تھی، اس296 کلو میٹر لمبی ریلوئے لائن کو براڈ گیج ریلوے لائن بنانے کے لیے پی سی ون بھی تیار کرلیا گیا جس پر لاگت کا تخمینہ ایک کروڑ روپے فی کلو میٹر تھا، یوں کل لاگت 2 ارب96 کروڑ روپے تھی مگر اس کے لئے وفاق کی جانب سے فنڈز جاری نہیں کئے گئے ۔

جمہوری جدوجہد کے بعد پورے ملک کی طرح بلوچستان میں بھی 2008 کے عام انتخابات کے بعد صوبا ئی حکومت قائم ہو ئی، اس دور تک وفاق اور صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم کے اعتبار سے 2006 ء کا صدارتی حکمنامہ ’’ڈسٹری بیوشن آڈر‘‘ این ایف سی ایوارڈ کی طرح سے آچکا تھا۔ اس کے بعد 2010 ء میں آئین کی اٹھارویں ترمیم ہوئی جو آئینی لحاظ سے ایک بہت بڑی پیش رفت تھی۔ واضح رہے کہ 1973ء کے آئین میں زیادہ صوبائی خود مختاری کے لیے دس سال کی مدت طے کی گئی تھی یعنی جو اختیارات صوبوں کو 2010 ء میں دئیے گئے وہ آئینی وعدے کے مطابق 1983ء میں مل جانے چاہئیں تھے مگر اس وقت مارشل لاء حکومت کی وجہ سے آئین معطل رہا۔

یوں یہ ادوار ایسے تھے جن میںترقیاتی منصوبہ بندی کی گئی مگر اس دوران پہلے قدرتی آفات نے بلو چستان کو دبوچا، 1997 ء سے 2004 ء سات سالہ شدید اور طویل ترین خشک سالی رہی اور اس کے بعد غیر قدرتی آفات کی صورت رہی یعنی امن و امان کے اعتبار سے بحران بڑھتا گیا۔ 2008 ء کے انتخا بات کے بعد جمہوری اور آئینی طور پر کوششیں شروع ہوئیں۔ یوں2010 ء میں آئین کی اٹھارویں ترمیم کے بعد ہی ساتواں قومی مالیاتی ایوارڈ آیا جس میں صرف آبادی کی بنیاد پر قابل تقسیم محاصل کے تناسب کی جگہ نیا فارمولہ یہ طے پایا کہ آبادی کی بنیاد پر تناسب کی شرح 82.0%، غربت و پسماندگی 10.3%، ٹیکس وصولیاں 5.0% اور رقبہ اور گنجا نیت کی نیاد پر شرح تناسب 2.7% ہوا۔ واضح رہے کہ 2006 ء کے ڈسٹری بیوشن آڈر کے تحت پہلے ہی، مرحلہ وار وفاق کا حصہ کم ہو کر 46.5% اور صوبوں کا حصہ 57,5% کے تناسب سے طے پا گیا تھا۔

یوں 2010 ء سے 2013-14 ء کے مالی سالوں میں بلوچستان کی صوبائی حکومت مالی اعتبار سے قدرے بہتر پوزیشن میں رہی کہ اس تک صوبائی خود مختاری کے مر احل جاری تھے اور ملازمین اور محکموں کا پورا بوجھ مالی لحاظ سے صوبوں پر نہیں پڑا تھا لیکن اس کے بعد صوبے کو نئے مسائل کا سامنا کر نا پڑا کہ اب تعلیم، صحت، امن و امان، زراعت، صنعت،غرض تمام شعبوں کی تمام مالی اور انتظامی ذمہ داریاں اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں پر ہیں، بلوچستان کی بطور صوبہ تشکیل کے بعد 1972ء سے آج تک تما م صوبائی حکومتیں مخلوط صوبائی حکومتیں رہی ہیں اور خصو صاً 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد جب اراکین پارلیمنٹ کو صوابدیدی فنڈز دئیے جانے لگے تو صوبائی بجٹ سازی اراکین کے اپنے حلقوں کی بنیاد پر، ووٹ بنک کی بنیادوں پر فنڈز کی تقسیم کے حوالے سے تقریبا ہر صوبائی بجٹ پر مسائل پید اہونے لگے اور بلوچستان میں تعمیر وترقی کے مربوط عمل کو جن وجوہات کی بنیاد پر نقصان پہنچتا رہا ہے ان میں ایک بڑی وجہ یہ ہے۔

2013 ء کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں صوبائی حکومت کی تشکیل کے فوراً بعد ہی مالی سال 2013 -14 ء کا بجٹ جب پیش کیا جانا تھا تو بہت اُ جلت میں تین رکنی کابینہ تشکیل دے کر صوبائی بجٹ منظور کیا گیا تھا اور اس مالی سال یعنی 2013-14 کے بجٹ کا حجم 1 کھرب 98 ارب روپے تھا اور مالی خسارہ 8 ارب روپے تھا اس بجٹ سے قبل مری معاہدے میں یہ بھی طے پایا تھا کہ پہلے ڈھائی سال کی مدت کے لیے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور بعد کی ڈھائی سالہ مدت کے لیے وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری ہوںگے، یوں ان پانچ برسوں میں پہلے تین صوبائی بجٹ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی مخلوط صوبائی حکومت نے پیش کئے اور پھر دو صوبائی بجٹ نواب ثنا اللہ زہری کی وزرات ا علیٰ کے دور میں پیش کئے گئے اور اب تقریبا پانچ ماہ سے میر عبدالقدوس بزنجو صوبائی وزیر اعلیٰ ہیں۔

دوسرے بجٹ مالی سال 2014-15 ء کا حجم 2 کھرب 15 ارب روپے تھا جس میں خسارہ 15ارب 66 کروڑ تھا، تیسرے بجٹ مالی سال 2015-16 کا حجم 2 کھرب 43 ارب روپے تھا اور خسارہ 26 ارب روپے تھا، چوتھے بجٹ مالی سال 2016-17 ء کے مالی سال کا کل حجم 2 کھر ب 82 ارب روپے اورخسارہ 36 ارب 48 کروڑ روپے تھا۔ مالی سال 2017-18 ء کا پانچواں صوبائی بجٹ 3 کھرب 28 ارب روپے کا تھا جس کا خسارہ 52 ارب روپے تھا اور یہ بجٹ جو آئندہ مالی سال یعنی 2018-19 کا ہے جس کا آغاز یکم جولائی 2018 کو ہوگا اور اختتام 30 جون 2019 ء کو ہوگا۔ یہ وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کی صوبائی حکومت نے پیش کیا ہے۔

جس کا حجم 3 کھرب 52 ارب روپے اور خسارہ 61 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ یہ صوبائی بجٹ پروگرام کے مطابق 11 مئی 2018 ء کو صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جا نا تھا ہم سب اسمبلی پہنچے مگر عین وقت پر بجٹ اجلاس ملتوی کر دیا گیا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ بعض تکنیکی غلطیوں کے باعث یہ تاخیر کی جا رہی ہے جب کہ حزب اختلاف نے یہ الزامات عائد کئے کہ وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کی حکومت کے وزرا اور اراکین میں فنڈز کی تقسیم پر اختلافات ہیں، بہر حال یہ صوبائی بجٹ پھر 14 مئی 2018 ء کو پیش کیا گیا۔ یہ بجٹ صوبائی مشیر خزانہ برائے وزیر اعلیٰ محترمہ ڈاکڑ رقیہ سعید ہاشمی نے پیش کیا جس کی اجازت اسپیکر صوبائی اسمبلی محترمہ راحلیہ حمید درانی نے دی۔

اس بجٹ میں وفاقی بجٹ کی طرح سرکاری مالازمین کی تنخواہوں اور پینشنوں میں 10% اضافے کا اعلان کیا گیا اور مالی سال 2018-19 ء کے دوران 8000 نئی ملازمتیں فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس موقع پر اس بات کی خوشی ہوئی کہ متحرمہ رقیہ سعید ہا شمی نے یہ بتا یا کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے چیرمین،، متھ کیلاش ناتھ کوہلی،، جو نہایت اعلیٰ شہرت کے حامل ہیں ان کے عہدے کی مدت میں حکومت نے توسیع کردی ہے تاکہ آئندہ بھی ملازمتوں کے حصول میں میرٹ اور شفافیت کو برقرا ر رکھا جاسکے ۔ صوبائی حکومت نے تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے اور اس مد میں سب سے زیادہ رقوم مختص کی ہیں جو 43.9 ارب روپے ہیں۔ بلو چستان میں تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے لیے ہائی اسکولوں میں سے بہت سے ہائی اسکولوں کو ہائر سکینڈری اسکولوں کا درجہ دیا جا رہا ہے جبکہ تیس کالجوں میںاب چار سالہ بی ایس پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ اندرون بلوچستان کالجوں میں لیکچراز اور پروفیسروں کے لیے بیچلر لاجز 30 کالجوں میں تعمیر کیئے جائیں گے۔

100 سے زیادہ نئے اسکول تعمیر ہونگے اور اتنی ہی تعداد میں پرائمری اسکولوں کو مڈل اور مڈ ل کو ہائی کا درجہ دیا جائے گا ، بجٹ میں امن وامان کے لیے 34 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اور یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں کے لیے 12 ارب روپے کا اسلحہ خریدا جائے گا ، سی پیک منصوبوں کے لیے اسپیشل پروٹیکشن یونٹ پروگرام کے تحت ہزاروں نوجوانوں کو لیویز اور پولیس میں بھرتی کیا جائے گا ،کوئٹہ میں پینے کے پانی کی قلت کے لیے مانگی ڈیم کے علاوہ ایک بار پھر اس بجٹ میں بھی40 ارب روپے کی لاگت سے شروع کئے جانے والے اس منصوبے کی بات کی گئی ہے جس کے تحت کوئٹہ سے 230 کلو میٹر دور پٹ فیڈر نہر سے پانی کو ئٹہ شہر پہنچا یا جائے گا ، نوحصار ،کچلاک،قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ ،موسیٰ خیل اور قلات میں چھ ڈیمز کی تعمیر اور500 واٹر سپلائی اسکیموں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ، بجٹ میں محکمہ آبپاشی کے لیے 2.8 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ،گوادر میں پانی کی فراہمی کا وارٹ کے مقا م پرپلانٹ کی بحالی کے جاری کام کے لیے 8.3 ارب روپے بھی مختص کئے گئے ہیں۔

جرنلسٹ ویلفر فنڈکو 200 ملین روپے کرنے کے علاوہ کوئٹہ پریس کلب اور ہاکرز کے لیے بھی فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ ا س صوبائی بجٹ میں ثقافت اور سیاحت کے شعبے میں صوبائی سیکرٹری ظفر بلیدی کی کوششیں کامیاب رہیں جنہوں نے بلوچستان میں اس صوبے کی ثقافت اور سیاحت پر توجہ مبذول کراتے ہوئے غیر ترقیاتی مد میں 19.8 کروڑ روپے مختص کر وائے ہیں، اس وقت صوبے میں سیاحت کے فروغ کے 60 سے زائد تفریحی مقا مات کی نشاندہی کی گئی ہے، یوں مجموعی طور پر بلوچستان کا یہ صوبائی بجٹ مالی سال برائے 2018-19 ء ایک متوازن اور قدرے کم خسارے کا بجٹ ہے اور اس اعتبار سے اس صوبائی بجٹ کو عوام دوست بجٹ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس میں تعلیم، صحت، سماجی بہبود، ترقی نسواں کے لیے بھی گذشتہ مالی سالی کے مقابلے میں زیادہ رقوم ر کھی گئی ہیں۔

یہ بجٹ اس اعتبار سے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں حالیہ حکومت کا کو ئی زیادہ مفاد نظر نہیں آتا کیونکہ اس بجٹ میں سے کچھ حصے کو اب عام انتخابات سے قبل قائم ہونے والی نگران حکومت استعمال کرے گی اور باقی رقوم آئند ہ منتخب ہوکر آنے والی صوبائی حکومت استعمال کر سکے گی، وزیر اعلیٰ کی مشیر خزانہ محتر مہ رقیہ سعید ہاشمی نے اپنی بجٹ تقریرمیں ریکو ڈیک منصوبے کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ اس اعتبار سے صوبائی حکومت انٹر نیشنل آ بریٹری میں بھی جائے گی اور اپنے وسائل کے دفاع کی کوشش کرے گی۔ یوں یہ وہ کوششیں ہیں جن کا آغاز ڈاکٹر عبدالمالک نے کیا تھا، اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی حکومت اس سلسلے میں بلوچستان کی کتنی مدد کرتی ہے ۔

بلوچستان کے بارے میں یہ بھی پھر ایک مرتبہ کہا گیا کہ یہ صوبہ رقبے کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کا رقبہ ملک کے کل رقبے کا تقریبا 44% ہے اور اس صوبے کے پاس ملک کے کل ایک ہزار کلو میٹر ساحل میں 775 کلو میٹر طویل ساحل ہے۔ اس بار وفاقی سطح پر ملک کا 70 واں وفاقی بجٹ مالی سال 2018-19 ء پیش کیا گیا اور صوبائی سطح پر بلو چستان کا 38 واں صوبائی بجٹ تھا ، مگر بد قسمتی سے ملکی سطح پر بھی بجٹ خسارہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ تھا اور صوبائی سطح پر بھی خسارہ بڑھا ہے۔ اس بار ملک میں بجٹ کی آمد سے قبل روپے کی قدر میں بھی ماضی قریب کے مقابلے میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ہے اور امریکی ڈالر کی قیمت 119 روپے سے زیادہ ہو چکی ہے۔ یوں صوبائی سطح پر بھی قرضوں کا حجم اور بوجھ بڑھ گیا ہے۔

یہ تلخ حقیقت سامنے ہے کہ نہ تو تنخواہوں میں اضافے سے سر کاری ملازمین کی قوت خرید میں کوئی قابل ذکر اضافہ ہو گا اور نہ ہی غر بت کی موجودہ شرح تناسب اور شدت میں کوئی زیادہ کمی نظر آئے گی۔ یہ چونکہ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکو متوں کی جانب سے آخری بجٹ ہے اس لیے اب الیکشن میں جن عوامی مسائل کے حل کرنے کی بات ہوگی اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کو اپنا پروگرام دینا ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ 2008 ء سے 2018 ء کے دس برسوں میں سیاسی جماعتوں نے صوبائی خومختاری اور حقوق کے لحاظ سے اہم آئینی اور جمہوری کامیایاں حاصل کیں مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ صوبائی سطح پر 1972-73 ء کی پہلی عوامی منتخب صوبائی حکومت کے قیام سے اب تک رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کو بجٹ سازی میں مالیاتی مسائل کا سامنا رہتا ہے کبھی اسے وفاق کی جانب سے خصوصی پیکج دیکر بہلا یا جاتا ہے اور کبھی میگا پروجیکٹ کے طویل مدتی خواب دکھا ئے جاتے ہیں ۔ اس بجٹ میں صوبائی مشیر خزانہ نے یہ بھی بتا یا کہ صوبے کی آبادی میں نوجوانوں کی تعداد 15 لاکھ ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا پندرہ لاکھ آبادی کو اس وسیع رقبے اور وسائل سے مالا مال صوبے میں روز گار فراہم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ان انتخا بات میں ماضی کی طرح بڑا سوال ہو گا۔ اس لیے ابھی سے سیاسی جماعتوں کو حقائق کی بنیادوں پر مستقبل کے لیے لائحہ عمل اور انتخابی منشور دینا چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کی بیروزگاری اور غر بت کی شرح تو زیادہ ہے لیکن کم آ بادی کی وجہ سے اس کا حجم یا تعداد بہت کم ہے اور ایک بہتر اقتصا دی منصوبہ بندی سے ان مسائل کو مستقبل قریب میں آسانی سے چار پانچ سال کی مدت میں حل کیا جا سکتا ہے۔

The post بلوچستان اقتصادی اور مالیاتی مسائل کا شکار کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2sgOXGT
via IFTTT

عمران خان نے کہا، ’’مجھے اقتدار مکمل اختیارات کے ساتھ چاہیے‘‘ ضیاء مغل

0 comments
ملک کے سیاسی حلقوں کے لیے عمران اسماعیل کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ 2015ء کو متحدہ قومی موومنٹ کے گڑھ سمجھے والے حلقے این اے 246میں تحریک انصاف کی جانب سے کھڑنے ہونے والے امیدوار عمران اسماعیل اُن دنوں شہہ سُرخیوں میں رہے۔
اٹلی سے لیدر ٹیکنالوجی میں اعلٰی تعلیم حاصل کرنے والے عمران اسماعیل کا تعلق ایک صنعت کار گھرانے سے ہے۔ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل اور چیئرمین عمران خان کے میڈیا ایڈوائزر ہیں۔ آئندہ آنے والے انتخابات اور سندھ میں پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی لائحہ عمل جاننے کے لیے ان سے ایک ملاقات کا اہتمام کیا گیا، جس میں ہونے والی قارئین کی نذر ہے۔
ضیاٰٰء مغل : آپ نے اٹلی سے لیدر ٹیکنالوجی میں اعلٰی تعلیم حاصل کی، اچھا خاصا کاروبار ہونے کے باوجود سیاست کے خار دار راستے پر کیوں قدم رکھا؟
عمران اسماعیل: کاروبار تو زندگی کے لیے ضروری ہوتا ہے، لیکن ایسا کاروبار جس میں پھنس کر آپ ساری زندگی صرف پیسے بناتے رہیں تو یہ کام تو ہر کوئی کر رہا ہے۔ انسان بھی ایک سماجی جانور ہے لیکن اللہ نے انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ہے کہ وہ اپنی ذات سے نکل کر دوسروں کی فلاح کے لیے بھی کام کر سکے۔
میرا ہمیشہ سے یہی یقین تھا کہ ایسا کام کیا جاسکے جس سے پاکستان کو مثبت پہلو سامنے آسکے۔ آج ہماری نئی نسل تعلیم حاصل کرنے کے بعد یورپ، امریکا کا رخ کر رہی ہے، کیوں کہ یہاں ان کے لیے روزگار کے آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ہیں۔ میرا تعلق ایک صنعت کار گھرانے سے ہے۔ میں اللہ کے کرم سے بہت خوش حال زندگی گزار رہا تھا، اس کے باوجود میں نے عمران خان کے جذبے کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کے لیے اس پُرخار میدان میں قدم رکھا، میں نے سوچا کہ مجھے بھی اس ملک کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے اور مجھے یقین ہے کہ پاکستان کو تبدیل کرنے کے جس منزل کے لیے اپنا سیاسی سفر شروع کیا تھا، بائیس سال کی جدوجہد کے بعد ہم اس کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
ضیاٰٰء مغل : عملی سیاست اور عوامی جدوجہد کا یہ سفر کیسا رہا؟ سیاست میں آنے پر گھر والوں کی مخالفت یا حمایت کس حد تک رہی؟
عمران اسماعیل : میں1992ء سے خان صاحب کے ساتھ ہوں، شوکت خانم اسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ کی، خان صاحب نے تازہ تازہ ورلڈ کپ جیتا تھا، اُس وقت تک میرا سیاست کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ 1996ء میں جب خان صاحب نے پاکستان تحریک انصاف بنانے کا فیصلہ کیا تو میں نے اس فیصلے کی تائید کی اور مجھے فخر ہے کہ میں پی ٹی آئی بنانے والے چار اولین لوگوں میں سے ایک ہوں۔ گھر والوں نے میرے اس فیصلے کی بھرپور تائید کی کیوں کہ شوکت خانم اسپتال کے حوالے سے خان صاحب کا میرے گھر آنا جانا تھا، سب انہیں اچھی طرح جانتے تھے۔ والد صاحب نے بھی مجھے قومی دھارے کی سیاست میں جانے سے نہیں روکا بلکہ حوصلہ افزائی کی۔
ضیاٰٰء مغل : کاروباری اور سیاسی مصروفیات کے باوجود اہلیہ اور بچوں کے لیے وقت کس طرح نکالتے ہیں؟ یا گھر والوں نے اس پر سمجھوتا کرلیا ہے؟
عمران اسماعیل : تمام تر مصروفیات کے باوجود میری کوشش ہوتی ہے کہ چھٹی کے دن کوئی کام نہ رکھوں، کوئی ٹی وی شو نہ رکھوں، سیاسی سرگرمی نہ ہوں، اس کے باجود گھر والوں کے لیے وقت نکالنا مشکل ہوجاتا ہے، لیکن ان کو بھی اس بات کی عادت ہوگئی ہے۔
ضیاٰٰء مغل  : آپ نے اس وقت پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی جب وہ قومی دھارے میں ایک نئی جماعت تھی، کیا بات تھی جس نے آپ کو اس جماعت سے وابستہ ہونے پر آمادہ کیا؟
عمران اسماعیل: دیکھیں میں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار نہیں کی بل کہ میں پی ٹی آئی کے بانی ارکان میں سے ایک ہوں۔ میں نے ایک مشکل راستے کا انتخاب کیا ، میرے اپنے دوست بھی یہ بات کہتے ہیں۔ کچھ ایم کیو ایم کے دوستوں نے بھی مجھے مختلف آفرز کیں، لیکن میرے ذہن میں بس ایک چیز تھی کہ مجھے اس شخص کے پیچھے چلنا ہے جو کرپٹ نہ ہو، اپنی ذات سے بڑھ کر سوچے۔ میں نے عمران خان کو وہ شخص پایا ہے جو وہ اپنے نفع نقصان کا سوچے بنا عوام کے مفاد کے لیے کام کرتا ہے۔
انہوں نے ایسے کئی فیصلے کیے جس سے ہمیں لگا کہ خان صاحب کو سیاسی طور پر نقصان ہوگا، لیکن وہ نفع نقصان کی فکر کیے بنا نڈر ہوکر ایسے فیصلے کرتے ہیں۔ خان صاحب کی ایک سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس شخص کو پیسے کی ہوس نہیں ہے۔ تو ایسے شخص کے ساتھ چلنے میں، اس کے لیے جان مال، اپنا وقت قربان کرنے میں مزا آتا ہے، جو بے لوث ہو، جسے ملک و قوم کا خیال اپنے ذاتی مفاد سے زیادہ ہو۔ یہ خصوصیت مجھے اب تک صرف عمران خان میں نظر آئی ہے۔ آپ نوازشریف کو دیکھ لیں، ان کے ذاتی مفاد پر آنچ آئی تو انہیں قومی سلامتی کے ادارے بُرے لگنے لگے، پاک آرمی بُری لگنے لگی، عدلیہ بُری لگتی ہے، نیب کا ادارہ انہیں بُرا لگتا ہے۔ وہ اپنی ذات تک محدود ہیں۔
یہ شخص (عمران خان ) اپنی ذات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دن رات قوم کے لیے کام کرتا ہے۔ ہم نے نئے پاکستان کا خواب دیکھا ہے، یہ شخص اسے تکمیل تک لے جانا جانتا ہے، مجھے یقین ہے کہ اگر ایک بار اللہ نے عمران خان کو اقتدار دیا تو وہ پاکستان کو کرپشن سے پاک اور ترقی کی راہ پر گام زن کردے گا۔ 1997ء کے عام انتخابات میں نوازشریف نے ہمیں (انتخابی 36 نشستیں دینے کی پیش کش کی، خان صاحب نے اپنے قابل اعتماد ساتھیوں سے مشورہ کیا تو زیادہ تر کا مشورہ یہی تھا کہ ہمیں یہ پیش کش قبول کر لینی چاہیے، کیوں کہ اس سے ہمیں اقتدار میں آنے کا موقع ملے گا۔ لیکن خان صاحب کا کہنا یہی تھا کہ مجھے پھر ان کی مرضی پر چلنا ہوگا، مجھے اقتدار مکمل اختیارات کے ساتھ چاہیے۔ آج بھی لوگ کہتے ہیں کہ خان صاحب اگر یہ پیش کش قبول کرلیتے تو اب تک دو تین بار اقتدار میں آچکے ہوتے۔ عمران خان کو اللہ نے کیا نہیں دیا؟ عزت دولت شہرت، تو انہیں وزارت عظمی میں آکر ایسی کیا چیز مل جائے گی جو ابھی ان کے پاس نہیں ہے، لیکن وہ انہوں نے سب کچھ جانتے بوجھتے پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے سیاست میں قدم رکھا۔
ضیاٰٰء مغل : کیا سیاست میں آنے کے لیے آپ کے پاس پی ٹی آئی کی شکل میں ایک ہی آپشن تھا، کبھی کسی اور جماعت نے شمولیت کی دعوت دی؟
عمران اسماعیل: نوجوانی کے دور میں ہم لوگ کوکن گرائونڈ، ہل پارک گرائونڈ اور ناظم آباد میں کرکٹ کھیلتے تھے، وہاں اکثر ایک ولیز جیپ آتی تھی، جس میں الطاف حسین، ڈاکٹر عمران فاروق، عظیم احمد طارق، آفاق احمد اور دو چار دوسرے لوگ ہمارا میچ ختم ہونے کا انتظار کرتے ، جس کے بعد وہ ہمیں بتاتے کہ جی مہاجروں کے ساتھ زیادتی، ناانصافی ہو رہی ہے۔ اُردو اسپیکنگ ہونے کی وجہ سے ہمیں ان کے باتیں درست بھی لگتی تھیں،کیوں کہ اس وقت مہاجروں کے ساتھ زیادتی ہو تو رہی تھی، کالج یونیورسٹی جاتے ہوئے بس کنڈیکٹر بد معاشی کرتے تھے۔ رکشہ ٹیکسی والے بدمعاشی کرتے تھے۔
پولیس بد معاشی کرتی تھی، تو ہمیں ان کی باتوں میں ان مسائل کا حل تو نظر آتا تھا لیکن پتا نہیں کیوں میرا دل کبھی الطاف حسین کی باتوں پر مطمئن نہیں ہوا، اس کی بات پر یقین نہیں ہوا کبھی کہ جی یہ بندہ واقعی مخلص ہے۔ اگر پی ٹی آئی وجود میں نہ آتی تو میں سیاست میں بھی نہیں آتا، میرا ارادہ اپنے کاروبار کو بڑھانے کا تھا۔ آپ کو ایک بات اور بتائوں کے سیاسی اور نظریاتی اختلافات اپنی جگہ لیکن میرے زیادہ تر دوستوں کا تعلق بھی ایم کیو ایم سے ہی ہے۔ رضاہارون ، فیصل سبزواری، خواجہ اظہارالحسن اور حیدر عباس رضوی سے میری بڑی اچھی دوستی ہے، لیکن خوشی، غمی دوستی یاری میں ہم نے کبھی اپنی سیاست کو نہیں آنے دیا۔ اس بات پر میری اپنی پارٹی کے اندر ہی مجھ پر بہت تنقید ہوئی۔
میری تو پاکستان پیپلزپارٹی والوں سے بھی بہت دوستیاں ہیں، مسلم لیگ ن واحد جماعت ہے جس میں میری کسی سے کوئی دوستی نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے کوئی اس قابل نہیں کہ اس سے دوستی کی جاسکے، پارٹی کو ایک طرف رکھ دیں تب بھی میں ان سے بات بھی نہیں کرنا چاہتا۔ میری سمجھ میں تو یہ بات نہیں آتی کہ آخر یہ لوگ ٹی وی پر آکر اتنی گندی زبان کیسے استعمال کر لیتے ہیں؟ میں ان سب باتوں کا بہت خیال کرتا ہوں، اگر ٹی وی پر میری کسی سے لڑائی بھی ہوجائے تو میری بیٹی، بیٹا مجھ سے ناراض ہوتے ہیں کہ بابا آپ کیوں اتنا غصہ کر رہے ہیں، مجھے تو غصہ کرنے میں بھی ہچکچاہٹ ہوتی ہے۔ یہ لوگ پتا نہیں کس طرح واہیات باتیں کرلیتے ہیں یا پھر انہیں اس بات کی پروا ہی نہیں ہے کہ ان کے گھر والے کیا سوچیں گے، ان کے لیے سب کچھ صرف نوازشریف ہے۔
ضیاٰٰء مغل : پاکستان تحریک انصاف موروثی سیاست کے خاتمے کی بات کرتی ہے لیکن این اے 154 کے ضمنی الیکشن میں جہانگیر ترین کے سیاست میں نو وارد بیٹے علی خان ترین کو ٹکٹ دے دیا گیا،کیا پی ٹی آئی کے پاس کوئی دوسرا موزوں امیدوار نہیں تھا ؟
عمران اسماعیل: سب سے پہلے تو آپ کو یہ بات واضح کرنی ہوگی کہ موروثی سیاست کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر نے قیادت سنبھالی، اس کے بعد آصف زرداری اور اب قیادت بلاول بھٹو کے ہاتھ میں ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ ن میں دیکھ لیں کہ نوازشریف مریم نواز کو سامنے لے آئے ہیں، اسی طرح ان کی جماعتوں کی قیادت ان کے بچوں کے پاس ہی آئے گی۔ انہیں آپ دور جدید کے شہنشاہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو کی تاج پوشی سولہ برس کی عمر میں ہوئی اور جنہوں نے انہیں گود میں کھلایا وہ آج بھی بلاول کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔
یہ لوگ کبھی پارٹی چیئرمین بننے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اسی طرح مریم نواز کے سامنے سارے ن لیگی راہ نما غلاموں کی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ میں تمام تر اختلافات کے باوجود چوہدری نثار کی اس بات کی تعریف کرتا ہوں، کہ انہوں نے اپنے سامنے کی بچی کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کردیا اور ہر باغیرت آدمی کو یہی کرنا چاہیے۔ اگر عمران خان اپنے بیٹوں کو پارٹی چیئر مین بنادیں تو میں ان کی ماتحتی میں کام نہیں کروں گا، ہاں اگر کوئی اپنی محنت کی بنیاد پر آگے آتا ہے تو مجھے اس کوئی اعتراض نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی، اسد عمر یا جہانگیر ترین میرے بہت بعد میں تحریک انصاف میں آئے لیکن آج اگر یہ پارٹی عہدے میں مجھ سے آگے ہیں تو مجھے اس پر کوئی تکلیف نہیں ہے کیوں کہ انہوں نے یہ مقام خود اپنی محنت سے حاصل کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف میں ایسا ہرگز نہیں ہے عمران خان نے اپنے خاندان کے کسی ایک فرد کو بھی پارٹی میں نہیں آنے دیا۔ وہ تو اسے شوکت خانم اسپتال کی طرح ایک انسٹی ٹیوشن بنانا چاہتے ہیں۔ اب شوکت خانم اسپتال کو عمران خان کی ضرورت نہیں ہے، اب وہ ایک خود مختار ادارہ بن گیا ہے۔ اسی طرح وہ پارٹی کو اس طرز پر لانا چاہتے ہیں جس میں ہر کسی کو اپنی قابلیت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا موقع ملے۔ جہاں تک این اے 154 کے ضمنی الیکشن کی بات ہے تو اس حلقے میں ہمارے پاس اعلٰی ترین سے زیادہ موزوں امیدوار کوئی تھا ہی نہیں۔ اور اگر ہوتا تو یقیناً علی ترین کی جگہ وہ انتخابات لڑتا۔
ضیاٰٰء مغل : عمران خان نے تبدیلی کے نعرے کے ساتھ قومی سیاست کا آغاز کیا، لیکن دیکھا جائے تو تبدیلی تو آپ کی صفوں میں بھی نظر نہیں آتی ، کیوں کہ ہر جماعت سے نکالا ہوا اور عوام کا آزمایا ہوا سیاست داں پی ٹی آئی میں نظر آتا ہے، اس بارے میں کیا کہیں گے۔

عمران اسماعیل: بہت سے سیاست داں اپنی جماعت چھوڑ کر ہمارے پاس آرہے ہیں، کچھ لوگ نظریات سے متاثر ہو کر آرہے ہیں، بہت سے لوگ اس لیے آرہے ہیں کہ انہیں پی ٹی آئی اقتدار میں آتی نظر آرہی ہے۔ جو لوگ پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں ان میں اچھے بُرے ہر طرح کے لوگ ہوں گے۔ اگر ٹاپ پوزیشن پر  بیٹھا بندہ چوری نہیں کرتا، کرپشن نہیں کرتا تو اس کے ماتحت عملے میں بھی کرپشن نہیں ہوگی، ہم نے کے پی کے میں سو فی صد نہیں تو اسی نوے فی صد تو تعلیم، پولیس اور صحت کے نظام میں بہتری کی ہے۔ جب عمران خان وزیراعظم کی نشست پر بیٹھے گا تو یہ لوگ کرپشن نہیں کر پائیں گے، بات ساری صرف نظام کی ہے یورپ ، امریکا میں سارے سیاست داں شریف نہیں ہوں گے لیکن ان کا سسٹم اتنا سخت ہے کہ وہ انہیں کرپشن ، لوٹ مار کا موقع ہی نہیں دیتا۔ جب خان صاحب کے بنائے ہوئے سسٹم پر عمل ہوگا تو کوئی ایک روپے کی کرپشن نہیں کر سکے گا۔ جو ایمان دار ہوگا وہی ہمارے ساتھ چل سکے گا۔
ضیاٰٰء مغل  : لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ہے کہ پی ٹی آئی اگر انہی آزمائے ہوئے سیاست دانوں کو اگلے الیکشن میں ٹکٹ دیتی ہے تو اس سے تبدیلی کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟
عمران اسماعیل: مجھے پتا ہو کہ پی ٹی آئی سندھ کا وزیر اعلٰی کرپٹ ہے، پیسے کھاتا ہے تب تو آپ مجھے رشوت کی پیش کش کریں گے اور میں رشوت لوں گا بھی، کیوں کہ مجھے پتا ہے کہ میرے اوپر بیٹھا شخص رشوت کھا رہا ہے، لیکن جب مجھے پتا ہوگا کہ میرا وزیراعلیٰ کرپٹ نہیں ہے اور میں اس کے پاس رشوت کی پیش کش لے کر گیا تو وہ مجھے بھی جیل میں ڈالے گا اور دوسروں کو بھی تو میں چاہتے ہوئے بھی غلط کام نہیں کرسکوں گا۔ پی ٹی آئی میں کرپشن کی کوئی گنجائش نہیں ہے چاہے وہ عمران خان ہی کیوں نہ ہوں۔
اس کی سب سے بڑی زندہ مثال تو یہی ہے کہ ہم نے سینیٹ الیکشن میں پیسے لینے والے بیس ایم پی ایز کو ایک منٹ میں نکال باہر کیا، پارٹی میں اس بات کی زیادہ تر لوگوں نے مخالفت کی ، ان کا کہنا تھا کہ خان صاحب ہم نے بیس ایم پی ایز نکال دیے تو اسمبلی میں ہماری طاقت کم ہوجائے گی، یہ سیاسی خودکشی ہے، جس پر خان صاحب نے کہا کہ حکومت جاتی ہے تو جائے لیکن ہم کرپشن کا ساتھ نہیں دیں گے۔ جس دن سینیٹ الیکشن ہوئے اسی دن خان صاحب کراچی آئے ، میں گاڑی چلا رہا تھا خان صاحب نے گاڑی میں بیٹھتے ہی کہا کہ ہماری پارٹی کے سترہ لوگ بکے ہیں، میں نے پریشان ہوکر پیچھے مڑ کر دیکھا کہ گاڑی میں کون کون بیٹھا ہے جس نے یہ بات سنی، مڑ کر دیکھا تو پچھلی نشست پر عارف علوی، شاہ محمود قریشی اور علی زیدی بیٹھے ہوئے تھے، میں دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ چلو کوئی ایسا نہیں ہے جس سے یہ بات باہر جائے گی۔ میں نے خان صاحب سے کہا کہ آپ کھلے عام یہ بات نہ کریں میڈیا کو بھنک پڑگئی تو مسئلہ ہوجائے گا، ہم پہلے اس مسئلے کی انٹرنل انکوائری کرتے ہیں۔
جب ہم ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو خان صاحب نے میڈیا سے بات کرنے کے لیے گاڑی رکوائی، میں خان صاحب کے ساتھ ہی تھا، انہوں نے میڈیا سے گفت گو میں کہا،’’سینیٹ کے انتخابات میں اربوں روپے چلے ہیں اور ہماری پارٹی کے بھی سترہ سے بیس لوگ بکے ہیں، جن کی میں فہرست بنا رہا ہوں۔‘‘ میں خان صاحب کی شکل دیکھتا رہ گیا، گاڑی میں بیٹھتے ہی خان صاحب نے ہنستے ہوئے مجھے دیکھا اور کہا، اب ٹھیک ہے؟ اب تو بات باہر نہیں جائے گی؟
پارٹی اجلاس میں جب اس مسئلے پر بات ہوئی تو خان صاحب نے کہا کہ میرے پاس اس بات کے شواہد ہیں اور میں تین دن سے سویا نہیں ہوں کہ میری جماعت میں کرپٹ لوگ بیٹھے ہیں، اور میں صرف اس لیے انہیں نہ نکالوں کہ ہماری حکومت کم زور ہوجائے گی تو یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ اور اگلے دن ہی انہوں نے پریس کانفرنس میں ان ارکان اسمبلی کو پارٹی سے باہر نکال دیا۔ یہی سب اقتدار میں آنے کے بعد بھی ہوگا، اور اگر کوئی یہ سوچ کر آرہا ہے کہ وہ اس جماعت کے اقتدار میں آنے کے بعد پیسے بنالے گا تو میں اس کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں کہ بھائی جان بھاگ جائو، یہ وہ جماعت نہیں ہے، کیوں کہ یہ جو شخص جس کا نام عمران خان ہے یہ ایک پیسے کی کرپشن نہیں کرنے دے گا۔ یہ خود اپنا احتساب بھی کرتے ہیں، اور ہر سیاسی سرگرمی کے بعد ہم اس کا تجزیہ بھی کرتے ہیں کہ ہماری خامی کیا تھی، طاقت کیا تھی، اور آپ یقین نہیں کریں گے کہ کور کمیٹی کے اجلاس میںہم خان صاحب کے فیصلوں کو بلاجھجک چیلینج بھی کرتے ہیں۔ دیگر جماعتوں کے برعکس ہماری جماعت میں زیادہ جمہوریت ہے۔
ضیاٰٰء مغل  : معراج محمد خان اور جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین صدیقی جیسے ایمان دار لوگ پی ٹی آئی میں وہ مقام کیوں حاصل نہیں کرسکے جس کے وہ حق دار تھے؟
عمران اسماعیل: معراج محمد خان صاحب اور جسٹس وجیہہ کی ایمان داری، اور بے داغ سیاسی کیریئر پر کوئی شک نہیں کیا جاسکتا۔ معراج محمد خان صاحب ہماری جماعت کے جنرل سیکریٹری رہے۔ وہ ایک سوشلسٹ ذہن کے آدمی تھے اور اپنے ان نظریات کو پی ٹی آئی کی پالیسی میں لانا چارہے تھے، لیکن سوشل ازم ہماری پالیسی میں کہیں فٹ نہیں ہو رہا تھا۔ اس سے وہ تھوڑا بد دل ہوئے ورنہ انہیں خان صاحب اور پارٹی پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ جسٹس وجہیہ الدین صدیقی بہت قابل قدر آدمی ہیں، پارٹی نے انہیں بہت عزت دی ، لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ انہوں نے یک طرفہ فیصلہ کرتے ہوئے پوری پارٹی کو فارغ کردیا۔ ہم نے انہیں مصالحت کار بنایا تھا۔ انہوں نے عمران خان اور کسی دوسرے راہ نما سے مشورہ کیے بنا ایسا فیصلہ دیا ۔
جس سے پارٹی کے وجود کو بچانا مشکل ہوگیا تھا، لیکن ہم نے پھر بھی ان کے فیصلے کو مانتے ہوئے اپنی جماعت ڈس مینٹل کردی، کور کمیٹی توڑ دی، سارے عہدے ختم کردیے۔ لیکن پارٹی تو چلانی تھی اس کے لیے ہم نے ایک ایڈہاک باڈی بنائی کہ جب تک پارٹی کے اندرونی انتخابات نہیں ہوتے تب تک یہ ایڈہاک باڈی پارٹی کے معاملات دیکھے گی ۔ لیکن جسٹس صاحب نے پہلے اس باڈی سے استعفی دیا، پھر اپنے پارٹی عہدے سے بھی مستعفی بھی ہوگئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کا فیصلہ ذرا زیادہ سخت اور متعصبانہ تھا۔ وہ خود ناراض ہوکر گئے ہمارے دروازے ان کے لیے ہمیشہ کھلے ہیں یہ جسٹس وجیہہ صاحب کی پارٹی ہے وہ جب چاہیں آئیں۔ خان صاحب نے ان کے تحفظات دور کرنے کی بھی بہت کوشش کی لیکن وہ مانے ہی نہیں۔
ضیاٰٰء مغل  : کہا جاتا ہے کہ چند مخصوص افراد نے پی ٹی آئی کو یرغمال بنا رکھا ہے اور خان صاحب ان کے مشوروں کے مطابق سیاست کررہے ہیں، کیا ایسا ہی ہے؟
عمران اسماعیل : جی! اور ان مخصوص افراد کی فہرست میں مجھے بھی شامل کیا جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ایک ہی گھر میں باپ کو بھی چار بیٹوں میں سے کسی ایک پر زیادہ بھروسا ہوتا ہے ، وہ اس کے مشوروں کو زیادہ وزن دیتا ہے۔ تو ایسا ہی کچھ معاملہ یہاں ہے، خاں صاحب کو بھی دوسروں کی بہ نسبت اپنے چار پانچ قریبی لوگوں پر زیادہ بھروسا ہے۔ اس میں اسد عمر ہیں، شاہ محمود قریشی، عامر کیانی، جہانگیر ترین ہیں اور وہ ان کے مشوروں کو زیادہ وزن دیتے ہیں۔
ضیاٰٰء مغل : سینیٹ انتخابات میں آپ کے اور پاک سرزمین پارٹی کے مابین رابطوں کے بعد آپ ان کی حمایت حاصل کرنے میں کام یاب رہے۔ کیا اس بار عام انتخابات میں اس جماعت سے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے؟
عمران اسماعیل : ہمارے دروازے ماسوائے مسلم لیگ ن سب جماعتوں کے لیے کُھلے ہیں۔ ہم آئندہ انتخابات میں پاک سرزمین پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر سکتے ہیں، لیکن یہ بات واضح کردوں کہ پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان بلے کے ساتھ الیکشن لڑے گی، ہم اتحاد نہیں صرف ایڈجسٹمنٹ کرسکتے ہیں۔
ضیاٰٰء مغل  : آپ سمجھتے ہیں کہ اگر بلاول تنظیم کو مکمل طور پر اختیار کے ساتھ چلائیں تو وہ اپنے نانا اور بانی پی پی پی ذوالفقار علی بھٹو کے عوامی خدمت کے مشن کو پورا کرسکتے ہیں یا پی پی پی اب کبھی عوامی جماعت نہیں بن سکتی؟
عمران اسماعیل : دیکھیں یہ بات تو آپ کنفرم کرلیں کہ اب پاکستان پیپلز پارٹی کا نظریہ وہ نہیں رہا جو ذوالفقار علی بھٹو کا تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ اب کبھی عوامی جماعت بن سکے گی۔ اب قوم بھٹو کا قرض اتار اتار کر تھک گئی ہے۔ پہلے لوگوں کے پاس کوئی متبادل نہیں تھا، اب لوگوں کے پاس پی ٹی آئی کی شکل میں ایک بہتر متبادل ہے۔
ضیاٰٰء مغل : اندرون سندھ کئی اہم شخصیات آپ کی پارٹی کا حصہ بنی ہیں اور چند اہم اور بڑے جلسے بھی منعقد کیے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سندھ پر برسوں سے راج کرنے والی پی پی پی کو اس بار الیکشن میں آپ کی وجہ سے سخت مقابلہ کرنا پڑے گا؟
عمران اسماعیل: انتخابات 2018 میں ہم پاکستان پیپلز پارٹی کو سرپرائز دیں گے، اور اگلے ایک ہفتے میں پی پی پی کے بڑے بڑے نام، جن پر یہ جماعت بڑی اچھل کود کرتی ہے ان کی پی ٹی آئی میں شمولیت ہوگی۔ ہماری اُن سے روزانہ کی بنیاد پر میٹنگز ہورہی ہیں۔ ذوالفقار مرزا کی پوری فیملی ہمارے رابطے میں ہے، ہم نے انہیں پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دی ہے اب فیصلہ انہیں کرنا ہے۔
ضیاٰٰء مغل : سندھ میں ملک کے دیگر حصوں کی نسبت پی ٹی آئی کو زیادہ مقبولیت کیوں حاصل نہیں ہوسکی؟ کہا جاتا ہے کہ اس کی ایک وجہ سندھ کے مختلف اضلاع میں پارٹی اختلافات ہیں اور دوسرا یہ کہ آپ کی قیادت نے سندھ میں پارٹی سرگرمیوں کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں رکھا؟
عمران اسماعیل: گذشتہ انتخابات میں ہم نے کراچی میں تو ایم کیو ایم کو لپیٹ دیا تھا، ہاں اندرون سندھ ہمارے پاس امیدواروں کی کمی تھی، ہم اتنی محنت نہیں کرسکے جتنی ہمیں کرنی چاہیے تھی۔ شاید ہم لوگوں کو کنوینس کرنے میں ناکام رہے۔ جہاں تک بات ہے اندرونی اختلافات کی تو وہ ہر جمہوری جماعت میں ہوتے ہیں۔ اس کے دو ہی طریقے ہیں کہ یا تو الطاف حسین کی طرح اختلاف کرنے والے کو اوپر بھیج دیا جائے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مہذب انسانوں کی طرح معاملات کو حل کیا جائے۔
ضیاٰٰء مغل  : کیا آپ کو لگتا ہے کہ حکومتِ سندھ کی کارکردگی سے ناخوش اندرون سندھ کے عوام اس بار تبدیلی کا ساتھ دیں گے؟
عمران اسماعیل : سندھ کے عوام پی پی پی سے متنفر ہیں، ڈائن بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے لیکن انہوں نے اپنے ہی علاقے لاڑکانہ کو نہیں چھوڑا، اربوں روپے کھا گئے، نہ تعلیم کا نظام بہتر کیا، نہ پانی فراہم کیا، آج بھی سندھ کے بیشتر شہروں میں سیوریج اور نکاسی آب کا باقاعدہ نظام موجود نہیں ہیں اور ہمیں امید ہے کہ اندرون سندھ کے عوام اس بار تبدیلی کا ساتھ دیں گے۔
ضیاٰٰء مغل  : آپ کی جماعت کو سندھ خصوصاً کراچی میں بہت سی حریف جماعتوں کا سامنا ہے، لیکن آپ اور آپ کی اعلٰی قیادت زیادہ تر صرف ایم کیو ایم کو ہی تنقید کا نشانہ بناتی ہے، اس کی وجہ؟
عمران اسماعیل : کراچی میں الطاف حسین کی ایم کیو ایم نے پچھلے تیس سال حکومت کی اور ان تیس سالوں میں انہوں کراچی کو لاشوں، بھتا خوری، چوری چکاری، اغوا اور دہشت کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ مہاجروں کے نام پر سیاست کی اور مہاجروں کو ہی سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ کوٹا سسٹم جس کی بنیاد پر ایم کیو ایم بنائی وہ تک ختم نہیں کرا سکے۔ آج تک اس مسئلے پر اسمبلی میں بات نہیں کی۔ تو جس جماعت نے کراچی پر تین دہائی تک حکومت کی، کراچی پر سیاسی قبضہ کیا، کراچی کو تباہ کیا تو پھر تنقید بھی تو اسی جماعت پر کی جائے گی۔
ضیاٰٰء مغل  : عمران خان نے کراچی کے لیے اپنے دس نکاتی ایجنڈے میں میئر کراچی کی تقرری کو سر فہرست رکھتے ہوئے کہا کہ ہم اقتدار میں آنے کے بعد میئر کراچی کے براہ راست انتخاب کا طریقہ لائیں گے اور انہیں درکار تمام وسائل اور اختیارات دیں گے، لیکن موجودہ میئر کراچی کے اختیارات کے حوالے سے آپ نے اسمبلی میں کوئی آواز نہیں اٹھائی؟
عمران اسماعیل : یہ تاثر بلکل غلط ہے کہ ہم نے میئر کراچی کے اختیارات کے لیے بات نہیں کی۔ خرم شیر زمان نے اس مسئلے پر اسمبلی میں قرارداد پیش کی۔ ہماری جماعت کے منتخب نمائندوں نے میئر کراچی کے ساتھ سڑکوں پر مظاہرہ کیا، کیوں کہ ہم نے بلدیاتی انتخابات سے پہلے یہ وعدہ کیا تھا کہ میئر کا تعلق چاہے کسی بھی جماعت سے ہو، ہم کراچی کے مسائل کے حل کے لیے اس کا ساتھ دیں گے، میئر کے اختیارات اور فنڈ دلانے کے ہر ممکن سپورٹ کریں گے، کیوں کہ وسائل اور اختیارات کے بغیر تو کوئی بھی شخص کچھ نہیں کرسکتا۔
ضیاٰٰء مغل  : کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو پی ٹی آئی میں لانے میں آپ نے اہم کردار ادا کیا۔ اس حوالے سے پارٹی صفوں میں مخالفت بھی کی گئی۔ کیا یہ درست ہے؟
عمران اسماعیل : جی یہ بات بالکل درست ہے، عامر لیاقت کی پی ٹی آئی میں شمولیت میں میں نے اہم کردار ادا کیا اور اس میں مجھے اپنی جماعت کے کچھ لوگوں کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا، لیکن پارٹی اجلاس میں باہمی مشاورت کے بعد ہی انہیں پارٹی میں لایا گیا۔
ضیاٰٰء مغل  : اگر آپ نے عامر لیاقت کو کسی نشست پر ٹکٹ دیا تو کیا آپ کو یہ لگتا ہے کہ کراچی میں اس نشست پر پی ٹی آئی کو یقینی کام یابی ملے گی؟
عمران اسماعیل : ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی مقبولیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لوگوں کی بڑی تعداد انہیں پسند کرتی ہے۔ اور اگر ڈاکٹرعامر انتخابات میں حصہ لینا چاہیں تو ہم انہیں ضرور ٹکٹ دیں گے۔ اب تو کراچی سب جماعتوں کے لیے کُھلا ہوا ہے۔ تیس برس بعد یہ پہلے الیکشن ہوں گے جس میں کراچی کے عوام کسی جبر، دہشت کے بغیر اپنی مرضی سے اپنے نمائندے منتخب کریں گے۔ ہماری خواہش تو یہی ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس حلقے سے انتخابات میں حصہ لیں جہاں کسی
زمانے میں متحدہ قومی موومنٹ کی اکثریت ہوتی تھی، اب یہ ان کی صوابدید پر ہے۔
ضیاٰٰء مغل  : نوازشریف کے حالیہ انٹرویو کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟
عمران اسماعیل: اس سارے معاملے کو ڈان لیکس کے تناظر میں دیکھیں تو سارا کھیل سمجھ میں آجائے گا، یہ کام سوچی سمجھی سازش کے تحت ہورہا ہے ۔ وہی اخبار، وہی رپورٹر اور وہی کہانی۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ جو زبان جو اسرائیل ، بھارت پاکستان کے لیے استعمال کرتا ہے وہی زبان نوازشریف بولتا ہے۔
یہ ایک بین الاقوامی اسکرپٹ ہے۔ نوازشریف کے حالیہ بیان نے کشمیر کی تحریک اور دنیا بھر میں پاکستان کے امیج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جب آپ (نواز شریف) اقوام متحدہ میں تقریر کرنے جاتے ہیں تو کلبھوشن کا ذکر کرنا بھول جاتے ہیں، لیکن دس سال پہلے ہونے والے ممبئی حملے یاد رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پاک آرمی دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑ رہی ہے، اور آپ دنیا بھر میں اس کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ آپ پاکستان کے ساتھ ہیں یا بھارت کے؟ نوازشریف کا یہ بیان پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں پر بین الاقوامی دبائو ڈلوانے اور امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ انہیں اچھی طرح پتا ہے کہ جیل ان کا مقدر ہے اور اب یہ کسی نہ کسی طرح سیاسی شہید ہونا چاہ رہے ہیں۔
ضیاٰٰء مغل  : پاکستان تحریک انصاف خود کو متوسط طبقے کی جماعت کہتی ہے ، لیکن آئندہ انتخابات میں قومی اسمبلی کے ٹکٹ کی قیمت ایک لاکھ اور صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ کی قیمت پچاس ہزار روپے رکھی گئی ہے، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس طرح آپ نے ٹکٹ کو عام آدمی کی پہنچ سے دور کردیا ہے؟ جب کہ کراچی میں آپ کی حریف جماعت متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) انتخابی ٹکٹ کے لیے کوئی مالی شرط عائد نہیں کرتی۔
عمران اسماعیل : نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے، کیوں کہ ہم ٹکٹ کی مد میں جو رقم لے رہے ہیں وہ اسی امیدوار کی انتخابی مہم پر ہی خرچ کی جائے گی۔ اور اس میں کوئی برائی نہیں ہے، کیوں کہ ایک ایسی جماعت جس کے وسائل محدود ہوں اس کے لیے سب سے بہتر طریقہ یہی ہے۔ ایم کیو ایم اپنے امیدواروں سے انتخابی ٹکٹ کی مد میں رقم اس لیے نہیں لیتی تھی کہ وہ بھتے، اغوا برائے تاوان سے حاصل ہونے ولی رقم یہاں خرچ کر دیتی تھی۔
ضیاٰٰء مغل : کن موضوعات پر کتابیں پڑھنا پسند ہیں۔ پسندیدہ شاعر؟ پسندیدہ ادیب؟
عمران اسماعیل : تاریخ ، سیاست اور شاعری کی کتابیں پڑھنا بہت پسند ہے، مرزا غالب، پروین شاکر، حبیب جالب، فیض احمد فیض اور احمد فراز بہت پسند ہیں۔
ضیاٰٰء مغل : گلوکار کون سا اچھا لگا؟ اداکار؟ اداکارہ؟ فلم جو پسند آئی؟
عمران اسماعیل : اگر وقت مل جائے تو فلمیں دیکھ لیتا ہوں، قوالی غزلیں، اور کلاسیکل موسیقی بہت پسند ہے۔ جگجیت سنگھ اور مہدی حسن پسندیدہ غزل گائیک ہیں۔ امجد صابری شہید کی قوالیاں مجھے بہت پسند تھیں۔ اور اکثر ایسا ہوتا تھا کہ امجد صابری کے ساتھ علی زیدی بھی قوالی گاتے تھے، علی زیدی بھی بہت اچھے قوالی گاتے ہیں۔
نہاری کھلانے کی سزا!
این اے 246 کی انتخابی مہم سے جُڑا ایک واقعہ
جب میں کراچی کے حلقے این اے 246 امیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہوا تو اس وقت وہاں بہت دہشت تھی۔ وہ الیکشن بہت ٹینشن میں گزرا۔ اس وقت جب لوگ الطاف حسین کا نام لینے سے ڈرتے تھے تو اس دور میں اس کے علاقے میں، محلے میں جا کر الیکشن لڑنا اسے چیلینج کرنے کے مترادف تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ یہاں سے جیتنا مشکل ہے ۔ اس وقت سارے ایم کیو ایم والے یہ سوچتے تھے کہ یا تو یہ آدمی پاگل ہے یا پھر اس کے پیچھے کوئی سازش ہے جو ہمارے گڑھ میں الیکشن لڑ رہا ہے۔ الطاف حسین کو تو ہر بات میں سازش کی بو آتی تھی۔
اس نے پورے کراچی اور حیدرآباد سے اپنے کارکنان کو بھر کر اس حلقے میں پہنچا دیا تھا، یہ الیکشن اس کے لیے زندگی و موت کا سوال بن گیا تھا۔ آپ یقین نہیں کریں گے کہ خوف کی وجہ سے کوئی ہمیں پینے کا پانی تک نہیں دیتا تھا۔ کراچی میں پہلی بار اگر ایم کیو ایم نے الیکشن کمپین کی ہے تو وہ این اے 246میں کی ہے۔ میں آ پ کو ایک دل چسپ واقعہ سناتا ہوں، میں ایک دن لیاقت آباد دس نمبر پر اپنے انتخابی کیمپ میں بیٹھا ہوا تھا، اس علاقے میں بہت تنائو تھا بس یوں سمجھیں کہ ایک تیلی دکھانے کی دیر تھی۔ کچھ دیر گذری کہ حیدر عباس رضوی ہمارے کیمپ میں آکر بیٹھ گئے اور کہنے لگے یار عمران، چائے پلائو۔ تو میں نے ان سے کہا کہ ہمارے پاس پینے تک کا پانی نہیں اور آپ چائے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ بات سُن کر حیدر عباس رضوی میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے کیمپ میں لے گئے۔
جب میں وہاں پہنچا تو ایک صاحب اور بیٹھے تھے، حیدر بھائی نے مجھ سے پوچھا، آ پ ان کو جانتے ہیں؟ میں نے کہا، نہیں تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہ جاوید نہاری والے ہیں۔ اس کے بعد وہ صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ بھائی آپ تو نہاری کھا کر چلے گئے، لیکن اس دن سے آج تک میری ڈیوٹی یہاں لگی ہوئی ہے اور میں ابھی تک اپنی دکان واپس نہیں گیا۔ ایک دن میں نے جلسے میں اعلان کیا کہ پیر کو دوبارہ جاوید نہاری کھانے جائوں گا۔ جب میں پیر کے روز وہاں پہنچا تو دکان بند تھی شٹر پر ایک بڑا سا بینر لٹکا ہوا تھا جس پر درج تھا، ’جاوید بھائی کی بھابھی کے انتقال کی وجہ سے آج دکان بند رہے گی۔‘
میں نے لڑکوں سے کہا کہ چلو ان کی بھابھی کی تعزیت کے لیے جاوید بھائی کے گھر چلتے ہیں لیکن لوگوں نے کہا کہ نہیں نہیں بہت ٹینشن ہوجائے گی۔ واپس اپنے کیمپ پہنچا تو مجھے کسی نے بتایا کہ سر ان کی بھابھی کا انتقال تو دو ماہ پہلے ہوا تھا اور انہوں نے صرف آج آپ کی وجہ سے اپنی دکان بند کی ہے۔ انہیں میرے نہاری کھانے سے کوئی ایشو نہیں تھا بات صرف یہ تھی وہ نائن زیرو کے علاقے میں آکر کھانے کو اپنے لیے چیلینج تصور کرتے تھے۔
عمران خان نے کہا، ’’مجھے اقتدار مکمل اختیارات کے ساتھ چاہیے‘‘



پلوٹو کا ’جانشین‘ دریافت ہونے کے امکانات قویFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

2006ء تک نظام شمسی سورج سمیت دس اجرام فلکی پر مشتمل تھا۔ نظام شمسی کے اراکین میں سورج کے علاوہ نو سیارے عطارد، زہرہ، زمین، مریخ، مشتری، زحل، یورینس، نیپچون اور پلوٹو شامل تھے۔

بارہ سال قبل سائنس داں برادری نے ’ سیارے‘ کی نئی تعریف متعین کی۔ نظام شمسی کا بعید ترین سیارہ پلوٹو تعریف پر پورا نہ اترسکا اور اسے اس نظام سے نکال باہر کردیا گیا۔ نئی تعریف کے مطابق سیارہ ایک فلکیاتی جسم ہے جو سورج کے گرد اپنے ایک مخصوص مدار میں گھومتا ہے۔ اس کی ایک مناسب کمیت اور اپنی کششِ ثقل ہوتی ہے اور اس کی شکل و صورت تقریباً کروی ہوتی ہے۔ سیارے کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ دوسرے قریبی سیاروں کے مداروں میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ پلوٹو آخری شرط پر پورا نہیں اترتا تھا۔ چناں چہ اس سے سیارے کا درجہ واپس لے کر ’ بونا سیارہ‘ ( dwarf planet) کے زمرے میں دھکیل دیا گیا۔

نظام شمسی کے اندر اور باہر اسرارِ کائنات سے پردہ اٹھانے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ انھی کوششوں کے دوران دو سال قبل ماہرین فلکیات نے پلوٹو سے بھی پرے ایک فلکیاتی جسم کا سراغ لگایا تھا۔ تاہم وہ اس بارے میں پُریقین نہیں تھے کہ آیا یہ سیارہ ہے یا خلا میں تیرتا کوئی اور جرم فلکی۔ اس دریافت سے سائنس دانوں کو پلوٹو کے اخراج سے خالی ہونے والی جگہ پُر ہونے کی امید ہوچلی تھی اسی لیے اس پُراسرار جرم فلکی کی حقیقت جاننے پر خصوصی توجہ دی جارہی تھی۔

اس پُراسرار جرم فلکی کے بارے میں سائنس دانوں نے مزید معلومات حاصل کی ہیں جس کے بعد نظام شمسی میں نویں سیارے کی موجودگی کا نظریہ قوی ہوگیا ہے۔ پلوٹو کے ’ جانشین‘ کی موجودگی کا تصور دو سال قبل کیلے فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے محققین نے پیش کیا تھا۔ اس تصور کی بنیاد نظام شمسی کے آخری سرے پر برفانی اجسام کی دریافت پر تھی جو بیضوی مدار میں محوگردش تھے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ان برفانی اجسام کے مدار کا بیضوی ہونا کسی سیارے کی کشش کا نتیجہ تھا جو نظام شمسی کا نواں سیارہ ثابت ہوسکتا ہے۔

ہنوز اسرار کے پردے میں لپٹے ہوئے مبینہ نویں سیارے کے بارے میں مشی گن یونی ورسٹی کے ماہرین کے گروپ نے نئی معلومات حاصل کی ہیں۔ ان معلومات کے مطابق مبینہ سیارہ چٹانی ہے۔ اسے ماہرین نے 2015 BP519 کا نام دیا ہے۔ اس جرم فلکی میں سائنس دانوں کی دل چسپی کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ اس کا مدار اس مستوی کی مخالف سمت میں غیرمعمولی طور پر جھکا ہوا تھا جس میں سورج کے گردش کرنے والے بیشتر اجرام فلکی پائے جاتے ہیں۔

سائنس دانوں نے کمپیوٹر سمولیشنز کی مدد سے جاننے کی کوشش کی کہ یہ غیرمعمولی خط حرکت کیسے تشکیل پایا ہوگا۔ کمپیوٹر پروگرام جس میں نظام شمسی آٹھ سیاروں پر مشتمل تھا، نے 2015 BP519 کا خمدار مدار ظاہر نہیں کیا۔ تاہم جب نظام شمسی میں ایک سیارے کا اضافہ کیا گیا تو پھر کمپیوٹر سمولیشن میں یہ خمدار مدار ظاہر ہوگیا۔ تاہم اس پیش رفت کے باوجود سائنس داں نویں سیارے کی موجودگی کے بارے میں پُریقین نہیں ہیں البتہ اس کے امکانات ضرور بڑھ گئے ہیں۔ مشی گن یونی ورسٹی کے ماہر فلکیات پروفیسر ڈیوڈ گرڈیز کہتے ہیں کہ کمپیوٹر سمولیشن میں خمدار مدار کا ظاہر ہونا ’ پلینیٹ نائن‘ کے وجود کا ثبوت نہیں ہے البتہ اس سے پلوٹو کے جانشین کے بارے میں پائے جانے والے نظریے کو تقویت ضرور ملی ہے۔

کچھ سبزیوں اور پھلوں میں سے بجلی کیوں گزرتی ہے؟

اگر آپ کو سائنسی میلوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہو تو وہاں دو تجربات کا لازماً آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا۔ لاوا اُگلتا کاغذی آتش فشاں اور اچار یا آلو سے بنی برقی بیٹری۔ کئی لوگ یقیناً سوچتے ہوں گے کہ ایک سادہ سی سبزی میں سے بجلی کیسے گزر جاتی ہے۔

جن اشیاء میں سے بجلی گزرسکتی ہے انھیں موصل کہا جاتا ہے۔ برقی موصل کئی طرح کے ہوتے ہیں، مثلاً تانبے اور چاندی کی تاریں، جو گھروں اور عمارات میں بجلی کی ترسیل میں استعمال ہوتی ہیں۔ پھر آیونی موصل ہوتے ہیں جو آزاد آیونوں کے ذریعے بجلی کا انتقال کرتے ہیں۔ سائنسی نمائشوں میں رکھے گئے تجربات میں آلو دراصل آیونی موصل کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہی کام انسانی جسم کی بافتیں بھی کرسکتی ہیں۔ ان تمام اشیاء میں برق پاشیدے برقی رَو کا ایصال کرتے ہیں۔ برق پاشیدے وہ کیمیائی مرکبات ہوتے ہیں جو پانی میں حل ہونے پر آیون تشکیل دیتے ہیں۔

نمک کے محلول میں سے برقی رَو گزر جاتی ہے کیوں کہ نمک کو پانی میں حل کرنے پر برق پاشیدگی کا عمل وقوع پذیر ہوتا ہے۔ محلول میں آیون بن جاتے ہیں جو برقی سرکٹ کو مکمل کرتے ہیں یعنی بجلی کا انتقال کرتے ہیں۔ پھلوں اور سبزیوں بھی کچھ یہی معاملہ ہوتا ہے۔

آیونی موصل میں مثبت اور منفی چارج ہوتے ہیں، جنھیں باردار آیون کہا جاتا ہے۔ وولٹیج سے رابطے میں آنے پر یہ آزادانہ حرکت کرنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب کھانے کے نمک کو پانی میں حل کیا جاتا ہے تو سوڈیم (Na+) اور کلورائیڈ (Cl-)، جن پر مخالف چارج ہوتا ہے آیونی محلول بناتے ہیں۔ یہ آیونی محلول برق پاشیدے کہلاتے ہیں اور ہر جان دار میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے، تیکنیکی طور پر ہر پھل یا سبزی آیونی موصل بن سکتی ہے لیکن کچھ سبزیاں یا پھل زیادہ اچھے موصل ثابت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نمک کا محلول یا نلکے کا پانی تقطیرشدہ ( فلٹرڈ) پانی کی نسبت بہتر موصل ہوتے ہیں۔

کوئی بھی پھل یا سبزی جس میں بڑی تعداد میں سپرکنڈکٹیو آیون جیسے پوٹاشیم اور سوڈیم موجود ہوں اور اس کی اندرونی ساخت ایصال برق کے لیے موزوں ہو، اسے برقی بیٹری کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آلو، جس کی اندرونی ساخت یکساں ہوتی ہے، اور اچار جس میں سوڈیم اور تیزابیت کی بلند سطح پائی جاتی ہے، اس نوع کے پھل اور سبزیوں کی عمدہ مثالیں ہیں۔ آلو سے بجلی کے انتقال کو بہتر بنانے کے لیے آلو کو نمک کے پانی میں ڈبویا بھی جاسکتا ہے۔

آلو کی نسبت ٹماٹر کی اندرونی ساخت غیرمنظم اور مختلف حصوں (بیج، ریشے، گودا وغیرہ) میں منقسم ہوتی ہے۔ اسی نارنگی میں اگرچہ پوٹاشیم کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے مگر یہ بھی ایک اچھی برقی بیٹری کے طور پر کام نہیں کرپائے گی، کیوں کہ اس کی اندرونی ساخت ہموار نہیں ہوتی۔ گودا مختلف حصوں ( قاشوں) میں بٹا ہوتا ہے، جو کرنٹ کے بہاؤں میں رکاوٹ بنتا ہے۔

یہاں یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا آلو کی بیٹری سے اتنی بجلی حاصل ہوسکتی ہے کہ سیل فون چارج ہوسکے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ آلو کی بیٹی صرف 1.2 وولٹ برقی رو پیدا کرسکتی ہے۔ اگر آپ موبائل فون کو چارج کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو آلو کی بہت سی بیٹریاں بنانی ہوں گی لیکن اس قدر بکھیڑے میں پڑنے سے بہتر ہے کہ چارجر سے فون چارج کرلیا جائے !

مواصلاتی ٹیکنالوجی جنگلی حیات کے لیے خطرہ
5G کی لانچ کے بعد صورت حال سنگین تر ہوجانے کا خدشہ

کرۂ ارض پر زندگی کا پہیہ اب مواصلاتی نظام کے سہارے رواں رہتا ہے۔ وائی فائی، ٹوجی، تھری جی، فور جی، راڈار، اور پاور لائنز پر مشتمل مواصلاتی نظام میں خلل واقع ہوجائے تو گردش دوراں گویا تھم سی جائے گی، زندگی کی نبض رُک جائے گی، سماجی، معاشی، تجارتی، تفریحی غرض ہر قسم کی سرگرمیاں معطل ہوجائیں گی۔ چناں چہ یہ مواصلاتی نظام سطح ارض پر زندگی کو رواں رکھنے میں بنیادی حیثیت حاصل کرچکا ہے۔

دوسری جانب یہ نظام حیوانی اور نباتاتی زندگی کے لیے خطرہ بھی بنتا جارہا ہے۔ پودوں، کیڑے مکوڑوں، پرندوں، چوپایوں اور دوسرے جانوروں کو اس سے خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ اس کی نشان دہی ایک تحقیقی رپورٹ میں کی گئی ہے۔

ایک عالمی ماحولیاتی ادارے کی رپورٹ میں مواصلاتی نظام سے جڑے آلات سے خارج ہونے والی برقی مقناطیسی تاب کاری کے جنگلی حیات پر اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ اس موضوع پر ماضی میں تحقیق ہوتی رہی ہے تاہم ستانوے صفحات پر مشتمل تازہ رپورٹ کہتی ہے کہ تاب کاری سے جنگلی حیات کو خطرات کی سنگینی قبل ازیں لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ تاب کاری پرندوں اور حشرات کی، سمت کا اندازہ کرنے کی صلاحیت اور حرکت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اس سے نباتات کی تحولی یا میٹابولک صحت بھی متأثر ہوتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فور جی کے بعد اب دنیا بھر میں فائیو جی کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے عام ہوجانے کے بعد برقناطیسی تاب کاری سے جنگی حیات کو لاحق خطرات سنگین تر ہوجائیں گے۔

جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے اس ضمن میں آواز بلند کرتے رہے ہیں مگر ترقی کے پیچھے بھاگتی اقوام اس جانب توجہ دینے کو تیار نہیں۔ اس حقیقت کو انسان نظر انداز کررہا ہے کہ اگر ماحولیاتی توازن بگڑ گیا، جس کا آغاز ہو بھی چکا ہے تو کیا وہ باقی رہ پائے گا؟

مختلف عوامل کے باعث کرۂ ارض سے متعدد جنگلی اور نباتاتی انواع معدوم ہوچکی ہیں، بہت سی معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں اور بہت سی انواع کو مستقبل میں اس خطرے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

ذیل کی سطور میں اس حوالے سے صورت حال کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

٭ فقاریہ یعنی ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کی دو انواع ہر سال صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ گذشتہ صدی سے یہ رجحان چلا آرہا ہے۔

٭ دورحاضر میں جل تھلیوں (پانی اور خشکی پر دونوں پر رہنے والے جانور) کی 41 فی صد انواع اور ممالیہ کی چوتھائی سے زیادہ اقسام معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

٭ ایک تخمینے کے مطابق زمین پر حیوانات اور نباتات کی آٹھ کروڑ ستّر لاکھ اقسام پائی جاتی ہیں۔ خشکی کی 86 فی صد اور پانی کی91 فی صد جان دار انواع اب تک دریافت نہیں ہوپائیں۔

٭ جو جان دار انواع اب تک دریافت ہوئی ہیں، ان میں سے ممالیہ کی 1204، پرندوں کی 1469، خزندوں (رینگنے والے جانور) کی 1215، جل تھلیوں کی 2100 ، مچھلیوں کی 2386  انواع خطرے کی زد میں ہیں۔

٭ حشرات کی 1414، بے ریڑھ صدفیوں کی 2187، خول دار کی 732، گھونگھوں کی 237، پودوں کی 12505، کھمبیوں کی 33 اور بھوری الجی کی 6انواع مستقبل میں صفحۂ ہستی سے مٹ سکتی ہیں۔

٭ زیرمطالعہ ریڑھ کی ہڈی والی 3706 انواعِ (ان میں مچھلیاں، پرندے، ممالیہ، جل تھلیے اور خزندے شامل ہیں ) کی عالمی آبادی 1970ء سے 2012ء کے درمیان60 فی صد گھٹ چکی ہے۔

The post پلوٹو کا ’جانشین‘ دریافت ہونے کے امکانات قوی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2GX2A3u
via IFTTT

قدیم ہندو موسیقی میں رَس اور تاثیر مسلمانوں کی دین ہےFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

گزشتہ ڈیڑھ عشرہ سے وطن عزیز کی ابتر معاشی، سیاسی اور امن و امان کی صورت حال کے باعث جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی متاثر ہوئے وہاں فنون لطیفہ سے وابستہ سرگرمیاں بھی زوال پذیر ہوئیں اور نتیجتاً میوزک انڈسٹری بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی لیکن آج جو بچی کھچی موسیقی ہے، وہ ماہرین کے مطابق روح کی غذا کہلانے کی مستحق نہیں، کیوں کہ آج کا میوزک کئی دہائیوں کے ریاض کا نتیجہ نہیں بلکہ جس کا دل چاہا، جدید آلات میوزک خریدے اور گلوگار بن بیٹھے۔

موسیقی کی اصل پہچان اور بنیاد کلاسیکل میوزک ہے، جو حکومت اور جلد باز نئی نسل کی عدم توجہی کے باعث اپنے جائز مقام سے محروم کر دی گئی ہے۔ لیکن ان نامساعد حالات میں بھی چند عظیم موسیقار میوزک کی اصل کو اس کی روح کے عین مطابق زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک نام استاد غلام حیدر خاں کا ہے جنہیں اُستادان فن نے فخر موسیقی کے لقب سے ممتاز کیا۔

یہ کہنا بے جا نہ ہو گاکہ لمحہ موجود میں برصغیر پاک و ہند میں کلاسیکل میوزک کو سمجھنے، پرکھنے اور اس کی ترویج میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ والد کلارنٹ نواز استاد صادق علی مانڈو خاں کو حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا جا چکا ہے، جسے جاننے کے بعد یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ وہ ایک فنکار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1935ء میں قصور میں پیدا ہونے والے عظیم موسیقار کو بچپن سے ہی موسیقی سے اتنا شغف تھا کہ پرائمری تعلیم کے دوران ہی انہیں چار راگ یاد ہو چکے تھے۔ تقسیم ہند سے قبل جب وہ قصور سے چند جماعتیں پڑھنے کے بعد لاہور آئے تو انہیں رنگ محل مشن سکول میں داخل کروا دیا گیا۔

جہاں سپورٹس کے علاوہ موسیقی کی تعلیم بھی لازمی تھی، یوں استاد غلام حیدر خاں کو اپنے شوق کو جنون میں بدلنے کا موقع مل گیا۔ چھٹی جماعت میں انہیں گلوکاری کے ایک مقابلہ میں پہلا پرائز ملا تو انہیں اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کا بہانہ مل گیا۔ میٹرک کے بعد انہیں روٹی روزی کی فکر ہوئی تو پہلی ملازمت ایک اخبار (سول اینڈ ملٹری گزٹ) میں بطور پروف ریڈر کی۔ 1959ء میں انہوں نے پہلی شادی کی، جس میں سے ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جبکہ دوسری شادی سے تین بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ تاریخ اور انگریزی زبان سے انہیں خاص شغف ہے، جس کا اظہار انہوں نے اپنی کتابوں اور مضامین کے ذریعے خوب کیا۔فرائیڈے ٹائمز میں ان کے کالم چھپتے رہے۔ انہوں نے 7 کتب لکھیں، جن میں نغماتِ خسرو، کہت سدا رنگ، 100 اچھوپ راگ، تزکیہ موسیقی، قصور گھرانے کے نامور فنکار، میوزک اینڈ ریڈیو پاکستان اور تازہ ترین ’’32۔ٹھاٹھ کا نظامِ موسیقی‘‘ شامل ہے۔

یہ آخری کتاب 2016ء میں شائع ہوئی ۔ ان کے استادوں میں  استاد فتح علی خاں جالندھری(نصرت فتح علی خان کے والد)، استاد صادق علی مانڈو خاں، استاد ستار خان اور استاد سردار خاں جیسے عظیم لوگ شامل ہیں۔ انہیں دو بار امیر خُسرو ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے جبکہ ریڈیو پاکستان کی طرف سے پانچ بار تمغہ  حسن کارکردگی کے لئے نامزد ہوئے۔ ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر ریسرچ سیل اور پاکستان کلاسیکل میوزک گلڈ کے تاحیات جنرل سیکرٹری کو ریڈیو اور ٹی وی کی فنکار برادری متفقہ طور پر فخر موسیقی قرار دیتی ہے۔ ’’ایکسپریس‘‘ نے اس عظیم موسیقار، گلوکار اور ماہر موسیقی کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جو نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: آپ نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کی ابتداء کیسے کی؟

استاد غلام حیدر خاں: میرے دادا برٹش بینڈ سے  ریٹائر ہوئے تھے، اس لئے میرے تایا اور والد کو گانا چھوڑ کر بینڈ میں شمولیت کے لئے ساز پکڑنے پڑے۔ والد کو 39ء میں  آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت مل گئی تو 1942ء میں ہم قصور سے لاہور شفٹ ہو گئے۔ موسیقی چوں کہ ہمارے گھرانے کا خاصا تھی تو وہ میرے اندر بھی بچپن میں ہی رچ بس گئی۔ میں تیسری کلاس میں ہی اچھا خاصا گانے لگا تھا۔

دوران تعلیم میں چائلڈ سٹار کے طور پر ریڈیو پاکستان آتا تھا، لیکن ریڈیو پاکستان میں باقاعدہ کلاسیکل آرڈر شمولیت 26 جنوری 1960ء میں اپنے پہلے لائیو پروگرام سے ہوئی، جس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا۔ اس کے ساتھ میں نے کالم نویسی بھی کی، مساوات میں موسیقار کی ڈائری کے عنوان سے کالم لکھے اور پاکستان ریووو میں انگریزی مضامین لکھے۔ کچھ عرصہ پی ایل ڈی میں بھی خدمات سرانجام دیں۔ کتاب محل پبلشرز کے لئے میں نے تقریباً 40 سال فری لانس کام کیا، یوں لٹریچر سے بھی کافی شغف رہا۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے موسیقی روح کی غذا ہے، لیکن آپ کے نزدیک موسیقی کی تعریف کیا ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: موسیقی ایک علم ہے، جو دو مضامین کا مرکب ہے، فزکس اور ریاضی۔ فزکس میں ساؤنڈ ہے اور ریاضی میں گنتی، جسے ہم ماتروں یا سُروں میں استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ باقاعدہ ایک مضمون ہے، لیکن ہم صرف گانے کو کہتے ہیں کہ یہ علم ہے، علم اس کے علاوہ ہے۔ گانا تو انسان کے اندر کا ہے اور یہ Abstract  شکل میں ہے۔

ایکسپریس: وہ کون سے محرکات ہیں، جن کے باعث کلاسیکل میوزک آج زبوں حالی کا شکار جبکہ اس کے مقابلے میں پاپ میوزک فروغ پا رہا ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: پہلی تو بات یہ ہے کہ ہر وہ فن چاہے وہ میوزک ہو یا ڈرامہ، وہ پنپتا ہے مذہب اور حکومت سے موافقت کی وجہ سے، ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی فن کو سپورٹ کرے تو وہ چلتا رہتا ہے، لیکن اب اگر ان دونوں کی طرف سے پذیرائی نہ ملے تو فن مر جاتا ہے۔

ایکسپریس: کیا آپ نہیں سمجھتے کہ موسیقی سے اکتساب کا جو طریقہ ہے، وقت گزرنے کے ساتھ اس کو بدلنے یا عصر حاضر کے مطابق بنانے میں ہم سے کوتاہی ہوئی؟

استاد غلام حیدر خاں: ایسا نہیں ہے، لیکن جب ادارے خود ہی کسی چیز کو پروموٹ نہ کرنا چاہیں تو پھر وہ تنزلی کی طرف آ ہی جاتی ہے۔ بات پھر حکومت کی طرف چل نکلی ہے کہ جب حکومتی سطح پر اس فن کی پروموشن ختم ہو جائے گی تو پھر ترقی یا جدت کیسے آئے گی۔ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے مجھے میوزک سے بہت کچھ ملا ہے، میں نے اپنا گھر میوزک سے بنایا ہے۔ کلاسیکل میوزک کی ڈیمانڈ ہی کم ہوتی ہے۔ اچھا! پھر یہ ڈیمانڈ آج سے نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہی کم ہے۔ اس کے چاہنے والے ضرور ہیں، لیکن اسے پذیرائی کم لوگوں سے ہی ملی۔

ایکسپریس: آپ کلاسیکل میوزک کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: یہ مرتا (ختم) کبھی نہیں، لیکن اس کا عروج 60ء سے 80ء تک رہا، پھر اس پر بیرونی حملے ہونے لگے۔ میری زندگی میں کم از کم تین بار پاپ میوزک کا اس پر حملہ ہوا، لیکن سب سے آخری حملہ بہت طاقت ور ثابت ہوا، جو گزشتہ چند سالوں میں ہوا، لیکن جو موسیقی اُس دھرتی کی نہ ہو وہ آخر کار وہاں سے چلی جاتی ہے۔ پھر لوگوں کو  اپنی اساس کی طرف لوٹنا ہی پڑتا ہے، اس کی مثال کچھ یوں ہو سکتی ہے کہ آج بھی ’’دم مست قلندر‘‘ جیسے گانوں کو ہی ری مکس کرکے سنایا اور دکھایا جا رہا ہے، کیوں کہ یہ میوزک خون میں رچا ہوا اور کانوں میں گُھلا ہوا ہے۔

ایکسپریس: بھارتی گائیکہ کشوری امونکر نے گزشتہ دنوں میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ قدیم بھارتی کلاسیکل موسیقی ’ ویدوں کی موسیقی جو مذہبی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی تھی‘ اسے مسلمانوں کے اثرات سے نقصان پہنچا ہے۔ مسلمانوں نے قدیم موسیقی میں ملاوٹ کر کے اس کی تاثیر کم کر دی۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: کشوری امونکر موگو بائی کُردیکر کی بیٹی اور میری بہت پسندیدہ آرٹسٹ ہے، وہ مجھے تکنیکی اعتبار سے زاہدہ پروین سے بھی زیادہ پسند ہے، لیکن اس کے گانے میں یہ جو رس ہے وہ بھارتی موسیقی میں مسلمانوں کی Contribution وجہ سے ہے۔ میوزک نے ہر دور میں اپنا لباس بدلا ہے۔بھات کھنڈے نے یہ کہا ہے کہ ہمارا جو پہلے راگ بھیرو تھا وہ آج  کچھ اور ہے، مالکونس پہلے سات سُروں سے گاتے تھے آج کل پانچ سُر ہیں۔ اس نے کسی کا نام نہیں لیا لیکن یہ ضرور کہا کہ یوں ہمیں آج یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ آج جو ہمارے پاس میوزک ہے وہ مسلمانوں کی دین ہے۔ میرے خیال میں تکنیکی اعتبار سے حضرت امیرخسرو نے موسیقی کے سارے نظام کو ہی بدل ڈالا تھا۔

ایکسپریس: وہ لوگ جن کا کسی فنکار گھرانے سے بھی تعلق نہیں اور ریاض جیسی مشقتوں سے بھی وہ کوسوں دور ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ بہت مقبول ہیں تو اس سے حقیقی موسیقی پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: اس ضمن میں، میں یوں کہنا چاہوں گا کہ ایک معروف ڈکشنری میں لفظ عطائی کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ عطائی وہ ہے جو بغیر کسی استاد کے اپنی پریکٹس سے کامیاب ہو جائے، ہم انہیں کہتے ہیں ’’بے اُستادہ‘‘۔ لیکن دیکھیں! موسیقی کسی کی میراث نہیں ہے، جو بھی اسے سیکھے گا وہ فیض پائے گا۔ اب اس زمرے میں بڑے بڑے نام آ جائیں گے۔ پھر باپ بیٹے کا استاد نہیں ہوتا، اِس کا استاد چچا، تایا یا کوئی اور ہوتا ہے۔ میرے والد نصرت فتح علی خاں کے والد استاد فتح علی خان کے شاگرد تھے، جب میں نے دو پروگرام کر لئے اور تیسرا کرنا چاہا تو میرے والد کہنے لگے کہ میں تمہیں کچھ نہیں بتاؤں گا جب تک تم میرے استاد کے شاگرد نہیں بن جاتے، یوں میں اور میرا باپ استاد بھائی بن گئے۔ اور ہم نے اپنے استاد سے جو سیکھا اسے بطور امانت بعد میں آنے والوں تک پہنچایا بھی۔

ایکسپریس: آپ کے اساتذہ میں کون کون شامل ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: میرا سب سے پہلا استاد تو میرے والد ہیں، اس کے بعد میں کچھ عرصہ استاد ستار خاں کے پاس جاتا رہا ہوں، پھر استاد سردار خاں بھی میرے اساتذہ میں شامل ہیں، لیکن میرے باقاعدہ استاد، استاد فتح علی خاں جالندھری قوال ہیں، انہوں نے مجھے عملی طور پر سکھایا کہ راگ کیسے بنایا جاتا ہے اور آج میرے بنائے ہوئے راگ لوگ گا رہے ہیں۔

ایکسپریس: کون کون سے راگ صرف آپ سے منسوب ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: جو راگ مجھ سے منسوب ہیں، وہ میں نے خود ہی اپنے سے منسوب نہیں کر لئے بلکہ عصر حاضر کے تمام استادوں سے باقاعدہ دستخط کروائے ہیں، جنہوں نے یہ تسلیم کیا کہ یہ راگ صرف میں نے ہی بنائے ہیں۔ دھانی ملہار، سُہانی ٹوڈی اور دیپ کونس میرے بنائے راگ ہیں، جو میرے شاگرد گا رہے ہیں۔ اچھا پھر یہ جو میری آخری کتاب ہے ’’32۔ٹھاٹھ کا نظامِ موسیقی‘‘ اس میں تقریبا تمام راگ خالصتاً میری اپنی اختراع ہیں، کیونکہ یہ مدراس میں گائے جانے والے اسکیل ہیں۔  مدراس میں راگ نہیں گائے جاتے بلکہ  اسکیل استعمال ہوتے ہیں ان اسکیلوں کو میں نے راگوں کی شکل دی، جن کے کچھ نام میں نے خود رکھے اور کچھ ان سے ہی لئے۔

ایکسپریس: برصغیر میں موسیقی کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کا آج کہنا ہے کہ مروجہ ٹھاٹھ دس ہیں لیکن آپ نے 32 ٹھاٹھ پر کتاب لکھ ڈالی؟

استاد غلام حیدر خاں: اگر آپ کو کلاسیکل میوزک کا ذرا بھی شوق ہے تو حقیقت آپ کو یہ کتاپ پڑھنے کے بعد معلوم ہو سکتی ہے۔ یہ کام یہیں سے شروع ہوا تھا۔ اصل میں ایک سُر بدلنے سے پورا اسکیل بدل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایمن ایک ٹھاٹھ ہے اور راگ ایمن کے تمام سُر تیور ہیں۔ ایک اور ٹھاٹھ ماروا ہے جو ایمن کا یک سُر رکھب بدل دینے سے بنتا ہے  اس لحاظ سے دس ٹھاٹھ مکمل نہیں تھے۔ اور ایک اور بات آپ کو بتا دوں کہ 32 کے بعد33واں ٹھاٹھ بن نہیں سکتا، یہ بھی میرا دعوی ہے۔

ایکسپریس: عصر حاضر کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم آپ سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اچھی موسیقی میں آلات موسیقی کا کتنا کردار ہے اور کیا اچھی آواز آلات موسیقی کی محتاج ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: آلات موسیقی صرف دھن بنانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں،اور شروع سے ان کا استعمال کیا جاتا رہا ہے، قدیم ایران  اور رومن ایمپائر میں سازوں نے بڑی ترقی کی ہے لیکن گانے کے لئے ایک آدھا ساز ہی کافی ہوتا ہے، کوئی ایک ردھم کاساز جیسے طبلہ ہے اور آج کل ہارمونیم زیادہ زیر استعمال ہے۔ سُر کو ذہن میں رکھنے کے لئے ایک ساز ضروری ہے چاہے وہ ہارمونیم ہو، سُر منڈل ہو یا پھر تانپورہ ہو۔ باقی جتنے بھی ساز ہیں یہ آرکیسٹرا کے ہیں۔

ایکسپریس: کلاسیکل موسیقی کو کلاسیکل ہی رہنا چاہیے یا نصرف فتح علی خاں  کی طرح مشرقی موسیقی کے ساتھ مغربی موسیقی کے ملاپ جیسے تجربات درست ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: یہ تجربات پہلے بھی ہو چکے ہیں اور آج بھی ہو رہے ہیں۔ ہونے بھی چاہیں کیوں کہ بات یہ ہے کہ When in Rome, do as the romans do یہ آج ہر جگہ ہو رہا ہے تو ہمیں بھی کرنا پڑے گا۔

ایکسپریس: بھارت کے ماہرین موسیقی کومل اور تیور سُروں کی تعریف کچھ اور انداز میں کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک تیور مدھم ’ما‘ کی دوسری شکل شدھ مدھم ہے، آپ کی کہیں گے؟

استاد غلام حیدر خاں:اصل میں نہوں نے کومل مدھم کو شدھ کا نام دے دیا ہے۔ اگر ان کی بات کوتسلیم بھی کرلیا جائے کہ لفظ شدھ کہا جائے توہمارے نزدیک تو صرف ’’سا‘‘ اور ’’پا‘‘ شدھ ہوسکتے ہیں جوہلتے نہیں‘ قائم رہتے ہیں۔ باقی کوئی سُر شدھ نہیں ہے‘ کومل تیور ہی ہیں۔ اس کے متعلق میں نے آج سے دس سال پہلے جہاںبھی موسیقی پڑھائی جاتی ہے ان کو یہاں ریڈیو کی طرف سے ایک ایک چٹھی بھیجی ہوئی ہے کیونکہ اسے خوش نصیبی کہہ لیں کہ 15برس تک ممتحن بھی رہا ہوں اور پیپر بناتا رہا ہوں۔ تو طالب علموں نے جو جوابات دیئے ہوئے تھے انہیں دیکھ کر بڑی مشکل ہوتی تھی۔

ایکسپریس: آپ کی ریسرچ برصغیر پاک و ہند کے کلاسیکل میوزک تک ہی محدود ہے یا مغربی کلاسیکل موسیقی بھی آپ کے دائرہ دلچسپی میں شامل ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: میں نے مغربی کلاسیکل موسیقی کو بھی ٹچ کیا ہے، لیکن ایسا صرف اپنے سُروں اور راگوں کو ان سے ملانے کے لئے کیا ، بصورت دیگر مجھے ان کے سُروں یا راگوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کیوں کہ جو وہاں ہے، وہ سب کچھ یہیں موجود ہے۔

ایکسپریس: آپ کو اپنے اس کام کے حوالے سے دنیا میں کہاں کہاں جانے کا موقع ملا؟

استاد غلام حیدر خاں: I never left Pakistan، لیکن میرے شاگرد، کتابیں اور میوزک ہر جگہ موجود ہے۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ ہم غلام حیدر خاں کو نہیں جانتے۔ عمر نکل گئی یہاں۔ ممتاز ستارنواز ولایت خاں نے ایک بار اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر آپ نے اپنے گھر والوں کو نہیں منوایا تو پھر باہر جانے کا کیا فائدہ؟

ایکسپریس: آپ کے پورے کیریئر کے دوران وہ کون سے لوگ یا چیزیں تھیں، جنہوں نے آپ کو متاثر کیا؟

استاد غلام حیدر خاں: بطور طالب علم میں ہر گانے والے سے متاثر تھا، ہوں اور رہوں گا۔ جب میں نے گانا شروع کیا تو ہمارے ذہن میں ایک آدمی تھا، بڑے غلام علی خاں ، میں نے ان کے گائے ہوئے پر اپنے گلے کی پریکٹس کی اور بہت ریاض کیا لیکن میری قدرتی آواز بڑے غلام علی خاں سے آج بھی کوسوں دور ہے۔

ایکسپریس: آپ کے زمانہ جوانی میں لاہور میں موسیقی کی بڑی محفلیں کہاں کہاں سجتی تھیں اورگانے بجانے کا ماحول کیسا تھا؟

استاد غلام حیدر خاں: میری جوانی کے دور میں لاہور میں ٹھمری دادرا سُنا جاتا تھا، لائٹ میوزک میں لوگ اسے اچھا سمجھتے تھے۔ غزل سننے کا دور اختری بائی فیض آبادی سے شروع ہوا، اور یہاں استاد برکت علی خاں تھے ان دونوں کی گائیکی کا انداز مُجرئی تھا۔ رہی بات موسیقی کی بیٹھکوں  کی تو لاہور میں عطائی گوئیوں کی دو بڑی بیٹھکیں تھیں، ایک جی اے فاروق صاحب کی بیٹھک تھی مصری شاہ میں اور دوسری ایک پریس کے مالک باؤ قمر کی بیٹھک تھی۔ ان کے علاوہ استاد سردار خاں اور خانصاحب مبارک علی خاں کی بیٹھکیں بھی مشہور ہوئیں، جہاں ایک دوسرے کے ہاں جایا جاتا تھا۔

ہم کسی کی بیٹھک میں گئے اور وہ ہماری بیٹھک میں آئے۔ اچھا ان بیٹھکوں میں صرف آرٹسٹ ہی نہیں ہوتے تھے بلکہ عام لوگ بھی بیٹھتے تھے، جو پھر بعدازاں کارکردگی پر تبصرے بھی کیا کرتے تھے۔ اچھا ایک بات اور آپ کو لاہور کی موسیقی کے حوالے سے بتاؤں کہ یہاں میوزک ہمیشہ سے دھڑے بندی کا شکار رہا ہے۔ مشہور مورخ ابوالفضل اکبری نامہ میں لکھتے ہیں  ’’لاہور مہمان نوازوں کا شہر ہے، لوگ میلوں ٹھیلوں، عرسوں کے عادی ہیں، دن رات بازاروں میں جمگھٹے لگے رہتے ہیں، ذلِِ الہی (بادشاہ) نے تین سو سوار اور ایک ہزار پیادے یہاں مقرر کئے ہیں، اور راوی کے کنارے ایک قلعہ کی تعمیر کا بھی اعادہ کیا ہے۔ یعنی لاہور اُس وقت بھی ایسا ہی تھا۔

ایکسپریس: یقینا آپ نے مشرقی موسیقی کے ساتھ دنیا کے دیگر خطوں کی موسیقی کو بھی سنا ہو گا، تو اس تناظر میں میرا سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کی تمام موسیقی کی زبان ایک ہی ہے یا جس طرح دنیا میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں، موسیقی کی زبان بھی مختلف ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: پہلی بات تو یہ ہے کہ مختلف خطوں کی جتنی بھی موسیقی ہے، اس کا تعلق چوں کہ ہماری موسیقی سے ہی ہے تو لہذا میں نے سنی ہے۔ اور جہاں تک بات ہے زبان کی تو موسیقی کی زبان سرگم (سارے گاما) ہے، یہ سات سروں کی ابریویشن ہے، اور یہی میوزک کی زبان ہے اور یہ پوری دنیا کی زبان ہے۔

ایکسپریس: ایک عمومی تاثر ہمارے ہاں یہ پایا جاتا ہے کہ لوگ ایک فنکار کو پسندیدگی کی نظر سے تو دیکھتے ہیں لیکن وہ عزت و احترام نہیں دیتے جو کسی سوشل ورکر، کھلاڑی یا مذہبی سکالر کو دیا جاتا ہے، آپ  کیا کہیں گے؟

استاد غلام حیدر خاں: یہ کوئی نئی بات نہیں، شروع سے ایسا ہی چلتا آیا ہے، زمیندار، وڈیرے اور بڑے لوگ سمجھتے ہیں کہ گانے بجانے والے لوگوں کو فیڈ کرنا چاہیے کیوں کہ یہ کمی کمین ہیں۔ یہ معاملات بہت پرانے ہیں، مثال کے طور پر آپ نے نام سنا ہوگا ابراہیم موصلی اور اسحاق موصلی کا، اتفاق سے اسحاق موصلی فقہ کے علم میں کافی نام رکھتا تھا تو اس نے ایک دن ہارون رشید سے کہا کہ مجھے بھی عالمانہ لباس پہنایا جائے تو انہوں نے چار پانچ عالم بلا کر فقہ کے معالات میں بحث کرائی جس میں اسحاق موصلی کامیاب رہا یوں انہوں نے اسحاق موصلی کی بات مان کر عالمانہ لباس پہننے کی اجازت دے دی، لیکن بعدازاں ہارون رشید نے کہا کہ اسحاق میری بات سنو! تم یہاں کس کام کے لئے آئے تھے؟ میں نے تمھیں اپنے دربار تک رسائی کیوں دی؟ اسحاق موصلی نے کہا کہ موسیقی کی وجہ سے، تو ہارون رشید نے کہا کہ پھر تم جتنے بھی عالمانہ لباس پہن لو رہو گے تم اسحاق موصلی یعنی گانے والے، اور  یہی سوچ آج بھی موجود ہے۔

ایکسپریس: کلاسیکل میوزک کے احیاء کے لئے حکومتی اور عوامی سطح پر کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: جو کچھ یا جتنا کچھ ان دونوں سے ہو سکتا ہے وہ کر تو رہے ہیں، لیکن اب میوزک کرپشن بھی شروع ہو گئی ہے۔ آپ نے پی آئی اے کی طرح اس شعبہ میں بھی نااہل لوگوں کو بھرتی کر لیا ہے تو پھر میوزک میں بہتری کیسے آئے گی؟اصل مسئلہ یہ ہے کہ کرپشن کا کلچر ہر سطح پر اور ہر شعبے تک پھیل گیا ہے اور اب میوزک کرپشن بھی شروع ہوگئی ہے۔ یہ لفظ آپ کے لیے نیا ہوسکتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے جیسے پی آئی اے یا دیگر اداروں میں نااہل لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے اسی طرح سازندے بھرتی کرنے کی ضرورت پڑے تو نا اہل لوگوں کو رکھ لیا جاتا ہے، یہ پاکستان میں ہر جگہ ہورہا ہے اور شاید اسی لی مجھے پرائڈ آف پرفارمنس نہیں ملا۔ ایک سیمینار یہاں ہوا تھا اس میں میں نے یہ کہہ دیا تھا کہ میں ثابت کرسکتا ہوں کہ ایک لڑکا جو گورنمنٹ کالج میں پڑھتا ہے وہ یہاں (ریڈیو) سے چیک لیتا ہے تو اوپر کے حلقے سے بھی میں گیا۔

ایکسپریس: آپ کے ریسرچ سیل نے ریڈیو سننے والوں کے لیے کون سے اہم پروگرام بنائے ہیں؟

 استاد غلام حیدر خاں:کلاسیکی موسیقی کے دو پروگرام ہمارے بہت مقبول ہوئے جن میں سے ایک تھا آہنگ خسروی اور دوسرا یہ سربہار۔ یہ دونوں پروگرام ریسرچ سیل کی کاوش تھے۔

آہنگ خسروی کا خیال میری پہلی کتاب نغمات خسرو سے لیا گیا تھا۔ اس کتاب میں کل چوبیس راگ شامل تھے۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں جو نغمات کا متن ہے وہ بھی حضرت امیر خسرو کا ہے اور دھنیں بھی وہی تھیں جو میں نے اساتذہ سے یاد کی تھیں۔

دوسرا پروگرام سر بہار کے نام سے کیا گیا تھا جس کے پروڈیوسر رائے محمد عرفان تھے اور اس کی تمام تیاری یہیں ریسرچ سیل ہی میں ہوئی تھی۔ اسی پروگرام میں جو میں نے کلاسیکی موسیقی کو 32 ٹھاٹھوں میں نئے سرے سے مربوط کرنے کا کام کیا ہے۔ اس پر بات کا آغاز کردیا تھا۔ یعنی اس نئے نظام کا تعارف کروا دیا تھا۔ ریڈیو کی لائبریری میں پرانی ریکارڈنگز تو پڑی ہیں۔ ہم نے انہیں پروگرام کے موضوع کی مناسبت سے لوگوں کے سامنے پیش کیا اور بتایا کہ اس نظام موسیقی میں کون سا راگ کس ٹھاٹ کا حصہ ہے۔

جیسے راگ مدھ و نئی کے بارے کہا جاتا ہے کہ کسی ٹھاٹ میں نہیں آتا لیکن درحقیقت اس کا ٹھاٹ دھر موتی ہے۔ یہ راگ پنجاب ہی کی پیداوار ہے پٹیالہ گھرانے نے اسے اختراع کیا تھا اور عاشق علی خان اور امید علی خان نے اسے گایا۔ اس سے پہلے پورے ہندوستان میں میں کہیں مدھ ونتی کا وجود نہیں ملتا۔

اس پروگرام میں ماضی کے عظیم فنکاروں جیسے بابا اختر حسین خان یا بھائی لال یا کالے خاں کے گائے ہوئے راگ پیش کیے گئے جو پہلے کبھی نشر نہیں کئے گئے۔

ایکسپریس:قوالی اور غزل کی اصناف کا تعلق بھی کلاسیکی موسیقی کے ساتھ ہے۔ یہ اصناف اپنے اظہار میں کلاسیکی موسیقی سے کس طرح الگ ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: کلاسیکی موسیقی، قوالی اور غزل میں بنیادی فرق تالوں کا ہے۔ کلاسیکی موسیقی پیش کرنے کے لیے مخصوص تال ہوتے ہیں۔ لائٹ میوزک کے لیے تالیں الگ ہیں۔

ایکسپریس: پاکستان اور بھارت میں پلے بیک موسیقی میں کن موسیقاروں کا ذکر کرنا پسند کریں گے؟

استاد غلام حیدر خاں: آر سی برال اور پنکھج ملک وغیرہ یہ لوگ پلے بیک میوزک ڈائریکشن کے موجد ہیں۔ اس کے بعد نوشاد ہیں، پی سی بروا، اس کے علاوہ بابا چشتی اور ماسٹر غلام حیدر۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پس پردہ موسیقی کی صورت گری میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان تمام موسیقاروں کا مقام و مرتبہ ہے جن کے کام نے لوگوں کو متاثر کیا۔

اب پلے بیک میں سب سے کم کام خواجہ خورشید انور نے کیا ہے لیکن ان کا کام بڑا پُرکشش ہے۔ ان کی تکنیک میں سب سے اہم بات یہ رہی کہ گانوں میں مینڈھ کا استعمال نہیں ہوا کرتا تھا۔ اس استعمال کی مثالیں بنگالی گانوں میں مل جاتی تھیں لیکن عمومی طور پر ایسا نہیں ہوتا تھا۔ خواجہ خورشید انور وہ واحد موسیقار تھے جنہوں نے اپنے گانوں میں مینڈھ کا استعمال انتہائی خوبصورتی کے ساتھ کیا۔ اس سے ان کی موسیقی کو انفرادیت ملی۔

ہمارے پنجاب میں دھن بنانے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوئے ہیں جو بالکل الگ تھلگ ہیں اور کسی سے مماثلت نہیں رکھتے۔ پنجاب کے فوک میوزک کو بخشی وزیر نے بہت ترقی دی ہے پھر سلیم اقبال اہمنام ہیں۔ یہ لوگ میوزیکلوجسٹ بھی تھے اور گلوکار بھی ۔ ماسٹر عبداللہ کے میوزک میں بڑی انفرادیت تھی۔ استاد نذر حسین کی بعض دھنیں بہت منفرد ہیں وہ موسیقار سے بڑھ کر بہت کسبی آدمی تھا۔ بنیادی طور پر تو وہ سرود نواز تھے۔ گانے میں ان کی آواز نہایت خوبصورت تھی۔ میں نے ان سے ایک دفعہ پوچھا کہ یار اتنا اچھا تمہارا گلہ ہے، لگاؤ اتنے اچھے ہیں کہ نور جہاں واہ واہ کہہ اٹھتی ہے، ہم بیٹھے بیٹھے آپ کے گانے سے متاثر ہوجاتے ہیں تو آپ گاتے کیوں نہیں تو کہنے لگے کہ میں تمہیں صحیح بات بتاؤں، تو اگر میں گاؤں تو کم از کم استاد سلامت علی خان جیسا تو گاؤں۔ یعنی نذر حسین نے تو اپنا معیار سلامت علی خان کو بنایا اور خود سلامت علی خان ایسے گائیک تھے کہ ان کے اپنے خاندان میں گوئیے ان کی موجودگی کے باعث پنپ نہیں پائے کیونکہ ان کے گانے کا معیار اتنا بلند ہے، حقیقت یہ ہے کہ استاد سلامت علی خان جیسا کوئی نہیں گایا۔

ایکسپریس: ریڈیو پاکستان میں میوزک ریسرچ سیل کا قیام کب عمل میں آیا اور اس کے پیچھے کن لوگوں کی کاوش کا ہاتھ تھا ؟

استاد غلام حیدر خاں: یہ ریسرچ سیل 1974ء میں قائم کیا گیا تھا۔ ایک تو فیض احمد فیض تھے جو ان دنوں وزارت ثقافت میں ہوا کرتے تھے۔ میرے ایک دوست تھے ایم اے شیخ جو میرے شاگرد بھی تھے۔ یہ صاحب ریلوے پاکستان کے سابق افسر تھے۔ اندرون شہر کے رہنے والے تھے اور موسیقی کی محافل کے شوقین تھے۔ پہلے انہوں نے ستار سیکھی اور بعد میں گانا سیکھا، امجد بوبی کے والد سے۔ اس کے بعد مجھ سے بھی سیکھتے رہے۔ ان کی کاوشوں سے 1974ء میں یہ سیل پہلے گلبرگ میں قائم کیا گیا تھا لیکن فیض احمد فیض کے انتقال کے بعد ریسرچ سیل کو 1978ء میں یہاں ریڈیو پاکستان کے اس تہہ خانے میں منتقل کردیا گیا۔ اس تہہ خانے میں پہلے اسٹوڈیو ہوا کرتا تھا لیکن جب ہم یہاں منتقل ہوئے تو یہ خالی پڑا تھا۔ اس طرح ہم وزارت ثقافت سے وزارت براڈ کاسٹنگ کے ماتحت آگئے۔ اس ریسرچ سیل کے انچارج ایم اے شیخ تھے۔

جب وہ انگلینڈ چلے گئے تو پھر مجھے اس مقصد کے لیے بلایا گیا۔ اس وقت تک موسیقی پر میری تین کتابیں شائع ہوچکی تھیں۔ ایم اے شیخ کے جانے کے بعد خالد اصغر یہاں بیٹھا کرتے تھے۔ انہوں نے ہی اعلیٰ حکام کو چٹھی لکھی کہ اس ریسرچ سیل کے لیے میری خدمات درکار ہیں۔تو اس طرح میں یہاں آگیا اور مختلف اسائنمنٹس کرتا رہا۔ جب میں یہاں آیا میری عمر 61 برس تھی، تو آہستہ آہستہ اس کے کام کو وسعت دی گئی اور اب یہ موسیقی کا ایک چھوٹا سا میوزیم بھی ہے۔یہاں ایک بات بڑی اہم ہے کہ یہاںکی اسٹیشن ڈائریکٹر نزاکت شکیلہ موسیقی کی ترویج میں خصوصی دلچسپی رکھتی ہیں۔یہ ریسرچ سیل بھی انہی کی توجہ اور سرپرستی کے باعث قائم ہے۔

ایکسپریس:موسیقی کی ترویج کے حوالے سے اس ریسرچ سیل نے کیا بڑے کام کیے ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: اس ریسرچ سیل کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اہم یونیورسٹیوں میں موسیقی پر مقالہ جات لکھنے والے طلباء و طالبات اپنے مقالے مکمل کرنے کے لیے اسی ریسرچ سیل سے رابطہ کرتے ہیں۔ اسی طرح صحافیوں کے لیے بھی یہاں پر سہولیات موجود ہیں۔ موسیقی کے بارے میں یہاں تمام معلومات میسر ہیں۔ موسیقی پر جتنی بھی اہم کتابیں لکھی گئی ہیں وہ تمام یہاں پر موجود ہیں۔

ایکسپریس: یہاں پر یقینا ماضی میں ہونے والی موسیقی کی مخافل کی ریکارڈنگز بھی ہوں گی تو کیا کبھی یہ نہیں سوچا گیا کہ ان ریکارڈنگز کی سی ڈیز بناکر لوگوں تک پہنچائی جائیں؟

استاد غلام حیدر خاں: ریڈیو براڈ کاسٹنگ کارپوریشن بعد میں بنا ہے۔ یہ پہلے ریڈیو پاکستان لاہور ہوا کرتا تھا۔ یہاں پر لائیو پروگرام ہوا کرتے تھے۔ ریکارڈننگ سسٹم بہت بعد میں آیا۔ غالباً 1960ء میں یہ سسٹم منگایا گیا تھا۔ ریکارڈنگز لوگوں تک پہنچانے کی ایک کوشش تو پروگرام سُر بہار کے ذریعے کی گئی۔ اس پروگرام کے پروڈیوسر رائے محمد عرفان  نے بڑی محنت سے اس پروگرام کی منصوبہ بندی کی۔ ریڈیو کی جو نایاب ریکارڈنگز ہیں وہ ہم اس پروگرام میں چلاتے تھے۔ لیکن سی ڈیز مارکیٹ کرنے کا کام یہاں نہیں ہوا۔ ایسا ہونا تو چاہیے لیکن اب تک نہیں ہوا۔ نیشنل کونسل آف آرٹس اور لوک ورثہ اسلام آباد نے یہ کام کیا ہے۔ وہاں پر میری بھی ایک ریکارڈنگ موجود ہے۔ انہوں نے لوگوں کو بلا کر ان کا کام ریکارڈ کیا ہے۔ لیکن ریڈیو کا امتیاز یہ ہے کہ یہاں بہت نایاب ریکارڈنگز موجود ہیں جن میں موسیقی ڈرامہ تھیٹر سبھی کچھ شامل ہے۔

ایکسپریس:کیا اب آپ اپنے اس عہدے سے سبکدوش ہوگئے ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: میں ستمبر میں بہت علیل ہوگیا تھا۔اب عمر بھی بہت ہوگئی تو شاہ رخ فخر ہمیں مل گئے۔ یہ یہاں افسر بھی ہیں ریڈیو میں پروڈیوسر ہیں۔ موسیقی کا شوق بھی ہے، گاتے بھی ہیں۔ وائلن اور ہارمونیم بھی بجاتے ہیں تو جب یہ ملے تو مجھے کچھ حوصلہ ہوگیا کہ اب یہ ریسرچ سیل کا کام اچھی طرح سنبھال لیں گے۔ پھر میں نے حکام کو بتا دیا کہ میں اب یہ ذمہ داری چھوڑ رہا ہوں۔ لیکن درحقیقت یہ رشتہ پہلے کی طرح اب بھی قائم ہے۔ اسے چھوڑ تو مرتے دم تک نہیں سکتا کیونکہ ساری زندگی یہیں گزر گئی ہے۔ بس یہ کیا کہ چابیاں انہیں دے دیں ہیں۔

ایکسپریس: غزل برصغیر پاک و ہند میں موسیقی کی اہم صنف مانی جاتی ہے۔ آپ کے نزدیک وہ کونسے غزل گائیک ہیں جنہوں نے غزل گائیکی کو بلندی بخشی؟

استاد غلام حیدر خاں: یہ بات باقاعدہ تسلیم شدہ ہے کہ غزل گائیکی کے چار Schools of Thought اسلوب ہیں۔ یعنی مہدی حسن، غلام علی، اقبال بانو اور فریدہ خانم۔ فریدہ خانم کا انداز اس لیے آگے منتقل نہیں ہوا کہ ان کے انداز کی تقلید نہیں ہوسکتی، اسے اپنایا نہیں جاسکتا۔ اسے ہم آکار کی گائیکی کہتے ہیں۔ اس سلسلے میں دوہی نام لیے جاسکتے ہیں، ایک بڑے غلام علی خان تھے اور دوسری فریدہ خانم۔ وہ سُر کو جتنے خوبصورت انداز میں Finish کرتی تھیں وہ کسی کے بس کی بات نہیں۔ غزل میں اس وقت جو اسکول آف تھاٹ چل رہا ہے۔ وہ نصرت اسکول آف تھاٹ ہے۔ نصرت فتح علی خان نے غزل گائیکی میں قوالی کا رنگ شامل کردیا، غزل کی لے تیز کردی ورنہ غزل تیز ردھم کے ساتھ نہیں گائی جاتی۔ تیز ردھم کے ساتھ گیت گائے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس: ایک بات جو بڑی تکلیف دہ بھی ہے کہ بعض بہت اچھے فنکاروں کا تعارف تب جاکر ہوا جب وہ اپنی عمر کے آخری حصے میں تھے۔ جن میں سے ایک نام استاد محمد جمن کا ہے۔ آپ کیا کہیں گے؟

استاد غلام حیدر خاں:اصل بات یہ ہے کہ استاد جمن لاہور آئے ہی نہیں۔ اگر وہ آتے تو شاید بہت مقبول ہوجاتے۔ اپنے علاقے کے لحاظ سے وہ بہت اچھے گوئیے تھے۔ لیکن انہوں نے خود کو جان بوجھ کر سندھ تک ہی محدود رکھا۔

جب اُستاد شوکت حسین مدد کو آگئے
میری زندگی کا ایک ہی واقعہ ناقابل فراموش ہے۔ اس سے زیادہ اہم واقعہ مجھے یاد نہیں پڑتا۔ وہ کچھ یوں ہے کہ ہم زندگی میں پہلی مرتبہ گانے کے لیے بھائیوں کی محفل میں گئے، بھائیوں کی محفل ہم بزرگوں کی برسی کو کہتے ہیں۔ میاں قادر بخش پکھاوجی کی برسی تھی۔ 1961ء یا 62 کی بات ہوگی۔ ہم دونوں بھائیوں نے گانا تھا اور ہمیں جانتا بھی کوئی نہیں تھا۔ ایک طبلہ نواز تھا جورا پڑی جس کو ہم نے سنگت کے لیے راضی کیا، اس کے ساتھ ریہرسل کی، تین چار دن تک اسے خوب کھلایا پلایا۔ میں نے شروع دن سے یہ کوشش ہے کہ میں ایسے راگ لوگوں کے سامنے پیش کروں جو عموماً نہیں گائے جاتے اور ایسے تالوں میں گائوں جو گوئیے عام طور پر استعمال نہیں کرتے۔ جب ہم اسٹیج پر پہنچے تو سامنے سیٹوں پر بڑے بڑے نامور فنکار بیٹھے تھے۔

استاد اللہ رکھا خان بھارت سے آئے ہوئے تھے کیونکہ ان کے استاد کی برسی تھی۔ بڑے غلام علی خان بیٹھے تھے، بھائی لال بھی آئے ہوئے تھے، استاد سردار خان بھی موجود تھے۔ میں تو باکسر ٹائپ آدمی تھا، لہٰذا بڑی دلیری کے ساتھ گانے کے لیے بیٹھ گیا۔ لیکن ہمارے طبلہ نواز نے جب اتنے بڑے استادوں کو دیکھا تو اس کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ ہوری دھمار تال بجا رہا تھا لیکن گھبراہٹ میں ٹھیکے سے آدھا ماترا نکل گیا تو حالت یہ ہوگئی کہ ہماری استھائی کہیں جارہی ہے اور طبلہ کہیں جارہا ہے۔ لوگوں میں ایک بدتمیز قسم کا شاگرد بھی بیٹھا ہوا تھا اس نے وہیں سے آواز لگا دی ’’جورے تم سے نہیں بجایا جاتا تو اُٹھ جائو‘‘
اللہ بھلا کرے استاد شوکت حسین خان کا وہ بھی مہمانوں میں بیٹھے تھے اور انہوں نے شام کی نشست میں بجانا تھا۔ ان کا شمار بڑے نامی لوگوں میں ہوتا تھا۔ میرے والد کی وجہ سے ان کے دل میں آیا کہ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو یہ لڑکے مایوس ہوجائیں گے۔

ان کا پہلا پہلا پروگرام ہے ان کا دل ٹوٹ جائے گا۔ تو وہ سامعین میں سے اٹھ کر اسٹیج پر آگئے اور ہمارے ساتھ سنگت کے لیے بیٹھ گئے۔ جیسے ہی معیاری سنگت میسر آئی ہم نے کامیابی سے اپنا گانا مکمل کیا۔یہ ایسا واقعہ ہے کہ ہم نہ بچتے بچتے، بچ گئے۔

اے پتر ہٹاں تے نیں وکدے

استاد غلام حیدر خان نے ریڈیو پاکستان سے وابستہ یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا۔ یہ جس کمرے میں ہم بیٹھے ہیں یہاں پہلے اسٹوڈیو ہوا کرتا تھا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے لیے ملی نغموں کی ریہرسل اور ریکارڈنگز اسی تہہ خانے میں ہوئیں۔ جنگ ستمبر میں لازوال شہرت پانے والا ترانہ ’’اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے‘‘ کے پس منظر میں ایک دلچسپ کہانی ہے۔

صوفی تبسم صاحب کا بیٹا بیرون ملک چلا گیا تھا۔ اس نے وہاں سے باپ کو خط لکھا کہ یہاں زندگی اچھی گذر رہی ہے لہٰذا اب وہ پاکستان واپس نہیں آنا چاہتا۔ اس خط کو پاکر صوفی تبسم بہت معموم ہوئے اور اسی کیفیت میں انہوں نے اُس وقت اس ترانے کے دو بند لکھ کر چھوڑ دیئے تھے۔ بعد میں جب جنگ شروع ہوئی تو انہوں نے نامکمل اشعار کو نئی جہت دے دی اور مزید اشعار کے اضافے کے ساتھ اسی کمرے میں یہ ترانہ ریکارڈ کرایا۔

سر ویوین رچرڈز پسندیدہ کھلاڑی

روونگ(کشتی رانی) کی ہے، پیراکی کرتا رہا ہوں، پہلوانی اور باکسنگ بھی کی، دیکھنے میں کرکٹ بہت پسند ہے، کرکٹ میں پسندیدہ کھلاڑی سر ویون رچرڈز ہیں، انگریزی فلمیں دیکھنے کا شوق ہے۔

Pandora and the flying dutch man بہت پسند ہے، اس کے علاوہ An affair to Remember بھی بہت پسند ہے۔ خالدہ ریاست کی اداکاری بہت پسند تھی۔

گانے میں دو طرح کی آوازیں ہوتی ہیں۔ ایک رَگی سے گانے والے سنگرز ہیں اور ایک کُھلے گلے سے گانے والے۔ برصغیر پاک و ہند میں رَگی کے گانے میں لتا کا کوئی ثانی نہیں جبکہ کُھلی آواز میں نور جہاں کا کوئی مقابلہ نہیں۔ مردوں میں محمد رفیع بہترین پلے بیک سنگر تھے۔ سیاستدانوں میں ایک تو بانی پاکستان تھے ان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پسندیدہ سیاسی شخصیت ہیں۔ میرے والد میری آئیڈیل شخصیت ہیں۔ میں نے اپنی ماں کو نہیں دیکھا۔ میرے والد نے ہی ہمیں پالا پوسا۔

The post قدیم ہندو موسیقی میں رَس اور تاثیر مسلمانوں کی دین ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2GVcMZY
via IFTTT