ایکسپریس اردو لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ایکسپریس اردو لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 28 مئی، 2018

لاہور چڑیا گھر کے جانور اب مصنوعی بارش میں نہائیں گے ( ZIA MUGHAL)

0 comments

لاہور  : چڑیا گھر میں جانوروں اور پرندوں کو گرمی کی حدت سے بچانے کے لئے ان کے پنجروں میں پانی کے شاور لگانے کا سلسلہ شروع کردیا گیاہے۔ 

لاہور کے چڑیا گھر میں پاکستان کی تاریخ کا منفرد تجربہ کیا جارہا ہے جس کے تحت یہاں تجرباتی طور پر امریکن اونٹ کے کھلے پنجرے میں پلاسٹک کے پائپ اور نوزلز کی مدد سے ایسے شاورلگائے گئے ہیں جن سے پانی ہلکی پھوار کی صورت نکلتا ہے، اونٹ پانی کی اس پھوار کے نیچے کھڑے ہوکر گرمی دور بھگاتے ہیں اسی طرح مسلسل پانی کی پھوار اور ہوا چلنے سے اس حصے میں درجہ حرارت بھی خاصا کم ہوجاتا ہے۔

لاہور چڑیا گھر کے ڈائریکٹر حسن علی سکھیرا کے مطابق اگر کسی کمپنی سے مسٹ سسٹم نصب کروایا جائے تو اس پر خاصی لاگت آئے گی، انہوں نے دیسی طریقے سے خود ہی بازار سے سامان خرید کر یہ تجربہ کیا ہے جو کامیاب رہا ہے، لاما کے ایک انکلوژر کے لئے یہ سسٹم 7 سے 8 ہزار میں نصب ہوا ہے اوراب باقی جانوروں اور پرندوں کے کھلے پنجروں میں بھی ایسا ہی سسٹم لگایا جائے گا۔

The post لاہور چڑیا گھر کے جانور اب مصنوعی بارش میں نہائیں گے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2sjyCBk
via IFTTT

کرینہ پہلی بارماں کا کردارادا کریں گی ( ZIA MUGHAL)

0 comments

 ممبئی: بالی ووڈ اداکارہ کرینہ کپوراپنے کرئیرمیں مختلف کردارادا کرچکی ہیں تاہم اب وہ ماں کے کردارمیں نظر آئیں گی۔

بالی ووڈ کی بیبو اداکارہ کرینہ کپور بیٹے تیمورعلی خان کی پیدائش سے قبل ہی فلموں سے پیچھے ہٹ گئیں تھیں تاہم وہ کسی نہ کسی وجہ سے خبروں کی زینت بنی ہوئی تھیں۔ اب اداکارہ معروف پروڈیوسرکرن جوہرکی پروڈکشن میں بننے والی فلم میں اپنے کرئیرکا پہلا ماں کا کردارادا کرنے جارہی ہیں جس کے لیے وہ بہت پر جوش ہیں۔

رپورٹس کے مطابق کرن جوہرکافی عرصے سے کرینہ کے ساتھ فلم کرنا چاہتے تھے۔ نئی فلم کی کہانی شادی اور رشتوں کے ارد گرد گھومتی ہوئی نظرآئے گی جب کہ فلم بنیادی طورپردوشادی شدہ جوڑوں پرمبنی ہے جس میں کرینہ کا مرکزی کردار ہے۔

واضح رہے کہ آج کل کرینہ اپنی نئی آنے والی فلم ’ویرے دی ویڈنگ‘ کی پروموشن میں مصروف ہیں جو یکم جون کو ریلیز کی جائے گی۔

The post کرینہ پہلی بارماں کا کردارادا کریں گی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LB61jJ
via IFTTT

ملک بھر میں شدید گرمی برقرار، کراچی میں کل سے دوبارہ ہیٹ ویو کا خدشہ ( ZIA MUGHAL)

0 comments

 کراچی: ملک بھر میں گرمی کی شدید لہر برقرار ہے جب کہ  کراچی کے شہریوں کے لیے کل سے ہیٹ ویو کی نئی وارننگ جاری کردی گئی ہے۔

ملک بھر میں سورج سوا نیزے پر محسوس ہورہا ہے، گزشتہ روزسب سے زیادہ درجہ حرارت سکھر میں 48 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا جب کہ آج بھی گرمی کی شدت برقرار ہے۔ پنجاب میں لاہور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی اور گوجرانوالہ سمیت تمام شہروں میں گرمی کی شدت برقرار ہے۔ اس کے علاوہ سکھر سمیت بالائی سندھ بھی شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ موئن جو دڑو، لاڑکانہ، پڈعیدن اور روہڑی میں شہری دن کو گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقہ جات میں بھی موسم شدید گرم ہے جبکہ چند مقامات پر مطلع جزوی ابرآلود رہنے کا امکان ہے۔ پشاور، ڈی آئی خان، بنوں، کوہاٹ اور کالام میں بھی شدید گرم موسم سے شہری پریشان ہیں۔

دوسری جانب محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ کراچی میں کل سے ہیٹ ویو شہر کا رُخ کرے گی، منگل سے جمعرات تک درجہ حرارت 40 سے 44 ڈگری سینٹی گریڈ رہنے کا امکان ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق آج شہر قائد میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 38 سے 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک جانے کا امکان ہے، شہر میں 27 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سمندری ہوائیں چل رہی ہیں۔ ہیٹ ویو کے دوران شمال اور شمال مغرب کی طرف سے گرم ہوائیں چلنے کا امکان ہے۔

The post ملک بھر میں شدید گرمی برقرار، کراچی میں کل سے دوبارہ ہیٹ ویو کا خدشہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IVVJc6
via IFTTT

اسد درانی: فورتھ جنریشن وارفیئر کا بھارتی مہرہ؟ ( ZIA MUGHAL)

0 comments
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ برصغیر کی دو انتہائی خطرناک خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہان کی جانب سے لکھی گئی ایک غیر متوقع مشترکہ تصنیف The spy chronicles نے بھارت میں پاکستان کے حوالے سے جو اثرات چھوڑے وہ تو الگ، لیکن اس کتاب نے پاکستان کے سیاسی و عسکری حلقوں، دفاعی تجزیہ کاروں اور سول سوسائٹی کو بھی حیرت میں ڈال دیا ہے۔ چونکہ اس پر فوج کو تحفظات ہیں اس لیے مذکورہ کتاب پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے تب تک گریز ہی کروں گا کہ جب تک اسد درانی کی جانب سے جی ایچ کیو کو وضاحت نہ پیشکردی جائے . ضیاء مغل۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوشل میڈیا پر اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ اسد درانی کو 28 مئی کے روز جی ایچ کیو میں طلب کیا گیا ہے جہاں ان سے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ کے ساتھ لکھی گئی کتاب میں بیان کردہ واقعات پر وضاحت طلب کی جائے گی اور وہ اپنی پوزیشن واضح کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کتاب میں بیان کردہ تمام تفصیلات پر ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی سمجھی گئی ہے، اس ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کا اطلاق تمام حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں پر ہوتا ہے۔
جہاں تک میں نے کتاب کا مطالعہ کیا ہے اور اس میں جو باتیں اسد درانی نے کہی ہیں، وہ زیادہ تر جھوٹ، دروغ گوئی اور مضحکہ خیزی پر مبنی ہیں جبکہ اکثر جگہوں پر انہوں نے assessment اور perhaps کے الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کی جانب سے ’’میں سمجھتا ہوں‘‘ اور ’’شاید‘‘ جیسے الفاظ کا استعمال بہت ہی اہمیت رکھتا ہے۔
اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ممالک کی خفیہ ایجنسیاں ایک دوسرے کے ساتھ کام بھی کرتی ہیں اور رابطہ بھی رکھتی ہیں تو یہ کوئی بہت بڑی بات نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ دنیا بھر میں خفیہ ایجنسیاں ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں جیسے کہ ’’را‘‘ نے پرویز مشرف پر ہونے والے حملے سے پیشگی پاکستان کو آگاہ کردیا تھا، روس نے امریکا میں دہشت گردی کے واقعات سے سی آئی اے کو آگاہ کیا تھا۔ ایسے بہت سے واقعات ہمارے سامنے ہیں جن میں دشمن ملک کی خفیہ ایجنسیوں نے دیگر ممالک کو آنے والے خطروں سے آگاہ کیا ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ بھی نہیں ہوتا کہ دشمن ملک آپ سے ہمدردی یا محبت کرنے لگا ہے، بلکہ یہ ایک بین الاقوامی ’’میوچل سیکرٹ سیکیورٹی شیئرنگ‘‘ ہوتی ہے جس کے تحت ممالک ایک دوسرے کے مفادات کو دیکھتے ہیں اور اپنے مفاد کے مطابق فائدے لیتے ہیں۔
پاکستان کے سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹننٹ جنرل اسد درانی نے اگر بھارتی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ امر سنگھ دلت کے ساتھ مل کر اگر کوئی کتاب لکھی ہے تو ویسے یہ کوئی معمولی بات اس لیے بھی نہیں کہ اس سے پہلے کم از کم میں نے کبھی نہیں پڑھا یا سنا کہ کسی دشمن ملک کی خفیہ ایجنسی کے سربراہوں نے اپنے تجربات پر کوئی مشترکہ کتاب لکھی ہو۔ اس میں مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کوئی معمولی دشمن تسلیم نہیں کیے جاتے۔ دنوں ممالک کے درمیان 2 بڑی اور کئی چھوٹی جنگیں ہوچکی ہیں جبکہ سرحدی جھڑپوں کا تو کوئی گنتی شمار ہی نہیں۔
پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے روایتی دشمن ہیں اور روایتی دشمنوں کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان کا ایک ساتھ مل کر ایک ایسی کتاب شائع کرنا جس میں ملکی سلامتی کے متعدد واقعات اور راز ہوں، قابل تشویش تو ہے لیکن یہاں میں اس کتاب کی ایک اور اہم چیز کی جانب نشاندہی کرنا چاہوں گا۔
ویسے تو اس کتاب میں بے تحاشا فضولیات ہیں، اپنی ہی باتوں سے اختلاف اور مضحکہ خیزی ہے لیکن سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ جنرل ریٹائرڈ اسدردرانی کو بھارتی خفیہ ایجنسی کے سابق چیف امرسنگھ دلت نے اپنا ’’کولیگ‘‘ (Colleague) کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات ہرگز نہیں۔ Colleague کا عام مطلب ساتھ کام کرنے والا اور ایک ساتھ کسی پروجیکٹ پر کام کرنے والے کے ہوتے ہیں۔ تو یہاں امر سنگھ دلت نے اسد درانی کو ’’کولیگ‘‘ دانستہ کہا ہے یا غیر دانستہ؟ اس کی ہر صورت تحقیقات ہونی چاہئیں کیونکہ اسد درانی کا ماضی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
اسد درانی پاکستان آرمی کی متنازع ترین شخصیات میں شامل رہے ہیں۔ 1990 میں آئی جے آئی بنانے اور سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کی بات کھلنے کے بعد 1992 میں لیفٹنیٹ جنرل اسد درانی کو اس وقت کے آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ نے برطرف کردیا تھا۔
اسد درانی فوج کے کوئی معمولی افسر نہیں تھے بلکہ یہ آئی بی (انٹیلی جنس بیورو) کے سربراہ رہ چکے تھے جبکہ اپنی برطرفی کے وقت آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ اتنے کلیدی اور اہم عہدوں پر رہنے والے کسی جنرل کو عہدے سے زبردستی نامناسب طریقے سے (unceremoniously) ہٹانا اس شخصیت کی ساکھ کو اچھا خاصا مشکوک بنا دیتا ہے۔
آئی ایس آئی کے سابق سرابرہ جنرل ریٹائرڈ حمید گل اسد درانی کے بارے میں بہت بری رائے رکھتے تھے۔ اے پی ایس کا سانحہ ہوا تو اسد درانی نے کہا کہ یہ ’’کولیٹرل ڈیمیج‘‘ (دو طرفہ نقصان) ہے۔ سیاستدانوں میں پیسے انہوں نے ہی بانٹے اور تحقیقات میں کھلے عام اپنے جرم کا اقرار کرتے ہوئے کہا کہ ہاں! میں نے پیسے بانٹے۔
اسد درانی کی شخصیت کو جانچنے کےلیے یہاں ایک چھوٹی سی وضاحت پیش کروں گا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اصغر خان کیس میں اسد درانی نے ایک بیانِ حلفی (affidavit) عدالت میں جمع کروایا۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذمہ داران، خواہ وہ سابق ہی کیوں نہ ہوں، ایسے بیان حلفی پیش نہیں کرتے۔ شعبہ جاتی زبان میں انتہائی خفیہ اور حساس نوعیت کی معلومات و دستاویزات کو ’’ہائیلی کلاسیفائڈ‘‘ (highly classified) کہا جاتا ہے۔ ایسے کاغذات/ دستاویزات پر جلی حروف میں eyes only بھی لکھا جاتا ہے، یعنی آپ اس کا زبان سے تذکرہ بھی نہیں کرسکتے۔ ایسے میں یہ شخص بیان حلفی جمع کراتا ہے، وہ بھی بطور سابق سربراہ آئی ایس آئی۔ حالانکہ جب آپ ایسے کسی اہم عہدے پر فائز ہوتے ہیں تو عمومی حلف کے ساتھ ساتھ SECRECY کا حلف بھی اٹھاتے ہیں جس کا اسد درانی نے لحاظ نہیں رکھا۔
پاکستان میں رہنے والے بیشتر لوگوں کو پاک بھارت تنازع کی اصل وجہ معلوم ہی نہیں۔ وہ وہی بولتے اور سمجھتے ہیں جو انہیں دکھایا جاتا ہے۔ بھارت کا قدیم ترین نظریہ ’’اکھنڈ بھارت‘‘ ہے جو بھارت کی قومی پالیسی بھی ہے۔ بھارت کی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتی ہے۔ کچھ لوگ سمجتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں اور پاکستان اور بھارت ایک ہی تہذیب کے پروردہ ہیں جو ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ یہ وہی نظریات ہیں جن کی بھارت پاکستان میں پرورش کررہا ہے۔ بھارت پاکستان میں ’’ہائبرڈ وارفیئر‘‘ (hybrid warfare) اور ’’چوتھی نسل کی جنگ‘‘ (fourth generation warfare) کو کامیابی سے آگے بڑھا رہا ہے۔ یہ انتہائی خطرناک جنگی حکمت عملی ہے، ایک ایسا مسئلہ جسے ہم سمجھ نہیں پارہے ہیں۔
’’فورتھ جنریشن وارفیئر‘‘ کیا ہے؟ اس حوالے سے طارق اسماعیل ساگر نے اپنی کتاب ’’خفیہ ایجنسیوں کی دہشت گردی‘‘ میں بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کی جانب سے پاکستان کے قیام، دو قومی نظریئے اور بھارت کی تقسیم کو مسخ کرکے مؤثر انداز میں پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ خصوصاً 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد یہ تصور بڑی شدت سے سامنے لایا گیا کہ اسلام کا رشتہ کوئی رشتہ ہی نہیں۔ اگر یہ کوئی مضبوط حوالہ یا رشتہ ہوتا تو اسلام کے نام پر بننے والے ملک کے دو ٹکڑے نہیں ہوتے۔ اسی طرح ’’را‘‘ کی جانب سے پاکستان کے مختلف حلقوں اور قومیتوں میں اس بات کی تکرار کروائی جاتی رہی ہے کہ اگر ہندوستان متحد رہتا تو مہاجر ہوکر پاکستان میں بدترین زندگی گزارنے والے آج بہتر حال میں ہوتے۔ ہندوستان کی تقسیم سے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں مسائل کا اضافہ کیا گیا۔
غرض ’’را‘‘ نے پاکستان کے خلاف فورتھ جنریشن وارفیئر کی نفسیاتی جنگ بڑی کامیابی سے لڑی اور آج پاکستان میں رنگ، نسل، زبان اور مذہبی و سیاسی نظریات کی بنیاد پر بے شمار جماعتیں اور گروہ وجود میں آچکے ہیں۔ یہ ہے ’’را‘‘ کا وہ فورتھ جنریشن وارفیئر کا حربہ جس کے تحت پاکستان کو (خدانخواستہ) ختم کرکے اسی ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کی مسلسل کوشش جاری ہے کہ جو بھارت کا قدیم ترین سیاسی منصوبہ ہے اور جس پر بھارت میں آنے والی تمام حکومتوں کا اتفاق بھی ہے۔ فورتھ جنریشن وارفیئر کی تفصیل خاصی طویل ہے جس کے طریقہ کار کے بارے میں پڑھ کر روح فنا ہوجائے کہ کس طرح دشمن اپنے عزائم میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوچکا ہے۔ اگر آپ بالغ نظری سے تمام صورت حال کا جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟ یہاں قابل اجمیری کا ایک شعر منظر کی درست ترجمانی کررہا ہے:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اسد درانی اور امر سنگھ دلت کی جانب سے لکھی گئی اس کتاب میں جو بھی باتیں کی ہیں وہ کسی بھی طرح پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ البتہ ان سے بھارت، امریکا اور دیگر دشمن ممالک کو تقویت ضرور ملتی ہے۔ اسد درانی کی امر سنگھ دلت کے ساتھ دبئی، استنبول اور سنگاپور کے ہوٹلوں میں ہونے والی ملاقاتوں کے دوران ہونے والی گفتگو پر مبنی اس کتاب میں کشمیر، ایبٹ آباد، کلبھوشن، حافظ سعید اور پاکستان کے دیگر اہم اور حساس موضوعات پر تبادلہ خیال شامل ہے۔ درانی صاحب کتاب میں بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کو بھارت لے جائے گا۔ موصوف اس موقع پر پاکستان کے مقدمے کو مضبوط کرنے کے بجائے پاکستانیوں کو مزید مایوس کرتے ہوئے دشمن کو خوش خبری سنارہے ہیں کہ بھارت اپنے جاسوس کو پاکستان سے نکال لے جائے کا۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے بھارت جو چاہتا ہے وہ کرے گا؛ اور پاکستان اس کے سامنے کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ میں اسد درانی کے اس جملے کو یہاں لکھنا بھی نہیں چاہتا جس میں انہوں نے چانکیہ کے اکھنڈ بھارت کے نظریئے کا خیرمقدم کیا ہے۔
یہ کتاب لکھنے کا معاملہ اتنا ہی سادہ نہیں۔ یہ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے روایتی حریف ہیں۔ وہاں کی اکثریت ہندو ہے جو پاکستان کے خلاف ہے اور ابھی درانی صاحب نے جس شخص کے ساتھ کتاب لکھی ہے وہ پہلے بھی پاکستان دشمنی میں بیوقوفانہ باتیں کرچکا ہے۔
’’را‘‘ کے اسی سابق چیف، امر سنگھ دلت نے 2015 میں ایک کتاب لکھی تھی ’’KASHMIR: The Vajpayee Years‘‘ جس میں دلت نے مضحکہ خیز انداز اختیار کرتے ہوئے لکھا کہ آئی ایس آئی ایک تیسرے درجے کی خفیہ ایجنسی ہے جو اپنے مفادات کےلیے معصوموں کا بے دریغ استعمال کرتی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ آئی ایس آئی کے سیکڑوں منصوبے میں نے ناکام کیے۔ یعنی ملکی خفیہ ایجنسی کی تضحیک جو درحقیقت ملک کی تضحیک ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آئی ایس آئی نے کشمیر میں جو مجاہدین تیار کیے تھے، میں نے اپنی بہتر حکمت عملی سے ان کو خرید کر ان کو پاکستان کے ہی خلاف استعمال کیا۔
یہاں ایک اور اہم بات بتاتا چلوں کہ تازہ کتاب (اسائی کرونیکلز) اپنی اشاعت سے قبل ہی پی ڈی ایف فارمیٹ میں لاکھوں لوگوں تک پہنچادی گئی۔ گویا اس کتاب کی اشاعت کا مقصد آمدنی حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کومضبوط طریقے سے ہر خاص و عام تک پہنچانا تھا۔ اس کتاب میں متعدد جگہوں پر جنرل ریٹائرڈ اسد درانی نے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی اور اپنی کہی ہوئی باتوں سے اختلاف کیا۔
ایک جانب موصوف کہہ رہے ہیں کہ اسامہ بن لادن کے خلاف ہونے والے ایبٹ آباد آپریشن میں وزیراعظم گیلانی اور آرمی چیف جنرل پرویز کیانی کو امریکا نے اعتماد میں لیا تھا تو دوسری جانب وہ کہتے ہیں کہ ایک سابق آئی ایس آئی افسر کو، غالباً جس کا نام سعید بتایا جارہا ہے، 50 ملین ڈالرز دیئے گئے۔ یہ دونوں الگ الگ باتیں ہیں جو ایک ہی وقت میں ایک ہی کتاب میں ایک ہی مصنف کہہ رہا ہے۔ اگر اعتماد میں لیا گیا تھا تو یہاں پاکستانی جیل میں شکیل آفریدی کیا کررہا ہے؟
اسد درانی نے پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن عجیب بات یہ ہے کہ بھارت نے کتاب کی رونمائی کی تقریب میں شرکت کےلیے اسد درانی کو ویزا جاری نہیں کیا جس وجہ سے اسد درانی تقریب رونمائی میں شرکت نہیں کرسکے۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اس اقدام پر اسد درانی نے بھارتی حکام کو ایک پیغام پہنچایا جس میں بھارتی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارتی حکام نے ویزا جاری نہ کرکے انہیں ’’پاکستانی عقابوں‘‘ کے غیظ و غضب سے بچالیا ہے۔
یہ وہ تمام حقائق ہیں جو اس کتاب میں موجود ہیں اور دیگرتحریر کردہ مواد میڈیا رپورٹس میں آچکا ہے۔
میری عزیز ہم وطنوں سے درد مندانہ اپیل ہے کہ خدارا پاکستان کے خلاف کام کرتی ہوئی، بھارت کی ’’کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن‘‘ (Cold Start doctrine) کو سمجھیں۔ ہمارے ارد گرد بھارتی ’’را‘‘ کے اتنے ایجنٹ موجود ہیں جن کی تعداد پر آپ کو یقین نہیں ہوگا۔ ہمارے میڈیا میں، اسپتالوں میں، تعلیمی اداروں میں، غرض کہ ہمارے ملک کے ہر شعبے میں یہ لوگ ہیں۔ یہاں ہمیں اپنی اپنی ذمہ داریاں خود پہچاننا ہوں گی۔
ہم اپنی ذمہ داریوں کو پہچانتے ہوئے اپنے علم و ہنر میں اتنا اضافہ کرلیں کہ دشمن کی جانب سے مولوی یا عالمِ دین کے روپ میں ہمارے درمیان بھیجا گیا کوئی درندہ، کوئی سیاستدان، پروفیسر یا ہمارے سیکیورٹی اداروں کی صفوں میں موجود دشمن، کوئی بھی آسانی سے ہمیں ورغلا نہ سکے۔ ہم ایک بار پھر امن و امان والے پاکستان کو ویسے ہی بلکہ اس سے بھی بہتر طریقے سے دنیا کی امامت کےلیے تیار کرسکتے ہیں، اگر ہم خود احتسابی کا آغاز کردیں:
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
دنیا میں اکثر سابق فوجی و حکومتی عہدیدار اور خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان اپنی ملازمت کی مدت مکمل کرنے کے بعد اپنی سرگزشت لکھتے ہیں جس میں اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کا ذکر ہوتا ہے۔ لیکن جو کچھ پاکستان میں ہوتا ہے، میرا خیال ہے کہ ایسا دیگر ممالک میں نہیں ہوتا ہوگا۔ اسد درانی سے پہلے جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز اور جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اپنی کتابوں میں کیا کچھ کہہ چکے ہیں؟ پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں کئی ایک مقامات پر ایسی باتوں کا ذکر کیا ہے جہاں قومی سلامتی خطرے میں پڑتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں بھی فوجیوں، سابق وزرائے اعظم اور دیگر اہم عہدوں پر رہنے والے افراد کے حوالے سے بھی کوئی معتبر ادارہ ہونا چاہیے جو کسی بھی قسم کی نشریات و اشاعت اور انٹرویو سے پہلے تجزیہ کرے کہ وہ کسی بھی طور پر ملکی سلامتی پر سوالیہ نشان تو نہیں لگا رہا؟
جی ایچ کیو کو بھی ریٹائرڈ افسران کی کتابوں کے حوالے سے کوئی ایسا پبلی کیشن ادارہ بنانے کی ضرورت ہے جیسا دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ خود امریکہ میں بھی سی آئی اے، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، پنٹاگون اور امریکی صدارتی دفتر کےلیے بھی یہ طریقہ کار ہے کہ کسی بھی قسم کی اشاعت سے پہلے یہ ادارے اس کا تجزیہ کرتے ہیں اور اس کے بعد انہیں اشاعت کی اجازت ملتی ہے کہ ان کتب میں کوئی ایسی چیز تو نہیں جو قومی سلامتی کےلیے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔

نگراں وزیراعظم کے لیے جسٹس (ر) ناصرالملک کے نام کا اعلان ( ZIA MUGHAL)

0 comments

 اسلام آباد: نگراں وزیراعظم کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس (ر) ناصرالملک کے نام پر اتفاق ہوگیا ہے۔

اسلام آباد میں وزیراعظم کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے نگراں وزیراعظم کے لیے جسٹس (ر) ناصرالملک کے نام کا اعلان کیا۔

پریس کانفرنس میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ نگراں وزیراعظم کے نام پر اتفاق ہوگیا ہے، کئی ہفتوں سے اس حوالے سے مشاورت کا عمل جاری تھا، اس پر فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا لیکن اپوزیشن جماعتوں اور قائد حزب اختلاف کا شکرگزار ہوں۔

قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ نگراں وزیراعظم کے نام کا چناؤ مشکل کام تھا، ایسا فیصلہ ہو جو پاکستان کے عوام اور سیاسی پارٹیوں کے لیے قابل قبول ہو۔

اس سے قبل وزیراعظم شاہدخاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشیدشاہ کے درمیان نگراں وزیراعظم کے معاملے پر متعدد ملاقاتیں ہوئیں جس میں نگراں وزیراعظم کے لیے کسی نام پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا تھا تاہم آج کی ملاقات میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈلاک ختم ہوا اور نگراں وزیراعظم کا نام فائنل کرلیا گیا۔

The post نگراں وزیراعظم کے لیے جسٹس (ر) ناصرالملک کے نام کا اعلان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LyOt7Q
via IFTTT

ریاستی حکام آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کے پابند ہیں، چیف جسٹس ( ZIA MUGHAL)

0 comments

بیجنگ: چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ریاستی حکام آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کے پابند ہیں۔

چین کی شنگھائی یونیورسٹی میں خطاب کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ریاست کے تمام ستون ملکی سالمیت، سیکورٹی اور وقار اور لوگوں کی فلاح کے لیے مل جل کر کام کریں، ریاستی حکام کو اپنے اختیارات انصاف کے اصولوں، برابری، شفاف اور قانون کے مطابق استعمال کرنے چاہئیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پاکستان کے ریاستی حکام آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کے پابند ہیں، یہ طے ہوچکا ہے کہ ریاستی حکام کو حاصل اختیارات بے لگام نہیں، پاکستان کی عدلیہ کو ایگزیکٹو کے اقدامات پر نظر ثانی کا اختیار ہے، اسی لیے عدلیہ ایگزیکٹو کے اختیارات پر چیک اینڈ بیلنس مہیا کرتی ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ محروم طبقے کو فوری انصاف فراہم کرکے عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور خود کو بنیادی حقوق کے تحفظ کا نگراں ثابت کیا ہے، بنیادی حقوق کے مقدمات انصاف کی فراہمی اور انصاف تک رسائی کا موثر آلہ ہے، عوامی مفاد کے مقدمات بنیادی حقوق کا تحفظ اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بناتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے حالیہ دنوں میں قانون اور میڈیکل کی تعلیم اور ماحولیاتی معاملات پر از خود نوٹسز لیے ہیں۔

The post ریاستی حکام آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کے پابند ہیں، چیف جسٹس appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2kum7iF
via IFTTT

پاکستان اور افغانستان کو طویل تنازعات سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا، آرمی چیف ( ZIA MUGHAL)

0 comments

 راولپنڈی: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کو طویل تنازعات سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق افغانستان کے قومی سلامتی مشیر محمد حنیف اتمر کی سربراہی میں وفد نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔

اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ طویل تنازعات سے پاکستان اور افغانستان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، ہمیں مشترکہ دشمن کے خلاف مل کر خطے میں امن کا راستہ تلاش کرنا ہے، شک و شبہات منفی چیزوں کو ہوا دیتے اور بھٹکانے والوں کو فائدہ دیتے ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ملاقات میں پاک افغان دو طرفہ اعلی سطح پر مذاکرات کیے گئے اور افغان مفاہمتی عمل سے متعلق آئیڈیاز شیئر کیئے گئے۔ وفد میں افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے سربراہ معصوم ستانکزئی، افغان آرمی چیف محمد شریف یفتالی، افغان صدر کے خصوصی نمائندے حضرت عمر زاخیلوال اور وزیر داخلہ واعظ برمک سمیت دیگر اہلکار شامل تھے۔ پاکستانی مذاکراتی وفد میں سیکرٹری خارجہ تہمینہ دولتانہ بھی شامل تھیں۔

دونوں ممالک کے حکام نے حال ہی میں طے پانے والے افغانستان پاکستان ایکشن پلان برائے امن و استحکام پر عملدرآمد کے حوالے سے بات چیت کی۔ پاکستان اور افغانستان نے دو طرفہ سیکیورٹی تعاون سمیت مختلف ورکنگ گروپس جلد قائم کرنے پر اتفاق کیا۔

افغان وفد نے تعاون بہتر بنانے سے متعلق پاکستانی اقدام کو سراہا۔ افغان قومی سلامتی مشیر نے کہا کہ افغانستان کو پاکستان سے بہت توقعات وابستہ ہیں۔ افغان وفد نے افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے آرمی چیف کو دورے کی دعوت دی جو جنرل قمر جاوید باجوہ نے قبول کرلی۔

The post پاکستان اور افغانستان کو طویل تنازعات سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا، آرمی چیف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2slpY5n
via IFTTT

واجد ضیا مجھے ملوث کرنے کے لئے عدالت سے جھوٹ بھی بول سکتے ہیں، مریم نواز ( ZIA MUGHAL)

0 comments

 اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کی رہنما اورنوازشریف کی صاحبزادی نے عدالت کے روبروبیان میں کہا ہے کہ واجد ضیا قابل اعتبارگواہ نہیں اوروہ مجھے کیس میں ملوث کرنے کے لئے عدالت سے جھوٹ بھی بول سکتے ہیں۔

جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی، سماعت کے دوران مریم نوازنے عدالتی سوالنامے کے جواب دیئے۔

مریم نوازنے اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے دوران تفتیش جومواد اوردستاویز اکٹھی کیں وہ قابل قبول شہادت نہیں، جے آئی ٹی رپورٹ میں صفحات 240 سے 290 تک کس نے اورکب شامل کئے انہیں اس کا علم نہیں۔ واجد ضیاء نے جورائے دی اورنتیجہ اخذ کیا وہ قابل قبول شہادت نہیں، انہوں نے اپنی رائے کے حق میں کوئی دستاویزبھی پیش نہیں کی۔

مریم نواز نے کہا کہ یہ درست ہے میں نے ٹرسٹ ڈیڈ کی اصل نوٹرائزاورتصدیق شدہ کاپی جمع کرائی، ورک شیٹ کی تیاری سے میرا کوئی لینا دینا نہیں، ان الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہوں کہ کوئی جعلی دستاویزات میں نے یا کسی اورنے جمع کرائیں، واجد ضیا ء نے یہ الزام تعصب اوربدنیتی کی وجہ سے لگایا، واجد ضیا ہمارے خلاف متعصب ہیں، یہ ثابت ہوچکا کہ واجد ضیا قابل اعتبارگواہ نہیں، وہ مجھے کیس میں ملوث کرنے کے لئے عدالت سے جھوٹ بھی بول سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے کسی بھی گواہ کو سوالنامہ نہ بھجوانے کا فیصلہ کیا تھا جب کہ انہوں نے جرح کے دوران تسلیم کیا کہ جیرمی فری مین کو سوالنامہ بھیجا گیا۔

مسلم لیگ (ن) کی رہنما کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی اور تفتیشی افسر نے جان بوجھ کر منروا مینجمنٹ کو شامل تفتیش نہیں کیا تاکہ حقائق کو چھپایا جاسکے، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ قطری شہزادہ میری ہدایت پر شامل تفتیش نہیں ہوا ،یہ بات ثابت ہو چکی کہ واجد ضیاء اور جے آئی ٹی نے جان بوجھ کربدنیتی سے حمد بن جاسم کا بیان ریکارڈ نہیں کیا۔ میری اطلاع کے مطابق حسین نواز نے فلیٹس نوے کی دہائی کے آغاز میں نہیں خریدے۔

The post واجد ضیا مجھے ملوث کرنے کے لئے عدالت سے جھوٹ بھی بول سکتے ہیں، مریم نواز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2sfUfTR
via IFTTT

امریکا ہماری ملکی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی کررہا ہے، چین ( ZIA MUGHAL)

0 comments

بیجنگ: چینی وزراتِ دفاع نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکا نے متنازعہ جزائر جنوبی بحیرہ چین کے قریب جنگی بحری جہاز بھیج کر ہماری ملکی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق چینی وزارتِ دفاع کی جانب سے جاری بیان میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ امریکا نے متازع جزائر جنوبی بحیرہ چین کے قریب  2 جنگی بحری جہاز بھیج کر چین کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔ بیان میں واضح کیاگیا ہے کہ امریکی بحری جہازوں نے جنوبی بحیرہ چین کے چار مقامات پر نقل و حرکت کی ہے جس میں ووڈی جزیرہ بھی شامل ہے جہاں  چین نے میزائل نصب کر رکھے ہیں۔

چین کی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ جنوبی بحیرۂ چین میں امریکی نقل وحرکت کو روکنے اور امریکا کو خبردار کرنے کے لئے ملکی فضائیہ کے بمبار طیاروں کو پہلی بار جنوبی بحیرہ چین میں بھجوایا ہے جس میں دور تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کا حامل بمبار H-6K بھی  شامل ہے۔

دوسری جانب بحرالکاہل میں امریکی بحری بیڑے کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا ہے کہ اس علاقے میں نقل و حرکت کی آزادی کے حوالے سے معمول کی فوجی مشقیں کی جاتی ہیں اور آئندہ بھی ان کو جاری رکھا جائے گا۔

واضح رہے کہ جنوبی بحیرہ چین کا سمندر اہم تجارتی گزرگاہ ہے اور اس پر 6 ممالک اپنے حق کا دعویٰ کرتے ہیں جس میں چین بھی شامل ہے۔ چین پر الزام ہے کہ وہ اس کے وسیع حصے پر اپنے حق کے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے وہاں فوجی نقل و حرکت کرتا ہے۔  جب کہ چین بھی متعدد بارمتنازع جزائر کے قریب امریکی بحری جہازوں کی موجودگی کے واقعات پر اپنا شدید ردعمل دیتے ہوئے اسے سنگین سیاسی اور فوجی اشتعال انگیزی قرار دے چکا ہے۔

The post امریکا ہماری ملکی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی کررہا ہے، چین appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IX9wPB
via IFTTT

قطب نما کے بغیر آج کعبۃ اللہ کی درست سمت معلوم کی جاسکے گی ( ZIA MUGHAL)

0 comments
 کراچی: 

سورج آج دوپہر 2 بج کر 18 منٹ پر عین خانہ کعبہ کے اوپر ہوگا جس کی وجہ سے قبلے کی درست سمت معلوم کی جاسکے گی۔

ماہرین فلکیات کے مطابق ہر سال کی طرح اس سال بھی آج سورج دوپہر 2 بج کر 18 منٹ پر خانہ کعبہ کی بالکل سیدھ میں آجائے گا جس کی وجہ سے کوئی بھی شخص قطب نما استعمال کیے بغیر قبلہ کی درست سمت کا تعین کرسکے گا۔

واضح رہے کہ سال میں 2 مرتبہ سورج کعبۃ اللہ کے عین اوپر سے گزرتا ہے۔ آج 28 مئی کے بعد 15 جولائی کو بھی سورج دوبارہ کعبہ کے عین اوپرسے گزرے گا۔

The post قطب نما کے بغیر آج کعبۃ اللہ کی درست سمت معلوم کی جاسکے گی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2shnUvd
via IFTTT

وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی ملاقات، نگراں وزیراعظم کے نام پرڈیڈ لاک ختم ( ZIA MUGHAL)

0 comments

 اسلام آباد: وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے درمیان نگراں وزیر اعظم کے معاملے پر ڈیڈ لاک ختم ہوگیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے درمیان نگراں وزیراعظم کے معاملے پر وزیر اعظم آفس میں ملاقات ہوئی جس میں نگراں وزیراعظم کے نام پر مشاورت کی گئی۔

ذرائع کے مطابق حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگراں وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے ہوگیا ہے تاہم وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور خورشید شاہ کچھ دیر بعد مشترکہ پریس کانفرنس کریں گے۔

وزیراعظم سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ نگراں وزیراعظم کے نام پرڈیڈ لاک ختم ہو گیا ہے ہم ثابت کریں گےکہ پارلیمنٹ بالادست ہے اور پارلیمنٹ میں ہی فیصلے ہوتے ہیں،کوشش کر رہے ہیں نگراں وزیراعظم کے نام پراتفاق ہو جائے، اس وقت معاملہ ففٹی ففٹی ہے، وزیر اعظم کے ساتھ میری دوپہر ساڑھے 12 بجے پریس کانفرنس ہے، اس سے قبل ایک اور ملاقات ہوگی، انشاء اللہ نگراں وزیراعظم کے نام پراتفاق ہوجائے گا۔

اس سے قبل وزیراعظم شاہدخاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشیدشاہ کے درمیان نگراں وزیراعظم کے معاملے پر متعدد ملاقاتیں ہوئیں تاہم نگراں وزیر اعظم کے لیے کسی نام پر اتفاق رائے نہ ہوسکا اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس معاملے پر ڈیڈلاک برقرار رہا۔

پیپلزپارٹی کی جانب سے نگراں وزیراعظم کے لیے سابق چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف اور سابق سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی، تحریک انصاف کی جانب سے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی، عبدالرزاق داؤد اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین جب کہ حکومت نے جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی اور جسٹس (ر) ناصرالملک کے نام تجویز کیے ہیں۔

واضح رہے کہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں نگراں وزیراعظم کے لیے اتفاق نہ ہوا تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں جائے گا، وزیراعظم اور خورشید شاہ پارلیمانی کمیٹی میں دو دو نام بھیجیں گے، پارلیمانی کمیٹی چار ناموں میں سے نگراں وزیراعظم طے کرے گی، پارلیمانی کمیٹی بھی طے نہ کر سکی تو فیصلے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا۔

The post وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی ملاقات، نگراں وزیراعظم کے نام پرڈیڈ لاک ختم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2sefWTs
via IFTTT

فیس بک کا ویڈیو مانیٹرنگ کیلئے اپنی مائیکروچپس خود بنانے کا اعلان ( ZIA MUGHAL)

0 comments

پیرس: فیس بک نے اپنی الیکٹرونک چپس اور پروسیسر بنانے کا اعلان کیا ہے جس کے ذریعے حقیقی وقت میں فیس بک کی ویڈیو کو بہت مؤثر انداز میں فلٹر کرکے اس میں کسی دہشت گردی، خودکشی، قتل اور دیگر جرائم کا پتا لگانا ممکن ہوگا۔

فیس بک سے وابستہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ماہر یان لی کن نے بتایا کہ اس وقت کسی ویڈیو کا مانیٹر کرنے کےلیے بہت وقت اور بہت زیادہ پروسیسنگ قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی فیس بک ویڈیو میں براہِ راست خودکشی یا قتل جیسے جرم کررہا ہے تو ہم اسے فوری طور پر بند کرنا چاہتے ہیں۔

یان لی کن پیرس میں منعقدہ ایک کانفرنس میں اس کا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کمپنی پہلے ہی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے صارفین میں خودکشی کے رحجان پر نظر رکھنے کا کام کررہی ہے۔

فیس بک پر قتل اور خودکشی کی براہِ راست ویڈیوز نشر ہونے کے کئی واقعات براہِ راست نشر ہوچکے ہیں جو ادارے کے لیے دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔ اب فیس بک نئی الیکٹرونک چپس کے ذریعے اس عمل کو مزید بہتر انداز میں روکنے کے قابل ہوسکے گا۔

انٹیل، سام سنگ، اور این ویڈیا جیسے ادارے ایک عرصے سے اے آئی چپس استعمال کررہے ہیں۔ لی کن نے بتایا کہ چپس کے ساتھ ساتھ متعلقہ ہارڈویئر میں بھی تبدیلی کی جائے گی جن میں سرورز، مدر بورڈز اور ڈیٹا سینٹرز تک رابطہ کرنے والی چپس بھی شامل ہیں۔

ٹیکنالوجی تجزیہ نگاروں نے یہ بھی بتایا کہ ہے کہ آکیولس ہیڈ سیٹ کو بہتر بنانے کےلیے بھی فیس بک اپنی ذاتی مائیکروچپس پر کام کررہی ہے۔ اسی طرح خاص اے ایس آئی سی چپس کرپٹوکرنسی کی تلاش میں استعمال ہورہی ہیں۔

فیس بک نے دو اسمارٹ اسپیکرز کا اعلان بھی کیا تھا جنہیں فائیونا اور الوہا کے نام دے گئے تھے۔

The post فیس بک کا ویڈیو مانیٹرنگ کیلئے اپنی مائیکروچپس خود بنانے کا اعلان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2GXq2NT
via IFTTT

لاک نیس عفریت کا پتا چلانے کیلئے جھیل کا ڈی این اے ٹٰیسٹ کرنے کا فیصلہ ( ZIA MUGHAL)

0 comments

اسکاٹ لینڈ: اسکاٹ لینڈ میں 37 کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ایک جھیل ہے جسے لاک نیس کہا جاتا ہے۔ اس جھیل کی وجہ شہرت ایک اور پراسرار شے بھی ہے جسے لاک نیس کا عفریت کہا جاتا ہے۔ لمبی گردن والی اس مخلوق کو اب تک سینکڑوں افراد نے دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے تاہم اب تک اس کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں مل سکا ہے اور اسی بنا پر اب جھیل کے 300 مقامات پر ڈی این اے نمونے لیے جائیں گے۔

جھیل کی اس فرضی مخلوق کو ’’نیسی‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

سرخی کے عین نیچے دی گئی تصویر آپ نے کئی بار دیکھی ہوگی جس میں لاک نیس کا عفریت صاف دکھائی دے رہا ہے تاہم اس تصویر کو جعلی قرار دیا جاچکا ہے۔ اب نئے منصوبے کے تحت جھیل میں نامیاتی مواد سے ڈی این اے نکالا جائے گا جس کے نگراں یونیورسٹی آف اوٹاگو نیوزی لینڈ کے پروفیسر نیل گیمل ہیں۔

پروفیسر کے مطابق جھیل کے 300 مقامات اور مختلف گہرائیوں سے جلد، پروں، ان کے چھلکوں اور پیشاب وغیرہ کے ڈی این معلوم کرکے ان کا موازنہ موجودہ ڈیٹابیس سے کیا جائے گا اور اگر کوئی نیا ڈی این اے ہاتھ لگا تو اس بنا پر کسی نئی مخلوق کے ڈی این اے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

پروفیسر نیل نے صاف کہا ہے کہ وہ نیسی پر یقین نہیں رکھتے تاہم وہ اس مفروضے پر تحقیق ضرور کرنا چاہیں گے۔ بعض افراد کہتے ہیں کہ یہ وہ قدیم ڈائنوسار پیلیسیوسار ہے جو اب تک زندہ ہے۔ اب تک سینکڑوں افراد نے اس مخلوق کو دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن ثبوت میں بہت کم تصاویر پیش کی ہیں۔

تاہم سائنسدانوں نے کہا ہے کہ اگر نیسی کا ڈی این اے نہ بھی ملا تو لوگ پھر بھی اس پر یقین کرنا نہیں چھوڑیں گے کیونکہ نیسی کو حقیقت ماننے والے افراد پہلے ہی کہتے رہے ہیں کہ نیسی خلائی مخلوق بھی ہوسکتی ہے اور ایسی خلائی مخلوق جس کا ڈی این اے کسی ٹیسٹ سے معلوم نہیں کیا جاسکتا ہے یا پھر نیسی غار میں رہتا ہے اور کبھی کبھار باہر آتا ہے۔

The post لاک نیس عفریت کا پتا چلانے کیلئے جھیل کا ڈی این اے ٹٰیسٹ کرنے کا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Jb9UNN
via IFTTT

تمباکو نوشی جسمانی طور پر کمزور بھی کرتی ہے ( ZIA MUGHAL)

0 comments

 لندن: سگریٹ نوشی درجنوں لحاظ سے جسم کےلیے نقصاندہ ہے اور اب تازہ خبر یہ ہے کہ سگریٹ نوشی سے خون میں آکسیجن کی کمی ہوتی ہے اور اہم غذائی اجزا پٹھوں اور عضلات تک نہیں پہنچ پاتے جس کا نتیجہ جسمانی کمزوری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

تمباکو نوشی سانسوں کے امراض کے علاوہ پورے جسم کے پٹھے کمزورکرتی ہے۔ اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تمباکو نوشی براہِ راست ٹانگوں میں خون کی رگیں کم کرتی ہے اور اس سے پٹھے کمزور پڑنے لگتے ہیں۔

امریکہ، برازیل اور جاپانی ماہرین نے اپنی نوعیت کی یہ پہلی تحقیق کی ہے جس میں انہوں نے سگریٹ نوشی کے پٹھوں پر منفی اثرات کو نوٹ کیا ہے۔ سائنسدانوں نے 8 ہفتوں تک چوہوں کو تمباکو نوشی کی کیفیت میں رکھا جس میں چوہوں میں تمباکو کا دھواں داخل کیا گیا یا پھر ان میں سگریٹ کے دھویں سے بھرپور ایک محلول شامل کیا گیا تھا۔

آٹھ ہفتوں کے بعد سگریٹ پینے والے چوہوں کی پنڈلیوں میں خون کی باریک رگوں  (کیپلریز) سے پٹھوں کی تعداد 34 فیصد تک کم ہوگئیں۔ خون کی باریک رگیں پٹھوں کے اندر سماکر وہاں خون اور دیگر اہم اجزا پہنچاتی ہیں اور رگوں کے غائب ہونے سے خون، آکسیجن اور غذائی اجزا وہاں نہ پہنچ سکے اور ان کے پیروں کے پٹھے کمزور ہونے لگے۔

ڈاکٹروں کے مطابق پٹھوں اور ان سے وابستہ رگوں میں 43 فیصد تک کمی کا مطلب یہ ہے کہ چوہے جلد تھکاوٹ، تکلیف اور کمزوری کے شکار ہوتے ہیں اور یہ صرف اور صرف 8 ہفتوں کو سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہوا۔ تاہم ماہرین یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ سگریٹ کا کونسا مضر کیمیکل اس کی وجہ بنا ہے کیونکہ تمباکو میں ہزاروں مضر اجزا اور کیمیکلز موجود ہوتے ہیں۔

اپنی نوعیت کا یہ پہلا تحقیقی مطالعہ ہے جس سے ظاہر ہوا ہے کہ تمباکو نوشی پٹھوں کے عضلات کےلیے بھی بہت خطرناک ہوتی ہے۔

The post تمباکو نوشی جسمانی طور پر کمزور بھی کرتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2kvYFBW
via IFTTT

خیبرپختونخواہ حکومت کی آئینی مدت کا آج آخری دن ( ZIA MUGHAL)

0 comments

پشاور: تحریک انصاف کی آج آئینی مدت ختم ہوجائے گی جب کہ نگران وزیراعلی کی نامزدگی کا اعلان بھی آج متوقع ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق خیبرپختونخواہ حکومت کی آئینی مدت آج رات 12 ختم ہورہی ہے اورحکومت کے آخری روز اسمبلی کا الوداعی اجلاس بھی آج ہورہا ہے۔ نگران وزیراعلی کے لیے منظورآفریدی کے نام پراتفاق ہوا ہے تاہم اسمبلی اجلاس میں دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اعتراضات پر وزیراعلی نے نگران وزیراعلی کے معاملے پرمشاورت کی دعوت دے دی ہے جس کے بعد نگران وزیراعلی کی تقرری کا اعلان بھی آج متوقع ہے.

اپوزیشن لیڈرمولانا لطف الرحمان کے مطابق وزیراعلی کے ہمراہ آج پریس کانفرنس کی جاسکتی ہے جس میں نگران وزیراعلی کا اعلان کریں گے اوراس میں واضع ہوجائے گا کہ کیسے نگران وزیراعلی کے نام پراتفاق کیا گیا۔ دوسری جانب وزیراعلی پرویزخٹک اوروزراء سرکاری رہائش گاہوں سے اپنے سامان منتقل کرچکے ہیں۔

واضع رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت دوسری حکومت ہے جو اپنی آئینی مدت پوری کررہی ہے اس سے قبل اے این پی اورپیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی تھی۔

The post خیبرپختونخواہ حکومت کی آئینی مدت کا آج آخری دن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IWdyrH
via IFTTT

فاٹا کا کے پی میں انضمام خوش آئند؛ قبائلی عوام کی محرومیاں ختم کرنے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے!! ( ZIA MUGHAL)

0 comments

24مئی بروز جمعرات قومی اسمبلی میں فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کیلئے 31 ویں آئینی ترمیم دوتہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی جسے مختلف حلقوں کی جانب سے خوش آئند قرار دیا جارہا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اس اقدام سے نہ صرف فاٹا کے عوام کے دیرینہ مسائل حل ہوں گے بلکہ ان کی محرومیوں کا خاتمہ بھی ہوجائے گا۔ اس اہم قومی پیش رفت پر ’’ایکسپریس فورم پشاور‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف سیاسی رہنماؤں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

سردارحسین بابک (صوبائی جنرل سیکرٹری وپارلیمانی سیکرٹری عوامی نیشنل پارٹی)

فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام تاریخی اقدام اور خوشی کا موقر ہے۔ اس کے پیچھے برسوں کی عملی اور مسلسل جدوجہد شامل ہے۔ اس حوالے سے اراکین قومی اسمبلی نے سب سے زیادہ جدوجہد کی۔ ہمارے بزرگوں نے ہمیشہ فاٹا اور قبائلی عوام کے لیے آواز بلند کی اور اس مقصد کے لیے صوبائی اسمبلی میں قراردادیں بھی منظور کرائی گئیں۔ فاٹا کے انضمام کے بعد خیبرپختونخوا بہت بڑا صوبہ بن گیاہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور اس میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی بے شمار مواقع میسر ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ قانون سازی کے بعد انضمام کے حوالے سے مرکزی و صوبائی حکومتیں دیگر تمام انتظامات بھی کریں گی جو ہنگامی بنیادوں پر ہونے چاہئیں کیونکہ فاٹا کے لوگوں نے بڑی مشکلات جھیلی ، جانی ومالی نقصان برداشت کیا اور اب بھی لاکھوں قبائلی ملک کے مختلف حصوں میں اپنی زندگی بسرکررہے ہیں۔ انضمام کے بعد عارضی طور پر دیگر مقامات پر مقیم یہ لوگ بھی اپنے علاقوں کو واپس آنا شروع ہوجائیں گے لہٰذا اب حکومتوں کو بھی انتظامی امور کے حوالے سے فوری طور پر اقدامات شروع کردینے چاہئیں۔ ملک کے اندر اور باہر جتنے بھی پختون مقیم ہیں انہیںچاہیے کہ یہاں سرمایہ کاری کو ترجیح دیںتاکہ جہالت ،بے روزگاری و دیگرمسائل کا خاتمہ ہواور صوبے میں معاشی ترقی ہوسکے۔ جب صوبہ سرحد کا نام تبدیل ہورہاتھا تو اس وقت یقینی طور پر ایک سے زائد نام ہمارے سامنے تھے تاہم خیبرپختونخوا کے نام کا انتخاب اسی وجہ سے کیاگیا تاکہ مستقبل میں فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی راہ ہموار کی جاسکے اور اب ہماری جدوجہد بلوچستان کے پختونوں کو یکجا کرنے کے لیے ہے۔ فاٹا، قیام پاکستان سے ہی بفر زون کی شکل میں موجود رہاہے ،جہاں بندوق، منشیات اور مفروروں کو آزادی رہی جو اس خطے کو تباہ کرنے کی سازش تھی لیکن اب انضمام کے بعد قبائلی علاقے خیبرپختونخوا کے اضلاع اور تحصیلوںمیں تبدیل ہوجائیں گے،وہاں پولیس کا نظام ہوگا، تھانے و عدالتیں قائم ہونگی اور انتظامی گورننس کا ڈھانچہ قائم کیاجائیگاجس سے ترقی کا پہیہ چل پڑے گا۔ پاکستان اور افغانستان دو الگ اور آزاد ریاستیںہیں لہٰذا دونوں کو ہی ایک دوسرے کی خود مختاری تسلیم کرنا ہوگی، صرف اسی صورت میں ہمارے مسائل حل ہونگے، اعتماد کی فضا بحال ہوگی ، دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کو فروغ ملے گا اور دہشت گردی سمیت دیگر مسائل پر قابو پایا جاسکے گا۔ فاٹا کے انضمام پر افغانستان کا اعتراض بے معنی ہے۔ ہمارے بعض سینئر حلقوں کی جانب سے فاٹا کے انضمام کی مسلسل مخالفت سمجھ سے بالاترہے۔عرصہ دراز سے اربوں روپے قبائلی عوام کے نام پر آرہے ہیں جو کبھی فاٹا سیکرٹریٹ اور کبھی اسلام آباد میں بیٹھے بااثر افراد کھا جاتے ہیں۔ اس لیے اب فاٹا کے حوالے سے فیصلہ سازی میں عوامی شرکت ضروری ہے۔ فاٹامیں آئندہ سال صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن کرانے سے یقینی طور پر خیبرپختونخوا میں حکومت پر اثرتو پڑے گا لیکن جس طرح تمام سیاسی جماعتوں نے فاٹا کو ضم کرنے کے معاملے پر اتفاق کا مظاہرہ کیاہے اسی طرح وہ اس موقع پر بھی معاملات کو اتفاق رائے سے سنبھالیں گی تاکہ کوئی بحران پیدانہ ہو۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو مل کر لائحہ عمل طے کرنا چاہیے تاکہ فاٹاانضمام کے بعد خیبرپختونخوا میں ترقی کا عمل تیز سے تیز تر ہو تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ اس سارے عمل میں عوام شامل ہوں کیونکہ عوام کی شمولیت سے حقیقی معنوں میں ترقی ہوگی اور کھربوں روپے ضائع نہیں ہوں گے۔ اگر ایک مربوط حکمت عملی مرتب کی جائے تو باجوڑ سے لے کر وزیرستان تک تمام علاقوں میں ترقی ہوگی۔ جو لوگ فاٹا کے معاملے پر ریفرنڈم کی بات کرتے ہیں وہ یہ دیکھیں کہ اے این پی ،تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی ،قومی وطن پارٹی اور مسلم لیگ ایک جانب جبکہ صرف دو جماعتیں الگ کھڑی ہیں تو کیا یہ ریفرنڈم نہیں؟ سوال یہ ہے کہ جے یوآئی کی احتجاجی کال پر کتنے لوگ باہر نکلے؟ انہیں چاہیے کہ فاٹا پر رحم کریں تاکہ وہاں کے مصیبت زدہ لوگ ترقی کرسکیں ، وہاں کے تباہ حال تعلیمی نظام ،شعبہ صحت و دیگرشعبہ جات کا نظام درست کیا جاسکے۔ جے یوآئی نے مرکزی حکومت میں رہتے ہوئے بہت ظلم کیا کہ فاٹا کے انضمام کو تاخیر کا شکار کرایا ورنہ یہ کام کافی پہلے ہوجاتا۔

صاحبزادہ ہارون الرشید (سابق رکن قومی اسمبلی‘ نائب امیر جماعت اسلامی و سابق امیر فاٹا )

یقینی طور پر یہ تاریخی موڑ ہے کہ آج فاٹا خیبرپختونخوا میں ضم ہورہا ہے ،یہ پاکستان کے27 ہزار مربع کلو میٹر رقبہ اور 50 لاکھ کی آبادی پر مشتمل علاقہ ہے جو 70 برسوں سے مشکل میں تھا مگر اب وہاں کے لوگوں کو آئینی ،سیاسی ،سماجی اور قانونی حقوق ملیں گے۔ فاٹا اب خیبرپختونخوا کا حصہ بن چکا ہے، اب فاٹا میں امن قائم ہوگا اورخوشحالی آئے گی جو تمام سیاسی جماعتوں کی طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ ہمارے زمانہ طالبعلمی میں سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد فاٹا کے حوالے سے جدوجہد کیا کرتے تھے ،انہوںنے1985ء میں فاٹا کے حوالے سے آواز اٹھائی جب فاٹا میں سیاست شجر ممنوع کی حیثیت رکھتی تھی۔ انہوں نے باجوڑ سے وزیرستان تک دورے کیے جس کی وجہ سے انہیں جیلوں میں بھی جانا پڑا اور وہ نظر بند بھی ہوتے رہے۔ قاضی حسین احمد نے1997ء میں باجوڑ کے خار بازار چوک میں جلسہ منعقد کیااور یہ وہی جدوجہد ہے جو آج کامیاب ہوئی اور اب تنازعہ بھی ختم ہوگیاہے۔ جو لوگ فاٹا کے انضمام کے مخالف تھے انہیں بھی اب یہ فیصلہ تسلیم کرلینا چاہیے کیونکہ فاٹا کے لوگوں نے 70 برسوں کے دوران بہت سی مشکلات دیکھی ہیں ۔ فاٹا کو خبیرپختونخوا میں ضم کرنے کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کا اتفاق ہے اسی لیے جس طرح تمام سیاسی جماعتوں نے مشترکہ طور پر فاٹاانضمام سے متعلق بل کی منظوری دی، اسی طرح مرکزی و صوبائی حکومتیں بھی اسے سپورٹ کریںگی۔ فاٹا کی شمولیت سے خیبرپختونخوا مضبوط ہواہے، اب این ایف سی ایوارڈ کے تحت خیبرپختونخوا کا حصہ بھی بڑھ جائے گا اور مرکز کی جانب سے فاٹاکے ان علاقوں کو جو اب خیبرپختونخوا میں ضم کیے جارہے ہیں کے لیے الگ سے 100ارب روپے بھی دیئے جائیں گے۔ اس وقت ضرورت شفافیت کی ہے تاکہ بھرپور طریقے سے فاٹا میں ترقی کا عمل شروع ہوسکے۔ ہر سیاسی جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ایشو پر اپنا ایک مخصوص موقف رکھے لیکن جمہوریت اور پارلیمانی نظام کے بھی کچھ تقاضے ہیں کہ جب پارلیمنٹ جمہوری طریقے سے متفقہ یا کثرت رائے سے فیصلہ کر لیتی ہے تو پھر سب کو اسے تسلیم کرلینا چاہیے اور انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ اصل مسئلہ قبائلی عوام کی محرومیوں کا ازالہ کرنا ہے لہٰذا سب مل کر کام کریں۔ فاٹا انضمام کوئی حلال، حرام کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک انتظامی مسئلہ تھا جو آئینی طریقے سے حل ہوگیا لہٰذا اسے تسلیم کرنے میں کسی کو کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے ۔

عبدالجلیل جان (صوبائی سیکرٹری اطلاعات جمعیت علماء اسلام،ف)

فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا بل عجلت میں لایاگیاہے۔ ہم نے کبھی بھی انضمام کی مخالفت نہیں کی بلکہ ہمارا ہمیشہ سے موقف رہاہے کہ جو بھی فیصلہ کیاجائے اس کے بارے میں فاٹا کی عوام سے رائے لی جائے۔ 150 برس قبل سیاہ دن تھا جب ایف سی آر کا کالاقانون قبائلی عوام پر مسلط کیاگیا۔ میرے نزدیک یہ ایک اور سیاہ دن ہے جب ڈنڈے کے ذور پر قبائلی عوام کو خیبرپختونخوا میں ضم کیاگیااوران کی رائے کودبادیاگیاحالانکہ اگر عوام کی رائے لی جاتی تو اس سے بہتری آتی۔ سرتاج عزیز کمیٹی نے 50لاکھ میں سے دو ہزار افراد کی رائے لی تو اسے کسی بھی طور قبائلی عوام کی رائے نہیں کہا جاسکتا۔ وزیر اعظم اور وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر ہمارے ساتھ جس معاہدے پر دستخط کیے تھے اس میں سب سے پہلے فاٹا سے 40ایف سی آرکاخاتمہ شامل تھا۔ تعلیم وصحت کے اداروں کا قیام اور جامع پیکیج جبکہ انضمام کے حوالے سے یہ طے پایاتھا کہ اگر ایسا کرنا مقصود ہواتو اس صورت میں پانچ سالوں کے اندر وہاں کی عوام کی رائے لیتے ہوئے اسے شامل کیاجائیگا،سوال یہ ہے کہ وہ معاہدہ کہاں چلاگیا؟آج جو سیاستدان فاٹا انضمام پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں وہ ذرا خیبر پختو نخوا میں پہلے سے شامل کوہستان ،بٹ گرام ،شانگلہ ،ٹانک اور دیگر پسماندہ علاقوں پر نظر دوڑائیںکہ ان کی حالت کیسی ہے۔ صوبہ اس وقت 375ارب کا مقروض ہے۔ ایسے میں فاٹا کا انضمام ایسا ہی ہے کہ جیسے اسے مرکز کی غلامی سے نکال کر صوبہ کی غلامی میں دے دیاجائے۔ ہم تو حیران ہیں کہ یہ فیصلہ اتنی عجلت میں کیوںکیاگیاہے؟پنجاب میں سرائیکی صوبہ کے قیام کا مطالبہ موجود ہے ،بہاولپورصوبہ کے قیام کا مطالبہ بھی موجود ہے،سندھ میں الگ صوبہ کے قیام کی باتیں ہو رہی ہیں اور ہمارے یہاں صوبہ ہزارہ کے سلسلے میں تحریک بھی موجودہے لیکن اس جانب توجہ نہیں دی جارہی ۔ سوال یہ ہے کہ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے سے پختونوں کی نشستوں میں اضافہ ہواہے یا کمی؟سینٹ اور قومی اسمبلی میں ان کی نشستیں تو کم ہوگئی ہیں،اگر فاٹا کو الگ صوبہ بنایاجاتاتو اس صورت میں اس کا الگ گورنر اور وزیراعلیٰ ہوتا،الگ سیکرٹریٹ اور ادارے ہوتے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔  صوبہ کے اراکین وزیراعلیٰ سے بھیک مانگتے رہتے ہیں اور آنے والے وقتوں میں فاٹا کے نمائندے بھی ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہونگے۔ باجوڑ اور وزیرستان کو فنڈز کیسے ملیں گے۔ افسوس ہے کہ پہلے انگریز کا قانون نافذ تھا اور آج واشنگٹن کا قانون مسلط کیا جارہا ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 247 کے تحت یہ قبائلی عوام کا حق ہے کہ ان سے پوچھا جاتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں لیکن عوام کی رائے پر قدغن لگادی گئی اور واشنگٹن کے فیصلے مسلط کیے جارہے ہیں۔ امریکی سفارتخانے کی جانب سے ہمارے فاٹا کے نمائندوں سے رابطہ کیاگیا کہ اس مسئلے پر ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ یہ بھی یاد رکھاجائے کہ امریکہ نے 1995ء میں فاٹا کوخیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی بات کی تھی،اقوام متحدہ بھی انضمام کی باتیں کرتارہاہے اس لیے یہ تمام سیاسی جماعتیں جو آج انضمام کی حامی ہیںوہ لاشعوری طور پر ان کے ایجنڈے پر چل رہی ہیں۔ جب قومی سلامتی کمیٹی گلگت بلتستان کوپانچ سال تک چھوٹ دے سکتی ہے تو فاٹا کو کیوں نہیں؟ فاٹا کی آڑمیں پاٹا کا سٹیٹس بھی ختم کردیاگیا۔ مرکز اب فاٹا کو فنڈز فراہم نہیں کررہا تو انضمام کے بعد وہ فنڈز کیسے دیگا جس کا وعدہ کیاجارہاہے ۔ فاٹا سے 21نشستیں ہوںگی تو اس کا مطلب ہے کہ وزیراعلیٰ فاٹا سے نہیں آسکے گا تو پھر فائدہ کیا۔ میرے نزدیک خوشی کے بجائے اس پر ماتم کرنا چاہیے۔ ترجیح ایف سی آر کا خاتمہ اور اصلاحات تھی لیکن اس کی جگہ انضمام نے لے لی۔ ایم ایم اے کی سطح پر فیصلہ کیاگیاہے کہ جے یو آئی اورجماعت اسلامی یہ معاملہ زیر بحث نہیں لائے گی تاہم اگر صوبہ میں ایم ایم اے کی حکومت بنتی ہے تو ہم یقینی طور پر فاٹا کی عوام سے پوچھیں گے کہ وہ کیا چاہتے ہیں ،خیبرپختونخوا کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر الگ صوبہ چاہتے ہیں۔ صورتحال تو یہ ہے کہ خود ایک شاہ جی گل آفریدی کے علاوہ فاٹا کے ارکان نے قومی اسمبلی میں فاٹابل کے معاملے پر ووٹ نہیں ڈالاجس سے واضح ہوجاتاہے کہ وہ اپنی عوام کا مزاج سمجھ رہے ہیں کہ عوام ایسا نہیں چاہتی۔

طارق احمد خان (سیکرٹری اطلاعات قومی وطن پارٹی )

قومی وطن پارٹی نے اپنے قیام کے بعد ہمیشہ پختونوں اور خصو صاً قبائل کی ترقی و حقوق کے لئے جدوجہد کی ہے۔ آج اگر وفاقی حکومت نے فاٹا کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا تو اس میں قومی وطن پارٹی کا بھی حصہ ہے۔ میں فاٹا سمیت پوری قوم کو اس تاریخی موقع پر مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ہمارے بزرگوں و نئی نسل کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں آج ہمیں یہ تاریخی دن دیکھنانصیب ہوا ہے تاہم اب بھی تھوڑا اورکام باقی ہے۔ ہمیں اس اہم موقع پر بلوچستان کے پختونوں کو بھی نظر انداز نہیںکر نا چاہیے،انہیں بھی ساتھ ملانے کی بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے قومی وطن پارٹی کا موقف بہت واضح ہے کہ بلوچستان کے قبائل کو بھی ایک ایڈمنسٹریشن کے نیچے لایا جائے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ایک مثبت اقدام اٹھایا گیا جس کے آنے والی نسلوں پر اچھے اثرات مرتب ہو ںگے ۔ قبائل نے ایک طویل جدوجہد کے بعد اپنا حق حاصل کیا ہے حالانکہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی انگریز کے نافذکردہ کالے قانون ایف سی آر کو ختم کر دیا جاتا تو قبائل کو اتنی صعوبتیں برداشت نہ کرنا پڑتیں۔ جن عناصر نے فاٹا کے عوام کو آرٹیکل ون کے تحت پاکستان کا شہر ی ہونے کے باوجود بھی ملک سے الگ تھلک رکھا انہوں نے بہت زیادتی کی ہے۔ آج بھی جو لوگ ریفرنڈم کے بات کرتے ہیں یا ایک پختون قوم کو مختلف قبائل کا نام دیکر ان کی جغرافیائی حیثیت کو مد نظر رکھ کر علیحدہ صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں وہ پختونوں وخصو صی طور پر قبائل کے خیر خواہ نہیں ہیں تاہم اب ان لوگوں کی سازشیں ناکام ہو گئی ہیں اور فاٹا خیبر پختونخوا کا حصہ بن گیا ہے۔ جو لوگ اس کو غیروں کے ایجنڈے کی تکمیل قرار دے رہیں وہ قبائل کیساتھ مخلص نہیں ہوسکتے ۔ فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام، جمہوری و پارلیمانی طریقہ کار کے مطابق ہوا ہے لیکن جے یو آئی نے اب بھی اس کو ایشو بنایا ہو ا ہے حالانکہ انہیں چاہیے کہ فاٹا کے عوام اور ملک کے وسیع ترمفاد میں اس فیصلہ کی بھر پور حمایت کریں تاکہ اس پسماندہ علاقے کو ترقی کی راہ پر گامزان کیا جاسکے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آج وہ لوگ بھی انضمام کے خلاف بیانات دے رہے ہیں جو کل تک نعرہ لگاتے رہے کہ ’’چترال سے بولان تک‘‘ تمام قبائل ایک ہیں ۔ دہشت گردی کی جنگ اور سالہا سال سے محروم رکھے جانے کے باعث فاٹا کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے یہاں پر سابق انتظامیہ اور ملکان کی بدعنوانیوںاور زیادتیوں کی وجہ سے صحت ، تعلیم اور زندگی کے دیگر ا ہم شعبوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کے باعث قبائل غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی انتظامیہ فوری طور پر حرکت میں آکر فاٹا کے محروم علاقوں کی بحالی کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کا آغاز کر دے تاکہ ان علاقوں کو صوبہ کے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لایا جاسکے۔ علاوہ ازیں اہم بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے صاحب حیثیت پختونوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبہ اور خصو صی طور پر قبائل کے حالات زندگی بہتر بنانے کے لئے یہاں پر سرمایہ کاری کریں تاکہ یہ پسماندہ صوبہ جو اب بہت بڑا صوبہ بن گیا ہے، ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

ضیاء اللہ آفریدی (سابق صوبائی وزیرورہنما پاکستان پیپلزپارٹی)

فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام ایک طویل جدوجہد کا نام ہے جس میں سب سے زیادہ حصہ پاکستان پیپلزپارٹی کا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی فاٹا پر بات ہو گی تو پاکستان پیپلزپارٹی کا نام ضرورت آئے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی جدوجہد رنگ لے آئی ہے اور آخر کار فاٹا خیبر پختونخوا کا حصہ بن گیا ہے۔ قبائلی عوام کو انکے حقوق دلوانے کیلئے ملک میں سب سے پہلے عملی جدوجہد کا آغاز ذو الفقار علی بھٹو نے1973 ء کا آئین بناتے وقت کیا تھا اور انکی جانب سے زرمک کالج کا قیام و دیگر عملی کوششیں تاریخ کا حصہ ہیں۔بعدازاں بے نظیر بھٹو نے چالیس ایف سی آر کے خلاف عدالت میں رٹ دائر کی۔ ان کے دور میں فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لئے عملی جدو جہد کی گئی اور پیپلز پارٹی کے سابق حکومت میں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کو فاٹا تک توسیع دے کر فاٹا انضمام کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ یہ قبائلی عوام اور ملک بھر کے لئے انتہائی خوش آئند بات ہے کہ فاٹا اب خیبر پختونخوا کا حصہ بن گیا ہے۔ یہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا اور فاٹا کے عوام کو کرپٹ انتظامی نظام سے نجات ملے گی جو فاٹا میں تمام مسائل کی جڑ تھا۔اس بات میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ فاٹا کے انضمام سے صوبہ پر کوئی بوجھ پڑے گا بلکہ تمام سیاسی جماعتوںکی اب یہ ذمہ داری بن گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں کی ترقی کے لئے کام کریں اور عوام کی جانب سے بھی ان پر دباؤ ہو گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس فیصلہ کی حمایت میں کھڑی ہو جائیں کیونکہ اس سے ہماری نسلوں کا مستقبل وابستہ ہے۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ فاٹا دہشت گردوں کی آماجگاہ ہے تو یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ یہاں پر تعلیم کا بندوبست نہیں ہے اور نہ کاروبار و ملازمتوں کے مواقع موجود ہیں تاہم اب جبکہ فاٹا صوبہ کا حصہ بن گیا تویہاں پر نہ صر ف انتظامیہ اپنا سسٹم بنائے گی بلکہ صحت ،تعلیم و دیگر انفراسٹرکچر بھی بن جائے گا۔ اگر چہ ابتدائی طور پر مشکلات پیش آئیں گی تاہم جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا ان مسائل پر قابو پالیا جائے گا۔ میں نے قومی مفاد کی خاطر سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتمام واپس لینے کا فیصلہ کیا ، پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور پارٹی سربراہ آصف علی زرداری کی ہدایت پر میں نے تحریک عدم اعتماد واپس لی ہے تاکہ خیبر پختونخوا میں فاٹا کے انضمام کا بل بھاری اکثریت سے پاس کیا جاسکے۔

The post فاٹا کا کے پی میں انضمام خوش آئند؛ قبائلی عوام کی محرومیاں ختم کرنے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے!! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ITAn39
via IFTTT

موسم گرما میں شاداب چہرہ، کیسے؟ ( ZIA MUGHAL)

0 comments
چہرے کی جلد ہر موسم میں مختلف تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔ اس کی خوب صورتی پر گرمی کا موسم  بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔
اس موسم میں چہرے کی نرم وملائم جلد کا خیال رکھنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔ چہرے کا حسن اور تازگی برقرار رکھنے کے لیے بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس موسم میںخواتین کی جلد اور بالخصوص چہرے کی جلد کھردری ہوکر اپنی چمک اور کشش کھو بیٹھتی ہے،  کیوں کہ چہرے کی نازک جلد گرمی کی سختی برداشت کرنے میں ناکام رہتی ہے  اور جلد ہی اس کے سامنے ہمت ہار جاتی ہے۔
چہرے کی اجلی رنگت برقرار رکھنے کے لیے مختلف بیوٹی ٹپس کا استعمال کرتے رہنا بہت ضروری ہے۔ ہر گھر میں ہلدی اور لیموں تو عام مل جاتے ہیں۔ ان کے مکسچر کا استعمال بہت مفید ہے۔ ایک تو یہ چہرے کی رنگت کو نکھارتا ہے اور دوسرے اس کے مساج سے تھریڈنگ کی بھی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ بیسن بھی ہر گھر میں موجود ہوتا ہے، اس کو آٹے میں ملا کر جلد پر لگانا بہت کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ یہ جلد کی کلینزنگ میں اہم کردار ادا کرتا  ہے۔
موسم گرما میں خواتین موسم کی شدت سے تنگ آجاتی ہیں وہ اپنے لباس ،چہرے اور خریدار ی کو بری طرح نظر انداز کرتی ہیں۔ اس بے احتیاطی کی وجہ سے ان کے چہرے کی جلد نہ صرف نرمی اور ملائمت سے محروم ہو جاتی ہے، بلکہ ان کی شخصیت بھی کچھ بکھری بکھری دکھائی دیتی ہے  اور ایسی خواتین بعض اوقات چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتی بھی دکھائی دیتی ہیں۔
چہرہ ہی تو شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے اور یہ جسمانی حسن اور خوب صورتی کی بھرپور عکاسی بھی کرتا ہے۔ وہ خواتین جو اپنے چہرے پر موسم کی تبدیلیوں کی وجہ سے توجہ نہیں دے پاتیں،  وہ اپنی عمر سے کئی گنا بڑی دکھائی دیتی ہیں اوراس  کے ساتھ ساتھ اپنی قدرتی کشش سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ ایسی بہنوں اور خواتین کا چہرہ نہ صرف بالوں  اور روئیں  سے بھر جاتا ہے، بلکہ بدنما داغوں سے بھی اٹا دکھائی دیتا ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ اپنے چہرے پرہفتے میں ایک دو بار قدرتی اجزا ء پر مشتمل ویکس استعمال کریں۔ چینی اور لیموں کا مکسچر ایک بہترین ویکس کا کام دیتا ہے ۔اس کا استعمال آپ کے چہرے کو رونق بخشے گا اور آپ  کے چہرے کی کی جلد کو ترو تازہ بھی رکھے گا۔ ان قدرتی موئسچرائزر سے جلد کی کم عمری اور کشش میں بے پنا ہ اضافہ ہوتا ہے۔
گرمیوں میں فاؤنڈیشن کے بجائے کوئی ہلکا پھلکا موئسچرائزز استعمال کریں،  کیوں کہ  دھوپ اور گرمی میں فاؤنڈیشن پگھلنے لگتا ہے، جب کہ موئسچرائزز میں ایس پی ایف کو بہ طور جزو استعمال کے جاتا ہے، اس لیے یہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔ خواتین کی اکثریت کی جلد حساس ہوتی ہے اور موسم گرما کی شدت نہ صرف اس جلد کو جھلسادیتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے ان کی جلد کی رنگت بھی سیاہ ہو جاتی ہے۔ چہرے کی تازگی کے لیے اس موسم میں زیادہ سے زیادہ پانی استعمال کریں ،ٹھنڈی چیزیں کھائیں۔
گرمی میں پسینہ بہت زیادہ آتا ہے، تاکہ جسم کا اندرونی درجہ حرارت نارمل رہے،  اس لیے جلد کو بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے اس کے مسام کھل جاتے ہیں اور ان میں میل کچیل جمع ہو کر اس جلد کو بدنما دانے بناتے ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے کم ازکم دن میں تین چار بار اپنا چہرہ  سادہ پانی سے دھوئیں اور گھر سے باہر نکلیں تو دھوپ سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر بھی اختیار  کریں۔
چکنی جلد کی حامل خواتین کو اکثر کیل مہاسوں کی شکایت رہتی ہے اور بہ طور خاص  گرمیوں کے موسم میں تو ان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ان سے بچاؤ کے لیے نیم کے پتوں کو پانی میں ابال کر اس پانی کو ٹھنڈا کرکے اس سے منہ دھوئیں،  تاکہ مہاسوں میں کمی آسکے۔ اس کے علاوہ ایک چمچہ شہد کو آدھا چمچہ لیموں کے عرق میں ملا کر اپنے چہرے پر لگائیں اور پندرہ منٹ بعد چہرے کو دھولیں۔ شہد اور لیموں جلد کی چکنائی کو اچھی طرح سے نکال کر چہرے کو صاف کردیتے ہیں۔ ان میں پائے جانے والے عناصر پوٹاشیم، سیٹرک ایسڈ اور گلوکوز وغیرہ چکنے غدودوں کے عمل کو مزید بڑھنے سے روکتے ہیں۔ ساتھ ہی  چکنی جلد والی خواتین گاجر کا ماسک استعمال کریں یعنی گاجر کا جوس نکال کر روئی کی مدد سے چہرے پر لگائیں اور یہ عمل دن میں تین بار دہرائیں، انہیں افاقہ محسوس ہوگا۔
خشک جلد والی خواتین کی جلد گرمیوں میں نارمل رہتی ہے،  لیکن ان  کے لیے بھی اپنے چہرے کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ زیتون اورگلاب کا عرق ملا کر چہرے پر لگانے سے جلد کی خوب صورتی برقرار رہتی ہے۔  خشک جلد کو نرم کرنے کے لیے انڈے کی سفیدی میں لیموں کا عرق ملا کر اچھی طرح پھینٹ لیں اور اس پیسٹ کو پندرہ منٹ تک چہرے پر لگا رہنے دیں،  اس کے بعد تازہ پانی سے چہرہ دھولیں۔ بیسن، دہی اور لیموں سے تیار کردہ ماسک خشک جلد کے لیے بہترین اور آزمودہ ہے۔
تھوڑا سا بیسن لے کر اس میں لیموں کا رس اور دہی ملا کر چہرے پر لگالیں،  جب یہ پیسٹ خشک ہو جائے تو ٹھنڈے پانی سے چہرہ دھولیں۔ یہ ماسک ہفتے میں تین دن استعمال کریں، تاکہ جلد کا کھردرا پن ختم ہوسکے اور اس کی تازگی برقرار رہے۔ نارمل جلد کی حامل خواتین کو زیادہ محنت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ ذرا سی توجہ اور احتیاط سے اپنے چہرے کو تروتازہ رکھ سکتی ہیں۔ گرمیوں میںجب باہر کھلی دھوپ میں سے واپس آئیں تو گلاب کے عرق کا اسپرے اپنے چہرے پر ضرورکریں۔
گھر پر ایک کلینزنگ کریم تیار کریں جس کو بنانے کے لیے ایک کھانے کا چمچہ سوکھا دودھ اور چند قطرے گلاب کا عرق لے کر مکس کرلیں اور چہرے پر لگالیں، اگر ہو سکے تو گردن پر بھی اس کریم کا ہلکا ہلکا مساج کرلیں۔ اس سے آپ کے چہرے کی دلکشی بڑھے گی اور شادابی بھی واپس آجائے گی۔
غذائیں جلد کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ موسم گرما میں اپنی غذا کا خاص خیال رکھیں۔ اس موسم کے دوران تربوز، انناس،کھیرا، ٹماٹر اور لیموں کا استعمال کریں، کیوں کہ ان میں پانی کی زیادہ مقدار پائی جاتی ہے۔ ایسی غذائیں آپ کی جلد کے لیے بہت مفید ہیں اور اسے تروتازہ رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ صابن کے معاملے میں بہت احتیاط کریں۔گرمی کے موسم میں جلد کے مسام کھل جاتے ہیں، اس لیے کوئی ایسا صابن استعمال نہ کریں جس میں کیمیکل کی مقدار زیادہ ہو، کیوں کہ اس کی وجہ سے جلد کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے ۔
دھوپ کی تمازت  سے چہرے کو محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے، اس مقصد کے لیے اکثر خواتین بازاری کریموں کا سہارا لیتی ہیں جو  بہت  زیادہ نقصان دہ ہیں۔ چہرے کی جلد کو نرم و نازک بنانے کے لیے اگرچہ تھوڑی سی محنت درکار ہوتی ہے، مگراس کے بعد آپ خود کوسب سے نمایاں اور شاداب محسوس کریں گی۔
 ضیاء مغل 

لیلیٰ نے موجودہ دور کی ’’ممی ڈیڈی‘‘ ہیروئنوں کو ٹف ٹائم دینے کی ٹھان لی ( ZIA MUGHAL)

0 comments

لاہور: فلم اسٹارلیلیٰ نے موجودہ دورکی ’ممی ڈیڈی ‘ ہیروئنوںکو ٹف ٹائم دینے کی ٹھان لی، انھوں نے ایک مرتبہ پھرسے سلورسکرین ، ٹی وی پروگراموں کے علاوہ دیگر سرگرمیوں میں بھرپورانداز سے حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

’ایکسپریس‘سے بات کرتے ہوئے اداکارہ لیلیٰ کا کہنا تھا کہ پاکستان فلم انڈسٹری کا شاندارماضی سب کے سامنے ہے۔ فلمی ہیرو، ہیروئنیں اوردیگرفنکاروں کے ساتھ گلوکار، موسیقار، ہدایتکاراور فلم میکرز کے چاہنے والے بڑی تعداد میں موجود تھے لیکن آج کے دورمیں جواداکارائیں بڑے پردے پردکھائی دے رہی ہیں، ان کا کام سب کے سامنے ہے۔ میں نے اپنا فنی سفرفلم سے کیا اوربہت ہی چھوٹی عمر میں فلم میں اہم کردارنبھایا۔

لیلیٰ نے کہا کہ میں یہ بات بخوبی سمجھ سکتی ہوں کہ فلم کا کیا مقام ہے اوراس میں کس طرح سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت اگردیکھا جائے توپاکستانی فلم کے معیارمیں توبہتری دکھائی دے رہی ہے لیکن اس کی شائقین میں مقبولیت نہ ہونے کی وجہ آجکل کی ہیروئنیں بھی ہیں۔ جن میں وہ صلاحیتیں نہیں ہیں، جوایک فلمی حسینہ میں ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ایک مرتبہ پھر سے بھرپوراندازمیں فلم اورٹی وی کے شعبوں میں کام کرنے کی ٹھانی۔

اداکارہ نے کہا کہ ایک طرف تومیں اپنے چاہنے والوں کی خواہش کے مطابق فلم میں کام کرتی دکھائی دونگی اوردوسری جانب ٹی وی پروگرام میں میزبانی کرتی بھی نظرآؤنگی۔ حالانکہ میزبانی کا شعبہ میرے لیے نیا ہوگا لیکن میں نے ہمیشہ ہی چیلنجز قبول کیے ہیں۔

لیلیٰ نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران مجھ سے جیلس لوگوں نے مجھے شوبز سے آؤٹ کرنے کی بہت سی کوششیں کیں اوراس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے  ، مگراب میں کسی کی باتوں میں نہیں آؤنگی۔ میرا مقصد فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں کام کرتے ہوئے اپنا ایک الگ مقام بنانا ہے، جس کے لیے اب میں نے اپنے ٹارگٹ طے کرلیے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں لیلیٰ نے کہا کہ دنیا بھرکی طرح پاکستان میں فلم کے شائقین کا مزاج بدل چکا ہے۔ اس وقت انٹرنیٹ کادور ہے اورگھربیٹھے لوگوںکو سب کچھ مفت دیکھنے کو  مل رہا ہے۔ ایسے میں انہیں سینما گھرتک لانے کے لیے ہمیں ایسی اچھوتی فلمیں بنانے کی ضرورت ہے، جس کودیکھنے کے لیے وہ بار بارسینما گھروںکا رخ کریں۔ اس لیے میں بہت جلد ایک ایسے ہی انٹرنیشنل پراجیکٹ کا حصہ بننے جارہی ہوں۔

 

The post لیلیٰ نے موجودہ دور کی ’’ممی ڈیڈی‘‘ ہیروئنوں کو ٹف ٹائم دینے کی ٹھان لی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ITlaLD
via IFTTT

اتوار، 27 مئی، 2018

سیاسی موسم اور لوٹوں کی نقل و حرکتFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

آج کل سیاسی موسم عروج پر ہے۔ سیاست کے کرتا دھرتا آئے دن میلہ سجاتے ہیں۔ بلاشبہ یہ سیاسی جلسوں کا موسم ہے۔ جیسے جیسے گرمی بڑھ رہی ہے ویسے ویسے سیاسی پارہ چڑھتا جارہا ہے۔ سیاسی جلسہ سے کسی سیاسی جماعت کی طاقت کا پتہ چلتا ہے۔ ہمارے ہاں جلسوں کا انداز ابھی تک روایتی ہے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں پارٹی سربراہان ٹی وی پر اپنا اپنا موقف بیان کرتے ہیں۔ اس طرح پارٹیوں کا لاکھوں نہیں، اربوں روپیہ بچ جاتا ہے؛ اور یہی پیسہ پارٹیاں دوسرے کاموں میں خرچ کرتی ہیں۔

اب انٹرنیٹ کا زمانہ ہے ہر کسی کے پاس موبائل ہے۔ سیاسی جلسوں کی تقاریر اور ٹاک شوز براہ راست سنے جا سکتے ہیں۔ ہر الیکشن کے قریب آتے ہی ہمارے ہاں ایک انوکھا بازار لگتا ہے۔ جسے ’’جمہوریت کا بازار‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس بازار میں الیکشن جیتنے والے گھوڑوں کی بولی لگتی ہے۔ بولی کا انداز بھی بڑا دلچسپ اور نرالا ہے۔ اس میں رنگ، نسل، قد، کاٹھ یا خوبصورتی کو نہیں بلکہ صرف الیکشن جیتنے کی صلاحیت دیکھی جاتی ہے۔ اگر ایک اصطبل میں قیمت پوری نہ لگے تو دوسرے اصطبل کا رخ کیا جاتا ہے، دوسرے میں نہ لگے تو تیسرے کا۔ عرف عام میں انہیں سیاسی فصلی بٹیرے کہا جاتا ہے جو ہوا کا رخ دیکھ کر اپنا رخ بدل لیتے ہیں۔

میں آپ کو ایک دلچسپ کہانی سناتا ہوں۔ ایک شخص شدت مرض سے کوما میں چلا گیا اور پانچ سال کوما میں رہا۔ کوما میں جانے سے پہلے وہ پیپلزپارٹی کا جذباتی کارکن تھا۔ کوما سے ہوش آنے کے چند دن بعد وہ مکمل صحت یاب ہوگیا اور نارمل زندگی گزارنے لگا۔ اس کے علاقے میں ایک سیاسی جلسہ تھا، اسے پتہ چلا تو اس کے جذبات کی انتہا نہ رہی اور وہ خوشی خوشی جلسہ میں شرکت کےلیے چلا گیا۔ جب اس نے اپنے رہنماؤں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، ندیم افضل چن اور بابر اعوان کو دیکھا تو فرط جذبات میں ‘جئے بھٹو’ کے نعرے مارنے شروع کر دیے۔ لوگوں نے اس کی طرف حیرانی سے دیکھا اور کہا کہ یہ پی پی کا نہیں بلکہ پی ٹی آئی کا جلسہ ہے، اور یہ لوگ اب پی پی سے پی ٹی آئی میں شامل ہوچکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے جیالوں نے اسے پاگل سمجھا اور دھکے دینے شروع کردیے۔ اس نے کہا کہ یہ تو وہ پی پی رہنما ہیں جنہوں نے بی بی کے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھائی تھیں؛ اور ان کا منشور روٹی، کپڑا، مکان تھا۔

الیکشن قریب آتے ہی سیاسی وفاداریاں بدلنے کا رجحان زور پکڑ گیا ہے۔ اب پی ٹی آئی کی ہوا ہے۔ ن لیگ، پی پی، ق لیگ اور دوسری جماعتوں کے رہنما جوق در جوق پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کو بھی ٹکٹوں کے سلسلے میں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ جو لوگ سالوں سے پی ٹی آئی کے لیے کام کر رہے ہیں، ٹکٹ ان کا حق بنتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ تحریک انصاف بھی  پی پی اور نون لیگ کا آمیزہ بن کر رہ جائے۔

تحریک انصاف کے بڑوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ندیم افضل چن، جسے پی پی نے نام و شہرت دی، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین اور وزیر بنایا، وہ اگر پی پی کا نہیں رہا تو تحریک انصاف کا بھی نہیں رہے گا۔ ہمارے ہاں الیکٹیبلز کا کوئی نظریہ نہیں، وہ صرف اپنا مفاد دیکھتے ہیں اور مشکل وقت میں پارٹی کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ حکومت کی مدت پوری ہونے میں مشکل سے ایک ہفتہ باقی ہے جس کے بعد حکمراں جماعت کی حالت قابل رحم ہوگی۔ کئی ن لیگی ایم این ایز اور ایم پی ایز نے اپنے جلسوں میں شرکت کرنا چھوڑ دی ہے جس سے ان کی ‘وفاداری’ کا پتہ چلتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں کچھ بھی متوقع ہے۔ کچھ سیاسی خاندان وفاداریاں بدل چکے ہیں جبکہ اکثر پر تول رہے ہیں۔

حال ہی میں تحریک انصاف نے اپنا سو دن کا منشور دیا ہے۔ جس میں جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانا بھی شامل ہے۔ وطن عزیز میں اس وقت ایک صوبہ نہیں بلکہ زیادہ صوبوں کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں پنجاب کے تین، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے دو دو صوبے بننے چاہئیں اور گلگت بلتستان صوبہ کو قانونی حیثیت دی جائے۔ دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں جن کی آبادی اور رقبہ ہم سے کم لیکن صوبے زیادہ ہیں۔ سیاسی موسم گرم ہے، دیکھیں سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post سیاسی موسم اور لوٹوں کی نقل و حرکت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2scRwdG
via IFTTT

نابینا افراد کے لیے اسمارٹ چھڑیFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

استبول: سفید چھڑی دنیا بھر میں نابینا افراد کے لیے ایک اہم مددگار آلہ تصور کی جاتی ہے۔ اب ترکی کے نوجوان ماہرین نے روایتی چھڑی میں ٹیکنالوجی شامل کرکے اسے اسمارٹ چھڑی میں تبدیل کردیا ہے اور اس ضمن میں کراؤڈ فنڈنگ کے لیے ایک ویب سائٹ بھی بنائی گئی ہے جسے ’وی واک‘ منصوبے کا نام دیا گیا ہے۔

ترکی ینگ گرو اکیڈمی کی جانب سے یہ چھڑی بنائی گئی ہے جسے جدید ٹیکنالوجی کا شاہکار کہا جاسکتا ہے۔ اس میں سب سے اہم بات اس کا الیکٹرانک ہینڈل ہے جسے کسی بھی عام سفید چھڑی سے جوڑ کر اسے اسمارٹ بنایا جاسکتا ہے۔

اس کے بعد چھڑی میں موجود الٹراساؤنڈ سینسر آن ہوجاتا ہے جو سر کی سطح تک کی رکاوٹوں، ناہموار زمین، پانی اور کیچڑ وغیرہ کو قدم رکھنے سے پہلے بھانپ لیتا ہے اور ایک آواز کے ذریعے خبردار کرتا ہے۔ بہت شور کی جگہ پر اس کا ہینڈل اسمارٹ فون کی طرح لرزش پیدا کرتا ہے جسے ہاتھوں پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔

ہینڈل میں آگے کی جانب ایک روشن ایل ای ڈی لگائی گئی ہے جسے اندھیرے میں بینائی والے خواتین و حضرات دیکھ کر چوکنا ہوسکتے ہیں۔ اس کے ٹچ پیڈ کی بدولٹ کسی اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کے ذریعے بھی اس چھڑی کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس میں موجود اسپیکر گوگل میپ اور دیگر ایپس کے ذریعے آواز سے رہنمائی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

وی واک اسمارٹ چھڑی کا سارا سافٹ ویئر اوپن سورس ہے جس میں مزید تبدیلی اور بہتری کی جاسکتی ہے۔ اسے بنانے والی ٹیم نے انٹرنیٹ پر کراؤڈ فنڈنگ کی درخواست کی ہے اور وی واک کے ایک سیٹ کی قیمت پاکستانی 35 ہزار روپے تک ہوسکتی ہے جبکہ یہ اس سال دسمبر تک عام دستیاب ہوگی۔

The post نابینا افراد کے لیے اسمارٹ چھڑی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IQVW0f
via IFTTT