ایکسپریس اردو لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ایکسپریس اردو لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 24 مئی، 2018

مریم کو عدالت میں گھسیٹنا مہنگا پڑے گا، نواز شریفFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف نے کہا ہے کہ یہ نوبت بھی آنی تھی کہ بیٹی کو مقدمات میں گھسیٹا گیا اور جنہوں نے یہ روایت شروع کی ہے انہیں یہ سودا مہنگا پڑے گا۔

سابق وزیراعظم نواز شریف نے صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دھرنوں کے وقت تحمل اور صبر سے کام لیا، چاہتے ہیں کہ ملک میں حقیقی جمہوریت ہو تو سب کھڑے ہوں، سب کو حق کے لئے کھڑا ہونا ہوگا۔

ایک صحافی کی جانب سے نواز شریف سے سوال پوچھا گیا کہ اگر سر جھکا کےنوکری نہیں کی تو مشاہد اللہ اور پرویزرشید سے استعفی کیوں لیا؟ جس پر سابق وزیر اعظم نے کہا کہ مشاہد اللہ اور پرویز رشید کو فارغ کرنا بردباری کا حصہ تھا۔ دھرنوں کے وقت تحمل اور صبر سے کام لیا، میں اپنے ماتحت کو فارغ کر سکتا تھا، ملک کی خاطر تحمل سے کام لیا،عدالت میں بتانا تھا تو بتا دیا ہے، حقائق منظر عام پر آنے چاہئیں۔ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے، سچ ریکارڈ پر لانے کے لئے کل بتایا۔

نواز شریف نے کہا کہ ہم نے دنیا میں اپنا مذاق بنایا ہوا ہے، جنہوں نے میرے خلاف مہم چلائی ان سے پوچھیں وہ کیا چاہتے ہیں۔  بیٹی کا دور دور سے سیاست سے تعلق نہیں تھا لیکن یہ نوبت بھی آنی تھی کہ بیٹی کو مقدمات میں گھسیٹا گیا، باپ کی آنکھوں کے سامنے بیٹی کٹہرے میں جا کر مقدمہ بھگت رہی ہے، بیٹی کا دور دور سے اس کیس سے واسطہ نہیں، جس زمانے کا مقدمہ بھگت رہے ہیں اس زمانے سے مریم کا تعلق نہیں، گلف اسٹیل سے متعلق مریم سے پوچھ رہے ہیں وہ اس وقت ایک سال کی تھی۔ یہ اوچھی روایت ڈالی گئی ہے ، جنہوں نے یہ روایت شروع کی ہے انہیں یہ سودا مہنگا پڑے گا۔

سابق وزیر اعظم نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میڈیا پر نشر کیے جانے پر حیران ہوتے ہوئے کہا کہ کل مکمل پریس کانفرنس چلنے پر خود بڑا حیران ہوں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سابق وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ایک خفیہ ادارے کے سربراہ کا پیغام پہنچایا گیا کہ مستعفی ہوجاؤ یا طویل رخصت پر چلے جاؤ، طویل رخصت کا مطالبہ اس تاثر کی بنیاد پر تھا کہ نوازشریف کو راستے سے ہٹادیا گیا۔

The post مریم کو عدالت میں گھسیٹنا مہنگا پڑے گا، نواز شریف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Lpb4U8
via IFTTT

سول ملٹری جھگڑے کا جے آئی ٹی پر اثر پڑا، مریم نوازFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صاحبزادی مریم نواز نے ایون فیلڈ ریفرنس میں بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا ہے کہ سول ملٹری جھگڑے کا جے آئی ٹی پر اثر پڑا۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نیب کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں، نواز شریف کے بعد مریم نواز نے اپنا بیان قلمبند کرانا شروع کردیا۔

جے آئی ٹی  پر اعتراض

مریم نواز نے کہا کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی معاونت کے لئے بنائی گئی تھی ریفرنس کے لئے نہیں، سپریم کورٹ نے یہ نہیں کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کو بطور شواہد ریفرنس کا حصہ بنایا جائے، سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو اختیارات دیئے تاکہ قانونی درخواستوں کو نمٹایا جا سکے، ایسے اختیارات دینا غیر مناسب اور غیر متعلقہ تھا۔ جے آئی ٹی کی تفتیش یک طرفہ تھی، جے آئی ٹی نے شاید مختلف محکموں سے مخصوص دستاویزات اکٹھی کیں۔

جے آئی ٹی ارکان پر اعتراض

مریم نواز نے اپنے بیان میں کہا کہ جے آئی ٹی ارکان پر تحفظات سے متعلق میرا بھی وہی موقف ہے جو نواز شریف کا تھا، آئین کا آرٹیکل 10 اے فئیر ٹرائل کا حق دیتا ہے، جے آئی ٹی کے ارکان کو سپریم کورٹ نے تعینات کیا، مگر جے آئی ٹی ارکان پر ہمارے تحفظات تھے۔ جے آئی ٹی کے ایک رکن بلال رسول میاں محمد اظہر کے بھتیجے تھے جب کہ میاں اظہر سابق گورنر پنجاب رہ چکے اور اب پی ٹی آئی کے حمایتی ہیں، بلال رسول اور ان کی اہلیہ مسلم  لیگ (ن) کے کھلے مخالف اور پی ٹی آئی کے حمایتی ہیں۔

مریم نواز نے کہا کہ جےآئی ٹی میں شامل عامر عزیز کو جے آئی ٹی میں شامل کیا گیا، انہیں  2000 میں پرویز مشرف حکومت نے ڈیپوٹیشن پر نیب میں تعینات کیا، عامر عزیز نے حدیبیہ پیپر ملز کی تحقیقات کی تھیں۔

واجد ضیا جانبدار

جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا جانبدار تھے، انہوں نے اپنے کزن اختر راجہ کو سولیسٹر مقرر کیا، اختر راجہ نے جھوٹی دستاویزات تیار کیں۔

آئی ایس آئی اور ایم آئی افسران کی شمولیت

مریم نواز نے کہا کہ آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر نعمان سعید اور ایم آئی کے بریگیڈیئر کامران بھی آئی ایس آئی میں شامل تھے، ان دونوں افراد کی جے آئی ٹی میں تعیناتی مناسب نہیں تھی، 70 سالہ سول ملٹری جھگڑے کا جے آئی ٹی پر اثر پڑا، بریگیڈیئر نعمان سعید ڈان لیکس کی انکوائری کمیٹی کا بھی حصہ تھے، ڈان لیکس کی وجہ سے سول ملٹری تناؤ میں اضافہ ہوا، جے آئی ٹی میں تعیناتی کے وقت نعمان سعید آئی ایس آئی میں نہیں تھے، نعمان سعید کو آؤٹ سورس کیا گیا کیونکہ ان کی تنخواہ بھی سرکاری ریکارڈ سے ظاہر نہیں ہوتی۔

رپورٹ یکطرفہ قرار

مریم نواز نے کہا کہ جے آئی ٹی کی 10 جلدوں پر مشتمل خود ساختہ رپورٹ غیر متعلقہ تھی، یہ تفتیشی رپورٹ ہے جو ناقابل قبول شہادت ہے، جے آئی ٹی کی خود ساختہ حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں دائر درخواستیں نمٹانے کے لئے تھی، سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے شواہد کی روشنی میں ریفرنس دائر کرنے کا کہا۔

نواز شریف کا بیان

نواز شریف نے عدالت کے روبرو 3 روز میں 128 سوالات کے جوابات دیئے۔ نواز شریف نے کہا مجھے دفاع میں کوئی گواہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں، عدالت میں نیب اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا، آمریتوں نے پاکستان کے وجود پر گہرے زخم لگائے، پیغام دیا گیا کہ وزارت عظمی سے مستعفی ہو جاؤ یا طویل چھٹی لے کر باہر چلے جاؤ، میں نے پرویز مشرف کا کیس روکنے کے لیے کوئی دباؤ قبول نہیں کیا۔

The post سول ملٹری جھگڑے کا جے آئی ٹی پر اثر پڑا، مریم نواز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IL03uW
via IFTTT

ریٹائرڈ ججز پر مشتمل عبوری حکومت کے قیام کے لیے دائر درخواست خارجFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

لاہور: ہائی کورٹ نے اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ ججز پر مشتمل عبوری حکومت کے قیام کے لیے دائر درخواست خارج کردی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے پاکستان تحریک انقلاب کے غازی علم الدین کی دائر کردہ درخواست کی سماعت کی۔ جس میں ریٹائرڈ ججز پر عبوری حکومت کے قیام کے لیے درخواست کی گئی تھی۔ درخواست میں وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں موثر نظام حکومت قائم نہیں ہو سکا، عدالتوں نے  ضیاء الحق اور پرویز مشرف کو بھی حکومتیں کرنے کی اجازت دی ہے۔ پاکستان میں آئندہ دس برسوں کے لیے ریٹائرڈ ججز پر مشتمل عبوری حکومت قائم کی جائے، عدالت صوبائی اور وفاقی محکموں میں ریٹائرڈ ججز کا تقرر کرے، جوڈیشل حکومت کے قیام کے لیے عوامی ریفرنڈم کروانے کا حکم دیا جائے۔ عدالت عالیہ نے درخواستگزار کی جانب سے عدم پیروی کے باعث دائر درخواست خارج کردی۔

 

The post ریٹائرڈ ججز پر مشتمل عبوری حکومت کے قیام کے لیے دائر درخواست خارج appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xhrE5J
via IFTTT

پارٹیاں تبدیل کرنے کا اتوار بازارFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

ملکی تاریخ میں دوسری بار سیاسی حکومتیں اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہیں۔ اس سے قبل مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی اور چاروں صوبوں میں اس وقت کی حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی، لیکن پارلیمنٹ سے منتخب وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے منتخب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی توہین عدالت کے کیس میں پانچ سال نااہل ہوئے تو میاں نواز شریف بھی عدالتی فیصلے کے تحت نااہل ہوگئے۔ اس وقت سید یوسف رضا گیلانی نے نااہلی کے فیصلے پر اتنی مزاحمت نہیں کی جتنی اب کی بار نواز شریف کی جانب سے دیکھنے میں آ رہی ہے۔ جہاں نواز شریف کے بیانات ملکی سیاست میں طوفان برپا کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف بھی ن لیگ کو فالو آن کرنے میں مصروف ہے۔

نواز شریف کے کھلاڑی بھی عمران خان کی ٹیم میں شامل ہو رہے ہیں، آج کل ملکی سیاست میں جو ہو رہا ہے یہ کوئی پہلی بار نہیں۔ ملکی سیاست میں چلنے والی ہواؤں کے رخ کو دیکھ کر ٹھکانے بدلنے والے پنچھی اپنی اڑان بھرتے رہتے ہیں۔ سیاسی وفاداریاں بدلنے والوں کا ایک اتوار بازار لگا ہوا ہے اور تحریک انصاف کی دکان خوب سجی ہوئی ہے۔ خیبر سے کراچی تک سیاسی پنچھی تحریک انصاف کو اپنا مسکن بنا رہے ہیں، عمران خان نے جب سیاست میں آنے کا اعلان کیا تھا تو انہوں نے انصاف کا نعرہ لگا کر اپنی پارٹی کا نام بھی تحریک انصاف رکھا اور پھر یہ نعرہ آگے بڑھ کر کرپشن کے خاتمے اور تبدیلی تک پہنچ گیا۔ اور اب کی بار عمران خان دو نہیں ایک پاکستان بنانے کا نعرہ لگا کر الیکشن میں اتر رہے ہیں۔

عمران خان کی تبدیلی کا نعرہ 2013 کے الیکشن کے بعد مزید زور پکڑ گیا ہے۔ عمران خان نے جس برق رفتار سے 2013 کے الیکشن میں انتخابی مہم چلائی تھی، انہیں یقین ہو گیا تھا کہ آئندہ ملک میں حکومت تحریک انصاف ہی کی ہوگی؛ لیکن تحریک انصاف صرف خیبرپختونخوا میں کامیابی حاصل کرسکی۔ پنجاب میں ن لیگ اور سندھ میں پیپلزپارٹی کو قابو نہ کرسکی، مرکز میں ن لیگ کی حکومت بن گئی اور نواز شریف تیسری بار وزیراعظم تو بن گئے لیکن عمران خان نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور نہ ہی نواز شریف کی سٹیبلشمنٹ سے بنی۔

عمران خان نے جب اسلام آباد میں دھرنا دیا تو اس وقت نواز شریف حکومت کی ڈوبتی کشتی کو بچانے میں بنیادی کردار آصف زرداری کا تھا۔ اگر اس وقت پیپلزپارٹی نواز شریف کا ساتھ نہ دیتی تو مسلم لیگ ن کےلیے بڑی مشکل کھڑی ہو جاتی، مسلم لیگ ن حکومت کو مشکل میں ڈالنے میں نوازشریف کی اپنی پالیسیاں بھی تھیں۔ عمران خان کی جانب سے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا گیا، اگر اس وقت عمران خان کے مطالبے پر عمل کرلیا جاتا تو ملک میں اتنی افراتفری نہ پھیلتی؛ لیکن دونوں جانب سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹا گیا۔

بڑے نشیب و فراز کے بعد ن لیگ اپنی آئینی مدت پوری کرنے جا رہی ہے۔ حکومت کے جاتے جاتے نوازشریف کے ساتھی بھی انھیں چھوڑتے جا رہے ہیں، آئندہ سیاسی ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے سیاسی پنچھی تحریک انصاف کو اپنا مسکن بنا رہے ہیں۔ مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ عمران خان ماضی کی حکومتوں پر کرپشن کے الزمات لگاتے ہیں لیکن ان ہی حکومتوں کا حصہ رہنے والے ارکان جب تحریک انصاف میں شامل ہوتے ہیں تو ان کا دامن صاف ہوجاتا ہے۔ عمران خان خیبرپختونخوا میں اے این پی پر خوب کرپشن کے الزامات لگاتے ہیں، ایزی لوڈ حکومت قرار دیا گیا، ان ہی کی حکومت میں وزیر رہے پرویزخٹک جب تحریک انصاف کا حصہ بنے تو وہی تحریک انصاف کی حکومت کے وزیراعلیٰ بن گئے۔

وزیراعلیٰ پرویزخٹک جب یہ کہتے ہیں کہ ہمیں تباہ اسکول اور اسپتال ملے، ٹوٹا پھوٹا نظام ملا، تو وہ ان حکومتوں کا حصہ رہے، اس وقت کابینہ کے اجلاسوں میں بہتری کی بات کیوں نہیں کی؟ یہی سوالات اب پی ٹی آئی میں ناراض ایم پی ایز کی جانب سے اٹھائے جا رہے ہیں، ہارس ٹریڈنگ کے الزامات میں پارٹی سے نکالے جانے والے ایم پی ایز کا کہنا ہے کہ ہاں میں ہاں نہ ملانے والوں کے لیے پارٹی میں جگہ تنگ کی جا رہی ہے اور جو دوسری پارٹیوں سے پی ٹی آئی میں ارکان شامل ہو رہے ہیں وہ واشنگ پاؤڈر سے نہا دھو کر صاف ہو رہے ہیں۔

دوسری پارٹیوں سے پی ٹی آئی میں شامل ہونے کا سلسلہ تو جاری ہے، لیکن اب امتحان عمران خان کے لیے بھی پیدا ہوگا جب ٹکٹوں کی تقیسم ہوگی۔ عمران خان ان پارٹی ورکرز کے ساتھ کیا کریں گے جو پہلے سے ٹکٹ کی امید لگائے بیٹھے ہیں، نئے آنے والے کھلاڑیوں کو بیٹنگ آرڈر تو دیا جا رہا ہے لیکن پہلے سے موجود کھلاڑی ایسی صورتحال پر پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔

خیبرپختونخوا میں بھی کپتان کے پرانے کھلاڑی ٹکٹوں کی تقسیم کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ پشاور میں صمد مرسلین کا شمار پی ٹی آئی کے بانی ورکرز میں ہوتا ہے، وہ شوکت یوسفزئی کے ساتھ ملکر پی ٹی آئی کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل تھے، صمد مرسلین نے 2013 کے الیکشن میں قومی اسبملی کی نشست این اے ون سے ٹکٹ کے لیے درخواست دی لیکن عمران خان خود الیکشن لڑنے سامنے آگئے اور ضمنی الیکشن میں بھی اس نظریاتی ورکر کو نظرانداز کیا گیا۔ اس بار بھی کچھ اس طرح دکھائی دے رہا ہے کہ پشاور میں دوسری جماعتوں سے آنے والوں کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ پشاور میں قومی اسمبلی کے لیے پیلزپارٹی سے شامل ہونے والے شوکت علی کو ٹکٹ سے نواز جا رہا ہے، اسی طرح مسلم لیگ ن سے شامل ہونے والے ناصر موسیٰ زئی کو بھی ٹکٹ دینے کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے۔ این اے فور کے ضمنی الیکشن میں بھی اے این پی سے شامل ہونے والے ارباب عامر کو اپنے پارٹی کے نظریاتی ورکرز پر فوقیت دی گئی۔

ایسی صورتحال پر سیاسی حلقوں میں یہ بحث بھی چل پڑی ہے کہ عمران خان نیا پاکستان بنانے ان پرانے کھلاڑیوں کے ساتھ چل پڑے ہیں جو ماضی کی ان حکومتوں میں شامل رہے جن پر عمران خان کرپشن کے الزامات لگاتے رہے۔ تحریک انصاف کی کور کمیٹی یا تحریک انصاف کے فیصلے کرنے والوں پر نظر ڈالیں تو ان میں وہی شامل ہیں جو دوسری پارٹیوں سے نقل مکانی کرکے آئے اگر تحریک انصاف 2018 کے الیکشن میں حکمران جماعت بن جاتی ہیں تو کیا عمران خان باگ ڈور ان افراد کے ہاتھ میں دیں گے جو ماضی کی کرپٹ حکومتوں کا بھی حصہ رہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب عمران خان کو دینا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post پارٹیاں تبدیل کرنے کا اتوار بازار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LoWcoV
via IFTTT

باربی کیو کا دھواں بھی کینسر کی وجہ بن سکتا ہےFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

بیجنگ: گِرلنگ اور باربی کیو سے بنے مزیدار پکوان کسے پسند نہیں ہوتے لیکن ان کا دھواں اور اس سے خارج ہونے والے مضر ذرات جلد کے راستے سرطان سمیت کئی اہم امراض کی وجہ بن سکتے ہیں۔

انوائرونمینٹل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نامی جریدے میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جلد کے راستے (پاتھ ویز) سے گزر کر باربی کیو کے ذرات سانس کے مقابلے میں زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں اور بسا اوقات یہ کسی کپڑے سے بھی نہیں رکتے۔ یہ تحقیق امریکن کیمیکل سوسائٹی کے اجلاس میں بھی پیش کی گئی ہے اور اسے چین کی جینان یونیورسٹی کے ماہرین نے انجام دیا ہے۔

یہ رپورٹ امریکی تناظر میں کی گئی ہے جہاں ہر گھر میں باربی کیو کےلیے گِرل اور اسموکر موجود ہوتا ہے اور 70 فیصد امریکی گوشت باربی کیو کرکے کھاتے ہیں جب کہ ان میں 50 فیصد سے زائد گھرانے مہینے میں چار مرتبہ باربی کیو سے کھانا پکاتے ہیں۔ اس عمل میں مضرِ صحت ذرات پولی سائیکلک ایئرومیٹک ہائیڈرو کاربنز (پی اے ایچ) پیدا ہوتے ہیں۔

اس دوران باربی کیو کے پاس کھڑے ہونے والے افراد بھی پی اے ایچ کے شکار بنتے ہیں کیونکہ اس عمل میں ان کی بڑی مقدار پیدا ہوتی ہے جو سرطان کی وجہ بن سکتے ہیں۔ پریشان کن امر یہ ہے کہ سانس اور جلد، دونوں کے ذریعے ہی یہ انسانی جلد میں نفوذ کرسکتے ہیں۔

سروے کےلیے ماہرین نے رضاکاروں کو کئی گروہوں میں تقسیم کیا اور ان کو باربی کیو عمل اور دھویں سے مختلف فاصلوں پر رکھا۔ اس کے بعد ان کے پیشاب کے نمونے لیے گئے تو باربی کیو کھانے والوں میں پی اے ایچ کی زائد مقدار نوٹ کی گئی۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے پر وہ لوگ تھے جن کی جلد کے ذریعے ذرات گئے ان میں  پی اے ایچ کی دوسری بڑی مقدار نوٹ کی گئی۔

جن افراد نے باربی کیو کے دوران مکمل لباس کے ذریعے خود کو ڈھانپ رکھا تھا ایک موقعے پر ان افراد کا لباس بھی پی اے ایچ سے اٹااٹ بھرگیا اور اس کے بعد وہ ذرات جلد تک پہنچنے لگے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سیخ بوٹی اور چکن تکہ بنانے کے عمل میں استعمال ہونے والا تیل جلد سے چپک جاتا ہے اور اس کے باریک قطروں میں موجود پی اے ایچ جلد کے اندر نفوذ کرنے لگتے ہیں۔

اس لیے ماہرین نے ابتدائی طور پر باربی کیو عمل اور پی اے ایچ کے درمیان ایک تعلق واضح کیا ہے تاہم اگلے مرحلے میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا یہ واقعی کسی بیماری کی وجہ بن بھی رہا ہے یا نہیں، اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ سائنسدانوں نے اس عمل کے دوران ہر ممکن احتیاط کی تجویز دی ہے۔

The post باربی کیو کا دھواں بھی کینسر کی وجہ بن سکتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LpJnL7
via IFTTT

دونوں پیر گنوانے کے باوجود ایورسٹ سر کرنیوالا 69 سالہ کوہ پیماFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

نیپال: چین کے 69 سالہ کوہ پیما نے فراسٹ بائٹ میں اپنے دونوں پیر گنوانے کے بعد پانچویں کوشش میں دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرلی ہے۔

چینی کوہ پیما ژیا بویو نے عزم و ہمت کی نئی مثال قائم کردی۔ انہوں نے آج سے 40 برس قبل ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کی کوشش کی تھی جس میں ان کے دونوں پیر برف میں دھنسنے کے باعث ناکارہ ہوگئے تھے اور ڈاکٹروں کو ان کے دونوں پاؤں کاٹنے پڑے تھے۔ اس کے باوجود بویو کا ایورسٹ سر کرنے کا جنون ختم نہ ہوا اور انہیں پانچویں کوشش میں کامیابی ملی۔ اس طرح وہ 69 سال کی عمر میں دونوں پاؤں سے محروم ایورسٹ عبور کرنے والے پہلے کوہ پیما بن گئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 1975 میں ژیا بویو ایورسٹ کی چوٹی سے صرف 250 میٹر دوررہ گئے تھے کہ موسم خراب ہوگیا جس کی بہتری میں دو دن اور تین راتیں لگ گئیں لیکن اس مشکل صورتحال میں پھنسنے اور اپنی جان جوکھم میں ڈالنے کی بجائے کوہ پیماؤں نے واپس اترنے کا فیصلہ کیا۔ نیچے آتے ہوئے ژیا بویو نے اپنا سلیپنگ بیگ ایک ایسے دوست کو دیدیا جس کا بیگ پھٹ چکا تھا۔ اس بے غرض عمل کی وجہ سے ان کے دونوں پیر برف میں جم گئے جنہیں مجبوراً کاٹنا پڑا۔

اس کے بعد 1996 میں  ژیا کو لمفوما کا مرض لاحق ہوگیا جو ایک طرح کا بلڈ کینسر کہلاتا ہے۔ اس بار دوسری مرتبہ ان کا پاؤں کاٹا گیا لیکن اس بار گھٹنے سے اوپر تک کاٹنے کی نوبت پیش آئی۔ یہ ژیابویو جیسے کوہ پیما کےلیے ایک مشکل مرحلہ تھا لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور دوبارہ اپنی ہمت جمع کی۔

اپنے دونوں پاؤں گنوانے کے 20 سال بعد انہوں نے دوبارہ ٹریننگ شروع کردی اور 2014 میں انہوں نے ایک بار پھر ماؤنٹ ایورسٹ کا رخ کیا لیکن موسم کی خرابی کے باعث واپس لوٹنا پڑا۔ اس کے بعد 2016 میں وہ دوبارہ ایورسٹ گئے اور وہاں سے 100 میٹر بلندی پر چوٹی رہ گئی تھی کہ برفانی طوفان نے انہیں پیچھے دھکیل دیا اور بویو کو واپس زمین پر آنا پڑا۔

لیکن ژیا نے ہمت نہ ہاری اور 2017 میں پانچویں بار ایورسٹ کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ نیپالی حکومت نے ایسے کوہ پیماؤں کو ایورسٹ جانےسے منع کردیا ہے جو دونوں پیروں سے معذور ہوں۔ تاہم نیپالی عدالت نے یہ متنازعہ فیصلہ کالعدم قرار دیدیا اور یوں انہوں نے پانچویں مرتبہ ایورسٹ سر کرنے کی کوشش میں چوٹی پر پہنچ کر تاریخ میں اپنا نام لکھوالیا۔ اس سے قبل 2006 میں نیوزی لینڈ کے ایک کوہ پیما مارک انگلس نے دونوں بریدہ پاؤں کے ساتھ ایورسٹ سر کی تھی جب کہ ژیا بویو یہ کارنامہ سرانجام دینے والےدوسرے کوہ پیما قرار پائے ہیں۔

The post دونوں پیر گنوانے کے باوجود ایورسٹ سر کرنیوالا 69 سالہ کوہ پیما appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IJLebZ
via IFTTT

بازوؤں کو سمیٹنے والے نئے طیارے کو پرواز کا پروانہ مل گیاFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

نیویارک: بوئنگ کمپنی کے نئے مسافر بردار طیارے کو پرواز کے لیے اجازت نامہ دیدیا گیا ہے۔ اس طیارے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ لینڈنگ کے وقت اپنے بازو سکیڑ لیتا ہے۔

بوئنگ 777 ایکس کے بازو (وِنگز) کا گھیر 235 فٹ ہے لیکن اس چوڑائی میں وہ ایئرپورٹ کے روایتی گیٹ سے نہیں جڑ سکتا۔ اسی وجہ سے لینڈنگ کے بعد اس کے بازو سکڑ کر 212 فٹ تک کیے جاسکتے ہیں۔

بوئنگ کمپنی کے مطابق 18 مئی کو اس طیارے کے نئے ڈیزائن کے استعمال کی منظوری دیدی گئی ہے اور فیڈرل ایوی ایشن اتھارٹی (ایف اے اے) نے ایک رپورٹ میں طیارے کی خصوصی ڈیزائن سے وابستہ پرواز کے اجازت نامے کی درخواست کی ہے کیونکہ اپنے بازوؤں کی طوالت کی وجہ سے ایئرپورٹ کے روایتی گیٹس سے جڑنہیں سکتا اور اس کے لیے طیارہ ازخود اپنے بازو سکیڑسکتا ہے۔

تاہم بوئنگ کو اپنے نئے طیارے کے بازو مزید پھیلانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ کاربن فائبر سے بنے یہ بازو طیارے کا ایندھن بچانے میں اہم کردار ادا کریں گے کیونکہ اس سے پرواز کے دوران ہوا کی مزاحمت (ڈریگ) کم کرنے میں مدد ملے گی۔

لینڈنگ اور گیٹ پر آتے ہوئے بوئنگ 777 ایکس کے بازو سکڑ جائیں گے جس کےلیے بازو کا یہ نظام انتہائی پیچیدہ بنایا گیا ہے اور اس کے بند ہونے والے حصے میں کوئی ایندھن نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ اکثر مسافر بردار طیاروں کے بازوؤں میں ایندھن بھی بھرا جاتا ہے۔

فوجی طیاروں میں بازو سکیڑنے کی ٹیکنالوجی ایک عرصے سے استعمال ہورہی ہے لیکن پہلی مرتبہ اسے مسافر بردار طیاروں کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ بوئنگ نے اعلان کیا ہے کہ 2020 میں اس طرح کا پہلا طیارہ مسافروں کو لے کر اپنی پہلی اڑان بھرے گا۔

The post بازوؤں کو سمیٹنے والے نئے طیارے کو پرواز کا پروانہ مل گیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2sapX55
via IFTTT

’’بیکٹیریا پرنٹ‘‘FOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی بہ دولت بہت سے ایسے کام اب ممکن ہوچکے ہیں، جو ماضی میں ناممکن تصور کیے جاتے تھے۔ سائنس داں شب و روز تحقیق میں مصروف ہیں اور نت نئے انکشافات اور ایجادات سامنے آرہی ہیں۔

مغربی دنیا، بالخصوص امریکا میں مجرموں کا سراغ لگانے اور انہیں گرفت میں لینے کے نئے اور مؤثر سائنسی طریقوں پر تحقیق ہورہی ہے اور ان ریسرچ پروجیکٹس کے لیے حکومتیں فنڈز بھی فراہم کررہی ہیں۔

دو برس قبل محققین نے ایسی ٹیکنالوجی ڈیولپ کی تھی، جس کے ذریعے کئی سو میٹر کے فاصلے سے آنکھوں کی پتلیوں کی حرکت اور چہرے کے تاثرات کا تجزیہ کرکے پتا لگایا جاسکتا تھا کہ کوئی شخص فوری طور پر جرم کرنے کا ارادہ تو نہیں رکھتا۔ یہ ٹیکنالوجی امریکا میں ایئرپورٹس پر نصب کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن ابھی تک اس پر عمل در آمد نہیں کیا گیا۔

چہرے سے جرم کرنے کے ارادے کا پتا لگانے کے ساتھ ساتھ ماہرین مجرموں کا سراغ لگانے کے نئے طریقے دریافت کرنے پر بھی کام کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں کولراڈو یونیورسٹی کی تحقیقی ٹیم نے اہم کام یابی حاصل کی ہے۔ فنگر پرنٹس مجرم تک پہنچنے کے لیے بہت آسان اور سب سے اہم راستہ ہیں۔

کئی ارب کی آبادی میں سے کسی بھی دو انسانوں کی انگلیوں کے نشانات ایک جیسے نہیں ہوتے، اسی لیے جائے وقوع سے ملنے والے فنگر پرنٹس مجرم کا سراغ لگانے میں بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ تاہم اب سائنس دانوں کو تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسان جس چیز کو چھوتا ہے، اس پر اس کے فنگر پرنٹس کے علاوہ جراثیم منتقل ہو جاتے ہیں۔

ریسرچرز کا کہنا ہے کہ ہر انسان کی جلد پر اور جسم کے اندرونی حصوں مثلاً آنتوں کے علاوہ منہ، ناک اور کانوں میں بھی مختلف اقسام کے جراثیم موجود ہوتے ہیں۔ ان کی مدد سے مجرم تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اسی ٹیم نے اس سے پہلے انکشاف کیا تھاکہ ایک انسان کے صرف ہاتھوں پر 150 اقسام کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔

حالیہ تحقیق کے بعد سائنس دانوں نے یہ حیران کن انکشاف کیا ہے کہ دو افراد کے ہاتھوں پر پائے جانے والے بیکٹیریا کی صرف 13 فی صد اقسام آپس میں مماثلت رکھتی ہیں۔ یعنی فنگر پرنٹس کی طرح ہر انسان کی جلد پر موجود جراثیم بھی مختلف ہوتے ہیں۔

یونیورسٹی کی ریسرچ ٹیم کے سربراہ پروفیسر Noah Fierer کے مطابق یہ جراثیم ہمارے جسم سے علیحدہ ہوکر فضا میں موجود رہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے پرفیوم کی خوش بو کچھ دیر تک فضا میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ خوش بو کا اثر چند منٹوں تک رہتا ہے، لیکن ہمارے جراثیم دو ہفتے تک فضا میں موجود رہتے ہیں۔ ان کی شناخت خصوصی آلات کے ذریعے ممکن ہے۔

تجربے کے دوران سائنس دانوں نے نو افراد کا انتخاب کیا اور انہیں چھوٹی سی عمارت میں مختلف سرگرمیاں انجام دینے کے لیے کہا۔ بعد ازاں تحقیقی ٹیم کے تیار کردہ آلات کے ذریعے عمارت کے مختلف حصوں میں نو اقسام کے جراثیم پائے گئے۔

حتیٰ کہ ان افراد کے زیرِ استعمال کمپیوٹر کے ’کی بورڈ‘ پر بھی نو اقسام کے جراثیم موجود تھے۔ ماہرین کے مطابق مجرموں کا سراغ لگانے میں جراثیم کی شناخت کرنے والی نئی ٹیکنالوجی بہت مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب مجرم اس بات کا خاص خیال رکھتا ہے کہ جائے وقوع پر ان کی انگلیوں کے نشانات نہ مل سکیں، لیکن جراثیم کو اپنے جسم سے علیحدہ ہونے سے روکنا کسی کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ خصوصی آلات کی مدد سے ان جراثیم سے ڈی این اے حاصل کرنے کے بعد اس کا موازنہ مشتبہ افراد کے ڈی این اے سے کیا جاسکتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ یہ جراثیم کسی بھی طریقے سے جلد سے علیحدہ نہیں ہوتے اور ان سے متعلق کوئی احتیاط اور سائنسی طریقہ کارگر نہیں ہوسکتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نئی ٹیکنالوجی کے 70سے90 فی صد تک نتائج حاصل ہوئے ہیں اور سو فی صد درست نتائج کے حصول کے لیے مزید تجربات جاری ہیں۔

The post ’’بیکٹیریا پرنٹ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2KRTKGC
via IFTTT

پاکستان؛ سائبیریا سے آنے والے ہجرتی پرندوں کا مسکنFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

ہر سال لاکھوں پرندے قطبی علاقوں میں سردی حد سے زیادہ بڑھ جانے پر معتدل علاقوں کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔

پرندوں کی ہجرت کے اسباب میں موسمی تغیر وتبدل اور خشک سالی کی وجہ سے خوراک کی کمی بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں بے رحم انسانی رویے، اندھادھند شکار،  بارشوں میں کمی ، صنعتی و زرعی رقبہ جات میں تو سیع کی وجہ سے قدرتی مساکن کی تباہی، شہری آبا دیوںکا پھیلاؤ اور ویٹ لینڈز کے سکڑنے جیسے سنگین مسائل بھی ا ن پر ندوں کی ہجرت کا سبب ہیں۔

ہر سال مئی کے دوسرے ہفتے میں ورلڈ مائیگر یٹری بر ڈز ڈےWMBD) ) منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں یہ دن پہلی مرتبہ 2006 ء میں منایا گیا تھا  جس کا مقصد لو گوں کو مہاجر پرندوں اور ان کے مساکن کے تحفظ کی بابت آگاہی دینا ہے۔ اس سال ورلڈ مائیگریٹری برڈز ڈے کا تھیم  ’’ائیرآف دی برڈز‘‘ رکھا گیا ہے۔

دنیا میں ہر سا ل موسم سرما کے آغازپر لاکھوں کی تعداد میںپرندے ہجرت پرمجبور ہوتے ہیں۔ موسمی تبدیلی ،خوراک اور پانی کی تلاش،جبلی روّیے اور دن کی روشنی کا دورانیہ کم ہو نے کی بدولت نقل مکانی پر مجبور یہ پرندے دنیا کے سات بڑے فلائی ویز؍ روٹس کے ذریعے پاکستان، انڈیا اور یورپ آتے ہیں۔

اِن سات بین الاقوامی روٹس میں شمالی یورپ سے اسکینڈے نیوین ممالک کاروٹ، سنٹرل یورپ سے بحیرہ روم، مغربی سائبیریا سے بحیرہ احمر، سائبیریا سے پاکستان ـ’’گرین روٹ‘‘، گنگا فلائی وے مشرقی سا ئبیریا سے انڈیا، منچوریا سے کوریا اور کیلیفورنیا سے چاقوٹاکا شامل ہیں۔  پرندوںکی نقل مکانی کے ان کے علاوہ بھی متعدد چھوٹے بڑے علاقائی روٹس ہیں ۔

حیران کن بات یہ ہے کہ پرندے اتنی طویل مسافت کے دوران اپنے راستے کیسے تلاش کرتے ہیں؟ اِس سلسلے میں ماہرین کی مختلف تھیوریاں ہیں کچھ کے نزدیک یہ پرندے گرم آب وہوا کی جانب پرواز کرتے ہیں اور دورانِ پروازسورج کی مدد سے سمت کا تعین کرتے ہیں ۔کچھ کہتے ہیں کہ یہ رات کو چاند اور ستاروں کی مدد سے راستے پر نگاہ رکھتے ہیں۔کچھ ماہرین کے خیال میں راستے میں آنے والے پہاڑ،  دریا،  ندی نالوں اور نہروں کے ذریعے ز مینی نشانات کو یاد رکھتے ہوئے آ گے اڑان جا ری رکھتے ہیں جب کہ کچھ کے مطا بق نوجوان پرندے اپنے بڑوں سے سیکھ کر راستوں کا تعین کر تے ہیں۔

پاکستان مہاجر پرندوں کا بڑا عارضی مسکن ہے جہاں ہر سال روس ، سائبیریا اور شمال وسطی ایشیائی ریاستوں کے انتہائی سرد علاقوں سے  لا کھوں کی تعداد میں یہ مہمان پرندے ستمبر، اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں آتے ہیں ۔ کم و بیش چھ ماہ قیام کے بعد مارچ اپریل میں واپس اپنے آبائی علاقوں میں کی طرف کوچ کرجاتے ہیں۔

انٹرنیشنل یونین فا ر کنزرویشن آف نیچر ( آئی یوسی این) کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہر سال ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی تعداد تقریبا  ایک ملین کے لگ بھگ ہے جو بین الاقوامی فلائی وے نمبر 4گرین روٹ کے ذریعے سائبیریا سے افغانستان ، قراقرم ، ہندوکش ، کو ہ سلیمان اور دریا ئے سندھ کے ساتھ ساتھ 4500 کلو میٹر کی طویل مسافت کے بعد پاکستانی علاقوں میں آتے ہیں ۔ ان مہمان پرندوں میں مختلف انواع کی مرغابیاں ، مگھ ، قاز،کونجیں، حواصل، لم ڈھینگ، بگلے، تلوراور باز شامل ہیں۔

پاکستان میں قیام کے دوران یہ مہمان پرندے واٹر بیسن نوشہرہ، ٹانڈہ ڈیم کو ھاٹ ، سوات ، چترال، تربیلااور منگلا ڈیم ،صوبہ پنجاب کے مختلف مقامات جن میں چشمہ بیراج ، تونسہ بیراج ، اُ چھالی کمپلیکس، مرالہ، قادر آباد ، رسول و دیگر راج باہ اور مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں جب کہ سندھ میں ہالیجی ، کینجھر اور لنگسی جھیل وغیرہ پر بسیراکرتے ہیں ۔ دریائے سندھ کا طاس کا علاقہ، راج باہیں، جھیلیں، ندی نالے، آبی گزر گاہیں اور فلک بوس پہاڑ ان مہمان پرندوں کے لیے بے حد کشش رکھتے ہیں۔ پاکستان میں ہجرتی پرندوںکی آمد پر جنگلی حیات کے تحفظ پر مامور وفاقی و صوبائی محکمے ان کے تحفظ کے لیے الرٹ ہو جاتے ہیں۔

صوبہ پنجاب کو اہم ویٹ لینڈزکا حامل ہونے کی بنا پرخصوصی اہمیت حاصل ہے جس کا 337922ایکڑرقبہ دلدلی ہونے کے پیش نظر ان ہجرتی پرندوں کا مسکن بنتا ہے۔ پاکستان کی  جن 19 ویٹ لینڈز کو بین الاقوامی ’رام  سر سا ئٹسں‘ کا درجہ حا صل ہے۔ ان میں تین اہم ویٹ لینڈز چشمہ بیراج، تونسہ بیراج اور اُچھالی کمپلیکس پنجاب میں وا قع ہے۔ علاوہ ازیں بڑے آبی ذخائر میں جناح بیراج ، ر سول  بیراج، قادرآباد بیراج، مرالہ ہیڈورکس، خانکی ہیڈورکس،  تریموں  ہیڈورکس، سلیمانکی ہیڈورکس،  اسلام ہیڈورکس، بلوکی ہیڈورکس ،  پنجند ہیڈورکس،  شا ہ پور ڈیم ، میلسی سا ئفن، کلر کہار جھیل او ر نمل جھیل شامل ہیں ۔

محکمہ تخفظ جنگلی حیات و پار کس پنجاب کی جانب سے محکمانہ سطح پر ان مہا جر پرندوں کے تخفظ  اور  فروغ کے لیے بھر پور اقدام  کیے جا تے ہیں۔ مہمان پرندوں کی بقا اور تخفظ کے لیے تمام قومی و بین الاقوامی تقا ضوں  اور معا ہدا ت کا بھر پور احترام کیاجاتا ہے اور اسی کے پیش نظر صوبہ کے ان تمام مقامات کو جہاں مہاجرآبی پرندے موسم سرما میں آکر بسیرا کرتے ہیں پنجاب وائلڈ لائف ایکٹ کی دفعہ 16 کے تحت وائلڈ لائف سینکچوری قرار دے  رکھا ہے جہاں نہ صرف  ہر قسم کا شکار ممنوع ہے بلکہ ایسے علاقوں میں کسی قسم کی کھیتی باڑی ، تعمیرات ودیگر کارروائیوں جن سے یہاں نباتات اور حیوانات اور قدرتی مساکن کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو، کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔

اگرچہ محکمہ تحفظ جنگلی حیات و پارکس، دیگر تمام  وائلڈلائف کنزرو یشن ایجنسیاں، ور لڈو ائڈ فنڈ فا ر نیچر، ہوبارہ انٹر نیشنل اور فالکن فاؤنڈیشن کے شانہ بشانہ ان مہاجر پرندوں کی بقااور تخفظ کے لیے تمام کاوشیں بروئے کار لا رہا ہے تاہم ٖضرورت اس امر کی ہے کہ عوام بھی محکمہ سے بھرپور تعاون کریں اور ایسے افراد پر کڑی نظر رکھیں جو ان پرندوں کے ناجائز اور غیر قانونی شکار ، ان کی پکڑ دھکڑ ،  اور مساکن کو نقصان پہنچانے کے مذموم عمل میں شامل ہیں۔ ان کی غیرقانونی کارروائیوں کی فوری محکمہ کو اطلاع دیں تاکہ ان کے خلاف بروقت اقدام کیا جاسکے۔

یاد رہے کہ ہمارا یہ تعاون مہاجر پرندوں کے تخفظ اور بقا کے لیے کی جانے والی کاوشوں  میں معاون  ثابت ہوگا۔

The post پاکستان؛ سائبیریا سے آنے والے ہجرتی پرندوں کا مسکن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LsbPMu
via IFTTT

ماہِ صیام اور ہماری صحتFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

رمضان المبارک بڑی رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس کی اہمیت و افادیت زندگی کے مختلف پہلوؤں سے ثابت ہے۔

سال کے اس بابرکت ماہ میں ہمیں خداوند تعالیٰ کی طرف سے عبادتوں کے ثواب اور گناہوں کا کفارہ اداکرنے کا بھرپور موقع ملتا ہے۔ ساتھ ہی تیس دنوں میں ذہنی اور جسمانی نظام مضبوط اور طاقت ور ہوجاتا ہے تاہم اس کے لیے سحر و افطار کے وقت کھانے پینے میں احتیاط کرنا شرط ہے۔

سحری میں پیٹ بھر کر کھانا غلط طرز عمل ہے اس سے معدے کا نظام غیر محرک ہوجاتا ہے اور نظام ہضم کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ ہمارا معدہ ایک خاص مقدار تک غذا ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مخصوص مقدار سے زائد غذا اکثر مختلف بیماریوں کا باعث بنتی ہے جیسے ڈائیریا، تیزابیت اور معدے کا انفیکشن وغیرہ۔ زیادہ کھانے سے دست شروع ہوجائیں تو شدید کمزوری لاحق ہوتی ہے پھر دستوں کے ساتھ الٹیاں متاثرہ شخص کو مزید لاغر کر دیتی ہیں۔

لہٰذا اول تو کسی بھی قسم کی بھاری و ثقیل غذا کا استعمال ہرگز نہ کریں اور اگر بھاری غذا استعمال کر بھی رہے ہیں تو کم مقدار میں لیں۔ سحری میں گھی میں ڈوبے پراٹھوں کی جگہ کوشش کریں کہ سادہ روٹی یا ڈبل روٹی یا استعمال کریں۔ یہ معدے کے لیے مفید ہے۔ ان کے ساتھ دال یا کم روغن والا سالن استعمال کریں۔ کھانے کے بعد توانائی پہنچانے والا کوئی بھی جوس یا تازہ پھلوں کا رس استعمال کرسکتے ہیں۔ ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ سحری میں کوئی سا ایک پھل ضرور استعمال کریں۔

اور اسے اپنی عادت بنا لیں۔ رمضان کے بعد ایسا ہی ناشتہ کرنے کی عادت ڈال لیں۔ انشاء اﷲ کبھی معدے کی کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ سحری میں چاول سے بنی ہوئی ڈشیز بہت کم استعمال کریں۔ نہاری، سری پائے، بینگن اور گوبھی وغیرہ سے بھی پرہیز کریں۔ اگر مذکورہ غذائیں سحری میں استعمال کی جائیں تو بد ہضمی کی شکایت ہوسکتی ہے البتہ کبھی کبھار استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن کوشش کریں کہ کم مقدار میں کھائیں ورنہ پورا دن کھٹی ڈکاریں آئیں گی اور تیزابیت کی شکایت بھی ہوسکتی ہے۔

ایک اور بات کا بہت خیال رہے کہ سحری میں انڈا یا اس سے بنی ہوئی چیزیں کم سے کم استعمال کریں یا بالکل ہی نہ کھائیں ایسی غذاؤں سے پیاس کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ ان احتیاطی تدابیر سے افطار تک کا وقت انشاء اﷲبہت اچھا گزرے گا۔ ایک احتیاط اور برتیں سحری کے بعد آرام بالکل نہ کریں۔ اپنے روزمرہ کام سرانجام دیتے رہیں اور خود کو مصروف رکھیں۔ سحری کے فوراً بعد آرام سے جسم میں سستی آجاتی ہے جو معدے کا سائز بڑھاتی ہے اور پیٹ بھرا ہوا اور پھولا پھالا سا محسوس ہوتا ہے۔

روزہ ہمیشہ کھجور یا نمک سے افطار کریں۔ طبی اور مذہبی اعتبار سے اس کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ دونوں چیزیں صحت کے لیے نہایت مفید ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق کجھور میں کچھ ایسی غذائیت ہوتی ہے جو معدے کے عضلات کو مضبوط کرتی ہے اور دوران خون کی کارکردگی بڑھا دیتی ہے۔ کھجور کے استعمال سے نہ صرف ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں بلکہ یہ جسم کو بھرپور توانائی فراہم کر کے جسم کی کمزوری دور کرتی ہے۔ کھجور کے فوراً بعد تھوڑا سا نیم گرم پانی استعمال کریں۔ یہ بھی معدے کی کارکردگی کو بڑھاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پورے G.Iٹریک کی صفائی کر کے عضلات کرتا ہے اور معدے کی تیزابیت ختم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

سحری کی طرح افطار میں بھی روغنی اشیاء کا استعمال کم سے کم کریں، یا بالکل ہی نہ کریں۔ افطار میں دہی بڑے، سبزی کے پکوڑے، فروٹ چاٹ ‘ تازہ جوس یا گلو کوز لے سکتے ہیں۔ سموسے اور رول وغیرہ کا استعمال کم سے کم کریں۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ پورا رمضان المبارک صحت مند رہیں اور معدے کی بیماریوں سے بچیں تو افطار کے فوراً بعد کھانا نہ کھائیں، بلکہ دو گھنٹے کا وقفہ دیں۔ افطار اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد خواتین کے لیے خاص طور سے تھوڑی بہت چہل قدمی کرنا ضروری ہے۔ مرد تراویح وغیرہ پڑھتے ہیں تو ان سے ورزش ہوجاتی ہے اور کھانا ہضم ہوجاتا ہے۔  خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ کھانے سے پہلے اور افطار کے کچھ دیر بعد چہل قدمی کریں، تاکہ کھانا ہضم ہوجائے، ورنہ کھانے کے بعد سونے سے کھانا ٹھیک سے ہضم نہیں ہوگا اور سحری میں بھی معدے میں بھاری پن محسوس ہوگا۔ یہ طرز عمل صحت کے لیے کسی طور مناسب نہیں ہے۔

سحری اور افطار کا خاص شیڈول بنائیں اور پھر پورا مہینہ اس پر سختی سے عمل کریں ، تاکہ تمام روز مرہ کے کام بھی متاثر نہ ہوں اور عبادت کا لطف و ثواب بھی پورا حاصل ہو سکے۔ افطار کے بعد وقتاً فوقتاً کوشش کریں کہ تازہ پھلوں کا جوس استعمال میں رہے، تاکہ جسم و جاں میں طاقت رہے, ویسے بھی ہر خاص و عام جانتا ہے کہ توانائی کی بحالی تازہ پھلوں کے رس ہی سے ممکن ہے۔

میڈیکل سائنس نے روزے کے متعلق دل چسپ اور حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں۔ سویڈن کے ریسرچ اسکالرز کہتے ہیں کہ روزہ رکھنے  سے مُٹاپے کم کرنے میں مدد ملتی ہے جب کہ دبلے پتلے اشخاص کا وزن بڑھنے لگ جاتا ہے۔ روزے سے جسم میں موجود جراثیم اور فاضل مادوں کا اخراج ہوجاتا ہے۔ معدہ, جگر, تلی اور آنتیں مضبوط ہوتی ہیں اور ان کی طاقت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

روز رکھنے سے ایسے افراد کو بھی فائدہ ہوتا ہے جو تمباکو یا دیگر نشہ آور اشیاء وغیرہ کی لت کا شکار ہوں۔ اگر یہ افراد بھی روزہ رکھنا شروع کردیں تو نشے کی عادت ختم ہوسکتی ہے۔ تیس دنوں کی ٹریننگ ان کے اعصاب اور قوت ارادی کو مضبوط بناکر نشے جیسی برائی سے ان کی جان چھڑا سکتی ہے۔ جو افراد چاہتے ہیں ان کا وزن کم ہوجائے تو انہیں کسی بھی قسم کی ادویہ یا ٹوٹکے نہیں آزمانے چاہئیں بلکہ پابندی سے صرف روزہ رکھیں۔ایک مہینے میں روزوں کی برکت سے ان کا وزن واضح طور پر کم ہوجائے گا پھر روزہ نفسیاتی و جذباتی بیماریوں کا بھی بہترین علاج ہے۔

ڈاکٹر سید قنبر رضا

The post ماہِ صیام اور ہماری صحت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IMFgH2
via IFTTT

بدھ، 23 مئی، 2018

پنجاب میں اڑیال کی تعداد ساڑھے 3 ہزار سے تجاوز کرگئیFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

لاہور: محکمہ تحفظ جنگلی حیات نے پنجاب کے قومی جانور اڑیال کاسروے شروع کردیا سالٹ رینج میں اڑیال  کی تعداد ساڑھے تین ہزارسے تجاوزکرگئی گزشتہ 10 برسوں میں اڑیال کی افزائش میں 3 ہزارکا اضافہ ہواہے۔

محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب ان دنوں پنجاب اڑیال کا سروے کرنے میں مصروف ہے، اڑیال ہرن کا مسکن سالٹ رینج ہے۔ ڈائریکٹرجنرل پنجاب وائلڈلائف اینڈپارکس خالدعیاض نے ایکسپریس نیوزسے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت کالاباغ  اورمیانوالی میں سروے مکمل ہوچکا ہے جبکہ چکوال، جہلم اورخوشاب میں یہ کام چنددن میں مکمل ہوجائیگا، انہوں نے بتایا 2004میں کیے گئے سروے کے دوران یہاں اڑیال کی تعدادخطرناک  حدتک کم ہوکرساڑھے چارسو تک پہنچ گئی تھی تاہم  یہاں اڑیال کی تعدادکا تخمینہ 3700 تک لگایا گیا ہے، انہوں  نے کہا اڑیال کی تعدادبڑھنے سے ہرسال بین الاقوامی شکاریوں کی آمدمیں اضافہ ہورہا ہے ،بیرون ملک پاکستان میں اڑیال کے شکارکےلئے ون ڈے ہنٹ کا سلوگن استعمال ہورہا ہے کیونکہ اب شکاریوں کواڑیال کے شکارکے لئے کئی کئی دن انتظارنہیں کرناپڑتا بلکہ وہ ایک ہی دن میں شکارکرلیتے ہیں۔

محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجا ب کے مطابق اڑیال کی افزائش میں اضافے کی بڑی  وجہ مقامی تنظیمیں بھی ہیں، کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشنز اڑیال کی افزائش بڑھانے اور اس کے مسکن کوبچانے میں اہم کرداراداکررہی ہیں، ہنٹنگ ٹرافی کے لیے جوغیرملکی شکاری آتے ہیں ان سے 17 لاکھ روپے تک فیس وصول کی جاتی ہے اوراس فیس کا 80 فیصدتک حصہ ان سی بی اوزکودے دیاجاتا ہے۔

اڑیال کے حالیہ سروے میں جہاں محکمہ جنگلی حیات کا سینسزڈیپارٹمنٹ مصروف ہے وہیں مقامی سی بی اوزکی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں اڑیال کی تعداد کی حتمی جانچ کے لئے سروے کریں، واضع رہے کہ اڑیال ہرن کوپنجاب کی پہچان سمجھاجاتا ہے، اس کے  شکارکے لئے جہاں ہرسال درجنوں غیرملکی شکاری پنجاب سالٹ رینج کا رخ کرتے ہیں وہیں مقامی شکاری بھی ہنٹنگ ٹرافی میں شریک ہوتے ہیں تاہم محکمے کی طے شدہ پالیسی کے مطابق مقامی شکاریوں کی نسبت غیرملکی شکاریوں کو اڑیال ٹرافی ہنٹنگ کے لئے ترجیع دی جاتی ہے۔

پنجاب اڑیال پاکستان میں پائے جانے والی لمبے سینگوں والے بکرے کی ایک قسم ہے- یہ پہاڑی بکرے اڑیال جس کو ارکارس یا شاپو بھی کہتے ہیں  ان کی پاکستان  میں مجموعی طورپر 6 اقسام ہیں ، اڑیال ان میں سے ایک ہے ،  اڑیال سالٹ رینج اور چٹا کالا رینج کی پہاڑیوں پر پایا جاتا ہے تاہم اس کے علاوہ یہ پنجاب کے دو آبہ کے علاقے میں بھی دیکھا گیا ہے۔ یہ ایک خاکی رنگ کا بکرا ہے جس کا نچلا دھڑ سفید اور ان دونوں کو جدا کرتی ایک سیاہ پٹی ہوتی ہے- اس کے سینگ تمام عمر بڑھتے رہتے ہیں اور جس بکرے کے جتنے بڑے سینگ ہوں اس کی عمر اتنی ہی بڑی ہوگی- آبادی کا پھیلاؤاور جنگلات کی تباہی نے اس جنس کو خطرے سے دوچار کر رکھا ہے۔

The post پنجاب میں اڑیال کی تعداد ساڑھے 3 ہزار سے تجاوز کرگئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LoLRJO
via IFTTT

دہشتگردی کیخلاف شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ملکوں کے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہیں، پاکستانFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

اسلام آباد: سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کا کہنا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ملکوں کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے اور رکن ملک پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے انسداد دہشت گردی سے متعلق اجلاس میں سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اہم کردار ادا کرسکتی ہے کیونکہ تنظیم کا مقصد ممبر ملکوں کے درمیان امن اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون اور روابط بڑھانا ہے، شنگھائی تعاون تنظیم میں باہمی تجارت، توانائی اور معاشی ترقی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے بے پناہ مواقع موجود ہیں، پاکستان میں بنیادی ڈھانچے میں تیزی سے ہوتی ترقی کے ساتھ تجارت اور کاروبار کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔

تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ پاکستان دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر ملک ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں 120رب ڈالر کا نقصان ہوا اور ہزاروں افراد نے جانیں قربان کی ہیں، پاکستان خطے کو درپیش دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرات سے پوری طرح آگاہ ہے۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف مربوط پالیسی مرتب کی، ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایس سی او ملکوں کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں اور رکن ملک پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

The post دہشتگردی کیخلاف شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ملکوں کے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہیں، پاکستان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2s4DCJT
via IFTTT

ملک میں قانون کے سارے ہتھیار سیاستدانوں کے لئے بنے ہیں، نوازشریفFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں قانون کے سارے ہتھیار اہل سیاست کے لیے بنے ہیں  اور جب بات فوجی آمروں کے خلاف آئے تو فولاد موم بن جاتا ہے۔

جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کررہے ہیں، سماعت کے آغاز پر نواز شریف کی جانب سے متفرق درخواست دائر کی گئی جس میں کہا گیا کہ انہوں نے گزشتہ دو روز کی  عدالتی کاروائیوں کے دوران تمام سوالوں کےجواب دیئے ہیں، 5 سوالوں کے جواب قلمبند کرانا باقی ہیں تاہم ان سوالوں کے جواب دیگر دو ریفرنسز میں گواہان مکمل ہونے کے بعد ریکارڈ کیا جائے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد نواز شریف کی درخواست مسترد کردی، جس کے بعد نواز شریف نے باقی رہ جانے والے سوالوں کے جواب قلمبند کرانا شروع کردیے۔

نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ مجھے نکالے جانے کی سب سے بڑی وجہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس ہے، میں نے اپنا گھر درست کرنے اور اپنے آپ کو سنوارنے کی بات کی ،میں نے خارجہ پالیسی کو نئے رُخ پر استوار کرنے کی کوشش کی۔ میں نے سرجھکا کر نوکری کرنے سے انکار کیا۔  آصف زرداری کے ذریعے مجھے پیغام دیا گیا کہ پرویز مشرف کے دوسرے مارشل لاء کو پارلیمانی توثیق دی جائے لیکن میں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: اگلا الیکشن ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے پرہوگا

سابق وزیراعظم نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس قائم کرتے ہی مشکلات اور دباؤ بڑھادیا گیا، 2014 میں حکومت کے خلاف دھرنے کرائے گئے، ان دھرنوں کا مقصد مجھے دباؤ میں لانا تھا،  امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے، کون تھا وہ امپائر؟ ،وہ جوکوئی بھی تھا اسکی پشت پناہی دھرنوں کو حاصل تھی، پی ٹی وی، پارلیمنٹ، وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر بھی فسادی عناصر سے محفوظ نہ رہ سکے، اس کا مقصد تھا کہ مجھے پی ایم ہاؤس سے نکال دیں اور پرویز مشرف کے خلاف کارروائی آگے نہ بڑھے، منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ میں دباؤ میں آجاؤں گا، ایک خفیہ ادارے کے سربراہ کا پیغام پہنچایا گیا کہ مستعفی ہوجاؤ یا طویل رخصت پر چلےجاؤ، طویل رخصت کا مطالبہ اس تاثر کی بنیاد پر تھا کہ نواز شریف کو راستے سے ہٹادیا گیا۔ جو کچھ ہوا سب قوم کے سامنے ہے، اب یہ باتیں ڈھکا چھپا راز نہیں ہیں۔

فاضل جج کو مخاطب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ کاش آج آپ یہاں لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی روح کو طلب کرسکتے اور ان سے پوچھ سکتے کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا ،کاش آج آپ ایک زندہ جرنیل کو بلاکر پوچھ سکتے کہ اس نے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیوں کیا، سارے ہتھیار اہل سیاست کے لیے بنے ہیں، جب بات فوجی آمروں کے خلاف آئے تو فولاد موم بن جاتا ہے،  پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ شروع ہوتے ہی اندازہ ہوگیا کہ آمر کو کٹہرے میں لانا کتنا مشکل ہوتا ہے، انصاف کے منصب پر بیٹھےجج پرویز مشرف کو ایک  گھنٹے کے لیے بھی جیل نہ بھجواسکے، وہ پراسرار بیماری کا بہانہ بناکر دور بیٹھا رہا، جنوری 2014 میں وہ عدالت کے لیے نکلے تو طے شدہ منصوبے کے تحت اسپتال پہنچ گئے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ مجھے کبھی آئینی مدت پوری کرنے نہیں دی گئی، مجھے جلاوطن کردیا گیا، میری جائیدادیں ضبط کرلی گئیں، واپس آیا تو ہوائی اڈے سے روانہ کردیا گیا، میں اس وقت بھی حقیقی جمہوریت کی بات کررہاتھا، فیصلے وہی کریں جنہیں عوام نے اختیار دیاہے، داخلی اور خارجی پالیسیوں کی باگ دوڑ منتخب نمائندوں کے پاس ہی ہو۔

نواز شریف نے کہا کہ مجھے بے دخل کرنے اور نااہل قرار دینے والے کچھ لوگوں کو تسکین مل گئی ہوگی، مجھے سیسلین مافیا، گارڈ فادر، وطن دشمن اور غدار کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میرے آباواجداد ہجرت کرکے یہاں آئے، میں پاکستان کا بیٹا ہوں مجھے اس مٹی کا ایک ایک ذرہ پیارا ہے، میں کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینا اپنی توہین سمجھتاہوں، میری نااہلی اور پارٹی صدارت سے ہٹانے کے اسباب و محرکات کو قوم بھی اچھی طرح جانتی ہے، کیا میرے خلاف فیصلہ دینے والے ججوں کو مانیٹرنگ جج لگایا جا سکتا ہے؟  کیا کسی لفظ کی تشریح کے لیئے گمنام ڈکشنری استعمال کی جاتی ہے؟ کیا کسی سپریم کورٹ کے بینچ نے جے آئی ٹی کی نگرانی کی؟  کیا کسی نے اقامے پر مجھے نااہل کرنے کی درخواست دی تھی؟، یہاں جتنے گواہان پیش ہوئے کسی نے گواہی نہیں دی کہ میں نے کوئی جرم کیا، آپ اورمجھ سمیت سب کو اللہ کی عدالت میں پیش ہوناہے، ریفرنس کا فیصلہ آپ پر چھوڑ رہا ہوں۔

The post ملک میں قانون کے سارے ہتھیار سیاستدانوں کے لئے بنے ہیں، نوازشریف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ICH6OS
via IFTTT

عمران خان کا بارہواں ’’گمشدہ‘‘ نکتہFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

فن تحریر میں طفلِ مکتب ہونے کا ادراک رکھنے کے باوجود قلم اٹھانے کی گُستاخی پر پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔ لکھنے کی وجہ محترم عمران خان صاحب کے گیارہ نکات ہیں جو مجھ ناچیز کی رائے میں بارہویں نکتے کے بغیر نہ صرف ادھورے بلکہ ناقابل عمل بھی ہیں۔ کیوں اور کیسے؟ یہ سمجھنے کےلیے ہمیں بارہواں نکتہ جاننے کی ضرورت ہے۔

میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اہم ترین سرکاری اداروں میں اہم ترین ذمہ داریوں پر براجمان ہونے کے باوجود ان ذمہ داریوں سے عہدہ برأ ہونے کی اہلیت سے محروم ہیں۔ میں نفسیاتی مریضوں کو حساس ترین اداروں میں ملازمتیں کرتے دیکھتا ہوں اور ان نفسیاتی مریضوں کو بھرتی کرنے والوں کی عقل کو داد دیتا ہوں۔ قصور بھرتی کرنے والوں کا بھی نہیں کہ ان میں یہ قابلیت تھی ہی نہیں کہ وہ بھرتی کرنے جیسے حساس کام کےلیے چُنے جاتے۔ اُن بے چاروں کو تو اپنی روزمرہ ذمہ داریوں سے اچانک ہٹا کر یہ ذمہ داری دے دی گئی تھی کیوں کہ سول سروس ایکٹ کا تقاضا یہی تھا۔

ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ یہاں سرکاری اداروں میں ایچ آر (Human Resources)، ایچ آر ایم ( Human Resource Management) اور اس کے تحت ایچ آر آر اینڈ ڈی (Human Resource Research & Development) کا کوئی ونگ سرے سے موجود ہی نہیں؛ اور اگر کہیں برائے نام موجود ہے تو نام نہاد ایچ آر ڈیپارٹمنٹ میں ایچ آر کے تعلیمی پس منظر رکھنے والے لوگ موجود نہیں۔ ہمارے ہاں ایچ آر کا انتظام ایڈمنسٹریشن ونگ سے چلایا جاتا ہے۔ نتیجتاً متعلقہ ذمہ داری کی نوعیت سے انجان لوگ بھرتی کر لیے جاتے ہیں جن سے عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق ریسرچ اور انوویشن (innovation) کی امید رکھنا ہی فضول ہے۔

اور تو اور، ہمارے ہاں سی ایس پی افسران کی بھرتی کا جو معیار طے ہے اسے دیکھ کر بے اختیار ہنسی آتی ہے۔ عہد جاہلیت کے عرب شعراء کی بیہودہ شاعری کا اچھا رٹا لگا لو تو پلیسمنٹ (Placement) آسان اور انگریزوں میں بھی متروک ہوچکی انگریزی جتنی بہتر ہوئی، اتنا پاس ہونا آسان۔ وگرنہ زمانے کے ارسطو بھی انگریزی کے مضمون میں پاس نہ ہوں گے اور English Essay میں پاس نہ ہونے کا انجام سبھی جانتے ہیں۔ باقی رہ گئے ایف پی ایس سی افسران یا پی ایس سی افسران تو کچھ سال پہلے تک محض ایک MCQs کا پرچہ دے کر بھرتی کیے جاتے تھے۔ اب سنا ہے کہ ایک انگریزی مضمون بھی لکھنا ہوتا ہے وہ بھی کچھ محکموں کےلیے۔ نہ کوئی Aptitude Test اور نہ کوئی نفسیاتی فٹنس کا معیار (Psychological Fitness Standard)۔

گریڈ 16 سے نیچے کا تو اتنا برا حال ہے کہ اس پر تفصیلی گفتگو ہوسکتی ہے اور وہ بھی کئی دن تک، کہ کس طرح ایک ڈیپارٹمنٹل سلیکشن کمیٹی میں بجائے ہیومن ریسورس مینجمنٹ کے ماہرین اور سائیکالوجسٹس کے وہ لوگ رکھے جاتے ہیں جن کو HRM کی ’’الف ب‘‘ بھی نہیں آتی اور پھر امیدواروں سے محض دنیا کے شہروں کے نام انٹرویو میں پوچھ کر متعلقہ aptitude نہ رکھنے والوں کو بھرتی کرکے فقط ایک خاندان کی روزی روٹی کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ اس ایک نااہل فرد کی نااہلی کتنے ہزار افراد کو بلاواسطہ متاثر کرتی ہے؟ کسی کو سروکار تک نہیں ہوتا۔

یہاں تک تو بھرتی کے معاملات کا ایک فیصد خاکہ تھا۔ اب ہم آتے ہیں ان چند لوگوں کی طرف جو اہلیت رکھتے ہوئے اس سسٹم کے سارے پیچ و خم کا مقابلہ کرتے کرتے سسٹم میں داخل تو ہوگئے اور اس قوم و ملک کےلیے اپنی صلاحیتیں وقف کرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں، لیکن عمران خان صاحب کا وہی گمشدہ بارہواں نکتہ انہیں ایسا کرنے نہیں دیتا۔

وہ کیوں؟ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے لوگ اچھی طرح سے سمجھ گئے ہوں گے اور غیر سرکاری لوگوں سے گزارش کرتا چلوں کہ آپ کتنے بھی لائق، محنتی اور فرض شناس کیوں نہ ہوں، آپ کا باس یا اُس کے اوپر کوئی بھی (immediate boss or anyone above him) جب تک نہیں چاہے گا، آپ ملک وقوم کےلیے نہ کچھ کر سکتے ہیں اور نہ ہی اگلے عہدے پر ان کی مرضی کے بغیر ترقی پاسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ کی ترقی اسی وقت ہوگی جب آپ سے اگلا بندہ (بلحاظ سروس) ترقی نہیں پالیتا، خواہ وہ ایک نفسیاتی مریض ہی کیوں نہ ہو۔

وقت اور جگہ کی قید نہ ہو تو ہر ایک سرکاری محکمے کے بگڑنے کے اسباب، اس کے اثرات اور تدارک پر کئی درجن کالم لکھے جا سکتے ہیں۔ اب محترم عمران خان صاحب اگر واقعی اپنے گیارہ نکات پر عمل کروانا چاہتے ہیں تو انہیں یہ ادراک تو یقیناً ہوگا کہ وہ اکیلے تو تمام کام نہیں کرسکتے، اور یہ بھی کہ انہیں ان ہی اداروں کے ان ہی لوگوں کے ذریعے اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانا پڑے گا جو موجودہ سرکاری اداروں میں بھرتی کے موجودہ قوانین اور ان اداروں کو چلانے کی موجودہ روش کے ہوتے ہوئے ایک ناممکن عمل ثابت ہوسکتا ہے۔ میری صرف اتنی سی گزارش ہے کہ وہ اپنے گیارہ نکات میں ایک بارہواں نکتہ

تمام سرکاری اداروں کی ازسرنو تنظیم

بھی اپنے منشور میں شامل کرلیں تو شاید کچھ بہتری لاسکیں ورنہ مجھے ڈر ہے کہ عمران خان کا اپنی قوم کےلیے جو بائیس سال کا صبر آزما سفر ہے، اُسے یہ لوگ اپنی نااہلی کے ستر سالہ تجربہ سے مات نہ دے دیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post عمران خان کا بارہواں ’’گمشدہ‘‘ نکتہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2GH9ucY
via IFTTT

شاہ رخ خان کی عید پراہلیہ سے بریانی بنانے کی فرمائشFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

انتخابات بروقت اور تحریک انصاف کیلئے سود مند ہونگے؟FOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

 لاہور:  پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد میں تاخیر یا التواء کے حوالے سے پائی جانے والی افواہیں اور بے یقینی دم توڑ رہی ہے۔ بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے کہ جولائی2018 کے آخری ہفتہ میں پاکستانی عوام ملکی تاریخ کے 13 ویں مگر سب سے اہم جنرل الیکشن میں اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔

پاکستان میں پہلے عام انتخابات 1954 میں ہوئے تھے۔ اس ان ڈائریکٹ الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ کامیاب ہوئی تھی۔ 1962 ء میں دوسرے عام انتخابات بھی ان ڈائریکٹ تھے اور فاتح بھی مسلم لیگ تھی۔1970 ء میں ہونے والے انتخابات میں عوامی لیگ کامیاب ہوئی ۔ 1977 ء کے عام انتخابات ملکی تاریخ کا اہم موڑ ثابت ہوئے اور ان میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کر لی ۔1985 ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ کامیاب ہوئی تھی اور انہی انتخابات کے نتیجہ میں میاں نواز شریف سیاسی افق پر نمودار ہوئے تھے۔

1988 ء کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی اور 1990 ء کے الیکشن میں اسلامی جمہوری اتحاد کامیاب ہوا۔1993 ء میں پیپلز پارٹی نے ایک مرتبہ پھر الیکشن جیت لیا اور 1997 ء میں مسلم لیگ نواز کامیاب ہو گئی۔ پرویز مشرف کے دور میں 2002 ء میں ہونے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ(ق) کامیاب ہوئی لیکن یہ انتخابات ’’انجینئرڈ‘‘ اور ق لیگ ’’کنگز پارٹی‘‘ قرار پائی۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 ء میں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو حکومت مل گئی تھی جبکہ 2013 ء کے متنازعہ الیکشن میں مسلم لیگ(ن) کامیاب ہوئی۔ تاہم 2013 ء کے انتخابات شاید ملکی تاریخ کے متنازعہ ترین انتخابات ہیں جن میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایک سابق آرمی چیف اور ایک سابق چیف جسٹس پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملکر نواز حکومت کے قیام میں مبینہ رول ادا کیا تھا اور اس مقصد کیلئے مبینہ طور پر انتخابی عمل میں دھاندلی کی گئی تھی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدر مملکت کو بھیجی گئی سمری میں آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کیلئے 25 26, اور 27 جولائی کی تاریخ میں سے کسی ایک کے انتخاب کی سفارش کی ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ سیاسی جماعتوں کے پاس اپنے امیدوار فائنل کرنے اور ان امیدواروں کے پاس الیکشن مہم چلانے کیلئے آج کے بعد مزید 62 دن باقی ہیں۔ الیکشن مہم کیلئے یہ وقت بہت مختصر معلوم ہوتا ہے اور سب سے زیادہ نازک صورتحال پاکستان تحریک انصاف کی ہے کیونکہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد امیدواروں کا انتخاب مزید پیچیدہ ہو چکا ہے لیکن تحریک انصاف اس مرتبہ پارٹی میں سے مضبوط امیدواروں کے انتخاب سے زیادہ توجہ دوسری پارٹیوں کے ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کو تحریک انصاف میں شامل کرنے پر دے رہی ہے ۔

پاکستان میں گوشت کی دستیابی میں تو ہفتہ میں 2 دن کا ناغہ ہورہا ہے لیکن تحریک انصاف میں شمولیت کے حوالے سے کوئی ناغہ دیکھنے میں نہیں آرہا، ہر روز کوئی نہ کوئی الیکٹ ایبل کپتان کی ٹیم میں شامل ہو رہا ہے اور شامل ہونے والوں کی سنچری کب کی مکمل ہو چکی ہے۔ اس حوالے سے جہانگیر خان ترین کا کردار سب سے اہم ہے جن کی کلیئرنس کے بعد عمران خان شمولیت کرنے والوں سے باضابطہ ملاقات کرتے ہیں۔ شمولیت کرنے والوں کی کثرت کے حوالے سے جہانگیر ترین کے بارے میں سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے کئے جا رہے ہیں جن میں سے ایک بڑا وائرل ہو رہا ہے جس میںن لیگی قیادت بن کر کہا گیا ہے کہ’’گھر سے مت نکلنا،باہر جہانگیر ترین گھوم رہا ہے‘‘۔

تحریک انصاف کے اندر ہر سطح کے رہنماوں اور کارکنوں میں اتنی بڑی تعداد میں الیکٹ ایبلز کے شامل ہونے پر تحفظات اور خدشات موجود ہیں۔ کارکن اور رہنما سمجھ رہے ہیں کہ اس طرح سیاسی توازن خراب ہورہا ہے۔ ہر سیاسی موسم کے ساتھ بدلنے والے یہ الیکٹ ایبلز آنے والے دنوں میں پارٹی کے اندر بھی اور پارلیمنٹ میں بھی توازن خراب کر سکتے ہیں جبکہ میڈیا اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی تحریک انصاف پر یہ تنقید بڑھا سکتی ہیں کہ پرانے الیکٹ ایبلز کے ساتھ الیکشن جیتنے والے عمران خان کس طرح سے نیا پاکستان بنا سکتے

ہیں۔ پارٹی کے اندر یہ سوچ اپنی جگہ درست ہے لیکن عمران خان کی مجبوری ہے کہ وہ الیکٹ ایبلز کے بغیر یہ الیکشن جیت نہیں سکتا۔ تحریک انصاف آج تک ایک مکمل سیاسی جماعت نہیں بن پائی ہے اور نہ ہی اس کے رہنماوں نے پختہ سیاسی سوچ اور راہ عمل اپنائی ہے۔ قومی اسمبلی کی 272 نشستوں کیلئے اگر تحریک انصاف میں ایسے 272 امیدوار تلاش کرنے کی کوشش کی جائے، جو اپنے حلقوں میںعوامی سطح پر مقبول بھی ہوں اور قابل قبول بھی، گزشتہ پانچ برس سے حلقہ میں خوشی،غمی میں شرکت کے علاوہ ووٹرز کو ہمہ وقت دستیاب رہے ہوں۔

حلقہ میں پارٹی کی سرگرمیوں کو جاری رکھا ہو، ان کے پاس انتخابی مہم چلانے اور پولنگ ڈے کو بھرپور طریقہ سے مینج کرنے سمیت دیگر اخراجات کیلئے غیر یقینی اور زبانی جمع تفریق والے ’’سپانسرز‘‘پر انحصار کی بجائے اپنی جیب میں وافر مالی وسائل دستیاب ہوں تو شاید عمران خان مطلوبہ تعداد کا نصف بھی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ایسی صورتحال میں عمران خان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ کم سے کم متنازعہ یعنی اندھوں میں کانا دکھائی دینے والے الیکٹ ایبلز کو ساتھ لیکر چلیں ۔ ویسے عمران خان جس مزاج اور انداز کے انسان ہیں وہ حکومت بننے کے بعد ان الیکٹ ایبلز کو بے لگام نہیں ہونے دیں گے۔ عام پاکستانی اس وقت یہی سوچ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو تو متعدد مرتبہ آزما لیا،ایک مرتبہ تحریک انصاف کو بھی موقع دیکر دیکھتے ہیں شاید عمران خان ملک و قوم کی بہتری کیلئے وہ کر جائے جو آج تک سیاستدان نہیں کر سکے ہیں۔

میاں نواز شریف جان چکے ہیں مگریہ ماننے کو تیار نہیں کہ’’پارٹی از اوور‘‘۔ ان کی سیاست اور جماعت’’کٹ ٹو سائز‘‘ ہو چکی ہے،ان کی پارٹی کے اراکین بددلی اور غیر یقینی کا شکار ہو کر اپنے الیکشن پر زیادہ اخراجات نہ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جب پارٹی کی حکومت ہی نہیں آرہی تو کروڑوں روپے الیکشن پر لگانے سے کیا فائدہ ہوگا لہذا محدود بجٹ میں الیکشن جیت گئے تو ٹھیک ورنہ حلقہ کی سیاست تو ہار کر بھی کی جا سکتی ہے۔ نگران وزیر اعظم اور وزرائے اعلی کا تقرراس وقت سب سے اہم معاملہ ہے جس پر گزشتہ روز تک اتفاق رائے نہیں ہو پایا ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں بالخصوص تحریک انصاف ایک غیر جانبدار، اچھی ساکھ اور متفقہ فرد کو نگران بنانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ تحریک انصاف 2013 ء کے الیکشن میں نگرانوں کے ہاتھوں زخم کھا چکی ہے لہذا وہ اس مرتبہ کوئی غلطی کرنے کا رسک لینے کو تیار نہیں ہے۔

تحریک انصاف نے اپنی حکومت کے پہلے 100 دن کا روڈ میپ بڑے پر اعتماد اور منظم انداز میں پیش کیا ہے گو کہ مخالف سیاسی جماعتیں اور مبصرین اس روڈ میپ کو ناقابل عمل قرار دے رہے ہیں لیکن یہ حقیقت بھی موجود ہے کہ عام پاکستانیوں کی بڑی تعداد اس روڈ میپ کو سن کر متاثر ہوئی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ اس میں سے آدھا کام بھی کر لیا جائے تو یہ تاریخ ساز ہوگا۔

The post انتخابات بروقت اور تحریک انصاف کیلئے سود مند ہونگے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IEvLtr
via IFTTT

نگران سیٹ اپ کیلئے حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق ہو سکے گا؟FOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

 کراچی: سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے مسلسل دس سال مکمل ہونے والے ہیں۔ ایک ہفتے کے بعد نئی نگران حکومت قائم ہو جائے گی۔ تادم تحریر نگران وزیر اعلی کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے مابین کوئی متفقہ نام سامنے نہیں آیا ہے اور اتفاق ہونا مشکل نظر آ رہا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے نہ صرف اہداف مختلف ہیں بلکہ دونوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے بہت دور جا چکی ہیں۔ البتہ کچھ قوتیں ایسی بھی سرگرم ہیں، جو انہیں نگران سیٹ اپ پر متفق کر سکتی ہیں۔ کراچی سمیت پورے سندھ میں آئندہ عام انتخابات کے پیش نظر سیاسی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں اور نئی صف بندیوں کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

صوبے میں نگران سیٹ اپ کے لیے آئندہ ایک دو روز میں پیش رفت ہو سکتی ہے کیونکہ وقت بہت کم ہو گیا ہے۔ آج سندھ اسمبلی آئندہ بجٹ کی منظوری دے سکتی ہے۔ اس کے بعد کسی بھی وقت وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن کے درمیان نگران وزیر اعلی کے معاملے پر ملاقات ہو سکتی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے نگران وزیر اعلی کے لیے فضل الرحمن ، حمیر سومرو ، جسٹس (ر) غلام سرور کورائی ، ڈاکٹر یونس سومرو ، سونو خان بلوچ اور غلام علی پاشا کے ناموں پر غور کیا گیا۔ ان کے علاوہ بیرسٹر مرتضٰی وہاب اور پروفیسر این ڈی خان کے ساتھ ساتھ جسٹس (ر) دیدار حسین شاہ کے نام بھی لیے جا رہے ہیں۔

فضل الرحمن سابق چیف سیکرٹری سندھ ہیں اور وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ذوالفقار ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ایم ڈی کے علاوہ سندھ حکومت کے کئی اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ انہیں پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر آصف علی زرداری کا قریبی تصور کیا جاتا ہے۔

وہ اردو بولنے والے ہیں اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے بھی ان کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ حمیر سومرو سندھ کے دو مرتبہ 1938 اور 1941 ء میں وزیر اعلی رہنے والے اللہ بخش سومرو کے پوتے اور سابق صوبائی وزیر رحیم بخش سومرو مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ انہوںنے امریکا سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی ہے۔

وہ اس وقت انڈس ریلی اسکول آف آرٹ اینڈ کلچر کے ایڈمنسٹریٹر ہیں لیکن سیاسی طور پر بھی بہت متحرک ہیں۔ جسٹس (ر) غلام سرور کورائی حکومت سندھ کے زیر انتظام چلنے والے کالجز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین ہیں جبکہ ڈاکٹر یونس سومرو معروف آرتھو پیڈک سرجن ہیں۔ سونو خان بلوچ صوبائی الیکشن کمشنر رہے ہیں اور غلام علی پاشا سندھ کے قائم مقام چیف سیکرٹری سمیت کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ جسٹس (ر) دیدار حسین شاہ کا نام بھی نگران وزیر اعلی کے طور پر لیا جا رہا ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ ان کی صحت زیادہ بہتر نہیں ہے ۔

ایم کیو ایم کی طرف سے جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد، آفتاب شیخ سمیت دیگر نام سامنے آ سکتے ہیں لیکن دونوں طرف سے اب تک سامنے آنے والے ناموں کے علاوہ کوئی اور نام بھی اچانک سامنے آ سکتا تھا۔ پیپلز پارٹی کی کوشش یہ ہو گی کہ وزیر اعلی اور اپوزیشن لیڈر کے مابین ملاقات کے دوران ہی نگران وزیر اعلی کے نام پر اتفاق ہو جائے لیکن ایسا مشکل نظر آتا ہے۔ ایم کیو ایم کی یہ کوشش ہو گی کہ معاملہ الیکشن کمیشن میں جائے کیونکہ وہاں اس کے امیدوار کے لیے نگران وزیر اعلی نامزد ہونے کا امکان موجود ہے۔ کل تک صورت حال واضح ہو جائے گی۔

دوسری طرف عام انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے سندھ میں سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیاں تیزکر دی ہیں۔ رمضان المبارک اور سخت گرمیوں کے باوجود یہ سرگرمیاں جاری ہیں۔ سندھ کے دارالحکومت کراچی پر سب سیاسی قوتوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی ، پاک سرزمین پارٹی ، جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی قیادت میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں پر مشتمل پاکستان عوامی اتحاد کراچی میں پہلے سے زیادہ سرگرم ہیں کیونکہ یہ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ ایم کیو ایم میں دھڑے بندیوں کے بعد وہ کراچی میں پیدا ہونے والے سیاسی خلاء کو پر کر سکتی ہیں۔

سندھ کے دیگر اضلاع میں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس ( جی ڈی اے ) میں شامل سیاسی جماعتیں نہ صرف ایک ہی انتخابی نشان سے الیکشن لڑیں گی بلکہ ان کے امیدوار بھی مشترکہ ہوں گے ۔ پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے سربراہ اور حروں کے روحانی پیشوا پیر پگارا جی ڈی اے کی قیادت کر رہے ہیں ۔ جی ڈی اے نے الیکشن کمیشن میں ایک سیاسی اتحاد کے طور پر رجسٹریشن کرا لی ہے ۔

پیپلز پارٹی کے مقابلے میں جی ڈی اے نے پورے سندھ میں امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اگلے روز جماعت الدعوہ اور ملی مسلم لیگ کے سربراہ حافظ محمد سعید نے پیر پگارا سے کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور سندھ میں آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا ۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف بھی سندھ میں بہت متحرک ہے ۔ توقع کی جا رہی تھی کہ سندھ کی بعض اہم سیاسی شخصیات تحریک انصاف میں شرکت کریں گی لیکن ان اہم شخصیات نے ابھی اپنی شمولیت بوجوہ موخر کر دی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے ایک وفد نے سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنماؤں سید زین شاہ اور دیگر سے حیدر منزل پر ملاقات کی ۔ تحریک انصاف اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی نے آئندہ انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اتفاق کیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ سندھ میں سیاسی صف بندیاں مزید واضح ہوں گی ۔

The post نگران سیٹ اپ کیلئے حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق ہو سکے گا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2s4cOdB
via IFTTT

فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے کا فیصلہ، حکومت اب کریڈٹ لینے کو تیارFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

پشاور: مرکزی حکومت نے اگر قبائلی علاقہ جات کو خیبرپختونخوا میں ضم کرتے ہوئے اسے بندوبستی علاقوں والاسٹیٹس دینا ہوتا تو وہ یہ کام بہت پہلے کر چکی ہوتی لیکن (ن) لیگ کی مرکزی حکومت اس معاملے پر پہلو تہی کرتی آئی ہے کیونکہ وہ اتنا بڑا فیصلہ لیتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار تھی لیکن اب جب فیصلہ سازوں نے فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کاارادہ اور فیصلہ کرلیا ہے تومرکزی حکومت بھی اس کا کریڈٹ لینے کے لیے پوری فارم میں نظر آرہی ہے اورموجودہ حکومت اپنے آخری چند دنوں کے دوران یہ بل منظور کرواتے ہوئے اسے عام انتخابات میں کیش کرنے کی بھرپور کوشش کرے گی۔

فاٹا کا معاملہ قیام پاکستان ہی سے التواء کا شکار رہا ہے جس کے حوالے سے کوئی ایسا فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ جس کی بنیاد پرفاٹا کی نیا آریا پار ہوسکتی اور پھر خود فاٹا بھی اپنے مستقبل کے فیصلے کے حوالے سے منقسم رہا ہے جس کی وجہ سے فاٹا کے بارے میں فیصلہ نہیں ہوسکا لیکن اب جبکہ موجودہ حکومتیں اپنے آخری دنوں میں ہیں،اس موقع پر فاٹا سے متعلق اہم فیصلے ہونے شروع ہوگئے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ بیشتر سیاسی پارٹیاں اس بات کے حق میں تھیں کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرتے ہوئے قومی دھارے میں لایاجائے اور صرف جمعیت علماء اسلام(ف)اورپختونخوا ملی عوامی پارٹی اس کی مخالفت کر رہی تھیں لیکن اس وقت مرکزی حکومت نے ان سیاسی پارٹیوں کی آواز پر کان نہیں دھرا حالانکہ اگر اس وقت ان سیاسی پارٹیوں کی بات سن لی جاتی اور اس پر فیصلہ کرلیاجاتا تو آج فاٹا بھی اس پوزیشن میں ہوتا کہ اس میں عام انتخابات کے انعقاد کی تیاریاں کی جا رہی ہوتیں لیکن یہ فیصلہ لینے میں بہت تاخیر کی گئی۔

جس کی وجہ سے اس سال فاٹا میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے عام انتخابات کا انعقاد نہیں ہوسکے گا اور قبائلی عوام کو اس سال بلدیاتی انتخابات پر ہی گزارہ کرنا ہوگا جبکہ عام انتخابات کا انعقاد آئندہ سال اپریل، مئی میں ہوگا جس کے بعد ہی قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا اسمبلی میں نمائندگی حاصل ہوگی اور وہاں کے نمائندے اپنے علاقوں اور عوام کی نمائندگی صوبائی اسمبلی میں کر پائیں گے اورتب تک فاٹا اپنے بارے میں دوسروں کے فیصلوں کا محتاج رہے گا ۔

چونکہ فاٹا کے حوالے سے اس فیصلے میں جمعیت علماء اسلام(ف) باہر رہ رہی ہے جومناسب نہیں کیونکہ جمیعت علماء اسلام(ف)کا فاٹا میں ایک اہم اور بڑا کردار ہے اور اسے اس اہم موقع پر فاٹا کے حوالے سے فیصلہ سازی کے عمل میں شریک نہ کرتے ہوئے خلاء پیدا کیا جا رہا ہے وہ بھی اس صورت میں کہ اگرعام انتخابات کے نتیجے میںخیبرپختونخوا میں ایم ایم اے کی حکومت بنتی ہے توکیا وہ فاٹا کو اس طریقے سے ساتھ لے کر چلنے کے لیے تیار ہوگی ۔

جیسے سوچا اور سمجھا جا رہا ہے اس لیے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے جے یوآئی کو اسی موقع پرساتھ لیتے ہوئے فیصلہ سازی میں شامل کرلیاجائے تو یہ ایک صائب اقدام ہوگا کیونکہ جے یوآئی احتجاج پر اترآئی ہے، دوسری جانب جماعت اسلامی اورجے یوآئی کے بھی فاٹا کے حوالے سے اختلافات موجود ہیں حالانکہ اس بارے میں کہا گیا تھا کہ دونوں پارٹیوں کی جانب سے دورکنی کمیٹی قائم کی جائے گی تاکہ وہ فاٹا سے متعلق اختلاف ختم کر سکے لیکن یہ اختلاف ختم نہیں ہو سکا اور اسی اختلاف کے دوران ہی خیبرپختونخوا کے لیے ایم ایم اے کا تنظیمی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا ہے جس کے حوالے سے الگ کہانی موجود ہے۔

متحدہ مجلس عمل کی خیبرپخونخوا میں کی گئی تنظیم سازی کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اسے دل سے تسلیم نہیں کیا، اگر جماعت اسلامی اس عمل کو دل سے تسلیم کررہی ہوتی تو اس صورت میں جماعت اسلامی کے صوبائی امیر سینیٹر مشتاق احمد خان نہ صرف یہ کہ صوبائی سیٹ اپ میں سینئر نائب امیر کا عہدہ لیتے بلکہ ساتھ ہی وہ اس پریس کانفرنس میں بھی موجود ہوتے جس میں ایم ایم اے کے صوبائی سیٹ اپ کا اعلان کیا گیا لیکن وہ وہاں سے غیرحاضر تھے اوران کی غیر حاضری ہی کان کھڑے کرنے کے لیے کافی تھی۔

مشتاق احمد خان اور ان کے ساتھی کسی بھی طور اس بات پر تیار نہیں تھے کہ ایم ایم اے کی صوبائی صدارت جے یوآئی کو دی جائے لیکن جماعت اسلامی کی مرکز ی قیادت کے کہنے پر وہ پیچھے ہٹ گئے تاکہ ان کی پارٹی قیادت کا مان برقرار رہے لیکن جے یوآئی کی صدارت کو تسلیم نہ کرنے کے حوالے سے اب بھی جماعت اسلامی کے پاس بہت سے دلائل بھی ہیں اورجماعت اسلامی کے قائدین نے اسے دل سے تسلیم بھی نہیں کیا اور یہ مسلہ الیکشن کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر دوبارہ اٹھے گا۔

جماعت اسلامی جب ایم ایم اے کی مرکزی صدارت جے یوآئی کو دینے پر تیار ہوئی تو اسی وقت اندازہ ہوگیا تھاکہ جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کی صدارت پر نظریں لگائے ہوئے ہے کیونکہ جماعت اسلامی ترازو کا اپنا انتخابی نشان بھی چھوڑکرکتاب کے نشان پر الیکشن کرنے کو تیارہوئی ہے حالانکہ گزشتہ انتخابات کے موقع پر جماعت اسلامی میں یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ انتخابات کے بائیکاٹ اوراتحادوں کی سطح پر انتخابات میں حصہ لینے کی وجہ سے جماعت اسلامی کا اپنا انتخابی نشان کھو کر رہ گیا ہے۔

اس لیے اب جماعت اسلامی تمام انتخابات اپنے اسی ترازو کے انتخابی نشان پر ہی کرے گی لیکن ایم ایم اے کی بحالی اور اس پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے کی وجہ سے جماعت اسلامی نے ’’ترازو‘‘کی بھی قربانی دی اور کتاب کے نشان کو قبول کیا جو بنیادی طور پر جے یوآئی کا انتخابی نشان ہے جس نے گزشتہ دونوں انتخابات میں اسی انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لیا، اس صورت حال کے بعد جماعت اسلامی ہر صورت ایم ایم اے کی صوبائی صدارت پر اپنا حق سمجھتی تھی جو اسے نہیں مل سکا۔

جماعت اسلامی اس بات پر بھی ناراض ہے کہ جمعیت علماء اسلام(ف)اب تک مرکز میں حکومت سے الگ کیوںنہیں ہوئی کہ اب جبکہ حکومتوں اور اسمبلیوں کے ختم ہونے میں چند دن ہی باقی ہیں،ان کے خیال میں جے یوآئی کو اقتدار کی غلام گردشوں سے باہر آجانا چاہیے تھا لیکن جے یوآئی بوجوہ اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکی اور بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ فاٹا کے حوالے سے بھی دونوں پارٹیوں میں بڑا اختلاف موجود ہے۔

جسے ختم کرنے کے لیے کوششیں توضرور کی گئی ہیں لیکن وہ کوششیں زیادہ سنجیدگی لیے ہوئے نہیں تھیں جس کی وجہ سے دونوں جماعتیں اس معاملے میں ایک ہی صفحے پر نہیں آسکیں تاہم اس معاملے کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں ضرور ہونی چاہئیں کیونکہ فاٹا سمیت دیگر ایشوزکے حوالے سے دونوں جماعتوں میں جو اختلافات پائے جاتے ہیں اگر وہ ختم نہ ہوئے تو ایم ایم اے کے لیے مشکلات ہوں گی کیونکہ بہرکیف یہ 2002ء نہیں بلکہ 2018ء ہے اور اب دونوں جماعتیں آگے بڑھنے سے پہلے ذرا مڑکر2007ء کی طرف بھی دیکھتی ہیں جہاں بہت کچھ دھندلایا ہوا نظر آتا ہے۔

The post فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے کا فیصلہ، حکومت اب کریڈٹ لینے کو تیار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IGmYaz
via IFTTT

شہر میں ہیٹ ویوکی2 اہم علامات پوری ہوگئیںFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

 کراچی: گرمی کی شدید لہر کا سبب بننے والے ہوا کے کم دباؤ کا مرکز زمین کی سطح پر ہونے کی وجہ سے نمی کا تناسب متوازن ہے۔

ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ کراچی سمیت اندرون سندھ کے بیشتر اضلاع میں شدید گرمی کی صورتحال کا سبب بننے والے ہوا کے کم دباؤ کا مرکز زمین ہے، سندھ اور بلوچستان کی بالائی سطح پر بننے والے اس دباؤ کی طرز پر ہر سال موسم گرما میں ایسے دباؤ پیدا ہوتے ہیں جو ہوا کی سمت کو تبدیل کرسکتے ہیں، 2015 میں سمندری ہوائیں منقطع کرنے والے ہواکے کم دباؤ کا مرکز رن آف کچھ جبکہ بھارتی گجرات کا سمندر تھا یہی وجہ ہے کہ ہوا کے اس کم دباؤ کے زیر اثر ہوائیں اپنے ساتھ سمندر سے بخارات لے کر آتی تھی ۔

اس وجہ سے ہوا میں نمی کا تناسب انتہائی زیادہ تھا مگر حالیہ گرمی کی لہر کے دوران ہوا میں نمی کا تناسب درجہ حرارت انتہائی حد تک بلند ہونے کے باوجود ہوا میں نمی کا تناسب معتدل ہے حالیہ گرمی کی لہر کے دوران ہیٹ ویو اور اس کے ہیٹ اسٹروک کی شکل میں انسانی جسم پر اثرات کی دو اہم علامات پوری ہوچکی ہیں جس میں ایک درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ اور سمندری ہواؤں کی طویل وقت کے لیے بندش شامل ہے تاہم ایک ہفتہ اور بالخصوص 3 دن کے دوران پڑنے والی شدید گرمی کے دوران ہوا میں نمی کا تناسب 3 فیصد سے 13فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔

The post شہر میں ہیٹ ویوکی2 اہم علامات پوری ہوگئیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2s1PDAI
via IFTTT

اگلا الیکشن ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے پرہوگا، نوازشریفFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کا کہنا ہے کہ پوری قوم میرے بیانیے سے متفق ہے اور اگلا الیکشن ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے پر ہو گا۔

احتساب عدالت میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران نواز شریف نے کہا کہ دانیال عزیز کو تھپڑ مارنا افسوسناک عمل ہے، یہ پی ٹی آئی کا کلچر ہے اور اس کے ذمہ دار عمران خان ہیں، خیبر پختونخوا اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی کے ارکان گتھم گتھا ہوتے رہے، ایک ایک کر کے ان کے سارے پول کھل رہے ہیں۔

نواز شریف نے کہا کہ تحریک انصاف تو پہلے بھی پلان دے چکی ہے اس نے کیا عمل کیا؟ سوائے دھرنوں اور ایمپائر کی انگلی کی طرف دیکھنے کے انہوں نے کیا کیا؟ وہ صوبے میں اپنا کوئی ایک قابل ذکر کارنامہ بتا دیں،انہوں نے کہا تھا کہ 300 ڈیم بنائیں گے کہاں ہیں وہ ڈیم؟ کہاں ہیں درخت جو انہوں نے لگانے کا کہا تھا ؟ 50 ہزار میگا واٹ بجلی کہاں ہے جو پی ٹی آئی نے بنانے کا کہا تھا،کہاں ہے نیا پاکستان، کہاں ہے نیا خیبر پختونخوا؟ یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا تو جنوبی پنجاب سے بھی پیچھے ہے۔

پارٹی بیانیے سے متعلق سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہر چیز نوٹ کی جا رہی ہے لیکن قوم بھی ہر چیز نوٹ کر رہی ہے، پوری قوم میرے بیانیے سے متفق ہے، اگلا الیکشن ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر ہو گا، اب تو جلسوں میں لوگ مجھے کہتے ہیں ہم نعرہ لگائیں گے ووٹ کو اور تم کہنا عزت دو۔

The post اگلا الیکشن ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے پرہوگا، نوازشریف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2s5c3QC
via IFTTT