FOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL) لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
FOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL) لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 22 مئی، 2018

چیئرمین نیب طلبی؛ قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس پھر ملتویFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

 اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا آج ہونے والا اجلاس ملتوی کردیا گیا ۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو آج قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس میں پیش ہونا تھا تاہم اجلاس چیئرمین کمیٹی چوہدری اشرف کو دل کا دورہ پڑنے کے باعث ملتوی کردیا گیا ہے۔ قائمہ کمیٹی کے آج ہونے والے اجلاس میں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو نوازشریف پر 4 ارب 90 کروڑ ڈالر بھارت بھیجنے کے بیان پر وضاحت دینے کے لیے پیش ہونا تھا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : چیئرمین نیب کی قائمہ کمیٹی قانون وانصاف کے اجلاس میں شرکت سے معذرت

اس سے قبل 16 مئی کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس میں چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے شرکت سے معذرت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ میری پہلے سے میٹنگ اور مصروفیات طے تھیں، اس لیے اجلاس میں شرکت نہیں کرسکتا، کمیٹی میں پیش ہونے کے لیے مناسب وقت دیا جائے۔

The post چیئرمین نیب طلبی؛ قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس پھر ملتوی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Li0Sge
via IFTTT

پریانکا چوپڑاکی بنگلہ دیش میں مقیم مظلوم روہنگیا مہاجرین سے ملاقاتFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

مساجد پر حملوں کے منصوبہ سازی کے الزام میں فرانسيسی شہری کو 6 سال قیدFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

کیف: يوکرائن کی ايک عدالت نے ايک فرانسيسی شہری کو مساجد پر حملوں کے منصوبہ سازی کے الزام میں 6 سال قید کی سزا سنادی۔ 

غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق یوکرائن کی سیکیورٹی فورسز نے گریگوری ایم نامی فرانسیسی شہری کو 2016 میں پولینڈ کی سرحد سے متصل علاقے سے گرفتار کیا تھا، گرفتاری کے وقت گریگوری ایم کے قبضے سے بڑی تعداد میں اسلحہ بھی برآمد ہوا تھا۔

عدالت میں دوران سماعت يوکرائن کی خفيہ ايجنسی ایس بی یو نے موقف اختیار کیا تھا کہ گریگوری کا تعلق انتہا پسند عیسائی نظریات کے حامل گروپ سے ہے اور وہ 2016 میں فرانس میں کھیلی گئی یورپی فٹ بال چيمپئن شپ کے دوران مساجد اور يہودی عبادت گاہوں پر کم از کم 15 حملے کرنا چاہتا تھا۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد ملزم کو 6 سال قید کی سزا سنادی ہے۔

The post مساجد پر حملوں کے منصوبہ سازی کے الزام میں فرانسيسی شہری کو 6 سال قید appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2KKVTDS
via IFTTT

لبنان کی 52 سالہ کروڑپتی بھکارنFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

بیروت: لبنان کی پولیس کو 52 سالہ بے گھر اورمعذور بھکارن کی لاش ایک گاڑی سے ملی اور ساتھ ہی خاتون کے پاس کروڑوں روپے ہونے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق لبنانی پولیس کو ایک خراب گاڑی میں لاش دکھائی دی، پولیس نے اپنے قبضے میں لے کرتفتیش کا آغاز کیا توپتہ چلا کہ یہ لاش 52 سالہ بھکارن فاطمہ عثمان کی ہے جو لبنان کی سڑکوں پر بھیک مانگا کرتی تھی جب کہ خاتون کو دل کا دورہ پڑا جس کے سبب ان کی موت واقع ہوئی۔

دوسری جانب لبنانی پولیس کواسی گاڑی سے کروڑوں روپے بھی ملے، جس میں وہ خاتون رہائش پذیر بھی تھی اوراس کے علاوہ 52 سالہ بھکارن کا کوئی اورٹھکانہ نہیں تھا، پولیس کوبھکارن کے سامان سے 5 ملین لبنانی پاؤنڈ یعنی ( 3 ہزار333 ڈالر) ملے جب کہ مزید تفتیش کرنے پرپتہ چلا کہ خاتون کا ایک بینک اکاؤنٹ بھی ہے۔

پولیس نے بھکارن کے اکاؤںٹ کی معلومات کی توپتہ چلا کہ ان کے سیونگ اکاؤنٹ میں 1.7 بلین لبنانی پاؤنڈ یعنی 1.12 ملین ڈالرموجود تھے جو پاکستانی کرنسی میں ساڑھے 12 کروڑ سے زائد کی رقم بنتی ہے۔ بعد ازاں خاتون کی والدہ اور7 بہن بھائیوں نے خاتون کی لاش وصول کرکے اسے اپنے آبائی گاؤں لے گئے۔

The post لبنان کی 52 سالہ کروڑپتی بھکارن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2J0JkXQ
via IFTTT

کیا ڈاکٹر عافیہ زندہ ہے؟FOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

دم گُھٹتا جارہا ہے افسردہ دلی سے یارو!
کوئی افواہ ہی پھیلا دو کہ کچھ رات کٹے

امریکی قید میں مظلوم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ کئی برس سے حکمرانوں کی بےحسی کی چادر تانے پڑا تھا۔ کل سوشل میڈیا پر اچانک ہی اس کی موت کی افواہ نے ہل چل پیدا کر دی۔ انٹرنیٹ اب ہماری زندگیوں کا لازمی اور غالب جزو بن چکا ہے۔ ہم اس کی اطلاعات کی تصدیق کیے بِنا ہی متاثر ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ متاثر ہونا لائک، کمنٹ اور شیئر کے ذریعے دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو جاتا ہے۔

کل ڈاکٹر عافیہ کی موت کی خبر بھی ایک غیرمستند سائٹ پر سامنے آئی، اور چونکہ عافیہ قوم کی دُکھتی رگ ہے‘ لہٰذا یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ لوگ بےچین ہو کر اپنی مظلوم بہن کی خیریت معلوم کرنے ان کی فیملی کی جانب لپکے۔ فیملی ترجمان ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے مطابق:

ڈاکٹر عافیہ کی زندگی اور صحت سے متعلق ہمیں حکومتِ پاکستان، وزارت خارجہ اور امریکی جیل حکام کی جانب سے کوئی باضابطہ اطلاع نہیں ملی، اور کوشش کے باوجود پاکستانی اور امریکی حکام سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ جبکہ دو سال سے زائد عرصہ گزر گیا، اہلِ خانہ رسمی رابطے سے بھی محروم ہیں۔ اس لیے عوام کسی افواہ پر یقین نہ کریں اور دعا کریں کہ اللّٰہ تعالیٰ جلد ہماری بہن کو مکمل عافیت کے ساتھ وطن واپس لانے والے حکمران عطا فرما دے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی پروٹوکول یہ ہے کہ سب سے پہلے فیملی کو اطلاع دی جاتی ہے، اور اس کے بعد جس ملک کا باشندہ ہوتا ہے اس ملک کے قونصلیٹ یا سفارتخانہ کو اطلاع دی جاتی ہے۔ امریکہ میں پاکستانی قونصلیٹ عائشہ فاروقی سے بذریعہ ای میل رابطہ کرنے پر جواب آیا ہے کہ وہ پیر کے دن کنفرم کرسکیں گی۔

سوشل میڈیا پر ڈاکٹر عافیہ کے انتقال کی افواہ کے بعد اندرون و بیرونِ ملک سے ٹیلی فون کالوں کا تانتا بندھ گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ٹیلی فون، ایس ایم ایس اور سوشل میڈیا کے ذریعے عافیہ کی خیریت دریافت کررہے ہیں، عوام مظلوم عافیہ کی واپسی کے بغیر امریکی قاتل کرنل جوزف کو چھوڑ دینے پر شدید غم و غصے اور افسوس کا اظہارکر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عافیہ سے متعلق افواہیں پھیلانے کا مقصد امریکی قاتل کرنل جوزف کی شرمناک واپسی پرشدید عوامی تنقید کا رخ موڑنا بھی ہو سکتا ہے۔

واضح رہے، ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو 2003 میں مبینہ طور پر اس وقت کے حکمران پرویز مشرف کی اجازت پر کراچی سے تین چھوٹے بچوں سمیت اغوا کر کے بگرام ایئربیس افغانستان لے جایا گیا تھا۔ یہاں پانچ سال تک امریکی عقوبت خانے میں انسانیت سوز مظالم توڑے گئے۔ برطانوی نَومسلم صحافی ایوون ریڈلے نے یہاں موجود قیدی نمبر 650 کے ڈاکٹر عافیہ ہونے کا انکشاف عالمی میڈیا کے سامنے کیا۔ اس کے بعد اس خاتون کے خلاف ایک عجیب و غریب مقدمہ تیار کیا گیا۔ جس کے مطابق یہ کمزور اور زخموں سے چُور خاتون M_4 گن اٹھا کر امریکی فوجیوں پر حملے کی مرتکب ہوئی ہے۔ ایک فوجی قریب سے گولی مار کر عافیہ کو زخمی کر دیتا ہے۔ وہ بچ جاتی ہے اور 2009 میں امریکہ منتقل کر دی جاتی ہے۔

امریکی قیدیوں پر حملہ کرنے اور مارنے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ فرضی اور رسمی عدالتی کارروائی کے بعد چھیاسی (86) سال قید کی سزا سنا دی جاتی ہے۔۔ قید کی سزا کے طور پر انہیں 6×6 کی تنگ و تاریک کوٹھری میں رکھا گیا ہے۔ جسمانی تشدد اور برہنگی کی اذیت، قرآن کی بےحرمتی پر لباس دینے کی شرط، مظالم کا حصہ ہونے کے باوجود اس خاتون کا عزم مضبوط ہے۔

دوسری جانب اس کے اہلِ خانہ اس مظلوم بیٹی کے لیے انصاف کی تلاش میں مسلسل کوشاں ہیں۔ عدالتی فیصلے میں ان کو دی جانے والی سزا کو سیاسی سزا کہا گیا ہے۔ اس لیے اس معاملے کو سیاسی کیس کے طور پر ڈیل کیا جانا چاہیئے تھا۔ مگر افسوس! سیاست کے ایوانوں میں اس کیس کے لئے کوئی ڈیل نہ کی جاسکی۔

مبینہ طورپر، پرویزمشرف نے اس کی گرفتاری کے عوض ڈالرز وصول کیے اور اپنی کتاب میں اس کا شرم ناک تذکرہ بھی کیا۔ آصف زرداری نے امریکہ سے آئی ہوئی کیس کی اہم دستاویز پر دستخط صرف اس وجہ سے نہیں کیے کہ یہ عافیہ کو بھیجنے والوں کا کام ہے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت نے عافیہ کی رہائی کے سلسلے کی اہم ترین کوشش کو ناکام بنا دیا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کے اہل خانہ اور ان سے محبت کرنے والے اس معاملے میں حسین حقانی کے کردار کوسفاکانہ سمجھتے ہیں۔۔ انہوں نے بیوہ اور غمزدہ ماں کے ساتھ ان کی بیٹی کو واپس لانے کا جھوٹا مذاق کیا۔ حکومت سے پیسے بٹورنے کے باوجود عافیہ کو ٹارچر سیل کے حوالے کیا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی مدت کے ابتدائی 100 دنوں میں عافیہ کو وطن لانے کا اپنا وعدہ کیا بھولے، گویا اپنی نااہلی کے سفر کا آغاز کر بیٹھے اور بجا طور نفرت کے حق دار ٹھہرے۔

ڈاکٹر عافیہ پاکستانی قیدی ہے۔ اس کے کیس کو ریاستی طور پر حل کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن ہماری نام نہاد مصلحت کیش سیاسی پالیسیاں اس کی متحمل نہ ہو سکیں۔ ماضی اور حال میں امریکی سفارتکار، حادثاتی طور پر پاکستانیوں کے قتل کے مرتکب ہوئے۔ چیف جسٹس صاحبان کے بلند و بانگ دعووں کے باجود حکومت ہر بار امریکی غلامی کے آگے بےبسی کی تصویر بن گئی، نتیجتاََ دونوں قاتل سفارتکاروں کو باعزت ان کے وطن رخصت کیا گیا۔

اب شکیل آفریدی کی صورت میں ایک اور موقع موجود ہے۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے سی آئی اے (CIA) کو اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے میں مدد کی تھی۔ ایک روسی خبررساں ادارے کے مطابق امریکا نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو چھڑانے کے بدلے پاکستان کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی پیشکش کی تھی، تاہم پاکستان نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔

ڈاکٹر عافیہ کے معاملے میں ہر حکومت کی پسپائی اس بات کا اعلان ہے کہ اس معاملے کو کسی سیاسی پارٹی کی مکمل/ غیرمشروط حمایت حاصل نہیں۔ نئے انتخابات قریب ہیں، ان کی تیاریوں کے سلسلے میں سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی، اتحاد اور جلسے جلوس سبھی کچھ ہو رہا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ عافیہ کتنا، کہاں، کس کس کو یاد رہتی ہے؟

بے حسی کی اس گھمبیر فضا میں اگر اس کی موت کی افواہ وائرل ہوتی ہے تو یہ ایک جھنجھوڑ دینے والی یاد دہانی ہی ہے۔ افواہ بذاتِ خود بِلاتحقیق خبر اور ممکنہ شر ہے۔ مگر شر سے خیر کو نکالنے پر بھی اللّٰہ ہی قادر ہے۔

ڈاکٹر عافیہ کی آخری خبرگیری کا تذکرہ بھی یاد رہے۔ امریکہ میں پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی عافیہ سے ملاقات کرنے جیل گئیں۔ ان کے مطابق جنیوا کنونشن کی شق 2047 کا حوالہ دینے پر انہیں ملاقات کے لیے اس بیرک تک لے جایا گیا جہاں عافیہ قید ہے۔ عائشہ فاروقی کے الفاظ ملاحظہ ہوں! کیا حکمران اور سیاستدان یہ الفاظ اپنے جگر گوشوں کے لیے پسند کریں گے؟

“سلاخوں کے پیچھے بیڈ پر ایک خاتون منہ پر چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہڈیوں اور گوشت کا ڈھیر بیڈ پر دھرا ہے، بےحس و حرکت جیل حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ یہی عافیہ ہے۔”

اس طرح عافیہ کے زندہ ہونے کی تصدیق ہو گئی، ورنہ ماضی میں تقریباََ گیارہ برس قبل صرف ایک مرتبہ پاکستانی سینیٹرز کے ایک وفد کو عافیہ سے ملاقات کی اجازت ملی تھی۔ جب کہ گذشتہ ڈھائی سال سے ٹیلی فون پر ہونے والی اہلِ خانہ سے چند منٹ کی گفتگو کا سلسلہ بھی منقطع ہے۔ اس کی صحت کی تشویش ناک اطلاعات کے بعد حکومت سے کئی بار نجی خرچ پر عافیہ سے ملاقات کروانے کی درخواست کی جا چکی ہے۔ ضعیف والدہ اپنی بیٹی، اور بچے اپنی ماں سے ملاقات کے لیے ساڑھے چودہ سال سے تڑپ رہے ہیں۔

ہمارے دفترِخارجہ کے ترجمان، ڈاکٹر محمد فیصل کے مطابق : “پاکستان کی جانب سے انسانی ہمدردی کا کام چودہ سو(1400) سال پہلے کی تعلیمات کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں قیدیوں کی رہائی چودہ سو برس پرانی اسلامی روایات کی عکاس ہے۔”

کتنے صدر، وزیر اعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف آئے اور چلے گئے… کیا عافیہ کو وطن واپس لانے کی سعادت کسی کو نہیں ملے گی؟

وقت کا مؤرخ سراپا انتظار ہے!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

 

The post کیا ڈاکٹر عافیہ زندہ ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xb9NNN
via IFTTT

نگراں وزیراعظم کیلیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف میں ڈیڈلاک برقرارFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

 اسلام آباد: نگراں وزیراعظم کے معاملے پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے درمیان آج بھی اتفاق رائے نہ ہوسکا ۔

وزیراعظم شاہدخاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشیدشاہ کے درمیان نگران وزیر اعظم کے معاملے پر آج ایک بار پھر ملاقات ہوئی جس میں نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے کے حوالے سے مشاورت کی گئی تاہم نگران وزیر اعظم کے لیے کسی نام پر اتفاق رائے نہ ہوسکا۔

پیپلزپارٹی کی جانب سے سابق چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف اور سابق سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی کے نام تجویز کیے گئے ہیں جب کہ تحریک انصاف کی جانب سے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی، عبدالرزاق داؤد اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین کے نام تجویزکیے گئے ہیں۔

خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ امید ہے نگراں وزیراعظم کے نام پر آج فیصلہ کرلیں گے جب کہ دوسری جانب ترجمان تحریک انصاف فواد چوہدری نے پیپلزپارٹی کے تجویز کردہ نام مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ذکاء اشرف، آصف زرداری کے مین ڈونر اور مرکزی مجلس عاملہ کے ممبر ہیں لہذا ذکاء اشرف کا نام مسترد کرتے ہیں جب کہ جلیل عباس جیلانی کے نام پر ہمیں زیادہ خدشات نہیں۔

The post نگراں وزیراعظم کیلیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف میں ڈیڈلاک برقرار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2J1bqCb
via IFTTT

نیب ریفرنسز کی سماعت کے دوران کیپٹن (ر) صفدر کی تسبیحاتFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

اسلام آباد: احتساب عدالت میں نیب ریفرنسز کی سماعت کے دوران نواز شریف کے داماد  کیپٹن (ر) صفدر مسلسل تسبیحات پڑھتے رہے۔

احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کے دوران نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنما موجود تھے۔ نواز شریف کی جانب سے بیان ریکارڈ کرانے کے دوران پارٹی کے مختلف رہنما الگ الگ سرگرمیوں میں مصروف رہے، نواز شریف روسٹرم پر آئے تو مریم نواز نے اپنے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو ساتھ بٹھالیا  اور وہ مسلسل تسبیح پڑھتے رہے۔

نواز شریف کے بیان کے دوران سینیٹر عباس آفریدی کمرہ عدالت میں مسلسل ٹہلتے رہے جب کہ مریم نواز، مریم اورنگزیب اور ڈاکٹر مصدق ملک محو گفتگو رہے۔

سماعت شروع ہونے سے قبل کمرہ عدالت میں نواز شریف نے امیر مقام کے ساتھ معانقہ کرتے ہوئے ازراہ مذاق کہا کہ امیر مقام اتنے لمبے ہیں کہ اوپر دیکھ کر ملنا پڑتا ہے۔

The post نیب ریفرنسز کی سماعت کے دوران کیپٹن (ر) صفدر کی تسبیحات appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2kc4XX0
via IFTTT

قطری شہزادے کی آمادگی کے باوجود ان کا بیان ریکارڈ نہیں کیاگیا، نوازشریفFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

اسلام آباد: نیب ریفرنسز کی سماعت کے دوران نواز شریف نے قطری خطوط کو تسلیم کرلیا۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر شریف برادران کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کررہے ہیں، سماعت کے دوران نواز شریف نے دوسرے روز بھی اپنا بیان قلمبند کرانے کا سلسلہ جاری رکھا، انہوں نے کہا کہ جیرمی فری مین کے 5 جنوری 2017 کے خط میں ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی گئی، جیرمی فری مین نے کومبر گروپ اور نیلسن نیسکول ٹرسٹ کی تصدیق کی۔ ان کے پاس ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی آفس میں موجود تھی لیکن تفتیشی افسر نے بھی ان سے ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیاں لینےکی کوشش نہیں کی، اختر راجا نے نیب کی 3 رکنی ٹیم کی رابرٹ ریڈلے سے ڈھائی گھنٹے ملاقات کرائی، رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ اس کے پاس اصل دستاویز ہی نہیں تھی۔

نواز شریف نے کہا کہ اختر راجا نے جلد بازی میں دستاویزات خود ساختہ فرانزک ماہر کو ای میل کے ذریعے بھجوائیں، ان کو معلوم ہونا چاہیے فوٹو کاپی پر فرانزک معائنے کا کوئی تصور موجود نہیں، یہ بھی حقیقت ہے فرانزک ماہر نے فوٹو کاپی پر معائنے کے لیے ہچکچاہٹ ظاہر کی۔ سپریم کورٹ میں پہلے جمع کرائی گئی ڈیڈ میں غلطی سے پہلا صفحہ مکس ہوگیا تھا لیکن اختر راجانے اس واضح غلطی کی نشاندہی بھی نہیں کی۔

مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نے اپنے بیان میں کہا کہ دبئی اسٹیل ملز کی افتتاحی تقریب میں شرکت کےعلاوہ مجھے باقی معاملات کا پتا نہیں، قطری خاندان کے ساتھ کاروبارمیں خود شریک نہیں رہا۔

نواز شریف نے قطری خطوط کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ 22 دسمبر 2016  کا قطری شہزادے کا خط اور ورک شیٹ تسلیم شدہ ہے، قطری خطوط کی تصدیق خود حمد جاسم نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر بھی کی، قطری خاندان کے ساتھ کاروبار میں خود شریک نہیں رہا، سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ورک شیٹ کی تیاری میں بھی شامل نہیں تھا۔ قطری شہزادے نے کبھی جے آئی ٹی کی کارروائی میں شامل ہونے سے انکار نہیں کیا، قطری شہزادے کے آمادہ ہونے کے باوجود بیان قلمبند کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کا بیان خود ریکارڈ نہیں کیا، واجد ضیاء کا تبصرہ سنی سنائی بات ہے۔

The post قطری شہزادے کی آمادگی کے باوجود ان کا بیان ریکارڈ نہیں کیاگیا، نوازشریف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2x0M5Ub
via IFTTT

غیر منصفانہ لوڈ شیڈنگ ؛ سی ای او کے الیکٹرک کو توہین عدالت کے نوٹس جاریFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

کراچی:  سندھ ہائی کورٹ نے توہین عدالت درخواست پر سی ای او کے الیکٹرک طیب ترین  اور چیئرمین نیپرا طارق سدوزئی سمیت دیگر حکام کو نوٹس جاری کردیئےہیں۔

سندھ ہائی کورٹ نے بجلی کی پیداوار نہ بڑھانے اور غیرمنصفانہ لوڈ شیڈنگ کرنے پر سی ای او کے الیکٹرک  اور دیگر کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کی۔

کرامت علی نامی شہری کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ نے 2015 کو ہیٹ اسٹروک کے بعد درجہ بندی کی لوڈ شیڈنگ کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کے الیکٹرک کو بجلی کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کا حکم دیا تھا لیکن گزشتہ دنوں بن قاسم پاور اسٹیشن خرابی سے ثابت ہوتا ہے کہ کے الیکٹرک نے پیداواری صلاحیت میں اضافہ نہیں کیا، اس لئے کے الیکٹرک اور نیپرا حکام کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔

عدالت عالیہ نے  چیئرمین نیپرا بریگیڈیئر ریٹائرڈ طارق سدوزئی، وائس چیئرمین نیپرا سید منصور الحق اور سی ای او کے الیکٹرک طیب ترین کے علاوہ چیف آپریٹنگ افسر ڈسٹری بیوشن، ہیڈ آف ڈسٹری بیوشن کے الیکٹرک کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیئے ہیں۔

The post غیر منصفانہ لوڈ شیڈنگ ؛ سی ای او کے الیکٹرک کو توہین عدالت کے نوٹس جاری appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IF1eje
via IFTTT

حضرت داتا علی ہجویری کے مزار پراعتکاف میں بیٹھنے والوں کی قرعہ اندازی 15 رمضان کو ہوگیFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

لاہور: رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے دوران لاہورمیں حضرت داتاعلی ہجویری کےمزارپراعتکاف میں بیٹھنے والوں کے ناموں کی قرعہ اندازی 15 رمضان المبارک  کوہوگی۔

تفصیلات کے مطابق رمضان المبارک کے آخری عشرے کے دوران حضرت داتا علی ہجویری کے مزار پر اعتکاف میں بیٹھنے والوں کے ناموں کی قرعہ اندازی 15 رمضان کو ہوگی جب کہ تاریخی بادشاہی مسجدمیں اعتکاف میں بیٹھنے کے خواہشمند 10 رمضان المبارک تک درخواستیں جمع کرواسکتے ہیں،منہاج القرآن کے شہراعتکاف میں 25 ہزار افرادمعتکف ہوں گے۔

لاہورمیں صوبائی محکمہ اوقاف ومذہبی امورکے تحت جامع مسجدداتاعلی ہجویری،بادشاہی مسجد، مسجدوزیرخان سمیت محکمہ اوقاف کے زیرانتطام دیگرمساجدمیں فرزندان اسلام کے اعتکاف میں بیٹھنے کا اہتمام کیاجارہا ہے ، جامع مسجدداتاعلی ہجویری میں اڑھائی ہزارافراداعتکاف میں بیٹھیں گے اس حوالے سے 16 مئی تک درخواستیں وصول کی گئی تھیں جن کی جانچ پڑتال جاری ہے، 15 رمضان المبارک  31 مئی کواعتکاف میں بیٹھنے والوں کے ناموں کی قرعہ اندازی ہوگی،کامیاب درخواست دہندگان کوبذریعہ خط آگاہ کیاجائیگا، بادشاہی مسجدلاہورمیں ایک ہزارکے قریب افراداعتکاف میں بیٹھیں گے ،بادشاہی مسجدمیں اعتکاف میں بیٹھنے کے لیے 26 مئی تک درخواست جمع کروائی جاسکتی ہے۔

لاہورمیں سب سے زیادہ افرادمنہاج القرآن کے زیراہتمام شہراعتکاف میں معتکف ہوں گے، منہاج القرآن کے شہراعتکاف میں مرد اورخواتین کے لیے اعتکاف بیٹھنے کے علیحدہ انتظامات کئے جاتے ہیں، مجموعی طورپر25 ہزارافراداعتکاف میں بیٹھیں گے جن میں 18 ہزارمردجبکہ 7 ہزارخواتین شامل ہوں گی، شہراعتکاف میں اعتکاف بیٹھنے والوں سے سحری اورافطاری کی لئے اڑھائی ہزار روپے وصول کیے جائیں گے۔

لاہورمیں دیگربڑی مساجدکی بات کی جائےتو جامعہ اشرفیہ میں 200 ،جامعہ نعیمیہ میں بھی 200 افراد معتکف ہوں گے۔ اسی طرح جامعہ القادسیہ اورجامعہ منصورہ سمیت  دعوت اسلامی کے زیراہتمام مساجدمیں بھی سینکڑوں لوگ اجتماعی اعتکاف میں بیٹھیں گے،معتکفین کی سحری،افطاری کا انتظام انتطامیہ کی طرف سے کیا جاتا ہے، اعتکاف کے موقع پرمساجد میں سیکیورٹی کے بھی سخت انتظامات کئے جارہے ہیں۔

The post حضرت داتا علی ہجویری کے مزار پراعتکاف میں بیٹھنے والوں کی قرعہ اندازی 15 رمضان کو ہوگی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LjBLtx
via IFTTT

پیر، 21 مئی، 2018

گولی مجھے یاد دلاتی رہے گی کہ اللہ سب سے بڑا ہے، احسن اقبالFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

 اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ مجھے لگنے والی گولی ہمیشہ یاد دلاتی رہے گی کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔

اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کے دوران احسن اقبال نے کہا کہ میرے ساتھ جوواقعہ پیش آیا اس سے میں نے اس بات کوزیادہ یقین سے جانا ہے کہ مارنے والے سے بچانے والا زیادہ بڑا ہوتا ہے، مجھے لگنے والی گولی ہمیشہ یاد دلاتی رہے گی کہ اللہ سب سے بڑا ہے، میرے جسم میں لگی گولی نے میرا بازو پاش پاش کردیا لیکن میرے جذبے پرایک نقطہ بھی فرق نہیں آیا۔

وزیرداخلہ نے کہا کہ ڈپریشن پیدا کرنے والے لوگ سقراط اور بقراط بنے ہوئے ہیں، ہرشام وہ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر کہتے ہیں کہ پاکستان کا ستیا ناس اوربیڑا غرق ہوگیا، یہ شاید عوام کے نہیں ڈپریشن کی دوائیاں بیچنے والوں کے نمائندے ہیں، اقتصادی ترقی چوکے چھکوں کا میچ نہیں یہ ٹیسٹ میچ کی طرح ہے جس میں اسی کی جیت ہوگی کہ جو زیادہ وقت اور تحمل کے ساتھ کھیلے گا۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ہم ہر وقت بیڑا غرق اور ستیا ناس جیسی کہانیاں سنتے رہے ہیں لیکن پاکستان ایسا ملک نہیں، ہم اپنے تمام چیلنجزپر قابوپا لیں گے، آج ہمیں خطرناک ملک نہیں تیزی سے ترقی حاصل کرنے والا ملک کہا جا رہا ہے۔ ہمیں دنیا کہتی تھی کہ ہم پتھرکے دور میں چلے گئے ہیں اورآگ سے روشنی لے رہے ہیں، ہم نے لوڈ شیڈنگ ختم کردی اور ملک میں 10 ہزارمیگا واٹ اضافی بجلی پیدا کی، ہم اس وقت 3 جی اور 4 جی ٹیکنالوجی استعمال کررہے ہیں لیکن پاکستان 5 جی ٹیکنالوجی استعمال کرنے والے صف اول کے ممالک میں ہو گا۔

The post گولی مجھے یاد دلاتی رہے گی کہ اللہ سب سے بڑا ہے، احسن اقبال appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2KFG01h
via IFTTT

خیبرپختونخوا حکومت کا ایک بار پھر اسمبلی اجلاس سے راہ فرارFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

پشاور: خیبر پختونخوا حکومت نے ایک بار پھر اسمبلی اجلاس سے راہ فرار اختیار کرلی اور منگل ہونے والا اجلاس ملتوی کردیا گیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت تیسری بار مسلسل اسمبلی اجلاس سے راہ فرار اختیار کررہی ہے ، صوبائی حکیومت پہلے ہی  3 مئی اور 14 مئی کو بلائے گئے اجلاس ملتوی کرچکی ہے جب کہ اب کل 22 مئی کو بھی ہونے والا اجلاس منسوخ کردیا گیا ہے۔

اسمبلی اجلاس ایسے وقت میں منسوخ کیا گیا ہے اسمبلی سیکرٹریٹ میں اسپیکر کے خلاف پیپلزپارٹی کے ضیاء اللہ آفریدی نے تحریک عدم اعتماد جمع کرا رکھی ہے جبکہ حکومت ڈپٹی اسپیکر کی خالی نشست پر الیکشن کی خواہشمند تھی، ذرائع کا کہنا ہے منگل کے اجلاس کی منسوخی کے بعد اب اجلاس کا ہونا مشکل ہے کیونکہ حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے میں 7 روز باقی رہ گئے ہیں۔

The post خیبرپختونخوا حکومت کا ایک بار پھر اسمبلی اجلاس سے راہ فرار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2s3bLe7
via IFTTT

صحرائے تھر: خطہ بے زرFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

بھوک پھرتی ہے میرے شہر میں ننگے پاؤں
رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے

آج اکیسویں صدی میں بھی جنت ارضی پاکستان میں تھر ایک ایسا جہان ہے جسے حیات جدیدہ، معاشرے کے بدلتے رنگوں، آسمان کی وسعتوں کو چھوتی دنیا، قلوب و اذہان اور افکار کے تنوع، سہولیات اور آسائشات کے نت نئے ادوار اور ذہن رسا کی بلند پروازیوں سے کچھ معاملہ نہیں۔ بے زری عام ہے جبکہ بھوک اور افلاس کا دور دورہ ہے۔ جدید معاشرت کی چکاچوند اور سہولت بھری زندگی سے تعارف تو دور کی بات، بنیادی انسانی ضروریات مثلاً صحت کی نعمت، تعلیم کا نور، مناسب غذا کی دستیابی، ذرائع رسل و رسائل کی آسانیاں اور روزگار جیسی بنیادی سہولیات دستیاب نہ ہیں۔

بے وسائل تھری عورت لوہار کی مزدوری سے لے کر اونٹوں اور گدھوں کے متبادل کے طور پر خدمات سر انجام دیتی ہے۔ اپنے ہاتھوں سے پانی کے بھاری بھر کم ڈول کنووں سے کھینچتی ہے، پھر انہیں گھڑوں میں ڈالے سر پر اٹھائے تپتے صحرا کے سینے پر ریت میں لمبے سفر طے کرتی اپنی مجبوری اور بے کسی کا اظہار کررہی ہے۔

رہی بات مردوں کی، تو ان کی اکثریت خالق کائنات کی خوبصورت دنیا کے نظاروں اور سہولیات کا لطف اٹھائے بغیر ہی اس جہان فانی سے کوچ کرجاتی ہے۔ اور جو زندہ ہیں وہ مہاجن اور ساہوکاروں کو اپنے مقدر کا خدا سمجھ کر ان کی محتاجی میں زندگی کے شب و روز گزار دیتے ہیں، جبکہ نومولودوں کی اکثریت زندگی اور موت کے بیچوں بیچ جنگ لڑتے لڑتے نحیفی و نزاری کے عالم میں شاہراہ حیات پر ٹوٹے بدن کے ساتھ اپنا سفر شروع کرتی ہے۔

ان محرومیوں اور وسائل کی کمی کے باوجود تھر مختلف مذاہب کا مرکز ہے اور خطہ امن کہا جاسکتا ہے۔ جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

محل وقوع اور نام

تھرپارکر دنیا کے سترہویں بڑے صحرا، صحرائے اعظم تھر کا ایک حصہ ہے جبکہ اس کا دوسرا اور بڑا حصہ سرحد کے اس پار بھارت میں واقع ہے۔ اس کا تقریباً 75 فیصد حصہ بھارت جبکہ محض 25 فیصد حصہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں کراچی سے 400 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ دنیا میں قابل کاشت صحراؤں میں اس کا نواں درجہ ہے۔ صحرائے تھر سندھ کا رقبہ تقریباً 28000 مربع کلومیٹر پر محیط ہے اور یہ پاکستان کا سب سے بڑا صحرا ہے۔

تھرپارکر دو الفاظ یعنی ’’تھر‘‘ اور ’’پارکر‘‘ کا مجموعہ ہے۔ تھر کے معانی ’’صحرا‘‘ اور پارکر کے معنی ’’پار کرو‘‘ یا ’’دوسری طرف‘‘ کے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں تھر دو حصوں پر مشتمل تھا یعنی تھر اور پارکر جو ازاں بعد ایک لفظ تھرپارکر بن گیا۔ بنظر غائر دیکھنے سے بھی تھر کے دو حصے الگ الگ اور واضح نظر آتے ہیں۔ ایک مشرقی تھر جو ریت کے ٹیلوں سے اٹا پڑا ہے جبکہ مغرب کی جانب پارکر کسی حد تک مختلف، پہاڑی، زرعی اور آب پاش علاقہ محسوس ہوتا ہے۔ پارکر میں میلوں پھیلے ہوئے بلند و بالا پہاڑ دعوت نظارہ دیتے ہیں۔ مون سون کی بارشوں کی آمد ان پہاڑوں پر سبزے کی چادر تان دیتی ہیں اور ان پہاڑوں سے نکلنے والے ندی نالوں میں بھی روانی عود کر آتی ہے۔ یہی وہ موقعہ ہوتا ہے جب تھر اور سندھ کے دیگر علاقوں سے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد بدلے ہوئے موسم سے لطف اندوز ہونے ننگر پارکر، عمر کوٹ اور نواحی علاقوں کا رخ کرتی ہے۔

تاریخ

تاریخی آثار اور ماہرین آثار قدیمہ کی رائے کے مطابق تھر کا صحرا لاکھوں سال قدیم ارضیاتی خطوں میں سے ایک ہے۔ دنیا کے کوئلے کے بڑے ذخائر بھی اس خطے میں دریافت ہوچکے ہیں۔ آبادی کی اکثریت ہندو عقائد کی حامل ہے اور صدیوں سے قیام پذیر ہے۔ ہندو عقائد کے مطابق یہ صحرا ایک دور میں سمندر ہوتا تھا مگر ان کے دیوتا رشی کی دعا سے پانی ایک طرف ہٹ گیا اور یہ صحرا وجود میں آگیا۔

موسم

اپریل سے جولائی سخت گرمی کا موسم ہوتا ہے اور درجہ حرارت اکثر 40 سے 50 کے درمیان ہوتا ہے۔ اگست کا آخر یا ستمبر کا اوائل تھریوں کےلیے مون سون کی خبر لے کر آتا ہے اور گرمی کا زور ٹوٹتا ہے۔ بارشوں سے چار سُو خشک سالی کی جگہ ہریالی اور پژمردگی کی جگہ پرجوش زندگی نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ دسمبر، جنوری اور فروری شدید سردی کے مہینے ہیں جبکہ باقی سارا سال اوسط گرم اور خشک موسم دیکھا جاسکتا ہے۔

لوک داستانیں

سندھ میں خواتین کا معروف نام ماروی، لوک داستان عمر ماروی سے ماخوذ ہے جو اسی خطہ کے ایک شہر عمر کوٹ کا ایک مشہور کردار ہے۔ ماروی کا نام سندھی عورت کی بہادری، عزت اور اپنی مٹی سے محبت کی علامت ہے۔

تاریخی مقامات

بھالوا میں ماروی کا کنواں، ثقافتی مرکز، عمر کوٹ میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر (ولادت: 1542) کی جائے پیدائش، گوری کا جین مندر ( تعمیر کردہ 1376)، ننگرپارکر کے قدیم مندر، تالاب، رشی کا استھان، ننگرپارکر میں والی گجرات سلطان محمود بیگڑا کی یاد گار مسجد، نو کوٹ کا قلعہ (جو 1814 میں تالپور حکمران میر مراد علی خان نے تعمیر کرایا)، اور عمر کوٹ کا قلعہ موسسہ عمر بن دودو۔

اہم شہر اور قصبے

تھر کا صدر مقام مٹھی ہے جبکہ عمر کوٹ، ڈپلو، کلوہی، چھاچھرو اور ننگرپارکر مشہور شہر اور قصبے ہیں۔

رسوم و رواج

خوشی کے مواقع اگرچہ بہت کم ہیں مگر جب کبھی ملیں تو انسانی فطرت کے عین مطابق تھری بھرپور لطف اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تھری فطرتاً مہمان نواز اور انسان دوست ہیں۔ میلہ محمود شاہ غازی، ننگرپارکر کی اہم ثقافتی اور سماجی تقریب ہے جس میں مقامی ثقافت کے جلووں کے ساتھ ساتھ اونٹ اور گھوڑوں کی نمائش اور دوڑ کے مقابلوں کا شائقین کو سال بھر انتظار رہتا ہے۔

باران رحمت کے طویل انتظار کے بعد جب تھری تھک جاتے ہیں تو بارش کی پیش گوئی کےلیے ایک رسم شروع کی جاتی ہے۔ گوٹھ کے سردار کی طرف سے سب لوگوں کی دعوت کی جاتی ہے، دعائیہ گیت گائے جاتے ہیں اور آخر میں باجرے اور دیسی گھی سے تیار کردہ میٹھے سے شرکاء کی تواضع کی جاتی ہے۔ اسی طرح کی ایک اور بیٹھک میں لوگ اپنی آپ بیتیاں سناتے ہیں اور ایک دانا ان قصوں کو سن کر بتاتا ہے کہ بارش کتنی اور کب تک ہوگی۔

خواتین پورے بازوؤں پر مخصوص چوڑیاں پہنتی ہیں جبکہ مرد و خواتین اور بچے مقامی اور صوفیانہ موسیقی کے دلدادہ ہیں۔ گاؤں سے ایک مخصوص فاصلے تک درخت کاٹنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ زراعت میں ’’تعاونِ باہمی‘‘ کا عنصرنمایاں ہے۔ لوگ کھیتوں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ شادی خاندان میں کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔

پیشے اور ذرائع آمدن

تھر پر بات کرتے ہوئے سب سے نمایاں اور اہم چیز جو ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرواتی ہے، وہ دور دراز علاقوں میں لوگوں کا بے زر ہو نا ہے۔ تھر کے چھوٹے سے قصبے کلوہی اور ڈپلو کے گوٹھ محمد شریف میں 2010 میں راقم نے بچشم خود بارٹر سسٹم یعنی اشیا کا اشیا سے تبادلہ ہوتے دیکھا کہ جب ایک بے زر بچے نے دکاندار سے تقریباً دو کلوگرام باجرے کے عوض سبزی کا تبادلہ کیا۔ روزگار اور ذرائع آمدورفت نہ ہونے کی بناء پر تھری بے زری اور غربت کی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں۔

زیادہ تر لوگ محدود زراعت، مویشی بانی، قالین بافی، لکڑہار اور مزدوری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ سڑکوں کے قریب واقع گوٹھوں کے بچے قریبی جھیلوں سے مچھلیاں پکڑ کر سڑک کنارے بیچنے کےلیے بیٹھے ہوتے ہیں جب کہ کچھ بچے جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر گٹھے بنائے سڑک کنارے بیٹھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ سیاح یہ لکڑی گوشت بھوننے، کھانا پکانے، آگ تاپنے اور آگ جلانے کےلیے نقدی کے عوض خرید لیتے ہیں۔

ملازمت اور روزگار

تعلیمی سہولیات انتہائی کمترین سطح پر ہونے کی بناء پر مٹھی، ڈپلو، عمرکوٹ، اور کلوہی کے معدودے چند تھریوں کے علاوہ شاز ہی کوئی تھری کسی سرکاری ملازمت میں ہوگا۔ تعلیم اور جدید دنیا سے عدم واقفیت کی بناء پر تھری اپنی دنیا میں مگن اور شہری ملازمتوں اور سہولیات سے نابلد اور محروم ہیں۔ مقامی سطح پر قالین بافی کے علاوہ اکثر علاقوں میں خواتین روایتی گھریلو دستکاریوں اور کشیدہ کاری کے فن سے جڑی ہوئی ہیں اور گھر کی معاشی سرگرمیوں میں معاونت کرتی ہیں۔ تھر کی خوبصوت ’’مور رلی‘‘ (مور کی شبیہ سے مزین دستی بیڈ شیٹ) بہت دیدہ زیب ہے۔

امید کی جاسکتی ہے کہ تھر میں جاری توانائی کے منصوبے تھریوں کی زندگی میں ملازمت اور چھوٹے روزگار کے ذریعے کوئی مؤثر تبدیلی لائیں گے۔

پانی، زراعت، فصلیں، مال مویشی

تھر کی برسات پر بھی خزاں کے اندیشے غالب رہتے ہیں۔ خشک سالی کا شکار تھریوں کی زندگی میں سالانہ مون سون کا بارشی پانی بڑی اہمیت کا حامل ہے، گویا اس پانی سے ان کی زندگی کی ڈور بندھی ہوئی ہے۔ یوں کہا جائے کہ تھریوں کی ساری زندگی پانی کی تلاش میں گزر جاتی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ شہری زندگی میں لوگ مال اسباب اوردولت ذخیرہ کرتے ہیں جبکہ تھر میں پانی کا ذخیرہ اولین ترجیح ہوتی ہے۔ یہی پانی ان کی محدود سی زراعت کو اور دوسرے لفظوں میں زندگی کی امنگ کو زندہ رکھتا ہے۔ باران رحمت کے چھینٹے تھر کے مزاج کو بدل دیتے ہیں اور ہر طرف زندگی لہلہانے لگتی ہے۔ بارش کی خبر سنتے ہی نقل مکانی کرجانے والے تھری، ماں دھرتی کی طرف واپس بھاگتے ہیں۔

بارش کی آمد بھی کئی شگونوں سے جڑی ہوئی ہے۔ تھریوں کے مطابق اگر بارش کے پہلے چھینٹے کمہار کے گھر پڑیں تو اس کا مطلب ہے کہ بارش کم ہو گی۔ اگر بنیے کے گھر پہلے بارش ہوگی تو سمجھا جاتا ہے کہ اناج صرف ضرورت کے مطابق پیدا ہوگا جبکہ ماشکی کے گھر بارش کے اولین چھینٹوں کا مفہوم زیادہ بارش کی آمد سمجھا جاتا ہے۔

زیادہ علاقوں میں اونٹ اور گدھے ہل کھینچنے کا کام کرتے ہیں جبکہ ننگرپارکر میں بیل یہ خدمت سر انجام دیتے ہیں۔ زرعی فصلوں میں باجرہ (گندم کا متبادل)، گوارا، چبھڑ، کھپ (مویشیوں کے چارے کے علاوہ کثیر الاستعمال فصل)، بوت بوٹی (کپاس کی متبادل) جبکہ دوا ساز اداروں کےلیے آک (تھر کا گلاب) اور تما سمیت بہت سی جڑی بوٹیاں بھی پہاڑی علاقوں میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔

بادلوں کی گڑگڑاہٹ شہر کے باسیوں کو خوف میں مبتلا کر دیتی ہے جبکہ تھریوں کےلیے یہ خوشیوں کا پیغام ہوتا ہے۔ آسمان پر کڑکتی بجلیاں یہاں خوف کی بجائے تھریوں کےلیے طویل خشک سالی کے خاتمے اور خوشحالی کی دستک سمجھی جاتی ہیں۔ یہ بارش جہاں ایک طرف تھر کی خشک سالی سے عاجز نقل مکانی کر جانے والوں کےلیے واپسی کے اسباب پیدا کرتی ہے وہیں شادی بیاہ اور خوشی کی مختلف تقریبات کا راستہ بھی کھلتا ہے۔ زرعی زمین کی مناسب نشاندہی نہ ہونے کے سبب کاشت کاری کے دعویداروں کے درمیان جھگڑے بھی سر اٹھاتے ہیں جنہیں مقامی پنچایت کے ذریعے حل کر لیا جاتا ہے۔ تھر کا کم و بیش ہر باشندہ بھیڑ بکریاں پالتا ہے اور ان کی فروخت سے مقدور بھر آمدن حاصل کرتا ہے۔ حکومتی عدم توجہی اور حیوانات کےلیے طبی سہولیات نہ ہونے کے باعث اکثر ماتا کی بیماری اور وبا کی بنا پر بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے ریوڑ موت کی وادی میں چلے جاتے ہیں اور یہ وہ وقت ہے جب تھر بے زر پر قحط اور بے زری دونوں بیک وقت حملہ آور ہوتے ہیں۔

جنگلی حیات

تھر بلاشبہ موروں کی جنت ہے۔ یہاں کا قدرتی ماحول قدرت کی اس حسین تخلیق کی افزائش اور رہائش کےلیے موزوں ترین تصور کیا جا تا ہے۔ مور، تھر میں جا بجا اپنی خوبصورتی کے جلوے بکھیرتے اور ماحول کو خوبصورت بناتے نظر آتے ہیں۔ درختوں، گھروں کی چھتوں، صحنوں اور کھیتوں میں موجود مور غول در غول اور اک دکا بھی نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ کالا تیتر، بٹیر اور نایاب پرندے بھی تھر کی گرم آب و ہوا اور علاقہ نارا کی مرطوب زمین کو اپنے لیے جنت سے کم نہیں سمجھتے۔ 4300 مربع کلومیٹر پر مشتمل نارا نامی صحرائی علاقہ جو میرپور خاص اور تھر کا سنگم بھی ہے، پرندوں کی افزائش کےلیے اپنا ثانی نہیں رکھتا جبکہ رن آف کچھ کو بھی 1980 میں حکومت نے جنگلی حیات کےلیے محفوظ علاقہ قرار دے کر اس کی اہمیت کو دو چند کر دیا ہے۔ مٹیالی اور مرطوب سطح زمین کا حامل یہ علاقہ مقامی اور غیر مقامی پرندوں کی عارضی اور مستقل سکونت اور غذا کےلیے انتہائی سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔

مور اگر تھر کی زینت ہے تو مالا ہاری ’’تھر کا ہما‘‘ ہے۔ تھریوں کا خیال ہے کہ آغاز سفر پر اگر یہ پرندہ مسافر کے دائیں طرف آجائے تو مقصد سفر میں کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے۔

ذرائع رسل و رسائل

اس جدید دور میں بھی ہزاروں مربع کلومیٹر کے علاقے میں رابطے کے مؤثر ذریعے فون کی سہولیات مفقود ہیں جبکہ ڈاک یا کوریئر سروس کا مؤثر تصور تو ممکن ہی نہیں اور لوگ ایک دوسرے سے باہم مربوط نہیں۔ جبکہ سڑکیں صرف چند سو کلومیٹر پر مشتمل ہیں اور ’’کیکڑا‘‘ نامی ٹرک جو ؎جنگ عظیم کی نشانی ہے، آج بھی صحرائی ٹیلوں اور ٹبوں میں اونٹوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کےلیے واحد مشینی سواری اور رابطے کا ذریعہ ہے۔

سڑکیں اور کیکڑا

تھریوں کا طرز زندگی ریت کے ٹیلوں اور پہاڑی وادیوں کے جلو میں کبھی اونٹوں اور بکریوں کے ساتھ تو کبھی پیدل سفر حیات طے کرتے پروان چڑھتا ہے۔ ریتیلی زمین اور صحرا سے گویا ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اب تو شاید تھریوں نے سڑکوں اور پختہ راستوں کا مطالبہ اور عدم موجودگی کا گلہ شکوہ بھی چھوڑ دیا ہے۔ بھلا ہو قدیم جنگی ٹرک کیکڑا کا جو ریت کے بلند و بالا ٹیلوں کو اپنے چوڑے چکلے ٹائروں اور طاقتور انجن سے روندتا ہوا تھکے ماندے تھریوں کو ایک گوٹھ سے دوسرے گوٹھ اور گوٹھ سے قریبی قصبے تک لے جاتا اور لے آتا ہے۔ اگر کبھی یہ کیکڑا نامی ٹرک صحرائی صعوبتوں کے سامنے تھک ہار جائے اور راستے میں خراب ہو جائے تو ممکن ہے کئی دن تک مرمت نہ ہوسکے اور مسافر شدید مشکلات میں پیدل اپنی منزل تک پہنچیں۔

مشکلات اور مصائب زندگی

تھریوں کی اکثریت کا اہم ذریعہ معاش مویشی پالنا اور محدود زرعی سرگرمیاں ہیں۔ سخت گرم موسم میں وبائی امراض پھوٹ پڑتے ہیں اور ہنستے بستے تھری اپنا کل مال مویشی کھو بیٹھتے ہیں۔ بیماری سے مویشیوں کی موت تھریوں کو مالی طور پر قحط کے کنارے لے جاتی ہے تو خوبصورت موروں کو بھی ان جان لیوا امراض کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عدم توجہ اور علاج نہ ہونے کے باعث موروں کی موت تھر کے ماحول اور گھر کی رونقوں کو ختم اور ہنستے بستے جنگل کو افسردہ کر دیتی ہے۔

خشک سالی کا طویل سفر تھریوں کو ہر سال تھکا دیتا ہے اور وہ دن نہایت کٹھن ہوتے ہیں جب خشک سالی کے باعث کنووں کا زیرزمین پانی کم ہوجاتا ہے اور خواتین کو زندگی کی بنیادی ضرورت ’’پانی‘‘ کے بغیر خالی مٹکےلیے گھر لوٹنا پڑتا ہے۔ جانوروں کا چارہ اور گھاس ختم ہو جاتا ہے اور تھری بے بسی کے عالم میں روزگار اور پانی کی تلاش میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

بے روزگاری اور ذرائع نقل و حمل

بے روزگاری بھی تھر کا ایک بڑا مسٔلہ ہے جس کا ذرائع نقل و حمل کی کمیابی سے گہرا تعلق ہے۔ دیگر ترقی یافتہ علاقوں کی طرح یہاں کاروبار یا روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ گوٹھوں کا چھوٹا اور ایک دوسرے سے زیادہ فاصلے پر ہونا بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ حکومتی عدم توجہ کے باعث نہ تو سڑکوں کا وسیع جال بچھایا جاسکا اور نہ ہی منڈی یا شہر کے ساتھ پورے تھر کو منسلک کیا جاسکا، جس کی بنا پر مزدوروں کی نقل پذیری اور تلاش روزگار کی کوششیں منجمد ہوکر رہ گئی ہیں۔ اس سب سے بڑھ کر یہ کہ کوئی باقاعدہ بس سروس بڑے قصبوں سے دور دراز گوٹھوں کےلیے دستیاب نہیں۔ مجبورا لوگ پیدل یا پھر اونٹ کی پشت پر سوار صحرا کی وسعتوں کو شکست دیتے نظر آتے ہیں۔

تعلیمی پسماندگی

تعلیمی ترقی کا تعلق براہ راست شہری سہولیات کی آسان فراہمی سے ہے۔ جب عام زندگی کےلیے ناگزیر سہولیات ناپید ہوں تو وہاں تعلیم جیسی ضرورت کو کہاں پورا کیاجائے گا؟ سندھ کے ہنستے بستے شہروں میں جب اسکول وڈیروں کے ذاتی تصرف میں نظر آتے ہیں تو وہاں تھر جیسے دور افتادہ اور قدامت پسند علاقے میں تعلیمی سہولیات کا ذکر چہ معنی دارد! تھری تعلیم کی سہولیات کے نہ ہونے کے باعث بھی پسماندگی کی دلدل میں رہنے پر مجبور ہیں۔

صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی

جدید دور میں حکومتیں مقامی ہوں یا مرکزی، صحت کو ہر انسان کا حق سمجھتے ہوئے کوشش کرتی ہیں کہ شفاخانے اور دواخانے دیہاتوں اور گوٹھوں کے قریب قائم کیے جائیں۔ تھر کے بڑے قصبوں میں شفاخانے اور طبیب بدترین انتطامی بحران سے دوچارہیں جہاں مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کہیں طبیب ہے تو دوا نہیں، اگر دوا ہے تو بستر نہیں، اگر بستر ہے تو مریض کےلیے گرمی سردی سے بچاؤ کا کوئی بندوبست نہیں۔ الغرض شعبہ صحت اپنی بد ترین حالت میں ہے۔ بطور مثال تھر کے صدر مقام مٹھی کے مرکزی اسپتال میں ہر سال نومولود بچوں کی ہونے والی اموات ہماری آنکھیں کھولنے کےلیے کافی ہیں۔ دور افتادہ صحرائی گوٹھ تو صحت کی سہولتوں سے بالکل محروم اور کوسوں میل دور ہیں۔ غیر معیاری پانی اور غذائی قلت کے اثرات بچوں، بڑوں اورخواتین کے چہروں سے عیاں ہیں۔

توجہ طلب امور

تھر میں موجود سڑکوں کے موجودہ ڈھانچے (روڈ انفراسٹرکچر) کو فی الفور دگنا کیا جائے۔

محض خواتین ڈرائیوروں کی بجائے تھر کے نوجوانوں کو بھی تھر کول منصوبے میں ترجیحی بنیادوں پر ملازمتیں فراہم کی جائیں۔

روایتی بے حسی کو ختم کرتے ہوئے تعلیم اور صحت کے (عملی طور پرموجود) مراکز قائم کیے جائیں؛ اور خدمات انجام دینے والے ڈاکٹروں اور اساتذہ کو خصوصی مراعات سے نوازا جائے۔

وبائی موسم سے پہلے پورے تھر میں بھیڑ بکریوں اور دیگر جانوروں سمیت موروں کےلیے محکمہ افزائش حیوانات کی ٹیموں کے ذریعے ویکسی نیشن کا بندوبست کیا جائے۔

دور دراز گوٹھوں کے قریب میٹھا پانی تلاش کرکے کنویں کھودے جائیں اور شمسی توانائی سے چلنے والی موٹریں لگا کر پانی کی آسان فراہمی یقینی بنائی جائے۔

زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ کی وساطت سے چھوٹے پیمانے پر قرضوں کی فراہمی کے ذریعے زرعی اور مویشی بانی کے شعبے کی مدد کی جائے۔

عید قرباں پر کراچی مویشی منڈی میں ’’تھر منڈی‘‘ کے نام سے تھریوں کےلیے الگ حصہ بنایا جائے اور تھر کے مویشی بانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

تھر میں گھریلو دستکاری سے وابستہ خواتین کو مناسب فروختگی کے طریقوں سے واقفیت دلائی جائے اور ان کے تیار کردہ فن پاروں کو مناسب داموں خریدا جائے۔

تھر کو سیاحتی مقام میں بدلنے کےلیے حکومتی سطح پر ایک بڑا منصوبہ بنا کر تھر کو ترقی دی جائے اور سیاحوں کو متوجہ کیا جائے تاکہ سیاحوں کی آمد سے مقامی لوگوں کے ذرائع آمدن میں اضافہ ہو۔

تھر کی ثقافت اور تاریخ کو محفوظ کرنے کےلیے تھر عمر کوٹ میں پہلے سے موجود ثقافتی مرکز کو ’’ادارہ تاریخ و ثقافت تھر‘‘ (Institute of History and Culture Thar) میں تبدیل کیا جائے۔

تھر کی دھوپ اور گرم درجہ حرارت کا فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے شمسی توانائی کے چھوٹے بڑے منصوبے بناکر تھر کے گوٹھوں کو بجلی فراہم کی جائے۔

بھارت نے اپنے تھر میں اندرا گاندھی کے نام سے 400 کلومیٹر طویل نہر بنا کر تھر کو مقدور بھر سر سبز کرنے کی کوشش کی ہے اور تھر کی آب و ہوا سے مناسبت رکھنے والے پھل دار اور سایہ دار درختوں سمیت مختلف فصلوں کی کاشت اور باسیوں کی زندگی کو آسان بنایا ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے سالانہ ترقیاتی منصوبوں میں تھر کو آبپاش علاقہ بنانے کی غرض سے دریائے سندھ کے کسی مناسب مقام سے ’’نہر قائد‘‘ کی تعمیر شروع کرے جو پار کرکے پہلے سے شاداب علاقے کی رونقوں کو دوبالا کرے اور نئے علاقوں کو بھی زیر کاشت لائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post صحرائے تھر: خطہ بے زر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2KH2eA8
via IFTTT

نواز شریف کا حالیہ بیان؛ ملکی سلامتی کے اداروں کو نقصان اور انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے!FOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

پاناما لیکس پر آنے والے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نااہل ہونے کے بعد سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے مسلسل ملکی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

حال ہی میں ایک مقامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے ممبئی حملوں کے حوالے سے متنازعہ باتیں کیں جس پر حسب روایت بھارت نے پاکستان مخالف پراپیگنڈہ شروع کردیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت اس حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا جس میں نواز شریف کے بیان کو گمراہ کن قرار دے کر یکسر مسترد کردیا گیا جبکہ نواز شریف نے نہ صرف اس اعلامیہ کو مسترد کردیا بلکہ ڈان لیکس کو بھی درست قرار دے دیا جس کے بعد سے ملکی ماحول کافی کشیدہ ہوچکا ہے۔

مختلف سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے سابق وزیراعظم کے خلاف غداری کے مقدمات درج کروانے کے لیے درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں جبکہ مختلف شہروں میں ان کے خلاف ریلیاں بھی نکالی گئی ہیں۔ اس اہم قومی مسئلے کو دیکھتے ہوئے ’’سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا بیانیہ اور اس کے اثرات‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں آئینی و قانونی ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر فاروق حسنات (ماہر امور خارجہ)

آئین پاکستان سب سے بڑی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ ہمارے ملک میں گزشتہ دس برسوں سے سیاسی نظام چل رہا ہے، اس دوران پاکستان کو جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کا موقع ملا ۔ سیاسی قیادت کو پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں اور سیاسی جماعتوں کو مضبوط کرنا چاہیے تھا مگر انہوں نے ان اداروں کو نظر انداز کیا۔ سیاسی جماعتوں کو موروثی بنادیا گیا اور حالت یہ تھی وزیراعظم ، منتخب نمائندوں کو ملاقات کا وقت نہیں دیتے تھے۔ افسوس ہے کہ وزیراعظم پارلیمنٹ نہیں جاتے تھے یہی عالم وزیراعلیٰ کا تھا جس کے باعث یہ ادارے کمزور ہوئے لیکن اگر ان سیاسی اداروں کو مضبوط کیا جاتا تو آج یہ مسائل درپیش نہ ہوتے۔سیاسی ادارے معاشرے میں توازن پیدا کرتے ہیں لیکن ہمارے سیاستدانوں نے جمہوری اداروں کو خود کمزور کیا ۔ فوج نے تو انہیں نہیں کہا تھا کہ عوام کو بنیادی سہولیات نہ دیں، تعلیم عام نہ کریں، لوڈشیڈنگ ختم نہ کریں، یہ تو ان کی اپنی غلطیاں ہیں مگر یہ الزام دوسرے اداروں پر لگا دیتے ہیں۔ ہمیں اداروں کو کمزور نہیں کرنا چاہیے کیونکہ عدلیہ اور فوج کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔ ہمارے سامنے عراق ، شام، لیبیا اور اردن کی مثال موجود ہے ۔ ان ممالک میں داعش آئی۔ عراق اور شام کی فوج ختم ہو چکی تھی تو وہاں داعش نے تباہی مچائی، لوٹ مار کا بازار گرم کیا اور وہاں خانہ جنگی شروع ہوگئی لیکن لیبیا اور اردن میں فوج اور عدلیہ مضبوط تھی تو وہ تباہی سے بچ گئے۔ ٹرمپ جنونی ہے، اس نے جو کہا کر دکھایا لہٰذا اب نواز شریف کے اس بیان کے بعد بین الاقوامی سطح پر ہمارے لیے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ سابق وزیراعظم نے دہشت گردی کے حوالے سے خود اقرار کرلیا ہے لہٰذا اب FATF کے اجلاس کے بعد پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں جس کے بعد معاشی، سیاسی اور سکیورٹی کے حوالے سے ہم پر سختیاں آئیں گی ۔ 1970ء کے بعد اب پہلی مرتبہ پاکستان کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں، امریکا ہمارے مدارس پر بمباری بھی کرسکتا ہے۔  آئندہ آنے والی عبوری حکومت کو چاہیے کہ اس نقصان پر قابو پائے تاکہ معاملات کو آگے بڑھایا جاسکے۔

محمد مہدی (ماہر امور خارجہ و رہنما پاکستان مسلم لیگ،ن)

ملکی تاریخ میں تقریباََ ہر انتخابات سے پہلے ایسی ہی کشمکش کی صورتحال ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں اور وہی حالات و واقعات چند سال بعد دوبارہ سامنے آجاتے ہیں۔ نواز شریف بچے نہیں ہیں کہ وہ بغیر سوچے سمجھے کوئی بیان دے دیں۔ وہ حکومت میں بھی رہے اور حکومت سے باہر بھی، انہوں نے ہر طرح کے حالات دیکھے ہیں لہٰذا انہیں بخوبی معلوم ہے کہ کیا کہنا ہے۔ نواز شریف نے جو کہا اس طرح کی باتیں پہلے بھی مختلف لوگوں کی جانب سے سامنے آتی رہی ہیں مگر نواز شریف کی اس بات کو ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں پیش کیا۔ مسلم لیگ (ن) میں دھڑے بندی کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ صدر مسلم لیگ (ن) میاں شہباز شریف، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور چودھری نثار سمیت تمام پارٹی رہنما نواز شریف کو اپنا لیڈر مانتے ہیں اور آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ وہ نواز شریف کے ساتھ نہیں کھڑا۔ مفروضے پر باتیں ہورہی ہیں کہ نواز شریف عالمی تعاون کیلئے کوششیں کررہے ہیں، ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ پاکستان کی عوامی طاقت ان کے ساتھ ہے۔ابھی یہاں کہا گیا کہ نواز شریف مدد حاصل کرنے کیلئے امریکا گئے یہ بالکل غلط ہے۔ الزام لگایا جارہاہے کہ نواز شریف نے اپنے حلف سے غداری کی، سوال یہ ہے کہ اس کا تعین کیسے ہوگا؟ میرے نزدیک اس کے تین طریقے ہیں۔ پہلا یہ کہ نواز شریف کے مطالبے کے مطابق قومی کمیشن بنا دیا جائے جس میں سب پیش ہوں اور فیصلہ ہوجائے۔ نواز شریف کے خلاف عدالت میں درخواستیں جا چکی ہیں لہٰذا دوسرا طریقہ عدالتی فیصلہ ہے جبکہ تیسرا طریقہ عوامی عدالت کا ہے ۔ ملکی سیاست کے حوالے سے ایک بات تو واضح ہے کہ اگر سیاستدانوں کو سیاست کرنے دی گئی تو ملکی معاملات بہتر ہوں گے لیکن اگر نام نہاد نمائندے لائے گئے تو پھر مسائل پیدا ہوں گے۔ انتخابات کے قریب سیاستدان جماعتیں تبدیل کرتے ہیں، چند افراد کا کسی دوسری جماعت میں جانا بھی روایتی ہے، اس میں کوئی پریشانی کی بات نہیں۔حالیہ کشمکش کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ لیڈر تو نواز شریف ہی ہے لیکن بعض طاقتوں کی جانب سے انہیں سیاست سے باہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر انہیں کامیابی نہیں مل رہی کیونکہ پوری جماعت اپنے قائد کے ساتھ کھڑی ہے۔ایسا پہلے بھی کیا گیا جب جنرل (ر) پرویز مشرف نے صدارتی آرڈیننس کے تحت نواز شریف کو سیاست سے باہر کردیا تو 2001ء سے 2011ء تک شہباز شریف پارٹی کے صدر رہے مگر بعد میں نواز شریف دوبارہ پارٹی کے صدر منتخب ہوگئے ، پھر انہیں پارٹی صدارت سے ہٹا دیا گیا مگر اب بھی پوری پارٹی ان کی قیادت میں کام کررہی ہے۔ اگر شفاف اور بروقت انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ (ن) کامیابی حاصل کرے گی اور نواز شریف کے بیانیہ کو عوامی طاقت ملے گی۔ مسلم لیگ (ن) آئین پاکستان اور اس کی پاسداری کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔

اظہر صدیق ایڈووکیٹ (ماہر قانون)

عوامی نمائندوں کے صادق اور امین ہونے کے حوالے سے آرٹیکل 62(1)(f) ، پارٹی صدارت کے حوالے سے آرٹیکل 17(2)، بنیادی انسانی حقوق اور فوج کا کردار آئین میں موجود ہے اور جو انہیں تسلیم نہیں کرتا وہ آئین سے غداری کرتا ہے۔ میرے نزدیک آرٹیکل 6 صرف ڈکٹیٹرز پر ہی نہیں بلکہ جمہوری حکمرانوں پر بھی لگنا چاہیے۔ میرا مطالبہ ہے کہ آرٹیکل 6میں ترمیم کی جائے اور عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے والے سیاستدانوں پربھی آرٹیکل 6لگایا جائے۔ آرٹیکل 204 سے عدلیہ کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ سزا کے ڈر سے لوگ توہین عدالت نہیں کرتے۔ افسوس ہے کہ ہم شخصیات میں پھنسے ہوئے ہیں،ہمیں اس سے باہر نکلنا ہوگا۔ میرے نزدیک آرٹیکل 63(A) آمرانہ ہے جس کے ذریعے پارٹی صدر کو لاتعداد اختیارات دیے گئے ہیں۔ اس خوف کی وجہ سے لوگ اس کے فیصلے سے اختلاف نہیں کرتے اور چپ چاپ تسلیم کر لیتے ہیں۔ آرٹیکل 58(2)(B) کی وجہ سے توازن قائم تھا مگر اب سیاستدانوں کو منتخب ہونے کے بعد 5 سال کیلئے مادر پدر آزادی ہے اور جو جی میں آرہا ہے وہ کررہے ہیں۔ اگر انہیں اسمبلیاں تحلیل ہونے کا ڈر ہوتا تو پھر وہ اس طرح ملک کے ساتھ مذاق نہ کرتے۔ اٹھارویں ترمیم پاکستان کی سالمیت کے خلاف بڑی سازش تھی، صوبوں کو ضرورت سے زیادہ اختیارات دے دیے گئے، اس سے لسانیت کو ہوا ملی اور مستقبل میںشدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 18 ویں ترمیم کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ پاکستان کا جمہوری نظام عوامی نہیں ہے۔ اس نظام میں عام آدمی کی پہنچ ایم این اے تک نہیں ہے لہٰذا وہ وزیراعظم تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔ سیاستدانوں نے جو خلاء چھوڑا اس کو عدالت نے پر کیا اور ان کی بیڈ گورننس کا پول کھول دیا جس پر انہیں تکلیف ہورہی ہے۔ آرٹیکل 8 سے 24تک انسانی حقوق جبکہ آرٹیکل 184اور آرٹیکل 199 بنیادی انسانی حقوق کے نفاذ حوالے سے ہیں لہٰذا اگر حکمران عوام کو ان کے آئینی حقوق فراہم نہیں کریں گے تو پھر عدلیہ کو ایکشن لینا پڑے گا۔ نواز شریف کا حالیہ بیان ڈان لیکس 2 ہے کیونکہ اس میں وہی کردار ہیں جو ڈان لیکس ون میں تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اخباری تراشے شہادت ہوتے ہیں اور دنیا اسے سابق وزیراعظم کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے اقرار کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ نواز شریف ریاست کے خلاف بیان دیکر غداری کے مرتکب ہوئے ہیں، اگر یہ بیان جھوٹ ہے تو تعزیرات پاکستان کے آرٹیکل 124(A)کے تحت بغاوت ہے جبکہ آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی بھی ہے جس پر آرٹیکل 6لگنا چاہیے۔ اگر نواز شریف کا بیان درست ہے اور یہ خفیہ معلومات تھیں تو پھر ’’آفیشل سیکریٹ ایکٹ‘‘ کے تحت ان کے خلاف کارروائی ہوگی لہٰذا دونوں صورتوں میں نواز شریف کو سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میرا الیکشن کمیشن سے مطالبہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 17(2) اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت مسلم لیگ (ن) کی بطور جماعت رجسٹریشن منسوخ کی جائے۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کے اعلامیہ کو نواز شریف نے مسترد کردیا۔ سوال یہ ہے کہ نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس کے بعد وزیراعظم نے پنجاب ہائوس جاکر نواز شریف کو کس قانون کے تحت بریفنگ دی۔ وزیراعظم نے حلف توڑا ہے اور وہ اس وقت بطور سہولت کار کام کررہے ہیں۔ نواز شریف، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کی کابینہ پر بغاوت کے مقدمہ کی درخواست جاچکی ہے، ہم الطاف حسین کی طرز پر نواز شریف کے خلاف کیس تیار کررہے ہیں۔

سلمان عابد (سیاسی تجزیہ نگار)

نواز شریف کے بیانیہ کے حوالے سے بنیادی بات یہ ہے کہ ان کے پاس سیاسی طور پر کیا آپشنز ہیں؟ پہلی یہ کہ وہ تسلیم کرلیتے کہ ان کے پاس فنانشل ٹرانزیکشن کے ثبوت نہیں ہیں جبکہ دوسرا یہ کہ وہ عدلیہ، فوج اور نیب کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، عدلیہ اور فوج کا گٹھ جوڑ ہے جبکہ عمران خان بطور سہولت کار کام کررہے ہیںاور یہ مل کر نواز شریف کو دیوار کے ساتھ لگانا چاہتے ہیں ۔ نیب کے چیئرمین کے حوالے سے بھی نواز شریف، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے بیانات آئے کہ ان کی تقرری کے حوالے سے ہم سے غلطی ہوئی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کے سیاسی فیصلے سیاسی میدان میں ہونے چاہئیں مگر یہ تو خود نواز شریف نے طے کیا تھا کہ معاملات سڑکوں کے بجائے قانونی طریقے سے حل کیے جائیں اور اب وہ خود اداروں پر تنقید کررہے ہیں۔ پاکستان کے بڑے سٹیک ہولڈرز میں فوج، عدلیہ، بیوروکریسی، نیب، ایف آئی اے شامل ہیں مگر نواز شریف نے ان تمام اداروں کا تماشا بنا کر انہیں سٹیک پر لگا دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دھرنے ہمارے خلاف سازش تھے لہٰذا وہ وقت آنے پر درپردہ چہروں کے نام بتائیں گے۔ میرے نزدیک نواز شریف کا بیانیہ عالمی مدد حاصل کرنے کی کوشش ہے،وہ اس کے لیے سعودی عرب، برطانیہ اور امریکا بھی گئے مگر عالمی سطح پر ان کی شنوائی نہیں ہورہی۔ بھارت کا پاکستان کے خلاف یہ بیانیہ ہے کہ پاکستان بطور ریاست ممبئی حملے میں ملوث تھا جبکہ پاکستان یہ کہتا ہے کہ ممکن ہے دہشت گرد یہاں سے گئے ہوں مگر ہماری ریاست اس میں ملوث نہیں ہے، کیس کی پیشرفت میں تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ بھارت نے ہمارے ساتھ شواہد کے حوالے سے تعاون نہیں کیا تاہم اب نواز شریف کے اس بیانیہ سے پاکستان دشمن لابی خصوصاََ بھارت کو پاکستان مخالف پراپیگنڈہ کرنے کا موقع مل گیا ہے جس کا ہمیں نقصان ہوگا ۔اب نواز شریف نے ڈان لیکس کے حوالے سے بھی کہا کہ وہ باتیں درست تھیں ۔ مریم نواز نے بھی یہی کہا بلکہ انہوں نے تو سینیٹر پرویز رشید کی سزا کو بھی غلط قرار دے دیا۔ نواز شریف نے قومی مفاد کے خلاف بات کی، ان کا بیان بین الاقوامی میڈیا کی خبروں کی زینت بنا ہے مگر مقامی سطح پر ان کی حکومت اور پارٹی کو نقصان پہنچا ہے ۔ وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب اس بیان کو ’’اون‘‘ نہیں کر رہے مگر نواز شریف اس پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ان کی بیٹی مریم نواز بھی ان کے ساتھ ہے۔ میرے نزدیک نواز شریف نے اپنی حکومت اور جماعت دونوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم، وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور مسلح افواج کے سربراہان نے مشترکہ طور پر کہا کہ نواز شریف کا بیان گمراہ کن ہے مگر اجلاس ختم ہونے کے بعد وزیراعظم نے مختلف بات کی جبکہ خود نواز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ مسترد کردیا۔ میرے نزدیک نواز شریف ردعمل کی سیاست کا شکار ہوچکے ہیں، و ہ ماضی کی غلطیوں کا اعتراف تو کر رہے ہیں مگر اب بڑی غلطیاں کررہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے مشیر انہیں بند گلی کی طرف لیکر جارہے ہیں لہٰذا آنے والے وقت میں نواز شریف اپنی ان غلطیوں کا اعتراف بھی کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) دو گروہوں میں تقسیم ہوچکی ہے، ایک گروپ نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ دوسرا مفاہمت کی طرف بڑھنا چاہتا ہے۔ نواز شریف اپنے اس بیانیے کو بطور پریشر لے کر چلنا چاہتے ہیں لہٰذا اگر وہ اس کو فروغ دیتے رہے تو پھر انتخابات نہیں ہوسکیں گے اور اس کے ذمہ دار خود نواز شریف ہی ہوں گے۔ نواز شریف قومی کمیشن کا مطالبہ کر رہے ہیں، سوال یہ کہ وہ انہوں نے پہلے کتنے فیصلوں کو تسلیم کیا ہے؟ خلائی مخلوق کی باتیں کی جارہی ہیں، اگر ایسا کوئی مسئلہ ہے تو اسے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اٹھایا جاتا، اگر پہلے نہیں بات کی گئی تو اب اجلاس بلا کر اس میں تحفظات دور کیے جائیں۔ دشمن ممالک پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، نوازشریف بھی ذاتی سیاست کی خاطر پاکستان کے قومی سلامتی اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کررہے ہیں، نواز شریف نہ صرف اپنی جماعت بلکہ جمہوریت کوبھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

The post نواز شریف کا حالیہ بیان؛ ملکی سلامتی کے اداروں کو نقصان اور انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IxPbEy
via IFTTT

روزہ اورپھلوں کے ذائقےFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

روزوں کے ساتھ طاقت و توانائی والی اشیا لازمی جزو بدن بننی چاہئیں۔لیکن اگر ہم اپنے رمضان کے معمولات کو دیکھیں تو ہم بے جا اور کولیسٹرول سے بھرپور غذا کا استعمال بے دریغ کر تے نظر آتے ہیں جس سے ہماری صحت کو روزوں کی مشقت سے جہاں روحانی اور جسمانی صحت حاصل کرنی چاہیے، اس کے بجائے ہم مزید کسل مندی اور سستی کا شکار نظر آتے ہیں، بلکہ بعض اوقات تو رمضان کے بعد ہمارا وزن بھی کافی بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ تلی ہوئی اشیاء  کا کثرت سے استعمال اور مصنوعی میٹھے کی زیادتی ہے۔

چینی ملے مشروب  اور مرغن غذاؤں کا حد سے زیادہ استعمال، ساتھ ہی زیادہ سے زیادہ آرام اور سستی ہم اپنی صحت اور جسمانی ساخت کو مکمل طور پر برباد کرنے میں کسر نہیں چھوڑتے ، حالاں کہ روزو ں کی برکت اور عبادت کی کثرت سے اس ماہ میں اللہ رب العزت نے ہمارے لیے ایک ٹریننگ پروگرام ترتیب دیا ہے ،اگر ہم ان اصولوں کو مدنظر رکھ کر اس ماہ کو گزاریں تو بعید نہیں کہ ہم جسم کے اندر موجود زہریلے مادوں کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی صحت کو بحال کر کے روحانیت کے بھی اونچے درجوں کو پالیں گے۔

عموماً اس ماہ کے آنے سے پہلے ہی خواتین زور وشور سے بازاروں اور مارکیٹوں کے چکر  لگالگا کر خوب کھانے پینے کی کچی اور ریڈی میڈ اشیاء خرید کر فریز کرتی چلی جاتی ہیں۔ مرغن اور تلنے والی اشیاء کو کو بہت زیادہ مقدار میں تیار کرکے فریزر میں محفوظ کیا جاتا ہے، تاکہ افطاری میں زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جا سکے۔ ہیوی اشیا پہلے سے  تیار کر کے رکھ لی جاتی ہیں، جب کہ ہلکی پھلکی اشیاء جیسے پکوڑے، پھلکیاں اور پاپڑ وغیرہ عین وقت پر تیار کیے جاتے ہیں۔ساتھ ہی سحری کے لیے بھی خوب زیادہ اہتمام ہوتا ہے۔

قورما، نہاری، حلوا پوری اور حلیم کے بغیر بیش تر گھروں میں سحری ادھوری تصور کی جاتی ہے ،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خاتون خانہ کی زندگی اس ماہ میں کچن کی ہو کر رہ جاتی ہے جو کوئی مالی طور پر مستحکم ہوتے ہیں، وہ آرڈر کرکے یا پھر مختلف اسٹورزسے فروزن اشیاء  خرید  لاتے ہیں لیکن بیش تر گھروں میں ان تمام چیزوں کا اہتمام خواتین ہی کو انجام دینا پڑتا ہے۔ جس سے وہ نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ اعصابی طور پر بھی تھکن کا شکار ہو جاتی ہیں۔

اگر ہم اس ماہ کی حقیقی روح کو پانا چاہتے ہیں تم ہمیں زیادہ سے زیادہ ہلکی پھلکی اور غذائیت سے بھرپور سحر و افطار کا اہتمام کرنا ہوگا جس سے ہمیں جسمانی اور روحانی صحت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت رب کی حضوری کے لیے بھی میسر آجائے گا۔ اس سلسلے میں ہم آپ کی راہ نمائی کریں گے کہ وہ کون سے پکوان نئی اشیاء ہیں جو کم وقت میں بننے کے ساتھ ساتھ اور غذائیت سے بھرپور بھی ہوتی ہیں۔

گرمی کی شدت اور روزوں کی سختی کی بنا پر اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ سے زیادہ خالص پھلوں کے مشروبات اور غذائیت سے بھرپور ہلکے پھلکے کھانے لینے چاہییں۔ پھلوں کے مشروبات میں سیب کینو اور مالٹے کا جوس بہترین ٹانک اور غذا ہے، اگر آپ سحری میں ایک گلاس فریش جوس کا لیتے ہیں تو اس سے نہ صرف آپ کی صحت و توانائی برقرار رہے گی، بلکہ آپ پورا دن چاق چوبند اور ہلکا پھلکا محسوس کریں گے۔

جوس کے ساتھ آپ کارن فلیکس یا پھینی کا استعمال بھی کرسکتے ہیں یا جو کا عدلیہ بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس طرح کی سحری سے آپ کا وزن بھی کنٹرول میں رہے گا اور اس کے نتیجے میں  توانائی کی بحالی بھی قدرے مستحکم رہے گی اورسحری میں مرغن اشیاء کے چھوڑنے سے سینے کی جلن، متلی اور طبیعت کے بوجھل پن سے بھی نجات مل جائے گی۔اسی طرح افطاری میں بھی فریش جوس کے ساتھ مختلف پھلوں کے ملک شیک سے بھی لطف لیا جاسکتا ہے جو مصنوعی شربتوں سے قدرے بہتر ہیں۔

ساتھ ہی پھلوں کی چاٹ یا میٹھے میں فروٹ ٹرائفل کا استعمال نہ صرف آپ کی سارے دن کی مشقت کا مداوا کردے گا، بلکہ آپ کو مزید عبادات کے لیے چارج بھی کردے گا۔ تلی ہوئی اشیاء اور پکوان سے بھرپور کھانے ایسی کسل مندی پیدا کرتے ہیں کہ افطاری کے بعد ہمیں عجیب بوجھل پن اور اپھارے کا احساس کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں چھوڑتا اور اس طرح ہم گھریلو کاموں کے بھی قابل نہیں رہتے۔

صحت بخش اور ہلکی پھلکی خوراک نہ صرف آپ کی صحت کے لیے مفید ہے، بلکہ آپ کے سال بھر کے ڈائٹ پروگرام جس پر آپ عمل نہ کر سکے، اس کو  بھی رمضان میں مکمل کروا کر آپ کو ایک قابل رشک جسمانی صحت عطا کرسکتی ہے۔ ضرورت صرف مستقل مزاجی سے رمضان کی اس بابرکت فضا کو حاصل کرنا ہے۔فروٹ ٹرائفل کے لیے آپ پہلے ایک کلو دودھ سے سادہ کسٹرڈ بنالیں اور اسے ٹھنڈا ہونے کے لیے  چھوڑ دیں۔

ایک الگ برتن میں،سیب  (چھلکا اترا ہوا) چیکو  بھی چھلکا اترا ہوا، انگور، چیری، پائن ایپل کی کیوبز وغیرہ باریک کاٹ کر ٹھنڈے کسٹرڈ میں ملالیں،  مزے دار اور صحت بخش  فروٹ ٹرائفل تیار ہے، اسی طرح آپ آم کا مزے دار کسٹرڈ بھی بناکر اپنے دسترخوان کی رونق بڑھا سکتی ہیں۔ ٹھنڈے کسٹرڈ میں آمکی باریک کیوبز ڈالیں اور نوش کریں۔پھلوں میں قدرتی مٹھاس اور ذائقہ پایا جاتا ہے جو ہمارے جسم کے لیے کارآمد اور بے انتہا مفید بھی ہے۔

یہ ہمارا جزو بدن بن کر ہمارے اندر تن دہی پیدا کرتے ہیں۔ تواس بار مستحکم ارادہ کیجیے کہ رمضان المبارک کی روح کو پانے کے ساتھ ساتھ اپنی ڈائٹ کے گراف پر بھی کام یابی سے عمل پیرا ہونا ہے، تو پھر دیر کس بات کی!  جلدی سے اپنا شیڈول ترتیب دے لیجیے۔

 

The post روزہ اورپھلوں کے ذائقے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2GA1k6d
via IFTTT

رمضان میں عورتیں اور کچنFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

ملک وال: ماہ رمضان کے آتے ہی دستر خوان رنگا رنگ کھانوں سے بھر جاتا ہے جس سے اس کی رونق  میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ چاہے سحری ہو یا افطار، دستر خوان پر ہر قسم کی نعمت موجود ہوتی ہے۔

خصوصاً افطار کے وقت اہتمام بہت خاص ہوتا ہے۔ سموسے پکوڑے اور چٹنیاں دستر خوان کی زینت بنتے ہیں۔ رمضان المبارک میں خواتین کی ایک اہم ذمے داری سحری وافطاری کا اہتمام کرنا ہوتا ہے۔افطار کے دستر خوان پر گھر والوں کی پسند کا مطالبہ زوروں پہ ہوتا ہے کہ ان کی پسند کی نت نئی چیزیں بنائی جائیں۔ ایسے میں سب کی پسند نا پسند کا خیال رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ مشکل بھی ہوتا ہے، لیکن اگر خواتین گھبرانے کے بجائے سمجھ داری سے کام لیں تو تمام امور بہت عمدگی سے  انجام پا سکتے ہیں۔ خواتین کو چاہیے کہ رمضان شروع ہونے سے پہلے پورے گھر کی مکمل صفائی کرلیں تاکہ بعد میں سہولت رہے  اور بعد میں زیادہ کم نہ کرنا پڑے، بلکہ تھوڑے وقت میں بعد کا  کام ختم ہوجائے گا۔

ایک دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ رمضان سے کچھ دن پہلے خواتین سحرو افطار کی ضروری خریداری کر لیں، تاکہ روزے کی حالت میں بار بار بازار کے چکر نہ لگانے پڑیں۔ سحری کرنے کے بعد عبادت اور تلاوت کریں۔اس کے بعد جب وقت بچ جائے  تو اس وقت میں گھر کے کچھ کام ختم کرلیں۔ اس طرح آپ گرمی اور دھوپ سے بچ جائیں گی، کیوں کہ بعد میں لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ گرمی کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے کام کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اس کا آسان حل یہی ہے کہ سحری کے بعد کچھ کام یا سارے کام کرلیے جائیں۔

سحر و افطار کے اوقات کے مطابق کام ترتیب دے لیں اور ضروری سامان کی لسٹ بنالیں۔ اس مہینے میں اخراجات عام اخراجات سے زیادہ ہوتے ہیں، اس لیے بہتر ہے کہ آمدنی کے مطابق بجٹ بنالیا جائے تاکہ بعد میں مالی مسئلہ نہ ہو۔گھروں میں حسب حال ہفتہ وار یا پھر یک مشت مہنے کا راشن جمع کر لیں، تاکہ بعد میں آسانی رہے۔ ہمارے ہاں صدیوں سے روایت چلی آ رہی ہے کہ استطاعت کے مطابق ا ہتمام کیا جاتا ہے اور اس کام میں بچیوں کی بھی تربیت کی جاتی ہے کہ جتنی چادر اتنے پائوں  پھیلائے جائیں، یعنی حیثیت کے مطابق خرچ کیا جائے۔

رمضان المبارک کی اہمیت اور اس کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اس ماہ مبارک کی اہمیت کو سمجھتی ہیں اور اسی لیے اس ماہ میں ہر طرح کی محنت کرتی ہیں، اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے اچھے اچھے کھانے تیار کرتی ہیں اور جب تک تھک کر نڈھال نہیں ہوجاتیں، کچن میں لگی رہتی ہیں۔

اکثر خواتین کا کہنا ہے کہ اس ماہ مبارک  میں کچن کی تھکن انہیں ذرا بھی پریشان نہیں کرتی، کچن میں آج کل بے تحاشہ گرمی ہوتی ہے، پھر لوڈ شیڈنگ کا عذاب  الگ ہے، اتنی سخت گرمی میں اپنے روزہ دار گھر والوں، بہن بھائیوں اور ماں باپ کے لیے ان کی پسند کی چیزیں پورے اہتمام کے ساتھ تیار کرتی ہیں۔

اس دوران گرمی ان کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتی ہے، لیکن ان کی پیشانی پر بل نہیں آتا اور وہ پوری عقیدت و احترام کے ساتھ اس ماہ مقدس کی فضیلت کو سمجھتے ہوئے کچن کی گرمی میں لگی رہتی ہیں چاہے ان کا جسم پسینے سے کتنا ہی شرابور کیوں نہ ہو، انہیں نہ ان مبارک مہینوں میں اتنی سخت محنت گراں گزرتی ہے اور نہ ان کی زبان پر کوئی شکوہ یا شکایت آتی ہے، بلکہ انہیں تو اس وقت بے حد خوشی محسوس ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر والوں کے چہروں پر خوشی اور مسکراہٹ بکھری دیکھتی ہیں، اس وقت انہیں لگتا ہے کہ ان کی ساری محنت ٹھکانے لگی۔

پھر یہی خواتین گھر میں اور کچن میں بے تحاشا محنت کرنے کے بعد نماز روزے کی پابندی بھی کرتی ہیں اور تہجد کے نوافل، ذکر و اذکار اور تلاوت کلام پاک بھی پورے خشوع و خضوع سے کرتی ہیں جس کے بعد ان کی چہروں پر ملکوتی حسن نمودار ہوجاتا ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ پروردگار عام نے ان کی یہ ساری محنت قبول فرمالی ہے۔ دعا ہے کہ ہماری تمام مائیں، بہنیں، بھابھیاں اور بیٹیاں اسی جوش و عقیدت کے ساتھ رمضان کے یہ ساعتیں اپنے کچن میں بھی گزاریں اور مصلوں پر بھی تاکہ انہیں بھی اﷲ رب العزت کی رضا  اور خوش نودی حاصل ہوسکے۔ آمین

 

The post رمضان میں عورتیں اور کچن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2kadlGo
via IFTTT

رمضان میں پاکستان بہت یاد آتا ہےFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی خواتین کے رومز مرہ کے معمولات میں کچھ تبدیلی آجاتی ہے۔ سحر و افطار کی تیاری، اہل خانہ کی پسند کے پکوان بنانا، پڑوسیوں اور رشتے داروں میں افطاری کا سامان بھجوانا وغیر، ہ مگر یہ بڑھتی ذمے داریاں بھی گراں نہیں گزرتیں جب رب کریم کی خوش نودی پیش نظر ہو۔ ماحول بھی مزاج پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔

مختلف مساجد سے آنے والی اذانوں کی آوازیں، تلاوتِ قرآن کریم، اذکار اور ذکر الٰہی سے سماعتیں انسان کی روحانی کیفیت کو تبدیل کردیتی ہیں۔ رمضان المبارک کی یہ حقیقی روح وطن عزیز میں بسنے والوں کو پردیس میں بہت یاد آتی ہے۔ وہاں بسنے والی پاکستانی خواتین رمضان المبارک میں کس طرح سحر و افطار کی تیاری کرتی ہیں اور ان کے کیا معمولات ہوتے ہیں، اس کے متعلق مختلف ممالک میں رہائش پذیر چند خواتین کی آراء ذیل میں پیش کی جارہی  ہیں۔

٭عمارہ عندلیب (سعودب عرب)

عمارہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں مقیم ہیں اور ایک ٹیچر ہیں۔ سعودی عرب میں رمضان المبارک کے متعلق انھوں نے بتایاکہ یہاں سب سحری کرکے فجر کی نماز کے بعد سوجاتے ہیں اور پھر اکثر لوگ عصر کے قریب اٹھتے ہیں۔ یہاں سب خریداری وغیرہ رات کو ہی ہوتی ہے۔ دن کے اوقات میں زیادہ تر بازار سب بند ہوتے ہیں۔ رمضان المبارک میں اسکولوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ یہاں عرب گھرانوں میں زیادہ تر سحری میں  شورما کی طرح کا سینڈوچ کھایا جاتا ہے اور ہم جیسے پاکستانی انڈین، بنگالی لوگ پراٹھا، روٹی سالن یا چاول کھاتے ہیں۔ افطاری میں عرب گھرانوں میں جو کا دلیہ لازمی ہوتا ہے  اور ساتھ سموسہ رول وغیرہ۔ پاکستان اور یہاں کے رمضان میں یہ فرق محسوس ہوتا ہے کہ وہاں حقیقی معنیٰ میں روزہ رکھنے کا پتا چلتا ہے، جب کہ یہاں پورا دن ایئر کنڈیشنڈ میں رہنا اور دن کے اوقات میں کوئی سرگرمی نہیں ہوتی اور افطاری کے بعد ساری رات عبادت، خریداری اور ملنا ملانا سحری تک جاری رہتا ہے۔ پاکستان کی بہت سی چیزیں یاد آتی ہیں،  خاص طور پر عید کا دن بہت یاد آتا ہے۔

٭عفت (کینیڈا)

عفت کینیڈا میں مقیم ہیں۔ کینیڈا میں سحر و افطار کے متعلق انھوں نے بتایا کہ سحری کے وقت،  تہجد پھر سحری میں پراٹھا، انڈا، چائے اور پھر نماز فجر کی مسجد میں ادائیگی، افطار رات کے نو بجے سب ساتھ مل کر بیٹھتے ہیں۔ دعائیں کرتے ہیں، افطاری میں چھولے، دہی بڑے، سموسے، پکوڑے، فروٹ چاٹ، میٹھا اور کھانا ہوتا ہے۔ پھر مغرب کی نماز مسجد میں ادا کی جاتی ہے۔ بہ فضلِ خدا رمضان المبارک میں پاکستان کی طرح یہاں بھی سب کچھ ہوتا ہے سوائے اس کے کہ پاکستان میں سب روزہ رکھتے ہیں اور کینیڈا میں مسلمان بچے اور بڑے روزہ رکھتے ہیں۔ روزے میں معمول کی زندگی ہوتی ہے۔ بڑے اسٹورز میں رمضان سیل ہوتی ہے، رمضان میں ہر وہ چیز جو مسلمان استعمال کرتے ہیں، رعایتی داموں پر دست یاب ہوتی ہیں۔ کینیڈا میں رمضان میں بہت سکون ہوتا ہے۔ عید کی تیاری ابتدا میں ہوجاتی ہے۔ تراویح اور عید کی نماز کے لیے  تمام گھر والے جاتے ہیں اور تراویح کے بعد کھانے کا کوئی سلسلہ نہیں ہوتا۔ سب سوجاتے ہیں اور سحری پر جاگتے ہیں۔

٭ شکیلہ خلصائی (برطانیہ)

شکیلہ برطانیہ کے شہر ہولیوٹن (Luton) میں مقیم ہیں۔ وہ ایک خاتون خانہ ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ  روزے کا دورانیہ یہاں خاصا طویل ہوتا ہے۔ اندازاً رات تین بجے سے لے کر رات کے ساڑھے نو بجے تک روزہ ہوتا ہے۔ رمضان یہاں دیگر مہینوں کی طرح ہوتا ہے، کیوں کہ اسکول، امتحان، ملازمت کے اوقات کار کچھ بھی تبدیل نہیں ہوتا،  سوائے اس کے کہ مدرسہ اور اسلامی اسکول کے اوقاتِ کار میں تبدیلی آتی ہے۔ سحری اور افطاری اہل خانہ کی پسند پر منحصر ہے۔ کم و بیش پاکستان کی طرح ہی اہتمام ہوتا ہے۔ یہاں اکثر مساجد میں افطار کا اہتمام بھی ہوتا ہے  اور خواتین کے لیے مسجد میں علیحدہ انتظام ہوتا ہے۔ تراویح میں بھی یہی انتظام ہوتا ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ رمضان کا مزہ پاکستان یا کسی بھی اسلامی ملک میں الگ ہی ہے، کیوں کہ مخصوص ماحول ہوتا ہے۔ لوگ روزہ دار ہوتے ہیں۔ آس پاس ایک ماحول ہوتا ہے جس کا اپنا مزہ ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں ہر سال رمضان کا مہینہ پاکستان میں گزارسکوں۔  پاکستان میں سب طرف گھروں میں مستحق لوگوں کی آمد، ان کی حاجت زکوٰۃ کے ذریعے پوری کرنا، رشتے داروں اور ہم سایوں کو افطار دینا اور افطار ڈنرز اور افطار پارٹیز، شب قدر میں جاگنا، عبادت کرنا وغیرہ سب کا مزہ پاکستان میںہی ہے۔

٭صدف آصف (آسٹریلیا)

صدف آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں مقیم ہیں۔ معروف افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ یہاں کا نظام بہت مختلف ہے، کیوں کہ یہاں ہمارا روزہ اکثر ملازمت کے اوقات کے دوران کھلتا  ہے۔ پانچ سوا پانچ بجے یہاں مغرب ہوجاتی ہے تو میں اپنے ساتھ ایک پانی کی بوتل اور کھجور لے کر بیٹھتی ہوں اور یہاں جو پاکستانی گھرانے ہیں، ان میں ہر ہفتہ اتوار  افطار پارٹیاں ہوتی ہیں۔ سارا رمضان افطار پارٹیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں اور کھانا بے تحاشا ہوتا ہے۔ دو تین ڈشز تو  ہوتی ہی ہیں،  بلکہ لوگ کئی قسم کے سالن بناتے ہیں اور کئی قسم کے دیگر پکوان مثلاً چکن تکہ، بوٹی، بروسٹ وغیرہ،  لیکن یہاں پر یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور عام طور پر ایک ایک ڈش بانٹ لیتے ہیں اور وہ اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔ پاکستان اور یہاں کے ماحول میں بہت زیادہ فرق ہے، کیوں کہ یہاں پاکستان کی طرح تسلسل اور  یک سوئی سے عبادات نہیں ہو نہیں پاتیں جس طرح اپنے وطن میں ہوتی ہیں،  کیوں کہ ملازمت پیشہ افراد کے ملازمت کے اوقاتِ کار مختلف ہوتے ہیں۔ یہاں پر لوگوں کو رمضان، عید کا پتا نہیں ہوتا۔  یہاں کے لوگ تو اپنے حساب سے زندگی بسر کرتے ہیں۔  پاکستان میں جیسے سب کھانا پینا یعنی ہوٹل وغیرہ سب کو پسند ہوتے ہیں، مگر  یہاں تو ویسے ہی چلتا رہتا ہے، اس لیے پاکستان والی بات نہیں محسوس ہوتی جیسے پاکستان میں اس ایک مہینے کا اچھا احساس ہوتا ہے۔ یہاں پر مخصوص علاقوں میں مساجد ہیں جہاں تراویح ہوتی ہے لیکن پاکستان میں جس طرح مسجدوںکی آوازیں آتی تھیں، وہ یاد آتا ہے اور سب سے زیادہ یاد وہ منظر  آتا ہے جب ہم سب مل کر بیٹھتے تھے۔ ایک لمبا دسترخوان لگتا تھا اور سب بیٹھ کر ایک ساتھ افطاری کرتے تھے،  یہاں  تو عموماً میں کھجور اور پانی کی بوتل لے کر جاتی ہوں، بلکہ یہاں ایک عیسائی سہیلی ہے سامنے کافی شاپ ہے، وہاں سے میں کافی لیتی تھی تو وہ اتنا پریشان ہوئی، کہنے لگی کہ تم ایک پورے مہینے تک کچھ نہیں کھائوگی، کہیں بیمار نہ پڑجائو۔ پھر مجھ سے روزہ افطار کا وقت معلوم کرتی ہے اور  مجھے اس وقت  چاکلیٹ ملک لاکر دیتی ہے۔

٭ شانی ناصر (ملائیشیا)

شانی ناصر ملائیشیا میں مقیم ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ جتنے خاندانوں کو میں جانتی ہوں یا جنھوں نے ہمیں افطار پر مدعو کیا، اس سے جتنا جان پائی ہیں اس کے مطابق سحری کے لیے یہ لوگ فرائیڈ رائس یا چاول کے ساتھ مرغی یا مچھلی کا سالن کھاتے ہیں اور گلاب کا شربت ہر کھانے کے ساتھ ہوتا ہے۔ افطار میں کھجور، شربت، چاول تلی ہوئی مرغی یا مچھلی، کچے کیلے کے پکوڑے، یہ لوگ کھانے کی تیاری سے زیادہ عبادت کا اہتمام کرتے ہیں۔ خواتین بھی نماز اور تراویح کے لیے  مسجد میں جاتی ہیں۔ چاند رات کو کثیر تعداد میں بسکٹ  اور کوکیز بنائے جاتے ہیں اور اہل خانہ اور دوست احباب میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ عید کی چھٹیوں میں اپنے اپنے آبائی علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان کی طرح یہاں بھی لوگ اپنے رشتے داروں سے ملنے جاتے ہیں۔ ان کو بھی مدعو کرتے ہیں۔ جمعے اور عید کے دن یہاں سب لوگ اپنا روایتی لباس پہنتے ہیں اور اکثر خواتین ایک جیسے رنگ کے لباس زیب تن کرتی ہیں۔  پاکستان کے دہی بڑے، چھولے، سموسے، چاول اور اسی طرح کے چٹخارے دار کھانے! ہائے نہ پوچھیں کتنے یاد آتے ہیں، اگر  یہاں مل بھی جائیں تومزے کے نہیں ہوتے۔

٭ماریہ علی (جرمنی)

ماریہ علی جرمنی کے شہر ڈورٹ منڈ  میں مقیم ہیں اور ایک  خاتون خانہ ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ جیسے پاکستان میں سحر و افطار کا اہتمام ہوتا ہے،  ایسے ہی یہاں بھی گھروں میں اپنی مدد آپ کے تحت ہوجاتا ہے، کیوں کہ یہاں دیسی کھانا باہر عام نہیں ملتا اور حلال حرام والا مسئلہ بھی ہوتا ہے۔ پاکستان میں ہر طرف رمضان کی خوش بو ہی ہوتی ہے اور اذانوں کی آوازیں زبردست ہوتی ہیں، لیکن یہاں وہ مزہ نہیں آتا۔ مسجدوں سے اذانوں کی آوازیں نہیں آتیں،  پاکستان کی کوئی ایک چیز یاد آتی ہو تو بتائوں ناں، ہائے اپنے وطن جیسا کھانا کہیں نہیں ملتا۔ پردیس پردیس ہے، یہاں  اپنے ملک والی بات نہیں۔ اذان کی آواز کا تو پہلے ہی بتاچکی ہوں، بہت یاد آتی ہے۔

٭ عائشہ بلال (اسپین)

عائشہ بلال اسپین کے شہر بارسلونا میں مقیم ہیں۔ وہ ایک طالبہ ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ یہاں ہم رمضان میں صبح سحری کرکے سوجاتے ہیں اور دو بجے اٹھ کے  نماز ظہر پڑھ کر نماز عصر تک قرآن شریف یا اذکار پڑھتے ہیں۔ سات بجے عصر ہوتی ہے اور عصر کے بعد افطاری کی تیاری اور پھر 9 بج کر بیس منٹ پر افطاری کرنے کے بعد چہل قدمی (واکنگ) جاگنگ وغیرہ کرتے ہیں۔ گیارہ بجے عشا اور تراویح پڑھتے ہوئے رات کے ایک یا دو بج جاتے ہیں۔  پھر سحری کی تیاری اور سحری کرکے سوجاتے ہیں۔ سحری میں تھوڑا کھانا کھانا پڑتا ہے، مثلاً پراٹھا یا جو کا دلیہ وغیرہ اور افطاری میں پھل، دودھ یا جوسز وغیرہ لیکن پوری رات جاگتے رہنے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ کھاتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں بہت اچھا ماحول ہوتا ہے،  نہ صرف گھر میں بلکہ گھر سے باہر بھی۔ ویسے تو اب پاکستان گئے ہوئے دس سال ہوگئے ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اب  بھی وہاں سب کچھ  ویسا ہی ہوگا، یہاں صرف گھر میں ماحول ہوتا ہے ویسے یونیورسٹی، کالج، ملازمت سب جگہ جانا ہوتا ہے اور وہاں پتا ہی نہیں چلتا کہ رمضان کا مہینہ ہے اور اذان کی آواز بھی نہیں آتی۔ موبائل فون پر اذان سے افطاری اور سحری کرنی پرتی ہے۔ یہاں سترہ سے اٹھارہ گھنٹے کا روزہ ہوتا ہے، پاکستان کا وہ ماحول جو رمضان میں ہوتا ہے، یہاں بہت یاد آتا ہے۔

The post رمضان میں پاکستان بہت یاد آتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2rZSEAH
via IFTTT

جانئے آج آپ کا دن کیسا رہے گاFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

حمل:
21مارچ تا21اپریل

گھریلو واقعہ کی بنا پر کسی قریبی عزیز سے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں، جذباتیت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے حقیقی تصویر بننے کی کوشش کیجئے، یقینا آپ کی غلط فہمی دور ہو سکتی ہے۔

ثور:
22اپریل تا20مئی

اگر آپ نے حالات کا اندازہ لگاتے ہوئے بھی اپنا پرانا طرز عمل برقرار رکھا تو پھر شریک حیات ناراض ہو سکتا ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ آپ گزشتہ واقعات سے کچھ سبق لے کر آئندہ غلطیاں نہ کرنے کا تہیہ کر لیتے۔

جوزا:
21مئی تا21جون

حالات خواہ کوئی رخ اختیار کر جائیں آپ جذباتیت کا مظاہرہ نہ کریں مانا کہ آپ کسی کی غلط بات برداشت نہیں کر پاتے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

سرطان:
22جون تا23جولائی

دوستوں کی تعداد تو لازمی بڑھ سکتی ہے لیکن دوست نوازی کا یہ چکر اب ختم کر دیجئے تاکہ آپ حقیقی راہ پر گامزن رہ کر زندگی کا مشن پورا کر سکیں، شریک حیات کی پرخلوص محبت آپ کو حاصل رہے گی۔

اسد:
24جولائی تا23اگست

خطرات بہت حد تک ٹل گئے ہیں لیکن خود پر کسی بھی واقعہ کو قبل از وقت مسلط نہ کیا کریں جو کچھ آپ محسوس کرتے ہیں ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہو، لہٰذا وقت سے پہلے سوچ کر مبتلائے اذیت رہنا کہاں کی عقلمندی ہے۔

سنبلہ:
24اگست تا23ستمبر

مزاج کی بھڑکتی ہوئی بے مقصد آگ کو ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کریں تاکہ باقی رہ جانے والی چند خوشیاں بھی راکھ نہ ہو جائیں آپ کو اب تک اندازہ لگا لینا چاہیے کہ یہ آتش مزاج آپ کے لیے نقصان دہ ہے۔

میزان:
24ستمبر تا23اکتوبر

ہم حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ رائے ضرور دیں گے کہ واقعات اگر کوئی غلط رخ بھی اختیار کر جائیں پھر بھی صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں حالات بفضل خدا بہتر ہو سکیں گے۔

عقرب:
24اکتوبر تا22نومبر

آپ کے قریبی رشتہ دار آپ کی مخالفت پر آمادہ ہو سکتے ہیں، ان کے ساتھ الجھ کر اپنا قیمتی وقت خراب نہ کریں جو یہ کرنا چاہتے ہیں انھیں کرنے دیں، تھوڑے دن اور صبر کر لیں۔

قوس:
23نومبر تا22دسمبر

اپنی آنکھیں کھلی رکھ کر حالات کو حقیقت کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کریں، یقینا آپ کسی کا حقیقی چہرہ دیکھنے میں کامیاب ہو جائیں گے اپنے دوستوں سے بھی دور رہیں، نزدیکی سفر شوق سے کریں۔

جدی:
23دسمبر تا20جنوری

جو ہو چکا اسے بھول جائیں تاکہ آپکا دماغ لاحاصل سوچوں سے آزاد ہو جائے اور آپ کوئی بہتر سکیمیں بنا سکیں، سوئی ہوئی صلاحیتیں پورے طور پر بیدار ہونے سے آپ کو دوبارہ پہلا مقام حاصل ہو سکے گا۔

دلو:
21جنوری تا19فروری

کوئی دیرینہ آرزو پوری ہو سکتی ہے، دوستوں سے جھگڑا ہو سکتا ہے لہٰذا محتاط رہ کر وقت گزارنے کی کوشش کیجئے فضول قسم کی سوچوں کا دماغ پر غلبہ ہو سکتا ہے محبوب سے وابستہ توقعات پوری ہو سکتی ہیں۔

حوت:
20 فروری تا 20 مارچ

آپ اپنے مذہب میں خصوصی دلچسپی لیں عبادت الٰہی کے ساتھ دکھی لوگوں کی مدد کرنا بھی اپنا شعار بنا لیں تاکہ پریشانیوں کے لمحوں میں کسی کی دعائیں آپ کے لیے نجات کا سبب بن سکے۔

The post جانئے آج آپ کا دن کیسا رہے گا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2feepXV
via IFTTT

رمضان المبارک میں عوامی افطار دسترخوان کا رجحان بڑھنے لگاFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

کراچی: رمضان میں جہاں مسلمان روزہ رکھتے ہیں اور عبادت کرکے اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں، وہیں اس بابرکت مہینے میں ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق زیادہ سے زیادہ روزہ داروں کو افطار کرانے کی کوشش کرتا ہے۔

کراچی میں قیامت خیز گرمی کے باوجود شہریوں میں افطار کرانے کے جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے،شہر میں جگہ جگہ مغرب سے قبل عوامی دسترخوانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جہاں مخیر حضرات کی جانب سے اللہ کی راہ میں دل کھول کر روزہ داروں کیلیے افطار کا بندوبست ہوتا ہے یہاں لوگ نہ صرف افطار کرتے ہیں بلکہ اب افطار کے لوازمات کے ساتھ ساتھ کھانے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔

ایکسپریس نے رمضان میں مخیر حضرات اور فلاحی تنظیموں کی جانب سے روزہ داروں کو افطار کرانے اور کھانا کھلانے کے رجحان کے حوالے سے سروے کیا، سروے کے دوران جمیشد روڈ پر گزشتہ 20 برسوں سے افطار کرانے والے ایک شخص رضوان علی نے بتایا کہ ایک جانب مہنگائی نے لوگوں کی قوت خرید محدود کردی ہے، پہلے تو غریب طبقہ افطار کے لوازمات سے محروم رہتا تھا لیکن اب سفید پوش افراد بھی افطار کی نعمتوں سے محروم رہتے ہیں اور اپنا سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے سادگی سے افطار کرتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ شہر میں صاحب حیثیت مسلمانوں کی کوئی کمی نہیں ہے اور اس مہینہ دل کھول کر اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ شہر میں عوامی افطار دسترخوانوں کا رجحان بڑھ رہا ہے اور گزشتہ برس کی نسبت اس سال اس رجحان میں مزید 300 فیصد اضافہ ہوگیا ہے اور تقریباً شہر میں 2200 سے 2300 مقامات پر عوامی افطار دستر خوان سجائے جاتے ہیں جہاں انداز ے کے مطابق تقریباً 22 سے 25 لاکھ کے درمیان لوگ افطار کرتے ہیں، یہ عوامی دسترخوان شاہراہوں، سڑکوں، عوامی مقامات، بس اسٹاپس پر لگائے جاتے ہیں۔

کراچی میں پہلا افطاردسترخوان 1964 میں فریسکو چوک پر لگایا گیا

کراچی میں پہلا افطار دسترخوان 1964میں فریسکو چوک اور دوسرا بڑا دستر خوان 1965میں ٹاور اور تیسرا بڑا دسترخوان 1970 میں جامع کلاتھ پر لگایا گیا، اس کے بعد شہر میں عوامی دستر خوانوں کا سلسلہ چل نکلا،عوامی مقامات پر دستر خوانوں کے علاوہ مخیر حضرات کی جانب سے کراچی شہر کی 4 ہزار سے زائد، 700 سے زائد امام بارگاہوں اور بڑے اور چھوٹے مدارس میں بھی افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے، علاقائی سطح پر بھی لوگ افطار ان مساجد ومدارس کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر افطار اور کھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔

روزے داروں کے لیے افطار بکس بھی تیارکرائے جاتے ہیں

رمضان میں روزہ داروں کے لیے صاحب حیثیت افراد اور فلاحی تنظیموں کی جانب سے افطار بکس تیار کرائے جاتے ہیں، مہنگائی کے باعث افطار بکس 100 سے 150 روپے میں تیار ہوتا ہے، اس افطار بکس میں روزانہ لوازمات تبدیل کیے جاتے ہیں، مقامی تنظیم کے رضا عمران الحق کے مطابق افطار بکس میں دو مختلف اقسام کے موسمی پھل، کھجور، کیک پیس، سموسہ یا رول، چھولے یا دہی بڑے یا فروٹ چاٹ اور دیگر کھانے پینے کی اشیا شامل ہوتی ہیں یا پھر ان افطار بکس میں بریانی کے پیکٹس رکھ کر انھیں تقسیم کردیا جاتا ہے۔

کراچی میں فلاحی تنظیمیں400مقامات پرافطارکراتی ہیں

کراچی میں بڑی فلاحی تنظیموں کے تحت اپنے فلاحی مراکز اور اہم مقامات پر افطار کرایا جاتاہے،فلاحی تنظیمیں تقریباً 400 مقامات پر افطار کا اہتمام کرتی ہیں، ان تنظیموں میں ایدھی فاؤنڈیشن، سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ، عالمگیر ویلفیئرٹرسٹ، المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی، جعفریہ ڈیزاسٹر سیل، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن، خدمت خلق فاؤنڈیشن، چھیپا فاؤنڈیشن، ایدھی فاؤنڈیشن، الخدمت ویلفیئر سوسائٹی، خدمت اہلسنت کمیٹی اور دیگر فلاحی تنظیمیں شامل ہیں، یہ فلاحی تنظیمیں کئی سال سے افطار دسترخوانوں کا اہتمام کرتی ہیں۔

ایدھی فاؤنڈیشن کے ترجمان انور کاظمی کا کہنا ہے کہ شہر میں 60 مقامات پر اید ھی دسترخوان قائم ہیں جہاں افطار کے اوقات میں تقریباً 62 ہزار سے زائد افراد کو افطار اور کھانا کھلایا جاتا ہے،سیلانی ویلفیئر کے ترجمان عامر مدنی کے مطابق رمضان المبارک میں تقریباً 70 سے زائد مقامات پر سیلانی دسترخوان کا اہتمام کیا جاتا ہے جہاں تقریباً 70 سے 75 ہزار افراد کھانا کھاتے ہیں۔

چھیپا فاؤنڈیشن کے سربراہ رمضان چھیپا کے مطابق چھیپا کے تحت 50 سے زائد مقامات پر افطار دسترخوان لگائے جاتے ہیں جہاں 60 ہزار سے زائد افطار اور کھانا کھاتے ہیں،المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی کے تحت بھی گلشن اقبال میں بڑے افطار دستر خوان کا اہتمام کیا جاتا ہے جہاں 3 ہزار افراد افطار کرتے ہیں۔

عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ کے جوائنٹ سیکریٹری شکیل دہلوی کے مطابق عالمگیر ٹرسٹ 6ہزار سے زائد افطار بکس تیار کرتا ہے جس میں افطاری کے علاوہ کھانا بھی ہوتا ہے،یہ افطار بکس غریب علاقوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں،اس کے علاوہ خدمت خلق فاؤنڈیشن اور دیگر فلاحی تنظیمیں بھی اپنے اپنے فلاحی مراکز پر افطار کا اہتمام کرتی ہیں۔

کیماڑی و دیگر علاقوں میں برادری سطح پر افطار کرایا جاتا ہے

کراچی میں مختلف برادریوں کے تحت علاقائی سطح، فلیٹس کی انجمنوں، مارکیٹس ایسوسی ایشنز اور محلوں کی سطح پر اجتماعی افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے، سروے کے دوران اس کام سے وابستہ ایک رضا کار نے بتایا کہ کراچی میں پختون برادری اپنے علاقوں کیماڑی،شیریں جناح کالونی، بلدیہ ٹاؤن، قیوم آباد، سپرہائی وے، منگھوپیر اور دیگر علاقوں میں علاقائی سطح پر اپنے اپنے ڈیروں اور مہمان خانوں میں اجتماعی افطار کا اہتمام کرتے ہیں جبکہ میمن برادری کے علاقوں کھارادر، میٹھادر، آرام باغ، حسین آباد، دھوراجی اور دیگر علاقوں میں افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

جامع کلاتھ، صدر، بولٹن مارکیٹ،حیدری،لیاقت آباد،کریم آباد اور دیگر مارکیٹوں میں 10 رمضان المبارک کے بعد مختلف مارکیٹس ایسوسی ایشنز کی جانب سے افطار کا اہتمام ہوتا ہے جبکہ شہر کے مختلف علاقوں میں علاقائی سطح پر بھی لوگ غریبوں، مسافروں اور دیگر لوگوں کے لیے افطار کا انتظام کرتے ہیں، شہر کے بڑے ریسٹورنٹس اور دکاندار بھی افطار دسترخوانوں کا اہتمام کرتے ہیں۔

افطار دستر خوانوں میں منظم انداز سے کھانا کھلایا جاتا ہے

عوامی مقامات پر لگائے جانیو الے افطار دسترخوانوں پر انتہائی منظم طریقے سے روزہ داروں کو افطار اور کھانا کھلایا جاتا ہے،مقامی فلاحی تنظیم کے رضا کار عمران الحق نے بتایا کہ دسترخوانوں کو بڑی شاہراہوں کے فٹ پاتھوں پر لگایا جاتا ہے جہان دریاں بچھا کر پلاسٹک کے دسترخوان لگائے جاتے ہیں۔

بڑے بڑے تھالوں میں پکوڑے، سموسے، فروٹ چاٹ، پھل اور افطار کے دیگر لوازمات رکھے جاتے ہیں جبکہ صاحب حیثیت افراد کی جانب سے چکن بریانی یا قورمہ روٹی بھی بطور کھانا لوگوں کو کھلایا جاتا ہے، بڑے عوامی دسترخوانوں پر خواتین کے لیے علیحدہ انتظام ہوتا ہے، افطار دسترخوانوں پر جوس اور شربت بھی تقسیم کیا جاتا ہے جبکہ بس اسٹاپس اور اہم عوامی مقامات پر گاڑیوں میں جو لوگ سفر کررہے ہوتے ہیں ان میں افطار بکس بھی تقسیم کیے جاتے ہیں۔

انھوں نے بتایاکہ پانی کی قلت کے باعث اس مرتبہ ماشکی افراد یا ٹینکرز کے ذریعے پانی خریدا جاتا ہے تاکہ بڑے پیمانے پر شربت تیار کیا جاسکے، انھوں نے بتایا کہ ہر عوامی دسترخوان یا تو انفرادی طور پر کوئی صاحب حیثیت افراد کرتا ہے یا پھر مشترکہ طور پر صاحب حیثیت افراد ان دسترخوانوں کا اہتمام کرتے ہیں اور تمام افطار لوازمات اور کھانے کا اہتمام پہلے سے 29 سے 30 دنوں کے لیے بک کروالیا جاتا ہے تاکہ کسی بھی چیز کی قلت نہ ہوسکے۔

The post رمضان المبارک میں عوامی افطار دسترخوان کا رجحان بڑھنے لگا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2GzR7Xe
via IFTTT

ایم آئی، آئی ایس آئی کا جے آئی ٹی کا حصہ بننا نامناسب تھا، نوازشریف کا احتساب عدالت میں بیانFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

 اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا ہے کہ ایم آئی اور آئی ایس آئی افسران کا جے آئی ٹی کا حصہ بننا غیر مناسب تھا۔ 

اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کررہے ہیں، سماعت کی ابتدا میں نواز شریف روسٹرم پر آئے اور انہوں نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے دیئے گئے سوالات کے جوابات پڑھ کر سنائے۔ انہوں نے کہا کہ میری عمر 68 سال ہے اور میں وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان رہ چکا ہوں، جے آئی ٹی کی طرف سے لکھے گئے ایم ایل ایز عدالت پیش نہیں کیے گئے،  جے آئی ٹی کی طرف سے لکھے گئے ایم ایل ایزکی بنیاد پرفیصلہ نہ دیا جائے۔

جے آئی ٹی ممبران پر اعتراض؛

سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی، آئین کا آرٹیکل 10 مجھے شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے سے میرا فیئر ٹرائل کا حق متاثرہوا، مجھے جے آئی ٹی کے ممبران پر اعتراض تھا۔ یہ اعتراض پہلے بھی ریکارڈ کرایا۔ جے آئی ٹی کے ایک رکن بلال رسول میاں محمد اظہر کے بھانجے ہیں، میاں اظہر سابق گورنر پنجاب رہ چکے ہیں اور اب پی ٹی آئی سے منسلک ہیں، میاں اظہر کے بیٹے حماد اظہر کی عمران خان کے ساتھ بنی گالہ میں ملاقات کی تصویریں سامنے آچکی۔ بلال رسول خود بھی (ن) لیگ کے کھلے مخالف اور پی ٹی آئی کے سپورٹر ہیں، بلال رسول کی اہلیہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی فعال ممبر تھیں۔

نواز شریف نے جے آئی ٹی کے دوسرے رکن عامر عزیز پر اپنا اعتراض دہراتے ہوئے کہا کہ عامر عزیز 2000 میں میرے خاندان کے خلاف ریفرنسز میں تفتیشی تھے، عامر عزیز نے پرویز مشرف کے دورمیں حدیبیہ پیپرملز کیس کی تحقیقات کیں۔ عرفان منگی کو بھی جے آئی ٹی میں شامل کر دیا گیا  حالانکہ ان کی تعیناتی کا کیس سپریم کورٹ میں ابھی تک زیر التوا ہے۔

جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا سے متعلق نوازشریف نے کہا کہ تحقیقات میں واجد ضیا کی جانبداری عیاں ہے ، واجد ضیاء نے اپنے کزن کے ذریعے تحقیقات کرائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی میں شامل آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر نعمان اور ایم آئی کے بریگیڈئیر کامران بھی شامل تھے، ایم آئی اور آئی ایس آئی افسران کا جے آئی ٹی کا حصہ بننا غیر مناسب تھا، سول ملٹری تناؤ پاکستان کی تاریخ کے 70 سال کے زائد عرصے پر محیط ہے، پرویز مشرف کی مجھ سے رقابت 1999سے بھی پہلے کی ہے، پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے بعد تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہوا، موجودہ سول ملٹری تعلقات میں تناؤ کے اثرات جے آئی ٹی رپورٹ پر پڑے۔

جے آئی ٹی پر اعتراض؛

 

نواز شریف نے کہا کہ جے آئی ٹی کی 10 والیم پر مشتمل خود ساختہ رپورٹ غیر متعلقہ تھی، جے آئی ٹی رپورٹ سپریم کورٹ میں دائر درخواستیں نمٹانے کے لئے تھی، ان درخواستوں کو بطور شواہد پیش نہیں کیا جا سکتا، جے آئی ٹی تفتیشی رپورٹ ہے جو ناقابل قبول شہادت ہے، سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی طرف سے اکٹھے کیے گئے شواہد کی روشنی میں ریفرنس دائر کرنے کا کہا، سپریم کورٹ نے یہ نہیں کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کو بطور شواہد ریفرنس کا حصہ بنایا جائے۔

نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ جے آئی ٹی نے شاید مختلف محکموں سے مخصوص دستاویزات اکٹھی کیں لہذا جے آئی ٹی کی تفتیش یکطرفہ تھی، اختیارات سے متعلق نوٹیفکیشن جے آئی ٹی کی درخواست پر جاری کیا گیا جب کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی معاونت کے لئے بنائی گئی، اس ریفرنس کے لیے نہیں جب کہ واجد ضیا بھی جانبدار تھے، واجد ضیاء نے اپنے کزن کو سولیسٹر مقرر کیا، اختر راجہ نے جھوٹی دستاویزات تیار کیں۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ جے آئی ٹی نے برطانیہ اور سعودی عرب کو جو ایم ایل اے بھجوائے وہ عدالت میں پیش نہیں کیے گئے، جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کے حکم پر بیان ریکارڈ کیے، جے آئی ٹی کے بیانات اس ٹرائل کے لئے غیر متعلقہ ہیں، ان بیانات کا مقصد سپریم کورٹ کی معاونت کرنا تھا، جے آئی ٹی نے جن لوگوں کے بیان ریکارڈ کیے وہ اس کیس میں گواہ نہیں، جے آئی ٹی کی طرف سے اخذ کیا گیا نتیجہ رائے پر مبنی تھا جو قابل قبول شہادت نہیں۔

حدیبیہ پیپرز ملز سے متعلق بیان؛

نواز شریف نے کہا کہ طارق شفیع کے بیان حلفی سے ظاہر ہوتا ہے کہ گلف اسٹیل قرض کی رقم سے بنائی گئی، گلف اسٹیل کے 25 فیصد حصص کی فروخت کے معاہدے سے متعلق ایم ایل اے پیش نہیں کیا گیا جب کہ معاہدے پر شہباز شریف اور طارق شفیع کی طرف سے دستخطوں سے انکار سے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا، طارق شفیع اور شہباز شریف نے میری موجودگی میں دستخطوں سے انکار نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ 12 اکتوبر 1999 کو مجھے حراست میں لے لیا گیا اور سعودی عرب بھجوادیا گیا، میرے علم میں ہے کہ میرے والد نے حسین اور مریم نواز کو حدیبیہ پیپر ملز کا ڈائریکٹر جب کہ حسن نواز کو حدیبیہ پیپر ملز کا شیئر ہولڈر نامزد کیا تھا۔

The post ایم آئی، آئی ایس آئی کا جے آئی ٹی کا حصہ بننا نامناسب تھا، نوازشریف کا احتساب عدالت میں بیان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ICZjMs
via IFTTT