اتوار، 27 مئی، 2018

عمران خان نے کہا، ’’مجھے اقتدار مکمل اختیارات کے ساتھ چاہیے‘‘ ضیاء مغل

0 comments
ملک کے سیاسی حلقوں کے لیے عمران اسماعیل کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ 2015ء کو متحدہ قومی موومنٹ کے گڑھ سمجھے والے حلقے این اے 246میں تحریک انصاف کی جانب سے کھڑنے ہونے والے امیدوار عمران اسماعیل اُن دنوں شہہ سُرخیوں میں رہے۔
اٹلی سے لیدر ٹیکنالوجی میں اعلٰی تعلیم حاصل کرنے والے عمران اسماعیل کا تعلق ایک صنعت کار گھرانے سے ہے۔ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل اور چیئرمین عمران خان کے میڈیا ایڈوائزر ہیں۔ آئندہ آنے والے انتخابات اور سندھ میں پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی لائحہ عمل جاننے کے لیے ان سے ایک ملاقات کا اہتمام کیا گیا، جس میں ہونے والی قارئین کی نذر ہے۔
ضیاٰٰء مغل : آپ نے اٹلی سے لیدر ٹیکنالوجی میں اعلٰی تعلیم حاصل کی، اچھا خاصا کاروبار ہونے کے باوجود سیاست کے خار دار راستے پر کیوں قدم رکھا؟
عمران اسماعیل: کاروبار تو زندگی کے لیے ضروری ہوتا ہے، لیکن ایسا کاروبار جس میں پھنس کر آپ ساری زندگی صرف پیسے بناتے رہیں تو یہ کام تو ہر کوئی کر رہا ہے۔ انسان بھی ایک سماجی جانور ہے لیکن اللہ نے انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ہے کہ وہ اپنی ذات سے نکل کر دوسروں کی فلاح کے لیے بھی کام کر سکے۔
میرا ہمیشہ سے یہی یقین تھا کہ ایسا کام کیا جاسکے جس سے پاکستان کو مثبت پہلو سامنے آسکے۔ آج ہماری نئی نسل تعلیم حاصل کرنے کے بعد یورپ، امریکا کا رخ کر رہی ہے، کیوں کہ یہاں ان کے لیے روزگار کے آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ہیں۔ میرا تعلق ایک صنعت کار گھرانے سے ہے۔ میں اللہ کے کرم سے بہت خوش حال زندگی گزار رہا تھا، اس کے باوجود میں نے عمران خان کے جذبے کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کے لیے اس پُرخار میدان میں قدم رکھا، میں نے سوچا کہ مجھے بھی اس ملک کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے اور مجھے یقین ہے کہ پاکستان کو تبدیل کرنے کے جس منزل کے لیے اپنا سیاسی سفر شروع کیا تھا، بائیس سال کی جدوجہد کے بعد ہم اس کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
ضیاٰٰء مغل : عملی سیاست اور عوامی جدوجہد کا یہ سفر کیسا رہا؟ سیاست میں آنے پر گھر والوں کی مخالفت یا حمایت کس حد تک رہی؟
عمران اسماعیل : میں1992ء سے خان صاحب کے ساتھ ہوں، شوکت خانم اسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ کی، خان صاحب نے تازہ تازہ ورلڈ کپ جیتا تھا، اُس وقت تک میرا سیاست کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ 1996ء میں جب خان صاحب نے پاکستان تحریک انصاف بنانے کا فیصلہ کیا تو میں نے اس فیصلے کی تائید کی اور مجھے فخر ہے کہ میں پی ٹی آئی بنانے والے چار اولین لوگوں میں سے ایک ہوں۔ گھر والوں نے میرے اس فیصلے کی بھرپور تائید کی کیوں کہ شوکت خانم اسپتال کے حوالے سے خان صاحب کا میرے گھر آنا جانا تھا، سب انہیں اچھی طرح جانتے تھے۔ والد صاحب نے بھی مجھے قومی دھارے کی سیاست میں جانے سے نہیں روکا بلکہ حوصلہ افزائی کی۔
ضیاٰٰء مغل : کاروباری اور سیاسی مصروفیات کے باوجود اہلیہ اور بچوں کے لیے وقت کس طرح نکالتے ہیں؟ یا گھر والوں نے اس پر سمجھوتا کرلیا ہے؟
عمران اسماعیل : تمام تر مصروفیات کے باوجود میری کوشش ہوتی ہے کہ چھٹی کے دن کوئی کام نہ رکھوں، کوئی ٹی وی شو نہ رکھوں، سیاسی سرگرمی نہ ہوں، اس کے باجود گھر والوں کے لیے وقت نکالنا مشکل ہوجاتا ہے، لیکن ان کو بھی اس بات کی عادت ہوگئی ہے۔
ضیاٰٰء مغل  : آپ نے اس وقت پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی جب وہ قومی دھارے میں ایک نئی جماعت تھی، کیا بات تھی جس نے آپ کو اس جماعت سے وابستہ ہونے پر آمادہ کیا؟
عمران اسماعیل: دیکھیں میں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار نہیں کی بل کہ میں پی ٹی آئی کے بانی ارکان میں سے ایک ہوں۔ میں نے ایک مشکل راستے کا انتخاب کیا ، میرے اپنے دوست بھی یہ بات کہتے ہیں۔ کچھ ایم کیو ایم کے دوستوں نے بھی مجھے مختلف آفرز کیں، لیکن میرے ذہن میں بس ایک چیز تھی کہ مجھے اس شخص کے پیچھے چلنا ہے جو کرپٹ نہ ہو، اپنی ذات سے بڑھ کر سوچے۔ میں نے عمران خان کو وہ شخص پایا ہے جو وہ اپنے نفع نقصان کا سوچے بنا عوام کے مفاد کے لیے کام کرتا ہے۔
انہوں نے ایسے کئی فیصلے کیے جس سے ہمیں لگا کہ خان صاحب کو سیاسی طور پر نقصان ہوگا، لیکن وہ نفع نقصان کی فکر کیے بنا نڈر ہوکر ایسے فیصلے کرتے ہیں۔ خان صاحب کی ایک سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس شخص کو پیسے کی ہوس نہیں ہے۔ تو ایسے شخص کے ساتھ چلنے میں، اس کے لیے جان مال، اپنا وقت قربان کرنے میں مزا آتا ہے، جو بے لوث ہو، جسے ملک و قوم کا خیال اپنے ذاتی مفاد سے زیادہ ہو۔ یہ خصوصیت مجھے اب تک صرف عمران خان میں نظر آئی ہے۔ آپ نوازشریف کو دیکھ لیں، ان کے ذاتی مفاد پر آنچ آئی تو انہیں قومی سلامتی کے ادارے بُرے لگنے لگے، پاک آرمی بُری لگنے لگی، عدلیہ بُری لگتی ہے، نیب کا ادارہ انہیں بُرا لگتا ہے۔ وہ اپنی ذات تک محدود ہیں۔
یہ شخص (عمران خان ) اپنی ذات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دن رات قوم کے لیے کام کرتا ہے۔ ہم نے نئے پاکستان کا خواب دیکھا ہے، یہ شخص اسے تکمیل تک لے جانا جانتا ہے، مجھے یقین ہے کہ اگر ایک بار اللہ نے عمران خان کو اقتدار دیا تو وہ پاکستان کو کرپشن سے پاک اور ترقی کی راہ پر گام زن کردے گا۔ 1997ء کے عام انتخابات میں نوازشریف نے ہمیں (انتخابی 36 نشستیں دینے کی پیش کش کی، خان صاحب نے اپنے قابل اعتماد ساتھیوں سے مشورہ کیا تو زیادہ تر کا مشورہ یہی تھا کہ ہمیں یہ پیش کش قبول کر لینی چاہیے، کیوں کہ اس سے ہمیں اقتدار میں آنے کا موقع ملے گا۔ لیکن خان صاحب کا کہنا یہی تھا کہ مجھے پھر ان کی مرضی پر چلنا ہوگا، مجھے اقتدار مکمل اختیارات کے ساتھ چاہیے۔ آج بھی لوگ کہتے ہیں کہ خان صاحب اگر یہ پیش کش قبول کرلیتے تو اب تک دو تین بار اقتدار میں آچکے ہوتے۔ عمران خان کو اللہ نے کیا نہیں دیا؟ عزت دولت شہرت، تو انہیں وزارت عظمی میں آکر ایسی کیا چیز مل جائے گی جو ابھی ان کے پاس نہیں ہے، لیکن وہ انہوں نے سب کچھ جانتے بوجھتے پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے سیاست میں قدم رکھا۔
ضیاٰٰء مغل : کیا سیاست میں آنے کے لیے آپ کے پاس پی ٹی آئی کی شکل میں ایک ہی آپشن تھا، کبھی کسی اور جماعت نے شمولیت کی دعوت دی؟
عمران اسماعیل: نوجوانی کے دور میں ہم لوگ کوکن گرائونڈ، ہل پارک گرائونڈ اور ناظم آباد میں کرکٹ کھیلتے تھے، وہاں اکثر ایک ولیز جیپ آتی تھی، جس میں الطاف حسین، ڈاکٹر عمران فاروق، عظیم احمد طارق، آفاق احمد اور دو چار دوسرے لوگ ہمارا میچ ختم ہونے کا انتظار کرتے ، جس کے بعد وہ ہمیں بتاتے کہ جی مہاجروں کے ساتھ زیادتی، ناانصافی ہو رہی ہے۔ اُردو اسپیکنگ ہونے کی وجہ سے ہمیں ان کے باتیں درست بھی لگتی تھیں،کیوں کہ اس وقت مہاجروں کے ساتھ زیادتی ہو تو رہی تھی، کالج یونیورسٹی جاتے ہوئے بس کنڈیکٹر بد معاشی کرتے تھے۔ رکشہ ٹیکسی والے بدمعاشی کرتے تھے۔
پولیس بد معاشی کرتی تھی، تو ہمیں ان کی باتوں میں ان مسائل کا حل تو نظر آتا تھا لیکن پتا نہیں کیوں میرا دل کبھی الطاف حسین کی باتوں پر مطمئن نہیں ہوا، اس کی بات پر یقین نہیں ہوا کبھی کہ جی یہ بندہ واقعی مخلص ہے۔ اگر پی ٹی آئی وجود میں نہ آتی تو میں سیاست میں بھی نہیں آتا، میرا ارادہ اپنے کاروبار کو بڑھانے کا تھا۔ آپ کو ایک بات اور بتائوں کے سیاسی اور نظریاتی اختلافات اپنی جگہ لیکن میرے زیادہ تر دوستوں کا تعلق بھی ایم کیو ایم سے ہی ہے۔ رضاہارون ، فیصل سبزواری، خواجہ اظہارالحسن اور حیدر عباس رضوی سے میری بڑی اچھی دوستی ہے، لیکن خوشی، غمی دوستی یاری میں ہم نے کبھی اپنی سیاست کو نہیں آنے دیا۔ اس بات پر میری اپنی پارٹی کے اندر ہی مجھ پر بہت تنقید ہوئی۔
میری تو پاکستان پیپلزپارٹی والوں سے بھی بہت دوستیاں ہیں، مسلم لیگ ن واحد جماعت ہے جس میں میری کسی سے کوئی دوستی نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے کوئی اس قابل نہیں کہ اس سے دوستی کی جاسکے، پارٹی کو ایک طرف رکھ دیں تب بھی میں ان سے بات بھی نہیں کرنا چاہتا۔ میری سمجھ میں تو یہ بات نہیں آتی کہ آخر یہ لوگ ٹی وی پر آکر اتنی گندی زبان کیسے استعمال کر لیتے ہیں؟ میں ان سب باتوں کا بہت خیال کرتا ہوں، اگر ٹی وی پر میری کسی سے لڑائی بھی ہوجائے تو میری بیٹی، بیٹا مجھ سے ناراض ہوتے ہیں کہ بابا آپ کیوں اتنا غصہ کر رہے ہیں، مجھے تو غصہ کرنے میں بھی ہچکچاہٹ ہوتی ہے۔ یہ لوگ پتا نہیں کس طرح واہیات باتیں کرلیتے ہیں یا پھر انہیں اس بات کی پروا ہی نہیں ہے کہ ان کے گھر والے کیا سوچیں گے، ان کے لیے سب کچھ صرف نوازشریف ہے۔
ضیاٰٰء مغل : پاکستان تحریک انصاف موروثی سیاست کے خاتمے کی بات کرتی ہے لیکن این اے 154 کے ضمنی الیکشن میں جہانگیر ترین کے سیاست میں نو وارد بیٹے علی خان ترین کو ٹکٹ دے دیا گیا،کیا پی ٹی آئی کے پاس کوئی دوسرا موزوں امیدوار نہیں تھا ؟
عمران اسماعیل: سب سے پہلے تو آپ کو یہ بات واضح کرنی ہوگی کہ موروثی سیاست کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر نے قیادت سنبھالی، اس کے بعد آصف زرداری اور اب قیادت بلاول بھٹو کے ہاتھ میں ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ ن میں دیکھ لیں کہ نوازشریف مریم نواز کو سامنے لے آئے ہیں، اسی طرح ان کی جماعتوں کی قیادت ان کے بچوں کے پاس ہی آئے گی۔ انہیں آپ دور جدید کے شہنشاہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو کی تاج پوشی سولہ برس کی عمر میں ہوئی اور جنہوں نے انہیں گود میں کھلایا وہ آج بھی بلاول کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔
یہ لوگ کبھی پارٹی چیئرمین بننے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اسی طرح مریم نواز کے سامنے سارے ن لیگی راہ نما غلاموں کی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ میں تمام تر اختلافات کے باوجود چوہدری نثار کی اس بات کی تعریف کرتا ہوں، کہ انہوں نے اپنے سامنے کی بچی کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کردیا اور ہر باغیرت آدمی کو یہی کرنا چاہیے۔ اگر عمران خان اپنے بیٹوں کو پارٹی چیئر مین بنادیں تو میں ان کی ماتحتی میں کام نہیں کروں گا، ہاں اگر کوئی اپنی محنت کی بنیاد پر آگے آتا ہے تو مجھے اس کوئی اعتراض نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی، اسد عمر یا جہانگیر ترین میرے بہت بعد میں تحریک انصاف میں آئے لیکن آج اگر یہ پارٹی عہدے میں مجھ سے آگے ہیں تو مجھے اس پر کوئی تکلیف نہیں ہے کیوں کہ انہوں نے یہ مقام خود اپنی محنت سے حاصل کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف میں ایسا ہرگز نہیں ہے عمران خان نے اپنے خاندان کے کسی ایک فرد کو بھی پارٹی میں نہیں آنے دیا۔ وہ تو اسے شوکت خانم اسپتال کی طرح ایک انسٹی ٹیوشن بنانا چاہتے ہیں۔ اب شوکت خانم اسپتال کو عمران خان کی ضرورت نہیں ہے، اب وہ ایک خود مختار ادارہ بن گیا ہے۔ اسی طرح وہ پارٹی کو اس طرز پر لانا چاہتے ہیں جس میں ہر کسی کو اپنی قابلیت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا موقع ملے۔ جہاں تک این اے 154 کے ضمنی الیکشن کی بات ہے تو اس حلقے میں ہمارے پاس اعلٰی ترین سے زیادہ موزوں امیدوار کوئی تھا ہی نہیں۔ اور اگر ہوتا تو یقیناً علی ترین کی جگہ وہ انتخابات لڑتا۔
ضیاٰٰء مغل : عمران خان نے تبدیلی کے نعرے کے ساتھ قومی سیاست کا آغاز کیا، لیکن دیکھا جائے تو تبدیلی تو آپ کی صفوں میں بھی نظر نہیں آتی ، کیوں کہ ہر جماعت سے نکالا ہوا اور عوام کا آزمایا ہوا سیاست داں پی ٹی آئی میں نظر آتا ہے، اس بارے میں کیا کہیں گے۔

عمران اسماعیل: بہت سے سیاست داں اپنی جماعت چھوڑ کر ہمارے پاس آرہے ہیں، کچھ لوگ نظریات سے متاثر ہو کر آرہے ہیں، بہت سے لوگ اس لیے آرہے ہیں کہ انہیں پی ٹی آئی اقتدار میں آتی نظر آرہی ہے۔ جو لوگ پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں ان میں اچھے بُرے ہر طرح کے لوگ ہوں گے۔ اگر ٹاپ پوزیشن پر  بیٹھا بندہ چوری نہیں کرتا، کرپشن نہیں کرتا تو اس کے ماتحت عملے میں بھی کرپشن نہیں ہوگی، ہم نے کے پی کے میں سو فی صد نہیں تو اسی نوے فی صد تو تعلیم، پولیس اور صحت کے نظام میں بہتری کی ہے۔ جب عمران خان وزیراعظم کی نشست پر بیٹھے گا تو یہ لوگ کرپشن نہیں کر پائیں گے، بات ساری صرف نظام کی ہے یورپ ، امریکا میں سارے سیاست داں شریف نہیں ہوں گے لیکن ان کا سسٹم اتنا سخت ہے کہ وہ انہیں کرپشن ، لوٹ مار کا موقع ہی نہیں دیتا۔ جب خان صاحب کے بنائے ہوئے سسٹم پر عمل ہوگا تو کوئی ایک روپے کی کرپشن نہیں کر سکے گا۔ جو ایمان دار ہوگا وہی ہمارے ساتھ چل سکے گا۔
ضیاٰٰء مغل  : لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ہے کہ پی ٹی آئی اگر انہی آزمائے ہوئے سیاست دانوں کو اگلے الیکشن میں ٹکٹ دیتی ہے تو اس سے تبدیلی کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟
عمران اسماعیل: مجھے پتا ہو کہ پی ٹی آئی سندھ کا وزیر اعلٰی کرپٹ ہے، پیسے کھاتا ہے تب تو آپ مجھے رشوت کی پیش کش کریں گے اور میں رشوت لوں گا بھی، کیوں کہ مجھے پتا ہے کہ میرے اوپر بیٹھا شخص رشوت کھا رہا ہے، لیکن جب مجھے پتا ہوگا کہ میرا وزیراعلیٰ کرپٹ نہیں ہے اور میں اس کے پاس رشوت کی پیش کش لے کر گیا تو وہ مجھے بھی جیل میں ڈالے گا اور دوسروں کو بھی تو میں چاہتے ہوئے بھی غلط کام نہیں کرسکوں گا۔ پی ٹی آئی میں کرپشن کی کوئی گنجائش نہیں ہے چاہے وہ عمران خان ہی کیوں نہ ہوں۔
اس کی سب سے بڑی زندہ مثال تو یہی ہے کہ ہم نے سینیٹ الیکشن میں پیسے لینے والے بیس ایم پی ایز کو ایک منٹ میں نکال باہر کیا، پارٹی میں اس بات کی زیادہ تر لوگوں نے مخالفت کی ، ان کا کہنا تھا کہ خان صاحب ہم نے بیس ایم پی ایز نکال دیے تو اسمبلی میں ہماری طاقت کم ہوجائے گی، یہ سیاسی خودکشی ہے، جس پر خان صاحب نے کہا کہ حکومت جاتی ہے تو جائے لیکن ہم کرپشن کا ساتھ نہیں دیں گے۔ جس دن سینیٹ الیکشن ہوئے اسی دن خان صاحب کراچی آئے ، میں گاڑی چلا رہا تھا خان صاحب نے گاڑی میں بیٹھتے ہی کہا کہ ہماری پارٹی کے سترہ لوگ بکے ہیں، میں نے پریشان ہوکر پیچھے مڑ کر دیکھا کہ گاڑی میں کون کون بیٹھا ہے جس نے یہ بات سنی، مڑ کر دیکھا تو پچھلی نشست پر عارف علوی، شاہ محمود قریشی اور علی زیدی بیٹھے ہوئے تھے، میں دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ چلو کوئی ایسا نہیں ہے جس سے یہ بات باہر جائے گی۔ میں نے خان صاحب سے کہا کہ آپ کھلے عام یہ بات نہ کریں میڈیا کو بھنک پڑگئی تو مسئلہ ہوجائے گا، ہم پہلے اس مسئلے کی انٹرنل انکوائری کرتے ہیں۔
جب ہم ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو خان صاحب نے میڈیا سے بات کرنے کے لیے گاڑی رکوائی، میں خان صاحب کے ساتھ ہی تھا، انہوں نے میڈیا سے گفت گو میں کہا،’’سینیٹ کے انتخابات میں اربوں روپے چلے ہیں اور ہماری پارٹی کے بھی سترہ سے بیس لوگ بکے ہیں، جن کی میں فہرست بنا رہا ہوں۔‘‘ میں خان صاحب کی شکل دیکھتا رہ گیا، گاڑی میں بیٹھتے ہی خان صاحب نے ہنستے ہوئے مجھے دیکھا اور کہا، اب ٹھیک ہے؟ اب تو بات باہر نہیں جائے گی؟
پارٹی اجلاس میں جب اس مسئلے پر بات ہوئی تو خان صاحب نے کہا کہ میرے پاس اس بات کے شواہد ہیں اور میں تین دن سے سویا نہیں ہوں کہ میری جماعت میں کرپٹ لوگ بیٹھے ہیں، اور میں صرف اس لیے انہیں نہ نکالوں کہ ہماری حکومت کم زور ہوجائے گی تو یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ اور اگلے دن ہی انہوں نے پریس کانفرنس میں ان ارکان اسمبلی کو پارٹی سے باہر نکال دیا۔ یہی سب اقتدار میں آنے کے بعد بھی ہوگا، اور اگر کوئی یہ سوچ کر آرہا ہے کہ وہ اس جماعت کے اقتدار میں آنے کے بعد پیسے بنالے گا تو میں اس کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں کہ بھائی جان بھاگ جائو، یہ وہ جماعت نہیں ہے، کیوں کہ یہ جو شخص جس کا نام عمران خان ہے یہ ایک پیسے کی کرپشن نہیں کرنے دے گا۔ یہ خود اپنا احتساب بھی کرتے ہیں، اور ہر سیاسی سرگرمی کے بعد ہم اس کا تجزیہ بھی کرتے ہیں کہ ہماری خامی کیا تھی، طاقت کیا تھی، اور آپ یقین نہیں کریں گے کہ کور کمیٹی کے اجلاس میںہم خان صاحب کے فیصلوں کو بلاجھجک چیلینج بھی کرتے ہیں۔ دیگر جماعتوں کے برعکس ہماری جماعت میں زیادہ جمہوریت ہے۔
ضیاٰٰء مغل  : معراج محمد خان اور جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین صدیقی جیسے ایمان دار لوگ پی ٹی آئی میں وہ مقام کیوں حاصل نہیں کرسکے جس کے وہ حق دار تھے؟
عمران اسماعیل: معراج محمد خان صاحب اور جسٹس وجیہہ کی ایمان داری، اور بے داغ سیاسی کیریئر پر کوئی شک نہیں کیا جاسکتا۔ معراج محمد خان صاحب ہماری جماعت کے جنرل سیکریٹری رہے۔ وہ ایک سوشلسٹ ذہن کے آدمی تھے اور اپنے ان نظریات کو پی ٹی آئی کی پالیسی میں لانا چارہے تھے، لیکن سوشل ازم ہماری پالیسی میں کہیں فٹ نہیں ہو رہا تھا۔ اس سے وہ تھوڑا بد دل ہوئے ورنہ انہیں خان صاحب اور پارٹی پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ جسٹس وجہیہ الدین صدیقی بہت قابل قدر آدمی ہیں، پارٹی نے انہیں بہت عزت دی ، لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ انہوں نے یک طرفہ فیصلہ کرتے ہوئے پوری پارٹی کو فارغ کردیا۔ ہم نے انہیں مصالحت کار بنایا تھا۔ انہوں نے عمران خان اور کسی دوسرے راہ نما سے مشورہ کیے بنا ایسا فیصلہ دیا ۔
جس سے پارٹی کے وجود کو بچانا مشکل ہوگیا تھا، لیکن ہم نے پھر بھی ان کے فیصلے کو مانتے ہوئے اپنی جماعت ڈس مینٹل کردی، کور کمیٹی توڑ دی، سارے عہدے ختم کردیے۔ لیکن پارٹی تو چلانی تھی اس کے لیے ہم نے ایک ایڈہاک باڈی بنائی کہ جب تک پارٹی کے اندرونی انتخابات نہیں ہوتے تب تک یہ ایڈہاک باڈی پارٹی کے معاملات دیکھے گی ۔ لیکن جسٹس صاحب نے پہلے اس باڈی سے استعفی دیا، پھر اپنے پارٹی عہدے سے بھی مستعفی بھی ہوگئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کا فیصلہ ذرا زیادہ سخت اور متعصبانہ تھا۔ وہ خود ناراض ہوکر گئے ہمارے دروازے ان کے لیے ہمیشہ کھلے ہیں یہ جسٹس وجیہہ صاحب کی پارٹی ہے وہ جب چاہیں آئیں۔ خان صاحب نے ان کے تحفظات دور کرنے کی بھی بہت کوشش کی لیکن وہ مانے ہی نہیں۔
ضیاٰٰء مغل  : کہا جاتا ہے کہ چند مخصوص افراد نے پی ٹی آئی کو یرغمال بنا رکھا ہے اور خان صاحب ان کے مشوروں کے مطابق سیاست کررہے ہیں، کیا ایسا ہی ہے؟
عمران اسماعیل : جی! اور ان مخصوص افراد کی فہرست میں مجھے بھی شامل کیا جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ایک ہی گھر میں باپ کو بھی چار بیٹوں میں سے کسی ایک پر زیادہ بھروسا ہوتا ہے ، وہ اس کے مشوروں کو زیادہ وزن دیتا ہے۔ تو ایسا ہی کچھ معاملہ یہاں ہے، خاں صاحب کو بھی دوسروں کی بہ نسبت اپنے چار پانچ قریبی لوگوں پر زیادہ بھروسا ہے۔ اس میں اسد عمر ہیں، شاہ محمود قریشی، عامر کیانی، جہانگیر ترین ہیں اور وہ ان کے مشوروں کو زیادہ وزن دیتے ہیں۔
ضیاٰٰء مغل : سینیٹ انتخابات میں آپ کے اور پاک سرزمین پارٹی کے مابین رابطوں کے بعد آپ ان کی حمایت حاصل کرنے میں کام یاب رہے۔ کیا اس بار عام انتخابات میں اس جماعت سے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے؟
عمران اسماعیل : ہمارے دروازے ماسوائے مسلم لیگ ن سب جماعتوں کے لیے کُھلے ہیں۔ ہم آئندہ انتخابات میں پاک سرزمین پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر سکتے ہیں، لیکن یہ بات واضح کردوں کہ پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان بلے کے ساتھ الیکشن لڑے گی، ہم اتحاد نہیں صرف ایڈجسٹمنٹ کرسکتے ہیں۔
ضیاٰٰء مغل  : آپ سمجھتے ہیں کہ اگر بلاول تنظیم کو مکمل طور پر اختیار کے ساتھ چلائیں تو وہ اپنے نانا اور بانی پی پی پی ذوالفقار علی بھٹو کے عوامی خدمت کے مشن کو پورا کرسکتے ہیں یا پی پی پی اب کبھی عوامی جماعت نہیں بن سکتی؟
عمران اسماعیل : دیکھیں یہ بات تو آپ کنفرم کرلیں کہ اب پاکستان پیپلز پارٹی کا نظریہ وہ نہیں رہا جو ذوالفقار علی بھٹو کا تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ اب کبھی عوامی جماعت بن سکے گی۔ اب قوم بھٹو کا قرض اتار اتار کر تھک گئی ہے۔ پہلے لوگوں کے پاس کوئی متبادل نہیں تھا، اب لوگوں کے پاس پی ٹی آئی کی شکل میں ایک بہتر متبادل ہے۔
ضیاٰٰء مغل : اندرون سندھ کئی اہم شخصیات آپ کی پارٹی کا حصہ بنی ہیں اور چند اہم اور بڑے جلسے بھی منعقد کیے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سندھ پر برسوں سے راج کرنے والی پی پی پی کو اس بار الیکشن میں آپ کی وجہ سے سخت مقابلہ کرنا پڑے گا؟
عمران اسماعیل: انتخابات 2018 میں ہم پاکستان پیپلز پارٹی کو سرپرائز دیں گے، اور اگلے ایک ہفتے میں پی پی پی کے بڑے بڑے نام، جن پر یہ جماعت بڑی اچھل کود کرتی ہے ان کی پی ٹی آئی میں شمولیت ہوگی۔ ہماری اُن سے روزانہ کی بنیاد پر میٹنگز ہورہی ہیں۔ ذوالفقار مرزا کی پوری فیملی ہمارے رابطے میں ہے، ہم نے انہیں پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دی ہے اب فیصلہ انہیں کرنا ہے۔
ضیاٰٰء مغل : سندھ میں ملک کے دیگر حصوں کی نسبت پی ٹی آئی کو زیادہ مقبولیت کیوں حاصل نہیں ہوسکی؟ کہا جاتا ہے کہ اس کی ایک وجہ سندھ کے مختلف اضلاع میں پارٹی اختلافات ہیں اور دوسرا یہ کہ آپ کی قیادت نے سندھ میں پارٹی سرگرمیوں کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں رکھا؟
عمران اسماعیل: گذشتہ انتخابات میں ہم نے کراچی میں تو ایم کیو ایم کو لپیٹ دیا تھا، ہاں اندرون سندھ ہمارے پاس امیدواروں کی کمی تھی، ہم اتنی محنت نہیں کرسکے جتنی ہمیں کرنی چاہیے تھی۔ شاید ہم لوگوں کو کنوینس کرنے میں ناکام رہے۔ جہاں تک بات ہے اندرونی اختلافات کی تو وہ ہر جمہوری جماعت میں ہوتے ہیں۔ اس کے دو ہی طریقے ہیں کہ یا تو الطاف حسین کی طرح اختلاف کرنے والے کو اوپر بھیج دیا جائے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مہذب انسانوں کی طرح معاملات کو حل کیا جائے۔
ضیاٰٰء مغل  : کیا آپ کو لگتا ہے کہ حکومتِ سندھ کی کارکردگی سے ناخوش اندرون سندھ کے عوام اس بار تبدیلی کا ساتھ دیں گے؟
عمران اسماعیل : سندھ کے عوام پی پی پی سے متنفر ہیں، ڈائن بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے لیکن انہوں نے اپنے ہی علاقے لاڑکانہ کو نہیں چھوڑا، اربوں روپے کھا گئے، نہ تعلیم کا نظام بہتر کیا، نہ پانی فراہم کیا، آج بھی سندھ کے بیشتر شہروں میں سیوریج اور نکاسی آب کا باقاعدہ نظام موجود نہیں ہیں اور ہمیں امید ہے کہ اندرون سندھ کے عوام اس بار تبدیلی کا ساتھ دیں گے۔
ضیاٰٰء مغل  : آپ کی جماعت کو سندھ خصوصاً کراچی میں بہت سی حریف جماعتوں کا سامنا ہے، لیکن آپ اور آپ کی اعلٰی قیادت زیادہ تر صرف ایم کیو ایم کو ہی تنقید کا نشانہ بناتی ہے، اس کی وجہ؟
عمران اسماعیل : کراچی میں الطاف حسین کی ایم کیو ایم نے پچھلے تیس سال حکومت کی اور ان تیس سالوں میں انہوں کراچی کو لاشوں، بھتا خوری، چوری چکاری، اغوا اور دہشت کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ مہاجروں کے نام پر سیاست کی اور مہاجروں کو ہی سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ کوٹا سسٹم جس کی بنیاد پر ایم کیو ایم بنائی وہ تک ختم نہیں کرا سکے۔ آج تک اس مسئلے پر اسمبلی میں بات نہیں کی۔ تو جس جماعت نے کراچی پر تین دہائی تک حکومت کی، کراچی پر سیاسی قبضہ کیا، کراچی کو تباہ کیا تو پھر تنقید بھی تو اسی جماعت پر کی جائے گی۔
ضیاٰٰء مغل  : عمران خان نے کراچی کے لیے اپنے دس نکاتی ایجنڈے میں میئر کراچی کی تقرری کو سر فہرست رکھتے ہوئے کہا کہ ہم اقتدار میں آنے کے بعد میئر کراچی کے براہ راست انتخاب کا طریقہ لائیں گے اور انہیں درکار تمام وسائل اور اختیارات دیں گے، لیکن موجودہ میئر کراچی کے اختیارات کے حوالے سے آپ نے اسمبلی میں کوئی آواز نہیں اٹھائی؟
عمران اسماعیل : یہ تاثر بلکل غلط ہے کہ ہم نے میئر کراچی کے اختیارات کے لیے بات نہیں کی۔ خرم شیر زمان نے اس مسئلے پر اسمبلی میں قرارداد پیش کی۔ ہماری جماعت کے منتخب نمائندوں نے میئر کراچی کے ساتھ سڑکوں پر مظاہرہ کیا، کیوں کہ ہم نے بلدیاتی انتخابات سے پہلے یہ وعدہ کیا تھا کہ میئر کا تعلق چاہے کسی بھی جماعت سے ہو، ہم کراچی کے مسائل کے حل کے لیے اس کا ساتھ دیں گے، میئر کے اختیارات اور فنڈ دلانے کے ہر ممکن سپورٹ کریں گے، کیوں کہ وسائل اور اختیارات کے بغیر تو کوئی بھی شخص کچھ نہیں کرسکتا۔
ضیاٰٰء مغل  : کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو پی ٹی آئی میں لانے میں آپ نے اہم کردار ادا کیا۔ اس حوالے سے پارٹی صفوں میں مخالفت بھی کی گئی۔ کیا یہ درست ہے؟
عمران اسماعیل : جی یہ بات بالکل درست ہے، عامر لیاقت کی پی ٹی آئی میں شمولیت میں میں نے اہم کردار ادا کیا اور اس میں مجھے اپنی جماعت کے کچھ لوگوں کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا، لیکن پارٹی اجلاس میں باہمی مشاورت کے بعد ہی انہیں پارٹی میں لایا گیا۔
ضیاٰٰء مغل  : اگر آپ نے عامر لیاقت کو کسی نشست پر ٹکٹ دیا تو کیا آپ کو یہ لگتا ہے کہ کراچی میں اس نشست پر پی ٹی آئی کو یقینی کام یابی ملے گی؟
عمران اسماعیل : ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی مقبولیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لوگوں کی بڑی تعداد انہیں پسند کرتی ہے۔ اور اگر ڈاکٹرعامر انتخابات میں حصہ لینا چاہیں تو ہم انہیں ضرور ٹکٹ دیں گے۔ اب تو کراچی سب جماعتوں کے لیے کُھلا ہوا ہے۔ تیس برس بعد یہ پہلے الیکشن ہوں گے جس میں کراچی کے عوام کسی جبر، دہشت کے بغیر اپنی مرضی سے اپنے نمائندے منتخب کریں گے۔ ہماری خواہش تو یہی ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس حلقے سے انتخابات میں حصہ لیں جہاں کسی
زمانے میں متحدہ قومی موومنٹ کی اکثریت ہوتی تھی، اب یہ ان کی صوابدید پر ہے۔
ضیاٰٰء مغل  : نوازشریف کے حالیہ انٹرویو کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟
عمران اسماعیل: اس سارے معاملے کو ڈان لیکس کے تناظر میں دیکھیں تو سارا کھیل سمجھ میں آجائے گا، یہ کام سوچی سمجھی سازش کے تحت ہورہا ہے ۔ وہی اخبار، وہی رپورٹر اور وہی کہانی۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ جو زبان جو اسرائیل ، بھارت پاکستان کے لیے استعمال کرتا ہے وہی زبان نوازشریف بولتا ہے۔
یہ ایک بین الاقوامی اسکرپٹ ہے۔ نوازشریف کے حالیہ بیان نے کشمیر کی تحریک اور دنیا بھر میں پاکستان کے امیج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جب آپ (نواز شریف) اقوام متحدہ میں تقریر کرنے جاتے ہیں تو کلبھوشن کا ذکر کرنا بھول جاتے ہیں، لیکن دس سال پہلے ہونے والے ممبئی حملے یاد رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پاک آرمی دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑ رہی ہے، اور آپ دنیا بھر میں اس کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ آپ پاکستان کے ساتھ ہیں یا بھارت کے؟ نوازشریف کا یہ بیان پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں پر بین الاقوامی دبائو ڈلوانے اور امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ انہیں اچھی طرح پتا ہے کہ جیل ان کا مقدر ہے اور اب یہ کسی نہ کسی طرح سیاسی شہید ہونا چاہ رہے ہیں۔
ضیاٰٰء مغل  : پاکستان تحریک انصاف خود کو متوسط طبقے کی جماعت کہتی ہے ، لیکن آئندہ انتخابات میں قومی اسمبلی کے ٹکٹ کی قیمت ایک لاکھ اور صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ کی قیمت پچاس ہزار روپے رکھی گئی ہے، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس طرح آپ نے ٹکٹ کو عام آدمی کی پہنچ سے دور کردیا ہے؟ جب کہ کراچی میں آپ کی حریف جماعت متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) انتخابی ٹکٹ کے لیے کوئی مالی شرط عائد نہیں کرتی۔
عمران اسماعیل : نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے، کیوں کہ ہم ٹکٹ کی مد میں جو رقم لے رہے ہیں وہ اسی امیدوار کی انتخابی مہم پر ہی خرچ کی جائے گی۔ اور اس میں کوئی برائی نہیں ہے، کیوں کہ ایک ایسی جماعت جس کے وسائل محدود ہوں اس کے لیے سب سے بہتر طریقہ یہی ہے۔ ایم کیو ایم اپنے امیدواروں سے انتخابی ٹکٹ کی مد میں رقم اس لیے نہیں لیتی تھی کہ وہ بھتے، اغوا برائے تاوان سے حاصل ہونے ولی رقم یہاں خرچ کر دیتی تھی۔
ضیاٰٰء مغل : کن موضوعات پر کتابیں پڑھنا پسند ہیں۔ پسندیدہ شاعر؟ پسندیدہ ادیب؟
عمران اسماعیل : تاریخ ، سیاست اور شاعری کی کتابیں پڑھنا بہت پسند ہے، مرزا غالب، پروین شاکر، حبیب جالب، فیض احمد فیض اور احمد فراز بہت پسند ہیں۔
ضیاٰٰء مغل : گلوکار کون سا اچھا لگا؟ اداکار؟ اداکارہ؟ فلم جو پسند آئی؟
عمران اسماعیل : اگر وقت مل جائے تو فلمیں دیکھ لیتا ہوں، قوالی غزلیں، اور کلاسیکل موسیقی بہت پسند ہے۔ جگجیت سنگھ اور مہدی حسن پسندیدہ غزل گائیک ہیں۔ امجد صابری شہید کی قوالیاں مجھے بہت پسند تھیں۔ اور اکثر ایسا ہوتا تھا کہ امجد صابری کے ساتھ علی زیدی بھی قوالی گاتے تھے، علی زیدی بھی بہت اچھے قوالی گاتے ہیں۔
نہاری کھلانے کی سزا!
این اے 246 کی انتخابی مہم سے جُڑا ایک واقعہ
جب میں کراچی کے حلقے این اے 246 امیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہوا تو اس وقت وہاں بہت دہشت تھی۔ وہ الیکشن بہت ٹینشن میں گزرا۔ اس وقت جب لوگ الطاف حسین کا نام لینے سے ڈرتے تھے تو اس دور میں اس کے علاقے میں، محلے میں جا کر الیکشن لڑنا اسے چیلینج کرنے کے مترادف تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ یہاں سے جیتنا مشکل ہے ۔ اس وقت سارے ایم کیو ایم والے یہ سوچتے تھے کہ یا تو یہ آدمی پاگل ہے یا پھر اس کے پیچھے کوئی سازش ہے جو ہمارے گڑھ میں الیکشن لڑ رہا ہے۔ الطاف حسین کو تو ہر بات میں سازش کی بو آتی تھی۔
اس نے پورے کراچی اور حیدرآباد سے اپنے کارکنان کو بھر کر اس حلقے میں پہنچا دیا تھا، یہ الیکشن اس کے لیے زندگی و موت کا سوال بن گیا تھا۔ آپ یقین نہیں کریں گے کہ خوف کی وجہ سے کوئی ہمیں پینے کا پانی تک نہیں دیتا تھا۔ کراچی میں پہلی بار اگر ایم کیو ایم نے الیکشن کمپین کی ہے تو وہ این اے 246میں کی ہے۔ میں آ پ کو ایک دل چسپ واقعہ سناتا ہوں، میں ایک دن لیاقت آباد دس نمبر پر اپنے انتخابی کیمپ میں بیٹھا ہوا تھا، اس علاقے میں بہت تنائو تھا بس یوں سمجھیں کہ ایک تیلی دکھانے کی دیر تھی۔ کچھ دیر گذری کہ حیدر عباس رضوی ہمارے کیمپ میں آکر بیٹھ گئے اور کہنے لگے یار عمران، چائے پلائو۔ تو میں نے ان سے کہا کہ ہمارے پاس پینے تک کا پانی نہیں اور آپ چائے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ بات سُن کر حیدر عباس رضوی میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے کیمپ میں لے گئے۔
جب میں وہاں پہنچا تو ایک صاحب اور بیٹھے تھے، حیدر بھائی نے مجھ سے پوچھا، آ پ ان کو جانتے ہیں؟ میں نے کہا، نہیں تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہ جاوید نہاری والے ہیں۔ اس کے بعد وہ صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ بھائی آپ تو نہاری کھا کر چلے گئے، لیکن اس دن سے آج تک میری ڈیوٹی یہاں لگی ہوئی ہے اور میں ابھی تک اپنی دکان واپس نہیں گیا۔ ایک دن میں نے جلسے میں اعلان کیا کہ پیر کو دوبارہ جاوید نہاری کھانے جائوں گا۔ جب میں پیر کے روز وہاں پہنچا تو دکان بند تھی شٹر پر ایک بڑا سا بینر لٹکا ہوا تھا جس پر درج تھا، ’جاوید بھائی کی بھابھی کے انتقال کی وجہ سے آج دکان بند رہے گی۔‘
میں نے لڑکوں سے کہا کہ چلو ان کی بھابھی کی تعزیت کے لیے جاوید بھائی کے گھر چلتے ہیں لیکن لوگوں نے کہا کہ نہیں نہیں بہت ٹینشن ہوجائے گی۔ واپس اپنے کیمپ پہنچا تو مجھے کسی نے بتایا کہ سر ان کی بھابھی کا انتقال تو دو ماہ پہلے ہوا تھا اور انہوں نے صرف آج آپ کی وجہ سے اپنی دکان بند کی ہے۔ انہیں میرے نہاری کھانے سے کوئی ایشو نہیں تھا بات صرف یہ تھی وہ نائن زیرو کے علاقے میں آکر کھانے کو اپنے لیے چیلینج تصور کرتے تھے۔
عمران خان نے کہا، ’’مجھے اقتدار مکمل اختیارات کے ساتھ چاہیے‘‘



پلوٹو کا ’جانشین‘ دریافت ہونے کے امکانات قویFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

2006ء تک نظام شمسی سورج سمیت دس اجرام فلکی پر مشتمل تھا۔ نظام شمسی کے اراکین میں سورج کے علاوہ نو سیارے عطارد، زہرہ، زمین، مریخ، مشتری، زحل، یورینس، نیپچون اور پلوٹو شامل تھے۔

بارہ سال قبل سائنس داں برادری نے ’ سیارے‘ کی نئی تعریف متعین کی۔ نظام شمسی کا بعید ترین سیارہ پلوٹو تعریف پر پورا نہ اترسکا اور اسے اس نظام سے نکال باہر کردیا گیا۔ نئی تعریف کے مطابق سیارہ ایک فلکیاتی جسم ہے جو سورج کے گرد اپنے ایک مخصوص مدار میں گھومتا ہے۔ اس کی ایک مناسب کمیت اور اپنی کششِ ثقل ہوتی ہے اور اس کی شکل و صورت تقریباً کروی ہوتی ہے۔ سیارے کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ دوسرے قریبی سیاروں کے مداروں میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ پلوٹو آخری شرط پر پورا نہیں اترتا تھا۔ چناں چہ اس سے سیارے کا درجہ واپس لے کر ’ بونا سیارہ‘ ( dwarf planet) کے زمرے میں دھکیل دیا گیا۔

نظام شمسی کے اندر اور باہر اسرارِ کائنات سے پردہ اٹھانے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ انھی کوششوں کے دوران دو سال قبل ماہرین فلکیات نے پلوٹو سے بھی پرے ایک فلکیاتی جسم کا سراغ لگایا تھا۔ تاہم وہ اس بارے میں پُریقین نہیں تھے کہ آیا یہ سیارہ ہے یا خلا میں تیرتا کوئی اور جرم فلکی۔ اس دریافت سے سائنس دانوں کو پلوٹو کے اخراج سے خالی ہونے والی جگہ پُر ہونے کی امید ہوچلی تھی اسی لیے اس پُراسرار جرم فلکی کی حقیقت جاننے پر خصوصی توجہ دی جارہی تھی۔

اس پُراسرار جرم فلکی کے بارے میں سائنس دانوں نے مزید معلومات حاصل کی ہیں جس کے بعد نظام شمسی میں نویں سیارے کی موجودگی کا نظریہ قوی ہوگیا ہے۔ پلوٹو کے ’ جانشین‘ کی موجودگی کا تصور دو سال قبل کیلے فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے محققین نے پیش کیا تھا۔ اس تصور کی بنیاد نظام شمسی کے آخری سرے پر برفانی اجسام کی دریافت پر تھی جو بیضوی مدار میں محوگردش تھے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ان برفانی اجسام کے مدار کا بیضوی ہونا کسی سیارے کی کشش کا نتیجہ تھا جو نظام شمسی کا نواں سیارہ ثابت ہوسکتا ہے۔

ہنوز اسرار کے پردے میں لپٹے ہوئے مبینہ نویں سیارے کے بارے میں مشی گن یونی ورسٹی کے ماہرین کے گروپ نے نئی معلومات حاصل کی ہیں۔ ان معلومات کے مطابق مبینہ سیارہ چٹانی ہے۔ اسے ماہرین نے 2015 BP519 کا نام دیا ہے۔ اس جرم فلکی میں سائنس دانوں کی دل چسپی کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ اس کا مدار اس مستوی کی مخالف سمت میں غیرمعمولی طور پر جھکا ہوا تھا جس میں سورج کے گردش کرنے والے بیشتر اجرام فلکی پائے جاتے ہیں۔

سائنس دانوں نے کمپیوٹر سمولیشنز کی مدد سے جاننے کی کوشش کی کہ یہ غیرمعمولی خط حرکت کیسے تشکیل پایا ہوگا۔ کمپیوٹر پروگرام جس میں نظام شمسی آٹھ سیاروں پر مشتمل تھا، نے 2015 BP519 کا خمدار مدار ظاہر نہیں کیا۔ تاہم جب نظام شمسی میں ایک سیارے کا اضافہ کیا گیا تو پھر کمپیوٹر سمولیشن میں یہ خمدار مدار ظاہر ہوگیا۔ تاہم اس پیش رفت کے باوجود سائنس داں نویں سیارے کی موجودگی کے بارے میں پُریقین نہیں ہیں البتہ اس کے امکانات ضرور بڑھ گئے ہیں۔ مشی گن یونی ورسٹی کے ماہر فلکیات پروفیسر ڈیوڈ گرڈیز کہتے ہیں کہ کمپیوٹر سمولیشن میں خمدار مدار کا ظاہر ہونا ’ پلینیٹ نائن‘ کے وجود کا ثبوت نہیں ہے البتہ اس سے پلوٹو کے جانشین کے بارے میں پائے جانے والے نظریے کو تقویت ضرور ملی ہے۔

کچھ سبزیوں اور پھلوں میں سے بجلی کیوں گزرتی ہے؟

اگر آپ کو سائنسی میلوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہو تو وہاں دو تجربات کا لازماً آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا۔ لاوا اُگلتا کاغذی آتش فشاں اور اچار یا آلو سے بنی برقی بیٹری۔ کئی لوگ یقیناً سوچتے ہوں گے کہ ایک سادہ سی سبزی میں سے بجلی کیسے گزر جاتی ہے۔

جن اشیاء میں سے بجلی گزرسکتی ہے انھیں موصل کہا جاتا ہے۔ برقی موصل کئی طرح کے ہوتے ہیں، مثلاً تانبے اور چاندی کی تاریں، جو گھروں اور عمارات میں بجلی کی ترسیل میں استعمال ہوتی ہیں۔ پھر آیونی موصل ہوتے ہیں جو آزاد آیونوں کے ذریعے بجلی کا انتقال کرتے ہیں۔ سائنسی نمائشوں میں رکھے گئے تجربات میں آلو دراصل آیونی موصل کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہی کام انسانی جسم کی بافتیں بھی کرسکتی ہیں۔ ان تمام اشیاء میں برق پاشیدے برقی رَو کا ایصال کرتے ہیں۔ برق پاشیدے وہ کیمیائی مرکبات ہوتے ہیں جو پانی میں حل ہونے پر آیون تشکیل دیتے ہیں۔

نمک کے محلول میں سے برقی رَو گزر جاتی ہے کیوں کہ نمک کو پانی میں حل کرنے پر برق پاشیدگی کا عمل وقوع پذیر ہوتا ہے۔ محلول میں آیون بن جاتے ہیں جو برقی سرکٹ کو مکمل کرتے ہیں یعنی بجلی کا انتقال کرتے ہیں۔ پھلوں اور سبزیوں بھی کچھ یہی معاملہ ہوتا ہے۔

آیونی موصل میں مثبت اور منفی چارج ہوتے ہیں، جنھیں باردار آیون کہا جاتا ہے۔ وولٹیج سے رابطے میں آنے پر یہ آزادانہ حرکت کرنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب کھانے کے نمک کو پانی میں حل کیا جاتا ہے تو سوڈیم (Na+) اور کلورائیڈ (Cl-)، جن پر مخالف چارج ہوتا ہے آیونی محلول بناتے ہیں۔ یہ آیونی محلول برق پاشیدے کہلاتے ہیں اور ہر جان دار میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے، تیکنیکی طور پر ہر پھل یا سبزی آیونی موصل بن سکتی ہے لیکن کچھ سبزیاں یا پھل زیادہ اچھے موصل ثابت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نمک کا محلول یا نلکے کا پانی تقطیرشدہ ( فلٹرڈ) پانی کی نسبت بہتر موصل ہوتے ہیں۔

کوئی بھی پھل یا سبزی جس میں بڑی تعداد میں سپرکنڈکٹیو آیون جیسے پوٹاشیم اور سوڈیم موجود ہوں اور اس کی اندرونی ساخت ایصال برق کے لیے موزوں ہو، اسے برقی بیٹری کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آلو، جس کی اندرونی ساخت یکساں ہوتی ہے، اور اچار جس میں سوڈیم اور تیزابیت کی بلند سطح پائی جاتی ہے، اس نوع کے پھل اور سبزیوں کی عمدہ مثالیں ہیں۔ آلو سے بجلی کے انتقال کو بہتر بنانے کے لیے آلو کو نمک کے پانی میں ڈبویا بھی جاسکتا ہے۔

آلو کی نسبت ٹماٹر کی اندرونی ساخت غیرمنظم اور مختلف حصوں (بیج، ریشے، گودا وغیرہ) میں منقسم ہوتی ہے۔ اسی نارنگی میں اگرچہ پوٹاشیم کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے مگر یہ بھی ایک اچھی برقی بیٹری کے طور پر کام نہیں کرپائے گی، کیوں کہ اس کی اندرونی ساخت ہموار نہیں ہوتی۔ گودا مختلف حصوں ( قاشوں) میں بٹا ہوتا ہے، جو کرنٹ کے بہاؤں میں رکاوٹ بنتا ہے۔

یہاں یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا آلو کی بیٹری سے اتنی بجلی حاصل ہوسکتی ہے کہ سیل فون چارج ہوسکے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ آلو کی بیٹی صرف 1.2 وولٹ برقی رو پیدا کرسکتی ہے۔ اگر آپ موبائل فون کو چارج کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو آلو کی بہت سی بیٹریاں بنانی ہوں گی لیکن اس قدر بکھیڑے میں پڑنے سے بہتر ہے کہ چارجر سے فون چارج کرلیا جائے !

مواصلاتی ٹیکنالوجی جنگلی حیات کے لیے خطرہ
5G کی لانچ کے بعد صورت حال سنگین تر ہوجانے کا خدشہ

کرۂ ارض پر زندگی کا پہیہ اب مواصلاتی نظام کے سہارے رواں رہتا ہے۔ وائی فائی، ٹوجی، تھری جی، فور جی، راڈار، اور پاور لائنز پر مشتمل مواصلاتی نظام میں خلل واقع ہوجائے تو گردش دوراں گویا تھم سی جائے گی، زندگی کی نبض رُک جائے گی، سماجی، معاشی، تجارتی، تفریحی غرض ہر قسم کی سرگرمیاں معطل ہوجائیں گی۔ چناں چہ یہ مواصلاتی نظام سطح ارض پر زندگی کو رواں رکھنے میں بنیادی حیثیت حاصل کرچکا ہے۔

دوسری جانب یہ نظام حیوانی اور نباتاتی زندگی کے لیے خطرہ بھی بنتا جارہا ہے۔ پودوں، کیڑے مکوڑوں، پرندوں، چوپایوں اور دوسرے جانوروں کو اس سے خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ اس کی نشان دہی ایک تحقیقی رپورٹ میں کی گئی ہے۔

ایک عالمی ماحولیاتی ادارے کی رپورٹ میں مواصلاتی نظام سے جڑے آلات سے خارج ہونے والی برقی مقناطیسی تاب کاری کے جنگلی حیات پر اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ اس موضوع پر ماضی میں تحقیق ہوتی رہی ہے تاہم ستانوے صفحات پر مشتمل تازہ رپورٹ کہتی ہے کہ تاب کاری سے جنگلی حیات کو خطرات کی سنگینی قبل ازیں لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ تاب کاری پرندوں اور حشرات کی، سمت کا اندازہ کرنے کی صلاحیت اور حرکت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اس سے نباتات کی تحولی یا میٹابولک صحت بھی متأثر ہوتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فور جی کے بعد اب دنیا بھر میں فائیو جی کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے عام ہوجانے کے بعد برقناطیسی تاب کاری سے جنگی حیات کو لاحق خطرات سنگین تر ہوجائیں گے۔

جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے اس ضمن میں آواز بلند کرتے رہے ہیں مگر ترقی کے پیچھے بھاگتی اقوام اس جانب توجہ دینے کو تیار نہیں۔ اس حقیقت کو انسان نظر انداز کررہا ہے کہ اگر ماحولیاتی توازن بگڑ گیا، جس کا آغاز ہو بھی چکا ہے تو کیا وہ باقی رہ پائے گا؟

مختلف عوامل کے باعث کرۂ ارض سے متعدد جنگلی اور نباتاتی انواع معدوم ہوچکی ہیں، بہت سی معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں اور بہت سی انواع کو مستقبل میں اس خطرے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

ذیل کی سطور میں اس حوالے سے صورت حال کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

٭ فقاریہ یعنی ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کی دو انواع ہر سال صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ گذشتہ صدی سے یہ رجحان چلا آرہا ہے۔

٭ دورحاضر میں جل تھلیوں (پانی اور خشکی پر دونوں پر رہنے والے جانور) کی 41 فی صد انواع اور ممالیہ کی چوتھائی سے زیادہ اقسام معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

٭ ایک تخمینے کے مطابق زمین پر حیوانات اور نباتات کی آٹھ کروڑ ستّر لاکھ اقسام پائی جاتی ہیں۔ خشکی کی 86 فی صد اور پانی کی91 فی صد جان دار انواع اب تک دریافت نہیں ہوپائیں۔

٭ جو جان دار انواع اب تک دریافت ہوئی ہیں، ان میں سے ممالیہ کی 1204، پرندوں کی 1469، خزندوں (رینگنے والے جانور) کی 1215، جل تھلیوں کی 2100 ، مچھلیوں کی 2386  انواع خطرے کی زد میں ہیں۔

٭ حشرات کی 1414، بے ریڑھ صدفیوں کی 2187، خول دار کی 732، گھونگھوں کی 237، پودوں کی 12505، کھمبیوں کی 33 اور بھوری الجی کی 6انواع مستقبل میں صفحۂ ہستی سے مٹ سکتی ہیں۔

٭ زیرمطالعہ ریڑھ کی ہڈی والی 3706 انواعِ (ان میں مچھلیاں، پرندے، ممالیہ، جل تھلیے اور خزندے شامل ہیں ) کی عالمی آبادی 1970ء سے 2012ء کے درمیان60 فی صد گھٹ چکی ہے۔

The post پلوٹو کا ’جانشین‘ دریافت ہونے کے امکانات قوی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2GX2A3u
via IFTTT

قدیم ہندو موسیقی میں رَس اور تاثیر مسلمانوں کی دین ہےFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

گزشتہ ڈیڑھ عشرہ سے وطن عزیز کی ابتر معاشی، سیاسی اور امن و امان کی صورت حال کے باعث جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی متاثر ہوئے وہاں فنون لطیفہ سے وابستہ سرگرمیاں بھی زوال پذیر ہوئیں اور نتیجتاً میوزک انڈسٹری بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی لیکن آج جو بچی کھچی موسیقی ہے، وہ ماہرین کے مطابق روح کی غذا کہلانے کی مستحق نہیں، کیوں کہ آج کا میوزک کئی دہائیوں کے ریاض کا نتیجہ نہیں بلکہ جس کا دل چاہا، جدید آلات میوزک خریدے اور گلوگار بن بیٹھے۔

موسیقی کی اصل پہچان اور بنیاد کلاسیکل میوزک ہے، جو حکومت اور جلد باز نئی نسل کی عدم توجہی کے باعث اپنے جائز مقام سے محروم کر دی گئی ہے۔ لیکن ان نامساعد حالات میں بھی چند عظیم موسیقار میوزک کی اصل کو اس کی روح کے عین مطابق زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک نام استاد غلام حیدر خاں کا ہے جنہیں اُستادان فن نے فخر موسیقی کے لقب سے ممتاز کیا۔

یہ کہنا بے جا نہ ہو گاکہ لمحہ موجود میں برصغیر پاک و ہند میں کلاسیکل میوزک کو سمجھنے، پرکھنے اور اس کی ترویج میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ والد کلارنٹ نواز استاد صادق علی مانڈو خاں کو حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا جا چکا ہے، جسے جاننے کے بعد یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ وہ ایک فنکار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1935ء میں قصور میں پیدا ہونے والے عظیم موسیقار کو بچپن سے ہی موسیقی سے اتنا شغف تھا کہ پرائمری تعلیم کے دوران ہی انہیں چار راگ یاد ہو چکے تھے۔ تقسیم ہند سے قبل جب وہ قصور سے چند جماعتیں پڑھنے کے بعد لاہور آئے تو انہیں رنگ محل مشن سکول میں داخل کروا دیا گیا۔

جہاں سپورٹس کے علاوہ موسیقی کی تعلیم بھی لازمی تھی، یوں استاد غلام حیدر خاں کو اپنے شوق کو جنون میں بدلنے کا موقع مل گیا۔ چھٹی جماعت میں انہیں گلوکاری کے ایک مقابلہ میں پہلا پرائز ملا تو انہیں اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کا بہانہ مل گیا۔ میٹرک کے بعد انہیں روٹی روزی کی فکر ہوئی تو پہلی ملازمت ایک اخبار (سول اینڈ ملٹری گزٹ) میں بطور پروف ریڈر کی۔ 1959ء میں انہوں نے پہلی شادی کی، جس میں سے ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جبکہ دوسری شادی سے تین بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ تاریخ اور انگریزی زبان سے انہیں خاص شغف ہے، جس کا اظہار انہوں نے اپنی کتابوں اور مضامین کے ذریعے خوب کیا۔فرائیڈے ٹائمز میں ان کے کالم چھپتے رہے۔ انہوں نے 7 کتب لکھیں، جن میں نغماتِ خسرو، کہت سدا رنگ، 100 اچھوپ راگ، تزکیہ موسیقی، قصور گھرانے کے نامور فنکار، میوزک اینڈ ریڈیو پاکستان اور تازہ ترین ’’32۔ٹھاٹھ کا نظامِ موسیقی‘‘ شامل ہے۔

یہ آخری کتاب 2016ء میں شائع ہوئی ۔ ان کے استادوں میں  استاد فتح علی خاں جالندھری(نصرت فتح علی خان کے والد)، استاد صادق علی مانڈو خاں، استاد ستار خان اور استاد سردار خاں جیسے عظیم لوگ شامل ہیں۔ انہیں دو بار امیر خُسرو ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے جبکہ ریڈیو پاکستان کی طرف سے پانچ بار تمغہ  حسن کارکردگی کے لئے نامزد ہوئے۔ ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر ریسرچ سیل اور پاکستان کلاسیکل میوزک گلڈ کے تاحیات جنرل سیکرٹری کو ریڈیو اور ٹی وی کی فنکار برادری متفقہ طور پر فخر موسیقی قرار دیتی ہے۔ ’’ایکسپریس‘‘ نے اس عظیم موسیقار، گلوکار اور ماہر موسیقی کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جو نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: آپ نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کی ابتداء کیسے کی؟

استاد غلام حیدر خاں: میرے دادا برٹش بینڈ سے  ریٹائر ہوئے تھے، اس لئے میرے تایا اور والد کو گانا چھوڑ کر بینڈ میں شمولیت کے لئے ساز پکڑنے پڑے۔ والد کو 39ء میں  آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت مل گئی تو 1942ء میں ہم قصور سے لاہور شفٹ ہو گئے۔ موسیقی چوں کہ ہمارے گھرانے کا خاصا تھی تو وہ میرے اندر بھی بچپن میں ہی رچ بس گئی۔ میں تیسری کلاس میں ہی اچھا خاصا گانے لگا تھا۔

دوران تعلیم میں چائلڈ سٹار کے طور پر ریڈیو پاکستان آتا تھا، لیکن ریڈیو پاکستان میں باقاعدہ کلاسیکل آرڈر شمولیت 26 جنوری 1960ء میں اپنے پہلے لائیو پروگرام سے ہوئی، جس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا۔ اس کے ساتھ میں نے کالم نویسی بھی کی، مساوات میں موسیقار کی ڈائری کے عنوان سے کالم لکھے اور پاکستان ریووو میں انگریزی مضامین لکھے۔ کچھ عرصہ پی ایل ڈی میں بھی خدمات سرانجام دیں۔ کتاب محل پبلشرز کے لئے میں نے تقریباً 40 سال فری لانس کام کیا، یوں لٹریچر سے بھی کافی شغف رہا۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے موسیقی روح کی غذا ہے، لیکن آپ کے نزدیک موسیقی کی تعریف کیا ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: موسیقی ایک علم ہے، جو دو مضامین کا مرکب ہے، فزکس اور ریاضی۔ فزکس میں ساؤنڈ ہے اور ریاضی میں گنتی، جسے ہم ماتروں یا سُروں میں استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ باقاعدہ ایک مضمون ہے، لیکن ہم صرف گانے کو کہتے ہیں کہ یہ علم ہے، علم اس کے علاوہ ہے۔ گانا تو انسان کے اندر کا ہے اور یہ Abstract  شکل میں ہے۔

ایکسپریس: وہ کون سے محرکات ہیں، جن کے باعث کلاسیکل میوزک آج زبوں حالی کا شکار جبکہ اس کے مقابلے میں پاپ میوزک فروغ پا رہا ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: پہلی تو بات یہ ہے کہ ہر وہ فن چاہے وہ میوزک ہو یا ڈرامہ، وہ پنپتا ہے مذہب اور حکومت سے موافقت کی وجہ سے، ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی فن کو سپورٹ کرے تو وہ چلتا رہتا ہے، لیکن اب اگر ان دونوں کی طرف سے پذیرائی نہ ملے تو فن مر جاتا ہے۔

ایکسپریس: کیا آپ نہیں سمجھتے کہ موسیقی سے اکتساب کا جو طریقہ ہے، وقت گزرنے کے ساتھ اس کو بدلنے یا عصر حاضر کے مطابق بنانے میں ہم سے کوتاہی ہوئی؟

استاد غلام حیدر خاں: ایسا نہیں ہے، لیکن جب ادارے خود ہی کسی چیز کو پروموٹ نہ کرنا چاہیں تو پھر وہ تنزلی کی طرف آ ہی جاتی ہے۔ بات پھر حکومت کی طرف چل نکلی ہے کہ جب حکومتی سطح پر اس فن کی پروموشن ختم ہو جائے گی تو پھر ترقی یا جدت کیسے آئے گی۔ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے مجھے میوزک سے بہت کچھ ملا ہے، میں نے اپنا گھر میوزک سے بنایا ہے۔ کلاسیکل میوزک کی ڈیمانڈ ہی کم ہوتی ہے۔ اچھا! پھر یہ ڈیمانڈ آج سے نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہی کم ہے۔ اس کے چاہنے والے ضرور ہیں، لیکن اسے پذیرائی کم لوگوں سے ہی ملی۔

ایکسپریس: آپ کلاسیکل میوزک کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: یہ مرتا (ختم) کبھی نہیں، لیکن اس کا عروج 60ء سے 80ء تک رہا، پھر اس پر بیرونی حملے ہونے لگے۔ میری زندگی میں کم از کم تین بار پاپ میوزک کا اس پر حملہ ہوا، لیکن سب سے آخری حملہ بہت طاقت ور ثابت ہوا، جو گزشتہ چند سالوں میں ہوا، لیکن جو موسیقی اُس دھرتی کی نہ ہو وہ آخر کار وہاں سے چلی جاتی ہے۔ پھر لوگوں کو  اپنی اساس کی طرف لوٹنا ہی پڑتا ہے، اس کی مثال کچھ یوں ہو سکتی ہے کہ آج بھی ’’دم مست قلندر‘‘ جیسے گانوں کو ہی ری مکس کرکے سنایا اور دکھایا جا رہا ہے، کیوں کہ یہ میوزک خون میں رچا ہوا اور کانوں میں گُھلا ہوا ہے۔

ایکسپریس: بھارتی گائیکہ کشوری امونکر نے گزشتہ دنوں میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ قدیم بھارتی کلاسیکل موسیقی ’ ویدوں کی موسیقی جو مذہبی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی تھی‘ اسے مسلمانوں کے اثرات سے نقصان پہنچا ہے۔ مسلمانوں نے قدیم موسیقی میں ملاوٹ کر کے اس کی تاثیر کم کر دی۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: کشوری امونکر موگو بائی کُردیکر کی بیٹی اور میری بہت پسندیدہ آرٹسٹ ہے، وہ مجھے تکنیکی اعتبار سے زاہدہ پروین سے بھی زیادہ پسند ہے، لیکن اس کے گانے میں یہ جو رس ہے وہ بھارتی موسیقی میں مسلمانوں کی Contribution وجہ سے ہے۔ میوزک نے ہر دور میں اپنا لباس بدلا ہے۔بھات کھنڈے نے یہ کہا ہے کہ ہمارا جو پہلے راگ بھیرو تھا وہ آج  کچھ اور ہے، مالکونس پہلے سات سُروں سے گاتے تھے آج کل پانچ سُر ہیں۔ اس نے کسی کا نام نہیں لیا لیکن یہ ضرور کہا کہ یوں ہمیں آج یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ آج جو ہمارے پاس میوزک ہے وہ مسلمانوں کی دین ہے۔ میرے خیال میں تکنیکی اعتبار سے حضرت امیرخسرو نے موسیقی کے سارے نظام کو ہی بدل ڈالا تھا۔

ایکسپریس: وہ لوگ جن کا کسی فنکار گھرانے سے بھی تعلق نہیں اور ریاض جیسی مشقتوں سے بھی وہ کوسوں دور ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ بہت مقبول ہیں تو اس سے حقیقی موسیقی پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: اس ضمن میں، میں یوں کہنا چاہوں گا کہ ایک معروف ڈکشنری میں لفظ عطائی کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ عطائی وہ ہے جو بغیر کسی استاد کے اپنی پریکٹس سے کامیاب ہو جائے، ہم انہیں کہتے ہیں ’’بے اُستادہ‘‘۔ لیکن دیکھیں! موسیقی کسی کی میراث نہیں ہے، جو بھی اسے سیکھے گا وہ فیض پائے گا۔ اب اس زمرے میں بڑے بڑے نام آ جائیں گے۔ پھر باپ بیٹے کا استاد نہیں ہوتا، اِس کا استاد چچا، تایا یا کوئی اور ہوتا ہے۔ میرے والد نصرت فتح علی خاں کے والد استاد فتح علی خان کے شاگرد تھے، جب میں نے دو پروگرام کر لئے اور تیسرا کرنا چاہا تو میرے والد کہنے لگے کہ میں تمہیں کچھ نہیں بتاؤں گا جب تک تم میرے استاد کے شاگرد نہیں بن جاتے، یوں میں اور میرا باپ استاد بھائی بن گئے۔ اور ہم نے اپنے استاد سے جو سیکھا اسے بطور امانت بعد میں آنے والوں تک پہنچایا بھی۔

ایکسپریس: آپ کے اساتذہ میں کون کون شامل ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: میرا سب سے پہلا استاد تو میرے والد ہیں، اس کے بعد میں کچھ عرصہ استاد ستار خاں کے پاس جاتا رہا ہوں، پھر استاد سردار خاں بھی میرے اساتذہ میں شامل ہیں، لیکن میرے باقاعدہ استاد، استاد فتح علی خاں جالندھری قوال ہیں، انہوں نے مجھے عملی طور پر سکھایا کہ راگ کیسے بنایا جاتا ہے اور آج میرے بنائے ہوئے راگ لوگ گا رہے ہیں۔

ایکسپریس: کون کون سے راگ صرف آپ سے منسوب ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: جو راگ مجھ سے منسوب ہیں، وہ میں نے خود ہی اپنے سے منسوب نہیں کر لئے بلکہ عصر حاضر کے تمام استادوں سے باقاعدہ دستخط کروائے ہیں، جنہوں نے یہ تسلیم کیا کہ یہ راگ صرف میں نے ہی بنائے ہیں۔ دھانی ملہار، سُہانی ٹوڈی اور دیپ کونس میرے بنائے راگ ہیں، جو میرے شاگرد گا رہے ہیں۔ اچھا پھر یہ جو میری آخری کتاب ہے ’’32۔ٹھاٹھ کا نظامِ موسیقی‘‘ اس میں تقریبا تمام راگ خالصتاً میری اپنی اختراع ہیں، کیونکہ یہ مدراس میں گائے جانے والے اسکیل ہیں۔  مدراس میں راگ نہیں گائے جاتے بلکہ  اسکیل استعمال ہوتے ہیں ان اسکیلوں کو میں نے راگوں کی شکل دی، جن کے کچھ نام میں نے خود رکھے اور کچھ ان سے ہی لئے۔

ایکسپریس: برصغیر میں موسیقی کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کا آج کہنا ہے کہ مروجہ ٹھاٹھ دس ہیں لیکن آپ نے 32 ٹھاٹھ پر کتاب لکھ ڈالی؟

استاد غلام حیدر خاں: اگر آپ کو کلاسیکل میوزک کا ذرا بھی شوق ہے تو حقیقت آپ کو یہ کتاپ پڑھنے کے بعد معلوم ہو سکتی ہے۔ یہ کام یہیں سے شروع ہوا تھا۔ اصل میں ایک سُر بدلنے سے پورا اسکیل بدل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایمن ایک ٹھاٹھ ہے اور راگ ایمن کے تمام سُر تیور ہیں۔ ایک اور ٹھاٹھ ماروا ہے جو ایمن کا یک سُر رکھب بدل دینے سے بنتا ہے  اس لحاظ سے دس ٹھاٹھ مکمل نہیں تھے۔ اور ایک اور بات آپ کو بتا دوں کہ 32 کے بعد33واں ٹھاٹھ بن نہیں سکتا، یہ بھی میرا دعوی ہے۔

ایکسپریس: عصر حاضر کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم آپ سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اچھی موسیقی میں آلات موسیقی کا کتنا کردار ہے اور کیا اچھی آواز آلات موسیقی کی محتاج ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: آلات موسیقی صرف دھن بنانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں،اور شروع سے ان کا استعمال کیا جاتا رہا ہے، قدیم ایران  اور رومن ایمپائر میں سازوں نے بڑی ترقی کی ہے لیکن گانے کے لئے ایک آدھا ساز ہی کافی ہوتا ہے، کوئی ایک ردھم کاساز جیسے طبلہ ہے اور آج کل ہارمونیم زیادہ زیر استعمال ہے۔ سُر کو ذہن میں رکھنے کے لئے ایک ساز ضروری ہے چاہے وہ ہارمونیم ہو، سُر منڈل ہو یا پھر تانپورہ ہو۔ باقی جتنے بھی ساز ہیں یہ آرکیسٹرا کے ہیں۔

ایکسپریس: کلاسیکل موسیقی کو کلاسیکل ہی رہنا چاہیے یا نصرف فتح علی خاں  کی طرح مشرقی موسیقی کے ساتھ مغربی موسیقی کے ملاپ جیسے تجربات درست ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: یہ تجربات پہلے بھی ہو چکے ہیں اور آج بھی ہو رہے ہیں۔ ہونے بھی چاہیں کیوں کہ بات یہ ہے کہ When in Rome, do as the romans do یہ آج ہر جگہ ہو رہا ہے تو ہمیں بھی کرنا پڑے گا۔

ایکسپریس: بھارت کے ماہرین موسیقی کومل اور تیور سُروں کی تعریف کچھ اور انداز میں کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک تیور مدھم ’ما‘ کی دوسری شکل شدھ مدھم ہے، آپ کی کہیں گے؟

استاد غلام حیدر خاں:اصل میں نہوں نے کومل مدھم کو شدھ کا نام دے دیا ہے۔ اگر ان کی بات کوتسلیم بھی کرلیا جائے کہ لفظ شدھ کہا جائے توہمارے نزدیک تو صرف ’’سا‘‘ اور ’’پا‘‘ شدھ ہوسکتے ہیں جوہلتے نہیں‘ قائم رہتے ہیں۔ باقی کوئی سُر شدھ نہیں ہے‘ کومل تیور ہی ہیں۔ اس کے متعلق میں نے آج سے دس سال پہلے جہاںبھی موسیقی پڑھائی جاتی ہے ان کو یہاں ریڈیو کی طرف سے ایک ایک چٹھی بھیجی ہوئی ہے کیونکہ اسے خوش نصیبی کہہ لیں کہ 15برس تک ممتحن بھی رہا ہوں اور پیپر بناتا رہا ہوں۔ تو طالب علموں نے جو جوابات دیئے ہوئے تھے انہیں دیکھ کر بڑی مشکل ہوتی تھی۔

ایکسپریس: آپ کی ریسرچ برصغیر پاک و ہند کے کلاسیکل میوزک تک ہی محدود ہے یا مغربی کلاسیکل موسیقی بھی آپ کے دائرہ دلچسپی میں شامل ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: میں نے مغربی کلاسیکل موسیقی کو بھی ٹچ کیا ہے، لیکن ایسا صرف اپنے سُروں اور راگوں کو ان سے ملانے کے لئے کیا ، بصورت دیگر مجھے ان کے سُروں یا راگوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کیوں کہ جو وہاں ہے، وہ سب کچھ یہیں موجود ہے۔

ایکسپریس: آپ کو اپنے اس کام کے حوالے سے دنیا میں کہاں کہاں جانے کا موقع ملا؟

استاد غلام حیدر خاں: I never left Pakistan، لیکن میرے شاگرد، کتابیں اور میوزک ہر جگہ موجود ہے۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ ہم غلام حیدر خاں کو نہیں جانتے۔ عمر نکل گئی یہاں۔ ممتاز ستارنواز ولایت خاں نے ایک بار اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر آپ نے اپنے گھر والوں کو نہیں منوایا تو پھر باہر جانے کا کیا فائدہ؟

ایکسپریس: آپ کے پورے کیریئر کے دوران وہ کون سے لوگ یا چیزیں تھیں، جنہوں نے آپ کو متاثر کیا؟

استاد غلام حیدر خاں: بطور طالب علم میں ہر گانے والے سے متاثر تھا، ہوں اور رہوں گا۔ جب میں نے گانا شروع کیا تو ہمارے ذہن میں ایک آدمی تھا، بڑے غلام علی خاں ، میں نے ان کے گائے ہوئے پر اپنے گلے کی پریکٹس کی اور بہت ریاض کیا لیکن میری قدرتی آواز بڑے غلام علی خاں سے آج بھی کوسوں دور ہے۔

ایکسپریس: آپ کے زمانہ جوانی میں لاہور میں موسیقی کی بڑی محفلیں کہاں کہاں سجتی تھیں اورگانے بجانے کا ماحول کیسا تھا؟

استاد غلام حیدر خاں: میری جوانی کے دور میں لاہور میں ٹھمری دادرا سُنا جاتا تھا، لائٹ میوزک میں لوگ اسے اچھا سمجھتے تھے۔ غزل سننے کا دور اختری بائی فیض آبادی سے شروع ہوا، اور یہاں استاد برکت علی خاں تھے ان دونوں کی گائیکی کا انداز مُجرئی تھا۔ رہی بات موسیقی کی بیٹھکوں  کی تو لاہور میں عطائی گوئیوں کی دو بڑی بیٹھکیں تھیں، ایک جی اے فاروق صاحب کی بیٹھک تھی مصری شاہ میں اور دوسری ایک پریس کے مالک باؤ قمر کی بیٹھک تھی۔ ان کے علاوہ استاد سردار خاں اور خانصاحب مبارک علی خاں کی بیٹھکیں بھی مشہور ہوئیں، جہاں ایک دوسرے کے ہاں جایا جاتا تھا۔

ہم کسی کی بیٹھک میں گئے اور وہ ہماری بیٹھک میں آئے۔ اچھا ان بیٹھکوں میں صرف آرٹسٹ ہی نہیں ہوتے تھے بلکہ عام لوگ بھی بیٹھتے تھے، جو پھر بعدازاں کارکردگی پر تبصرے بھی کیا کرتے تھے۔ اچھا ایک بات اور آپ کو لاہور کی موسیقی کے حوالے سے بتاؤں کہ یہاں میوزک ہمیشہ سے دھڑے بندی کا شکار رہا ہے۔ مشہور مورخ ابوالفضل اکبری نامہ میں لکھتے ہیں  ’’لاہور مہمان نوازوں کا شہر ہے، لوگ میلوں ٹھیلوں، عرسوں کے عادی ہیں، دن رات بازاروں میں جمگھٹے لگے رہتے ہیں، ذلِِ الہی (بادشاہ) نے تین سو سوار اور ایک ہزار پیادے یہاں مقرر کئے ہیں، اور راوی کے کنارے ایک قلعہ کی تعمیر کا بھی اعادہ کیا ہے۔ یعنی لاہور اُس وقت بھی ایسا ہی تھا۔

ایکسپریس: یقینا آپ نے مشرقی موسیقی کے ساتھ دنیا کے دیگر خطوں کی موسیقی کو بھی سنا ہو گا، تو اس تناظر میں میرا سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کی تمام موسیقی کی زبان ایک ہی ہے یا جس طرح دنیا میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں، موسیقی کی زبان بھی مختلف ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: پہلی بات تو یہ ہے کہ مختلف خطوں کی جتنی بھی موسیقی ہے، اس کا تعلق چوں کہ ہماری موسیقی سے ہی ہے تو لہذا میں نے سنی ہے۔ اور جہاں تک بات ہے زبان کی تو موسیقی کی زبان سرگم (سارے گاما) ہے، یہ سات سروں کی ابریویشن ہے، اور یہی میوزک کی زبان ہے اور یہ پوری دنیا کی زبان ہے۔

ایکسپریس: ایک عمومی تاثر ہمارے ہاں یہ پایا جاتا ہے کہ لوگ ایک فنکار کو پسندیدگی کی نظر سے تو دیکھتے ہیں لیکن وہ عزت و احترام نہیں دیتے جو کسی سوشل ورکر، کھلاڑی یا مذہبی سکالر کو دیا جاتا ہے، آپ  کیا کہیں گے؟

استاد غلام حیدر خاں: یہ کوئی نئی بات نہیں، شروع سے ایسا ہی چلتا آیا ہے، زمیندار، وڈیرے اور بڑے لوگ سمجھتے ہیں کہ گانے بجانے والے لوگوں کو فیڈ کرنا چاہیے کیوں کہ یہ کمی کمین ہیں۔ یہ معاملات بہت پرانے ہیں، مثال کے طور پر آپ نے نام سنا ہوگا ابراہیم موصلی اور اسحاق موصلی کا، اتفاق سے اسحاق موصلی فقہ کے علم میں کافی نام رکھتا تھا تو اس نے ایک دن ہارون رشید سے کہا کہ مجھے بھی عالمانہ لباس پہنایا جائے تو انہوں نے چار پانچ عالم بلا کر فقہ کے معالات میں بحث کرائی جس میں اسحاق موصلی کامیاب رہا یوں انہوں نے اسحاق موصلی کی بات مان کر عالمانہ لباس پہننے کی اجازت دے دی، لیکن بعدازاں ہارون رشید نے کہا کہ اسحاق میری بات سنو! تم یہاں کس کام کے لئے آئے تھے؟ میں نے تمھیں اپنے دربار تک رسائی کیوں دی؟ اسحاق موصلی نے کہا کہ موسیقی کی وجہ سے، تو ہارون رشید نے کہا کہ پھر تم جتنے بھی عالمانہ لباس پہن لو رہو گے تم اسحاق موصلی یعنی گانے والے، اور  یہی سوچ آج بھی موجود ہے۔

ایکسپریس: کلاسیکل میوزک کے احیاء کے لئے حکومتی اور عوامی سطح پر کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: جو کچھ یا جتنا کچھ ان دونوں سے ہو سکتا ہے وہ کر تو رہے ہیں، لیکن اب میوزک کرپشن بھی شروع ہو گئی ہے۔ آپ نے پی آئی اے کی طرح اس شعبہ میں بھی نااہل لوگوں کو بھرتی کر لیا ہے تو پھر میوزک میں بہتری کیسے آئے گی؟اصل مسئلہ یہ ہے کہ کرپشن کا کلچر ہر سطح پر اور ہر شعبے تک پھیل گیا ہے اور اب میوزک کرپشن بھی شروع ہوگئی ہے۔ یہ لفظ آپ کے لیے نیا ہوسکتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے جیسے پی آئی اے یا دیگر اداروں میں نااہل لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے اسی طرح سازندے بھرتی کرنے کی ضرورت پڑے تو نا اہل لوگوں کو رکھ لیا جاتا ہے، یہ پاکستان میں ہر جگہ ہورہا ہے اور شاید اسی لی مجھے پرائڈ آف پرفارمنس نہیں ملا۔ ایک سیمینار یہاں ہوا تھا اس میں میں نے یہ کہہ دیا تھا کہ میں ثابت کرسکتا ہوں کہ ایک لڑکا جو گورنمنٹ کالج میں پڑھتا ہے وہ یہاں (ریڈیو) سے چیک لیتا ہے تو اوپر کے حلقے سے بھی میں گیا۔

ایکسپریس: آپ کے ریسرچ سیل نے ریڈیو سننے والوں کے لیے کون سے اہم پروگرام بنائے ہیں؟

 استاد غلام حیدر خاں:کلاسیکی موسیقی کے دو پروگرام ہمارے بہت مقبول ہوئے جن میں سے ایک تھا آہنگ خسروی اور دوسرا یہ سربہار۔ یہ دونوں پروگرام ریسرچ سیل کی کاوش تھے۔

آہنگ خسروی کا خیال میری پہلی کتاب نغمات خسرو سے لیا گیا تھا۔ اس کتاب میں کل چوبیس راگ شامل تھے۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں جو نغمات کا متن ہے وہ بھی حضرت امیر خسرو کا ہے اور دھنیں بھی وہی تھیں جو میں نے اساتذہ سے یاد کی تھیں۔

دوسرا پروگرام سر بہار کے نام سے کیا گیا تھا جس کے پروڈیوسر رائے محمد عرفان تھے اور اس کی تمام تیاری یہیں ریسرچ سیل ہی میں ہوئی تھی۔ اسی پروگرام میں جو میں نے کلاسیکی موسیقی کو 32 ٹھاٹھوں میں نئے سرے سے مربوط کرنے کا کام کیا ہے۔ اس پر بات کا آغاز کردیا تھا۔ یعنی اس نئے نظام کا تعارف کروا دیا تھا۔ ریڈیو کی لائبریری میں پرانی ریکارڈنگز تو پڑی ہیں۔ ہم نے انہیں پروگرام کے موضوع کی مناسبت سے لوگوں کے سامنے پیش کیا اور بتایا کہ اس نظام موسیقی میں کون سا راگ کس ٹھاٹ کا حصہ ہے۔

جیسے راگ مدھ و نئی کے بارے کہا جاتا ہے کہ کسی ٹھاٹ میں نہیں آتا لیکن درحقیقت اس کا ٹھاٹ دھر موتی ہے۔ یہ راگ پنجاب ہی کی پیداوار ہے پٹیالہ گھرانے نے اسے اختراع کیا تھا اور عاشق علی خان اور امید علی خان نے اسے گایا۔ اس سے پہلے پورے ہندوستان میں میں کہیں مدھ ونتی کا وجود نہیں ملتا۔

اس پروگرام میں ماضی کے عظیم فنکاروں جیسے بابا اختر حسین خان یا بھائی لال یا کالے خاں کے گائے ہوئے راگ پیش کیے گئے جو پہلے کبھی نشر نہیں کئے گئے۔

ایکسپریس:قوالی اور غزل کی اصناف کا تعلق بھی کلاسیکی موسیقی کے ساتھ ہے۔ یہ اصناف اپنے اظہار میں کلاسیکی موسیقی سے کس طرح الگ ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: کلاسیکی موسیقی، قوالی اور غزل میں بنیادی فرق تالوں کا ہے۔ کلاسیکی موسیقی پیش کرنے کے لیے مخصوص تال ہوتے ہیں۔ لائٹ میوزک کے لیے تالیں الگ ہیں۔

ایکسپریس: پاکستان اور بھارت میں پلے بیک موسیقی میں کن موسیقاروں کا ذکر کرنا پسند کریں گے؟

استاد غلام حیدر خاں: آر سی برال اور پنکھج ملک وغیرہ یہ لوگ پلے بیک میوزک ڈائریکشن کے موجد ہیں۔ اس کے بعد نوشاد ہیں، پی سی بروا، اس کے علاوہ بابا چشتی اور ماسٹر غلام حیدر۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پس پردہ موسیقی کی صورت گری میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان تمام موسیقاروں کا مقام و مرتبہ ہے جن کے کام نے لوگوں کو متاثر کیا۔

اب پلے بیک میں سب سے کم کام خواجہ خورشید انور نے کیا ہے لیکن ان کا کام بڑا پُرکشش ہے۔ ان کی تکنیک میں سب سے اہم بات یہ رہی کہ گانوں میں مینڈھ کا استعمال نہیں ہوا کرتا تھا۔ اس استعمال کی مثالیں بنگالی گانوں میں مل جاتی تھیں لیکن عمومی طور پر ایسا نہیں ہوتا تھا۔ خواجہ خورشید انور وہ واحد موسیقار تھے جنہوں نے اپنے گانوں میں مینڈھ کا استعمال انتہائی خوبصورتی کے ساتھ کیا۔ اس سے ان کی موسیقی کو انفرادیت ملی۔

ہمارے پنجاب میں دھن بنانے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوئے ہیں جو بالکل الگ تھلگ ہیں اور کسی سے مماثلت نہیں رکھتے۔ پنجاب کے فوک میوزک کو بخشی وزیر نے بہت ترقی دی ہے پھر سلیم اقبال اہمنام ہیں۔ یہ لوگ میوزیکلوجسٹ بھی تھے اور گلوکار بھی ۔ ماسٹر عبداللہ کے میوزک میں بڑی انفرادیت تھی۔ استاد نذر حسین کی بعض دھنیں بہت منفرد ہیں وہ موسیقار سے بڑھ کر بہت کسبی آدمی تھا۔ بنیادی طور پر تو وہ سرود نواز تھے۔ گانے میں ان کی آواز نہایت خوبصورت تھی۔ میں نے ان سے ایک دفعہ پوچھا کہ یار اتنا اچھا تمہارا گلہ ہے، لگاؤ اتنے اچھے ہیں کہ نور جہاں واہ واہ کہہ اٹھتی ہے، ہم بیٹھے بیٹھے آپ کے گانے سے متاثر ہوجاتے ہیں تو آپ گاتے کیوں نہیں تو کہنے لگے کہ میں تمہیں صحیح بات بتاؤں، تو اگر میں گاؤں تو کم از کم استاد سلامت علی خان جیسا تو گاؤں۔ یعنی نذر حسین نے تو اپنا معیار سلامت علی خان کو بنایا اور خود سلامت علی خان ایسے گائیک تھے کہ ان کے اپنے خاندان میں گوئیے ان کی موجودگی کے باعث پنپ نہیں پائے کیونکہ ان کے گانے کا معیار اتنا بلند ہے، حقیقت یہ ہے کہ استاد سلامت علی خان جیسا کوئی نہیں گایا۔

ایکسپریس: ریڈیو پاکستان میں میوزک ریسرچ سیل کا قیام کب عمل میں آیا اور اس کے پیچھے کن لوگوں کی کاوش کا ہاتھ تھا ؟

استاد غلام حیدر خاں: یہ ریسرچ سیل 1974ء میں قائم کیا گیا تھا۔ ایک تو فیض احمد فیض تھے جو ان دنوں وزارت ثقافت میں ہوا کرتے تھے۔ میرے ایک دوست تھے ایم اے شیخ جو میرے شاگرد بھی تھے۔ یہ صاحب ریلوے پاکستان کے سابق افسر تھے۔ اندرون شہر کے رہنے والے تھے اور موسیقی کی محافل کے شوقین تھے۔ پہلے انہوں نے ستار سیکھی اور بعد میں گانا سیکھا، امجد بوبی کے والد سے۔ اس کے بعد مجھ سے بھی سیکھتے رہے۔ ان کی کاوشوں سے 1974ء میں یہ سیل پہلے گلبرگ میں قائم کیا گیا تھا لیکن فیض احمد فیض کے انتقال کے بعد ریسرچ سیل کو 1978ء میں یہاں ریڈیو پاکستان کے اس تہہ خانے میں منتقل کردیا گیا۔ اس تہہ خانے میں پہلے اسٹوڈیو ہوا کرتا تھا لیکن جب ہم یہاں منتقل ہوئے تو یہ خالی پڑا تھا۔ اس طرح ہم وزارت ثقافت سے وزارت براڈ کاسٹنگ کے ماتحت آگئے۔ اس ریسرچ سیل کے انچارج ایم اے شیخ تھے۔

جب وہ انگلینڈ چلے گئے تو پھر مجھے اس مقصد کے لیے بلایا گیا۔ اس وقت تک موسیقی پر میری تین کتابیں شائع ہوچکی تھیں۔ ایم اے شیخ کے جانے کے بعد خالد اصغر یہاں بیٹھا کرتے تھے۔ انہوں نے ہی اعلیٰ حکام کو چٹھی لکھی کہ اس ریسرچ سیل کے لیے میری خدمات درکار ہیں۔تو اس طرح میں یہاں آگیا اور مختلف اسائنمنٹس کرتا رہا۔ جب میں یہاں آیا میری عمر 61 برس تھی، تو آہستہ آہستہ اس کے کام کو وسعت دی گئی اور اب یہ موسیقی کا ایک چھوٹا سا میوزیم بھی ہے۔یہاں ایک بات بڑی اہم ہے کہ یہاںکی اسٹیشن ڈائریکٹر نزاکت شکیلہ موسیقی کی ترویج میں خصوصی دلچسپی رکھتی ہیں۔یہ ریسرچ سیل بھی انہی کی توجہ اور سرپرستی کے باعث قائم ہے۔

ایکسپریس:موسیقی کی ترویج کے حوالے سے اس ریسرچ سیل نے کیا بڑے کام کیے ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: اس ریسرچ سیل کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اہم یونیورسٹیوں میں موسیقی پر مقالہ جات لکھنے والے طلباء و طالبات اپنے مقالے مکمل کرنے کے لیے اسی ریسرچ سیل سے رابطہ کرتے ہیں۔ اسی طرح صحافیوں کے لیے بھی یہاں پر سہولیات موجود ہیں۔ موسیقی کے بارے میں یہاں تمام معلومات میسر ہیں۔ موسیقی پر جتنی بھی اہم کتابیں لکھی گئی ہیں وہ تمام یہاں پر موجود ہیں۔

ایکسپریس: یہاں پر یقینا ماضی میں ہونے والی موسیقی کی مخافل کی ریکارڈنگز بھی ہوں گی تو کیا کبھی یہ نہیں سوچا گیا کہ ان ریکارڈنگز کی سی ڈیز بناکر لوگوں تک پہنچائی جائیں؟

استاد غلام حیدر خاں: ریڈیو براڈ کاسٹنگ کارپوریشن بعد میں بنا ہے۔ یہ پہلے ریڈیو پاکستان لاہور ہوا کرتا تھا۔ یہاں پر لائیو پروگرام ہوا کرتے تھے۔ ریکارڈننگ سسٹم بہت بعد میں آیا۔ غالباً 1960ء میں یہ سسٹم منگایا گیا تھا۔ ریکارڈنگز لوگوں تک پہنچانے کی ایک کوشش تو پروگرام سُر بہار کے ذریعے کی گئی۔ اس پروگرام کے پروڈیوسر رائے محمد عرفان  نے بڑی محنت سے اس پروگرام کی منصوبہ بندی کی۔ ریڈیو کی جو نایاب ریکارڈنگز ہیں وہ ہم اس پروگرام میں چلاتے تھے۔ لیکن سی ڈیز مارکیٹ کرنے کا کام یہاں نہیں ہوا۔ ایسا ہونا تو چاہیے لیکن اب تک نہیں ہوا۔ نیشنل کونسل آف آرٹس اور لوک ورثہ اسلام آباد نے یہ کام کیا ہے۔ وہاں پر میری بھی ایک ریکارڈنگ موجود ہے۔ انہوں نے لوگوں کو بلا کر ان کا کام ریکارڈ کیا ہے۔ لیکن ریڈیو کا امتیاز یہ ہے کہ یہاں بہت نایاب ریکارڈنگز موجود ہیں جن میں موسیقی ڈرامہ تھیٹر سبھی کچھ شامل ہے۔

ایکسپریس:کیا اب آپ اپنے اس عہدے سے سبکدوش ہوگئے ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: میں ستمبر میں بہت علیل ہوگیا تھا۔اب عمر بھی بہت ہوگئی تو شاہ رخ فخر ہمیں مل گئے۔ یہ یہاں افسر بھی ہیں ریڈیو میں پروڈیوسر ہیں۔ موسیقی کا شوق بھی ہے، گاتے بھی ہیں۔ وائلن اور ہارمونیم بھی بجاتے ہیں تو جب یہ ملے تو مجھے کچھ حوصلہ ہوگیا کہ اب یہ ریسرچ سیل کا کام اچھی طرح سنبھال لیں گے۔ پھر میں نے حکام کو بتا دیا کہ میں اب یہ ذمہ داری چھوڑ رہا ہوں۔ لیکن درحقیقت یہ رشتہ پہلے کی طرح اب بھی قائم ہے۔ اسے چھوڑ تو مرتے دم تک نہیں سکتا کیونکہ ساری زندگی یہیں گزر گئی ہے۔ بس یہ کیا کہ چابیاں انہیں دے دیں ہیں۔

ایکسپریس: غزل برصغیر پاک و ہند میں موسیقی کی اہم صنف مانی جاتی ہے۔ آپ کے نزدیک وہ کونسے غزل گائیک ہیں جنہوں نے غزل گائیکی کو بلندی بخشی؟

استاد غلام حیدر خاں: یہ بات باقاعدہ تسلیم شدہ ہے کہ غزل گائیکی کے چار Schools of Thought اسلوب ہیں۔ یعنی مہدی حسن، غلام علی، اقبال بانو اور فریدہ خانم۔ فریدہ خانم کا انداز اس لیے آگے منتقل نہیں ہوا کہ ان کے انداز کی تقلید نہیں ہوسکتی، اسے اپنایا نہیں جاسکتا۔ اسے ہم آکار کی گائیکی کہتے ہیں۔ اس سلسلے میں دوہی نام لیے جاسکتے ہیں، ایک بڑے غلام علی خان تھے اور دوسری فریدہ خانم۔ وہ سُر کو جتنے خوبصورت انداز میں Finish کرتی تھیں وہ کسی کے بس کی بات نہیں۔ غزل میں اس وقت جو اسکول آف تھاٹ چل رہا ہے۔ وہ نصرت اسکول آف تھاٹ ہے۔ نصرت فتح علی خان نے غزل گائیکی میں قوالی کا رنگ شامل کردیا، غزل کی لے تیز کردی ورنہ غزل تیز ردھم کے ساتھ نہیں گائی جاتی۔ تیز ردھم کے ساتھ گیت گائے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس: ایک بات جو بڑی تکلیف دہ بھی ہے کہ بعض بہت اچھے فنکاروں کا تعارف تب جاکر ہوا جب وہ اپنی عمر کے آخری حصے میں تھے۔ جن میں سے ایک نام استاد محمد جمن کا ہے۔ آپ کیا کہیں گے؟

استاد غلام حیدر خاں:اصل بات یہ ہے کہ استاد جمن لاہور آئے ہی نہیں۔ اگر وہ آتے تو شاید بہت مقبول ہوجاتے۔ اپنے علاقے کے لحاظ سے وہ بہت اچھے گوئیے تھے۔ لیکن انہوں نے خود کو جان بوجھ کر سندھ تک ہی محدود رکھا۔

جب اُستاد شوکت حسین مدد کو آگئے
میری زندگی کا ایک ہی واقعہ ناقابل فراموش ہے۔ اس سے زیادہ اہم واقعہ مجھے یاد نہیں پڑتا۔ وہ کچھ یوں ہے کہ ہم زندگی میں پہلی مرتبہ گانے کے لیے بھائیوں کی محفل میں گئے، بھائیوں کی محفل ہم بزرگوں کی برسی کو کہتے ہیں۔ میاں قادر بخش پکھاوجی کی برسی تھی۔ 1961ء یا 62 کی بات ہوگی۔ ہم دونوں بھائیوں نے گانا تھا اور ہمیں جانتا بھی کوئی نہیں تھا۔ ایک طبلہ نواز تھا جورا پڑی جس کو ہم نے سنگت کے لیے راضی کیا، اس کے ساتھ ریہرسل کی، تین چار دن تک اسے خوب کھلایا پلایا۔ میں نے شروع دن سے یہ کوشش ہے کہ میں ایسے راگ لوگوں کے سامنے پیش کروں جو عموماً نہیں گائے جاتے اور ایسے تالوں میں گائوں جو گوئیے عام طور پر استعمال نہیں کرتے۔ جب ہم اسٹیج پر پہنچے تو سامنے سیٹوں پر بڑے بڑے نامور فنکار بیٹھے تھے۔

استاد اللہ رکھا خان بھارت سے آئے ہوئے تھے کیونکہ ان کے استاد کی برسی تھی۔ بڑے غلام علی خان بیٹھے تھے، بھائی لال بھی آئے ہوئے تھے، استاد سردار خان بھی موجود تھے۔ میں تو باکسر ٹائپ آدمی تھا، لہٰذا بڑی دلیری کے ساتھ گانے کے لیے بیٹھ گیا۔ لیکن ہمارے طبلہ نواز نے جب اتنے بڑے استادوں کو دیکھا تو اس کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ ہوری دھمار تال بجا رہا تھا لیکن گھبراہٹ میں ٹھیکے سے آدھا ماترا نکل گیا تو حالت یہ ہوگئی کہ ہماری استھائی کہیں جارہی ہے اور طبلہ کہیں جارہا ہے۔ لوگوں میں ایک بدتمیز قسم کا شاگرد بھی بیٹھا ہوا تھا اس نے وہیں سے آواز لگا دی ’’جورے تم سے نہیں بجایا جاتا تو اُٹھ جائو‘‘
اللہ بھلا کرے استاد شوکت حسین خان کا وہ بھی مہمانوں میں بیٹھے تھے اور انہوں نے شام کی نشست میں بجانا تھا۔ ان کا شمار بڑے نامی لوگوں میں ہوتا تھا۔ میرے والد کی وجہ سے ان کے دل میں آیا کہ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو یہ لڑکے مایوس ہوجائیں گے۔

ان کا پہلا پہلا پروگرام ہے ان کا دل ٹوٹ جائے گا۔ تو وہ سامعین میں سے اٹھ کر اسٹیج پر آگئے اور ہمارے ساتھ سنگت کے لیے بیٹھ گئے۔ جیسے ہی معیاری سنگت میسر آئی ہم نے کامیابی سے اپنا گانا مکمل کیا۔یہ ایسا واقعہ ہے کہ ہم نہ بچتے بچتے، بچ گئے۔

اے پتر ہٹاں تے نیں وکدے

استاد غلام حیدر خان نے ریڈیو پاکستان سے وابستہ یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا۔ یہ جس کمرے میں ہم بیٹھے ہیں یہاں پہلے اسٹوڈیو ہوا کرتا تھا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے لیے ملی نغموں کی ریہرسل اور ریکارڈنگز اسی تہہ خانے میں ہوئیں۔ جنگ ستمبر میں لازوال شہرت پانے والا ترانہ ’’اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے‘‘ کے پس منظر میں ایک دلچسپ کہانی ہے۔

صوفی تبسم صاحب کا بیٹا بیرون ملک چلا گیا تھا۔ اس نے وہاں سے باپ کو خط لکھا کہ یہاں زندگی اچھی گذر رہی ہے لہٰذا اب وہ پاکستان واپس نہیں آنا چاہتا۔ اس خط کو پاکر صوفی تبسم بہت معموم ہوئے اور اسی کیفیت میں انہوں نے اُس وقت اس ترانے کے دو بند لکھ کر چھوڑ دیئے تھے۔ بعد میں جب جنگ شروع ہوئی تو انہوں نے نامکمل اشعار کو نئی جہت دے دی اور مزید اشعار کے اضافے کے ساتھ اسی کمرے میں یہ ترانہ ریکارڈ کرایا۔

سر ویوین رچرڈز پسندیدہ کھلاڑی

روونگ(کشتی رانی) کی ہے، پیراکی کرتا رہا ہوں، پہلوانی اور باکسنگ بھی کی، دیکھنے میں کرکٹ بہت پسند ہے، کرکٹ میں پسندیدہ کھلاڑی سر ویون رچرڈز ہیں، انگریزی فلمیں دیکھنے کا شوق ہے۔

Pandora and the flying dutch man بہت پسند ہے، اس کے علاوہ An affair to Remember بھی بہت پسند ہے۔ خالدہ ریاست کی اداکاری بہت پسند تھی۔

گانے میں دو طرح کی آوازیں ہوتی ہیں۔ ایک رَگی سے گانے والے سنگرز ہیں اور ایک کُھلے گلے سے گانے والے۔ برصغیر پاک و ہند میں رَگی کے گانے میں لتا کا کوئی ثانی نہیں جبکہ کُھلی آواز میں نور جہاں کا کوئی مقابلہ نہیں۔ مردوں میں محمد رفیع بہترین پلے بیک سنگر تھے۔ سیاستدانوں میں ایک تو بانی پاکستان تھے ان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پسندیدہ سیاسی شخصیت ہیں۔ میرے والد میری آئیڈیل شخصیت ہیں۔ میں نے اپنی ماں کو نہیں دیکھا۔ میرے والد نے ہی ہمیں پالا پوسا۔

The post قدیم ہندو موسیقی میں رَس اور تاثیر مسلمانوں کی دین ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2GVcMZY
via IFTTT

جب کالے ریچھوں کی فیملی اسکول کی بن بلائی مہمان بن گئیFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

امریکی ریاست فلوریڈا کے ایک اسکول میں ایک بھوکی مادہ بھالو اپنے تین بچوں کے ساتھ داخل ہوئی اور اسکول کے کیمپس میں آزادی سے گھومنے پھرنے لگی۔ اس وقت اسکول میں بچے اپنی کلاسوں میں موجود تھے اور تعلیم حاصل کررہے تھے۔ یہ دیکھ کر اسکول انتظامیہ پریشان ہوگئی اور اس مسئلے کا کوئی مناسب حل تلاش کرنے لگی۔

مادہ بھالو اور اس کے تینوں بچے مقامی وقت کے مطابق جمعرات کے روز صبح 8بجے پورٹیبل کلاس رومز کے قریب دیکھے گئے تھے۔

اسکول انتظامیہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ یہ بھوکی مادہ بھالو اپنے تین بچوں سمیت اس اسکول میں خوراک کی تلاش میں آئی تھی اور کچھ کھانے پینے کی تلاش میں تھی۔ مادہ بھالو اپنے بچوں سمیت River Springs Middle School, Orange City نامی اس اسکول کی حدود میں لگ بھگ دو گھنٹے تک موجود رہی۔ ان کو اسکول کی حدود میں دیکھنے کے بعد Volusia کاؤنٹی پولیس کے افسران اور فلوریڈا فش اینڈ وائلڈ لائف کنزرویشن کمیشن سے رابطہ کیا گیا اور انہیں مدد کے لیے طلب کیا گیا۔

پولیس فورس نے اس ضمن میں فیس بک پر لکھا تھا:’’خوش قسمتی سے بھالوؤں کی یہ فیملی اسکول کیمپس میں گھسنے کے بعد ہی دیکھ لی گئی تھی جو بے قراری سے خوراک کی تلاش میں تھی اور دو گھنٹے سے مسلسل اس کے حصول کے لیے کوشاں تھی۔

وہ تو خدا کا شکر ہے کہ ان جنگلی اور وحشی جانوروں کی وجہ سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور نہ ہی کسی قسم کے سنگین خطرات لاحق ہوسکے، بلکہ سب کچھ بڑے پرسکون انداز میں ہوتا چلا گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انسانوں کی موجودگی کی وجہ سے یہ بھالو خاندان مشتعل بھی ہوسکتا تھا اور اگر یہ طیش میں آجاتا تو پھر بڑے مسائل کھڑے ہونے کا اندیشہ تھا، مگر خدا کا شکر ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوسکا۔ یہ بھالو خاندان کسی کو بھی نقصان پہنچائے بغیر ادھر ادھر گھومتا پھرتا رہا۔‘‘

اسکول کے سبھی طلبہ و طالبات کو اسکول کے اندر اپنی کلاسوں میں ہی رکنے کی ہدایت دی گئی اور باہر نکلنے سے سختی سے منع کیا گیا تھا، کیوں کہ اس صورت میں بھوکے بھالو انہیں نقصان پہنچا سکتے تھے۔‘‘ فلوریڈا کے مچھلی اور جنگلی حیات کی حفاظت کرنے والے کمیشن کے جدید ترین اعداد وشمار یہ بتاتے ہیں کہ اس ریاست میں2014-15 میں بھی 4,000 سے زیادہ جنگلی اور وحشی جانور رہ رہے تھے۔

کمیشن کے ڈائریکٹر Dave Telesco جو اس کمیشن کے بیئر منیجمنٹ پروگرام کے سربراہ بھی ہیں، ان کا کہنا ہے:’’یہ بھالو اور ریچھ سردی کے زمانے میں اپنے غاروں اور اپنی کمین گاہوں سے باہر نکلتے ہیں اور خورا ک کی تلاش میں ادھر ادھر گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اور ہمارے ساتھی ان ریچھوں کو کوئی ایسا موقع نہ دیں کہ وہ بے فکری سے ہمارے گھروں اور اسکولوں کالجوں کے اطراف میں گھومیں یعنی ہم اپنے علاقے کو صاف ستھرا رکھیں اور ان جگہوں پر کھانے پینے کی باسی اور ناکارہ اشیا ہرگز نہ پھینکیں، کیوں کہ ان اشیا کا یہاں پھینکنا انہیں دعوت دینے کے مترادف ہے اور یہ ریچھ اور بھالو انہیں کی بو پر وہاں آن پہنچیں گے جو ہمارے لیے مسلسل خطرہ بنے رہیں گے۔‘‘

انہوں نے علاقہ مکینوں کو یہ ہدایت بھی دی کہ اگر آپ اپنے علاقے میں کھانے پینے کی تازہ یا باسی اشیا دیکھتے ہیں تو انہیں پہلی فرصت میں وہاں سے ہٹادیں اور اپنی تمام جگہوں کو ہر طرح سے مکمل طور پر صاف رکھیں، یہ ان جنگلی جانوروں کو اپنے علاقوں سے دور رکھنے کی بہترین حکمت عملی ہوگی، اس پر ترجیحی بنیادوں پر عمل کیا جائے۔

نیوزی لینڈ میں نمودار ہوا بہت بڑا سنک ہول

نیوزی لینڈ کے ایک ڈیری فارم میں حال ہی میں ایک بہت بڑا سنک ہول یکایک نمودار ہوگیا جس کے نتیجے میں ایک 60,000 سال پرانے آتش فشااں کی قدیم چٹانیں منظر عام پر آگئیں۔

یہ اتنا بڑا سنک ہول ہے جس نے نیوزی لینڈ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے دیگر volcanologists کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کرالی ہے، یہ سنک ہول یا بہت بڑا سوراخ اتنا بڑا اور گہرا ہے کہ اس کے اندر چار ڈبل ڈیکر بسیں سما جائیں یعنی 20 میٹر یا 66 فیٹ، یہ عظیم گڑھا لگ بھگ 200 میٹر یعنی 660فیٹ لمبا ہے۔

یہ سنک ہول یا عظیم گڑھا کیسے نمودار ہوا، اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ شمالی جزیرے میں Rotorua ٹاؤن کے قریب موسلا دھار بارشیں ہورہی تھیں کہ بارش رکنے کے بعد اچانک ہی یہ سوراخ نموار ہوگیا۔ شمالی جزیرے کا یہ ٹاؤن Rotorua ایک ایسی جگہ واقع ہے جو اپنی جیوتھرمل نقل و حرکت کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ ماہرین ارضیات کا یہ یقین ہے کہ سیکڑوں یا ہزاروں سال کی طوفانی بارشوں نے اس علاقے میں زیرزمین چونے کے پتھر کی تہوں کو اکھاڑ پھینکا جس کے باعث نیچے کی زمینی تہوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور مذکورہ گڑھا نمودار ہوگیا۔

اس حوالے سے نیوزی لینڈ کے معروف volcanologist  براڈ اسکاٹ کہتے ہیں:’’یہ منظر بہت ہی زبردست ہے، میں نے اس سے پہلے بھی ایسی سنک ہول دیکھے ہیں، مگر اس جیسا شان دار گڑھا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یہ پہلے میرے دیکھے گئے سبھی سنک ہولز سے زیادہ بڑا ہے۔‘‘

براڈ اسکاٹ نے نیوزی لینڈ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا:’’یہ ڈیری فارم جہاں مذکورہ بالا سنک ہول نمودار ہوا، ایک خوابیدہ آتش فشاں کے دہانے پر واقع ہے۔ اس سنک ہول کی تہہ میں موجود دھول اور راکھ اصل میں 60,000سالہ قدیم آتش فشاں کی تلچھٹ ہے۔ جو اس دہانے سے باہر آئی تھی۔‘‘

نیوزی لینڈ کے اس علاقے کے ایک کسان کولن ٹری مین کا کہنا ہے کہ یہ رات کو کسی وقت نمودار ہوا اور صبح ایک ورکر نے اس سنک ہول کو دیکھا جو صبح کے وقت اپنی گایوں کو قابو میں کرنے کے لیے ان کے ساتھ ساتھ دوڑ رہا تھا۔

The post جب کالے ریچھوں کی فیملی اسکول کی بن بلائی مہمان بن گئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2krhVQR
via IFTTT

ادب کی سماجیات اور ہمارا عہدFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

وجہ خواہ کچھ بھی ہو، لیکن یہ سچ ہے کہ ہمارے یہاں فی زمانہ ادب سے زیادہ ادب کی سماجیات پر زور صرف کیا جارہا ہے۔

بعض اوقات تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اس دور میں ادب کی سماجیات کو بجائے خود ادب سمجھ لیا گیا ہے، اور اُس نے مقصد کا درجہ اختیار کرلیا ہے۔ ویسے تو سچ یہ ہے کہ ہم تہذیب و معاشرت کے ایک عجیب دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ التباس اور مخمصے کا دور ہے۔

واضح رہے کہ یہ بات اپنے مقامی یا لسانی سیاق میں نہیں کہی گئی ہے، بلکہ ہم یہ نقشہ عالمی انسانی تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔ تہذیب و تمدن کے اعلیٰ مظاہر سے لے کر روزمرہ تک کو دیکھ لیجیے، تصورات، نظریات، معاملات، اشیا اور اقدامات کے بارے میں کچھ بھی یقین سے کہنا اِس وقت جس قدر مشکل ہوگیا ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔

اصل میں ایجادات، ترقی اور سہولتوں کی فراوانی کے اس سفر میں انسان اب ایک ایسے مرحلے سے دوچار ہے کہ جب اُس کی راہ میں آنے والے مناظر اُس کے اندر التباس کی کیفیت پیدا کررہے ہیں۔ اصل اور نقل، جھوٹ اور سچ، کھرے اور کھوٹے میں فرق اِس حد تک مشکل ہوگیا ہے کہ بہت سے معاملات میں فوری طور پر اور وثوق سے کچھ طے کرنا ممکن ہی نہیں معلوم ہوتا۔ انسان کی شناخت کرنے والی صلاحیتیں اور فیصلہ کرنے والی قوتیں بار بار مخمصے میں پڑ کر رہ جاتی ہیں۔ یہ اس جدید عہد کی صورتِ حال کا ایک نہایت اہم اور گمبھیر مسئلہ ہے۔

سچ اور جھوٹ یا کھرے اور کھوٹے کے فرق کا جو مسئلہ ہمیں درپیش ہے، وہ کوئی نئی چیز تو ہرگز نہیں ہے۔ انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ اس آویزش کا حساب زمانۂ قدیم سے رکھتی چلی آتی ہے، لیکن اِس دور میں آکر یہ مسئلہ کچھ زیادہ پیچیدہ ہوگیا ہے۔ پہلے زمانے میں سچ کی بنیاد پر کھڑے ہونے والے اور جھوٹ سے کام لینے والے دونوں ہی بہ خوبی جانتے تھے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔

دونوں اپنے دائرۂ کار کا شعور رکھتے تھے۔ دونوں کی شناخت کے الگ الگ نشانات ہوا کرتے تھے جو حقیقت کے متلاشی کو راہ سجھاتے اور شناخت کے دائرے متعین کرنے میں مدد فراہم کرتے تھے۔ اِس عہد کا مسئلہ یہ ہے کہ سچ اور جھوٹ کی سرحدیں نہ صرف آپس میں مل گئی ہیں، بلکہ دونوں کے امتیازی نشانات بھی اب وہ نہیں رہے کہ انھیں فوراً اور جداگانہ طور پر پہچان لیا جائے۔ رنگ، آواز، لہجہ، اسلوب، انداز اور قرینہ کسی رخ سے دیکھ لیجیے، دونوں کی باہمی مماثلت دھوکے میں ڈالتی ہے۔ اس التباس کا کوئی فائدہ ظاہر ہے کہ سچ یا کھرے کو نہیں پہنچتا، وہ تو جھوٹ یا کھوٹ ہی کے حصے میں آتا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپس میں خلط ملط ہوجانے کی وجہ سے آج سچ یا کھرے تک رسائی آسان بہرحال نہیں رہی ہے۔

اب مثال کے طور پر ادب اور اس کی سماجیات ہی کو دیکھ لیجیے۔ ادب اور سماج کا باہمی رشتہ ہمیشہ سے ہے اور دو طرفہ ہے، یعنی ادب نہ تو جنگل میں بیٹھ کر تخلیق ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کی معنویت کا اظہار جنگل میں ممکن ہے۔ یہ رشتہ سماج اور تخلیقی شعور کے مابین جذب و انجذاب کی سی کیفیت رکھتا ہے، اگرچہ تہ نشین رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جن مظاہر میں یہ براہِ راست اور خارجی نوعیت کا نظر آتا ہے، مثلاً مشاعرہ، شامِ افسانہ یا شبِ داستاں جیسی محفلیں، وہاں بھی اس کے مفہوم و معنیٰ اور اثرپذیری کا عمل دراصل انفرادی اور داخلی قسم کا ہوتا ہے۔ گویا ادب کی سماجیات صرف ادب کی ترسیل سے تعلق رکھتی ہے، فروغِ معنی اور اثرآفرینی میں اُس کا ایسا کچھ کردار نہیں ہوتا۔

پہلے تو ادیبوں شاعروں کے ساتھ ساتھ اس بات کو عوام کا ایک بڑا حلقہ بھی واضح طور پر سمجھتا تھا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اکیس ویں صدی تک آتے آتے صورتِ حال اس حد تک بدل گئی ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے عوام ہوں یا تخلیق کار دونوں کو اب اس قسم کے فرق و امتیاز سے کچھ خاص سروکار ہی نہیں رہا۔ آج عوام تو رہے ایک طرف خواص، یعنی اچھے خاصے درجے کے ادیب شاعر بھی اس حقیقت کو سرے سے سمجھتے ہی نہیں کہ ادب اور ادب کی سماجیات دونوں الگ چیزیں ہیں اور دونوں کے اپنے اپنے الگ دائرہ ہائے کار ہیں، اور ان میں سے کوئی ایک دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتا۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ چلیے عوام کو تو چھوڑیے، وہ اس حقیقت سے بے خبر ہوسکتے ہیں، لیکن ادیب شاعر تو اس کو واضح طور پر سمجھتے ہیں تو پھر ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ آج وہ دیدہ دانستہ اس کی نفی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

چلیے خیر، یوں ہی سہی، لیکن سوال یہ ہے، کیا کسی حقیقت کو رد کیا جاسکتا ہے؟ جی ہاں، اس کی ایک صورت ممکن ہے۔ ایسا اُس وقت ہوسکتا ہے جب کسی متبادل قوت کے ذریعے حقیقت کی ماہیت بدل دی جائے۔ ایسا کب اور کس طرح ہوسکتا ہے؟ یہ تب ہوتا ہے جب کسی چھوٹی حقیقت کے مقابل اس سے بڑی کوئی شے آئے اور رُو بہ عمل ہو۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔

نیند ایک حقیقت ہے، ایسی مسلمہ حقیقت کہ اسے موت کی بہن کہا گیا ہے۔ ٹھیک ہے، لیکن خواب نیند سے بڑی شے ہے۔ چناںچہ جب خواب رُو بہ عمل ہوتا ہے تو نیند کی حیثیت و حقیقت تبدیل ہوجاتی ہے۔ اہلِ تصوف اس مسئلے کو انفس و آفاق اور فوق اور تحت کی اصطلاحوں کے ذریعے اپنے انداز اور اپنی سطح پر سمجھتے ہیں۔ نیند کے اپنے معانی ہیں اور خواب کے اپنے۔ آفاق کی اپنی حقیقت ہے اور انفس کی اپنی۔ ہر فوق اپنے تحت سے مقتدر اور اُس پر حاوی ہوتا ہے۔ خیر، یہ گفتگو کسی اور سمت جانکلی۔ ہم بات کررہے تھے، ادب اور اُس کی سماجیات کی۔

اس عہد میں ادب کی سماجیات کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا ہے، اس درجہ وسیع کہ وہ فوق کا التباس پیدا کررہا ہے اور ادب اُس کا تحت معلوم ہوتا ہے۔ حقیقت جب کہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایک لمحے کے لیے ذرا سوچیے کہ اگر ادب نہ ہو تو ادب کی سماجیات چہ معنی؟ ایک ادیب یا شاعر کے لیے اپنے سماج میں شناخت اور شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ دراصل اس کا تخلیق کردہ ادب ہے۔ اگر ادب ہی نہ ہو تو پھر اس سماجی شناخت کے کیا معنی رہ جاتے ہیں، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں تو اب گنگا الٹی بہنے لگی ہے۔ ادب کہ جو اصل شے ہے، وہ آج پس منظر میں کہیں ثانوی درجے کی شے بناکر رکھ دیا گیا ہے اور اُس کے نام پر کھیل تماشا ہر جگہ نظر آتا ہے۔

یہ ادب کی سماجیات کا منظرنامہ نہیں تو اور کیا ہے کہ جو آئے دن ہم سنتے اور دیکھتے ہیں کہ کہیں ادب کا فیسٹیول چل رہا ہے، کہیں سیمینار ہورہا ہے اور کہیں کانفرنس ان کے ساتھ ساتھ کتابوں کی رونمائی اور ادیبوں شاعروں کی پذیرائی کے جلسے بھی روزمرہ معمول ہوچکے ہیں۔ ادب کی سماجیات کے ان مظاہر کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب اس دور میں خاص اہمیت حاصل کرگیا ہے۔

خیر، فیسٹیول تو ذرا ایک الگ چیز ہے اور ادب سے اس کا جوڑ بھی کچھ ڈھب سے نہیں بیٹھتا۔ اس لیے کہ مشاعرے اور افسانے کی محفلوں کے عوامی رنگ اور آزادانہ غیررسمی ماحول کے باوجود اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان محفلوں میں ادب ہی پیش کیا جاتا ہے۔ گویا مشاعرہ ہو یا محفلِ افسانہ— یہ اپنی سماجیاتی جہت کے باوجود ایک ادبی سرگرمی ہی کہلائے گی اور ادبی سرگرمی بہرحال ایک قدرے سنجیدہ کام ہے۔ اس کے برعکس فیسٹیول تو رونق میلے کی چیز ہوتا ہے۔ اس میں سنجیدگی کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

یہ اس کے فطری مزاج کا مسئلہ ہے۔ چناںچہ آج ہمارے یہاں جو لوگ ادب کو فیسٹیول بنا رہے ہیں، وہ یا تو ان دونوں کی فطرت کے فرق سے واقف نہیں ہیں، یا پھر وہ شعوری کوشش کررہے ہیں کہ ادب کو فیسٹیول کی سطح پر لایا جائے تاکہ وہ جو ذہن سازی اور کردار گری کی قوت رکھتا ہے، شعور کو مہمیز دیتا اور احساس کو بدلتا ہے، اُس کی یہ قوت زائل ہوجائے اور وہ محض ایک تفریحِ طبع کی چیز ہوکر رہ جائے۔ خیر، یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر قدرے تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے۔ سو، اس پر کسی اور وقت بات کرنا مناسب ہوگا۔

ادبی سیمینارز اور کانفرنسز کوئی نئی یا صرف ہمارے زمانے کی چیزیں نہیں ہیں۔ یہ سب پہلے بھی ہوتی تھیں، لیکن کسی سالانہ میلہ مویشیاں یا بسنت کے ہلے گلے کی طرح یہ کام اس تواتر سے ایک خاص وقت پر اور مخصوص انداز سے پہلے ہرگز نہیں ہوتا تھا۔ اس سے قبل ہمارے یہاں یہ کام گاہے بہ گاہے ہوا کرتا تھا۔ دوسرے یہ کہ اس کی بردباری اور متانت کو بہرحال ملحوظِ خاطر رکھا جاتا تھا۔ بردباری ور متانت کا مطلب یبوست ہرگز نہیں ہوتا۔ شگفتہ انداز، بلکہ طنز و مزاح تک میں بردباری اور متانت کا رویہ دیکھا جاسکتا ہے۔

اس لیے کہ اصل میں یہی وہ شے ہے جو اپنے کام سے آپ کی وابستگی اور اُس کے لیے پیشِ نظر مقصد کے معنی کا تعین کرتی ہے۔ مقصد بڑا ہو تو وابستگی ہمیشہ گہری بنیادوں پر قائم ہوتی ہے، بہ صورتِ دیگر معاملہ صرف میلے ٹھیلے کا ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہ بات واضح طور پر سمجھنے کی ہے کہ ادب عوام کے لیے تفریحِ طبع کا سامان رکھنے کے باوجود اپنی سرشت میں فکر و نظر سے تعلق رکھنے والی چیز ہے۔ تفریح اور شگفتگی کے باوصف یہ اپنے اندر ایک سطح سنجیدگی اور متانت کی بھی رکھتا ہے۔ یہی سطح اس کے معنی کی فکری جہت کو سامنے لاتی ہے۔ اسی کے ذریعے رویوں کی تشکیل اور ذہن سازی کا عمل ہوتا ہے۔ لہٰذا سمجھنے کی بات یہ ہے کہ فکری و نظری مقاصد کے حصول کے لیے میلے ٹھیلے کا انداز کارآمد ہوہی نہیں سکتا، وہ تو صرف وقت گزاری اور تفریح کا ذریعہ ہوتا ہے۔

اپنے آخری زمانے میں ایک موقعے پر انتظار حسین صاحب نے کہا تھا کہ یہ جو ہم اپنے دور میں ادبی کانفرنسز اور سیمینارز کی بہتات دیکھ رہے ہیں، یہ اصل میں دہشت و خوف کے اس ماحول میں ایک طرح سے ہماری تہذیبی روح کا ردِعمل ہے۔ ہمارے دور میں غیرمعمولی سطح پر پھیلے ہوئے اس ادبی سماجیات کے پورے سلسلے کو اگر اس زاویے سے دیکھا جائے تو یہ بہت بامعنی اور خوش آئند معلوم ہونے لگتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے، مگر یہاں رُک کر دیکھیے اور سوچیے، کیا واقعی ایسا ہے؟ ہم اس سوال کا جواب نفی میں دیں گے— لیکن یہ حرفِ انکار ذرا سی وضاحت چاہتا ہے۔

ابتدا میں، یعنی دس گیارہ برس پہلے جب یہ سلسلہ آغاز ہوا تھا اور ایک کے بعد دوسری جگہ کانفرنس یا سیمینار کا انعقاد ہونے لگا تو کہا جاسکتا تھا کہ اُس وقت ان کارروائیوں کے عقب میں دہشت گردی کے خلاف ہمارے تہذیبی و ادبی ردِعمل کی آرزو ہی کام کررہی تھی، لیکن بعد میں صورتِ حال خاموشی سے اور غیر محسوس انداز میں تبدیل ہوگئی۔ یہ اُس وقت ہوا جب اس کام میں کچھ اور قوتیں بھی راہ بناکر داخل ہوگئیں۔

یہ قوتیں ہمارے قومی، سماجی، تہذیبی اور ادبی نظام و اقدار سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔ ان کا منبع کہیں اور ہے اور مقاصد بھی الگ ہیں۔ ان قوتوں نے پہلے ہمارے ردِعمل کے اس سلسلے میں اپنی جگہ بنائی اور پھر اپنے اصل مقاصد کے حصول اور ایجنڈے کی تکمیل کے لیے مصروفِ کار ہوگئیں۔ چناںچہ آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان سیمینارز اور کانفرنسز کی وہ صورتِ حال ہے اور نہ ہی اُن کے وہ مسائل ہیں جو ابتدائے کار میں واضح طور پر نظر آتے تھے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اس عرصے میں ہمارے یہاں سماجی و سیاسی صورتِ حال بھی بدلی ہے۔ دہشت گردی کے روزمرہ معمولات پر نمایاں حد تک قابو پالیا گیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پہلے آپریشن ضربِ عضب اور بعد میں ردالفساد نے دہشت و خوف کے ماحول کے لیے نہ صرف ایک قومی بیانیہ تشکیل دیا اور سماجی شعور اجاگر کیا، بلکہ ملکی سطح پر نہایت نمایاں حد تک اس منظرنامے کو تبدیل بھی کیا۔ ظاہر ہے، یہ تبدیلی جوہری نوعیت کی تھی اور سمجھنا چاہیے کہ اس نوع کے کام کسی خاص مقصدی اور زمانی فریم میں آغاز ہوتے ہیں، اس فریم کی تبدیلی کے ساتھ ہی اُن کی معنویت، اہمیت اور ضرورت تبدیل ہوجاتی ہے۔

اس مسئلے کی داخلی حقیقت کو جاننے اور عصری منظرنامے میں اس صورتِ حال سے آگاہی کے بعد اب یہاں دو باتیں پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔ اوّل یہ کہ اس سلسلے کا مقصدی فریم بدل چکا ہے، دوم جیسا کہ سطورِ بالا میں کہا گیا کہ اس میں کچھ خارجی قوتیں اپنے مقاصد اور ایجنڈے کے ساتھ داخل ہوچکی ہیں۔ چناںچہ اب یہ وہ شے نہیں ہے جو پہلے ہم اسے سمجھ رہے تھے۔ اس کی داخلی کیمیا بدل چکی ہے، سو اب یہ ہماری قدروں کی پاس داری نہیں کررہا، بلکہ اس کے برعکس اثرات مرتب کررہا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ بات قطعیت کے ساتھ اور واضح طور پر جان لینی چاہیے کہ ایک سلسلہ جس میں خود ہماری تہذیبی قدریں زوال آمادہ دکھائی دیں، وہ بھلا ہمارے تہذیبی ردِعمل کا مظہر کیسے ہوسکتا ہے؟

ممکن ہے، اس کام سے وابستہ کچھ اداروں اور افراد نے اس پوری صورتِ حال کو اس نظر سے دیکھا نہ ہو اور وہ اس کی حقیقت سے واقف ہی نہ ہوں اور وہ اپنی پرانی دُھن میں مگن اب بھی اُسی طرح اپنا کام کیے جارہے ہوں۔ یہ ضروری ہے کہ اب ہم انھیں اس طرف متوجہ اور حقیقتِ حال سے آگاہ کریں۔ یہ کام دو وجوہ سے ضروری ہے۔ ایک یہ کہ اس میں ہمارے انفرادی، اجتماعی اور ملکی وسائل صرف ہورہے ہیں، دوسرے یہ کہ ہم فکری، نظری اور جذباتی انویسٹ منٹ جس شے پر کررہے ہیں، وہ اب اپنے اصل فریم ورک سے باہر نکل چکی ہے۔ اس کے صغریٰ کبریٰ بدل چکے ہیں۔ وہ اب حقیقت نہیں ہے، بلکہ التباس ہے۔ چناںچہ اس کی اصلیت کو سمجھنے کے بعد ہمیں اس التباس کا پردہ چاک کرنا اور لوگوں کو حقیقتِ حال سے آگاہ کرنا چاہیے۔

اس گفتگو کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان کانفرنسز اور سیمینارز کے ذریعے کیے گئے سب کاموں کی مکمل نفی کردی جائے جو کہ اب تک اس سلسلے میں ہوتے رہے ہیں اور کہا جائے کہ اب یہ سلسلہ ختم ہوجانا چاہیے۔ بالکل نہیں۔ مراد صرف یہ ہے کہ ہمیں آئندہ آنکھیں کھول کر اور سنبھل کر وہ اقدامات کرنے چاہییں جن کی واقعی ہمیں ضرورت ہے اور جن کا تقاضا ہمارے داخل میں بھی ہے اور وقت بھی جس کا احساس دلا رہا ہے۔ چناںچہ ہمیں سب سے پہلے اُن قوتوں کو پہچاننا چاہیے جو اِن مظاہر کے ذریعے ہماری توانائی اور جستجو کے جذبے کو خود ہمارے خلاف استعمال کرکے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ اس کے بعد اپنا قبلہ درست اور اپنے اہداف واضح کرکے پھر اپنی قوتوں کو صرف کرنا چاہیے۔ ادب کی سماجیات کا بھی بے شک معاشرے میں ایک کردار ہوتا ہے، لیکن مقدم سماجیات کو نہیں خود ادب کو ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ:

اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی

اگر نہ ہو تو مسلماں بھی کافر و زندیق

The post ادب کی سماجیات اور ہمارا عہد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2GVcItc
via IFTTT

Trump's New Executive Orders Make It Easier To Fire Federal Workers

0 comments

Trump's New Executive Orders Make It Easier To Fire Federal WorkersPresident Donald Trump on Friday signed a series of executive orders that




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2ISogPG

USC President Resigns in Wake of Scandal

0 comments

USC President Resigns in Wake of ScandalUSC President C-L Max Nikias has resigned, following allegations made by students that a campus gynecologist sexually abused them.




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2IQL2Yv

Mystery 'Wolf-Like' Animal Reportedly Shot In Montana, Baffles Wildlife Officials

0 comments

Mystery 'Wolf-Like' Animal Reportedly Shot In Montana, Baffles Wildlife OfficialsMontana wildlife officials are puzzled by the carcass of wolflike animal they




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2KVE7xG

Fight breaks out between passengers on American Airlines flight

0 comments

Fight breaks out between passengers on American Airlines flightCell phone video captures a flight attendant telling passenger Jason Felix that he can’t have more alcohol during a flight from St. Croix to Miami. A fight broke out after he threatened another passenger and Felix now faces federal charges.




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2Jam4q8

Israeli security firm allegedly targeted U.S. officials

0 comments

Israeli security firm allegedly targeted U.S. officialsAn NBC News investigation reveals an alleged plot by Black Cube to discredit two advisers to President Obama that were involved in drafting the Iran nuclear deal.




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2KXHSCX

12 Sweets You Can Make With Plums

0 comments

12 Sweets You Can Make With Plums




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2IQ3z7l

Another Cuba plane crash survivor dies, death toll rises to 112

0 comments

Another Cuba plane crash survivor dies, death toll rises to 112One of the survivors of the plane crash just outside Havana airport last week died early on Friday, state-run media cited the Cuban government as saying, raising the death toll from one of Cuba's worst air disasters to 112. Emiley Sanchez, a 40-year old Cuban from the eastern city of Holguin where the Boeing 737 had been heading, died in a hospital in the capital due to "severe traumatic lesions and burns" suffered in the accident. "Her state was extremely critical with a unfavorable prognostic and on a progressive downwards path that we could not reverse," the Health Ministry said in a statement read on state-run radio station Radio Reloj.




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2s7u8yy

'That’s ridiculous': Key Obama adviser dismisses Trump's 'Spygate' claim

0 comments

'That’s ridiculous': Key Obama adviser dismisses Trump's 'Spygate' claimAvril Haines, who served as President Obama's deputy national security adviser, told the Yahoo News podcast "Skullduggery" that it's "ridiculous" for President Trump to claim that "Spygate" is one of the biggest political scandals in U.S. history.




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2sg7LWH

Border Patrol Alters Account Of Guatemalan Woman's Death

0 comments

Border Patrol Alters Account Of Guatemalan Woman's DeathU.S. immigration authorities have altered their account of the Border Patrol's




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2KWfsck

Explosion in Toronto-area restaurant leaves at least 15 injured, manhunt underway

0 comments

Explosion in Toronto-area restaurant leaves at least 15 injured, manhunt underwayTwo men entered a popular Indian restaurant near Toronto Thursday night —one of them carried a bucket of paint that concealed a bomb. Investigators say the attack may have been the work of organized crime figures.




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2LyY0LZ

Teacher hailed a hero after Indiana school shooting

0 comments

Teacher hailed a hero after Indiana school shootingSeventh graders were taking a test in science teacher Jason Seaman’s class when a student opened fire on Friday. Seaman was shot three time as he tackled the shooter after one of his students was hit.




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2xfSPhc

Survey reveals most popular habits of road-trippers in time for Memorial Day weekend

0 comments

Survey reveals most popular habits of road-trippers in time for Memorial Day weekendThe all-American road-trip season kicks off this Memorial Day weekend in the US, and that means the inevitable backseat tussle between crabby kids and disagreements on what to listen to in the car. 




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2s9CS7h

'Trump's son should be concerned': FBI obtained wiretaps of Putin ally who met with Trump Jr.

0 comments

'Trump's son should be concerned': FBI obtained wiretaps of Putin ally who met with Trump Jr.The FBI has obtained wiretapped conversations involving Alexander Torshin ahead of his meeting with the president's son.




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2IQ0QPm

Driver survives plunging 700 feet off California roadway

0 comments

Driver survives plunging 700 feet off California roadwayCRESTLINE, Calif. (AP) — A Southern California driver managed to call for help after her car plunged 700 feet (213 meters) off a road in the San Bernardino Mountains, and rescuers marveled at her survival.




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2J5tj2O

Canada restaurant blast: Bomb explosion injures 15 people in Mississauga as two suspects flee

0 comments

Canada restaurant blast: Bomb explosion injures 15 people in Mississauga as two suspects fleeCanadian police are hunting for two men who set off a homemade bomb in an Indian restaurant in Mississauga, injuring 15 people on Thursday evening.  Footage released by police shows the two suspects entering the city's Bombay Bhel restaurant with an object resembling a paint can moments before the bomb went off. The pair fled the scene late on Thursday and a manhunt is under way. The motive for the attack is unknown and there was no immediate claim of responsibility. Explosion: Multiple people injured following reports of an explosion at Bambay Bhel Restaurant 5035 Hurontario St near Eglinton in Mississauga. pic.twitter.com/1Tb9ODag88— Tony Smyth (@LateNightCam) May 25, 2018 "Nothing was said by these individuals," said  Peel Regional Sergeant Matt Bertram. "It appears they just went in, dropped off this device and took off right away."  Two separate family parties were going on at the restaurant at the time of the attack with children under the age of ten present. A CCTV image released by police shows two suspects walking in the Bombay Bhel restaurant before the bomb exploded. One is carrying an object Credit: Peel Regional Police Three of those hurt had what were described as "critical blast injuries". Rafael Conceicao, a student from Sao Paulo, Brazil, was near the restaurant when the explosion occurred.  "Glass was broken in the street ... Everything was destroyed. Lots of blood on the floor. Many people were screaming. They were trying to run out from the restaurant," he said. Officials said three Indian-Canadians suffered critical injuries but are in a stable condition in hospital.  The remaining 12 victims suffered minor and superficial injuries, police said. The ages of the injured range from 23 to 69.  A police officer walks in front of shattered glass at the restaurant on Thursday evening Credit: MARK BLINCH /Reuters The two male suspects were described as around 5ft 10in to 6ft tall with light skin. Their faces were covered during the attack.    One of the suspects was described as "stocky" and in his mid-20s, while the other was of thin build, police said. Both men were wearing blue jeans and dark hoodies, with their faces covered. Emergency services outside the Bombay Bhel restaurant Credit: MARK BLINCH /Reuters "There is no indication that this is a terrorism act. There is no indication that this is a hate crime at this time. We haven't ruled anything out as we start our investigation," said Peel Regional Police Chief Jennifer Evans. "Every police resource is being used right now to locate the people responsible for this horrendous act." Peel Regional Police said they received a call at just after 10.30pm local time (3.30am BST). Heavily armed tactical officers were part of the large police response at the scene. Police are seeking to establish a motive for the attack on Thursday Credit: MARK BLINCH /Reuters The plaza where the restaurant is located remained sealed off on Friday. "It was an extremely horrific and sad incident that happened at our Hwy 10 location," the restaurant said in a Facebook post. Mississauga, which is Canada's sixth largest city and has a population of 700,000, is near Lake Ontario and about 20 miles west of Toronto. The explosion in Mississauga comes a month after a driver ploughed his white Ryder rental van into a lunch-hour crowd in Toronto, killing 10 people and injuring 15. 




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2Lwu5UR

Europe's New Privacy Law Takes Effect Today. Here's How the World Is Handling Digital Rights

0 comments

Europe's New Privacy Law Takes Effect Today. Here's How the World Is Handling Digital RightsThe European Union's much-vaunted General Data Protection Regulation (GDPR) comes into force this week.




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2xhC8Ss

Step Inside This Classic Watch Hill Home

0 comments

Step Inside This Classic Watch Hill Home




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2LvNuFr

Rose McGowan Reacts to Seeing Harvey Weinstein in Handcuffs: It's 'a Very Good Feeling'

0 comments

Rose McGowan Reacts to Seeing Harvey Weinstein in Handcuffs: It's 'a Very Good Feeling'Rose McGowan says it’s both “surreal” and “real” to see Harvey Weinstein in handcuffs.




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2J9d1pw

Weird Father's Day Gifts Your Dad Doesn't Know He Wants (But He Does)

0 comments

Weird Father's Day Gifts Your Dad Doesn't Know He Wants (But He Does)As a dad, I take Father's Day seriously ― but not the gifts.




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2kpeWIC

کم جونگ اُن جوہری ہتھیار ترک کرنے اور ٹرمپ سے ملاقات کے لیے پرعزم: جنوبی کوریا

0 comments
جنوبی کوریا کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کہ رہنما کم جونگ ان مکمل طور پر جوہری ہتھیاروں کو ترک کرنے اور امریکی صدر کے ساتھ طے شدہ ملاقات کے لیے پرعزم ہیں جبکہ وائٹ ہاؤس نے مذاکرات کی تیاری کے لیے سنگاپور ٹیم بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔

from BBC News اردو - صفحۂ اول https://ift.tt/2ktoBhw
via IFTTT

’پاکستان میں آئندہ انتخابات 25 جولائی کو ہوں گے‘

0 comments
پاکستان کے صدر ممنون حسین نے ملک میں 25 جولائی 2018 کو عام انتخابات کروانے کی منظوری دے دی ہے۔

from BBC News اردو - صفحۂ اول https://ift.tt/2KTaZXV
via IFTTT

کیا شرپا کی موت کا تعلق ایورسٹ کی چوٹی پر ایک لاکھ ڈالر کی کرپٹوکرنسی کے سٹنٹ سے ہے؟

0 comments
ٹیکنالوجی کی ایک کمپنی نے کہا ہے کہ رواں ماہ ایک شرپا کی موت کو ان کے ایک تشہیری مہم سے جوڑا جا رہا ہے جس میں ایورسٹ کی چوٹی پر ایک لاکھ ڈالر مالیت کی ایک نئی کرپٹو کرنسی کو چھپانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

from BBC News اردو - صفحۂ اول https://ift.tt/2s7lgc7
via IFTTT

جب برطانیہ کے آسمانوں پر 15 ہزار بار بجلی کوندی

0 comments
بی بی سی موسمیات کے مطابق ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب برطانیہ کے آسمانوں پر چار گھنٹے کے دوران 15 ہزار آسمانی بجلیاں چمکیں۔

from BBC News اردو - صفحۂ اول https://ift.tt/2IP71ij
via IFTTT

آتش فشاں کے باعث کتنے لوگ مرتے ہیں؟

0 comments
آتش فشاں سے بہتے ہوئے سرخ لاوا کے دریا بظاہر بےحد خطرناک نظر آتے ہیں، لیکن کیا یہ واقعی اتنے ہی مہلک ہیں؟

from BBC News اردو - صفحۂ اول https://ift.tt/2s9UXCc
via IFTTT

گذشتہ ہفتے کا پاکستان: سپائی کرانیکلز پر تنازع، فاٹا کا انضمام اور عمران خان کو کیا یاد نہیں؟

0 comments
گذشتہ ہفتے کے پاکستان میں سپائی کرانیکلز پر تنازع، فاٹا کا انضمام اور گرمی کی لہر تصاویر میں

from BBC News اردو - صفحۂ اول https://ift.tt/2IRifmH
via IFTTT

کیا اٹلی بھیجی جانےوالی لڑکی کا اسقاطِ حمل ہوا تھا؟

0 comments
اٹلی کی رہائشی ایک 19 سالہ پاکستانی لڑکی کو چند روز قبل پاکستان کے شہر لاہور میں اس کے والدین کے گھر سے بازیاب کروا کر واپس اٹلی بھیجا گیا تھا۔

from BBC News اردو - صفحۂ اول https://ift.tt/2sb2sI6
via IFTTT

ریال میڈرڈ چیمپیئنز لیگ کی مسلسل تیسری بار فاتح، لیور پول کو شکست

0 comments
فٹبال کلب ریال میڈرڈ نے چیمپیئنز لیگ کے فائنل میں لیور پول کو شکست دے کر مسلسل تیسری بار ٹائٹل اپنے نام کر لیا ہے۔

from BBC News اردو - صفحۂ اول https://ift.tt/2IOL5E8
via IFTTT

معدومی کے خطرے کا شکار پانچ جانور

0 comments
ماہرین کا کہنا ہے کہ 1970 کے بعد سے دنیا میں جنگلی حیات میں 58 فیصد کمی ہوئی ہے اور یہ پانچ جانور ایسے ہیں جو معدومی کے خطرے کا شکار ہیں

from BBC News اردو - صفحۂ اول https://ift.tt/2L0NHQ6
via IFTTT

اپنی ٹیم کی خاطر خود کو ہلکان کیوں کریں؟

0 comments
سائنس نے بالاآخر یہ بات ثابت کر دی ہے جو فٹبال کے شائقین پہلے سے ہی جانتے ہیں، کہ اپنی ٹیم کو کھیلتے ہوئے دیکھنا کتنا تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔

from BBC News اردو - صفحۂ اول https://ift.tt/2IODq8F
via IFTTT

سابق حسینہ کائنات سشمیتا سین آج کل کیا کر رہی ہیں؟

0 comments
فلسماز کرن جوہر اور زویا اختر نے ساتھ مل کر کون سی فلم بنائی ہے، سابق حسینہ کائنات سشمیتا سین آج کل کیا کر رہی ہیں اور جان ابراہم کی فلم 'پوکھرن' میں کیا کچھ ہے؟

from BBC News اردو - صفحۂ اول https://ift.tt/2s9Ald5
via IFTTT

Abigail Smul, Matthew Stern

0 comments

By Unknown Author from NYT Fashion & Style https://ift.tt/2IMnMPa

Abigail Phillip, Marcus Richardson

0 comments

By Unknown Author from NYT Fashion & Style https://ift.tt/2J5rWRN

What’s on TV Sunday: ‘The Fourth Estate’ and ‘The Break With Michelle Wolf’

0 comments

By GABE COHN from NYT Arts https://ift.tt/2kuiZU8

Woman Killed By Border Patrol Identified As Claudia Patricia Gomez Gonzales, 20

0 comments

Woman Killed By Border Patrol Identified As Claudia Patricia Gomez Gonzales, 20The woman shot and killed by U.S. Border Patrol on Wednesday has been




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2s9CqWy

Mother and child die as baby poisoned through breast milk after snake bite

0 comments

Mother and child die as baby poisoned through breast milk after snake biteAn Indian woman who was bitten by a snake in her sleep and unknowingly breastfed poisoned milk to her daughter has died along with the child, police said Friday. The 35-year-old woman from Uttar Pradesh state did not realise she had been bitten when she woke and breastfed her daughter. The three-year-old girl and the mother fell ill on Thursday and both died before they could reach hospital, police inspector Vijay Singh told AFP. The family spotted the snake in another room but the creature escaped. A post-mortem is to be carried out but police have registered a case of accidental death, the officer added. India is home to some 300 snake species and 60 are highly venomous, including the Indian cobra, krait, Russell's viper and saw-scaled viper. India accounts for 46,000 of the 100,000 snakebite deaths around the world each year, according to a 2011 study by the American Society of Tropical Medicine and Hygiene.




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2xguZBO

EPA chief's security bill soars, agency cites death threats

0 comments

EPA chief's security bill soars, agency cites death threatsU.S. Environmental Protection Agency chief Scott Pruitt's security detail has cost taxpayers well over $3 million so far, up sharply from his predecessor during an equivalent period, according to details released by the agency, which said Pruitt's life had been threatened. Pruitt, who environmental groups have accused of lax enforcement and cozy ties with industry, requested 24-hour protection beginning on his first day in office. It was an unusual measure for the nation's top environmental regulator, and Pruitt and the agency have said it was justified by a high number of threats to his life.




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2kpYAPX

Dershowitz: My friends, family are horrified by my Trump defense

0 comments

Dershowitz: My friends, family are horrified by my Trump defense“The left adored me for my statements about Bill Clinton,” Dershowitz says in a new episode of the Yahoo News podcast “Skullduggery.” “And they despise me for making exactly the same statements about a political figure they despise.”




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2IMaLRz

ہفتہ، 26 مئی، 2018

Afghan diplomats in Pakistan targeted by 'state-backed hackers'

0 comments
Embassy sources in Pakistan tell the BBC that staff members received warnings from Google this month.

from BBC News - World https://ift.tt/2IOEucS

Oleg Deripaska resigns from Rusal amid US sanctions row

0 comments
The Russian oligarch leaves the aluminium producer to try shield it from US sanctions against him.

from BBC News - World https://ift.tt/2IIPXie

Cycling through Africa: Turkish Hasan Söylemez's adventure of a lifetime

0 comments
Turkish journalist Hasan Söylemez is cycling across Africa asking people about their dreams.

from BBC News - World https://ift.tt/2ISegWE

British men 'increasingly' targeted by sextortion

0 comments
Experts say that Ivory Coast in West Africa has become a hotspot for the scammers.

from BBC News - World https://ift.tt/2IMJeUo

Trump and Kim: An on/off bromance

0 comments
Donald Trump calls off his meeting with Kim Jong-un, in another twist in their turbulent story.

from BBC News - World https://ift.tt/2KSRsqp

Harvey Weinstein accuser Rose McGowan reacts to his arrest

0 comments
The actress, one of the movie mogul's accusers, says it's 'a slap in the face of abusive power'.

from BBC News - World https://ift.tt/2sdD1Ww

Champions League final: Madrid's Liverpool supporters

0 comments
A group of Reds-supporting ex-pats and Spaniards look forward to the Champions League final.

from BBC News - World https://ift.tt/2INkKX4

Bishop Curry: 'I love President Trump and I pray for him'

0 comments
The bishop who lit up the royal wedding has turned his attention to Washington.

from BBC News - World https://ift.tt/2LsSKcM

'Wolf-like' creature shot near Montana ranch puzzles experts

0 comments
State wildlife experts are seeking DNA analysis to pinpoint the mysterious creature's species.

from BBC News - World https://ift.tt/2LtLZaZ

Woman fights off grizzly bear, then walks to safety

0 comments
Despite severe injuries, Amber Kornak walked two miles to her car and drove to find medical help.

from BBC News - World https://ift.tt/2LrpIKP

Coming home after 130 years

0 comments
A family of Syrian refugees returns to the island that their great-grandparents fled 130 years ago.

from BBC News - World https://ift.tt/2GPGC2i

Zhao Kangmin: The man who 'discovered' China's terracotta army

0 comments
Zhao Kangmin was the first expert to identify the ancient warriors, one of China's cultural treasures.

from BBC News - World https://ift.tt/2KVwzLq

Week in pictures: 19 - 25 May 2018

0 comments
A selection of the best news photographs from around the world, taken over the past week.

from BBC News - World https://ift.tt/2sfaMGI

Liverpool-Real Madrid: How Mo Salah fever has gripped Africa

0 comments
Africans have been overcome by Mo Salah fever, ahead of the Liverpool-Real Madrid showdown.

from BBC News - World https://ift.tt/2sgoc5v

Tragic tale of nursing mother's snakebite shocks India

0 comments
The death of a toddler who drank poisoned breastmilk draws attention to a global health priority.

from BBC News - World https://ift.tt/2LvSgD2

The people most let down by scrapped N Korea talks

0 comments
North and South Koreans had high hopes for peace with the now-cancelled Trump-Kim summit.

from BBC News - World https://ift.tt/2IHOvwd