اتوار، 27 مئی، 2018

قدیم ہندو موسیقی میں رَس اور تاثیر مسلمانوں کی دین ہےFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

گزشتہ ڈیڑھ عشرہ سے وطن عزیز کی ابتر معاشی، سیاسی اور امن و امان کی صورت حال کے باعث جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی متاثر ہوئے وہاں فنون لطیفہ سے وابستہ سرگرمیاں بھی زوال پذیر ہوئیں اور نتیجتاً میوزک انڈسٹری بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی لیکن آج جو بچی کھچی موسیقی ہے، وہ ماہرین کے مطابق روح کی غذا کہلانے کی مستحق نہیں، کیوں کہ آج کا میوزک کئی دہائیوں کے ریاض کا نتیجہ نہیں بلکہ جس کا دل چاہا، جدید آلات میوزک خریدے اور گلوگار بن بیٹھے۔

موسیقی کی اصل پہچان اور بنیاد کلاسیکل میوزک ہے، جو حکومت اور جلد باز نئی نسل کی عدم توجہی کے باعث اپنے جائز مقام سے محروم کر دی گئی ہے۔ لیکن ان نامساعد حالات میں بھی چند عظیم موسیقار میوزک کی اصل کو اس کی روح کے عین مطابق زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک نام استاد غلام حیدر خاں کا ہے جنہیں اُستادان فن نے فخر موسیقی کے لقب سے ممتاز کیا۔

یہ کہنا بے جا نہ ہو گاکہ لمحہ موجود میں برصغیر پاک و ہند میں کلاسیکل میوزک کو سمجھنے، پرکھنے اور اس کی ترویج میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ والد کلارنٹ نواز استاد صادق علی مانڈو خاں کو حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا جا چکا ہے، جسے جاننے کے بعد یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ وہ ایک فنکار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1935ء میں قصور میں پیدا ہونے والے عظیم موسیقار کو بچپن سے ہی موسیقی سے اتنا شغف تھا کہ پرائمری تعلیم کے دوران ہی انہیں چار راگ یاد ہو چکے تھے۔ تقسیم ہند سے قبل جب وہ قصور سے چند جماعتیں پڑھنے کے بعد لاہور آئے تو انہیں رنگ محل مشن سکول میں داخل کروا دیا گیا۔

جہاں سپورٹس کے علاوہ موسیقی کی تعلیم بھی لازمی تھی، یوں استاد غلام حیدر خاں کو اپنے شوق کو جنون میں بدلنے کا موقع مل گیا۔ چھٹی جماعت میں انہیں گلوکاری کے ایک مقابلہ میں پہلا پرائز ملا تو انہیں اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کا بہانہ مل گیا۔ میٹرک کے بعد انہیں روٹی روزی کی فکر ہوئی تو پہلی ملازمت ایک اخبار (سول اینڈ ملٹری گزٹ) میں بطور پروف ریڈر کی۔ 1959ء میں انہوں نے پہلی شادی کی، جس میں سے ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جبکہ دوسری شادی سے تین بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ تاریخ اور انگریزی زبان سے انہیں خاص شغف ہے، جس کا اظہار انہوں نے اپنی کتابوں اور مضامین کے ذریعے خوب کیا۔فرائیڈے ٹائمز میں ان کے کالم چھپتے رہے۔ انہوں نے 7 کتب لکھیں، جن میں نغماتِ خسرو، کہت سدا رنگ، 100 اچھوپ راگ، تزکیہ موسیقی، قصور گھرانے کے نامور فنکار، میوزک اینڈ ریڈیو پاکستان اور تازہ ترین ’’32۔ٹھاٹھ کا نظامِ موسیقی‘‘ شامل ہے۔

یہ آخری کتاب 2016ء میں شائع ہوئی ۔ ان کے استادوں میں  استاد فتح علی خاں جالندھری(نصرت فتح علی خان کے والد)، استاد صادق علی مانڈو خاں، استاد ستار خان اور استاد سردار خاں جیسے عظیم لوگ شامل ہیں۔ انہیں دو بار امیر خُسرو ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے جبکہ ریڈیو پاکستان کی طرف سے پانچ بار تمغہ  حسن کارکردگی کے لئے نامزد ہوئے۔ ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر ریسرچ سیل اور پاکستان کلاسیکل میوزک گلڈ کے تاحیات جنرل سیکرٹری کو ریڈیو اور ٹی وی کی فنکار برادری متفقہ طور پر فخر موسیقی قرار دیتی ہے۔ ’’ایکسپریس‘‘ نے اس عظیم موسیقار، گلوکار اور ماہر موسیقی کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جو نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: آپ نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کی ابتداء کیسے کی؟

استاد غلام حیدر خاں: میرے دادا برٹش بینڈ سے  ریٹائر ہوئے تھے، اس لئے میرے تایا اور والد کو گانا چھوڑ کر بینڈ میں شمولیت کے لئے ساز پکڑنے پڑے۔ والد کو 39ء میں  آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت مل گئی تو 1942ء میں ہم قصور سے لاہور شفٹ ہو گئے۔ موسیقی چوں کہ ہمارے گھرانے کا خاصا تھی تو وہ میرے اندر بھی بچپن میں ہی رچ بس گئی۔ میں تیسری کلاس میں ہی اچھا خاصا گانے لگا تھا۔

دوران تعلیم میں چائلڈ سٹار کے طور پر ریڈیو پاکستان آتا تھا، لیکن ریڈیو پاکستان میں باقاعدہ کلاسیکل آرڈر شمولیت 26 جنوری 1960ء میں اپنے پہلے لائیو پروگرام سے ہوئی، جس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا۔ اس کے ساتھ میں نے کالم نویسی بھی کی، مساوات میں موسیقار کی ڈائری کے عنوان سے کالم لکھے اور پاکستان ریووو میں انگریزی مضامین لکھے۔ کچھ عرصہ پی ایل ڈی میں بھی خدمات سرانجام دیں۔ کتاب محل پبلشرز کے لئے میں نے تقریباً 40 سال فری لانس کام کیا، یوں لٹریچر سے بھی کافی شغف رہا۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے موسیقی روح کی غذا ہے، لیکن آپ کے نزدیک موسیقی کی تعریف کیا ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: موسیقی ایک علم ہے، جو دو مضامین کا مرکب ہے، فزکس اور ریاضی۔ فزکس میں ساؤنڈ ہے اور ریاضی میں گنتی، جسے ہم ماتروں یا سُروں میں استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ باقاعدہ ایک مضمون ہے، لیکن ہم صرف گانے کو کہتے ہیں کہ یہ علم ہے، علم اس کے علاوہ ہے۔ گانا تو انسان کے اندر کا ہے اور یہ Abstract  شکل میں ہے۔

ایکسپریس: وہ کون سے محرکات ہیں، جن کے باعث کلاسیکل میوزک آج زبوں حالی کا شکار جبکہ اس کے مقابلے میں پاپ میوزک فروغ پا رہا ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: پہلی تو بات یہ ہے کہ ہر وہ فن چاہے وہ میوزک ہو یا ڈرامہ، وہ پنپتا ہے مذہب اور حکومت سے موافقت کی وجہ سے، ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی فن کو سپورٹ کرے تو وہ چلتا رہتا ہے، لیکن اب اگر ان دونوں کی طرف سے پذیرائی نہ ملے تو فن مر جاتا ہے۔

ایکسپریس: کیا آپ نہیں سمجھتے کہ موسیقی سے اکتساب کا جو طریقہ ہے، وقت گزرنے کے ساتھ اس کو بدلنے یا عصر حاضر کے مطابق بنانے میں ہم سے کوتاہی ہوئی؟

استاد غلام حیدر خاں: ایسا نہیں ہے، لیکن جب ادارے خود ہی کسی چیز کو پروموٹ نہ کرنا چاہیں تو پھر وہ تنزلی کی طرف آ ہی جاتی ہے۔ بات پھر حکومت کی طرف چل نکلی ہے کہ جب حکومتی سطح پر اس فن کی پروموشن ختم ہو جائے گی تو پھر ترقی یا جدت کیسے آئے گی۔ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے مجھے میوزک سے بہت کچھ ملا ہے، میں نے اپنا گھر میوزک سے بنایا ہے۔ کلاسیکل میوزک کی ڈیمانڈ ہی کم ہوتی ہے۔ اچھا! پھر یہ ڈیمانڈ آج سے نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہی کم ہے۔ اس کے چاہنے والے ضرور ہیں، لیکن اسے پذیرائی کم لوگوں سے ہی ملی۔

ایکسپریس: آپ کلاسیکل میوزک کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: یہ مرتا (ختم) کبھی نہیں، لیکن اس کا عروج 60ء سے 80ء تک رہا، پھر اس پر بیرونی حملے ہونے لگے۔ میری زندگی میں کم از کم تین بار پاپ میوزک کا اس پر حملہ ہوا، لیکن سب سے آخری حملہ بہت طاقت ور ثابت ہوا، جو گزشتہ چند سالوں میں ہوا، لیکن جو موسیقی اُس دھرتی کی نہ ہو وہ آخر کار وہاں سے چلی جاتی ہے۔ پھر لوگوں کو  اپنی اساس کی طرف لوٹنا ہی پڑتا ہے، اس کی مثال کچھ یوں ہو سکتی ہے کہ آج بھی ’’دم مست قلندر‘‘ جیسے گانوں کو ہی ری مکس کرکے سنایا اور دکھایا جا رہا ہے، کیوں کہ یہ میوزک خون میں رچا ہوا اور کانوں میں گُھلا ہوا ہے۔

ایکسپریس: بھارتی گائیکہ کشوری امونکر نے گزشتہ دنوں میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ قدیم بھارتی کلاسیکل موسیقی ’ ویدوں کی موسیقی جو مذہبی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی تھی‘ اسے مسلمانوں کے اثرات سے نقصان پہنچا ہے۔ مسلمانوں نے قدیم موسیقی میں ملاوٹ کر کے اس کی تاثیر کم کر دی۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: کشوری امونکر موگو بائی کُردیکر کی بیٹی اور میری بہت پسندیدہ آرٹسٹ ہے، وہ مجھے تکنیکی اعتبار سے زاہدہ پروین سے بھی زیادہ پسند ہے، لیکن اس کے گانے میں یہ جو رس ہے وہ بھارتی موسیقی میں مسلمانوں کی Contribution وجہ سے ہے۔ میوزک نے ہر دور میں اپنا لباس بدلا ہے۔بھات کھنڈے نے یہ کہا ہے کہ ہمارا جو پہلے راگ بھیرو تھا وہ آج  کچھ اور ہے، مالکونس پہلے سات سُروں سے گاتے تھے آج کل پانچ سُر ہیں۔ اس نے کسی کا نام نہیں لیا لیکن یہ ضرور کہا کہ یوں ہمیں آج یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ آج جو ہمارے پاس میوزک ہے وہ مسلمانوں کی دین ہے۔ میرے خیال میں تکنیکی اعتبار سے حضرت امیرخسرو نے موسیقی کے سارے نظام کو ہی بدل ڈالا تھا۔

ایکسپریس: وہ لوگ جن کا کسی فنکار گھرانے سے بھی تعلق نہیں اور ریاض جیسی مشقتوں سے بھی وہ کوسوں دور ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ بہت مقبول ہیں تو اس سے حقیقی موسیقی پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: اس ضمن میں، میں یوں کہنا چاہوں گا کہ ایک معروف ڈکشنری میں لفظ عطائی کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ عطائی وہ ہے جو بغیر کسی استاد کے اپنی پریکٹس سے کامیاب ہو جائے، ہم انہیں کہتے ہیں ’’بے اُستادہ‘‘۔ لیکن دیکھیں! موسیقی کسی کی میراث نہیں ہے، جو بھی اسے سیکھے گا وہ فیض پائے گا۔ اب اس زمرے میں بڑے بڑے نام آ جائیں گے۔ پھر باپ بیٹے کا استاد نہیں ہوتا، اِس کا استاد چچا، تایا یا کوئی اور ہوتا ہے۔ میرے والد نصرت فتح علی خاں کے والد استاد فتح علی خان کے شاگرد تھے، جب میں نے دو پروگرام کر لئے اور تیسرا کرنا چاہا تو میرے والد کہنے لگے کہ میں تمہیں کچھ نہیں بتاؤں گا جب تک تم میرے استاد کے شاگرد نہیں بن جاتے، یوں میں اور میرا باپ استاد بھائی بن گئے۔ اور ہم نے اپنے استاد سے جو سیکھا اسے بطور امانت بعد میں آنے والوں تک پہنچایا بھی۔

ایکسپریس: آپ کے اساتذہ میں کون کون شامل ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: میرا سب سے پہلا استاد تو میرے والد ہیں، اس کے بعد میں کچھ عرصہ استاد ستار خاں کے پاس جاتا رہا ہوں، پھر استاد سردار خاں بھی میرے اساتذہ میں شامل ہیں، لیکن میرے باقاعدہ استاد، استاد فتح علی خاں جالندھری قوال ہیں، انہوں نے مجھے عملی طور پر سکھایا کہ راگ کیسے بنایا جاتا ہے اور آج میرے بنائے ہوئے راگ لوگ گا رہے ہیں۔

ایکسپریس: کون کون سے راگ صرف آپ سے منسوب ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: جو راگ مجھ سے منسوب ہیں، وہ میں نے خود ہی اپنے سے منسوب نہیں کر لئے بلکہ عصر حاضر کے تمام استادوں سے باقاعدہ دستخط کروائے ہیں، جنہوں نے یہ تسلیم کیا کہ یہ راگ صرف میں نے ہی بنائے ہیں۔ دھانی ملہار، سُہانی ٹوڈی اور دیپ کونس میرے بنائے راگ ہیں، جو میرے شاگرد گا رہے ہیں۔ اچھا پھر یہ جو میری آخری کتاب ہے ’’32۔ٹھاٹھ کا نظامِ موسیقی‘‘ اس میں تقریبا تمام راگ خالصتاً میری اپنی اختراع ہیں، کیونکہ یہ مدراس میں گائے جانے والے اسکیل ہیں۔  مدراس میں راگ نہیں گائے جاتے بلکہ  اسکیل استعمال ہوتے ہیں ان اسکیلوں کو میں نے راگوں کی شکل دی، جن کے کچھ نام میں نے خود رکھے اور کچھ ان سے ہی لئے۔

ایکسپریس: برصغیر میں موسیقی کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کا آج کہنا ہے کہ مروجہ ٹھاٹھ دس ہیں لیکن آپ نے 32 ٹھاٹھ پر کتاب لکھ ڈالی؟

استاد غلام حیدر خاں: اگر آپ کو کلاسیکل میوزک کا ذرا بھی شوق ہے تو حقیقت آپ کو یہ کتاپ پڑھنے کے بعد معلوم ہو سکتی ہے۔ یہ کام یہیں سے شروع ہوا تھا۔ اصل میں ایک سُر بدلنے سے پورا اسکیل بدل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایمن ایک ٹھاٹھ ہے اور راگ ایمن کے تمام سُر تیور ہیں۔ ایک اور ٹھاٹھ ماروا ہے جو ایمن کا یک سُر رکھب بدل دینے سے بنتا ہے  اس لحاظ سے دس ٹھاٹھ مکمل نہیں تھے۔ اور ایک اور بات آپ کو بتا دوں کہ 32 کے بعد33واں ٹھاٹھ بن نہیں سکتا، یہ بھی میرا دعوی ہے۔

ایکسپریس: عصر حاضر کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم آپ سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اچھی موسیقی میں آلات موسیقی کا کتنا کردار ہے اور کیا اچھی آواز آلات موسیقی کی محتاج ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: آلات موسیقی صرف دھن بنانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں،اور شروع سے ان کا استعمال کیا جاتا رہا ہے، قدیم ایران  اور رومن ایمپائر میں سازوں نے بڑی ترقی کی ہے لیکن گانے کے لئے ایک آدھا ساز ہی کافی ہوتا ہے، کوئی ایک ردھم کاساز جیسے طبلہ ہے اور آج کل ہارمونیم زیادہ زیر استعمال ہے۔ سُر کو ذہن میں رکھنے کے لئے ایک ساز ضروری ہے چاہے وہ ہارمونیم ہو، سُر منڈل ہو یا پھر تانپورہ ہو۔ باقی جتنے بھی ساز ہیں یہ آرکیسٹرا کے ہیں۔

ایکسپریس: کلاسیکل موسیقی کو کلاسیکل ہی رہنا چاہیے یا نصرف فتح علی خاں  کی طرح مشرقی موسیقی کے ساتھ مغربی موسیقی کے ملاپ جیسے تجربات درست ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: یہ تجربات پہلے بھی ہو چکے ہیں اور آج بھی ہو رہے ہیں۔ ہونے بھی چاہیں کیوں کہ بات یہ ہے کہ When in Rome, do as the romans do یہ آج ہر جگہ ہو رہا ہے تو ہمیں بھی کرنا پڑے گا۔

ایکسپریس: بھارت کے ماہرین موسیقی کومل اور تیور سُروں کی تعریف کچھ اور انداز میں کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک تیور مدھم ’ما‘ کی دوسری شکل شدھ مدھم ہے، آپ کی کہیں گے؟

استاد غلام حیدر خاں:اصل میں نہوں نے کومل مدھم کو شدھ کا نام دے دیا ہے۔ اگر ان کی بات کوتسلیم بھی کرلیا جائے کہ لفظ شدھ کہا جائے توہمارے نزدیک تو صرف ’’سا‘‘ اور ’’پا‘‘ شدھ ہوسکتے ہیں جوہلتے نہیں‘ قائم رہتے ہیں۔ باقی کوئی سُر شدھ نہیں ہے‘ کومل تیور ہی ہیں۔ اس کے متعلق میں نے آج سے دس سال پہلے جہاںبھی موسیقی پڑھائی جاتی ہے ان کو یہاں ریڈیو کی طرف سے ایک ایک چٹھی بھیجی ہوئی ہے کیونکہ اسے خوش نصیبی کہہ لیں کہ 15برس تک ممتحن بھی رہا ہوں اور پیپر بناتا رہا ہوں۔ تو طالب علموں نے جو جوابات دیئے ہوئے تھے انہیں دیکھ کر بڑی مشکل ہوتی تھی۔

ایکسپریس: آپ کی ریسرچ برصغیر پاک و ہند کے کلاسیکل میوزک تک ہی محدود ہے یا مغربی کلاسیکل موسیقی بھی آپ کے دائرہ دلچسپی میں شامل ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: میں نے مغربی کلاسیکل موسیقی کو بھی ٹچ کیا ہے، لیکن ایسا صرف اپنے سُروں اور راگوں کو ان سے ملانے کے لئے کیا ، بصورت دیگر مجھے ان کے سُروں یا راگوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کیوں کہ جو وہاں ہے، وہ سب کچھ یہیں موجود ہے۔

ایکسپریس: آپ کو اپنے اس کام کے حوالے سے دنیا میں کہاں کہاں جانے کا موقع ملا؟

استاد غلام حیدر خاں: I never left Pakistan، لیکن میرے شاگرد، کتابیں اور میوزک ہر جگہ موجود ہے۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ ہم غلام حیدر خاں کو نہیں جانتے۔ عمر نکل گئی یہاں۔ ممتاز ستارنواز ولایت خاں نے ایک بار اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر آپ نے اپنے گھر والوں کو نہیں منوایا تو پھر باہر جانے کا کیا فائدہ؟

ایکسپریس: آپ کے پورے کیریئر کے دوران وہ کون سے لوگ یا چیزیں تھیں، جنہوں نے آپ کو متاثر کیا؟

استاد غلام حیدر خاں: بطور طالب علم میں ہر گانے والے سے متاثر تھا، ہوں اور رہوں گا۔ جب میں نے گانا شروع کیا تو ہمارے ذہن میں ایک آدمی تھا، بڑے غلام علی خاں ، میں نے ان کے گائے ہوئے پر اپنے گلے کی پریکٹس کی اور بہت ریاض کیا لیکن میری قدرتی آواز بڑے غلام علی خاں سے آج بھی کوسوں دور ہے۔

ایکسپریس: آپ کے زمانہ جوانی میں لاہور میں موسیقی کی بڑی محفلیں کہاں کہاں سجتی تھیں اورگانے بجانے کا ماحول کیسا تھا؟

استاد غلام حیدر خاں: میری جوانی کے دور میں لاہور میں ٹھمری دادرا سُنا جاتا تھا، لائٹ میوزک میں لوگ اسے اچھا سمجھتے تھے۔ غزل سننے کا دور اختری بائی فیض آبادی سے شروع ہوا، اور یہاں استاد برکت علی خاں تھے ان دونوں کی گائیکی کا انداز مُجرئی تھا۔ رہی بات موسیقی کی بیٹھکوں  کی تو لاہور میں عطائی گوئیوں کی دو بڑی بیٹھکیں تھیں، ایک جی اے فاروق صاحب کی بیٹھک تھی مصری شاہ میں اور دوسری ایک پریس کے مالک باؤ قمر کی بیٹھک تھی۔ ان کے علاوہ استاد سردار خاں اور خانصاحب مبارک علی خاں کی بیٹھکیں بھی مشہور ہوئیں، جہاں ایک دوسرے کے ہاں جایا جاتا تھا۔

ہم کسی کی بیٹھک میں گئے اور وہ ہماری بیٹھک میں آئے۔ اچھا ان بیٹھکوں میں صرف آرٹسٹ ہی نہیں ہوتے تھے بلکہ عام لوگ بھی بیٹھتے تھے، جو پھر بعدازاں کارکردگی پر تبصرے بھی کیا کرتے تھے۔ اچھا ایک بات اور آپ کو لاہور کی موسیقی کے حوالے سے بتاؤں کہ یہاں میوزک ہمیشہ سے دھڑے بندی کا شکار رہا ہے۔ مشہور مورخ ابوالفضل اکبری نامہ میں لکھتے ہیں  ’’لاہور مہمان نوازوں کا شہر ہے، لوگ میلوں ٹھیلوں، عرسوں کے عادی ہیں، دن رات بازاروں میں جمگھٹے لگے رہتے ہیں، ذلِِ الہی (بادشاہ) نے تین سو سوار اور ایک ہزار پیادے یہاں مقرر کئے ہیں، اور راوی کے کنارے ایک قلعہ کی تعمیر کا بھی اعادہ کیا ہے۔ یعنی لاہور اُس وقت بھی ایسا ہی تھا۔

ایکسپریس: یقینا آپ نے مشرقی موسیقی کے ساتھ دنیا کے دیگر خطوں کی موسیقی کو بھی سنا ہو گا، تو اس تناظر میں میرا سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کی تمام موسیقی کی زبان ایک ہی ہے یا جس طرح دنیا میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں، موسیقی کی زبان بھی مختلف ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: پہلی بات تو یہ ہے کہ مختلف خطوں کی جتنی بھی موسیقی ہے، اس کا تعلق چوں کہ ہماری موسیقی سے ہی ہے تو لہذا میں نے سنی ہے۔ اور جہاں تک بات ہے زبان کی تو موسیقی کی زبان سرگم (سارے گاما) ہے، یہ سات سروں کی ابریویشن ہے، اور یہی میوزک کی زبان ہے اور یہ پوری دنیا کی زبان ہے۔

ایکسپریس: ایک عمومی تاثر ہمارے ہاں یہ پایا جاتا ہے کہ لوگ ایک فنکار کو پسندیدگی کی نظر سے تو دیکھتے ہیں لیکن وہ عزت و احترام نہیں دیتے جو کسی سوشل ورکر، کھلاڑی یا مذہبی سکالر کو دیا جاتا ہے، آپ  کیا کہیں گے؟

استاد غلام حیدر خاں: یہ کوئی نئی بات نہیں، شروع سے ایسا ہی چلتا آیا ہے، زمیندار، وڈیرے اور بڑے لوگ سمجھتے ہیں کہ گانے بجانے والے لوگوں کو فیڈ کرنا چاہیے کیوں کہ یہ کمی کمین ہیں۔ یہ معاملات بہت پرانے ہیں، مثال کے طور پر آپ نے نام سنا ہوگا ابراہیم موصلی اور اسحاق موصلی کا، اتفاق سے اسحاق موصلی فقہ کے علم میں کافی نام رکھتا تھا تو اس نے ایک دن ہارون رشید سے کہا کہ مجھے بھی عالمانہ لباس پہنایا جائے تو انہوں نے چار پانچ عالم بلا کر فقہ کے معالات میں بحث کرائی جس میں اسحاق موصلی کامیاب رہا یوں انہوں نے اسحاق موصلی کی بات مان کر عالمانہ لباس پہننے کی اجازت دے دی، لیکن بعدازاں ہارون رشید نے کہا کہ اسحاق میری بات سنو! تم یہاں کس کام کے لئے آئے تھے؟ میں نے تمھیں اپنے دربار تک رسائی کیوں دی؟ اسحاق موصلی نے کہا کہ موسیقی کی وجہ سے، تو ہارون رشید نے کہا کہ پھر تم جتنے بھی عالمانہ لباس پہن لو رہو گے تم اسحاق موصلی یعنی گانے والے، اور  یہی سوچ آج بھی موجود ہے۔

ایکسپریس: کلاسیکل میوزک کے احیاء کے لئے حکومتی اور عوامی سطح پر کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے؟

استاد غلام حیدر خاں: جو کچھ یا جتنا کچھ ان دونوں سے ہو سکتا ہے وہ کر تو رہے ہیں، لیکن اب میوزک کرپشن بھی شروع ہو گئی ہے۔ آپ نے پی آئی اے کی طرح اس شعبہ میں بھی نااہل لوگوں کو بھرتی کر لیا ہے تو پھر میوزک میں بہتری کیسے آئے گی؟اصل مسئلہ یہ ہے کہ کرپشن کا کلچر ہر سطح پر اور ہر شعبے تک پھیل گیا ہے اور اب میوزک کرپشن بھی شروع ہوگئی ہے۔ یہ لفظ آپ کے لیے نیا ہوسکتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے جیسے پی آئی اے یا دیگر اداروں میں نااہل لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے اسی طرح سازندے بھرتی کرنے کی ضرورت پڑے تو نا اہل لوگوں کو رکھ لیا جاتا ہے، یہ پاکستان میں ہر جگہ ہورہا ہے اور شاید اسی لی مجھے پرائڈ آف پرفارمنس نہیں ملا۔ ایک سیمینار یہاں ہوا تھا اس میں میں نے یہ کہہ دیا تھا کہ میں ثابت کرسکتا ہوں کہ ایک لڑکا جو گورنمنٹ کالج میں پڑھتا ہے وہ یہاں (ریڈیو) سے چیک لیتا ہے تو اوپر کے حلقے سے بھی میں گیا۔

ایکسپریس: آپ کے ریسرچ سیل نے ریڈیو سننے والوں کے لیے کون سے اہم پروگرام بنائے ہیں؟

 استاد غلام حیدر خاں:کلاسیکی موسیقی کے دو پروگرام ہمارے بہت مقبول ہوئے جن میں سے ایک تھا آہنگ خسروی اور دوسرا یہ سربہار۔ یہ دونوں پروگرام ریسرچ سیل کی کاوش تھے۔

آہنگ خسروی کا خیال میری پہلی کتاب نغمات خسرو سے لیا گیا تھا۔ اس کتاب میں کل چوبیس راگ شامل تھے۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں جو نغمات کا متن ہے وہ بھی حضرت امیر خسرو کا ہے اور دھنیں بھی وہی تھیں جو میں نے اساتذہ سے یاد کی تھیں۔

دوسرا پروگرام سر بہار کے نام سے کیا گیا تھا جس کے پروڈیوسر رائے محمد عرفان تھے اور اس کی تمام تیاری یہیں ریسرچ سیل ہی میں ہوئی تھی۔ اسی پروگرام میں جو میں نے کلاسیکی موسیقی کو 32 ٹھاٹھوں میں نئے سرے سے مربوط کرنے کا کام کیا ہے۔ اس پر بات کا آغاز کردیا تھا۔ یعنی اس نئے نظام کا تعارف کروا دیا تھا۔ ریڈیو کی لائبریری میں پرانی ریکارڈنگز تو پڑی ہیں۔ ہم نے انہیں پروگرام کے موضوع کی مناسبت سے لوگوں کے سامنے پیش کیا اور بتایا کہ اس نظام موسیقی میں کون سا راگ کس ٹھاٹ کا حصہ ہے۔

جیسے راگ مدھ و نئی کے بارے کہا جاتا ہے کہ کسی ٹھاٹ میں نہیں آتا لیکن درحقیقت اس کا ٹھاٹ دھر موتی ہے۔ یہ راگ پنجاب ہی کی پیداوار ہے پٹیالہ گھرانے نے اسے اختراع کیا تھا اور عاشق علی خان اور امید علی خان نے اسے گایا۔ اس سے پہلے پورے ہندوستان میں میں کہیں مدھ ونتی کا وجود نہیں ملتا۔

اس پروگرام میں ماضی کے عظیم فنکاروں جیسے بابا اختر حسین خان یا بھائی لال یا کالے خاں کے گائے ہوئے راگ پیش کیے گئے جو پہلے کبھی نشر نہیں کئے گئے۔

ایکسپریس:قوالی اور غزل کی اصناف کا تعلق بھی کلاسیکی موسیقی کے ساتھ ہے۔ یہ اصناف اپنے اظہار میں کلاسیکی موسیقی سے کس طرح الگ ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: کلاسیکی موسیقی، قوالی اور غزل میں بنیادی فرق تالوں کا ہے۔ کلاسیکی موسیقی پیش کرنے کے لیے مخصوص تال ہوتے ہیں۔ لائٹ میوزک کے لیے تالیں الگ ہیں۔

ایکسپریس: پاکستان اور بھارت میں پلے بیک موسیقی میں کن موسیقاروں کا ذکر کرنا پسند کریں گے؟

استاد غلام حیدر خاں: آر سی برال اور پنکھج ملک وغیرہ یہ لوگ پلے بیک میوزک ڈائریکشن کے موجد ہیں۔ اس کے بعد نوشاد ہیں، پی سی بروا، اس کے علاوہ بابا چشتی اور ماسٹر غلام حیدر۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پس پردہ موسیقی کی صورت گری میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان تمام موسیقاروں کا مقام و مرتبہ ہے جن کے کام نے لوگوں کو متاثر کیا۔

اب پلے بیک میں سب سے کم کام خواجہ خورشید انور نے کیا ہے لیکن ان کا کام بڑا پُرکشش ہے۔ ان کی تکنیک میں سب سے اہم بات یہ رہی کہ گانوں میں مینڈھ کا استعمال نہیں ہوا کرتا تھا۔ اس استعمال کی مثالیں بنگالی گانوں میں مل جاتی تھیں لیکن عمومی طور پر ایسا نہیں ہوتا تھا۔ خواجہ خورشید انور وہ واحد موسیقار تھے جنہوں نے اپنے گانوں میں مینڈھ کا استعمال انتہائی خوبصورتی کے ساتھ کیا۔ اس سے ان کی موسیقی کو انفرادیت ملی۔

ہمارے پنجاب میں دھن بنانے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوئے ہیں جو بالکل الگ تھلگ ہیں اور کسی سے مماثلت نہیں رکھتے۔ پنجاب کے فوک میوزک کو بخشی وزیر نے بہت ترقی دی ہے پھر سلیم اقبال اہمنام ہیں۔ یہ لوگ میوزیکلوجسٹ بھی تھے اور گلوکار بھی ۔ ماسٹر عبداللہ کے میوزک میں بڑی انفرادیت تھی۔ استاد نذر حسین کی بعض دھنیں بہت منفرد ہیں وہ موسیقار سے بڑھ کر بہت کسبی آدمی تھا۔ بنیادی طور پر تو وہ سرود نواز تھے۔ گانے میں ان کی آواز نہایت خوبصورت تھی۔ میں نے ان سے ایک دفعہ پوچھا کہ یار اتنا اچھا تمہارا گلہ ہے، لگاؤ اتنے اچھے ہیں کہ نور جہاں واہ واہ کہہ اٹھتی ہے، ہم بیٹھے بیٹھے آپ کے گانے سے متاثر ہوجاتے ہیں تو آپ گاتے کیوں نہیں تو کہنے لگے کہ میں تمہیں صحیح بات بتاؤں، تو اگر میں گاؤں تو کم از کم استاد سلامت علی خان جیسا تو گاؤں۔ یعنی نذر حسین نے تو اپنا معیار سلامت علی خان کو بنایا اور خود سلامت علی خان ایسے گائیک تھے کہ ان کے اپنے خاندان میں گوئیے ان کی موجودگی کے باعث پنپ نہیں پائے کیونکہ ان کے گانے کا معیار اتنا بلند ہے، حقیقت یہ ہے کہ استاد سلامت علی خان جیسا کوئی نہیں گایا۔

ایکسپریس: ریڈیو پاکستان میں میوزک ریسرچ سیل کا قیام کب عمل میں آیا اور اس کے پیچھے کن لوگوں کی کاوش کا ہاتھ تھا ؟

استاد غلام حیدر خاں: یہ ریسرچ سیل 1974ء میں قائم کیا گیا تھا۔ ایک تو فیض احمد فیض تھے جو ان دنوں وزارت ثقافت میں ہوا کرتے تھے۔ میرے ایک دوست تھے ایم اے شیخ جو میرے شاگرد بھی تھے۔ یہ صاحب ریلوے پاکستان کے سابق افسر تھے۔ اندرون شہر کے رہنے والے تھے اور موسیقی کی محافل کے شوقین تھے۔ پہلے انہوں نے ستار سیکھی اور بعد میں گانا سیکھا، امجد بوبی کے والد سے۔ اس کے بعد مجھ سے بھی سیکھتے رہے۔ ان کی کاوشوں سے 1974ء میں یہ سیل پہلے گلبرگ میں قائم کیا گیا تھا لیکن فیض احمد فیض کے انتقال کے بعد ریسرچ سیل کو 1978ء میں یہاں ریڈیو پاکستان کے اس تہہ خانے میں منتقل کردیا گیا۔ اس تہہ خانے میں پہلے اسٹوڈیو ہوا کرتا تھا لیکن جب ہم یہاں منتقل ہوئے تو یہ خالی پڑا تھا۔ اس طرح ہم وزارت ثقافت سے وزارت براڈ کاسٹنگ کے ماتحت آگئے۔ اس ریسرچ سیل کے انچارج ایم اے شیخ تھے۔

جب وہ انگلینڈ چلے گئے تو پھر مجھے اس مقصد کے لیے بلایا گیا۔ اس وقت تک موسیقی پر میری تین کتابیں شائع ہوچکی تھیں۔ ایم اے شیخ کے جانے کے بعد خالد اصغر یہاں بیٹھا کرتے تھے۔ انہوں نے ہی اعلیٰ حکام کو چٹھی لکھی کہ اس ریسرچ سیل کے لیے میری خدمات درکار ہیں۔تو اس طرح میں یہاں آگیا اور مختلف اسائنمنٹس کرتا رہا۔ جب میں یہاں آیا میری عمر 61 برس تھی، تو آہستہ آہستہ اس کے کام کو وسعت دی گئی اور اب یہ موسیقی کا ایک چھوٹا سا میوزیم بھی ہے۔یہاں ایک بات بڑی اہم ہے کہ یہاںکی اسٹیشن ڈائریکٹر نزاکت شکیلہ موسیقی کی ترویج میں خصوصی دلچسپی رکھتی ہیں۔یہ ریسرچ سیل بھی انہی کی توجہ اور سرپرستی کے باعث قائم ہے۔

ایکسپریس:موسیقی کی ترویج کے حوالے سے اس ریسرچ سیل نے کیا بڑے کام کیے ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: اس ریسرچ سیل کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اہم یونیورسٹیوں میں موسیقی پر مقالہ جات لکھنے والے طلباء و طالبات اپنے مقالے مکمل کرنے کے لیے اسی ریسرچ سیل سے رابطہ کرتے ہیں۔ اسی طرح صحافیوں کے لیے بھی یہاں پر سہولیات موجود ہیں۔ موسیقی کے بارے میں یہاں تمام معلومات میسر ہیں۔ موسیقی پر جتنی بھی اہم کتابیں لکھی گئی ہیں وہ تمام یہاں پر موجود ہیں۔

ایکسپریس: یہاں پر یقینا ماضی میں ہونے والی موسیقی کی مخافل کی ریکارڈنگز بھی ہوں گی تو کیا کبھی یہ نہیں سوچا گیا کہ ان ریکارڈنگز کی سی ڈیز بناکر لوگوں تک پہنچائی جائیں؟

استاد غلام حیدر خاں: ریڈیو براڈ کاسٹنگ کارپوریشن بعد میں بنا ہے۔ یہ پہلے ریڈیو پاکستان لاہور ہوا کرتا تھا۔ یہاں پر لائیو پروگرام ہوا کرتے تھے۔ ریکارڈننگ سسٹم بہت بعد میں آیا۔ غالباً 1960ء میں یہ سسٹم منگایا گیا تھا۔ ریکارڈنگز لوگوں تک پہنچانے کی ایک کوشش تو پروگرام سُر بہار کے ذریعے کی گئی۔ اس پروگرام کے پروڈیوسر رائے محمد عرفان  نے بڑی محنت سے اس پروگرام کی منصوبہ بندی کی۔ ریڈیو کی جو نایاب ریکارڈنگز ہیں وہ ہم اس پروگرام میں چلاتے تھے۔ لیکن سی ڈیز مارکیٹ کرنے کا کام یہاں نہیں ہوا۔ ایسا ہونا تو چاہیے لیکن اب تک نہیں ہوا۔ نیشنل کونسل آف آرٹس اور لوک ورثہ اسلام آباد نے یہ کام کیا ہے۔ وہاں پر میری بھی ایک ریکارڈنگ موجود ہے۔ انہوں نے لوگوں کو بلا کر ان کا کام ریکارڈ کیا ہے۔ لیکن ریڈیو کا امتیاز یہ ہے کہ یہاں بہت نایاب ریکارڈنگز موجود ہیں جن میں موسیقی ڈرامہ تھیٹر سبھی کچھ شامل ہے۔

ایکسپریس:کیا اب آپ اپنے اس عہدے سے سبکدوش ہوگئے ہیں؟

استاد غلام حیدر خاں: میں ستمبر میں بہت علیل ہوگیا تھا۔اب عمر بھی بہت ہوگئی تو شاہ رخ فخر ہمیں مل گئے۔ یہ یہاں افسر بھی ہیں ریڈیو میں پروڈیوسر ہیں۔ موسیقی کا شوق بھی ہے، گاتے بھی ہیں۔ وائلن اور ہارمونیم بھی بجاتے ہیں تو جب یہ ملے تو مجھے کچھ حوصلہ ہوگیا کہ اب یہ ریسرچ سیل کا کام اچھی طرح سنبھال لیں گے۔ پھر میں نے حکام کو بتا دیا کہ میں اب یہ ذمہ داری چھوڑ رہا ہوں۔ لیکن درحقیقت یہ رشتہ پہلے کی طرح اب بھی قائم ہے۔ اسے چھوڑ تو مرتے دم تک نہیں سکتا کیونکہ ساری زندگی یہیں گزر گئی ہے۔ بس یہ کیا کہ چابیاں انہیں دے دیں ہیں۔

ایکسپریس: غزل برصغیر پاک و ہند میں موسیقی کی اہم صنف مانی جاتی ہے۔ آپ کے نزدیک وہ کونسے غزل گائیک ہیں جنہوں نے غزل گائیکی کو بلندی بخشی؟

استاد غلام حیدر خاں: یہ بات باقاعدہ تسلیم شدہ ہے کہ غزل گائیکی کے چار Schools of Thought اسلوب ہیں۔ یعنی مہدی حسن، غلام علی، اقبال بانو اور فریدہ خانم۔ فریدہ خانم کا انداز اس لیے آگے منتقل نہیں ہوا کہ ان کے انداز کی تقلید نہیں ہوسکتی، اسے اپنایا نہیں جاسکتا۔ اسے ہم آکار کی گائیکی کہتے ہیں۔ اس سلسلے میں دوہی نام لیے جاسکتے ہیں، ایک بڑے غلام علی خان تھے اور دوسری فریدہ خانم۔ وہ سُر کو جتنے خوبصورت انداز میں Finish کرتی تھیں وہ کسی کے بس کی بات نہیں۔ غزل میں اس وقت جو اسکول آف تھاٹ چل رہا ہے۔ وہ نصرت اسکول آف تھاٹ ہے۔ نصرت فتح علی خان نے غزل گائیکی میں قوالی کا رنگ شامل کردیا، غزل کی لے تیز کردی ورنہ غزل تیز ردھم کے ساتھ نہیں گائی جاتی۔ تیز ردھم کے ساتھ گیت گائے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس: ایک بات جو بڑی تکلیف دہ بھی ہے کہ بعض بہت اچھے فنکاروں کا تعارف تب جاکر ہوا جب وہ اپنی عمر کے آخری حصے میں تھے۔ جن میں سے ایک نام استاد محمد جمن کا ہے۔ آپ کیا کہیں گے؟

استاد غلام حیدر خاں:اصل بات یہ ہے کہ استاد جمن لاہور آئے ہی نہیں۔ اگر وہ آتے تو شاید بہت مقبول ہوجاتے۔ اپنے علاقے کے لحاظ سے وہ بہت اچھے گوئیے تھے۔ لیکن انہوں نے خود کو جان بوجھ کر سندھ تک ہی محدود رکھا۔

جب اُستاد شوکت حسین مدد کو آگئے
میری زندگی کا ایک ہی واقعہ ناقابل فراموش ہے۔ اس سے زیادہ اہم واقعہ مجھے یاد نہیں پڑتا۔ وہ کچھ یوں ہے کہ ہم زندگی میں پہلی مرتبہ گانے کے لیے بھائیوں کی محفل میں گئے، بھائیوں کی محفل ہم بزرگوں کی برسی کو کہتے ہیں۔ میاں قادر بخش پکھاوجی کی برسی تھی۔ 1961ء یا 62 کی بات ہوگی۔ ہم دونوں بھائیوں نے گانا تھا اور ہمیں جانتا بھی کوئی نہیں تھا۔ ایک طبلہ نواز تھا جورا پڑی جس کو ہم نے سنگت کے لیے راضی کیا، اس کے ساتھ ریہرسل کی، تین چار دن تک اسے خوب کھلایا پلایا۔ میں نے شروع دن سے یہ کوشش ہے کہ میں ایسے راگ لوگوں کے سامنے پیش کروں جو عموماً نہیں گائے جاتے اور ایسے تالوں میں گائوں جو گوئیے عام طور پر استعمال نہیں کرتے۔ جب ہم اسٹیج پر پہنچے تو سامنے سیٹوں پر بڑے بڑے نامور فنکار بیٹھے تھے۔

استاد اللہ رکھا خان بھارت سے آئے ہوئے تھے کیونکہ ان کے استاد کی برسی تھی۔ بڑے غلام علی خان بیٹھے تھے، بھائی لال بھی آئے ہوئے تھے، استاد سردار خان بھی موجود تھے۔ میں تو باکسر ٹائپ آدمی تھا، لہٰذا بڑی دلیری کے ساتھ گانے کے لیے بیٹھ گیا۔ لیکن ہمارے طبلہ نواز نے جب اتنے بڑے استادوں کو دیکھا تو اس کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ ہوری دھمار تال بجا رہا تھا لیکن گھبراہٹ میں ٹھیکے سے آدھا ماترا نکل گیا تو حالت یہ ہوگئی کہ ہماری استھائی کہیں جارہی ہے اور طبلہ کہیں جارہا ہے۔ لوگوں میں ایک بدتمیز قسم کا شاگرد بھی بیٹھا ہوا تھا اس نے وہیں سے آواز لگا دی ’’جورے تم سے نہیں بجایا جاتا تو اُٹھ جائو‘‘
اللہ بھلا کرے استاد شوکت حسین خان کا وہ بھی مہمانوں میں بیٹھے تھے اور انہوں نے شام کی نشست میں بجانا تھا۔ ان کا شمار بڑے نامی لوگوں میں ہوتا تھا۔ میرے والد کی وجہ سے ان کے دل میں آیا کہ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو یہ لڑکے مایوس ہوجائیں گے۔

ان کا پہلا پہلا پروگرام ہے ان کا دل ٹوٹ جائے گا۔ تو وہ سامعین میں سے اٹھ کر اسٹیج پر آگئے اور ہمارے ساتھ سنگت کے لیے بیٹھ گئے۔ جیسے ہی معیاری سنگت میسر آئی ہم نے کامیابی سے اپنا گانا مکمل کیا۔یہ ایسا واقعہ ہے کہ ہم نہ بچتے بچتے، بچ گئے۔

اے پتر ہٹاں تے نیں وکدے

استاد غلام حیدر خان نے ریڈیو پاکستان سے وابستہ یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا۔ یہ جس کمرے میں ہم بیٹھے ہیں یہاں پہلے اسٹوڈیو ہوا کرتا تھا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے لیے ملی نغموں کی ریہرسل اور ریکارڈنگز اسی تہہ خانے میں ہوئیں۔ جنگ ستمبر میں لازوال شہرت پانے والا ترانہ ’’اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے‘‘ کے پس منظر میں ایک دلچسپ کہانی ہے۔

صوفی تبسم صاحب کا بیٹا بیرون ملک چلا گیا تھا۔ اس نے وہاں سے باپ کو خط لکھا کہ یہاں زندگی اچھی گذر رہی ہے لہٰذا اب وہ پاکستان واپس نہیں آنا چاہتا۔ اس خط کو پاکر صوفی تبسم بہت معموم ہوئے اور اسی کیفیت میں انہوں نے اُس وقت اس ترانے کے دو بند لکھ کر چھوڑ دیئے تھے۔ بعد میں جب جنگ شروع ہوئی تو انہوں نے نامکمل اشعار کو نئی جہت دے دی اور مزید اشعار کے اضافے کے ساتھ اسی کمرے میں یہ ترانہ ریکارڈ کرایا۔

سر ویوین رچرڈز پسندیدہ کھلاڑی

روونگ(کشتی رانی) کی ہے، پیراکی کرتا رہا ہوں، پہلوانی اور باکسنگ بھی کی، دیکھنے میں کرکٹ بہت پسند ہے، کرکٹ میں پسندیدہ کھلاڑی سر ویون رچرڈز ہیں، انگریزی فلمیں دیکھنے کا شوق ہے۔

Pandora and the flying dutch man بہت پسند ہے، اس کے علاوہ An affair to Remember بھی بہت پسند ہے۔ خالدہ ریاست کی اداکاری بہت پسند تھی۔

گانے میں دو طرح کی آوازیں ہوتی ہیں۔ ایک رَگی سے گانے والے سنگرز ہیں اور ایک کُھلے گلے سے گانے والے۔ برصغیر پاک و ہند میں رَگی کے گانے میں لتا کا کوئی ثانی نہیں جبکہ کُھلی آواز میں نور جہاں کا کوئی مقابلہ نہیں۔ مردوں میں محمد رفیع بہترین پلے بیک سنگر تھے۔ سیاستدانوں میں ایک تو بانی پاکستان تھے ان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پسندیدہ سیاسی شخصیت ہیں۔ میرے والد میری آئیڈیل شخصیت ہیں۔ میں نے اپنی ماں کو نہیں دیکھا۔ میرے والد نے ہی ہمیں پالا پوسا۔

The post قدیم ہندو موسیقی میں رَس اور تاثیر مسلمانوں کی دین ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2GVcMZY
via IFTTT

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔