پیر، 7 مئی، 2018

آخر کب تکFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

وہ من موہنی سی شکل و صورت کی ہنس مکھ لڑکی تھی۔ میرے پڑوس میں برتن دھونے آتی تھی۔ کبھی مجھے اس سے کوئی کام ہوتا تو میں بھی اسے اپنے پاس بلالیا کرتی تھی۔ اس کی باتیں اور ہنسی دل موہ لینے والی تھی۔

اکثر مجھے اپنے لیے  آنے والے رشتوں کے متعلق بتاتی پھر اس کی امی اگر منع کردیتیں تو وہ بھی تب بھی بتایا کرتی۔ وہ عبایا  میں ملبوس ہوتی اور  آدھا چہرہ نقاب سے ڈھکا رہتا۔ جب یہاں آتی تو عبایا اور نقاب اتارکر دوپٹہ پہن کر کام کرتی تھی۔ جاتے ہوئے دوبارہ عبایا پہن لیتی۔ ایک دن وہ آئی تو بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ کہنے لگی:’’باجی! میں جب بس سے اسٹاپ پر اترتی ہوں تو ایک لڑکا سامنے اسکوٹر پر کھڑا مجھے دیکھتا رہتا ہے۔ مجھے لگتا ہے شاید وہ میرا پیچھا کرتا ہے۔ مجھے ڈرلگتا ہے۔‘‘

اس کی بات سن کر میں نے اسے سمجھایا اور  تسلی دی تو وہ چلی گئی۔  چند دن بعد وہ پھر آئی تو بہت سہمی ہوئی تھی، بلکہ  رو بھی رہی تھی۔ پتا چلا کہ کوئی اسے فون کال کرکے تنگ کررہا تھا۔ دھمکارہا تھا کہ اس کی بات نہ مانی گئی تو بدنام کردیں گے۔ اس نے ڈر کے مارے اپنا موبائل فون بند یا  اور پھر سم بھی توڑ دی تھی۔

یہ موبائل فون اس کے اور محلے کی خواتین جن کے گھروں میں وہ کام کرتی تھی،  ان کے درمیان رابطے کا ذریعہ تھا۔ میں نے اسے خاصا سمجھایا،  قانونی مدد حاصل کرنے کا بھی بتایا، مگر خوف کی شدت سے اس کے آنسو بہہ رہے تھے۔

نادیدہ خوف اور پریشانیاں بھی وزن رکھتی ہیں ۔ ان کا وزن ذہن اٹھاتا ہے۔ کچھ دیر کے لیے ان کے بارے میں سوچو تو وزن معمولی محسوس ہوگا، مگر  اگر یہ باتیں دنوں اور ہفتوں تک سوچتے رہیں تو ذہن اور جسم دونوں شل ہوجاتے ہیں۔ یہی حال اس معصوم سی لڑکی کا بھی ہوا۔ آخرکار اس نے کام پر آنا چھوڑ دیا۔ کچھ دن بعد اس کی ایک رشتے دار سے پتا چلا کہ وہ ذہنی مریضہ بن چکی ہے۔ اس کا علاج ہورہا ہے۔ طبیعت بہتر ہورہی ہے، لیکن پھر بھی وہ بار بار اسی کیفیت کا شکار ہوجاتی ہے۔ یہ سب سن کر میرا دل دکھی ہوگیا۔ وہ پیاری سی لڑکی جس کی ہنسی سے جلترنگ بج اٹھیں، جس کی شادی ہونے والی تھی،  محض ایک خوف کی وجہ سے آج اس حال کو پہنچ گئی ہے۔

دوسرا منظر:

وہ بس میں چڑھی تو دیکھا کہ ساری سیٹیں بھرچکی تھیں۔ کنڈیکٹر نے ڈرائیور کی سیٹ کے پیچھے والی سیٹ کی جانب اشارہ کیا جو خالی تھی۔ تھوڑا سا پس و پیش کے بعد وہ وہاں بیٹھ گئی۔چھوٹی بیٹی کا ہاتھ تھامے اور بیٹے کو گود میں اٹھائے وہ بیٹھ گئی۔ واپس اترکر اسٹاپ پر اگلی بس کا انتظار کرنا بھی محال تھا۔ اسٹاپ پر کھڑے افراد کی نگاہیں اس کو خاصا پریشان کررہی تھیں۔ حالاں کہ بڑے  سی چادر نما دوپٹے سے اس نے خود کو ڈھانپ رکھا تھا۔ بس چل پڑی تو بیٹا گود سے نکلنے کے لیے مچلنے لگا۔ وہ بچوں کو بہلانے لگی۔ یکایک اس کی نظر سامنے پڑی تو عقبی آئینے میں ڈرائیور مسلسل اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ اپنی جانب دیکھتا پاکر ڈرائیور مسکرانے لگا۔ اس نے غصے سے دیکھا اور پھر پورا راستہ نظر اٹھاکر نہیں دیکھا۔ سوچنے لگی بسوں میں سفر کے دوران یہ معمول کی بات ہے۔ چیخنے بگڑنے یا غصہ دکھانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اپنا ہی تماشا بنتا ہے لیکن پورا راستہ ان نگاہوں کی حدت نے اس کو مضطرب کیے رکھا۔

تیسرا منظر:

’’ابو! میں کل سے اکیلی اسکول نہیں جاؤں گی۔‘‘ اس نے روہانسی آواز میں کہا۔

والد نے پریشان ہوکر پوچھا ’’کیوں بیٹا!‘‘

’’ابو جی! ایک انکل روز میرا پیچھا کرتے ہیں، میں گھر سے نکل کر تھوڑا آگے جاتی ہوں تو وہ میرے پیچھے اسکول تک آتے ہیں۔ مجھے ان سے بہت ڈر لگتا ہے۔‘‘

چوتھا منظر:

’’کبھی کبھی ہمیں بھی وقت دے دیا کرو!‘‘ سماعتوں میں باس کی آواز گونجتے ہی وہ مضطرب ہوگئی۔ ان کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے جواب دیا:’’سر! میں نے کام مکمل کردیا ہے، آپ چیک کرلیجیے۔ اس میں کوئی کمی بیشی ہو یا کوئی ترمیم کرنی ہو تو آپ بتادیجیے گا، میں کردوں گی۔‘‘

’’کام تو ہوتا رہے گا، کبھی ہم سے بھی بات کرلیا کرو، کوئی پیار بھری بات!‘‘ باس نے اپنے مخصوص انداز میں کہا تو وہ غصے سے پھٹ پڑی۔ یہ ملازمت اس کی ضرورت تھی۔ بڑھتی منہگائی میں شوہر کی آمدنی میں بچوں کے تعلیمی اخراجات اور دیگر ضروریات پوری کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ دیگر اداروں کی بہ نسبت اس ادارے میں تن خواہ بھی معقول تھی اور دیگر مراعات بھی حاصل تھیں۔ لہٰذا وہ یہ ملازمت چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔

یہ تمام حقیقی زندگی کے مناظر ہیں۔ گو کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ بہترین ماحول کے ادارے اور بہترین اخلاق کے حامل باس اپنے ماتحتوں سے نہایت پرخلوص رویہ رکھتے ہیں جو ادارے کی کامیابی کا ضامن بنتے ہیں۔ بہ صورت دیگر خوف یا ذہنی تناؤ کی فضا میں کام کرنے والے خواتین بہترین کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپاتیں۔ کتنی ہی خواتین ایسے افسران کی وجہ سے اچھی ملازمت چھوڑ دیتی ہیں۔ اسی طرح کتنی ہی لڑکیوں کو تعلیمی درس گاہوں تک آنے جانے کے دوران عدم تحفظ کا شکار ہونے کی وجہ سے تعلیم کو خیر باد کہنا پڑتا ہے۔ حصول تعلیم کی لگن ان کے اندر سلگتی رہتی ہے۔

یہ کیسا چلن ہے کہ کسی کے رویے، چند لمحوں کی گناہ بے لذت کسی دوسرے کی زندگی  اور اس کی شخصیت پر اثر انداز ہوکر اس کا مستقبل برباد کردے۔ شاید چند لمحوں کے لیے اپنی نگاہوں یا سماعتوں کی تسکین کرنے والے یہ اندازہ بھی نہیں لگاسکتے کہ ان کے خیال میں ان کی ناقابل گرفت حرکت کسی پر کتنی گراں گزرتی ہے۔ کسی لڑکی کی زندگی میں یا اس کے گھرانے میں ان کی وجہ سے کیا ہلچل مچ جاتی ہے۔ اکثر والدین انہی حالات کی بنا پر کم عمر بیٹیوں کے رشتے جلد بازی میں طے کردیتے ہیں اور پھر بسا اوقات وہ بیٹیاں عمر بھر ایک سزا کی طرح زندگی گزارتی ہیں۔ پل پل جیتی اور پل پل مرتی ہیں اور والدین بیٹیوں کو اس حال میں دیکھ کر کڑھتے رہتے ہیں۔

جو خواتین یا لڑکیاں اس کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں تو عموماً انہی کو موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ سگی مائیں بھی اکثر بیٹیوں کے حق کے لیے آواز بلند کرنے کے بجائے بیٹیوں کو سمجھا رہی ہوتی ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہراساں کیے جانے والی لڑکی محض اس لیے ہراسگی کے خلاف آواز بلند نہیں کی جاسکتی کہ عموماً اہل خانہ بھی لڑکیوں کا ساتھ دینے کے بجائے ان لڑکیوں کو ان تمام کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔ وہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ اصلاح معاشرہ کے لیے ابتدا اپنے گھر سے کی جائے۔

اگر ہر ماں اپنے بیٹے کی ان خطوط پر تربیت کرے کہ وہ ہر لڑکی اور ہر عورت کو اس طرح عزت دے جس طرح اپنے گھر کی خواتین کو عزت دی جاتی ہے تو معاشرے میں بہتری آسکتی ہے۔ ہماری تو مذہبی تعلیمات بھی ہمیں یہ درس دیتی ہیں کہ راستے یا بازار میں بے مقصد نہ بیٹھا کرو، اگر بیٹھنا ہی ہے تو راستے کے آداب کا خیال کرو جن میں  نظروں کو جھکانا اور نگاہیں نیچی رکھنا بھی شامل ہے۔ اسی طرح باکردار انسان کی شخصیت باحیا ضرور ہوتی ہے لہٰذا ہمیں یہ بتایاگیا ہے کہ ’’اگر تم حیا نہ کرو تو پھر جو چاہے،  کرو۔‘‘

دین کی صحیح سمجھ اور دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے والے نوجوان نہ صرف اپنے بلکہ اپنے والدین کے لیے بھی دنیا و آخرت میں سرخ روئی کا سبب بنتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ ماؤں کی اولین ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کریں،  کیوں کہ جھلانے والے ہاتھ ہی بچے کی شخصیت میں وہ بات پیدا کرسکتے ہیں کہ کل وہ دنیا پر حکم رانی کرے اور ملک و قوم کا نام روشن کرے۔

اگر ہر ماں اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کرے کہ ’’بیٹا! یہ یاد رکھنا کہ آپ باہر جو کسی بچی یا لڑکی کے ساتھ کروگے ، وہ آپ کی بہن، بیٹی یا آپ کے گھر کی خواتین کے ساتھ بھی ہوگا، کیوں کہ یہ د نیا مکافات عمل ہے۔ یہاں جو کچھ دوسروں کے ساتھ کیا جاتا ہے، وہی سب آپ کے ساتھ بھی ہوگا لہٰذا ہر دفعہ یہ جملہ اپنی ذات سے دہرالینا۔ یقیناً ان باتوں کا ایسا اثر ہوگا کہ وہ اپنے نفس پر قابو پانا سیکھ لے گا۔ ایک انسان کی شخصیت میں آنے والی مثبت تبدیلی معاشرے میں بہتری کا سبب بنتی ہے۔ درحقیقت ہمارے معاشرے میں اکثریت ان باتوں کو اہمیت نہیں دیتی اور یہ کہہ کر ٹال دیتی ہے کہ سب بیکار کی باتیں ہیں، ان سے  کوئی فائدہ نہیں ہوتا،  یہ سب بے اثر باتیں ہیں۔ حالاں کہ خلوص نیت اور صدق دل سے کوئی بات کی جائے تو وہ اثر رکھتی ہے۔ پراثر لفظوں کا جادو ہمیشہ سرچڑھ کر بولتا ہے۔

 

The post آخر کب تک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2rrjEIU
via IFTTT

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔