ہفتہ، 19 مئی، 2018

جہیز چاہیے؟FOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

رشتے جو اپنائیت سے جوڑے جاتے ہیں اور دل سے نبھائے جاتے ہیں۔ جن کی ڈوریں دو دلوں اور دو خاندانوں کو جوڑ دیتی ہیں۔ جب ایک بندھن بندھتا ہے تو دو دل جُڑتے ہیں۔ شادی کے بعد میاں بیوی کا رشتہ سب سے انمول اور محبت و اپنائیت سے بھرا ہوتا ہے۔ یہ رشتہ صرف دو لوگوں کو نہیں بلکہ دو خاندانوں کو ملاتا ہے۔ دلوں کے اس خلوص سے بھرے رشتے کو بعض لوگ جہیز کی بے جا روایت کی وجہ سے تباہ کر دیتے ہیں۔ وہ اپنائیت اور محبت جو ایک پیار کے رشتے میں ہوتی ہے، بے جا روایات اور رسم و رواج ان کی حدت کو کم کر دیتے ہیں۔ پھر کوئی کہے نہ کہے، دل میں ایک کسک رہ جاتی ہے۔ ایک محبت بھرے رشتہ کا جو مان ہوتا ہے وہ کم ہوجاتا ہے۔

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ جو لوگ سب سے زیادہ جہیز کے خلاف بولتے ہیں، وہی سب سے زیادہ جہیز کا تقاضہ کرتے ہیں۔ بس فرق صرف لفظوں اور لہجے کے استعمال کا ہوتا ہے، “ہمیں کچھ نہیں چاہیے، ہمارے پاس اللہ کا دیا سب ہے، بس آپ اپنی بیٹی کو اپنی خوشی سے جو دینا چاہیں دے دیں۔”

’’اپنی مرضی سے-اپنی خوشی سے‘‘ یہ وہ الفاظ ہیں، جس کو سننے کے بعد والدین کا بس نہیں چلتا کہ وہ اپنی پھول جیسی، لاڈوں سے پلی بیٹی کو سب کچھ دے دیں، حتی کہ گاڑی اور بنگلہ تک۔ ان الفاظ کی اس ہیر پھیر کا سب سے زیادہ استعمال پڑے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ، ذی شعور لوگ کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ جن کے گھر پہلے ہی چیزوں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں؛ جن کے ہاں پیسوں کی خوب ہیرپھیر رہتی ہے۔

آج کل جب کمانا اور کھانا دونوں ہی بہت مشکل کام ہو گیا ہے، تو اس دور میں لڑکے والوں کا جہیز کا مطالبہ والدین کو پریشانی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اچھے گھرانے میں رشتہ کرنے کی چاہ والدین کو ان کی ہر جائز اور ناجائز بات ماننے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اچھے گھرانوں میں اکثر لوگ پڑھے لکھے اور امیر ہوتے ہیں۔ یعنی جتنا امیر اتنا ہی زیادہ اور اچھا جہیز دینا پڑتا ہے۔ اور اگر رشتہ باہر ملک کا ہو تو لوگ جہیز کے پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان کی بیٹی کے اکاؤنٹ میں ڈلوا دیے جائیں، ان کی بیٹی کے ہی کام آئیں گے۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود آج بھی ہم اپنے معاشرے کو جہیز کی لعنت سے آزاد نہ کراسکے، آج بھی لوگ جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن طریقے مختلف ہوگئے ہیں۔ پڑھے لکھوں کے پڑھے لکھے طریقے، اور امیروں کے امیرانہ طریقے۔

اسلام میں جہیز کا کوئی تصور نہیں، جہیز خالصتاً ہندوانہ رسم ہے جو اب ہماری روایات کا حصہ بن گئی ہے۔ ہم اسے اس طرح سے سنبھالے ہوئے ہیں، جیسے یہ ہمارا عقیدہ ہو یا کوئی فرض۔ ایک ایسا فرض جیسے ہر ماں باپ اپنی بیٹی کی رخصتی کے ساتھ نبھاتے ہیں۔ حضرت فاطمہؓ  کو جو ایک مشکیزہ، ایک گدہ اور دو تکیے دیے گئے تھے۔ وہ دراصل ان کی مہر کی رقم سے لیے گئے تھے۔ جسے آج کل اکثر لوگ جہیز کا نام دے کر جہیز کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپﷺ حضرت علیؓ  اور حضرت فاطمہؓ  دونوں کی طرف سے ولی تھے۔

آپﷺ نے حضرت علی رضہ سے پوچھا کہ آپ کے پاس مہر دینے کو کچھ ہے؟ آپ نے کہا نہیں، تو آپﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس ایک زرہ ہوتی تھی، حضرت علی نے سمجھا زرہ تو جہاد کےلیے ہے، وہ کوئی دولت تو نہیں ہے۔ آپ رضہ نے کہا کہ ہاں وہ ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے بیچ کر یا گروی رکھ کر مہر ادا کرو۔ وہ زرہ حضرت عثمان رضہ نے خرید لی۔ اس رقم سے حضرت علی رضہ نے مہر ادا کیا۔ جس میں سے کچھ رقم حضرت فاطمہ رضہ کے سجنے میں کام آئی اور کچھ سے مشکیزہ، ایک گدہ، دو تکیے، ایک چکی اور ایک دو برتن خرید لیے گے، یہ تھیں وہ چیزیں جو حضرت علی رضہ کے مہر کی رقم سے خریدی گئیں جسے ہمارے یہاں کے لوگ اپنی لاعلمی کی وجہ سے جہیز سمجھتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں اس شادی میں ایک پسہ بھی آپﷺ کا شامل نہیں تھا۔

غریب لوگوں کےلیے تو بیٹی کا جہیز بنانا کسی مسلسل اذیت ناک جدوجہد سے کم نہیں ہوتا۔ کہیں باپ برسوں دن رات محنت مزدوری کرکے، تو کہیں ماں راتوں کو لوگوں کے کپڑے سی کر، تو کہیں بھائی پارٹ ٹائم جاب کرکے اپنی بہن کےلیے جہیز جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن جہیز مانگنے والے یہ نہیں سوچتے، وہ صرف یہ سمجھتے ہیں کہ بہو آئے گی تو ان کا گھر چیزوں سے بھر جائے گا۔

جب ایک عورت ایک ماں کے روپ میں ہوتی ہے تو وہ اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کےلیے بہت جتن کرتی ہے۔ لیکن جب یہی عورت ایک ساس کے روپ میں ہوتی ہے تو ظالم اور مطلب پرست ہوجاتی ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جسے بدلنا ہے، اگر ایک ساس اپنے بیٹے کو یہ تربیت دے کہ آنے والی اس کی زمہ داری ہے، اس کا جو بھی سامان جہیز کے نام پر لیا جاتا ہے وہ اس لڑکے کو خود بنانا ہے، خود کرنا ہے تو کل اس کی بیٹی سے بھی اس کا داماد جہیز نہیں مانگے گا۔ اس جہیز کی لعنت کو ختم کرنا ہے، تو اپنے گھر اپنی دہلیز سے کرنا ہوگا۔

مرد کی سوچ، اس کی عزت، اس کا وقار عورت کا مان ہوتا ہے۔ آج بھی کچھ مرد ایسے ہیں جو جہیز کو غلط سمجھتے ہیں۔ اس لیے جہیز مانگنے کے بجائے خود بنواتے ہیں۔ خود سے پیسے جمع کرکے خود سامان ڈالواتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو واقعی اس جہیز کی لعنت کو، جو ہمارے معاشرے میں بہت شدت کے ساتھ نہ صرف پھیل چکی ہے بلکہ اسے اب مانگنے والے اور دینے والے دونوں غلط نہیں سمجھتے، اس غلط روایت کو معاشرے سے ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ وہ مان ہے جو اس خوبصورت رشتے کو ہمشہ محبت بھرے مان کے ساتھ قائم بھی رکھتا ہے اور اس رشتے کو خود غرضی اور لالچ سے پاک کردیتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post جہیز چاہیے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IS1Ste
via IFTTT

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔