پیر، 14 اکتوبر، 2019

حضرت سلیمان نے اپنے گھوڑوں کو کیوں ذبح کر ڈالا، اس کے بدلے اللہ نے آپ کو کیا کچھ عطا کیا؟ (بی بی سی رپورٹ )

0 comments

حضرت سلیمان ؑ نے دُعا مانگی’’اے میرے پروردگار! میری مغفرت فرما اور مجھے ایسی بادشاہت عطا کر، جو میرے بعد کسی کو بھی میّسر نہ ہو ۔ بے شک تو بڑا عطا فرمانے والا ہے ‘‘(سورۂ ص 35)۔ حضرت سلیمان ؑ کی یہ دُعا اللہ کے دِین کے غلبے ہی کے لیے تھی، چناں چہ اللہ عزّوجل نے دُعا قبول فرمائی اور اُنھیں عظیم الشّان حکومت عطا فرمائی۔ آپ ہفت اقلیم کے بادشاہ تھے۔ دنیا کی ہر شئے آپؑ کی مطیع اور فرماں بردار تھی۔ ہوا کو حکم دیتے، تو وہ مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر دیتی۔ چرند، پرند ہر حکم کی تابع داری کے لیے حاضر ہوتے۔ سرکش جنّات ہر وقت ہاتھ باندھے احکامات کی بجا آوری کے لیے تیار رہتے اور شیاطین زنجیروں میں جکڑے رہتے۔ سورۃ الانبیاء میں ارشاد ہے’’اور ہم نے تیز ہوا سلیمان ؑکے تابع کر دی، جو اُن کے حکم سے اُس مُلک میں چلتی تھی، جس میں ہم نے برکت دی تھی(یعنی مُلکِ شام) اور ہم ہر چیز سے باخبر ہیں‘‘(آیت 81)۔حضرت حسن بصری ؒفرماتے ہیں کہ’’ ہوا کے مسخر کرنے کا واقعہ حضرت سلیمان ؑکے ساتھ اُس وقت پیش آیا، جب آپؑ اپنے لشکری گھوڑوں کے معائنے میں مصروف تھے۔ اس اثناء میں آپؑ کی عصر کی نماز فوت ہو گئی، چوں کہ اس غفلت کا سبب گھوڑے بنے تھے، لہٰذا اُنھوں نے اپنے اُن خُوب صُورت اور بیش بہا گھوڑوں کو ذبح کر دیا۔ حضرت سلیمان ؑنے جب اپنی سواری کے جانور قربان کر دیے، تو اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اُس سے بہتر سواری عطا فرمادی (قرطبی) اور ہوا کو مسخّر کر دیا۔‘‘حضرت سلیمان ؑ کے ان گھوڑوں کا واقعہ قرآنِ کریم کی سورۂ ص کی آیات 31،32،33میں موجود ہے۔ ارشادِ باری ہے ’’اور ہم نے سلیمانؑ کے لیے ہوا کو مسخّر کر دیا کہ صبح کی منزل مہینے بھر کی ہوتی تھی اور شام کی منزل بھی ‘‘(سورۂ سبا، 12)۔ یعنی حضرت سلیمان ؑمع اعیانِ سلطنت اور لشکر تخت پر بیٹھ جاتے اور جدھر آپؑ کا حکم ہوتا، ہوائیں اُسے اتنی رفتار سے لے جاتیں کہ ایک مہینے جتنی مسافت صبح سے دوپہر تک کی ایک منزل میں طے ہو جاتی اور پھر اسی طرح ایک مہینے کی مسافت دوپہر سے رات تک میں۔ یعنی اس طرح ایک دن میں دو مہینوں کی مسافت طے ہوتی۔ ابنِ ابی حاطم نے حضرت سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے کہ تختِ سلیمانی پر چھے لاکھ کرسیاں رکھی جاتی تھیں، جن پر حضرت سلیمان علیہ السّلام کے ساتھ اہلِ ایمان انسان اور اُن کے پیچھے اہلِ ایمان جنّات بیٹھتے۔ پھر پرندوں کو حکم ہوتا کہ وہ تخت پر سایہ کر لیں تاکہ آفتاب کی تپش سے تکلیف نہ ہو۔ ہوا اُس عظیم الشّان تخت کو اٹھا کر جہاں کا حکم ہوتا، وہاں پہنچا دیتی۔ بعض روایات میں ہے کہ اس ہوائی سفر کے وقت پورے راستے حضرت سلیمان ؑ سَر جُھکائے اللہ کے ذکرو شُکر میں مشغول رہتے‘‘ (ابنِ کثیر)۔



from Global Current News https://ift.tt/2oDNX1L
via IFTTT

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔