from BBC News اردو - صفحۂ اول https://ift.tt/2IGZM05
via IFTTT
.FOCUS WORLD NEWS MEDIA GROUP EUROPE copy right(int/sec 23,2012), BTR-2018/VR.274058.IT-
لاہور: محکمہ تحفظ جنگلی حیات نے پنجاب کے قومی جانور اڑیال کاسروے شروع کردیا سالٹ رینج میں اڑیال کی تعداد ساڑھے تین ہزارسے تجاوزکرگئی گزشتہ 10 برسوں میں اڑیال کی افزائش میں 3 ہزارکا اضافہ ہواہے۔
محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب ان دنوں پنجاب اڑیال کا سروے کرنے میں مصروف ہے، اڑیال ہرن کا مسکن سالٹ رینج ہے۔ ڈائریکٹرجنرل پنجاب وائلڈلائف اینڈپارکس خالدعیاض نے ایکسپریس نیوزسے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت کالاباغ اورمیانوالی میں سروے مکمل ہوچکا ہے جبکہ چکوال، جہلم اورخوشاب میں یہ کام چنددن میں مکمل ہوجائیگا، انہوں نے بتایا 2004میں کیے گئے سروے کے دوران یہاں اڑیال کی تعدادخطرناک حدتک کم ہوکرساڑھے چارسو تک پہنچ گئی تھی تاہم یہاں اڑیال کی تعدادکا تخمینہ 3700 تک لگایا گیا ہے، انہوں نے کہا اڑیال کی تعدادبڑھنے سے ہرسال بین الاقوامی شکاریوں کی آمدمیں اضافہ ہورہا ہے ،بیرون ملک پاکستان میں اڑیال کے شکارکےلئے ون ڈے ہنٹ کا سلوگن استعمال ہورہا ہے کیونکہ اب شکاریوں کواڑیال کے شکارکے لئے کئی کئی دن انتظارنہیں کرناپڑتا بلکہ وہ ایک ہی دن میں شکارکرلیتے ہیں۔
محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجا ب کے مطابق اڑیال کی افزائش میں اضافے کی بڑی وجہ مقامی تنظیمیں بھی ہیں، کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشنز اڑیال کی افزائش بڑھانے اور اس کے مسکن کوبچانے میں اہم کرداراداکررہی ہیں، ہنٹنگ ٹرافی کے لیے جوغیرملکی شکاری آتے ہیں ان سے 17 لاکھ روپے تک فیس وصول کی جاتی ہے اوراس فیس کا 80 فیصدتک حصہ ان سی بی اوزکودے دیاجاتا ہے۔
اڑیال کے حالیہ سروے میں جہاں محکمہ جنگلی حیات کا سینسزڈیپارٹمنٹ مصروف ہے وہیں مقامی سی بی اوزکی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں اڑیال کی تعداد کی حتمی جانچ کے لئے سروے کریں، واضع رہے کہ اڑیال ہرن کوپنجاب کی پہچان سمجھاجاتا ہے، اس کے شکارکے لئے جہاں ہرسال درجنوں غیرملکی شکاری پنجاب سالٹ رینج کا رخ کرتے ہیں وہیں مقامی شکاری بھی ہنٹنگ ٹرافی میں شریک ہوتے ہیں تاہم محکمے کی طے شدہ پالیسی کے مطابق مقامی شکاریوں کی نسبت غیرملکی شکاریوں کو اڑیال ٹرافی ہنٹنگ کے لئے ترجیع دی جاتی ہے۔
پنجاب اڑیال پاکستان میں پائے جانے والی لمبے سینگوں والے بکرے کی ایک قسم ہے- یہ پہاڑی بکرے اڑیال جس کو ارکارس یا شاپو بھی کہتے ہیں ان کی پاکستان میں مجموعی طورپر 6 اقسام ہیں ، اڑیال ان میں سے ایک ہے ، اڑیال سالٹ رینج اور چٹا کالا رینج کی پہاڑیوں پر پایا جاتا ہے تاہم اس کے علاوہ یہ پنجاب کے دو آبہ کے علاقے میں بھی دیکھا گیا ہے۔ یہ ایک خاکی رنگ کا بکرا ہے جس کا نچلا دھڑ سفید اور ان دونوں کو جدا کرتی ایک سیاہ پٹی ہوتی ہے- اس کے سینگ تمام عمر بڑھتے رہتے ہیں اور جس بکرے کے جتنے بڑے سینگ ہوں اس کی عمر اتنی ہی بڑی ہوگی- آبادی کا پھیلاؤاور جنگلات کی تباہی نے اس جنس کو خطرے سے دوچار کر رکھا ہے۔
The post پنجاب میں اڑیال کی تعداد ساڑھے 3 ہزار سے تجاوز کرگئی appeared first on ایکسپریس اردو.
اسلام آباد: سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کا کہنا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ملکوں کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے اور رکن ملک پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے انسداد دہشت گردی سے متعلق اجلاس میں سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اہم کردار ادا کرسکتی ہے کیونکہ تنظیم کا مقصد ممبر ملکوں کے درمیان امن اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون اور روابط بڑھانا ہے، شنگھائی تعاون تنظیم میں باہمی تجارت، توانائی اور معاشی ترقی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے بے پناہ مواقع موجود ہیں، پاکستان میں بنیادی ڈھانچے میں تیزی سے ہوتی ترقی کے ساتھ تجارت اور کاروبار کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔
تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ پاکستان دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر ملک ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں 120رب ڈالر کا نقصان ہوا اور ہزاروں افراد نے جانیں قربان کی ہیں، پاکستان خطے کو درپیش دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرات سے پوری طرح آگاہ ہے۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف مربوط پالیسی مرتب کی، ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایس سی او ملکوں کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں اور رکن ملک پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
The post دہشتگردی کیخلاف شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ملکوں کے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہیں، پاکستان appeared first on ایکسپریس اردو.
اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں قانون کے سارے ہتھیار اہل سیاست کے لیے بنے ہیں اور جب بات فوجی آمروں کے خلاف آئے تو فولاد موم بن جاتا ہے۔
جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کررہے ہیں، سماعت کے آغاز پر نواز شریف کی جانب سے متفرق درخواست دائر کی گئی جس میں کہا گیا کہ انہوں نے گزشتہ دو روز کی عدالتی کاروائیوں کے دوران تمام سوالوں کےجواب دیئے ہیں، 5 سوالوں کے جواب قلمبند کرانا باقی ہیں تاہم ان سوالوں کے جواب دیگر دو ریفرنسز میں گواہان مکمل ہونے کے بعد ریکارڈ کیا جائے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد نواز شریف کی درخواست مسترد کردی، جس کے بعد نواز شریف نے باقی رہ جانے والے سوالوں کے جواب قلمبند کرانا شروع کردیے۔
نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ مجھے نکالے جانے کی سب سے بڑی وجہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس ہے، میں نے اپنا گھر درست کرنے اور اپنے آپ کو سنوارنے کی بات کی ،میں نے خارجہ پالیسی کو نئے رُخ پر استوار کرنے کی کوشش کی۔ میں نے سرجھکا کر نوکری کرنے سے انکار کیا۔ آصف زرداری کے ذریعے مجھے پیغام دیا گیا کہ پرویز مشرف کے دوسرے مارشل لاء کو پارلیمانی توثیق دی جائے لیکن میں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: اگلا الیکشن ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے پرہوگا
سابق وزیراعظم نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس قائم کرتے ہی مشکلات اور دباؤ بڑھادیا گیا، 2014 میں حکومت کے خلاف دھرنے کرائے گئے، ان دھرنوں کا مقصد مجھے دباؤ میں لانا تھا، امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے، کون تھا وہ امپائر؟ ،وہ جوکوئی بھی تھا اسکی پشت پناہی دھرنوں کو حاصل تھی، پی ٹی وی، پارلیمنٹ، وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر بھی فسادی عناصر سے محفوظ نہ رہ سکے، اس کا مقصد تھا کہ مجھے پی ایم ہاؤس سے نکال دیں اور پرویز مشرف کے خلاف کارروائی آگے نہ بڑھے، منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ میں دباؤ میں آجاؤں گا، ایک خفیہ ادارے کے سربراہ کا پیغام پہنچایا گیا کہ مستعفی ہوجاؤ یا طویل رخصت پر چلےجاؤ، طویل رخصت کا مطالبہ اس تاثر کی بنیاد پر تھا کہ نواز شریف کو راستے سے ہٹادیا گیا۔ جو کچھ ہوا سب قوم کے سامنے ہے، اب یہ باتیں ڈھکا چھپا راز نہیں ہیں۔
فاضل جج کو مخاطب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ کاش آج آپ یہاں لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی روح کو طلب کرسکتے اور ان سے پوچھ سکتے کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا ،کاش آج آپ ایک زندہ جرنیل کو بلاکر پوچھ سکتے کہ اس نے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیوں کیا، سارے ہتھیار اہل سیاست کے لیے بنے ہیں، جب بات فوجی آمروں کے خلاف آئے تو فولاد موم بن جاتا ہے، پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ شروع ہوتے ہی اندازہ ہوگیا کہ آمر کو کٹہرے میں لانا کتنا مشکل ہوتا ہے، انصاف کے منصب پر بیٹھےجج پرویز مشرف کو ایک گھنٹے کے لیے بھی جیل نہ بھجواسکے، وہ پراسرار بیماری کا بہانہ بناکر دور بیٹھا رہا، جنوری 2014 میں وہ عدالت کے لیے نکلے تو طے شدہ منصوبے کے تحت اسپتال پہنچ گئے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ مجھے کبھی آئینی مدت پوری کرنے نہیں دی گئی، مجھے جلاوطن کردیا گیا، میری جائیدادیں ضبط کرلی گئیں، واپس آیا تو ہوائی اڈے سے روانہ کردیا گیا، میں اس وقت بھی حقیقی جمہوریت کی بات کررہاتھا، فیصلے وہی کریں جنہیں عوام نے اختیار دیاہے، داخلی اور خارجی پالیسیوں کی باگ دوڑ منتخب نمائندوں کے پاس ہی ہو۔
نواز شریف نے کہا کہ مجھے بے دخل کرنے اور نااہل قرار دینے والے کچھ لوگوں کو تسکین مل گئی ہوگی، مجھے سیسلین مافیا، گارڈ فادر، وطن دشمن اور غدار کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میرے آباواجداد ہجرت کرکے یہاں آئے، میں پاکستان کا بیٹا ہوں مجھے اس مٹی کا ایک ایک ذرہ پیارا ہے، میں کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینا اپنی توہین سمجھتاہوں، میری نااہلی اور پارٹی صدارت سے ہٹانے کے اسباب و محرکات کو قوم بھی اچھی طرح جانتی ہے، کیا میرے خلاف فیصلہ دینے والے ججوں کو مانیٹرنگ جج لگایا جا سکتا ہے؟ کیا کسی لفظ کی تشریح کے لیئے گمنام ڈکشنری استعمال کی جاتی ہے؟ کیا کسی سپریم کورٹ کے بینچ نے جے آئی ٹی کی نگرانی کی؟ کیا کسی نے اقامے پر مجھے نااہل کرنے کی درخواست دی تھی؟، یہاں جتنے گواہان پیش ہوئے کسی نے گواہی نہیں دی کہ میں نے کوئی جرم کیا، آپ اورمجھ سمیت سب کو اللہ کی عدالت میں پیش ہوناہے، ریفرنس کا فیصلہ آپ پر چھوڑ رہا ہوں۔
The post ملک میں قانون کے سارے ہتھیار سیاستدانوں کے لئے بنے ہیں، نوازشریف appeared first on ایکسپریس اردو.
فن تحریر میں طفلِ مکتب ہونے کا ادراک رکھنے کے باوجود قلم اٹھانے کی گُستاخی پر پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔ لکھنے کی وجہ محترم عمران خان صاحب کے گیارہ نکات ہیں جو مجھ ناچیز کی رائے میں بارہویں نکتے کے بغیر نہ صرف ادھورے بلکہ ناقابل عمل بھی ہیں۔ کیوں اور کیسے؟ یہ سمجھنے کےلیے ہمیں بارہواں نکتہ جاننے کی ضرورت ہے۔
میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اہم ترین سرکاری اداروں میں اہم ترین ذمہ داریوں پر براجمان ہونے کے باوجود ان ذمہ داریوں سے عہدہ برأ ہونے کی اہلیت سے محروم ہیں۔ میں نفسیاتی مریضوں کو حساس ترین اداروں میں ملازمتیں کرتے دیکھتا ہوں اور ان نفسیاتی مریضوں کو بھرتی کرنے والوں کی عقل کو داد دیتا ہوں۔ قصور بھرتی کرنے والوں کا بھی نہیں کہ ان میں یہ قابلیت تھی ہی نہیں کہ وہ بھرتی کرنے جیسے حساس کام کےلیے چُنے جاتے۔ اُن بے چاروں کو تو اپنی روزمرہ ذمہ داریوں سے اچانک ہٹا کر یہ ذمہ داری دے دی گئی تھی کیوں کہ سول سروس ایکٹ کا تقاضا یہی تھا۔
ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ یہاں سرکاری اداروں میں ایچ آر (Human Resources)، ایچ آر ایم ( Human Resource Management) اور اس کے تحت ایچ آر آر اینڈ ڈی (Human Resource Research & Development) کا کوئی ونگ سرے سے موجود ہی نہیں؛ اور اگر کہیں برائے نام موجود ہے تو نام نہاد ایچ آر ڈیپارٹمنٹ میں ایچ آر کے تعلیمی پس منظر رکھنے والے لوگ موجود نہیں۔ ہمارے ہاں ایچ آر کا انتظام ایڈمنسٹریشن ونگ سے چلایا جاتا ہے۔ نتیجتاً متعلقہ ذمہ داری کی نوعیت سے انجان لوگ بھرتی کر لیے جاتے ہیں جن سے عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق ریسرچ اور انوویشن (innovation) کی امید رکھنا ہی فضول ہے۔
اور تو اور، ہمارے ہاں سی ایس پی افسران کی بھرتی کا جو معیار طے ہے اسے دیکھ کر بے اختیار ہنسی آتی ہے۔ عہد جاہلیت کے عرب شعراء کی بیہودہ شاعری کا اچھا رٹا لگا لو تو پلیسمنٹ (Placement) آسان اور انگریزوں میں بھی متروک ہوچکی انگریزی جتنی بہتر ہوئی، اتنا پاس ہونا آسان۔ وگرنہ زمانے کے ارسطو بھی انگریزی کے مضمون میں پاس نہ ہوں گے اور English Essay میں پاس نہ ہونے کا انجام سبھی جانتے ہیں۔ باقی رہ گئے ایف پی ایس سی افسران یا پی ایس سی افسران تو کچھ سال پہلے تک محض ایک MCQs کا پرچہ دے کر بھرتی کیے جاتے تھے۔ اب سنا ہے کہ ایک انگریزی مضمون بھی لکھنا ہوتا ہے وہ بھی کچھ محکموں کےلیے۔ نہ کوئی Aptitude Test اور نہ کوئی نفسیاتی فٹنس کا معیار (Psychological Fitness Standard)۔
گریڈ 16 سے نیچے کا تو اتنا برا حال ہے کہ اس پر تفصیلی گفتگو ہوسکتی ہے اور وہ بھی کئی دن تک، کہ کس طرح ایک ڈیپارٹمنٹل سلیکشن کمیٹی میں بجائے ہیومن ریسورس مینجمنٹ کے ماہرین اور سائیکالوجسٹس کے وہ لوگ رکھے جاتے ہیں جن کو HRM کی ’’الف ب‘‘ بھی نہیں آتی اور پھر امیدواروں سے محض دنیا کے شہروں کے نام انٹرویو میں پوچھ کر متعلقہ aptitude نہ رکھنے والوں کو بھرتی کرکے فقط ایک خاندان کی روزی روٹی کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ اس ایک نااہل فرد کی نااہلی کتنے ہزار افراد کو بلاواسطہ متاثر کرتی ہے؟ کسی کو سروکار تک نہیں ہوتا۔
یہاں تک تو بھرتی کے معاملات کا ایک فیصد خاکہ تھا۔ اب ہم آتے ہیں ان چند لوگوں کی طرف جو اہلیت رکھتے ہوئے اس سسٹم کے سارے پیچ و خم کا مقابلہ کرتے کرتے سسٹم میں داخل تو ہوگئے اور اس قوم و ملک کےلیے اپنی صلاحیتیں وقف کرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں، لیکن عمران خان صاحب کا وہی گمشدہ بارہواں نکتہ انہیں ایسا کرنے نہیں دیتا۔
وہ کیوں؟ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے لوگ اچھی طرح سے سمجھ گئے ہوں گے اور غیر سرکاری لوگوں سے گزارش کرتا چلوں کہ آپ کتنے بھی لائق، محنتی اور فرض شناس کیوں نہ ہوں، آپ کا باس یا اُس کے اوپر کوئی بھی (immediate boss or anyone above him) جب تک نہیں چاہے گا، آپ ملک وقوم کےلیے نہ کچھ کر سکتے ہیں اور نہ ہی اگلے عہدے پر ان کی مرضی کے بغیر ترقی پاسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ کی ترقی اسی وقت ہوگی جب آپ سے اگلا بندہ (بلحاظ سروس) ترقی نہیں پالیتا، خواہ وہ ایک نفسیاتی مریض ہی کیوں نہ ہو۔
وقت اور جگہ کی قید نہ ہو تو ہر ایک سرکاری محکمے کے بگڑنے کے اسباب، اس کے اثرات اور تدارک پر کئی درجن کالم لکھے جا سکتے ہیں۔ اب محترم عمران خان صاحب اگر واقعی اپنے گیارہ نکات پر عمل کروانا چاہتے ہیں تو انہیں یہ ادراک تو یقیناً ہوگا کہ وہ اکیلے تو تمام کام نہیں کرسکتے، اور یہ بھی کہ انہیں ان ہی اداروں کے ان ہی لوگوں کے ذریعے اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانا پڑے گا جو موجودہ سرکاری اداروں میں بھرتی کے موجودہ قوانین اور ان اداروں کو چلانے کی موجودہ روش کے ہوتے ہوئے ایک ناممکن عمل ثابت ہوسکتا ہے۔ میری صرف اتنی سی گزارش ہے کہ وہ اپنے گیارہ نکات میں ایک بارہواں نکتہ
تمام سرکاری اداروں کی ازسرنو تنظیم
بھی اپنے منشور میں شامل کرلیں تو شاید کچھ بہتری لاسکیں ورنہ مجھے ڈر ہے کہ عمران خان کا اپنی قوم کےلیے جو بائیس سال کا صبر آزما سفر ہے، اُسے یہ لوگ اپنی نااہلی کے ستر سالہ تجربہ سے مات نہ دے دیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post عمران خان کا بارہواں ’’گمشدہ‘‘ نکتہ appeared first on ایکسپریس اردو.
لاہور: پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد میں تاخیر یا التواء کے حوالے سے پائی جانے والی افواہیں اور بے یقینی دم توڑ رہی ہے۔ بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے کہ جولائی2018 کے آخری ہفتہ میں پاکستانی عوام ملکی تاریخ کے 13 ویں مگر سب سے اہم جنرل الیکشن میں اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
پاکستان میں پہلے عام انتخابات 1954 میں ہوئے تھے۔ اس ان ڈائریکٹ الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ کامیاب ہوئی تھی۔ 1962 ء میں دوسرے عام انتخابات بھی ان ڈائریکٹ تھے اور فاتح بھی مسلم لیگ تھی۔1970 ء میں ہونے والے انتخابات میں عوامی لیگ کامیاب ہوئی ۔ 1977 ء کے عام انتخابات ملکی تاریخ کا اہم موڑ ثابت ہوئے اور ان میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کر لی ۔1985 ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ کامیاب ہوئی تھی اور انہی انتخابات کے نتیجہ میں میاں نواز شریف سیاسی افق پر نمودار ہوئے تھے۔
1988 ء کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی اور 1990 ء کے الیکشن میں اسلامی جمہوری اتحاد کامیاب ہوا۔1993 ء میں پیپلز پارٹی نے ایک مرتبہ پھر الیکشن جیت لیا اور 1997 ء میں مسلم لیگ نواز کامیاب ہو گئی۔ پرویز مشرف کے دور میں 2002 ء میں ہونے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ(ق) کامیاب ہوئی لیکن یہ انتخابات ’’انجینئرڈ‘‘ اور ق لیگ ’’کنگز پارٹی‘‘ قرار پائی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 ء میں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو حکومت مل گئی تھی جبکہ 2013 ء کے متنازعہ الیکشن میں مسلم لیگ(ن) کامیاب ہوئی۔ تاہم 2013 ء کے انتخابات شاید ملکی تاریخ کے متنازعہ ترین انتخابات ہیں جن میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایک سابق آرمی چیف اور ایک سابق چیف جسٹس پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملکر نواز حکومت کے قیام میں مبینہ رول ادا کیا تھا اور اس مقصد کیلئے مبینہ طور پر انتخابی عمل میں دھاندلی کی گئی تھی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدر مملکت کو بھیجی گئی سمری میں آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کیلئے 25 26, اور 27 جولائی کی تاریخ میں سے کسی ایک کے انتخاب کی سفارش کی ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ سیاسی جماعتوں کے پاس اپنے امیدوار فائنل کرنے اور ان امیدواروں کے پاس الیکشن مہم چلانے کیلئے آج کے بعد مزید 62 دن باقی ہیں۔ الیکشن مہم کیلئے یہ وقت بہت مختصر معلوم ہوتا ہے اور سب سے زیادہ نازک صورتحال پاکستان تحریک انصاف کی ہے کیونکہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد امیدواروں کا انتخاب مزید پیچیدہ ہو چکا ہے لیکن تحریک انصاف اس مرتبہ پارٹی میں سے مضبوط امیدواروں کے انتخاب سے زیادہ توجہ دوسری پارٹیوں کے ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کو تحریک انصاف میں شامل کرنے پر دے رہی ہے ۔
پاکستان میں گوشت کی دستیابی میں تو ہفتہ میں 2 دن کا ناغہ ہورہا ہے لیکن تحریک انصاف میں شمولیت کے حوالے سے کوئی ناغہ دیکھنے میں نہیں آرہا، ہر روز کوئی نہ کوئی الیکٹ ایبل کپتان کی ٹیم میں شامل ہو رہا ہے اور شامل ہونے والوں کی سنچری کب کی مکمل ہو چکی ہے۔ اس حوالے سے جہانگیر خان ترین کا کردار سب سے اہم ہے جن کی کلیئرنس کے بعد عمران خان شمولیت کرنے والوں سے باضابطہ ملاقات کرتے ہیں۔ شمولیت کرنے والوں کی کثرت کے حوالے سے جہانگیر ترین کے بارے میں سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے کئے جا رہے ہیں جن میں سے ایک بڑا وائرل ہو رہا ہے جس میںن لیگی قیادت بن کر کہا گیا ہے کہ’’گھر سے مت نکلنا،باہر جہانگیر ترین گھوم رہا ہے‘‘۔
تحریک انصاف کے اندر ہر سطح کے رہنماوں اور کارکنوں میں اتنی بڑی تعداد میں الیکٹ ایبلز کے شامل ہونے پر تحفظات اور خدشات موجود ہیں۔ کارکن اور رہنما سمجھ رہے ہیں کہ اس طرح سیاسی توازن خراب ہورہا ہے۔ ہر سیاسی موسم کے ساتھ بدلنے والے یہ الیکٹ ایبلز آنے والے دنوں میں پارٹی کے اندر بھی اور پارلیمنٹ میں بھی توازن خراب کر سکتے ہیں جبکہ میڈیا اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی تحریک انصاف پر یہ تنقید بڑھا سکتی ہیں کہ پرانے الیکٹ ایبلز کے ساتھ الیکشن جیتنے والے عمران خان کس طرح سے نیا پاکستان بنا سکتے
ہیں۔ پارٹی کے اندر یہ سوچ اپنی جگہ درست ہے لیکن عمران خان کی مجبوری ہے کہ وہ الیکٹ ایبلز کے بغیر یہ الیکشن جیت نہیں سکتا۔ تحریک انصاف آج تک ایک مکمل سیاسی جماعت نہیں بن پائی ہے اور نہ ہی اس کے رہنماوں نے پختہ سیاسی سوچ اور راہ عمل اپنائی ہے۔ قومی اسمبلی کی 272 نشستوں کیلئے اگر تحریک انصاف میں ایسے 272 امیدوار تلاش کرنے کی کوشش کی جائے، جو اپنے حلقوں میںعوامی سطح پر مقبول بھی ہوں اور قابل قبول بھی، گزشتہ پانچ برس سے حلقہ میں خوشی،غمی میں شرکت کے علاوہ ووٹرز کو ہمہ وقت دستیاب رہے ہوں۔
حلقہ میں پارٹی کی سرگرمیوں کو جاری رکھا ہو، ان کے پاس انتخابی مہم چلانے اور پولنگ ڈے کو بھرپور طریقہ سے مینج کرنے سمیت دیگر اخراجات کیلئے غیر یقینی اور زبانی جمع تفریق والے ’’سپانسرز‘‘پر انحصار کی بجائے اپنی جیب میں وافر مالی وسائل دستیاب ہوں تو شاید عمران خان مطلوبہ تعداد کا نصف بھی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ایسی صورتحال میں عمران خان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ کم سے کم متنازعہ یعنی اندھوں میں کانا دکھائی دینے والے الیکٹ ایبلز کو ساتھ لیکر چلیں ۔ ویسے عمران خان جس مزاج اور انداز کے انسان ہیں وہ حکومت بننے کے بعد ان الیکٹ ایبلز کو بے لگام نہیں ہونے دیں گے۔ عام پاکستانی اس وقت یہی سوچ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو تو متعدد مرتبہ آزما لیا،ایک مرتبہ تحریک انصاف کو بھی موقع دیکر دیکھتے ہیں شاید عمران خان ملک و قوم کی بہتری کیلئے وہ کر جائے جو آج تک سیاستدان نہیں کر سکے ہیں۔
میاں نواز شریف جان چکے ہیں مگریہ ماننے کو تیار نہیں کہ’’پارٹی از اوور‘‘۔ ان کی سیاست اور جماعت’’کٹ ٹو سائز‘‘ ہو چکی ہے،ان کی پارٹی کے اراکین بددلی اور غیر یقینی کا شکار ہو کر اپنے الیکشن پر زیادہ اخراجات نہ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جب پارٹی کی حکومت ہی نہیں آرہی تو کروڑوں روپے الیکشن پر لگانے سے کیا فائدہ ہوگا لہذا محدود بجٹ میں الیکشن جیت گئے تو ٹھیک ورنہ حلقہ کی سیاست تو ہار کر بھی کی جا سکتی ہے۔ نگران وزیر اعظم اور وزرائے اعلی کا تقرراس وقت سب سے اہم معاملہ ہے جس پر گزشتہ روز تک اتفاق رائے نہیں ہو پایا ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں بالخصوص تحریک انصاف ایک غیر جانبدار، اچھی ساکھ اور متفقہ فرد کو نگران بنانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ تحریک انصاف 2013 ء کے الیکشن میں نگرانوں کے ہاتھوں زخم کھا چکی ہے لہذا وہ اس مرتبہ کوئی غلطی کرنے کا رسک لینے کو تیار نہیں ہے۔
تحریک انصاف نے اپنی حکومت کے پہلے 100 دن کا روڈ میپ بڑے پر اعتماد اور منظم انداز میں پیش کیا ہے گو کہ مخالف سیاسی جماعتیں اور مبصرین اس روڈ میپ کو ناقابل عمل قرار دے رہے ہیں لیکن یہ حقیقت بھی موجود ہے کہ عام پاکستانیوں کی بڑی تعداد اس روڈ میپ کو سن کر متاثر ہوئی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ اس میں سے آدھا کام بھی کر لیا جائے تو یہ تاریخ ساز ہوگا۔
The post انتخابات بروقت اور تحریک انصاف کیلئے سود مند ہونگے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
کراچی: سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے مسلسل دس سال مکمل ہونے والے ہیں۔ ایک ہفتے کے بعد نئی نگران حکومت قائم ہو جائے گی۔ تادم تحریر نگران وزیر اعلی کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے مابین کوئی متفقہ نام سامنے نہیں آیا ہے اور اتفاق ہونا مشکل نظر آ رہا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے نہ صرف اہداف مختلف ہیں بلکہ دونوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے بہت دور جا چکی ہیں۔ البتہ کچھ قوتیں ایسی بھی سرگرم ہیں، جو انہیں نگران سیٹ اپ پر متفق کر سکتی ہیں۔ کراچی سمیت پورے سندھ میں آئندہ عام انتخابات کے پیش نظر سیاسی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں اور نئی صف بندیوں کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
صوبے میں نگران سیٹ اپ کے لیے آئندہ ایک دو روز میں پیش رفت ہو سکتی ہے کیونکہ وقت بہت کم ہو گیا ہے۔ آج سندھ اسمبلی آئندہ بجٹ کی منظوری دے سکتی ہے۔ اس کے بعد کسی بھی وقت وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن کے درمیان نگران وزیر اعلی کے معاملے پر ملاقات ہو سکتی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے نگران وزیر اعلی کے لیے فضل الرحمن ، حمیر سومرو ، جسٹس (ر) غلام سرور کورائی ، ڈاکٹر یونس سومرو ، سونو خان بلوچ اور غلام علی پاشا کے ناموں پر غور کیا گیا۔ ان کے علاوہ بیرسٹر مرتضٰی وہاب اور پروفیسر این ڈی خان کے ساتھ ساتھ جسٹس (ر) دیدار حسین شاہ کے نام بھی لیے جا رہے ہیں۔
فضل الرحمن سابق چیف سیکرٹری سندھ ہیں اور وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ذوالفقار ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ایم ڈی کے علاوہ سندھ حکومت کے کئی اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ انہیں پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر آصف علی زرداری کا قریبی تصور کیا جاتا ہے۔
وہ اردو بولنے والے ہیں اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے بھی ان کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ حمیر سومرو سندھ کے دو مرتبہ 1938 اور 1941 ء میں وزیر اعلی رہنے والے اللہ بخش سومرو کے پوتے اور سابق صوبائی وزیر رحیم بخش سومرو مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ انہوںنے امریکا سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی ہے۔
وہ اس وقت انڈس ریلی اسکول آف آرٹ اینڈ کلچر کے ایڈمنسٹریٹر ہیں لیکن سیاسی طور پر بھی بہت متحرک ہیں۔ جسٹس (ر) غلام سرور کورائی حکومت سندھ کے زیر انتظام چلنے والے کالجز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین ہیں جبکہ ڈاکٹر یونس سومرو معروف آرتھو پیڈک سرجن ہیں۔ سونو خان بلوچ صوبائی الیکشن کمشنر رہے ہیں اور غلام علی پاشا سندھ کے قائم مقام چیف سیکرٹری سمیت کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ جسٹس (ر) دیدار حسین شاہ کا نام بھی نگران وزیر اعلی کے طور پر لیا جا رہا ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ ان کی صحت زیادہ بہتر نہیں ہے ۔
ایم کیو ایم کی طرف سے جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد، آفتاب شیخ سمیت دیگر نام سامنے آ سکتے ہیں لیکن دونوں طرف سے اب تک سامنے آنے والے ناموں کے علاوہ کوئی اور نام بھی اچانک سامنے آ سکتا تھا۔ پیپلز پارٹی کی کوشش یہ ہو گی کہ وزیر اعلی اور اپوزیشن لیڈر کے مابین ملاقات کے دوران ہی نگران وزیر اعلی کے نام پر اتفاق ہو جائے لیکن ایسا مشکل نظر آتا ہے۔ ایم کیو ایم کی یہ کوشش ہو گی کہ معاملہ الیکشن کمیشن میں جائے کیونکہ وہاں اس کے امیدوار کے لیے نگران وزیر اعلی نامزد ہونے کا امکان موجود ہے۔ کل تک صورت حال واضح ہو جائے گی۔
دوسری طرف عام انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے سندھ میں سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیاں تیزکر دی ہیں۔ رمضان المبارک اور سخت گرمیوں کے باوجود یہ سرگرمیاں جاری ہیں۔ سندھ کے دارالحکومت کراچی پر سب سیاسی قوتوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی ، پاک سرزمین پارٹی ، جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی قیادت میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں پر مشتمل پاکستان عوامی اتحاد کراچی میں پہلے سے زیادہ سرگرم ہیں کیونکہ یہ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ ایم کیو ایم میں دھڑے بندیوں کے بعد وہ کراچی میں پیدا ہونے والے سیاسی خلاء کو پر کر سکتی ہیں۔
سندھ کے دیگر اضلاع میں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس ( جی ڈی اے ) میں شامل سیاسی جماعتیں نہ صرف ایک ہی انتخابی نشان سے الیکشن لڑیں گی بلکہ ان کے امیدوار بھی مشترکہ ہوں گے ۔ پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے سربراہ اور حروں کے روحانی پیشوا پیر پگارا جی ڈی اے کی قیادت کر رہے ہیں ۔ جی ڈی اے نے الیکشن کمیشن میں ایک سیاسی اتحاد کے طور پر رجسٹریشن کرا لی ہے ۔
پیپلز پارٹی کے مقابلے میں جی ڈی اے نے پورے سندھ میں امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اگلے روز جماعت الدعوہ اور ملی مسلم لیگ کے سربراہ حافظ محمد سعید نے پیر پگارا سے کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور سندھ میں آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا ۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف بھی سندھ میں بہت متحرک ہے ۔ توقع کی جا رہی تھی کہ سندھ کی بعض اہم سیاسی شخصیات تحریک انصاف میں شرکت کریں گی لیکن ان اہم شخصیات نے ابھی اپنی شمولیت بوجوہ موخر کر دی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے ایک وفد نے سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنماؤں سید زین شاہ اور دیگر سے حیدر منزل پر ملاقات کی ۔ تحریک انصاف اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی نے آئندہ انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اتفاق کیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ سندھ میں سیاسی صف بندیاں مزید واضح ہوں گی ۔
The post نگران سیٹ اپ کیلئے حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق ہو سکے گا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
پشاور: مرکزی حکومت نے اگر قبائلی علاقہ جات کو خیبرپختونخوا میں ضم کرتے ہوئے اسے بندوبستی علاقوں والاسٹیٹس دینا ہوتا تو وہ یہ کام بہت پہلے کر چکی ہوتی لیکن (ن) لیگ کی مرکزی حکومت اس معاملے پر پہلو تہی کرتی آئی ہے کیونکہ وہ اتنا بڑا فیصلہ لیتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار تھی لیکن اب جب فیصلہ سازوں نے فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کاارادہ اور فیصلہ کرلیا ہے تومرکزی حکومت بھی اس کا کریڈٹ لینے کے لیے پوری فارم میں نظر آرہی ہے اورموجودہ حکومت اپنے آخری چند دنوں کے دوران یہ بل منظور کرواتے ہوئے اسے عام انتخابات میں کیش کرنے کی بھرپور کوشش کرے گی۔
فاٹا کا معاملہ قیام پاکستان ہی سے التواء کا شکار رہا ہے جس کے حوالے سے کوئی ایسا فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ جس کی بنیاد پرفاٹا کی نیا آریا پار ہوسکتی اور پھر خود فاٹا بھی اپنے مستقبل کے فیصلے کے حوالے سے منقسم رہا ہے جس کی وجہ سے فاٹا کے بارے میں فیصلہ نہیں ہوسکا لیکن اب جبکہ موجودہ حکومتیں اپنے آخری دنوں میں ہیں،اس موقع پر فاٹا سے متعلق اہم فیصلے ہونے شروع ہوگئے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ بیشتر سیاسی پارٹیاں اس بات کے حق میں تھیں کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرتے ہوئے قومی دھارے میں لایاجائے اور صرف جمعیت علماء اسلام(ف)اورپختونخوا ملی عوامی پارٹی اس کی مخالفت کر رہی تھیں لیکن اس وقت مرکزی حکومت نے ان سیاسی پارٹیوں کی آواز پر کان نہیں دھرا حالانکہ اگر اس وقت ان سیاسی پارٹیوں کی بات سن لی جاتی اور اس پر فیصلہ کرلیاجاتا تو آج فاٹا بھی اس پوزیشن میں ہوتا کہ اس میں عام انتخابات کے انعقاد کی تیاریاں کی جا رہی ہوتیں لیکن یہ فیصلہ لینے میں بہت تاخیر کی گئی۔
جس کی وجہ سے اس سال فاٹا میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے عام انتخابات کا انعقاد نہیں ہوسکے گا اور قبائلی عوام کو اس سال بلدیاتی انتخابات پر ہی گزارہ کرنا ہوگا جبکہ عام انتخابات کا انعقاد آئندہ سال اپریل، مئی میں ہوگا جس کے بعد ہی قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا اسمبلی میں نمائندگی حاصل ہوگی اور وہاں کے نمائندے اپنے علاقوں اور عوام کی نمائندگی صوبائی اسمبلی میں کر پائیں گے اورتب تک فاٹا اپنے بارے میں دوسروں کے فیصلوں کا محتاج رہے گا ۔
چونکہ فاٹا کے حوالے سے اس فیصلے میں جمعیت علماء اسلام(ف) باہر رہ رہی ہے جومناسب نہیں کیونکہ جمیعت علماء اسلام(ف)کا فاٹا میں ایک اہم اور بڑا کردار ہے اور اسے اس اہم موقع پر فاٹا کے حوالے سے فیصلہ سازی کے عمل میں شریک نہ کرتے ہوئے خلاء پیدا کیا جا رہا ہے وہ بھی اس صورت میں کہ اگرعام انتخابات کے نتیجے میںخیبرپختونخوا میں ایم ایم اے کی حکومت بنتی ہے توکیا وہ فاٹا کو اس طریقے سے ساتھ لے کر چلنے کے لیے تیار ہوگی ۔
جیسے سوچا اور سمجھا جا رہا ہے اس لیے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے جے یوآئی کو اسی موقع پرساتھ لیتے ہوئے فیصلہ سازی میں شامل کرلیاجائے تو یہ ایک صائب اقدام ہوگا کیونکہ جے یوآئی احتجاج پر اترآئی ہے، دوسری جانب جماعت اسلامی اورجے یوآئی کے بھی فاٹا کے حوالے سے اختلافات موجود ہیں حالانکہ اس بارے میں کہا گیا تھا کہ دونوں پارٹیوں کی جانب سے دورکنی کمیٹی قائم کی جائے گی تاکہ وہ فاٹا سے متعلق اختلاف ختم کر سکے لیکن یہ اختلاف ختم نہیں ہو سکا اور اسی اختلاف کے دوران ہی خیبرپختونخوا کے لیے ایم ایم اے کا تنظیمی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا ہے جس کے حوالے سے الگ کہانی موجود ہے۔
متحدہ مجلس عمل کی خیبرپخونخوا میں کی گئی تنظیم سازی کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اسے دل سے تسلیم نہیں کیا، اگر جماعت اسلامی اس عمل کو دل سے تسلیم کررہی ہوتی تو اس صورت میں جماعت اسلامی کے صوبائی امیر سینیٹر مشتاق احمد خان نہ صرف یہ کہ صوبائی سیٹ اپ میں سینئر نائب امیر کا عہدہ لیتے بلکہ ساتھ ہی وہ اس پریس کانفرنس میں بھی موجود ہوتے جس میں ایم ایم اے کے صوبائی سیٹ اپ کا اعلان کیا گیا لیکن وہ وہاں سے غیرحاضر تھے اوران کی غیر حاضری ہی کان کھڑے کرنے کے لیے کافی تھی۔
مشتاق احمد خان اور ان کے ساتھی کسی بھی طور اس بات پر تیار نہیں تھے کہ ایم ایم اے کی صوبائی صدارت جے یوآئی کو دی جائے لیکن جماعت اسلامی کی مرکز ی قیادت کے کہنے پر وہ پیچھے ہٹ گئے تاکہ ان کی پارٹی قیادت کا مان برقرار رہے لیکن جے یوآئی کی صدارت کو تسلیم نہ کرنے کے حوالے سے اب بھی جماعت اسلامی کے پاس بہت سے دلائل بھی ہیں اورجماعت اسلامی کے قائدین نے اسے دل سے تسلیم بھی نہیں کیا اور یہ مسلہ الیکشن کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر دوبارہ اٹھے گا۔
جماعت اسلامی جب ایم ایم اے کی مرکزی صدارت جے یوآئی کو دینے پر تیار ہوئی تو اسی وقت اندازہ ہوگیا تھاکہ جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کی صدارت پر نظریں لگائے ہوئے ہے کیونکہ جماعت اسلامی ترازو کا اپنا انتخابی نشان بھی چھوڑکرکتاب کے نشان پر الیکشن کرنے کو تیارہوئی ہے حالانکہ گزشتہ انتخابات کے موقع پر جماعت اسلامی میں یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ انتخابات کے بائیکاٹ اوراتحادوں کی سطح پر انتخابات میں حصہ لینے کی وجہ سے جماعت اسلامی کا اپنا انتخابی نشان کھو کر رہ گیا ہے۔
اس لیے اب جماعت اسلامی تمام انتخابات اپنے اسی ترازو کے انتخابی نشان پر ہی کرے گی لیکن ایم ایم اے کی بحالی اور اس پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے کی وجہ سے جماعت اسلامی نے ’’ترازو‘‘کی بھی قربانی دی اور کتاب کے نشان کو قبول کیا جو بنیادی طور پر جے یوآئی کا انتخابی نشان ہے جس نے گزشتہ دونوں انتخابات میں اسی انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لیا، اس صورت حال کے بعد جماعت اسلامی ہر صورت ایم ایم اے کی صوبائی صدارت پر اپنا حق سمجھتی تھی جو اسے نہیں مل سکا۔
جماعت اسلامی اس بات پر بھی ناراض ہے کہ جمعیت علماء اسلام(ف)اب تک مرکز میں حکومت سے الگ کیوںنہیں ہوئی کہ اب جبکہ حکومتوں اور اسمبلیوں کے ختم ہونے میں چند دن ہی باقی ہیں،ان کے خیال میں جے یوآئی کو اقتدار کی غلام گردشوں سے باہر آجانا چاہیے تھا لیکن جے یوآئی بوجوہ اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکی اور بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ فاٹا کے حوالے سے بھی دونوں پارٹیوں میں بڑا اختلاف موجود ہے۔
جسے ختم کرنے کے لیے کوششیں توضرور کی گئی ہیں لیکن وہ کوششیں زیادہ سنجیدگی لیے ہوئے نہیں تھیں جس کی وجہ سے دونوں جماعتیں اس معاملے میں ایک ہی صفحے پر نہیں آسکیں تاہم اس معاملے کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں ضرور ہونی چاہئیں کیونکہ فاٹا سمیت دیگر ایشوزکے حوالے سے دونوں جماعتوں میں جو اختلافات پائے جاتے ہیں اگر وہ ختم نہ ہوئے تو ایم ایم اے کے لیے مشکلات ہوں گی کیونکہ بہرکیف یہ 2002ء نہیں بلکہ 2018ء ہے اور اب دونوں جماعتیں آگے بڑھنے سے پہلے ذرا مڑکر2007ء کی طرف بھی دیکھتی ہیں جہاں بہت کچھ دھندلایا ہوا نظر آتا ہے۔
The post فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے کا فیصلہ، حکومت اب کریڈٹ لینے کو تیار appeared first on ایکسپریس اردو.
کراچی: گرمی کی شدید لہر کا سبب بننے والے ہوا کے کم دباؤ کا مرکز زمین کی سطح پر ہونے کی وجہ سے نمی کا تناسب متوازن ہے۔
ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ کراچی سمیت اندرون سندھ کے بیشتر اضلاع میں شدید گرمی کی صورتحال کا سبب بننے والے ہوا کے کم دباؤ کا مرکز زمین ہے، سندھ اور بلوچستان کی بالائی سطح پر بننے والے اس دباؤ کی طرز پر ہر سال موسم گرما میں ایسے دباؤ پیدا ہوتے ہیں جو ہوا کی سمت کو تبدیل کرسکتے ہیں، 2015 میں سمندری ہوائیں منقطع کرنے والے ہواکے کم دباؤ کا مرکز رن آف کچھ جبکہ بھارتی گجرات کا سمندر تھا یہی وجہ ہے کہ ہوا کے اس کم دباؤ کے زیر اثر ہوائیں اپنے ساتھ سمندر سے بخارات لے کر آتی تھی ۔
اس وجہ سے ہوا میں نمی کا تناسب انتہائی زیادہ تھا مگر حالیہ گرمی کی لہر کے دوران ہوا میں نمی کا تناسب درجہ حرارت انتہائی حد تک بلند ہونے کے باوجود ہوا میں نمی کا تناسب معتدل ہے حالیہ گرمی کی لہر کے دوران ہیٹ ویو اور اس کے ہیٹ اسٹروک کی شکل میں انسانی جسم پر اثرات کی دو اہم علامات پوری ہوچکی ہیں جس میں ایک درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ اور سمندری ہواؤں کی طویل وقت کے لیے بندش شامل ہے تاہم ایک ہفتہ اور بالخصوص 3 دن کے دوران پڑنے والی شدید گرمی کے دوران ہوا میں نمی کا تناسب 3 فیصد سے 13فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔
The post شہر میں ہیٹ ویوکی2 اہم علامات پوری ہوگئیں appeared first on ایکسپریس اردو.
اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کا کہنا ہے کہ پوری قوم میرے بیانیے سے متفق ہے اور اگلا الیکشن ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے پر ہو گا۔
احتساب عدالت میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران نواز شریف نے کہا کہ دانیال عزیز کو تھپڑ مارنا افسوسناک عمل ہے، یہ پی ٹی آئی کا کلچر ہے اور اس کے ذمہ دار عمران خان ہیں، خیبر پختونخوا اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی کے ارکان گتھم گتھا ہوتے رہے، ایک ایک کر کے ان کے سارے پول کھل رہے ہیں۔
نواز شریف نے کہا کہ تحریک انصاف تو پہلے بھی پلان دے چکی ہے اس نے کیا عمل کیا؟ سوائے دھرنوں اور ایمپائر کی انگلی کی طرف دیکھنے کے انہوں نے کیا کیا؟ وہ صوبے میں اپنا کوئی ایک قابل ذکر کارنامہ بتا دیں،انہوں نے کہا تھا کہ 300 ڈیم بنائیں گے کہاں ہیں وہ ڈیم؟ کہاں ہیں درخت جو انہوں نے لگانے کا کہا تھا ؟ 50 ہزار میگا واٹ بجلی کہاں ہے جو پی ٹی آئی نے بنانے کا کہا تھا،کہاں ہے نیا پاکستان، کہاں ہے نیا خیبر پختونخوا؟ یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا تو جنوبی پنجاب سے بھی پیچھے ہے۔
پارٹی بیانیے سے متعلق سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہر چیز نوٹ کی جا رہی ہے لیکن قوم بھی ہر چیز نوٹ کر رہی ہے، پوری قوم میرے بیانیے سے متفق ہے، اگلا الیکشن ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر ہو گا، اب تو جلسوں میں لوگ مجھے کہتے ہیں ہم نعرہ لگائیں گے ووٹ کو اور تم کہنا عزت دو۔
The post اگلا الیکشن ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے پرہوگا، نوازشریف appeared first on ایکسپریس اردو.
کراچی: شہر قائد میں آج بھی سورج سوا نیزے پر ہے جب کہ پارہ 43 ڈگری سینٹی گریڈ تک جانے کا امکان ہے گرمی کی حالیہ لہر اگلے دوروز تک برقرار رہے گی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی کا موسم آج بھی گرم اور خشک رہے گا، سمندری ہوائیں بند ہونے کے باعث شہریوں کو آج بھی گرم اور چلچلاتی دھوپ کا سامنا رہے گا۔ دوپہر 12 بجے کراچی کا درجہ حرارت41 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیاگیا جب کہ گرمی کی شدت (ہیٹ انڈیکس)42 ڈگری محسوس کی جارہی ہے۔ اس کے علاہ آج دن بھر شمال کی جانب سے گرم ہوائیں چلتی رہیں گی۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ کراچی میں گرمی کی یہ حالیہ لہر مزید دوروز تک جاری رہے گی۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: کراچی میں حالیہ گرمی سے 60 افراد جاں بحق ہوگئے
گزشتہ کئی روز سے جاری گرمی، ہوا، پانی کی بندش اور کے الیکٹرک کی جانب سے کی جانے والی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے روزے داروں کو نڈھال کردیا ہے۔ محکمہ موسمیات نے شدید گرمی کے پیش نظر شہریوں کو دھوپ سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں اور باہر جانا ضروری ہوتو سر کو کسی گیلے کپڑے سے ڈھانپیں اس کے علاوہ چھتری لے کر گھر سے باہر جائیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز بھی شہر قائد میں شدید گرمی کے باعث لوگوں کو سخت پریشانی کا سامنا رہاتھا جب کہ گزشتہ روز زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 42 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیاگیاتھا۔
The post کراچی آج بھی شدید گرمی کی لپیٹ میں، پارہ42 سے تجاوز کرگیا appeared first on ایکسپریس اردو.
By Terray Sylvester PAHOA, Hawaii (Reuters) - Lava from the erupting Kilauea volcano on Hawaii's Big Island flowed towards a geothermal power plant on Monday as workers scrambled to shut it down to prevent the uncontrollable release of toxic gases. It was the latest danger from Mount Kilauea's eruption, which geologists says is among the worst events in a century from one of the world's most active volcanoes. "We do want to shut down the wells so that we would eliminate the broader risk of uncontrolled release," of gases and steam from the plant, Hawaii Governor David Ige told reporters on Sunday.
from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2KJpTQi
Two Sherpa guides working on Everest were confirmed dead Tuesday, bringing the death toll on the world's highest peak this spring climbing season to five. The two guides -- both ethnic Sherpas from the valleys that surround Everest -- were working on opposite sides of the mountain, which straddles the border between Nepal and Tibet. Experienced guide Damai Sarki Sherpa, 37, fell more than 60 metres into a crevasse on Monday as he was helping a foreign climber to a rescue helicopter on the Nepal side of the mountain.
from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2kicEes
By Terray Sylvester PAHOA, Hawaii (Reuters) - Hawaii faced a new hazard on Sunday as lava flows from Kilauea's volcanic eruption could produce clouds of acid fumes, steam and glass-like particles as they reach the Pacific, authorities said. Civil defense notices cautioned motorists, boaters and beachgoers to beware of caustic plumes of "laze" formed from two streams of hot lava pouring into the sea after cutting across Highway 137 on the south coast of Hawaii's Big Island late on Saturday and early Sunday.
from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2LhE93P
US scientists found a Spanish galleon laden with treasure worth up to £12.6bn at the bottom of the Caribbean Sea, more than 300 years after it sank. The San Jose, considered the holy grail of shipwrecks, was discovered three years ago off the coast of Colombia but few details were released at the time. The 62-gun, three-masted galleon sank in June 1708, during a battle with British ships in the War of Spanish Succession, with the loss of nearly 600 lives.
from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2rYdb9I
Nazanin Zaghari-Ratcliffe, a British-Iranian woman jailed in Tehran for two years, has appeared in court to face a new charge, her husband said on Monday. Zaghari-Ratcliffe was summoned to a court in Tehran on Saturday, according to a statement from Richard Ratcliffe, who runs the Free Nazanin campaign group. On Sunday, she was allowed to speak to the British ambassador to Tehran, Rob Macaire.
from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2IyioiO
Lava flows and a series of earthquakes, have now been followed by large clouds of toxic fumes and tiny glass-like particles known as "laze", from Hawaii's erupting volcano, Kilauea. Lava has also continued to gush out of large cracks in the ground in residential neighbourhoods, while two explosive eruptions unleashed clouds of ash from the volcano's summit. The rate of sulphur dioxide gas being emitted from large cracks in the ground in these areas has also tripled, leading the county of Hawaii to repeat warnings about air quality.
from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2wYYdFb
Tesla's rollout of the Model 3 has been anything but smooth sailing, and thousands of customers are still waiting for one very important Model 3 variant: the base model. It's the car Tesla CEO Elon Musk has consistently promised would come with a $35,000 price tag and 220 miles of range. Now, Musk has tweeted that those reserving the least expensive Model 3 could see their cars as soon as September.
from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2s00QS2
Israel is the first country to have used the U.S.-made F-35 stealth fighter in combat, the Israeli air force chief said on Tuesday in remarks carried by the military's official Twitter account. Local media further quoted Major-General Amikam Norkin as saying in a speech to the chiefs of 20 foreign air forces convening in Israel: "We are flying the F-35 all over the Middle East and have already attacked twice on two different fronts". Manufactured by Lockheed Martin Corp, the F-35 is also known as the Joint Strike Fighter and, in Israel, by its Hebrew name "Adir" (Mighty).
from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2GDKS4w
آئی آئی ٹی میں داخلہ ہر انڈین سٹوڈنٹ کا خواب ہوتا ہے لیکن اتل کمار کا خواب اس وقت چکنا چور ہو گیا جب داخلہ فیس جمع کروانے کا پورٹل آخری وقت ...
جملہ حقوق ©
WAKEUPCALL WITH ZIAMUGHAL
Anag Amor Theme by FOCUS MEDIA | Bloggerized by ZIAMUGHAL