![](https://static01.nyt.com/images/2019/09/06/us/06storm-notagain02/06storm-notagain02-mediumThreeByTwo440.jpg)
By BY JACK HEALY AND NICHOLAS BOGEL-BURROUGHS from NYT U.S. https://ift.tt/2ZUfl8r
.FOCUS WORLD NEWS MEDIA GROUP EUROPE copy right(int/sec 23,2012), BTR-2018/VR.274058.IT-
اسلام آباد (جی سی این رپورٹ )قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں اسلامی نظریاتی کونسل نے بیک وقت تین طلاقوں کو قابل تعزیر جرم قرار دینے کی سفارش کرد ی ، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایا ز نے کمیٹی کو بتایا کہ ا س سے معاشرے میں خاندان تباہ ہو رہے ہیں،طلاق دینے کے بعد مرد بھی نادم رہتا ہے،رکن کمیٹی محمود بشیر ورک نے اسلامی نظریاتی کونسل کے حکام سے استفسار کیا کہ کیا مذاق میں طلاق ہو سکتی ہے؟ جس پر اسلامی نظریاتی کونسل کے حکام نے کہا کہ طلاق مذاق میں بھی ہو جاتی ہے۔ چیئرمین ریاض فتیانہ کے زیر صدارت کمیٹی کے اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل نے میراث اور طلاق کی مسلک کے تحت قانون سازی کی حمایت کی۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز کا کہنا تھا کہ فقہ حنفی میں ایک ہی نشست میں تین طلاقوں کو قابل سزا جرم قرار دیا جائے۔وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے سوال اٹھایا کہ بیک وقت تین طلاقیں قابل سزا جرم ہو تو سزا کتنی ہو؟ اس پر قبلہ ایاز نے جواب دیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے تجویز دی ہے، سزا کا تعین نہیں کیا۔ وزارت قانون سزا دینے سے اتفاق کرے تو سزا بھی تجویز کر دیں گے۔ فروغ نسیم نے اس سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا کہ سزا شروع کر دی تو پولیس کے مال کھانے کا ایک اور راستہ کھل جائے گا۔ کمیٹی نے طلاق اور میراث سے متعلق بل آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا۔رکن اسمبلی محمود بشیر ورک نے سوال کیا کہ کیا مذاق میں طلاق ہو سکتی ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے حکام کا کہنا تھا کہ طلاق مذاق میں بھی دی جائے تو ہو جاتی ہے ۔ وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اسلام میں طلاق دینا جرم ہے تو قانون سازی کی حمایت کروں گا لیکن اسلام میں طلاق جرم نہیں تو ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے طلاق کو قابل تعزیر جرم قرار دیا تھا۔ فروغ نسیم نے اس پر کہا کہ خلفائے راشدین کے عمل سے روایت ملتی ہے تو اس کے پابند ہیں ۔
The post کیا مذاق میں بھی طلاق ہو جاتی ہے؟ appeared first on Global Current News.
قاہرہ (جی سی این رپورٹ)برگزیدہ پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی داستان حیات تو تمام مسلمانوں کو معلوم ہے جن کا ذکر قرآن مجید میں 135 بار آیا ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو فرعون مصر کے مظالم سے بچا کر وہاں سے لے گئے تھے اور اس دوران مصر کا یہ ظالم بادشاہ ڈوب کر ہلاک ہوگیا۔توریت اور انجیل میں بھی یہ قصہ بیان کیا گیا ہے مگر کہیں بھی اس کے نام کا ذکر نہیں کیا گیا۔یہ ذہن میں رہے کہ فرعون اس دور میں مصر کے بادشاہوں کا لقب تھا یعنی جو بادشاہ بنتا اس کو فرعون کہا جاتا۔قدیم مصر پر اس طرح 30 خاندانوں نے حکومت کی تھی یعنی سیکڑوں فرعون وہاں حکمرانی کرتے رہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد میں جو فرعون تھا، اس کا نام کیا تھا؟نیشنل جیوگرافک کی ایک رپورٹ کے مطابق حضرت موسیٰ کے عہد کے فرعون کی شناخت پر بہت زیادہ بحث ہوچکی ہے مگر بیشتر اسکالرز کا ماننا ہے کہ بنی اسرائیل کی مصر سے روانگی فرعون رعمیس دوم کے عہد میں ہوئی تھی۔انجیل میں بتایا گیا کہ بنی اسرائیل سے Pithom اور رعمیسز نامی شہر بیگار میں تعمیر کرائے گئے تھے اور مصری تاریخ سے تصدیق ہوتی ہے کہ 19 ویں خاندان کے بادشاہوں (1293 سے 1185 قبل مسیح) نے سرزمین شام میں بڑی فوجی مہم کا آغاز کیا تھا۔فرعون Seti اول (1290 سے 1279 قبل مسیح تک حکومت) نے ایک نیا فوجی شہر تعمیر کیا جسے اس کے جانشین رعمیس دوم (1279 سے 1213 قبل مسیح) نے رعمیسز کا نام دیا اور اسی نے ایک دوسرا شہر پر اتوم (Per Atum) کو تعمیر کرایا جس کا ناممکنہ طور پر بگڑ کر Pithom ہوگیا۔اسی طرح اسرائیل کا پہلا حوالہ رعمیس دوم کے بعد فرعون بننے والے منفتاح کے عہد کی نقشین لوح میں ملتا ہے اور یہ یادگاری لوح 1207 قبل مسیح کی ہے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ بنی اسرائیل کی روانگی منفتاح کے عہد سے پہلے ہوئی ہوگی ممکنہ طور پر 1280 سے 1220 قبل مسیح کے دوران۔بنی اسرائیل کے خروج کا کوئی ریکارڈ کسی مصری ٹیبلیٹ یا لوح یں نہیں ملتا مگر یہ غیرمعمولی نہیں، کیونکہ مصری شاہی خادان میں شکستوں کو ریکارڈ کرنے کی عادت نہیں تھی۔خیال رہے کہ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ کے قصے میں 2 فرعونوں کا ذکر آتا ہے، ایک وہ جس کے زمانہ میں آپ کی پیدائش ہوئی اور جس کے گھر آپ نے پرورش پائی، جبکہ دوسرا وہ جس کے پاس دین حق کی دعوت اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ لے کر پہنچے اور وہ بحیرہ احمر (بحیرہ قلزم بھی کہا جاتا ہے) میں غرق ہوا۔ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ پہلا فرعون رعمیس دوم تھا جبکہ جس فرعون کے غرق ہونے کا ذکر ہے وہ منفتاح تھا اور قرآن مجید میں اس کی لاش کو نشان عبرت بنانے کا بھی کہا گیا۔بہر حال یہ تاریخی قیاسات ہی ہیں اور مصری، اسرائیلی اور عیسوی جنتریوں کے تطابق سے بالکل صحیح تاریخوں کا حساب لگانا مشکل ہے۔تاہم یہ بھی مانا جاتا ہے کہ سمندر میں غرق ہونے والے فرعون کی لاش پانی نے باہر پھینک دی تھی جس کے بعد اسے ممی بنا کر تابوت میں رکھ دیا گیا تھا۔ان دونوں فرعونوں کی ممیاں 19 ویں صدی کے آخر میں دریافت کی گئی تھیں اور اب قاہرہ میوزیم میں موجود ہیں۔
The post حضرت موسیٰ کے دور میں دریا میں غرق ہونے والے فرعون کا نام کیا تھا؟ appeared first on Global Current News.
راہل گاندھی اب ان حکومتی کمیٹیوں میں بیٹھیں گے جو اہم حکومتی فیصلے اور تقرریاں کرتی ہیں اور وہ انڈین پارلیمان میں طاقتور سمجھے جانے والے وزی...
جملہ حقوق ©
WAKEUPCALL WITH ZIAMUGHAL
Anag Amor Theme by FOCUS MEDIA | Bloggerized by ZIAMUGHAL