بدھ، 30 مئی، 2018

حب الوطنی کی نرالی منطق (ضیاء مغل)

0 comments

سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کو جی ایچ کیو طلب کیا گیا کہ وہ اپنی اور سابق سربراہ ’’را‘‘ امرجیت سنگھ دلت کی مشترکہ کتاب ’’دی اسپائی کرانیکلز‘‘ پر وضاحت پیش کریں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ دنیا کی نمبر ون کہلائی جانے والی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کو کانوں و کان خبر نہ ہوئی کہ اس ایجنسی کا سابق سربراہ دشمن ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق سربراہ کے ساتھ مل کر ایسی کتاب لکھ رہا ہے جس میں قومی سلامتی سے متعلق کئی اہم راز منکشف ہونے جا رہے ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ بات آئی ایس آئی کے علم میں تھی تو سوال اٹھتا ہے کہ پھر بروقت ایکشن کیوں نہیں لیا گیا اور اگر علم نہیں تھا تو پھر نمبر ون ہونے کا دعوٰی کیسا؟

جہاں تک سوال ہے طلبی کا تو طلبی کے بعد حسب سابق انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں کوئی ایکشن بھی ہوگا یا شاید محض دکھاوا ثابت ہو، بالکل اسی طرح جیسے ڈان لیکس ون اور ڈان لیکس ٹو پر بھرپور میڈیا کوریج حاصل کرنے کے بعد معاملات ردی کی ٹوکری میں پھینک دیئے گئے۔

ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی انوکھا مزاج رکھتی ہے اور اپنے آپ کو سب سے بڑھ کر محب وطن سمجھتی ہے۔ اگر کوئی عمل مزاج شریف کو ناگوار گزرے (چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو) تو حب الوطنی کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ایکشن ضرور ہوگا۔ اس کے برعکس چاہے جتنا بھی سنجیدہ و سنگین مسئلہ درپیش ہو، اگر وہ مزاج مبارک کےلیے تکلیف دہ نہیں تو قومی مفاد، مصلحت کی نذر ہوجائے گا۔ ڈان لیکس ون اور ٹو، دونوں پر حیرت انگیز خاموشی بتاتی ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے کیونکہ اگر نواز شریف نے جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈہ کیا تھا تو ابھی تک انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے تھا۔ اور اگر انہوں نے سچ بولا تھا تو کم از کم ہمیں امن پسند ہونے کا ڈھونگ رچانا بند کردینا چاہیے۔

مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان صاحب نے الیکشن لڑ کر اپنی حب الوطنی ثابت کی کیونکہ مادر ملت کا تو حب الوطنی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی انہوں پاکستان بنانے کےلیے اپنے بھائی کے ساتھ دن رات ایک کیے تھے، بلکہ ان کو تو گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے آج کل کے ایک وفاقی وزیر کے والد مرحوم سے سیدھی سیدھی گالیاں دلوائی گئیں تھیں۔ جنرل یحییٰ خان نے اس حب الوطنی کو ذوالفقار علی بھٹو کی مدد سے سکیڑ کر مغربی پاکستان تک محدود کر دیا، اسی طرح جنرل ضیاء الحق نے بھی اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پہلے نوے دن میں الیکشن کا اعلان کروایا مگر پھر حب الوطنی کے تقاضے پورے کرتے ہوئے خود ہی تقریباً گیارہ سال اقتدار پر براجمان رہے۔

جہاں تک بات ہے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی تو وہ شاید اپنے آپ کو باقی تمام آمروں سے بڑھ کرحب الوطن سمجھتے ہیں اسی لیے انہوں نے وطن کی بہتری و ترقی کےلیے ایک انتہائی مہنگا وزیراعظم امپورٹ کیا جو حکومت ختم ہوتے ہی ایکسپورٹ ہوگیا اور گیارہ سال گزر گئے، ابھی تک ایکسپورٹ ہی کی حالت میں ہے۔

جہاں تک مزاج کو گراں گزرنے کی بات ہے تو اس کا اندازہ آپ اس سے لگاسکتے ہیں کہ اگر کوئی بھی اسٹیبلشمنٹ پر کھلی تنقید کرے (چاہے وہ مثبت ہی کیوں نہ ہو) تو اسے جناب سلیمانی ٹوپی پہنا دیتے ہیں جس کے بعد وہ ہوتا تو وہیں ہے مگر نظر کسی کو نہیں آتا؛ یا اگر زرداری صاحب ’’اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘‘ جیسی ہوائی فائرنگ کریں تو اگلے صاحب بہادر کے چارج سنبھالنے تک ملک میں داخل نہیں ہوسکتے۔

جس طرح ہمارے سیاستدان اس قوم کو بانجھ سمجھتے ہیں اور صرف اپنے بچوں، بھتیجوں اور بھانجھوں وغیرہ کو الیکشن اور قیادت کا اہل سمجھتے ہیں بالکل اسی طرح ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی اس قوم کو بانجھ سمجھتی ہے اسی لیے پچھلے ستر سال سے انہیں دو ہزار خاندانوں کے علاوہ کوئی بھی قیادت کے قابل نہیں لگا اور وہ ان ہی کو پارٹیاں بدلوا بدلوا کر اقتدار میں لاتی رہی ہے۔ آج بھی یہی کچھ ہوتا نظر آرہا ہے۔

ایک ڈرائی کلینر مرکز میں لگا ہوا ہے اور ایک کراچی میں۔ جو بھی اس ڈرائی کلینر سے گزر جائے اس کے سارے پاپ دھل جاتے ہیں اور وہ اگلے اقتدار کے مزے لوٹنے کےلیے تیار ہو جاتا ہے۔

ہمارے سیاستدان بھی اتنے شریف النفس ہیں کہ ہر بار جمہوریت کا بہانہ بنا کر اقتدار حاصل کرتے ہیں اور پھر لوٹ مار کا بازار گرم کرکے دوبارہ آمریت کی راہ ہموار کرجاتے ہیں۔ جب سیاستدان نادیدہ دیواروں کو پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ردعمل ان کا منتظر ہوتا ہے۔

ہماری اسٹیبلشمنٹ نے جتنی محنت مختلف افراد کو بنانے میں کی ہے اس سے آدھی بھی اگر اداروں کو بنانے پر کی ہوتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ مگر شاید حب الوطنی کا نشہ ابھی اترا نہیں اسی لیے اگلا الیکشن بھی اسی ’’روایتی‘‘ حب الوطنی کی نذر ہوتا دکھائی دے رہا ہے: دو چار چہروں کی تبدیلی ہوگی اور قوم پھر ایک اندوہناک گڑھے میں گرادی جائے گی۔ یوں جمہوریت بھی پروان چڑھتی رہے گی اور صاحب بہادر کا مزاج شریف بھی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post حب الوطنی کی نرالی منطق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xpgsDN
via IFTTT

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔