ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، اسی طرح کسی بھی جاندار کاقتل اس کی پوری نسل کو ختم کر دیتا ہے، اور آہستہ آہستہ وہ جاندار کمیاب سے نایاب ہوجاتا ہے اور پھر ناپید۔ چاہے وہ حیوانا ت ہوں یا نباتات۔
ہماری دنیا میں جانداروں کا بے دریغ قتل عام کیا جارہا ہے جن میں نباتات سرفہرست ہیں، کیوں کہ وہ اپنے لیے یا اپنے ساتھیوں کے لیے آواز بلند نہیں کرسکتے، انسان ان کےحق میں کیا بولیں گے جو اپنے مفاد کےلیے ان جانداروں (درختوں) کا خاموش قتل کررہے ہیں۔
ہماری زمین پر اس وقت لگ بھگ 30 کھرب سےزائد درخت موجود ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ 642 ارب درخت روس میں ہیں۔ اس کے بعد کینیڈا میں 318 ارب، برازیل میں 302 ارب اور امریکا میں 228 ارب ہیں۔
دراصل درختوں کی جڑیں جو زیر زمین دور دور تک پھیل جاتی ہیں ان درختوں کے لیے ایک نیٹ ورک کا کام کرتی ہیں جس کے ذریعے یہ ایک دوسرے سے نمکیات اور کیمیائی اجزا کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اس نیٹ ورک کے ذریعے پھل دار اور جاندار درخت، ٹنڈ منڈ اور سوکھے ہوئے درختوں کو نمکیات اور کاربن بھی فراہم کرتے ہیں۔ اگر جنگل میں بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کردی جائے، یا موسمیاتی تغیر یا کسی قدرتی آفت کے باعث کسی مقام کا ماحولیاتی نظام متاثر ہوجائے تو زیر زمین قائم درختوں کا یہ پورا نیٹ ورک بھی متاثر ہوتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی ایک تار کے کٹ جانے سے پورا مواصلاتی نظام منقطع ہوجائے۔
ماحول کو صاف رکھنے اور آلودگی سے بچانے کے لیے درخت لگانا بے حد ضروری ہیں۔ لیکن اس سے قبل یہ علم ہونا ضروری ہے کہ کس علاقے کی آب و ہوا اور محل و وقوع کے لحاظ سے کون سے درخت موزوں رہیں گے؟
درخت اپنی افزائش اور ساخت کے اعتبار سے مختلف زمینوں اور مختلف موسمی حالات میں مخصوص اقسام پر مشتمل ہوتے ہیں۔ مختلف درخت مخصوص آب و ہوا، زمین، درجہ حرارت اور بارش میں پروان چڑھ سکتے ہیں۔
دنیا میں کم وبیش 60 ہزار سے زائد قسم کے درخت پائے جاتے ہیں۔ منفرد ساخت، قد و قامت اور رنگت کے حامل یہ درخت اپنےاندر بے شمار خصوصیات رکھتے ہیں۔ ایک درخت اوسطاً 260 پونڈ آکسیجن ہر سال پیدا کرتا ہے۔ دو قدآوردرختوں کی پیدا کردہ آکسیجن 4 افراد پر مشتمل خاندان کےلیے کافی ہوتی ہے۔ شاہ بلوط اور چنار کے گھنے درخت سب سے زیادہ آکسیجن پیدا کرنے والے درخت سمجھے جاتے ہیں۔ نیم، پیپل، ایلو ویرا اور تُلسی سمیت تقریباً 9 ایسے درخت ہیں جو 24 گھنٹے آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ دنیا میں ہر گزرنے والے منٹ میں تقریباً 55 ہزار 6 سو درخت کاٹ دئیے جاتے ہیں۔
درخت اور جنگلات ماحولیاتی آلودگی کم کرنے اور ماحول کو صاف ستھرا رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حکومت کے ساتھ شہریوں کی بھی اوّلین ذمہ داری ہے کہ وہ درخت اور پودوں کی حفاظت کریں۔
پاکستان میں بھی درختوں کو بے دردی سے کاٹا جارہا ہے جس کے باعث ملک موسمی تغیرات کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان میں جنگلات کی بے انتہا کمی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کراچی اور سندھ بھر میں بڑھتی ہوئی بیماریوں کا سبب بھی ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں تعمیراتی مقاصد اور دیگر وجوہات کے سبب درختوں کو بے دریغ کاٹا گیا۔ جس کے بعد کراچی کے صرف 1.87 فیصد رقبے پر درخت باقی رہ گئے ہیں۔
شہر کے مختلف علاقوں میں زمانے سے لگے سایہ دار قد آور درختوں کو اکھاڑ پھینکا گیا، پوری کی پوری گرین بیلٹ ملیہ میٹ کردی گئی، سڑکوں کے اطراف بنی کیاریاں اور نرسریاں اجاڑ دی گئیں جس کے سبب کراچی کے درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا۔ اور بارشیں بھی ماضی کی نسبت انتہائی کم ہوگئیں۔
کراچی میں پڑنے والی قیامت خیز گرمی کی اصل وجہ بھی درختوں کا بے حساب قتل ہے۔ اب تو انسان کے ساتھ چرند پرند بھی گرم موسم سے پناہ مانگ رہے ہیں۔
یہ وہی کراچی ہے جہاں سال بھر معتدل موسم رہتا تھا۔ گرم علاقوں کے رہائشی یہاں آکر خوبصورت موسم کا لطف لیتے تھے۔ دوسرے ملکوں اور علاقوں کے مہاجر پرندے بھی کراچی کا رخ کیا کرتے۔
گزشتہ دورِ حکومت میں کراچی کو سرسبز بنانے کے لیے غیر ملکی نسل کے کونو کارپس درخت کثیر تعداد میں لگائے گئے جو کہ بہت تیزی سے سے افزائش کرتے ہیں۔ صرف شاہراہ فیصل پر 300 کونو کارپس درخت ہیں۔ تاہم یہ کراچی کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتے۔ کونو کارپس کراچی میں پولن الرجی کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ تھر کول پراجیکٹ میں بھی اسی کے پودے لگائے گئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق کونو کارپس بادلوں اور بارش کے سسٹم پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جس کے باعث کراچی میں مون سون کے موسم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
سندھ میں کونو کارپس کی شجرکاری پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ لیکن کم علمی کی وجہ سے سرکاری و نجی ادارے کونو کارپس لگارہے ہیں۔ اس بات کا شعور اجاگر کرنا ضروری ہے کہ کراچی کے لیے کونو کارپس ماحول دشمن درخت ہے۔
کراچی کے مقامی درختوں میں نیم، ببول، گل مہر، سائرس، لنگرا اور دیگر ماحول دوست درخت شامل ہیں۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں تاکہ آنے والی نسلوں کی حفاظت کا انتظام ہوسکے؛ اور ہم بھی کہہ سکیں ’’دشت سفر میں میرے بنے سائباں درخت۔‘‘
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post دشت سفر میں میرے بنے سائباں درخت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2JdgvaA
via IFTTT
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔