ہمارے رویّے دن بدن ایسے ہوتے جارہے ہیں کہ اپنے آپ کو انسان کہنے سے بھی گھن آتی ہے۔ انقلاب، تبدیلی، اسلامی پاکستان، جمہوری پاکستان کے نعرے ہم روز سنتے ہیں۔ روٹی، کپڑا، مکان، روزگار اور اچھی تعلیم کے دلکش پیکیج بھی ملتے ہیں۔ مسجدوں کے واعظ ہر جمعہ کے خطبے میں حکایات اور واقعات بیان کرکے ہمارے رویّوں کو بدلنے کا درس دیتے ہیں۔ ارکان اسلام پر پابند رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد رہنے والوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کی بھی تلقین کرتے ہیں۔ سماجی تنظیمیں مردہ معاشرے کو زندگی دینے کی تگ و دو کرتی ہیں، اور یہی لوگ اپنے جلسوں، تقریروں میں ایسی ایسی باتیں کہتے ہیں کہ جن کو سن کر دل کڑھتا ہے۔ آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
پاکستان کی سیاست اس وقت تقریروں، تحریروں اور جلسوں کے لحاظ سے عروج پر ہے لیکن اخلاقیات کے حوالے سے قعرِ مُذِلّت میں گرچکی ہے۔ جوں جوں انتخابات قریب آتے جارہے ہیں، جذبات میں بھی گرمی آتی جارہی ہے۔ تمام جماعتیں رمضان المبارک سے پہلے ہی اپنا نظریہ عوام پر ٹھونسنا چاہتی ہیں لیکن کچھ سیاستدان، کارکن جذبات کی رو میں بڑھ کر مغلظات پر اتر آئے ہیں جو پاکستانی معاشرے کےلیے بہت خطرناک ہے، جس کے مستقبل میں نتائج بہت بھیانک نکلیں گے۔
لیکن اتنا تو ہوا ہے کچھ لوگ پہچانے گئے!
قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس میں جو کچھ ہوا، اسے سب نے دیکھا۔ جنہیں قوم کو گائیڈ لائن دینا تھی، وہی ایک دوسرے سے لڑتے نظر آئے، ایک دوسرے کو ایسی ایسی گالیاں دی گئیں کہ کسی مہذب معاشرے کےلیے ناقابل قبول ہیں۔ بات یہاں نہیں رکی بلکہ وزیرمملکت عابد شیر علی نے فیصل آباد میں جلسے کے دوران ایسی باتیں کہہ دیں جو کسی مہذب انسان کو زیب نہیں دیتیں۔
اس سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایم این اے جاوید لطیف نے تحریک انصاف کے ایم این اے مراد سعید اور ان کے خاندان کے بارے میں بیہودہ باتیں کی تھیں جن پر تمام مہذب حلقوں کی طرف سے لعنت ملامت کی گئی، معافی تلافی بھی کی گئی۔ ذرا دور جائیں تو سینئر پارلیمنٹیرین خواجہ آصف جو وزیر دفاع اور وزیر خارجہ بھی رہے ہیں اور شیریں مزاری میں جو پی ٹی آئی کی سینئر رہنما اور ایم این اے ہیں، اسمبلی اجلاس میں نوک جھونک ہوئی اور بات ’’ٹریکٹر ٹرالی‘‘ تک پہنچ گئی تھی۔ اسی طرح سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ایم پی ایز نے فنکشنل لیگ کی ایم پی اے ارم فاروقی پر بیہودہ فقرے کسے، نازیبا اشارے کیے، حتیٰ کہ چیمبر میں اکیلے ملنے تک کی بات کہہ دی۔ مذہبی جماعت کے علامہ خادم رضوی اپنے دھرنوں میں مخالفین کو لتاڑتے ہوئے تمام حدیں عبور کرتے رہے۔ ان کا فقرہ ’’پین دی سری‘‘ زبان زد عام ہوچکا ہے۔
دراصل یہ معاشرہ اخلاقی لحاظ سے گراوٹ کا شکار ہے۔ بات بات پر ذومعنی گفتگو، بات چیت میں گالی گلوچ کا تڑکا، جگتوں کے استعمال کے بغیر کسی کو مزہ نہیں آتا۔ یہاں تک کہ بچوں کے سامنے ایسی باتیں کہہ دی جاتی ہیں جن کے نتائج کا بھی خیال نہیں کیا جاتا کہ معاشرے پر کیا اثر پڑے گا۔ ہم اپنے ارد گرد، برا بھلا سب دیکھتے ہیں لیکن کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ ہمسائے میں غریب کا بچہ بھوکا سوجاتا ہے، اس کی خبر تک نہیں لیتے۔ دوا نہ ہونے سے کئی مریض بے بسی کی موت مرجاتے ہیں لیکن ہمارا ضمیر مدد کو تیار نہیں ہوتا۔
ہم شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی میں تقسیم ہوگئے۔ تقسیم ہی تقسیم، وحدت کہیں بھی نہیں۔ پاکستانی معاشرہ مردہ پرست ہوچکا ہے۔ زندگی میں کوئی نہیں پوچھتا مگر دم نکلتے وقت ہونٹوں پر دیسی گھی لگا دیا جاتا ہے تاکہ لوگ سمجھیں بڑے میاں دیسی گھی کھاتے کھاتے مرے ہیں۔ ’’ظالمو! دیگیں چڑھا رہے ہو، اسے چند لقمے دے دیتے تو یہ یوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہ مرتا۔‘‘
اب عمران خان کے لاہور میں جلسے کی رنگارنگ تصاویر اور خواتین سے بے حرمتی، ناچ گانے کی ویڈیوز نے سوشل میڈیا کے ساتھ چوک، چوراہوں پر سجنے والی محفلوں میں بھی ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے۔ صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ کی میڈیا سے گفتگو کے دوران خواتین کے بارے میں پیش کیے جانے والے بے باکانہ تبصرے نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ لیڈروں سے لے کر عام کارکنوں تک میں عدم برداشت اور گالی گلوچ کا کلچر ایک طوفان کا پیش خیمہ ہے جس کے ذمہ دار عمران خان خود بھی ہیں۔
انہوں نے اپنے جلسوں میں رنگ بھرنے کےلیے خواتین تو اکٹھی کرلیں لیکن اپنے کارکنوں کی تربیت پر توجہ نہیں دی۔ لیڈ اور سپر لیڈ بننے کے چکر میں خود تقریروں میں اوئے، چور ڈاکو پتا نہیں کیا کیا اصطلاحیں استعمال کرتے رہے ہیں۔ اب ان کا ہمیں ہر موڑ پر سامنا کرنا پڑتا ہے حتیٰ کہ گھروں میں بچے بھی یہ الفاظ استعمال کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ مسلم لیگ (ن) کے لوگ دیوار سے لگائے جانے، اپوزیشن کی کامیاب انتخابی مہم سے گھبرا کر مخالفین کو گالیاں دے کر فرسٹریشن ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اخلاقی کرپشن مالی کرپشن کی بنیاد ہے۔ ایسے لوگوں کو قوم کی نمائندگی کا کوئی حق نہیں۔ ان کا راستہ بند ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ کو اس ’’اخلاقی کرپشن‘‘ پر ازخود نوٹس لینا چاہیے۔ یہ عدالت کی نہ سہی، ملک اور عوام کی توہین تو ضرور ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post سیاست میں اخلاقی کرپشن، چیف جسٹس نوٹ لیں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2rqKMbg
via IFTTT
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔