وطن عزیز میں حزب اختلاف کی جماعتیں ن لیگی حکومت پر ایک بڑا الزام یہ لگاتی ہیں کہ اس نے بیشتر سرکاری فنڈز شاہراؤں، سڑکوں، پلوں، ٹرین منصوبوں اور دیگر تعمیراتی پروجیکٹس پر صرف کر دئیے۔بقول ان جماعتوں کے اس کی وجہ یہ کہ تعمیراتی منصوبے عوام کو دکھائی دیتے ہیں۔اسی لیے انھیں متاثر کرنے کی خاطر ایسے منصوبے شروع کیے گئے۔جبکہ تعلیم اور صحت جیسے شعبوں کی بہتری کے لیے ن لیگی حکومت نے بہت کم اقدامات کیے۔
اپوزیشن پارٹیوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ تعمیراتی منصوبوں کے ذریعے کمیشن کھانے کا موقع ملتا ہے۔ اسی لیے لیگی حکومت تعمیراتی پروجیکٹس پر بے انتہا سرکاری پیسا لگاتی ہے تاکہ اپنے پرائے کمیشن سے مستفید ہو سکیں۔
پاکستان کی اپوزیشن پارٹیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ن لیگی حکومت نے لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں بیشتر تعمیراتی منصوبے شروع کرارکھے ہیں ۔جبکہ دیہی علاقوں میں تعمیراتی منصوبے بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص رقم میں سے دیہی علاقوں کو آٹے میں نمک جتنی رقم ملتی ہے۔اس باعث یہ منصوبے دیہی آبادی کی ترقی میں خاص کردار ادا نہیں کرسکے اور وہاں غربت و ناخواندگی عام دکھائی دیتی ہے۔ ن لیگی حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں انفراسٹرکچر کی بہتری سے معیشت مضبوط ہوگی۔
بیروزگاروں کو روزگار ملے گا اور باہمی روابط میں آسانی جنم لینے سے کاروبار پھلے پھولے گا۔اس دعویٰ میں کچھ دم تو ضرور ہے۔ اُدھر غیر جانبدار ماہرین کہتے ہیں کہ تعمیراتی منصوبے بنانا زیادہ سے زیادہ ووٹر اپنی جانب کھینچنے کا طریق کار بھی ہے۔ گویا پاکستان میں سڑکیں، شاہراہیں اور پل وغیرہ بنانے کا عمل اب الیکشن جیتنے کا ایک طریقہ بن چکا جو مثبت اور منفی، دنوں پہلو رکھتا ہے۔حکومت وقت کا حالیہ بجٹ بھی آشکارا کرتا ہے کہ برسراقتدار پارٹی سمجھتی ہے ، تعمیراتی منصوبوں خصوصاً سڑکیں، پل وغیرہ، بنوانے سے وہ عوام کی ہمدردیاں اور ووٹ جیت سکتی ہے۔ حالیہ وفاقی بجٹ میں ن لیگی حکومت نے عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر 800 ارب روپے رکھے ہیں۔ (یہ کل بجٹ کا صرف ’’20 فیصد‘‘ حصّہ ہے۔ بڑے حصے قرضے اتارنے اور دفاع کے نام ہوئے۔)
ان 800 ارب روپے میں سے 210 ارب روپے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو ملیں گے۔ یہ عوامی ترقیاتی رقم کا ’’26 فیصد حصہ‘‘ ہے۔ اس رقم سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی نئی شاہراہیں،سڑکیں اور پل بنائے گی۔ نیز تعمیر کردہ سڑکوں اور پلوں کی مرمت بھی اسی رقم سے انجام پائے گی۔ اس صورتحال سے عیاں ہے، ن لیگی حکومت سمجھتی ہے کہ سڑکیں، شاہرائیں اور دیگر تعمیراتی منصوبے بناکر وہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کرسکتی ہے اور وہ آمدہ الیکشن میں مسلم لیگ ن ہی کو ووٹ دیں گے۔الیکشن کے نتائج ہی عیاں کریں گے کہ ن لیگی لیڈروں کا نظریہ درست ثابت ہوا یا عوام ان کے تعمیراتی منصوبوں سے متاثر نہ ہو سکے۔درج بالا 210 ارب روپے کے علاوہ سی پیک منصوبے کے تحت بھی کئی شاہراہیں اور سڑکیں بن رہی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان قومی و مقامی سڑکوں کی تعمیر سے عام آدمی کو کتنا فائدہ ہوگا۔ کیا وہ غربت، جہالت اور بیماری سے نجات پالے گا؟ اس کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں جنم لیں گی؟اسے عام سہولیات زندگی میسر آ جائیں گی؟
پاکستان کی پہلی موٹروے مسلم لیگ ن ہی نے لاہور تا اسلام آباد تعمیر کرائی۔ اس کا افتتاح 1997ء میں ہوا تھا۔ مگر اکیس سال گزر جانے کے باوجود ماہرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ یہ مطلوبہ نتائج نہیں دے سکی۔ وجہ یہ کہ اکثر اوقات موٹر وے پر خال خال ٹریفک ہی دکھائی دیتی ہے۔ دراصل بیشتر شہری جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہیں۔ اسی باعث بعض ماہرین اسی موٹروے کو سفید ہاتھی قرار دیتے ہیں۔دلچسپ بات یہ کہ ہمارے پڑوس میں بھی اب سڑکوں، شاہراؤں اور پلوں کی تعمیر کو الیکشن جیتنے کا اہم ہتھیار تسلیم کرلیا گیا ہے۔
شاید بھارت کے وزیراعظم، نریندر مودی بھی مشہور برطانوی ماہر معاشیات، جان مینارڈ کینز کے نظریات پر یقین رکھتے ہیں۔ موصوف کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے وہ زیادہ سے زیادہ قرضے لے۔ قرضوں کی رقم سے پھر نئے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں تاکہ ملک میں معاشی ترقی جنم لے سکے۔وزیراعظم مودی نے بھارتیوں کو سہانے سپنے دکھا کر الیکشن 2014ء جیتا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ حکومت سنبھال کر ہر سال ’’ایک کروڑ‘‘ ملازمتیں تخلیق کریں گے تاکہ کروڑوں نوجوان بھارتیوں کو ملازمتیں مل سکیں۔واضح رہے، بھارت میں روزانہ 76 ہزار بچے پیدا ہوتے ہیں۔
بچے پیدا ہونے کی یہی رفتار رہی تو صرف چار سال بعد یعنی 2022ء میں بھارت دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔ دوسری قابل ذکر بات یہ کہ آج بھارت میں 15 سے 64 سال کی عمر والے ستاسی کروڑ نفوس آباد ہیں۔ یہ چین کے بعد قابل ملازمت انسانوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ (چین میں اس عمر والے ایک ارب انسان بستے ہیں)۔بھارت میں ہر سال ایک کروڑ بیس لاکھ نوجوان جاب مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں۔ ان سبھی کو ملازمتیں درکار ہوتی ہیں مگر مودی حکومت بھارتیوں کی توقعات پر پورا نہیں اترسکی۔ بھارت میں ملازمتوں کی کمی ہے جبکہ مودی ’’گڈگورنس‘‘ کا ماسٹر ہوتے ہوئے بھی معیشت کو سدھار نہیں سکے۔ بلکہ ان سے بعض ایسی فاش غلطیاں سرزد ہوئیں کہ انہوں نے حکومت کے اچھے کاموں پر پانی پھیر دیا۔
اگلے سال الیکشن ہیں جسے مودی ہر قیمت پر جیتنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے جنوری 2018ء میں مودی حکومت نے ’’بھارت مالا‘‘ کے نام سے ایک عظیم الشان تعمیراتی منصوبے کا اعلان کردیا۔یہ ن لیگی حکومت کے منصوبے سے کہیں زیادہ بڑا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت 2022ء تک 83,677 کلو میٹر طویل شاہرائیں اور سڑکیں تعمیر کی جائیں گی۔ اس دیوہیکل منصوبے پر ایک سو چھ ارب ڈالر سے زیادہ لاگت آئے گی۔ پاکستانی کرنسی میں یہ تقریباً 5کھرب 30ارب سے زائد بنتی ہے جو ایک زر کثیر ہے۔ اس رقم کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ حکومت پاکستان کا حالیہ قومی بجٹ تقریباً 59کھرب روپے سے زائد تھا۔
اس منصوبے کے تحت پورے بھارت میں شاہرائیں اور سڑکیں تعمیر کی جائیں گی۔ مزید براں پہلے سے بنی سڑکوں کو مزید پختہ بنایا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ کہ ’’بھارت مالا‘‘ منصوبہ کئی سال قبل کانگریس کی حکومت نے بنایا تھا مگر وہ عملی جامہ نہیں پہن سکا۔ اب مودی حکومت نے اسے فائلوں کے انبار سے نکالا اور جھاڑ پونچھ کر اختیار کرلیا۔ وزیراعظم مودی پرانے منصوبوں کو اپنا نیا منصوبہ قرار دینے کے ماہر ہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنے اچھے انتظام یا گڈگورنس کا سکہ دوسروں پر بٹھا سکیں۔بھارت کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر سال تقریباً سوا کروڑ جو نوجوان جاب مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں، ان کی اکثریت زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ اعلیٰ درجے کے ہنرمند ہوتے ہیں۔ اسی لیے شہروں میں ہر پانچ نوجوانوں میں سے صرف تین کو نوکریاں ملتی ہیں جبکہ دیہی معاشرے میں دو میں سے ایک ہی نوجوان ملازمت حاصل کرپاتا ہے۔
کم پڑھے لکھے نوجوانوں کو شعبہ تعمیرات ملازمتیں دے سکتا ہے۔ اسی لیے مودی حکومت نے کھربوں روپے کی لاگت سے ’’بھارت مالا‘‘ منصوبہ شروع کردیا تاکہ لاکھوں بھارتی نوجوانوں کو نوکریاں میسر آئیں اور حکومت کے خلاف غم و غصّہ کم ہوسکے۔ اس منصوبے کا خاطر خواہ اثر ہوا اور اب بھارت میں نئی ملازمتیں تخلیق ہورہی ہیں۔یاد رہے کہ جس ملک میں معاشی ترقی کی سالانہ شرح 2 فیصد ہو، وہ اطمینان بخش سمجھی جاتی ہے۔ لیکن یہ بات ہر ملک پر پوری نہیں اترتی۔ مثال کے طور پر بھارت کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
لہٰذا بھارت کے لیے ضروری ہے کہ اس کی معاشی ترقی کی رفتارکم از کم 7 فیصد سالانہ ہو۔ تبھی نوجوانوں کو ملازمتیں ملیں گی اور کروڑوں بھارتی غربت وجہالت کے پنجوں سے آزاد ہوسکیں گے۔مودی حکومت نے اپنی نیشنل ہائی ویز اتھارٹی اور دیگر متعلقہ محکموں کو خصوصی اختیارات ہیں تاکہ ’’بھارت مالا‘‘ منصوبے کے تحت شاہراہیں اور سڑکیں تیز رفتاری سے بن سکیں۔ بھارت میں اب بھی ’’سرخ فیتے‘‘ کا زور ہے اور افسر شاہی اپنی طاقت دکھانے کے لیے اکثر اوقات منصوبوں کی فائلیں دبا کر بیٹھ جاتی ہے۔ افسر شاہی کو کھڈے لائن لگانے کی خاطر مودی حکومت نے نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کو خصوصی اختیارات تفویض کیے ہیں۔
واضح رہے، بھارت دنیا میں سڑکوں کا دوسرا بڑا نظام رکھتا ہے۔ یہ نظام چھپن لاکھ بتیس ہزار کلو میٹر طویل شاہراؤں اور سڑکوں پر مشتمل ہے۔ اس سے بڑا سڑکوں کا نظام صرف امریکا میں موجود ہے جہاں 67 لاکھ 22 ہزار کلو میٹر سے زیادہ طویل سڑکیں بنی ہوئی ہیں۔مودی حکومت بھارت مالا منصوبے کی تکمیل کے لیے قرضوں، نجی شعبے، ہائی وے ٹول فیس اور وفاقی روڈ فنڈ کی مدد سے درکار ایک سو چھ ارب ڈالر جمع کرے گی۔ ماہرین معاشیات کے کاغذات پر یہ منصوبہ پُرکشش اور بامقصد ہے۔
بھارت حکومت وسیع پیمانے پر شاہرائیں اور سڑکیں بنارہی ہے۔ یوں تعمیراتی سرگرمیوں سے لاکھوں بھارتیوں کو روزگار مہیا ہوگا اور انہیں رقم ملے گی۔ یہ رقم پھر مختلف اشیا خریدنے میں کام آئے گی۔ بھارت میں کاروبار بڑھے گا اور معاشی ترقی جنم لے گی۔ لیکن کاغذات پر بہترین دکھائی دینے والا بھارت مالا منصوبہ کچھ سنگین خامیاں بھی رکھتا ہے۔
ایک بڑی قباحت یہ ہے کہ منصوبہ بھارتی حکومت کے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کردے گا۔ بھارت پر اس وقت ایک ٹریلین سولہ ارب ڈالر کا قرض ہے۔ بھارت حکومت اس قرض پر ’’ہر ایک سیکنڈ میں‘‘ ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے بطور سود ادا کرتی ہے۔ بھاری بھرکم قرضوں کی وجہ سے آج ہر بھارتی بچہ جنم لے، تو اس پر تقریباً ساٹھ ہزار روپے کا قرض پہلے ہی سے چڑھا ہوتا ہے۔دوسری خامی یہ کہ پانچ برس میں تقریباً چوراسی ہزار کلو میٹر سڑکیں تعمیر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بھارتی سرکاری ادارے ہر سال سولہ ہزار سات سو کلو میٹر طویل سڑکیں بنالیں۔یہ ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ ماضی میں بھارتی سرکاری ادارے خوب زور مار کر ہر سال زیادہ سے زیادہ چھ ہزار کلو میٹر کی سڑکیں بناتے رہے ہیں۔
گویا سالانہ ساڑھے سولہ ہزار کلو میٹر طویل سڑکیں بنانے کی خاطر سرکاری اداروں کو دگنی سے بھی زیادہ محنت کرنا ہوگی اور دگنے فنڈز درکار ہوں گے۔تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ سڑکوں کے لیے زمین حاصل کرتے ہوئے بعض اوقات خاصا وقت لگ جاتا ہے۔ وجہ یہ کہ کئی لوگ سڑک کے راستے پر آنے والی اپنی زمین فروخت کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ چنانچہ معاملہ عدالتوں میں چلا جاتا ہے۔ وہاں برسوں بیت جاتے ہیں اور کوئی تصفیہ نہیں ہوپاتا۔مثال کے طور پر دس سال قبل کانگریسی دور حکومت میں دہلی تا بمبئی ’’صنعتی شاہراہ‘‘ بنانے کا اعلان ہوا تھا۔ مگر یہ شاہراہ اب تک نہیں بن سکی۔ وجہ یہی کہ کئی بھارتی شہری اپنی زمینیں اس تعمیراتی منصوبے کی نذر نہیں کرنا چاہتے۔
بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ مودی حکومت نے کھربوں روپے کی لاگت سے سڑکیں بنانے کا جو بھارت مالا منصوبہ شروع کیا ہے، کیا وہ اتنا بوتا رکھتا ہے کہ نریندر مودی کو الیکشن 2019ء میں فتح دلوا دے۔ اگر اس تعمیراتی منصوبے کی بدولت لاکھوں بھارتیوں کو ملازمتیں میسر آئیں تو مودی کی جیت کا امکان روشن ہوسکتا ہے۔لیکن یہ بھی عوام کو اپنے دام میں پھانسنے کی چال نکلی تو مودی صاحب کو گھر واپس جانا پڑے گا۔اب دنیا بھر میں شعور وآگاہی بڑھنے سے خالی خولی نعروں کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔عوام اب ٹھوس کام دیکھتے ہیں ،نری باتیں نہیں!
The post دور جدید کا انوکھا مظہر؛ سڑکیں کیا الیکشن جتوا سکتی ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IxoCzo
via IFTTT
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔