اتوار، 20 مئی، 2018

پنڈت وشنودت ملتان والا۔۔۔FOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

ملک اﷲ دتہ نسیم‘ جو ملتان میں اے ڈی نسیم کے نام سے معروف رہے کی شہرت کے بہت سے حوالے تھے، بطور شاعر وہ شہر کے ادبی حلقوں میں ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ ان کی شہرت کا ایک حوالہ انگریزی زبان میں غیرمعمولی مہارت تھی، گورنمنٹ ایمرسن کالج میں سینئر کلرک تھے لیکن انگریزی کے اساتذہ سے بھی زیادہ بہتر اظہارخیال کر سکتے تھے۔

اے ڈی نسیم کی شہرت کا ایک حوالہ ملتان کی ہندی اساطیر سے غیرمعمولی آگاہی بھی تھی۔ انہوں نے ملتان کی منظوم تاریخ بھی لکھنا شروع کی تھی جس میں وہ ملتان کی ہندی اساطیر کو ایک خاص رومانی انداز سے پیش کر رہے تھے۔ اے ڈی نسیم ملتان شہر میں اپنی ایک اور صلاحیت کے حوالے سے بھی معروف تھے، وہ ان کا کلاسیکل موسیقی سے غیرمعمولی لگاؤ تھا ۔

وہ موسیقی کے پارکھ، نقاد اور استاد تھے انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے کے ملتان میں موسیقی کی روایت کو نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ اس کا حصہ بھی رہے، ملتان میں منعقد ہونے والے ہر سنگیت سمیلن میں ان کی شرکت لازمی ہوتی تھی اس کے علاوہ وہ موسیقی کی خانگی مجالس ’جو زیادہ تر ہندوؤں کے گھروں میں منعقد ہوتی تھیں‘ میں بھی شرکت کرتے تھے۔ اے ڈی نسیم نے کچہری سے گھنٹہ گھر جانے والی سڑک پر ایک چوبارہ کرائے پر لے رکھا تھا جہاں استاد عاشق علی خان اور استاد توکل خان جیسے لوگ بھی تشریف لایا کرتے تھے۔ اے ڈی نسیم کلاسیکل موسیقی کے غیرمعمولی پارکھ ہونے کے ساتھ اس فن پر بہت اچھا لکھ بھی سکتے تھے لیکن المیہ یہ ہوا کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں اس موضوع پر ایک ہی مضمون لکھا‘ یہ مضمون بھی ان سے نومبر 1971ء میں ریڈیو ملتان کے افتتاح پر خصوصی طور پر روزنامہ امروز کے لئے لکھوایا گیا۔ اے ڈی نسیم کا یہ طویل مضمون قیام پاکستان سے پہلے کے ملتان میں موسیقی کی روایت کا بھرپور احاطہ کرتا ہے‘ اے ڈی نسیم رقمطراز ہیں:

’’اس دور میں گھر گھر میں گانے کا چرچا تھا، ہندوؤں کے گھروں میں تو خاص طور پر اس فن کی بڑی مقبولیت تھی، صبح سویرے اکثر ہندو گھرانوں میں پرارتھنا گائی جاتی تھی، اکثر مکانوں کی بالائی منزلوں پر ہارمونیم اور ستار کے ساتھ ہندو لڑکیوں کے گانے کی آواز سنی جاتی تھی۔ یہ لڑکیاں اکثر ولیکار، میاں کی ٹوڈی، آسا روی اور للت گاتی تھیں، بعض معزز ہندو گھرانوں کی لڑکیاں شہر کی گائیکہ عورتوں سے بھی اچھا گاتی تھیں، مشہور ادیب اور تھیٹریکل ڈرامہ نویس دیوان آتمانند شرر کی دو بھتیجیاں رمولا اور موہنی بڑی سلجھی ہوئی لڑکیاں تھیں، گورے رنگ اور لانبے قد کی یہ کوئلیں بھڑکیلی ساڑھیاں زیب تن کئے خانگی محفلوں میں ہلچل ڈال دیتی تھیں، انھیں ٹھمری اور غزل پر خاص عبور حاصل تھا، اسی طرح چھاؤنی کے شری کرشن گھڑی ساز کی دو لڑکیاں اکثر گھریلو محفلوں کو اپنے گیتوں سے گرماتی تھیں‘‘۔

ملک اے ڈی نسیم کے اس تاریخی مضمون میں مذکور شری کرشن گھڑی ساز کے خاندان میں جاری موسیقی کی روایت ہی ہماری آج کی گفتگو کا موضوع ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے ملتان کینٹ میں شری کرشن اینڈ سنز کے نام سے گھڑیوں کی ایک دکان تھی جہاں پرانی گھڑیوں کی مرمت کے ساتھ نئی گھڑیاں بھی فروخت کی جاتی تھیں، شری کرشن گھڑی ساز جن کا خاندان راجستھان سے ہجرت کر کے ملتان میں آباد ہوا تھا، ایک متمول کاروباری آدمی تھے۔ پنڈت شری کرشن کے سات بیٹوں میں سے ایک کا نام پنڈت وشنودت ملتان والا تھا جنہوں نے بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں گراموفون میوزک کی دنیا میں بڑا نام کمایا اور ہز ماسٹر وائس میوزک کمپنی سے 1928ء میں گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔ پنڈت وشنودت کی حتمی تاریخ پیدائش معلوم نہیں ہو سکی، ان کی والدہ کا انتقال ان کی کم عمری میں ہی ہو گیا تھا۔

پنڈت وشنودت نے ابتدائی تعلیم ملتان سے ہی حاصل کی، بعدازاں انہوں نے ملتان کے ایک معروف سنگیت ودیالے گروکل سے موسیقی میں ڈپلومہ کیا جو گروکل کانگڑی کی ایک شاخ تھا۔ اپنے سات بھائیوں میں پنڈت وشنودت ہی اپنے والد کے کاروبار کا حصہ بنے، ملتان میں رہتے ہوئے ان کا خاندان بڑا خوشحال تھا، قیام پاکستان سے پہلے انہوں نے اپنے خاندان کے مستقبل کے لئے اچھی خاصی جائیداد بھی خریدی۔ ملتان میں ان کا آبائی گھر گجر کھڈہ کے علاقہ میں تھا جو پنڈت جی کی حویلی کے نام سے معروف تھا۔ پنڈت وشنودت کی پہلی شادی 20 سال کی عمر میں ہوئی تھی لیکن زچگی کے دوران ان کی بیوی اور بچے کی وفات ہو گئی۔ اس کے بعد کئی سال تک انہوں نے شادی نہیں کیِ، جب ان کے خاندان کے لوگ ادھر ادھر بکھر گئے تو ان کے ایک رشتہ دار نے انہیں دوسری شادی کے لئے آمادہ کیا، ان کی دوسری شادی کملا شرما سے ہوئی جن کا تعلق راجھستان سے تھا ۔

پنڈت وشنودت ملتان والا میں موسیقی کی قدرتی صلاحیت تھی، اگرچہ ان کے والد شری کرشن نہیں چاہتے تھے وہ موسیقی سیکھیں اور اسے بطور پروفیشن اپنائیں، اس کے باوجود پنڈت وشنودت اپنے موسیقی کے شوق اور صلاحیت کو وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھاتے رہے۔ انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم گروکل کانگڑی ملتان سے حاصل کی، (گوروکل ملتان جو آریہ سماج تحریک کے زیراہتمام شروع ہوا گروکل کانگڑی کی ہی ایک شاخ تھا پہلے پہل یہ ڈیرہ بدھو میں چودھری رام کشن سکندر آبادی کے عطیہ زمین پر بنایا گیا تھا پھر کچھ تنازعات کی وجہ سے وہاں سے لالہ پر ماننداروڑا کے بنگلہ جو حضوری باغ میں تھا شفٹ ہو گیا ، عملی طور پر یہ گروکل کانگڑی سے الگ تھا ، اس کا انتظام ایک کمیٹی کے سپرد رہا جس کے مہتمم بال کرشن تھے۔

اس ودیالا میں ہندو دھرم کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ موسیقی کی تعلیم بھی دی جاتی تھی، پنڈت وشنودت ملتان والا کے سوا اس ادارہ کا کوئی اور نامور سٹوڈنٹ سامنے نہیں آیا) اس کے بعد وہ ذاتی سطح پر موسیقی کا ریاض کرتے رہے، ہارمونیم بجانے میں بھی انہوں نے خاص مہارت حاصل کی۔ پنڈت وشنودت کی گائیکی کا زمانہ گراموفون ریکارڈ کا زمانہ تھا اس زمانے میں کلکتہ فن و ثقافت کا مرکز تھا جہاں مختلف ریکارڈنگ کمپنیاں فن کاروں کے گراموفون ریکارڈ تیار کرتی تھیں اور انہی ریکارڈز کے ذریعے فن کاروں کو ہندوستان بھر میں شہرت بھی ملا کرتی تھی۔ ملتان سے ان دنوں بہت سے فن کار کلکتہ جاکر ریکارڈنگز کرایا کرتے تھے جن میں پنڈت گنپتی بابو‘ پنڈت بنواری لال، مس بدرو ملتانی‘ لالاں جان اور دیگر فن کار شامل تھے۔

پنڈت وشنودت نے بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں اس دور کی معروف گراموفون کمپنی ہز ماسٹر وائس جو ایچ ایم وی کے نام سے جانی جاتی تھی تک رسائی حاصل کی‘ 1915ء سے لے کر 1928ء تک ان کے بہت سے گراموفون ریکارڈ تیار ہوئے، انہوں نے اپنے فنی کیریئر میں بھجن‘ گیت اور غزلیں ریکارڈ کرائیں۔ پنڈت وشنودت ملتان والا کی گائیکی سن کر ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے عہد میں مروج غزل گائیکی کے انداز سے خاصے متاثر تھے، مدھ لے میں گائی ہوئی ان کی غزلیں الفاظ کی تصویر بناتی چلی جاتی ہیں، ان کی گائیکی کا انداز بھی زوردار ہے، وہ اپنی پاٹ دار آواز میں بڑی طاقت سے سر لگاتے نظر آتے ہیں، گیت اور غزل کے ساتھ ساتھ ان کی گائیکی کا زیادہ تر تعلق دھارمک سنگیت سے رہا ہے، ان کے ہاں غزل گائیکی میں بھی دھارمک مضامین دکھائی دیتے ہیں، اس کے علاوہ ان کی گائیکی میں ہندو قوم پرستی بھی نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے، پنڈت وشنودت ملتان والا کو جس گیت پر ہز ماسٹر وائس کلکتہ سے گولڈ میڈل سے نوازا گیا وہ ان کا گایا ہوا ایک بھجن ہی ہے جس کی شاعری علامہ اقبال کے ترانہ ہند ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ سے متاثر نظر آتی ہے:

ارے پیارا وطن ہمارا پیارا وطن ہمارا

بلبل اگر ہیں ہم تو وہ ہے چمن ہمارا

ارے پیارا وطن ہمارا‘ پیارا وطن ہمارا

تن ہو کہیں وہیں پر رہتا ہے من ہمارا

ہے رام بھی یہیں پر‘ گھنشام بھی یہیں پر

ایسے مہاپرش ہیں، گزرے فنا کہیں پر

پیارا وطن ہمارا، پیارا وطن ہمارا

ایچ ایم وی سے 1928ء میں گولڈ میڈل حاصل کرنے کے باوجود پنڈت وشنودت ملتان والا نے ملتان میں رہتے ہوئے ہی موسیقی کو خیرباد کہہ دیا تھا، اس کے بعد انہوں نے اپنی تمام تر توجہ اپنے خاندانی کاروبار پر مرکوز کر دی تھی لیکن موسیقی سے ان کا تعلق زندگی بھر قائم رہا، ان کے خاندان میں بھی موسیقی کی روایت قائم رہی۔ قیام پاکستان کے بعد پنڈت وشنودت کا خاندان ملتان سے دہلی منتقل ہو گیا تھا ، ہجرت کی وجہ سے انہیں اپنا گھر، کاروبار اور جائیداد بھی چھوڑنا پڑی جسے انہوں نے بڑی محنت سے بنایا تھا، گو 1947ء کی علیحدگی نے ہر چیز کو مسخ کر ڈالا تھا لیکن پنڈت وشنودت بہت زیادہ مضبوط اعصاب کے آدمی تھے۔ تقسیم کے بعد انہوں نے دہلی میں دو بیٹوں کی مدد سے اپنا کاروبار  اسی پرانے نام شری کرشن اینڈ سنز کے نام سے دوبارہ شروع کیا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک بار پھر بڑے بزنس مین بن گئے۔

ان کی ایمانداری اور محنت نے انہیں اس مقام پر پہنچایا کہ وہ کاروبار میں نمایاں کامیابی حاصل کریں، یہ ان کی محنت اور ایمانداری کی شہرت ہی تھی کہ ایک بار انڈیا کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھی اپنی گھڑیاں ان کے پاس مرمت کے لئے بھیجیں ، انہوں نے اس مہارت سے ان گھڑیوں کو ٹھیک کیا کہ پھر دیگر سیاست دانوں نے بھی اپنیگھڑیاں ان کے پاس ٹھیک کرنے کے لئے بھیجیں ۔ پنڈت وشنودت نے دہلی میں اپنے کاروبار کو مزید وسعت دینے کے لئے گولڈ‘ آپٹیکل اور سٹیشنری کا کام بھی کیا لیکن 1970ء میں انہوں نے اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے یہ کاروبار ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ، یوں شری کرشن اینڈ سنز نامی گھڑیوں کی یہ دکان جس کا آغاز ملتان سے ہوا تھا قریباً  سو سال کے بعد 1970ء میں دہلی میں بند ہو گئی۔

پنڈت وشنودت ملتان والا کی دوسری بیوی کملا شرما سے پانچ بچے ہوئے، ان کے سبھی بچے ملتان میں ہی پیدا ہوئے‘ ان سب کا موسیقی سے گہرا تعلق رہا، اپنی اولاد میں موسیقی کا شوق پروان چڑھانے میں ان کا اپنا بڑا کردار تھا ۔ پنڈت وشنودت کے پاس گھر میں ہارمونیم‘ ستار، وائلن، جل ترنگ اور طبلہ جیسے ساز تھے۔ وہ اپنے بچوں کی ایک خاص طرح سے حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ وہ اپنی پسند کا ساز سکیھیں، اس طرح ان کے بچے بھی گائیکی اور سازکاری میں ماہر ہوتے چلے گئے۔ خوش قسمتی سے ان کے فیملی میوزک ٹیچر دیو کی نندن ڈھاون گائیکی کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے ساز کی بھی تعلیم دے سکتے تھے جو ان کے گھر میں موجود تھے۔ پنڈت وشنودت دہلی میں اپنے گھر پر ماہوار میوزک کنسٹرٹ کا اہتمام کرتے تھے تاکہ وہ خود اور ان کے بچے فیملی ممبرز اور دوستوں کے سامنے پرفارم کر سکیں۔

ان محافل میں  50 اور 70 کی دہائی کے کچھ معروف فن کار بھی مدعو کئے جاتے تھے جن کے ساتھ پنڈت وشنودت کے دوستانہ مراسم تھے، یہ تمام فن کار آل انڈیا ریڈیو سے تعلق رکھتے تھے جن میں کے ایل اگنی ہوتری‘ ودیاناتھ سیٹھ‘ آساسنگھ مستانہ‘ سریندر کور اور  ان کی بہن شامل تھیں، ان محافل میں پنڈت وشنودت بھی خصوصی طور پر پرفارم کرتے تھے، اگر وہ گاتے ہوئے بھول جاتے تو ان کی بیوی کملا شرما انہیں گیت کے بول یاد کرا دیا کرتی تھیں، پنڈت وشنودت کے موسیقی کے شوق میں ان کی بیوی کا بھی اہم کردار رہا، وہی ان کے ساتھ گراموفون ریکارڈنگز کے لئے ملتان سے کلکتہ تک کا سفر بھی کرتی تھیں۔

پنڈت وشنودت ملتان والا کی اولاد میں سب سے بڑے بیٹے گوتم دیو شرما تھے جو اپنے خاندانی کاروبار سے منسلک رہے، انہوں نے اپنے شوق سے طبلہ سیکھا وہ اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ موسیقی کی تمام محافل میں طبلہ پر سنگت بھی کرتے تھے۔گوتم شرما کی تین بیٹیاں سچترا، رتنا اور گوری بھی موسیقی کا بہت اچھا ذوق رکھتی ہیں۔ گوتم شرما کے بعد ان کی بیٹی کوسم پنڈت ہیں جنہیں باپ کی طرف سے موسیقی کی وراثت اور صلاحیت ملی، وہ اپنے بچپن سے ہی ایک گلوکارہ کے طور پر پروان چڑھیں، جب وہ چھوٹی سی بچی تھی تب بھی تمام سوالوں کا جواب گا کر دیتی تھی، پنڈت وشنودت نے ان کی صلاحیت کو بروقت پہچانتے ہوئے ان کے لئے ایک میوزک ٹیچر کا اہتمام کیا، انہوں نے اپنے فیملی میوزک ٹیچر دیو کی نندن سے موسیقی کی تربیت حاصل کی اور بہت اچھی گلوکارہ بنیں ۔

ان کی آواز بہت میٹھی، گائیکی گہرے جذبات کی عکاس اور سامعین کو مسحور کرنے کا ہنر رکھتی ہے،  کوسم پنڈت قیام پاکستان سے پہلے لاہور ریڈیو پر بھی گاتی رہیں، پنڈت وشنودت انہیں ملتان سے لاہور ریکارڈنگ کے لئے لے جایا کرتے تھے۔ 1947ء کے بعد انہوں نے جالندھر ریڈیو سے بھی گایا، بعدازاں دہلی ریڈیو پر بھی پرفارم کرتی رہیں۔ کوسم پنڈت نے پنچابی‘ بنگالی اور ہندی زبان میں گائیکی کا مظاہرہ کیا اور آل انڈیا ریڈیو کی ایک مقبول فن کارہ بنیں، ان کے گیت آج بھی آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوتے ہیں۔ پنڈت وشنودت کے دوسرے صاحبزادے مرحوم مدن شرما بھی شوقیہ فن کار تھے، انہیں الیکٹرانکس میں بہت زیادہ دلچسپی تھی، ان کے والد نے انہیں مزید تعلیم کے لئے امریکہ بھیجا، جہاں انہوں نے اپنی فیلڈ میں بہت سی کامیابیاں حاصل کیں، ان کے دو بچے کرش شرما اور جنین شرما ہیں، ان کے بیٹے کرش شرما کی ذات میں ان کی وراثت کا مشترکہ ٹیلنٹ سامنے آیا یعنی دادا کی طرف سے موسیقی اور والد کی طرف سے ٹیکنالوجی کا ٹیلنٹ، کرش شرما نے یو سی ایل امریکہ سے گریجوایشن کیا۔

اس کے بعد انہوں نے موسیقی کو بطور کیریئر اپنایا ۔ ان کا لاس اینجلس میں اپنا میوزک سٹوڈیو ہے جہاں وہ امریکی گلوکاروں کے لئے موسیقی ترتیب دیتے ہیں جن میں کچھ امریکہ کے معروف گلوکار بھی ہیں جیسے رولنگ سٹونز اور دیگر۔ کرش شرما نے 2009ء میں بچوں کے میوزک کے بہترین البم پر گریمی ایوارڈ بھی حاصل کیا ۔ کرش شرما کی ماں اس بات پر فخر کرتی ہیں کہ ان کے دادا وشنودت نے 1928ء میں ہز ماسٹر وائس کا گولڈ میڈل حاصل کیا جبکہ ان کے پوتے نے گریمی ایوارڈ حاصل کیا۔ ان کے خاندان نے پنڈت و شنودت کا گولڈ میڈل بھی کرش شرما کو پیش کر دیا جنہوں نے موسیقی کی دنیا میں اپنی ذاتی صلاحیتوں سے نام کمایا۔ پرتیبھا پنڈت جو پنڈت وشنودت کی منجھلی بیٹی ہیں  نے ستار بجانے کی تربیت حاصل کی۔

انہوں نے ستار نوازی کے حوالے سے پانچ سالہ کورس بھی کیا، کورس کی تکمیل پر ان کا امتحان لینے والوں میں پنڈت روی شنکر جیسے مہان ستار نواز بھی شامل تھے۔ اس موقع پر پنڈت روی شنکر ان کی پرفارمنس سے بہت خوش ہوئے اور اس فن میں آگے بڑھنے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ ہرتیبھا پنڈت نے ستار نوازی کے حوالے سے آل انڈیا ریڈیو کا آڈیشن بھی پاس کیا اور مختلف پروگراموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی رہیں، انہوں نے ستار کے ساتھ ساتھ گائیکی اور اداکاری کی تربیت بھی حاصل کی۔ انہوں نے اپنی چھوٹی بہن رجنی ڈوبے کے ساتھ دہلی آرٹ تھیٹر بھی جوائن کیا جہاں وہ اداکاری کے ساتھ ساتھ اپنی بہن رجنی کے ساتھ مل کر ہیر رانجھا بھی گایا کرتی تھیں ۔ رجنی ڈوبے جو پنڈت وشنودت کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں انہوں نے کم عمری سے ہی گانا شروع کیا اور اپنی بڑی بہن کوسم پنڈت کی طرح پروفیشنل سنگر بنیں ۔ انہوں نے بھی موسیقی کی تعلیم اپنے خاندانی استاد سے حاصل کی ۔ ان کے پاس ایک طاقت ور آواز تھی، انہوں نے آل انڈیا ریڈیو کا آڈیشن بھی پاس کیا ۔ بعد ازاں یہ دہلی آرٹ تھیٹر سے وابستہ ہوئیں اور پنجابی اوپیرا میں بطور لیڈ سنگر پرفارم کرتی رہیں، انہوں نے انڈین ٹی وی پر بھی گایا ۔

پنڈت وشنودت ملتان والا کے ہز ماسٹر وائس کے زیراہتمام بہت سے گراموفون ریکارڈ ریلیز ہوئے لیکن وہ اپنی آواز کے خزانہ کو محفوظ نہ رکھ سکے، ان کی وفات کے بعد ان کے داماد ہرمیندر اتری جو امریکہ میں انجینئر تھے نے وشنودت کے آواز خزانہ کو جمع کرنے کے لئے بہت بھاگ دوڑ کی۔ ان کی یہ مشکل اس وجہ سے آسان ہوئی کہ پرانے دور میں گراموفون سنگرز گانے کے اختتام پر خود اپنا نام اور اپنے شہر کا نام بتاتے تھے۔ اس طرح ہرمیندر اتری ان کے کئی ریکارڈز تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے جن کے آخر میں پنڈت جی اپنا نام بتاتے ہیں ’’پنڈت وشنودت ملتان والا‘‘ اس سلسلہ میں ڈاکٹر سریش چندوانکر جو سوسائٹی آف انڈین ریکارڈ کولیکٹرز کے سیکرٹری ہیں نے بھی ان کی بہت زیادہ مدد کی۔

The post پنڈت وشنودت ملتان والا۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2KEVIKd
via IFTTT

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔