کان کَنی دنیا بھر میں بہت مشکل کام تصور کیا جاتا ہے۔ قیمتی معدنیات کرومائیٹ، ماربل، سونا، کوئلہ سمیت سیکڑوں اقسام کے جواہرات ان کانوں میں اللہ نے مقید کر رکھے ہیں۔
انسان ہمیشہ سے رزق کے حصول کے لیے جہاں کئی کئی ہزار میل کا سفر طے کرتا تھا وہیں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ قیمتی معدنیات کی طرف بھی مائل ہونے لگا۔ ان قیمتی معدنیات کو نکالنے اور ضرورت کے استعمال کے لیے شروع کے ادوار میں مختلف طریقے اپنائے جاتے تھے۔
اس دور میں آگ جلانے کے لیے پتھروں کو رگڑ نے کا استعمال کیا جاتا تھا۔ آج ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ مختلف اقسام کی معدنیات کو نکالنے کے لیے کس طرح جان جوکھم میں ڈالنی ہوتی ہوگی۔ سائنسی ترقی کے ساتھ یہ معرکے آسان ہوتے چلے گئے۔ دنیا میں جدت آگئی۔ انسان نے قدرت کے انمول خزانے کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ دنیا کے دیگر بہت سے ممالک کی طرح پاکستان کو بھی اللہ تعالیٰ نے جہاں رزق کے دوسرے وسائل رکھے ہیں وہیں ان انمول خزانوں سے بھی ہماری زمین کو مالامال کردیا ہے۔
پوری دنیا میں پہاڑوں کے سینے چیر کر اور زمین کی گہرائیوں میں سیکڑوں کلو میٹر تک اُترنے اور معدنیات کو حاصل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمارا خوب صورت صوبے بلوچستان کی سر زمین بھی ان خزانوں سے مالا مال ہے۔ مسلم باغ، خضدار، قلات اور چاغی کے پہاڑ معدنیات کے خزانے اپنے سینے میں سمائے ہوئے ہیں۔ کوئلے کی صنعت گذشتہ کئی دہائیوں سے ملک کی معیشت کو دوام بخشے ہوئے ہے، جس سے ہزارہا لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ معدنیات کی دوسری کانوں کی نسبت کوئلے کی کانوں میں اکثر حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ان حادثات میں کئی سو افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
کوئلے کی کانوں میں حادثات تو دنیا بھر میں پیش آتے ہیں، ان کو ماہرین زیادہ تر قدرتی آفات سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن احتیاطی تدابیر کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاتا۔ بلوچستان میں کوئلے کی کانوں کے حادثات میں اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ کئی سال کے دوران ان حادثات میں شدت آتی جارہی ہے۔ بلوچستان میں کان کَنی کی صنعت ایک مقتل میں تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2010ء سے اب تک 200سے زائد افراد کوئلے کی کانوں میں حادثات کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے گئے ہزاروں زخمی اور اپاہج ہوکر اسے تقدیر کا سبب جان کر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان حادثات کی روک تھام کے لیے حکومت اور متعلقہ حکام کی جانب سے کیا اقدام کیے گئے ہیں؟ اس کی تفصیل حالیہ دنوں میں پیش آنے والے دو دل خراش واقعات کی تفصیل کے بعد بیان کریں گے۔
محکمۂ معدنیات کے مطابق کانوں میں حادثات کی روک تھام کے لیے ایک صدی پرانا ایکٹ نافذ ہے، لیکن اگر جائزہ لیا جائے تو اس ایکٹ پر کس قدر عمل درآمد ہوا ہے اور کون کرتا ہے، کون کون اس پر عمل داری کا پابند ہے؟ تو جواب نفی میں ملتا ہے۔ محکمۂ معدنیات نے کوئلہ کی کانوں میں حادثات کو مزدوروں اور ٹھیکے داروں کی غفلت کا نتیجہ قرار دیا ہے، جب کہ مزدور تنظیموں نے حادثات کی بڑی وجہ ٹھیکے داری سسٹم کو قرار دیا ہے۔ کوئٹہ میں کانوں کی ملکیت کس کی ہوتی ہے اور اس نظام کو کون کس طرح چلاتا ہے؟ حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کی داد رسی کس طرح کی جاتی ہے؟ زخمیوں اور متاثرہ خاندانوں کی دل جوئی کے لیے کیا کیا جانا چاہیے؟ ہم نے ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے متعلقہ افراد سے بات چیت کی۔ اس بارے میں انہوں نے جو کچھ بتایا وہ قارئین کی نذر ہے۔
گذشتہ دنوں کوئٹہ سے 60کلو میٹر دور دشوار گزار علاقے مارواڑ اور اس سے کچھ فاصلے پر پی ایم ڈی سی کی کوئلے کی کانوں میں ایک ہی روز میں دو حادثات پیش آئے، جن میں اعداد و شمار کے مطابق 23 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ ان واقعات کی تفصیل یہ ہے کہ مارواڑ کی کوئلے کی کان میں ایک روز کی چھٹی کے بعد 30 سے زائد کان کَن کام کے لیے کان کے اندر گئے۔ صبح 8 بجے کے بعد کام کے دوران اچانک کان میں میتھین گیس بھر گئی جس سے کان کے اندر زور دار دھماکا ہوا اور آگ بھڑک اُٹھی۔ مہر کول مائن ایک قدیم کان ہے، جہاں سے اب تک لاکھوں لوگ روزگار کا حصول کرچکے ہیں۔ کان کے اندر دھماکے کے بعد قریبی دوسری کانوں میں کام کرنے والے مزدور بھی اس کی زد میں آگئے۔
دن گیارہ بجے ہونے والے اس سانحے میں18کانکن جاں بحق اور 9 زخمی ہوئے۔ کئی کانکن زہریلی گیس کے باعث بے ہوش ہوگئے، جنہیں ساتھی مزدوروں نے اپنی مدد آپ کے تحت نکال لیا ۔ بے ہوش ہونے والوں کو گھروں میں منتقل کیا گیا اور کچھ زخمیوں کو جن کی تعداد 9بتائی گئی، کانکنوں نے سول اسپتال پہنچایا۔ یہ وہ عمل تھا جہاں ریسکیو کی ازحد اور فوری ضرورت ہوتی ہے۔ حادثے کا شکار ہونے والی کان کے باہر سیکڑوں دوسرے مزدور جو ارد گرد کی کانوں میں کام کرتے ہیں موقع پر موجود تھے اور اپنے پیاروں کو اس دوزخ سے نکالنے کے لیے بے قرار تھے۔ خیبرپختونخوا کے علاقے شانگلہ سے تعلق رکھنے والے مزدور جل کر خاکستر ہوگئے تھے اور ان کے قریبی لوگ آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ موقع پر موجود تھے۔
بہت طویل اور دشوار گزار علاقے میں فوری طور پر ریسکیو کا کوئی انتظام نہیں تھا، ایسے میں دو کان کن اپنے پیاروں کو نکالنے کے لیے کوئلے کی کان کے اندر اتر گئے اور وہ بھی کان کے اندر زہریلی گیس کا شکار ہوگئے۔ جاں بہ حق ہونے والے ان 18 کان کنوں میں یہ دو مزدور بھی شامل تھے۔ سوال یہ ہے کہ فوری طور پر ریسکیو کا انتظام کیوں نہیں ہوا؟ کیا متعلقہ محکمہ ان حادثات سے جو آئے دن ہوتے رہتے ہیں لاعلم تھا؟ مارواڑ میں ہزاروں کان کنوں کے لیے ایک ایمبولینس تک نہیں تھی۔
دن گیارہ بجے ہونے والے حادثے کے بعد تقریباً 3بجے کے بعد کوئٹہ سے ایدھی اور چھیپا کی ایمولینسیں اور 1122کی ٹیمیں روانہ ہوئیں اور انہیں جائے وقوعہ پر پہنچنے کے لیے 60کلو میٹر کا سفر 3 گھنٹے میں طے کیا، کیوںکہ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے انھیں کچے راستوں، پہاڑی دروں، اونچی اونچی اونچی چٹانوں اور نیچی کھائیوں سے پُر راستوں سے گزر کر اس مقام تک آنا پڑا۔ اس حوالے سے ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ اول تو علاقے میں موبائل فون ہی کام نہیں کرتے ، اس لیے اطلاع پہنچتے پہنچتے کچھ تاخیر ضرور ہوتی ہے۔ تاہم محکمۂ معدنیات کے چیف انسپکٹر مائنز افتخار احمد، پی ڈی ایم اے کے حکام اور کوئٹہ کی ضلعی انتظامیہ کے حکام بھی موقع پر پہنچ گئے تھے۔
اﷲ اﷲ کرکے ریسکیو کا کام شروع ہوا اور شام کو نعشیں نکالنا شروع کی گئیں۔ عینی شاہدین کے مطابق جب نعشیں نکالی جارہی تھیں اس موقع پر کان کے مالک کو دیکھا گیا جب وہ اپنی گاڑیوں میں تابوت لے کر آیا۔ دوسری طرف کان کے مالک کا کہنا ہے کہ انہیں جیسے ہی حادثے کی اطلاع ملی وہ موقع پر پہنچ گئے اور انہوں نے خود ریسکیو کے کاموں کی نگرانی کی ۔
بلوچستان گذشتہ کئی سال سے بدامنی کی لپیٹ میں ہے اور کتنے ہی مزدور اس دہشت گردی کی زد میں آئے ہیں۔ متاثرہ علاقے کے لوگوں کے مطابق اب صورت حال تبدیل ہوچکی ہے۔ کچی سڑک پر فرنٹیئر کور کی ہر 5کلو میٹر کے فاصلے پر ایک چیک پوسٹ قائم ہے، جب کہ اوپر پہاڑوں پر بھی فرنٹیئر کور کے جوانوں نے چیک پوسٹیں قائم کرکے وائرلیس کا جدید سسٹم بھی لگادیا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق ریسکیو کے کام میں سب سے پہلے فرنٹیئر کور ہی موقع پر پہنچی اور دوسرے متعلقہ حکام کو فرنٹیئر کور کے ذریعے ہی اطلاع ملی ۔ بہرحال 13نعشیں ایمبولینسز کے ذریعے مرنے والوں کے آبائی علاقے شانگلہ روانہ کردی گئیں۔
ابھی اس حادثے پر ریسکیو کا کام جاری تھا کہ کوئٹہ سے 43کلو میٹر کے فاصلے پر پی ایم ڈی سی کی مائنز میں بھی حادثے کی اطلاع ملی جہاں کانکنی کے دوران مٹی کا تودہ گرنے سے 5کان کن جاں بحق اور 3 زخمی ہوگئے۔ امدادی ٹیموں نے اس کان کا بھی رخ کیا اور نعشیں نکال کر زخمیوں کو اسپتال منتقل کردیا۔
بلوچستان کی کوئلے اور دوسری کانوں میں کام کرنے والے زیادہ تر لوگ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ افغانستان کے ہزارہ اور دوسرے افراد بھی ان کانوں سے اپنا رزق تلاش کرتے ہیں ۔
بلوچستان کی کوئلے کی کانوں میں حادثات کیوں ہوتے ہیں اور اس کے سدباب کے لیے کیا انتظامات کیے گئے ہیں، حکومت اور متعلقہ محکمے کیا کر رہے ہیں؟ اس حوالے سے چیف انسپکٹر مائنز افتخار احمد نے کہا کہ کہ حکومت اور محکمہ معدنیات کوئلہ کی کانوں میں حادثات کی روک تھام کے لیے اقدامات نہ صرف کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرے گی۔
یہ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ہم ورکرز کی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں اور انہیں ضروری سامان اور حفاظتی آلات فراہم کرتے ہیں اور عموماً کول مائنز کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ حادثات کا سب سے بڑا سبب غیرقانونی مائننگ ہے جو ٹھیکے داروں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس میں یہ ہوتا ہے کہ ٹھیکے دار زیادہ کوئلہ نکالنے کی لالچ میں احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتا۔ مزدوروں کو زیادہ تعداد میں کوئلہ کی کان کے اندر اُتار دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر کام ایک طریقۂ کار کے تحت ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم چیک نہ رکھیں۔ ہم چیک کرتے ہیں لیکن ٹھیکے داری سسٹم بڑا نقصان دہ ہے۔
مائن اونرز حکومتی عہدے داروں کے موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ محمد عباس میر جو حادثے کا شکار ہونے والی کان کے مالک ہیں کہتے ہیں کہ ہر کان کے اندر ہوا کا راستہ چھوڑا جاتا ہے۔ ہماری مائن کے اندر بھی ہوا کا راستہ ہے۔ ہماری مائنز جوائنٹ تھیں، لیکن ان میں ہوا کا راستہ تھا۔ میتھین گیس ہر مائن کے اندر ہوتی ہے۔ احتیاطی تدابیر سب اختیار کرتے ہیں لیکن حادثات میں قدرتی عمل دخل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ورکرز ہمارے بچے ہیں ان ہزاروں ورکرز کے پیچھے لاکھوں افراد کا روزگار ہے۔ حکومت کی جانب سے ہماری اعانت نہیں کی جاتی۔
مائننگ سیکٹر اپنی مدد آپ کے تحت چل رہا ہے۔ بینکوں کے ذریعے لاکھوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔ بلوچستان میں مائننگ کا شعبہ ہی ایسا شعبہ ہے جو بینکوں کو سپورٹ کررہا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کیا ہے؟ کوئی دوسری انڈسٹری نہیں ہے۔ صرف شہر میں کچھ تجارتی مراکز ہیں۔ آپ اس سڑک کی حالت دیکھیں اور دشوار گزار علاقے کو دیکھیں۔ 60کلو میٹر کا فاصلہ 3گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔
اس سڑک سے کروڑوں روپے کا مال گزرتا ہے۔ ہم ورکرز کو 9 مختلف اقسام کی ملازمتیں فراہم کررہے ہیں۔ جنریٹرز، میٹیریل، سریا، بجری، سیمنٹ اور بھٹا انڈسٹری کو سپورٹ کررہے ہیں۔ 2006ء میں مشرف دور میں ایک آرڈیننس پاس ہوا کول انڈسٹری کی نیچرل گیس، فرنس آئل، اسٹیل اور سیمنٹ انڈسٹری سے منسلک کیا جائے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے کام سیدھے ہوجائیں۔ ہم علاقے کے لوگوں کو بھی ملازمتیں دیتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے ہمیں ایک ایمبولینس تک نہیں دی جاتی۔ روڈ اپنی مدد آپ کے تحت بارشوں کے بعد ہم بناتے ہیں۔ صوبائی اور مرکزی PSDPمیں رکھے گئے فنڈز حکومت ورکرز کے لیے استعمال نہیں کرتی اور نہ ہی ہمیں سیکیوریٹی فراہم کرتی ہے۔ فرنٹیئر کور ہمیں سیکیوریٹی دیتی ہے۔ ہمارے اوپر انکم ٹیکس، جنرل سیلز ٹیکس، ودہولڈنگ ٹیکس، ریسکیو ٹیکس عائد ہیں، جو ہم ادا کرتے ہیں۔ ہم نے لوڈنگ اور ان لوڈنگ ورکرز کو بھی ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔ ٹول ٹیکس اور دوسری راہ داریوں کے ٹیکس دیتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں صرف انڈسٹری سے تعلق رکھتی ہیں۔ کوئٹہ سے ایک ٹرک پنجاب کے لیے چلتا ہے جو 32ٹن کوئلے سے لوڈ ہوتا ہے۔ اس ٹرک پر چونگی اور کھانے پینے کے خرچے ہوتے ہیں۔ یہ بڑا سیٹ اپ ہے۔ ایک مزدور کے پیچھے ایک خاندان ہوتا ہے۔ یہ مزدور ہمارے بازو ہیں ان کی بڑی خدمات ہوتی ہیں۔ ہم انہیں صاف پانی دیتے ہیں۔
رہائش کے لیے مکانات دیتے ہیں۔ ہم خود مائن میں اترتے ہیں۔ ریسکیو کاموں کی نگرانی کرتے ہیں۔ صبح نماز کے بعد جوڑی سر اور سردار کی نگرانی میں کام شروع کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ جتنی ترقی اس انڈسٹری میں ہو اس سے سب کا فائدہ ہو۔ ہماری مائن سے کچھ فاصلے پر سرکی کچھ کا علاقہ ہے جہاں سے کوئٹہ کو گیس ملتی ہے۔ وہاں پٹرولیم کی تلاش بھی جاری ہے۔ ان مائنز میں بھی میتھین گیس ہے۔ ہم ان سب چیزوں کو مدنظر رکھتے ہیں۔ ٹھیکے دار فیض محمد کہتے ہیں کہ ایسی بات نہیں کہ ہم دیکھے ان دیکھے سب کو مائنز کے اندر اُتار دیں۔ مائنز سردار ہر چیز کی پیمائش کرتا ہے۔ جو خود مائن کے اندر اترتے ہیں۔ ہم ہر کام کو چیک کرتے ہیں۔ ٹھیکے دار بخت نظر کہتے ہیں کہ ہم وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی اور پی ڈی ایم اے حکام کے شکرگزار ہیں جنہوں نے ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا۔ حادثات کی صورت میں کھانا اور دوسری چیزوں کا اہتمام کیا۔
مائن اونرز نے بتایا کہ فوت ہونے والے ورکرز کو سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق 2لاکھ روپے ہم ادا کرتے ہیں 5لاکھ روپے لیبر ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ دینے کا پابند ہے۔ ورکرز ویلفیئر بورڈ جہیز فنڈ کی صورت میں 20سے 70 ہزار روپے ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم اپنے تئیں بھی ورکرز کے لیے کام کرتے ہیں۔
اس بار محنت کے ساتھ زندگی لُٹا آئے
جب شانگلہ سے تعلق رکھنے والے کان کَنوں کی میتیں گھروں کو پہنچیں
دوردراز علاقوں میں جاکر روزی کمانے والے مجبور مزدوروں کی کہانی
آفتاب حسین الپوری
شانگلہ کے 22 غریب محنت کش سانحۂ کوئٹہ میں لقمۂ اجل بنے۔ کئی گھر ویران ہوگئے، ایک ہی گھر کے دو دو افراد کوئلے کی کانوں میں جاں بحق ہوئے، یکے بعد دیگرے واقعات نے شانگلہ کے عوام کے دلوں کو افسردہ کردیا ہے، زندگی کی خواہش ختم ہوکر رہ گئی، اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کمانے والے محنت کش اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ پانچ مئی کو بلوچستان میں یکے بعد دیگرے کوئلے کان سرکنے سے شانگلہ سے تعلق رکھنے والے 22 افراد کی کوئلے کان میں شدید زخمی ہونے کی اطلاعات تھیں۔ شانگلہ میں اس واقعے کی خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔
مسلسل ہلاکتوں کی اطلاع پر علاقے میں قیامت صغریٰ برپا ہوگئی۔ شانگلہ سے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عباد اللہ کوئٹہ روانہ ہوئے اور خود ریسکیو آپریشن کی نگرانی کرتے رہے۔ پہلا واقعہ مارواڑمارگٹ میں جب کہ دوسرا حادثہ پی ایم ڈی سی کوئٹہ میں رونما ہوا۔ پہلے حادثے میں 16جب کہ دوسرے میں 7 افراد جان بحق ہوئے، جن میں سے ایک کی شادی عید کے بعد طے پائی تھی۔ کوئٹہ کی کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے 80 فی صد مزدور شانگلہ سے تعلق رکھتے ہیں، جب کہ ملک کی سطح پر اس علاقے سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کی سب سے بڑی تعداد یعنی65 فی صد مزدور کوئلہ کے کانوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ ان مزدوروں کے لیے کوئٹہ، پشاور ، مردان اور سوات میں کالونیاں موجود ہیں جب کہ شانگلہ میں تاحال کوئی بھی لیبر کالونی، اسکول اور صحت کی سہولیات میسر نہیں۔ معاوضوں کے حوالے سے کوئی خاطرخواہ بندوبست نہیں یہاں تک کہ کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے محنت کشوںکی رجسٹریشن کا بھی کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔
بلوچستان میں کوئلہ کی کانوں میں کام کرنے والے ایک مزدور نے بتایا کہ ہمارے لیے کوئلے کے کانوں میں کسی قسم کا کوئی حفاظتی بندوبست موجود نہیں ہوتا، ہمیں پتا ہوتا ہے کہ ہزاروں فٹ زمین کے اندر اُتر جانے کے بعد کسی بھی وقت کوئی بھی حادثہ رونما ہوسکتا ہے جو جان لیوابھی ثابت ہوسکتا ہے۔ ہر بار کدال مارتے ہوئے کسی بھی وقت گیس یعنی ساندہ پھٹ جانے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ ہمارے لیے وہاں کسی قسم کے علاج و معالجے کا انتظام موجود نہیں، کوئلے کی کانوں کے مالکان مزدوروں کو کسی قسم کی کوئی سہولت نہیں دیتے۔
شانگلہ میں تعلیم اور روزگار کا معقول بندوبست نہیں ہے۔ پورے شانگلہ میں نہ کوئی فیکٹری ہے نہ کارخانہ، جہاں ہم بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے رزق کمائیں، متبادل روزگار نہ ہونے کی وجہ سے بہ امر مجبوری ہم جان پر کھیلتے ہوئے کوئلے کے کانوں میں کام کرتے ہیں۔ ہماری غربت ہمیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنے کمسن بچوں کو بھی اپنے ساتھ لے کر اس جان لیوا مزدوری پر لگادیتے ہیں۔
اس کام میں جب پنجاب کا کوئی محنت کش موت کا شکار ہوجاتا ہے تو اس کا معاوضہ پندرہ لاکھ تک ہوتا ہے جب کہ خیبر پختون خوا میں یہ معاوضہ دو لاکھ روپے ہے اور اس کے حصول کے لیے جو قانونی تقاضے پورے کرنے پڑتے ہیں وہ بھی ورثاء کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس صورت حال سے واقف ہونے کے باوجود خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہیں، بدقسمتی سے شانگلہ میں تا حال کوئی لیبر ہسپتال، لیبر کالونی، ورکنگ فوکس ماڈل اسکول یا ان مزدوروں کے بچوں کے لیے ان کی وفات کے بعد کسی قسم کا متبادل بندوبست بھی نہیں۔ شانگلہ کے مزدوروں کے ساتھ گذشتہ دنوں پیش آنے والے حادثے نے شانگلہ کے عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
دوسری طرف شانگلہ کے مختلف دیہات میاں کلے، شلاؤ، بانڈہ، پیر آباد اور ڈھیرئی کے دُکھ کا شکار عوام اس مشکل میں تھے کہ مکینوں کے لیے یہ بات بھی ایک مشکل تھی کہ 23 افراد کا بیک وقت جنازے، تجہیزو وتکفین اور تدفین کا انتظام کیسے کیا جائے۔ رات گئے تک میتوں کو ایمبولنس اور فلائنگ کوچز کے ذریعے پہنچایا گیا اوریہ سلسلہ صبح چار ساڑھے چار بجے تک جاری رہا۔ اس موقع پر شانگلہ کی تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے خود جنازے اٹھائے اور اس کی تدفین میں حصہ لیا۔ اسی دن وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک نے پشاور میں صحافیوں سے بات چیت میں اسے سانحہ کوئٹہ قرار دیتے ہوئے لواحقین کی زخموں پر نمک پاشی کی تو ان کی جماعت کے سرکردہ راہ نماؤں سمیت ہر کارکن سراپا احتجاج بن گئے۔
شانگلہ سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کے عدم تحفظ و ان کی زندگی سے بے پرواہی پر عوامی حلقوں نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار سے صورت حال پر از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئلے کی کانوں میں مسلسل ہونے والے حادثات کے لیے اعلیٰ ترین کمیشن بنانے کے ساتھ معاوضوں کا طریقۂ کار وضع کیا جائے۔ عوامی حلقوں نے حکومت سے جاں بحق ہونے والے محنت کشوں کے بچوں کے لیے تعلیمی وظیفہ دینے ، صحت کی سہولیات کی فراہمی اور ٹیکنیکل ایجوکیشن سینٹر کے قیام، شانگلہ میں منظور شدہ ورکنگ فورس ماڈل اسکول کے قیام سمیت لواحقین کے گھرانے سے ایک ایک فرد کو سرکاری سطح پر ملازمت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
The post کانیں کیوں مزدوروں کو کھا جاتی ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IVYQE8
via IFTTT
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔