جمعرات، 7 مئی، 2020

روزنِ زندانِ صفی (ویک اپ کال ضیاءمغل)

0 comments

تاریخ کے اوراقوں میں دیبل کے قرب و جوار میں جو قزاقوں کا تذکرہ ملتا ہے
وہ راجہ داھر کے اپنے پالتو دستے سمندر میں لوٹ مار مچاۓ رکھتے تھے
اُس وقت عربوں کے تجارتی کاروان سراندیپ جس کو سیلون بھی کھا جاتا تھا اس وقت سری لنکا اور قرب وجوار کی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہیں شامل تھا
عربوں کے کٸ کارواں لٹنے کے بعد ان کا نام و نشان تک نہیں ملتا تھا کہ عام تاثر تھا کہ سمندر کے اندر کوٸی ایسا بھنور ہے جو پورے بیڑے کا وجود ہی غرقاب کر دیتا ہے
ایک کارواں کو لوٹنے کے بعد جب اس کے مسافروں کو زندان میں ڈالا گیا تو راز کھلا کہ جتنے بھی تجارتی کاروان گمنان ہو چکے ہیں وہ سب کے سب راجہ داہر کے قزاقوں نے لوٹے تھے
عورتوں کو باندیاں بنا دیا گیا تھا
مردوں کو قید میں رکھ کر جبری مشقت لی جاتی تھی
ان کے چنگل سے ایک قیدی جو مسلمان کے اس بیڑے کا کپتان و سالار تھا جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا
وہ دن رات سفر کرتے ہوۓ بصرہ پھنچا تھا حجاج بن یوسف اس سے پیشتر کسی اہم معرکہ کے لیۓ قیتبہ بن مسلم سے ایک جری سپہ سالار بھیجنے کا فرمان جاری کر چکے تھے قیتبہ نے محمد بن قاسم بھیج دیا تھا
جس کو حجاج بن یوسف نے پچپن میں دیکھا تھا جب اس کی عمر 6/7 برس تھی اب وہ جری جوان بن چکا تھا
قیتبہ بن مسلم کے انتخاب پر حجاج بن یوسف آگ بگولہ ہو گیا اور گرج دار آواز میں بن قاسم سے مخاطب ہو کر بولا میں نے قیتبہ سے تجربہ کار سالار مانگا تھا اس نے آٹھ سال کا بچہ بھیج دیا ہے
جس پہ محمد نے برجستہ جواب دیا تھا کہ میری عمر اس وقت سولہ سال آٹھ ماہ ہے اگر آپ کو کسی اور سالار کی طلب ہے تو میں اجازت چاہتا ہوں
حجاج کو بن قاسم سے یہ جواب سننے کی امید نہیں تھے
اس نے پوچھ لیا کس قبیلہ سے تعلق ہے
محمد نے جواب دیا تھا ثقفی ہوں
کس کے بیٹے ہو قاسم کے
یہ مقالمی کافی طویل ہے
اس کو کسی اور وقت میں بیان کرونگا
اس اثنإ میں سندہ سے لٹا پٹا بیڑے کا سالار پھنچا جس کو راجہ داہر کے وزاقوں نے لوٹنے کے بعد قفس میں قید کر رکھا تھا
دربان نے ڈرتے ڈرتے حجاج کو اطلاع دی تھی کہ ایک تھکا ہارا سپاہی گھوڑے سے اترتے ہی بیھوش ہو گیا ہے اور اس کے گھوڑے نے دم توڑ دیا ہے
چاچا بھتیجے کا مکالمہ برہمی کی بجاۓ جان پھچان میں داخل ہو گیا تھا اور مطلوبہ جنگی معرکہ کے متعلق نقشہ پہ بن قاسم اپنے علم کے جوہر دکھا رہا تھا کہ نووارد سپاھی کے بیہوش ہونے اور گھوڑے کے مر جانے کی اطلاع پاکر دونوں باہر دوڑے چلے گۓ جب سالار ہوش میں آیا جس نے ساری روٸیداد سنادی تاریخ اس بیڑے کے کپتان و سالار کا نام زبیر بیان کرتی ہے
اس کے بعد حجاج نے یہ نیا معرکہ سر کرنے کی ذمیداری محمد بن یوسف کو سونپ کر خلیفہ وقت ولید بن عبدالملک کی خدمت میں روانہ کر دیا چونکہ اس وقت طول و عرض میں اسلامی سپاہ مختلف معرکوں میں مصروف عمل تھے بھت سارے معرکہ جات میں تازہ دم دستوں کی کمک کی شدت سے ضرورت تھی بہت سے معرکوں نے طوالت پکڑ رکھی تھی بن قاسم زبیر کو لیکر خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سندہ کی سرگزشت سناٸی خلیفہِ وقت نے ان کو پروانہ جاری کردیا کہ سندہ کے معرکہ کے لیۓ لیۓ فوج تیار کرنے کے لیۓ مساجد اور مختلف جگہوں پر اعلانات اور معرکہ کی اہمیت کے بارے میں امتِ مسلمہ کو آگاہی دی جاۓ
خلیفہ ولید بن عبدالملک نے
بن قاسم سے فرمانے لگے محمد پرسوں کو سالانہ مقابلہ ہے اس میں آپ کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع بھی دیا جاٸیگا اور اس مجمع میں آپ کو سندہ کے معرکہ کے لیۓ سپاہ تیار کرنے کی اہمیت پہ بات کرنے کی بھی اجازت ہوگی
اور اس مقابلہ میں بے باک شرکت اور جیت نے فاتح سندہ کی شہادت کی بنیاد رکھ دی تھی
اس مقابلہ میں پورے عرب سے شامل جانباز سپاہی مقابلہ میں اپنے جوہر دکھاتے رہتے تھے لیکن کٸ سالوں سے ولی عہد سلمان بن عبدالملک کو کسی نے شکست نہیں دی وہ کٸ سالوں سے فاتحِ عرب و عجم رہے تھے
اور اس کو اس سال کے مقابلہ میں بغیر احتیاطی تدابیر کے ایک نقاب پوش نووارد نے تلوار نیزہ کے مقابلہ میں چاروں شانے چت کر دیا تھا وہ نقاب پوش کوٸی اور نہیں تھا محمد بن قاسم ہی تھا جو باب الاسلام کا ہیرو اور فاتح سندہ جانا جاتا ہے
جس کے نام سے آج بھی دشمنان اسلام کے دل لرزاں ہیں
خلیفہ ولید بن عبدالملک کی وفات کے بعد سلمان بن عبدالملک خلیفہ بنے تو
وہی عناد و زعم لیکر وقت کے جری جنریل کو جام شہادت پلانے والے نۓ خلیفہ نے فقط محمد بن قاسم کی سزاۓ موت کے پروانہ پر ہی دستخط نہیں کیۓ تھے درجنوں جنریلوں سیکڑوں جری سپاہ اور آواز بلند کرنے والے علمإ و عوام کو تہ تیخ بنایا گیا تھا

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔