اتوار، 29 اپریل، 2018

عوام جواب مانگتے ہیںFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

راؤانوار کا نام سُنتے ہی سماعت گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اُٹھتی ہے، کسی پولیس مقابلے میں چلنے والی گولیاں، جن کا نشانہ بننے والے تو ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئے لیکن ان میں سے اکثر کے لواحقین روتے، چیختے، بین کرتے رہے، مگر ان کی آوازیں صدا بہ صحرا ثابت ہوئیں، باقی رہی تو راؤانوار کی بندوق کی غراہٹ، اور اس غراہٹ نے نقیب اللہ کی آواز بھی اس کے سینے میں گھونٹ دی۔

دل آویز شخصیت کا مالک یہ نوجوان تو ہمیشہ کے لیے چُپ ہوگیا مگر اس کا خون بول اُٹھا۔ احتجاج کی لہر کراچی سے وزیرستان تک پھیل گئی۔ ردعمل اتنا شدید تھا کہ راؤانوار کو اپنی روسیاہی سمیت روپوش ہونا پڑا۔ آصف زرداری کا یہ ’’بہادربچہ‘‘ کس کی جائے امان میں چُھپا رہا؟

اس سوال کا جواب مل گیا تو یہ حقیقت کھل جائے گی کہ راؤانوار کس کا ہتھیار ہے، ابھی تک انصاف اس سوال کے پیچھے نہیں گیا۔ پھر ایک دن وہ بڑی شان سے عدالت میں پیش ہوگیا۔ امید تھی کہ اتنے شدید احتجاج اور عدلیہ کے ازخودنوٹس لینے کے بعد موت کا یہ ہرکارہ کم ازکم ملزم کی حیثیت سے انصاف کے کٹہرے میں ضرور لایا جائے گا، لیکن اب یہ اُمید مختلف اخبارات میں شایع ہونے والی اس خبر کے ہاتھوں قتل ہوگئی کہ نقیب اللہ قتل کیس کی تفتیشی ٹیم نے اس معاملے کے مرکزی ملزم راؤ انوار کو وعدہ معاف بننے کی پیش کش کی ہے۔

اگر یہ خبر غلط تھی تو تفتیشی ٹیم کو اس کی تردید کرنی چاہیے تھی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ پھر ایک اور خبر کی سیاہی نے تاریکی بڑھائی۔ اس خبر کے مطابق نقیب اللہ قتل کیس کی تفتیشی ٹیم کی راؤانوار اور اس مقدمے میں ملوث دیگر مفرور ملزمان سے ’’ڈیل‘‘ ہوگئی ہے۔ سودا یہ طے پایا ہے کہ تفتیشی ٹیم عدالت سے راؤانوار کے مزید ریمانڈ کی استدعا نہیں کرے گی۔ ’’ڈیل‘‘ سیاہ معنوں سے بھرا لفظ صاف بتا رہا ہے کہ معاملات طے پاچکے ہیں، بس رسمی کارروائی ہونا ہے، پھر انصاف ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا کر پولیس مقابلے میں مار دیا جائے گا۔ ہم نے انگریزی اور لغات نکال کر دیکھیں، معلوم ہوا کہ ڈیل کا لفظ منفی معنوں میں یا منفی انداز میں سودا طے پانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

اب سب صاف ہے۔ پوری بے شرمی کے ساتھ راؤانوار کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے، شاید اس لیے کہ ہر زورآواز کا یہ آلۂ کار اپنے سینے میں چُھپے بھید نہ کھول دے۔ یہ خبریں سامنے آنے کے بعد انصاف کی امید باندھے عوام، خاص طور پر راؤانوار کے ہاتھوں بے بسی کی موت مارے جانے والے افراد کے لواحقین اور سرکاری وردی میں خون آشامی کے خوف ناک چلن پر دل گرفتہ دانش ور تشویش اور اندیشوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کمیشن کے نمائندے راؤانوار کے معاملے پر ریاستی اداروں کے رویوں پر شروع دن سے خدشات اور تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ وقت ان کے اندیشوں کو درست ثابت کر رہا ہے۔

اب یہ خدشہ ہر حساس دل میں پھنکار رہا ہے کہ کیا ایک ایسے شخص کو وعدہ معاف گواہ کی سند دے کر اور اس سے سودے بازی کرکے اُسے پاک صاف اور ہر قتل سے بری کردیا جائے گا جس پر لاتعداد افراد کو ہاتھ باندھ کر بے دردی سے ماردینے کا الزام ہے۔ اگر راؤانوار کے ’’انصاف‘‘ کا نشانہ بننے والے سب کے سب افراد مجرم اور دہشت گرد تسلیم کرلیے جائیں تب بھی کیا یہ ماورائے عدالت قتل کوئی جواز پاسکتے ہیں؟؟ اس سے قطع نظر کہ قانون کی کتابیں استغاثہ کی ضرورت کے تحت کسی ملزم کو وعدہ معاف گواہ بنانے کے لیے کیا کہتی ہیں۔

کیا شرائط عاید کرتی ہیں، کیا اس کا ذرا سا بھی اخلاقی جواز ہے کہ جس شخص کی وردی پر پڑے کتنے ہی انسانوں کے خون کے دھبے اپنی اپنی کہانی سُنا رہے ہوں، جس کے ہاتھوں پر لگا لُہو چھپائے نہ چھپایا جارہا ہو، جس کی دولت اور جائیدادیں چیخ چیخ کر بتارہی ہوں کہ ان کی بنیاد بدعنوانی اور انسانی لاشوں پر رکھی گئی ہے، اسے کسی قانونی رعایت کی جھری سے کھینچ کھانچ کر نکالا اور بچالیا جائے؟ کٹہرے سے نکل کر راؤانوار تو اُسی طرح اکڑتا ہوا چلا جائے گا جس طرح عدالت میں ’’حاضر‘‘ ہوا تھا، لیکن قانون اور انصاف کے سر ہمیشہ کے لیے جھک جائیں گے۔ ایسی صورت میں وہ پولیس جو ہر شریف شہری کے لیے پہلے ہی خوف کی علامت ہے، مزید بے لگام اور کہیں زیادہ خوں خوار ہوجائے گی۔ یوں راؤانوار کا معاملہ ایک شخص نہیں بلکہ پورے نظام انصاف سے وابستہ ہے اور اس پر سوال پر سوال لگا رہا ہے۔

ایسے میں جب پاکستان کے منصف اعلیٰ بجا طور پر مختلف سرکاری اداروں اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر کڑی تنقید کے ساتھ دوروں اور ازخود نوٹس کے ذریعے صورت حال میں بہتری لانے کے لیے کوشاں ہیں، اس پر داد اور توصیف پارہے ہیں، ان کی زیرسربراہی قائم نظام انصاف میں شگاف ڈال کر کسی سفاک قاتل کو بچالینا حکومتوں اور سیاست دانوں سے مایوس عوام کو نظام عدل سے بھی مایوس کردے گا۔ اُمید کا دیا ٹمٹمایا ضرور ہے، لیکن ابھی تک روشن ہے۔ مفرور اور روپوش ملزم راؤانوار کو جس طرح عدالت میں طلب کیا گیا۔

اس سے یہ تاثر ابھرا کہ اُس کے بارے میں نرم رویہ اختیار کیا جارہا ہے، پھر اس کی شاہانہ انداز اور ’’باعزت‘‘ طریقے سے آمد ’’کچھ نہیں ہوگا‘‘ کے مایوس کُن خیال کو تقویت دے گئی، یہ سوال ہاتھ باندھے سرجھکائے دُبکا رہا کہ آخر راؤانوار کس پناہ گاہ میں منہہ چھپائے رہا، جہاں تک کسی کو رسائی کی ہمت نہ ہوسکی۔ پھر مقدمے کی طوالت پر ہر ایک یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ شاید نقیب اللہ سمیت راؤانوار کا مبینہ طور پر نشانہ بننے والے سیکڑوں افراد کا خون وقت کی دھول میں چھپانے اور اُڑانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور اب یہ خبریں کہ ’’سات خون معاف‘‘ کرتے ہوئے راؤانوار کو وعدہ معاف گواہ بنایا جارہا ہے، اس سے ’’ڈیل‘‘ کرلی گئی ہے! ایک طرف راؤانوار کے ظلم کی کو بہ کو پھیلی گواہیاں ہیں، دوسری طرف عدل وانصاف کے بلندبانگ وعدے۔۔۔۔اب اگر راؤانوار انصاف کے کٹہرے میں لائے بغیر اور مقدمہ چلائے بغیر کسی بھی طور ’’معافی‘‘ کا حق دار قرار پاتا ہے تو عوام کی آنکھوں سے تاریخ کے صفحات تک اس ’’درگُزر‘‘ کے لیے بس ’’ناقابل معافی‘‘ کے الفاظ تحریر ہوں گے۔

کلرک بننے سے باوردی ’’کِلر‘‘ بننے تک

یہ آٹھ اگست 1995کی دوپہر تھی، نصیر اللہ بابر کی سربراہی میں ایم کیوایم کے خلاف شروع ہونے والا آپریشن اپنے عروج پر تھا، شام کے اخبارات میں شایع ہونے والے ایک مبینہ پولیس مقابلے کی خبر نے شہرقائد پر خوف اور وحشت کے نئے سائے مسلط کردیے۔ یہ خبر تھی ایم کیوایم کے کارکن فاروق دادا اور اس کے ساتھیوں غفار مادہ، حنیف تُرک اور جاوید مائیکل کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کی۔

اخبارات میں شایع ہونے والی تصاویر میں اس وقت ایئر پورٹ تھانے کا ایس ایچ او لاشوں کے ساتھ کچھ اس طرح کھڑا تھا جس طرح شکاری اپنے شکار کو ہلاک کرنے کے بعد فخریہ طور پر تصویر بنواتا ہے۔ ایس ایچ کا او کا موقف تھا کہ بھاری ہتھیاروں سے لیس یہ مجرم پی آئی اے کے جہاز پر حملہ کرنے کی نیت سے ایئرپورٹ کی حدود میں داخل ہورہے تھے اور نہ رکنے پر دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوئے، لیکن حقیقت اس کے بر عکس تھی، فاروق دادا کو ایک رات قبل ہی گارڈن ویسٹ کے علاقے میں اس کے سسرال سے گرفتار کیا گیا تھا، جب کہ اس کی لاش کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹر نے فاروق دادا پر بہیمانہ تشدد کی تصدیق کی تھی۔ یہ اس پولیس افسر کا شاید پہلا ماورائے عدالت قتل تھا، جس نے1980میں ایس پی کیماڑی کے پاس بہ طور کلرک بھرتی ہونے والے ایک شخص کو باوردی ڈان بننے کی جانب راغب کیا۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ محض ایک سال کے عرصے میں اس افسر کو کلرک سے ترقی دے کر براہ راست اے ایس آئی بنا دیا گیا۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا پہلا مبینہ پولیس مقابلہ کرنے والے اس افسر کو شاید خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس کی یہ فاتحانہ تصویر اُسے آنے والے سالوں میں اپنے ’کیریئر‘ کے عروج پر پہنچا دے گی۔ اپنی سروس کے پہلے ’ قتل‘ کو اس افسر نے بے پایاں مسرت کا موجب قرار دیا۔ اس پہلے مبینہ پولیس مقابلے کے بعد تو گویا اس کے منہ کو خون لگ گیا اور اور چند ہی ماہ میں اس کا شمار سندھ پولیس کے ’ماورائے عدالت قتل‘ کے ماہرین میں ہونے لگا۔

اسی سال دس اکتوبر کو ناظم آباد کے ایک گھر میں پھر ایک پولیس مقابلہ ہوا اور اس افسر نے اپنی پوری فورس کو ایک خراش لگائے بنا ’جواںمردی ‘ سے اپنے وقت کے مشہور ’دہشت گرد ‘ فہیم کمانڈو کو تین ساتھیوں سمیت ہلاک کردیا۔ مقابلے میں ہلاک ہونے والے ’دہشت گردوں‘ کو چھے اگست کو سی آئی ڈی جمشید کوارٹر نے حراست میں لے کر تفتیش کے بعد جیل بھیج دیا تھا جہاں سے انہیں نو اکتوبر کو دوپہر تین بجے کے قریب ’پولیس مقابلے‘ کے لیے ایئر پورٹ پولیس اسٹیشن میں سندھ پولیس کے اس ’ہونہار‘ پولیس افسر کے حوالے کردیا گیا۔ پولیس مقابلے کی تما م تیاریاں مکمل کرنے کے بعد اس ’قابل‘ افسر کی سربراہی میں فہیم کمانڈو، ذیشان حیدر عابدی، یوسف رحمان اور مفیض فاروقی کو ناظم آباد میں واقع ایک گھر میں لے جایا گیا۔  اور چند گھنٹوں بعد ہی پولیس مقابلے میں یہ ’ہتھکڑی لگے‘ دہشت گرد پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگئے۔

انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ زہرہ یوسف نے اس پولیس مقابلے کو ماورائے عدالت قتل قرار دیتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات والا رہا۔ کچھ پُراسرار وجوہات کی بنا پر ان جعلی پولیس مقابلوں کی تحقیقات مکمل نہیں ہوسکیں، سیاسی سرپرستی نے ایک معمولی ایس ایچ او کی فرعونیت کو دوام بخشا اور پھر اس کے بعد سے ایسے ’ جادوئی‘ پولیس مقابلوں کا سلسلہ شروع ہوا جن میں لسانی، سیاسی، مذہبی جماعتوں کے سیکڑوں ’’خطرناک‘ دہشت گرد‘‘ ایک بھی پولیس اہل کار کو زخمی کیے بنا ہلاک ہوئے۔

’جعلی مقابلے ‘ کرنے کی اہلیت کی بدولت راؤانوار پہلے ڈی ایس پی اور پھر ایس ایس پی کے عہدے پر فائز ہوگیا۔ اس افسر کو ایس ایس پی بناکر کراچی کے سب سے زیادہ کماؤ پوت ضلع ملیر میں تعینات کردیا گیا۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق، ضلع ملیر میں تعیناتی کے بعد بکتر بند گاڑی میں بیٹھ کر پولیس موبائلز کے جلو میں سفر کرنے والا سندھ پولیس کا یہ ’بہادر بچہ‘ ریتی بجری کی غیرقانونی کھدائی، زمینوں پر قبضے، مخالفین کے قتل اور اغوا برائے تاوان جیسے ’’نیک کام‘‘ سینے پر قانون کا تمغہ سجائے کرتا رہا۔ لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، جس کو چاہا پیسے لے کر چھوڑ دیا، جس کو چاہا شدت پسند قرار دے کر مار دیا۔

طاقت کے نشے اور ارباب اختیار کی سرپرستی نے اسے جوان لاشے اٹھاتے باپ کی آہ وزاری سننے، بوڑھی ماں کی آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھنے سے قاصر کردیا۔ انسانیت کے اس ننگے ناچ میں اس جیسے کچھ اور ضمیر فروش بے حس اہل کار بھی رقصاں رہے۔ ظلم و جبر، وحشت و بربریت کا ننگا ناچ جاری رہا۔ جیسے جیسے ’پولیس مقابلوں‘ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھتی رہی ویسے ویسے انسانیت کے نام پر دھبا لگانے والے اس افسر، اس کے سر پرستوں، اس کے ساتھیوں کی جائیدادوں، بینک بیلنس اور پولیس مقابلوں کی تعداد بڑھتی رہی۔

اس بہادر بچے کے اپنے ہی محکمے کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ اس افسر نے ضلع ملیر میں تعینات ہونے کے بعد سات سال کے عرصے میں ’جواںمردی‘ سے 192پولیس مقابلوں میں 444 مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک کیا، ہلاک ہونے والے دہشت گردوں میں سے زیادہ تر نے اس بہادر بچے سے ’ہتھکڑیاں‘ پہن کر مقابلہ کیا۔

پولیس مقابلوں کی یہ تعداد تو وہ ہے جو اس افسر کی سربراہی میں ہوئے جب کہ مجموعی طور پر 745 پولیس مقابلوں میں یہ افسر ملوث رہا۔ یہ سب مقابلے اس افسر نے اپنی ذات کے لیے نہیں بل کہ قوم کی ’خدمت‘ کے جذبے سے سرشار ہو کر کیے۔ لوگ اس افسر کو ایک ظالم انسان کے طور پر جانتے ہیں لیکن یہ اتنا ظالم بھی نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں کیوں کہ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’صاحب بہادر‘ نے گذشتہ سات سالوں میں891 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ، لیکن ہلاک صرف 444ہی ہوئے، یعنی نصف سے زائد مشتبہ افراد کو انہوں نے یقیناً ’جذبۂ خیرسگالی‘ کے تحت چھوڑ دیا، یہ الگ بات ہے کہ مبینہ طور پر گرفتارشدگان کو مال کی ’’خیرات‘‘ سے یہ خیرسگالی خریدنا پڑی۔

بلا تخصیص وامتیاز شہریوں کو پولیس مقابلے میں ’پار‘ کرنے والا یہ افسر اتنا با اثر رہا کہ کبھی سندھ اسمبلی کے ا پوزیشن لیڈر کو گریبان سے پکڑ کر گھر سے لے گیا تو کبھی اپنے اعلیٰ افسران کو ہی دھمکیاں دیتا رہا، عدالتیں اس کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتی رہیں اور یہ انہی عدالتوں میں پولیس پروٹوکول کے ساتھ گھومتا رہا۔ راؤانوار کو 4 مرتبہ، 2 مرتبہ سندھ ہائی کورٹ کے حُکم پر اور 2 مرتبہ سپریم کورٹ کے حکم پر ہٹایا گیا۔ مگر چند دن بعد وہ دوبارہ تعیناتی حاصل کرکے اپنے عہدے پر موجود ہوتا تھا۔ ترقی کا خواہش مند راؤ انوار اس کام کے لیے جائز و ناجائز کا کبھی قائل نہیں رہا۔ مختلف تھانوں میں ڈیوٹی اور مختلف محکموں میں اپنے تبادلے کروانے والے راؤ انوار نے مقتدر حلقوں کی نظر میں آنے کے لیے اہم شخصیات سے رابطے استوار کیے۔ اپنی اِس خصوصیت کی بنا پر اس نے غیرمعمولی طور پر ترقی حاصل کی اور جلد ہی نارتھ ناظم آباد میں ایس ایچ او کی پوسٹ حاصل کرلی۔

کہا جاتا ہے کہ راؤ انوار سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کا بھی منظور نظر رہا اور اسی عرصے میں اس کے ارباب اختیار کے ساتھ رابطے قایم ہوئے۔ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے کہنے پر نصیر اللہ بابر نے راؤ انوار پر خصوصی نظرِکرم کی، جس کے بعد راؤ انوار نے کراچی میں مقابلوں کی بھرمار کردی۔ سنیئر پولیس افسران کے مطابق تشدد کی بھیانک ترین شکل چیرا لگانے کا موجد بھی راؤ انوار ہی تھا۔

پولیس مقابلوں میں ورلڈ ریکارڈ بنانے کا خواہش مند یہ افسر شاید یہ کام بھی کر گزرتا لیکن رواں برس13 جنوری کو ہونے والے پولیس مقابلے نے اس بہادر بچے کی بہادری کی ساری ہوا نکال دی۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پولیس مقابلے کا سامان سجایا گیا، ایک ماتحت نے گھر میں ’دہشت گردوں‘ کی موجودگی ثابت کرنے کے لیے کھانے پینے کا سامان اور دیگر ضروری چیزیں رکھیں تو ایک ماتحت نے ہتھکڑی بند دہشت گردوں کو مقابلے کے مقام پر لانے کا فریضہ سر انجام دیا، ایک ماتحت نے ان دہشت گردوں کو شدت پسند ثابت کرنے کے لیے لکھے لکھائے اسکرپٹ میں نام اور مقام کی تبدیلی کا ذمہ اٹھایا۔

لیکن حد سے زیادہ اعتماد کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ یہ بھول گئے کہ ان شکاروں میں سے ایک نہ صرف شو بز کا دل دادہ ہے بل کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر نہایت سرگرم بھی، جسے طالبان جیسے مذہبی انتہاپسندوں سے وابستہ باور کرانے کی کوشش گلے پڑ جائے گی، اور اسی ایک بھول نے سندھ پولیس کے اس ’بہادر بچے‘ کے گرد قانون کی گرفت مضبوط کرنا شروع کردی۔ منصوبے کے مطابق مقابلے کے بعد روایتی بیان جاری کیا گیا کہ ایس ایس پی راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس نے شاہ لطیف ٹاؤن کی حدود میں ایک پولیس مقابلہ کیا جس میں ہمیشہ کی طرح تمام اہل کار محفوظ رہے اور ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والے ’خطرناک‘ دہشت گرد ہلاک ہوگئے ہیں، ان ہی میں ایک وزیرستان سے تعلق رکھنے والا 27 سالہ نقیب اللہ محسود بھی تھا۔

اس خوبرو نوجوان کی گولیوں سے چھلنی لاش کی تصاویر نے سوشل میڈیا پر ہل چل مچا دی، نقیب اللہ کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری مہم کے حق میں مین اسٹریم میڈیا بھی اِس آواز میں اپنی آواز ملانے پر مجبور ہوگیا، جس کے بعد عوام سڑکوں پر نکل آئے اور سڑکوں سے ایوانوں تک نقیب اللہ کے قتل پر احتجاج ہونے لگا۔ قبائلی علاقوں اور کراچی میں پختون عوام کی جانب سے ہونے والے مظاہروں اور احتجاج کے بعد اربابِ اختیار کو ہوش آیا، انکوائری کمیٹیاں بنیں، جنہوں نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں ہی نقیب اللہ محسود کے حوالے سے کیے گئے راؤ انوار کے دعوؤں کی صداقت پر سوالات اٹھائے۔

عدالت کی جانب سے راؤ انوار کو اشتہاری ملزم قرار دیا گیا۔ لیکن پولیس تمام تر کوششوں کے باوجود اپنے اس ’ہونہار‘ پولیس افسر کو گرفتار کرنے سے قاصر رہی۔ اور بالآخر اپنے سرپرستوں کی یقین دہانی کے بعد اس ملزم نے خود کو عدالت میں پیش کردیا۔ سندھ پولیس کے اس اِن کاؤنٹر اسپیشلسٹ راؤ انوار کی ریٹائرمینٹ میں چند ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں، مگر نقیب اللہ کیس میں یہ بری طرح پھنس چکا ہے، جب کہ اسے ایک محفوظ راستہ دینے کے لیے چند دن قبل ہی تفتیشی ٹیم نے نقیب اللہ قتل کیس میں ملوث اس مرکزی ملز م کو وعدہ معاف گواہ بننے کی صورت میں سزا میں نرمی کی پیش کش کی ہے، جس کے بعد اس سے سودے بازی ہوجانے کی خبر شایع ہوئی ہے۔

راؤ انوار وعدہ معاف گواہ بنتا ہے یا نہیں ابھی اس بات کا فیصلہ نہیں ہوا، لیکن لاکھوں لوگ سوال کر رہے ہیں کہ ’’وعدہ معافی‘‘ کی پیش کش کا کیا جواز بنتا ہے۔ سیکڑوں بے گناہوں کے خون میں ہاتھ رنگنے والے اس پولیس افسر کی دیدہ دلیری نے بہت سے سوالات کو جنم دے دیا ہے۔ کن عناصر کی شہہ پر ایک ایس ایس پی رینک کا افسر آئی جی، ڈی آئی جی کے احکامات کو جوتے کی نوک پر رکھتا رہا؟ یہ قاتل پولیس افسر ریتی بجری، لینڈ مافیا ، اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین نوعیت کی وارداتوں میں ملوث ہونے کے باوجود اپنے عہدے پر کیسے براجمان رہا؟ اور بھی ایسے سوالات ہیں جو ایک عام شہری کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔

اور ان میں سب سے اہم یہ سوال زور و شور سے گھروں، بازاروں، دفتروں، تفریح گاہوں، سماجی، تعلیمی اور ثقافتی اداروں کے درو دیوار اور قانون سے وابستہ لوگوں کے ذہنوں پر ہتھوڑے برسا رہا ہے کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا ایسا ہی ہوگا؟ کیا سیاہی کے ہاتھ اتنے ہی مضبوط ہیں؟ کیا جبر و ظلم کی زنجیروں نے ساری انصاف پسند قوتوں کا گلا گھونٹ کر انہیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیا ہے؟؟؟؟؟  کیا دانش کے سارے خزانے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پڑے سڑتے رہیں گے؟؟؟؟

گذشتہ ہفتے ملک بھر میں ہمارے فلسفی شاعر ڈاکٹر محمد اقبال کا یوم ِ وفات منایا گیا، جنہوں نے زندگی کی سر بلندی کے لیے کائنات کے کہنہ رازوں سے، تدبیر و جستجو کی نئی نئی کلیدوں سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ دیکھیے، ہمارے آج کے اس موضوع سے ان کا یہ بھولا بھٹکا شعر کس قدر مناسبت رکھتا ہے:

ہر شیشہ ٹوٹ جاتا ہے پتھر کی چوٹ سے

پتھر ہی ٹوٹ جائے وہ شیشہ تلاش کر!

The post عوام جواب مانگتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2r8n7fw
via IFTTT

پاک امریکا تعلقات میں اُتار چڑھاؤ کی تاریخFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

قیام پاکستان پر لاتعداد کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن دو مصنفین لاری کولنز اور دو مینک لاپیرے کی مشترکہ کتاب Freedom at midnight  ایک نہایت دلچسپ اور لاجواب کتاب ہے۔

اگر چہ اس میں مصنفین کا قدرے جھکاؤ گاندھی، نہرو اور کانگرس کی جانب ہے مگر پھر بھی اس میں کافی حقائق اور واقعا ت ایسے ہیں جو حیرت زدہ کردیتے ہیںاور قاری اس کا قائل ہو جا تا ہے کہ پاکستان واقعی ایک معجزہ ہے، اس کتاب کا ترجمہ انگریزی سے ہندی ،فرانسیسی اور اردو میں ہو چکا ہے اور ان زبانوں میں اس کے اب تک ڈیڑھ سو سے زیادہ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔

مصنفین کے مطابق قائد اعظم محمد علی جناح کو جون 1946 ء میں ان کے خاندانی معالج نے ایکسرے دیکھ کر بتایا کہ ان کے دونوں پھیپھڑ وںپر ٹیبل ٹینس کی گیند کے برابر دو زخم اس شدت کے ہیں کہ وہ ایک سال مشکل سے زندہ رہیں گے۔ ڈاکٹر پٹیل کا کہنا تھا کہ وہ اس اطلاع پر نہیں چونکے، انہیں اپنی ٹی بی کی بیماری کی پوری خبر تھی البتہ انہوں نے ڈاکٹر پٹیل سے یہ وعدہ لیا کہ یہ راز ہی رہے گا اور ڈاکٹر پٹیل نے اس راز کو ان کی موت تک راز ہی رکھا۔

یہ راز، ان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو بھی پاکستان بننے کے بعد معلوم ہوا۔ کتاب کے مصنفین کا دعویٰ ہے کہ اگر اس کی خبر کانگرس یا وائسرائے لارڈ ماوئنٹ بیٹن کو ہو جاتی تو وہ پاکستان کے قیام کو روک دیتے کہ انہیں یقین تھا کہ قائد اعظم کے علاوہ مسلم لیگ میں اور کوئی شخصیت نہیں تھی جو پاکستا ن بنا سکتی، اور یہ محمد علی جناح کا یقین اور عزم تھا کہ انہوں نے خدا کے فضل وکرم سے پاکستان بنا کردکھا دیا، اسی کتاب میں یہ کہا گیا ہے کہ جب اعلان آزادی سے کچھ روز قبل لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ایک مجمع میں سوال کیا گیا کہ آزادی کی تاریخ کیا ہو گی تو وائسرائے نے جواب دیا کہ 14 اگست، واضح رہے کہ جاپان پر سات اور نو اگست کو امریکا نے ایٹم بم گرائے تھے اور جاپانیوں نے 14 اگست 1945ء کو وائسرائے لارڈ ماوئنٹ بیٹن کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔

وہ 1943-46 میں سپریم الائیڈ کمانڈر ساوتھ ایسٹ ایشیا کمانڈ تھے، یہ خبر جیسے ہی سامنے آئی تو پورے ہندوستان میں ہندؤوں میں کہرام مچ گیا کہ ہندونجومیوں کے مطابق یہ دن ان کے بھارت کے لیے منحوس ثابت ہو گا اور بھارت آزاد ہوتے ہی تباہیوں اور بربادیوں کے سامنے ہو گا ، لیکن 14 اگست 1947 ء کی رات 27 ویں رمضان المبارک نزول قرآن کی رات تھی، یوں مسلمانوں نے خوشی و مسرت کا اظہار کیا۔ 14 اگست1947 کو قائد اعظم کے ساتھ لارڈ ماوئنٹ بیٹن نے قیام پاکستان اور آزادی کی تقریب میں شرکت کرنی تھی۔

دہلی سے کراچی آتے ہوئے جہاز میں سی آئی ڈی کے انگریز آفیسر نے وائسرائے کو بتا یا کہ قائد اعظم کو اس موقع پر قتل کرنے کی سازش کا سراغ نہیں لگا یا جا سکا آپ جناح کو کہیں کہ جلوس کی شکل میںگورنر ہاوس جانے کا پروگرام منسوخ کردیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مصنفین کا کہنا ہے ہزاروں افراد کا جلوس بہت سست رفتار تھا اور وائسرائے سڑکوں کے کنارے اور ساتھ چلتے ہجوم کو گھبرا ئے ہوئے دیکھ رہے تھے جب جلوس گورنر ہاوس پہنچ گیا تو قائد اعظم نے مسکرا کر لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے کہا خدا کا شکر ادا کریں کہ میں نے آپ کو حفاظت سے یہاں پہنچا دیا ۔

جب پاکستان بن گیا تو اسے ناکام کرنے کے تمام حربے بھارت نے استعما ل کئے۔ آزادی کے تقریبا ڈھائی مہینے بعد 22 اکتوبر 1947 سے جون 1948ء تک پہلی پاک بھارت جنگ ہوئی اور پاکستان نے باوجود محدود وسائل کے آدھا کشمیر آزاد کرا لیا۔ اس وقت چین آزاد نہیں ہوا تھا اور روسی سربراہ اسٹالن سے بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے 1927 ء سے تعلقات تھے جب انہوں نے لینن کی دعوت پرسوویت یونین کے انقلاب کے دس سالہ جشن میں شرکت کی تھی اور روس سے بھارت کے تعلقات بہت گہرے تھے۔

یوں قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان کے لیے سفارتی محاذ پر بھارت روس اور پھر چین اور کسی حد تک افغانستان کا مقابلہ کرنا تھا اور اس کے لیے سوائے امریکا کے اور راستہ نہیں تھا۔ امریکا نے 15 اگست 1947 ء کو کراچی میں اپنا سفارت خانہ کھول لیا تھا اور یہاں 20 ستمبر سے صدر امریکا ہیری ٹرو مین نےPaul H Alling کو باقاعد سفیر مقرر کیا کردیا تھا۔ اس کے بعد 4 مارچ 1949 ء کوH Merle Cochran پھر 2 فروری1950 ء کو Avran M warren پاکستان میں امریکا کے سفیر مقرر ہوئے 17ستمبر1952  ء کو John M Cabot مئی تک سفیر رہے۔

ہیری ٹرومین 12 اپریل 1945 ء سے20 جنوری 1953ء تک امریکا کے صدر رہے جو اس اعتبار سے امریکا کے اہم صدور میں شامل ہیں کہ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے آخری دنوں میں نہ صرف جاپان پر ایٹم بم گرانے کے احکامات دئیے بلکہ مغربی یورپ اور جاپان کی تعمیر نو کے عمل کو نہایت تیز رفتاری سے مکمل کیا اور ساتھ ہی سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ کے آغاز پر پہلے آٹھ برسوں میں دنیا بھر میں امریکی خارجہ پالیسی کو بنا کر اس پر عملدرآمد بھی کیا۔ اس لحاظ سے وہ پاک امریکا تعلقات میں بھی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔

ان کے دور اقتدار میں خصوصا قیام پاکستان کے وقت سے ذرا قبل 21 جنوری 1947 تا 20 جنوری 1949 ان کی کابینہ میں جارج سی مارشل اور اس کے بعد 21 جنوری 1949ء سے 20 جنوری 1953 ء Dean Acheson  وزراء خارجہ رہے ، ہمارے ہاں لیاقت علی خان 1947-51 وزیراعظم رہے اور قائداعظم کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل ہوئے جوکہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد وزیر اعظم اور ملک غلام محمد گورنر جنرل ہوئے جبکہ پاکستا ن کے پہلے وزیر خارجہ سر محمد ظفر اللہ خان تھے جو 27 دسمبر1947 ء سے24 اکتوبر 1954 ء تک وزیر خارجہ رہے، امریکی صدر کے زمانہ اقتدار میں پاکستان کے امریکا میں پہلے سفیر ایم اے ایچ اصفہا نی 8 اکتوبر 1948ء سے 8 فروری 1952ء رہے ان کے بعد محمد علی بو گرا 27 فروری 1952ء سے 16 اپریل 1953ء امریکا میں پاکستان کے سفیر رہے۔

واضح رہے کہ چین کی آزادی کے بعد بھارت چین تعلقات بہت مضبوط اور گہرے تھے، ہند چینی بھائی بھائی کا نعرہ اس وقت خطے کا مقبول ترین نعرہ تھا ، امریکا کے نزدیک پاکستا ن کی اہمت اس لیے بہت زیادہ تھی کہ پاکستان اپنی خاص جغرافیائی پوزیشن کے اعتبار سے بہت اہم ہے، چین، افغانستان، ایران، بھارت سے اس کی سرحدیں ملتی ہیں، بحیرہ عرب پر اس کا ایک ہزار کلو میٹر ساحل خصوصا گوادر کے اعتبار سے خلیج فارس پر اہم ہے جہاں سے عرب ممالک خلیجی ریاستیں قریب ہیں۔ افغانستان، روس ، چین کی سرحد پر واخان سے روس اور سنٹرل ایشیا قریب ہے۔ امریکی صدر نے نہ صرف پاکستان کے قیام کے دوسرے دن ہی ملک کے پہلے دارالحکومت کراچی میں امریکی سفارتخانہ کھول دیا بلکہ یہاں فارن اسٹیٹ آفس کے باقاعدہ اور پیشہ ور اہم افراد کو سفیر تعینات کیا یعنی وہ امریکی دفتر خارجہ کے باقاعدہ افسران تھے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور امریکی وزارت خارجہ کے تربیت یافتہ افراد زیادہ تر پاکستان میں سفیر تعینات ہوتے ہیں۔

پاکستان کے قیام کے بعد تقریبا نو ماہ پاک بھارت جنگ رہی اور جب کشمیر میں جنگ بندی ہوئی اور جنگ بندی لائن کے طے پانے کے بعد اقوم متحدہ میں کشمیر کے حوالے سے بھارت کی جانب سے لائی جانے والی قرارداد جس میں کشمیر میں ریفرنڈم کروانے اور کشمیر کے مسئلے کو کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کرنے کی قرارداد کے منظور ہونے کے بعد جب پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے امریکی صدر ٹرومین کی دعوت پر امریکا کا 3 مئی تا 26 مئی1950 تیئس روزہ دورہ کیا تو یہ پاکستان امریکا تعلقات میں اہم مرحلے کا آغاز تھا۔ اگر چہ لیاقت علی خان اپنے ہمراہ اہم اور اعلیٰ ترین سول اور فوجی قیادت سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے وفد کی صورت میں لے گئے تھے جس طرح صدر ٹرومین کی معاونت پاکستان میں امریکی سفیر اور امریکی وزیر خارجہ کر رہے تھے اسی طرح اس وقت امریکا میں پاکستان کے سفیر ایم اے ایچ اصفہانی اور وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان اہم ترین تھے۔

سرد جنگ شدت اختیار کر رہی تھی عالمی افق پر تاریخ کی اہم ترین شخصیات جن میں روس کے اسٹالن ، برطانیہ کے چرچل، فرانس کے ڈیگال، چین کے ماوزے تنگ اور بھارت کے پنڈت جواہر لال نہرو اہم تھے۔ ہمارے قائد اعظم رحلت فرما چکے تھے ان حالات میں امریکا کے صدر سے طویل ملا قاتوں میں اہم عالمی پالیسیوں کی تشکیل اور اس کے تناطر میں پاکستان کے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے اس وقت دنیا کی سپر پاور امریکا کے ساتھ متوازن مستحکم تعلقات تشکیل دینا بہت مشکل تھا لیکن یہ حقیقت ہے کہ وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان اور اصفہانی نے لیاقت علی خان کی بہترین معاونت کی۔

اس موقع پر بھارت سوویت یونین اور ان کے علاقائی دوست ملکوں نے پاک امریکا تعلقات کے خلاف بھر پور، باقاعدہ مہم کا آغاز کیا کہ پاکستان اور امریکا کے یہ تعلقات علاقے کے دیگر ممالک کے خلاف استعمال ہو نگے جب پاکستان اور امریکا کے دفاتر خارجہ اور دونوں ملکوں کے سفیر وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دورے اور امریکی صدر کی جانب سے اس دورے کی دعوت اور 23 روزہ دورے کا شیڈول طے کرنے کے مراحل میں تھے تو برطانیہ نے دولت مشترکہ کا ادارہ تشکیل دیا جس میں وہ ممالک شامل ہو سکتے تھے جو آزادی سے قبل برطانیہ کی نو آبادیات رہے ہو ں۔

سوویت یونین بھارت کے حوالے سے یہ نہیں چاہتا تھا کہ بھارت اس تنظیم کا رکن بنے کیونکہ بھارت رقبے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا ایک بڑا اور اہم ملک ہے اور اس کی شمولیت سے برطانوی دولت مشترکہ کی اہمیت مستحکم ہونی تھی اس موقع پر سوویت یونین کے اسٹالن نے پاکستان کے وزیر اعظم کو سوویت یونین کے دورے کے لیے کہا ، تاکہ بھارت دباؤ میں آکر دولت مشترکہ میں شمولیت کا ارادہ ترک کردے مگر پنڈت جواہر لال نہرو ایک منجھے ہوئے سیاست دان تھے ان کو اندازہ تھا کہ سوویت یونین بھارت کے مقابلے میں اسلامی نظریے پر قائم پاکستان کو ہر گز فوقیت نہیں دے گا اور ایسا ہی ہوا کہ بھارت برطانوی دولت مشترکہ میں شاملبھی ہوا اور دوسری جانب پاکستان کے وزیراعظم کے دورے کے اعتبار سے جو بیانات سوویت یونین کی جانب سے آئے تھے وہ وہیں تک رہے حالانکہ پاکستانی دفترخارجہ نے چاہا کہ سوویت یونین اس دورے سے متعلق کوئی شیڈول دے لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور پھر آج تک بعض حلقو ں سے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے یہ غلطی کی کہ سوویت یونین کے دورے کی دعوت کو ٹھکرا کر امریکا گئے جب کہ اس تاثر کو لیاقت علی خان نے اپنی زندگی میں ہی دئیے انٹرویو میں رد کردیا تھا کہ پاکستان کا دفتر خارجہ انتظار کرتا رہا کہ کب سوویت یونین  کی وزارت خارجہ کا سفارت خانہ پاکستانی وزرات خارجہ سے مل کر یہ معاملات طے کریں گے۔

دوسری طرف امریکا کے صدر ٹرومین یہ چاہتے تھے کہ پاکستان روس کے خلاف امریکا کو اپنے ہاں فوج اڈے دے دے اور جب صدر ٹرومین نے اپنی اس خو اہش کا اظہار لیاقت علی خان کے سامنے کیا تو لیاقت علی خان کا جواب قائد اعظم کی واضح کردہ خارجہ پالیسی کے عین مطا بق تھا۔ لیاقت علی نے کہا کہ پاکستان نے آدھا کشمیر امریکی امداد کے بغیر آزاد کر وایا ہے اور پھر اس دورے کے ایک سال بعد لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں شہید کردیا گیا۔

اس کے بعد پاکستان کے تعلقات اگرچہ امریکا سے بہت مستحکم ہوئے اور پاکستان سیٹو سینٹو میں بھی شامل ہو گیا مگر اسے نہ تو اس وقت کوئی فائدہ ہوا بلکہ حسین شہید سہر وردی کے زمانے میں12 ستمبر1956  سے17 اکتوبر 1957 ء پشاور کے قریب بڈبیر کے مقام پر امریکا کو فوجی فضائی اڈہ بھی دے دیا گیا۔ 1953-61 آئزن ہاور امریکی صدر رہے ان کے بعد 1961-63  جان ایف کنیڈی پھر 1963-69 جانسن، یوں پاکستان کے پہلے دس برسوں میں ہماری خارجہ پالیسی کا آغاز بہت اچھا تھا مگر لیاقت علی کی وفات کے بعد امریکا کی جانب ہمارے حکمرانوں کا جھکاؤ بڑھتا گیا۔ 1958 کے مارشل لاء کے بعد ہماری خارجہ پالیسی میں کچھ تبدیلیاں آئیں جو منفی بھی تھیں اور مثبت بھی، ساٹھ کی دہائی میں بڈبیر امریکی فضائی اڈے سے نہایت بلندی پر اڑ کر روس کی جاسوسی کرنے والے یوٹو قسم کے طیارے کو روس نے مار گرایا جس پر پاکستان کو روس نے دھمکی دی کہ روس نے پشا ور کے گرد سر خ دائر ہ بنا دیا ہے۔

پاکستان کی دوسری دہائی 1957 تا 1967 ء کی ہے۔ اس وقت تک وزرا خارجہ کے طور پر سر محمد ظفر اللہ خان کے بعد محمد علی بوگرا اور فیروز خان ن زیادہ اہم ہیں۔ جہاں تک تعلق محمد علی بوگر ا کا ہے وہ دو مرتبہ امریکا میں پاکستان کے سفیر بھی رہے ایک بار پاکستان کے وزیر اعظم اور دو مرتبہ وزیر خارجہ بھی رہے اور 1963 کے آغاز پر جب ان کا انتقال ہوا تو ذولفقار علی بھٹو 35 برس کی عمر میں پاکستان کے وزیر خارجہ بنے لیکن یہ حقیقت ہے کہ محمد علی بوگرا نے پاکستان امریکا تعلقات میں اہم کردار ادا کیا۔ بطور سربراہ حکومت صدر جنرل ایوب خان کابینہ کی تشکیل کے اعتبار سے بہت مردم شناس تھے۔

یہی وجہ تھی کہ باوجود اس کے کہ بھٹو کی بیوی اور صدر سکندر مرزا کی بیوی رشتہ دار تھیں اور بھٹو سکندر مرزا کی کابینہ کے وزیر بھی تھے ایوب خان نے نہ صرف بھٹو کو 1958 ء کے مارشل لا کے بعد اپنی کابنیہ میں شامل کیا بلکہ بوگرا کی موت کے بعد ان کو وزیر خارجہ بنادیا کیونکہ بھٹو ایوب خان کو امور خا رجہ پر مشورے دیتے تھے۔ فیروز خان نون جو 14 ستمبر 1956 ء سے7 اکتوبر1958 تک وزیر اعظم کے ساتھ وزیر خارجہ بھی رہے اوراس دوران اسکندر مرزا صدر تھے جن کے پاکستان میں مقیم امریکی سفیر سے تعلقات رشتہ داری کی حد تک تھے حکومت نے 8 ستمبر1958 میں آج کے سوا ارب ڈالر میں گوادر کو اومان سے خرید کر پاکستان میں شامل کیا، اس دوران امریکا میں پاکستان کی جانب سے سید امجد علی، عزیز احمد، غلام احمد ، جو 15 ستمبر 1966 ء تک سفیر رہے اور دو اکتوبر 1966 ء کو آغا ہلالی امریکا میں سفیر تعینات ہوئے اور 20 اکتوبر 1971 ء تک سفیر رہے۔ یوں ایوبی دور حکومت میں عموما دفتر خارجہ کے پیشہ ور افسران ہی امریکا اور دیگر اہم ممالک میں پاکستان کے سفیر رہے۔

1957-67 ء میں اگرچہ پاکستان نے صنعتی ترقی کی لیکن عالمی سطح پر خارجہ پالیسی کی بنیادوں پر کوئی نمایاں مقام حاصل نہ کر سکا، البتہ پنڈت نہرو ہی کے دور میں جب چین بھارت جنگ ہوئی تو پاکستان کے پاس پہلی مرتبہ یہ موقع آیا کہ وہ امریکا کے علاوہ بھی کسی اور بڑے ملک سے تعلقات قائم کرے۔ اگرچہ اس وقت چین صعنتی اقتصادی اور عسکری لحاظ سے کوئی بڑی قوت نہیں تھا مگر بھارت سے جنگ میں اسے نمایاں برتری حاصل ہوئی تھی۔ 1964 ء میں دو بڑے واقعات رونما ہوئے اس سال بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہروانتقال کرگئے اور چین ایٹمی دھماکہ کرکے دنیا کی پانچویں ایٹمی قوت بن گیا اور اس کے ایک سال بعد دوسری پاک بھارت جنگ ہوئی جس میں فوجی اعتبار سے اگر چہ پاکستان کو برتری حاصل رہی مگر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اس جنگ کے باوجود ہم خارجی سطح پر کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔

1967 ء سے 1977 ء کی تیسری دہائی کے ابتدا ہی میں عرب اسرائیل جنگ میں مصر، شام ، عراق، لبنان، اردن کی شکست نے دنیا پر یہ واضح کردیا کہ سوویت یونین مشرق وسطیٰ کے مسلمان ملکوںکا دوست ہونے کے باوجود ان کی ایسی مدد نہیں کرتا کہ یہ مسلمان ملک اسرائیل کے مقابلے میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکیں۔ دوسری جانب امریکا ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک اسرائیل کی ایسی مدد کرتے رہے کہ اسرائیل عرب ملکوں کے خلاف فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے مگر اس کے باوجود کوئی مسلم ملک یا رہنما نمایاں کرداد ادا نہیں کر پایا۔1969 ء میں ایوب خان کے رخصت ہونے کے بعد جنرل یحییٰ خان مارشل لاء لے آئے۔ 1966 ء میں بھارتی وزیر اعظم شاستری کی وفات کے بعد پنڈت جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی بھارت کی وزیر اعظم بن چکی تھیں اور وہاں دوبارہ قیادت مستحکم ہو چکی تھی۔

ہمارے ہاں یحییٰ خان نے وازرت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا۔ ہلا لی 20 اکتوبر 1971 ء کو امریکا میں پاکستان کے سفارت خانے سے واپس ہوئے جو پیشہ ور سفارت کار تھے اور ان کی جگہ میجر جنرل (ر) این اے ایم رانا امریکا میں پاکستان کے سفیر ہوئے جبکہ پاکستان میں امریکا کے سفیر 27 جولائی 1967 ء سے 17 جون 1969 ء تک Benjamin Oehlert رہے اور ان کے بعد 19 ستمبر 1969 سے30 اپریل 1972 جوزف ایس فار لینڈ پاکستا ن میں سفیر رہے ا ور اس دوران1969-73 ءWilliam P Rogers امریکی وزیر خارجہ رہے۔ ان کے بعد امریکی تھنک ٹینک کے اہم ترین اور تجربہ کار شخصیت ہنری کسنجر کی ہے جو صدر نکسن کے دور کے ایک سال بعد تک 1969-75 میں ان کے نیشنل سیکورٹی ایڈ وائز رہے اور پھر 1973-77 امریکا کے وزیر خارجہ رہے۔

1969 ء میں سوویت یونین اور چین کے درمیان شدید سرحدی جھڑپیں ہوئیں اور کئی مہینوں تک جاری رہیں جن کا مشاہدہ اور تجزیہ امریکی سی آئی اے اور تھنک ٹینک نے کیا، اور امریکا اور چین کے درمیان تعلقات بنانے کے لیے پاکستان نے اپنی خدمات پیش کیں جو اگر پورے مطالعہ اور تیاری کے ساتھ کی جاتی تو یہ پاکستان کے لیے ایک اہم ترین موقع ہوتا لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا جولائی تا اکتوبر 1971ء مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت دنیا بھر کے سامنے تھی جب اس زمانے میں ہنری کسنجر نے پاکستان سے چین کے دو خفیہ دورے کئے جو خفیہ نہیں رہے اور روس نے بھارت سے دفاعی معاہدہ کرلیا اور جنگ 1971 ء میں ہم پہلے خارجہ تعلقات کے اعتبارسے عالمی سطح پر شکست کھا گئے۔

20 دسمبر 1971 ء کو بھٹو نے اقتدار سنبھالا اور وزیر خارجہ کا قلمدان بھی انپے پاس رکھا ، بھٹو نے ملک کی خارجہ پالیسی کو نہ صرف آزاد اور متوازن کیا بلکہ اسے ملک کی معاشی ترقی سے بھی مربوط کردیا۔ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے فورا بعد جب لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کروائی تو یوں سوویت یونین اور امریکا دونوں سے ہٹ کر ایک تیسرا، ایسے ملکوں کا گروپ تشکیل دیا جس میں بنیادی اہمیت ان کی اور پاکستان کی تھی۔

یہ سب بھارت سے جنگ کے صرف دو سا ل بعد ہوا۔ تیل کو ہتھیا ر کے طور پر استعمال کرنے کی بنیادپر تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی آمدنیوں میں اضافے سے ان ملکوں میں تعمیر وترقی کا تیز رفتار آغاز ہوا تو 30 لاکھ افرادی قوت کے خلیجی ملکوں میں جانے سے پاکستان کو زرِ مبادلہ کا ایک مستقل اور مستحکم ذریعہ ہاتھ آگیا لیکن اب سوویت یونین اور امریکا دونوں کے لیے بھٹو قابل قبول نہیں تھے اس دوران 1969-74 نیکسن اور1974-77 جیرالڈ فورڈ امریکا کے صدر رہے 1973-77 ہنری کسنجر وزیر خارجہ رہے اور پاکستان میں امریکا کی جانب سے 1972-77سینڈی سوبر،ہنری اے بائیروڈی ،جارج ایس ویٹ سفیر رہے اور پاکستان کی جانب سے امریکا میں سلطان محمد پندرہ مئی 1972  سے آٹھ دسمبر1973 تک سفیر رہے ان کے بعد صاحبزادہ یعقو ب خان انیس دسمبر 1973 سے تین جنوری1979 یعنی بھٹو کے بعد بھی سفیر رہے اور اسی دور میں یعنی پاکستان کی چوتھی دہائی 1977-88 میں نہ صرف افغانستان ،پاکستان ،ایران میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں بلکہ مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں تبدیلیاں واقع ہوئیں۔

ہمارے ہاں صدر جنرل ضیا الحق 1977-88 برسر اقتدار رہے 1985-88 محمد خان جونیجو وزیر اعظم رہے اس دوران آغا شاہی1978-82تک   اور پھر دو مرتبہ صاحبزادہ یعقوب خان 1982-88 اور پھر چند روز بعد9 جون1988 سے20 مارچ 1991 ملک کے وزیر خارجہ رہے جو ملک کی تاریخ کے سب سے زیادہ مدت تک رہنے والے وزیر خارجہ تھے اور جب تک اختیارات کے ساتھ کام کیا تو بھٹو کے بعد سب سے کامیاب وزیر خارجہ رہے، مگر بد قسمتی کہ 1985-88 جونیجو حکومت نے زین نورانی کو وزیر مملکت امور خارجہ رکھا اور افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی اور بحالی امن سے متعلق جنیوا مذاکرات زین نورانی ہی نے کئے جس میں پاکستان افغانستان میں روس کی شکست میں اہم ترین کردار ادا کرنے کے باوجود اپنے قومی مفادات کا بھی بھر پور طور پر دفاع نہ کر سکا اور غالبا یہی بنیادی وجہ تھی کہ جنرل ضیاء الحق نے جو نیجو حکومت ختم کردی اور پھر چند روز بعد وہ خود بھی بہاولپور فضائی حادثے میں جان بحق ہوگئے۔

1977-87 ء جمی کارٹراور رونالڈ ریگن امریکا کے صدرو رہے۔ 1977-81 تک چار امریکی وزرا خارجہ کے بعد سب سے اہم امریکی وزیر خارجہ جارج شلز تھے جو 1982-89وزیر خارجہ رہے۔ اس دوران 1977-87 ہومل، سیپئرز، ہینٹون سفیر رہے اور رافیل 4 مئی 1987 ء کو بطور سفیر پاکستان آئے اور17 اگست 1988 ء کو جنرل ضیا الحق کے ساتھ طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوگے۔

تاریخ پاکستان کی پانچویں دہائی 1987-97 میں ملکی حالات مجموعی طور پر سیاسی بحران کا شکار رہے اور افغانستان میں خانہ جنگی کے بعد طالبان مستحکم ہوئے۔ 1990 میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سوڈان، عراق ،کویت اور مشرق وسطیٰ کے ان ممالک میں جہاں سوویت یونین کے اثرات تھے وہاں خانہ جنگیاں شروع ہوئیں، دنیا میں صورتحال کے بدلنے سے تمام ممالک اپنی پوزیشنیں تبدیل کرنے لگے۔ سوویت یونین ، مشرقی یورپ اور سنٹرل ایشیا میں اقتصادی سیاسی بحران ابتری کے قریب پہنچنے لگا مگر پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے بعد سیاسی کشا کش جاری رہی اور ہم بر وقت بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی کو بہتر انداز سے ترتیب نہیں دے پائے۔

اس دوران فاروق لغاری،سردار آصف علی ،گوہر ایوب وزیر خارجہ رہے، وزراء اعظم میں دو دو مرتبہ بینظیر اور نواز شریف رہے اور امریکا میں پاکستان کے سفیر جمشید مارکر، ایر مارشل ذوالفقار علی ، نجم الدین شیخ ، سیدہ عابدہ حسین ، ملیحہ لودھی رہے او ر ریاض کھو کر 12 مارچ 1997 ء کو امریکا میں پاکستا ن کے سفیر مقرر ہوئے۔ امریکا میں رونالڈ ریگن 1981-89 صدر رہے ان کے بعد چار سا ل جارج ایچ ڈبلیو بش صدر ہے پھر1993-2001 بل کلنٹن صدر رہے۔ 1987-97 کے دوران امریکا کے وزراخارجہ کا قلمدان جارج شلز کے بعد جمیس بیکر ،لارنس ایلبر جر اور وارن کرسٹوفرکے پاس رہا جبکہ پاکستان میںامریکا کے سفیر رافیل کی موت کے بعد رابرٹ اوکلے ،جان کیمرون میجو، تھامس ڈبیلو سموئنس رہے، یہ وہ دور ہے جب امریکا کی جانب سے بے رخی اور کج ادائیاں شروع ہوگئیں تھیں۔

دنیا میں اب دو طاقتی متوازن نظام کی جگہ یک طاقتی نظام کو رائج کرنے کی امریکی خواہش دنیا کے سامنے تھی اور نیو ورلڈ آرڈر ،گلوبل ویلج اور ڈبلیو ٹی او جیسی آوازیں دنیا کی سماعت پر اب نیا سیاسی ، سماجی شعور ثبت کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔ دنیا میں اژدھامی نفسیات کو بہت زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ذرائع ابلاغ کے ذریعے بہت کم وقت میں تبدیل کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے تہذ یبوں کا تصادم ہونا تھا یا کر وایا جا رہا تھا ۔ اگر چہ ہمارا دفتر خارجہ وقت کے تقاضو ں کے مطابق کام کرنے والے اعلیٰ سفارتکاروں سے آباد ہے لیکن اب دنیا میں امریکا ، برطانیہ ، چین ، فرانس، روس، کینیڈا،آسٹریلیا، جرمنی، سعودی عرب اور بھارت جیسے ملکوں میں وزارت خارجہ کی سروس کے باقاعدہ سفارت کاروں کے بجائے سیاسی بنیادوں پر سفیروں کی تعیناتی کا رجحان بڑھ گیا۔

پاکستان کی چھٹی دہائی 1997-07 ء بہت بحرانی رہی اگرچہ اس کا آغاز جمہوری لحاظ سے بہت حوصلہ افزا تھا وزیر اعظم نواز شریف کو جماعتی اعتبار سے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی اور انہوں نے آئین میں ترمیم کر کے منتخب حکومتوں کو تحفظ کی ضمانت دے دی ، لیکن انہوں نے اس کے بعد ضرورت سے زیادہ تیزی دکھائی اور ٹکراؤ کی راہ اختیار کی۔ نوازشریف کی دوسر ی حکومت سے پہلے عبوری حکومت میں صاحبزادہ یعقوب خان وزیرخارجہ رہے امکان تھا کہ ان کو ہی مستقل کیا جائے گا مگر گوہرایوب کو وزیر خارجہ بنایا گیا اور یہ انتخاب بھی بہتر رہا کہ جب مئی 1998ء میں بھارت نےایٹمی دھماکے کئے تو شریف کابینہ میں پاکستان کی جانب سے جواباً دھماکوں کے لیے پُر اثر اور گونجدار آوازیں، راجہ ظفر الحق ، شیخ رشید اور گوہر ایوب کی تھیں اور اس کو اتفاق کہیں یا کچھ اور کہ پاکستان کے ا یٹمی دھماکوں کے70 دن بعد گو ہر ایوب کی جگہ 7 اگست1998  کو سرتاج عزیز کو وزیر خارجہ بنایا گیا اور 12 اکتوبر1999 ء کو آرمی چیف جنرل مشرف کی جانب سے کی گئی کاروائی تک وزیر خارجہ رہے۔

نوازشریف کے اس دور میں امریکا میں پاکستان کے سفیر پہلے ریاض کھو کر 12 مارچ 1997 سے7 ستمبر1999 ء تک رہے۔ ان کے بعد طارق فاطمی 8 ستمبر1999 ء سے16 دسمبر1999 ء تک سفیر رہے جبکہ اس زمانے میں جب امریکا کے صدر جارج ایچ ڈبلیو بش تھے اور امریکی وزیر خارجہ میڈیلین البرائٹ تھیں اور پاکستان میں امریکا کے سفیر پہلے تھامس ڈبیلو سیموئنس اور پھر ولیم بی میلام تھے، جو چھ جولائی 2001 ء تک رہے۔

جنرل پرویز مشروف کا ابتدائی دور شروع ہوا تو عبدالستار 6 نومبر 1999 سے14 جون 2002 تک وزیر خارجہ رہے اور جب کہ وزرا اعظم ظفر اللہ جمالی ،چوہدری شجاعت اور پھر شوکت عزیز رہے تو اس زمانے میں یعنی 2002 تا 2007 ء خورشید محمو د قصوری وزیرخارجہ رہے اور امریکا میں پاکستا ن کی سفیر ملیحہ لودھی ان  کے بعد اشرف قاضی پھر جنرل ر جہانگیر کرامت ، اورپھر پانچ جون2006ء کو جنرل ر محمد علی درانی جو نو مئی 2008 ء تک امریکا میں سفیر رہے اور امریکا میں بل کلنٹن کے بعد جارج ڈبیلو بش 20 جنوری2001 تا 2009 صدر رہے، اس دوران پاکستان میں چمبرلین، ننسی جو پاؤل، رائن سی کروکر امریکی سفیر رہے، یہ دور خصوصا نائن الیون کے بعد پوری دنیا کے لیے بہت خطرناک رہا مگر پاکستان کے لیے زیادہ خطرناک تھا۔

پرویز مشرف نے یوٹرن کی اصطلاح کئی موقعوں پر عملی طور پر اختیار کی ان کا آج بھی موقف یہی ہے کہ انہوں نے پاکستان فرسٹ کی اصطلاح کو زیادہ عملی رکھا لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کو بھی بہت نقصان پہنچا ، پرویز مشرف جو کارگل کے محاذ پر بھارت کے خلاف لڑے تھے انہوں ہی نے آگرہ اور دہلی میں امن اور دوستی کی کوشش بھی کی لیکن ان کے دور میں جب گوادر پر چین کے تعاون سے ڈیپ سی پورٹ منصوبہ شروع ہوا تو بلوچستان میں بحران اس انتہا کو پہچا کہ نواب اکبر بگٹی کو جا ن بحق کردیا گیا اور پھر بینظیر کو 2007 دسمبر کو قتل کردیا گیا، ان کے دور کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ملک کا انتہائی بحرانی دور رہا مگر مغربی سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا یہ ہے کہ انہوں نے بہرحال امریکا کے حملے سے پاکستان کو بھی بچا لیا اور ایٹمی ہتھیاروں کو بھی محفوظ رکھا ، باوجود ان پر امریکا کے کئی حلقوں کی جانب سے ڈبل کراس کرنے کے الزمات لگے لیکن ان کے دور میں اگر اقوام متحدہ مغربی ممالک اور امریکا میں پاکستانی سفارتکاروں کی کار کردگی بہتر رہی تو اس کی وجہ اس وقت دفتر خارجہ کا وہ جرات مندانہ فیصلہ تھا جس کے تحت انہوں نے اختیارات کی منتقلی کی طرح کی اصلاحات دفتر خارجہ میں نہیں کرنی دیں اور جنرل پرو یز پر واضح کردیا کہ اس طرح اس کا بنیادی انفراسٹرکچر تباہ ہوجائے گا۔

پاکستان کی ساتویں دہائی جو2007 سے 2017-18 تک کے عرصے پر محیط ہے اس دوران ملک میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دو جمہوری منتخب حکومتوں میں سے ایک اپنی پانچ سالہ مدت 2008-13 پوری کرچکی ہے اور دوسری کی مدت پوری ہونے میں چند روز رہ گئے ہیں، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان دس برسوں میں پاکستان کی خارجہ پالیسی ابہام اور تضادات کسی حد تک اندورنی طورپر اختلافات کا شکار رہی ہے اور یہ اس وقت ہوا جب دہشت گردی کے خلاف جنگ عالمی اور علاقائی سطحوں پر بہت سی پیچیدیوں سے گزر رہی ہے اور اس میں امریکا اپنے مفادات کے لیے بھارت کے قریب ہے اور ہمارے چین سے تعلقات سی پیک گوادر پورٹ اور علاقائی امن و استحکام کے لحاظ سے ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم ہوگئے ہیں ،2007 سے 2017-18 ء امریکا میں20 جنوری2009 ء سے20 جنوری2017 ء باراک اوبامہ صدر رہے اور ان کے بعد 20 جنوری2017 ء سے اب تک ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر ہیں۔

ان گیا رہ برسوں میں پاکستان میںاینی ڈبیلو پیٹریسن،کمیرون مونیٹر، رچرڈاولسن سفیر رہے اور اب ڈیوڈ ہال امریکی سفیر ہیں جبکہ 2005-2009 کونڈا لیزا رائس،2009-2013 ہیلری کلنٹن 2013-17 جان کیری امریکی وزرا خارجہ رہے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکم فروری 2017 کو ریکس ٹیلرسن کو وزیر خارجہ رکھا اوراب 31 مارچ کے بعد ٹرمپ ان کی جگہ مائیک پومپو کو نیا وزیر خارجہ بنا نا چاہتے ہیں، جبکہ 2007-17 ء کے عرصے میں شاہ محمود قریشی،2008-11 وزیر خارجہ رہے ان کے بعد حنا ربانی کھر 11 فروری 2011 سے16 مارچ2013 وزیر خارجہ رہیں اور اس دوان 2008-2011 حسین حقانی امریکا میں 22 نومبر تک سفیر رہے۔ ان کے دور میں پالیسی میں دراڑیں پڑیں اور اب مسائل سامنے آرہے کہ ان پر ملکی مفادات کے خلاف کام کا الزام رہا لیکن اس دوران جب آصف علی زرداری صدر اور یوسف رضا گیلانی اور ان کے بعد راجہ پرویز اشرف وزرا اعظم رہے تو ہمارے وزراء خارجہ شاہ محمود قریشی اور حنا ربانی کھر نے معاملات کو بہتر کرنے کی کامیاب کوشش کی۔

5 جون 2013 کو نواز شریف تیسری مرتبہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم بنے تو انہوں نے وزیر اعظم فیر وز نون ،صدر یحییٰ خان اور وزیر اعظم بھٹو کی طرح وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا مگر انہوں نے بہت سے امور خارجہ کو بھی اپنی کا بینہ، پارلیمنٹ اوراسٹیبلشمنٹ سے خفیہ رکھنے کی کوشش کی اور دفتر خارجہ کے اعتبار سے بھی اکثر امور خاص افراد تک محدود رکھے،28 جولائی 2017 کو وہ سپریم کوٹ کی جانب سے نااہل قرار پائے تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ہوئے اور وزیر خارجہ خواجہ آصف ہوئے۔ اس دورا ن دسمبر 2013 ء سے فروری 2017 ء جلیل عباس جیلا نی امریکا میں پاکستان کے سفیر رہے ان کے بعد عزیز احمد چوہدری سفیر ہوئے جو اب مارچ کے اختتام پر فارغ ہوں گے تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے 8مارچ 2018 کو اپنے نوجوان مشیر علی جہانگیر صدیقی کو امریکا میں پاکستان کا سفیر نامزد کر کے سیاسی حلقوں میں بھونچال کھڑ ا کردیا ہے، وہ ملک کے مشہور بزنس مین جہا نگیر صدیقی کے بیٹے ہیں، نیویارک کی کرونل یونیورسٹی سے گریجویشن کی ہے، 17 مارچ کی اطلاع کے مطابق ان کی نامزدگی کے بعد نیب نے ان پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات کے تحت تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

ابھی یہ صاف نہیں ہو سکا کہ علی جہا نگیر صدیقی امریکا کے سفیر کے عہدے پر فائز ہوتے ہیں یا نہیں ؟ لیکن امریکا جیسے اہم ملک میں آج کے دور میں جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیا ں بھارت کے حق میں ہیں اور ان کے رویے اور انداز ہمارے خلاف ہیں،آج کی دنیا میں سفارتی محاذ پر حاصل کی گئی کامیابیاں اکثر میدان جنگ کی کامیایبوں سے زیادہ اہم ہوتی ہیں، ایسی ہی صورت سفارتی محاذ پر ناکامی کی ہوتی ہے، اور جس طرح ایک اچھی تربیت یافتہ فوج بہتر حکمت عملی سے کم قوت کے باوجود زیادہ بڑی فوج پر غالب آجاتی ہے، اسی طرح ذہین اور اچھے تربیت یافتہ سفارتکار اکثر ناقابل یقین کامیابیاں حاصل کر لیتے ہیں۔

سفارتی محاذوں پر ماضی میں ہماری کامیابیاں بھی مثالی ہیں اور ناکامیاں بھی ناقابل فراموش ہیں، لیکن یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ امریکا نے پاکستان میں ہمیشہ اپنے نہایت اہم تجربہ کار اور باقاعدہ فارن سروس کے سفیروں کو بھیجا۔ گزشتہ 70 برسوں میں پاکستا ن میںکل 31 امریکی سفیر تعنیا ت رہے جن میںسے24 فارن آفس کے ریگولر آفیسر تھے اور باقی سات عارضی طور پر یا عبوری مدت کے لیے تعینا ت ہوئے،کاش ہم بھی ایسا کرتے یا کرسکتے۔ ہمارا فارن آفس اور فارن سروس معیار کے لحاظ سے دنیا میں ٹاپ ٹن میں شامل ہے۔ سی ایس ایس ’’ مقابلے کے امتحان،، کے امیدواروں کی پہلی ترجیح ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ اور فارن گروپ ہی ہوتی ہے، لاکھوں پڑھے لکھے نوجوانوں میں سے ہر سال گنتی کے چند چوبیس پچیس سالہ ذہین ترین نوجوان کڑے تحریری اور زبانی امتحان کے بعد منتخب ہوتے ہیں اور بیشتر کا خصوصی مضمون انٹرنیشنل ریلیشن ہوتا ہے، پھر سی ایس ایس کے بعد نو ماہ کی ٹریننگ ہوتی ہے اور اس کے بعد پانچ سال گریڈ 17 میں گزارنے کے بعد پھر کورسز ہوتے ہیں۔

18 گریڈ میں ترقی اس دوران بیرون ملک اور فارن آفس پیشہ ورانہ تربیت اور تجربہ رہتا ہے، 19 گریڈ میں اہم تربیت کے مراحل ہوتے ہیں اس میں فوجی اور دفاعی نقط نظر سے ماضی کے تجربات کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ حالات ِ حاضرہ کے تحت بروقت اور درست اقدامات کرنے ہوتے ہیں، ان کو ادراک ہوتا ہے کہ یہ فیصلے مستقبل میں بھی اہم ہیں اورگریڈ 20 تک جو چند افسران پہنچتے ہیں ان کے سامنے پوری دنیا کی سیاست، اقتصادیات اور دفاعی امور ہوتے ہیں اور وہ ماہرترین سفارت کار بن چکے ہوتے ہیں۔ ہمیں اب یہ طے کرلینا چاہیے کہ امریکا ، برطانیہ ، فرانس، چین ، روس، بھارت،کینیڈا ، فارن آفس کے یہی ریگو لر سینئر سفارت کار بطو ر سفیر تعینات کئے جائیں اور ہمار ے جو سینئر ریٹا ئرڈ سفارت کار جو مو جود ہیں ان کے علم اورتجر بے سے بھی استفادہ کرتے رہیں۔ واضح رہے کہ امریکا کے سابق نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور وزیرخارجہ ہنر ی کسنجر جنہوں نے ماضی قریب میں امریکا کے لیے سفارتی محاذوں پر مثالی کامیابیاں حاصل کیں آج بھی 93 سال کی عمر میں امریکی تھنک ٹینک کے اہم رکن ہیں۔

The post پاک امریکا تعلقات میں اُتار چڑھاؤ کی تاریخ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2HyDQDy
via IFTTT

سوچا کچھ، ہوا کچھ اور۔۔۔FOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ واقعات اس طرح وقوع پذیر نہیں ہوتے جیسا آپ سوچ رہے ہوتے ہیں لیکن اگر ہم غور کریں تو اس میں بھی قدرت کی طرف سے کوئی نہ کوئی بہتری پوشیدہ ہوتی ہے۔

ہمارے آج کے اس مضمون کی فہرست میں مائکروویواون سے لے کر آئس کریم کون تک ایسی ہی چیزیں شامل ہیں جو حادثاتی طور پر دریافت یا ایجاد ہوئیں اور اب ہماری روز مرہ زندگی میں اہم سہولیات کے طور پر اپنی جگہ بنا چکی ہیں۔

-1 ماچس (Matches)

1800ء کی دھائی میں برطانیوی فارماسیسٹ ’’جان واکر‘‘ (John walker) ادویات بنانے میں استعمال ہونے والے مختلف کیمیکلز کو لکڑی کے تنکوں کے ذریعے مکس کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے دیکھا کہ ایک تنکے کے سرے پر کوئی مادہ چپکا ہوا ہے۔ جب انہوں نے اس مادہ کو رگڑ کر صاف کرنے کی کوشش کی تو وہ مادہ آگ پکڑ گیا۔ یہاں سے ’’جان‘‘ کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ زندگی کو آسان بنانے کے لئے ماچس بنائی جائے۔ انہوںنے پھر ایسا ہی کیا اور بڑے پیمانے پر ماچسیں بنانی شروع کر دیں اور یوں باقاعدہ ایک کمپنی بنا کر تجارتی بنیادوں پر ماچسوں کی تیاری اور فروخت ہونے لگی۔ مگر انہوں نے کاروبار میں اپنی اجارہ داری قائم نہ کرنے کے لئے اپنی اس ایجاد کو رجسٹر نہ کروایا کیونکہ ان کے خیال میں اس طرح ان کی یہ ایجاد انسانیت کے زیادہ کام آ سکتی تھی کہ اور لوگ بھی ماچسیں بنائیں اور عام لوگوں کو فائدہ ہو۔ ماچس جلد ہی ساری دنیا میں مقبول ہو گئی اور آج بھی ایک انتہائی مفید اور کارآمد چیز ہے۔

2- ’’آلو کے چپس‘‘(Potato Chips)

امریکہ کے شہر نیویارک میں رہنے والے ’’جارج کرم‘‘ (George Crum) ایک بہت مشہور شیف تھے۔ لیکن ستم ظریفی یہ تھی کہ ان کے اکثر گاہک یہ شکایت کرتے تھے کہ ان کے تلے ہوئے آلو کے قتلے بہت زیادہ ہی خستہ ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے غصہ میں آ کر جارج نے بالآخر یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے گاہکوں کی اس شکایت کو دور کرنے کے لئے آلو کے قتلے انتہائی باریک کاٹے گا اور انہیں تیل میں خوب بھون کر اور ان پر نمک چھڑک کر اپنے گاہکوں کو پیش کرے گا۔ اپنی طرف سے جارج نے یہ کام گاہکوں کو پریشان کرنے کے لئے کیا تھا مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ لوگ اس کی اس نئی ترکیب سے بنے آلوؤں کے قتلوں کے دیوانے ہو گئے۔ 1853ء سے لے کر آج تک آلوؤں کے چپس بنانے کی کئی ترکیبیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور اب یہ دو سو سے زائد مختلف ذائقوں میں دستیاب ہیں۔

3’۔ ’’آئس کریم کون‘‘(Ice cream cones)

آئس کریم بذات خود کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ 200 سال قبل از مسیح میں بھی چین کے لوگ اس سے ملتی جلتی ایک چیز کھایا کرتے تھے، لیکن آئس کریم کون بہرحال 1904ء میں ایجاد ہوئی۔ اس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ ’’سینٹ لیوئس‘‘ (St Louis) کے میلے میں آئس کریم کے اسٹالز پر اتنا رش ہوتا تھاکہ سنبھالے نہیں سنبھلتا تھا۔ ارنس ہیمرک نامی ایک دکاندار جو ایرانی بسکٹ بیچا کرتا تھا، نے خیر سگالی کے جذبے کے تحت اپنے بسکٹوں کو گول کون نما شکل میں بنا کر اپنے ساتھی دکانداروں کو دینا شروع کر دیئے تاکہ وہ ان میں آئس کریم ڈال کر گاہکوں کو پیش کریں اور آئس کریم کے کپ اور چمچوں کے جھنجھٹ سے آزاد ہو کرتیزی سے اپنا کام نمٹا سکیں۔ گاہک اس نئی چیز کو پسند کرنے لگے اور اس طرح آئس کریم کون وجود میں آ گئی۔

4۔ ’’سیفٹی گلاس‘‘ (Safety Glass)

فرانس کے ایک کیمیا دان ’’ایڈوریڈ بینیڈپکٹس ‘‘ (Edouard Benedictuc) ایک دن اپنی تجربہ گاہ میں کسی تجربے میں مصروف تھے کہ اچانک ان کے ہاتھ سے شیشے کا ایک ’’بیکر‘‘ (beaker) پھسل کر نیچے فرش پر جا گرا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ شیشہ کرچی کرچی نہیں ہوا بلکہ محض تڑخ کر رہ گیا۔ انہوںنے جب جانچ بڑتال کی کہ ایسا کیوں ہوا ؟ تو انہیں یہ معلوم ہوا کہ شیشے کے اس بیکر میں پتلے پلاسٹک کا محلول موجود تھا جو کسی پچھلے تجربے کے بعد اسی میں بچ گیا تھا اور یوں ٹوٹ کر کرچیوں میں نہ تبدیل ہونے والا شیشہ ایجاد ہوا، جو آج کل کئی چیزوں میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ کاروں کی ونڈ سکرین وغیرہ تاکہ ایکسیڈنٹ کی صورت میں سکرین اگر ٹوٹے بھی تو اس کی کرچیاں کار کے اندر بیٹھے ہوئے لوگوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔

5۔ ’’ربڑ‘‘(Vulcanizad Rubber)

انیسویں صدی میں ربڑ کی کوالٹی اتنی اچھی نہیں تھی۔وہ نرم ہوتا تھا اور اس میں پائیداری بھی نہیں پائی جاتی تھی۔ ایک نوجوان سائنسدان ’’چارلس گڈیئر‘‘ (Charles Goodyear)  کافی عرصے سے اس کوشش میں لگا ہوا تھا کہ کسی طرح ربڑ کی کوالٹی کو بہتر بنایا جائے۔ وہ خام ربڑ میں نمک‘ مرچیں‘ چینی‘ ریت اور ارنڈی کا تیل‘ یہاں تک کہ سوپ تک ملا ملا کر تجربات کرتا رہا۔ یوںدکھائی دیتا تھا کہ جیسے وہ کوئی کھانے پینے کی چیز بنا رہا ہو، حالانکہ وہ بے چارہ تو محض ان سب چیزوں کے صحیح تناسب کے ملاپ سے ربڑ کو ایک مکمل شکل دینے کی سعی میں معروف تھا۔ تھک ہار کر ایک دن اس نے ایک مختلف تجربہ کرنے کا سوچا اورخام ربڑ میں میگنیشا‘ چونا اور گندھک کا تیزاب ملایا، لیکن ایک مرتبہ پھر اس کا تجربہ ناکام ثابت ہوا۔ ایک دن اسی طرح کے تجربات کے دوران اس نے خام ربڑ میں ’’سلفر‘‘ مکس کیا اچانک وہ مرکب ’چارلس‘ کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور ایک گرم سطح پر گرا۔ یہ حادثہ کامیابی کی نوید بن گیا اور چارلس ’’ولکنائزڈ ربڑ‘‘ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ جس سے اب باسکٹ بال سے لے کر گاڑیوں کے ٹائرز تک بے شمار چیزیں بنائی جاتی ہیں۔

6- ’’پلاسکٹ‘‘ (Plastic)

پلاسٹک کی ایجاد سے پہلے سریش نما ایک مادہ جو الکوحل اور سرکے کے ملاپ سے بنتا تھا‘ استعمال کیا جاتا تھا۔ بیسویں صدی کے شروع تک مختلف مقاصد جیسے لکڑی کو فارمیکا کرنے‘ ریکارڈ پلیئرز کے ریکارڈ بنانے اور دانتوں کی فلنگ تک کے لئے استعمال ہونے والے اس مادے کو ’’شیلاک‘‘ (Shellac) کہتے تھے۔ مگر یہ بہت مہنگا پڑتا تھا۔ اسی وجہ سے ایک کیمیا دان ’’لیو ہینڈرک بیکیلینڈ‘‘ (Leo hendrik Baekeland) کو ’’شیلاک‘‘ کا کوئی سستا متبادل تلاش کرنے کی جستجو ہوئی۔ اپنے تجربات کے دوران وہ ’’شیلاک‘‘ سے بھی زیادہ فائدہ مند چیز بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ نیا مکسچر ایک ایسا قابل ذکر مادہ تھا جو انتہا ہی درجے کی حرارت کو بھی برداشت کر سکتا تھا۔ یہی مادہ اب پلاسٹک کے نام سے جانا جاتا ہے۔

7- ’’اینٹی ڈپریسنٹ ادویات‘‘(Antidepressants)

آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دوسرا شخص ڈپریشن کے مرض کا شکار نظر آتا ہے۔ جدید دور کی معروف زندگی‘ غیر متوازن کھانوں اور سہولیات کے حصول کی بھاگ دوڑ اس کے بنیادی اسباب ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ ماضی میں لوگوں کو ڈپریشن نہیں ہوتا تھا۔ ہر دور کے اپنے تقاضے اور مسائل ہوتے ہیں۔ آج شاید یہ مرض زیادہ شدت اختیار کر گیا ہو، مگر یہ موجود ہر زمانے میں رہا ہے۔ انٹی ڈپریسنت ادویات پہلے پہل 1957ء میں سامنے آئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ادویات اصل میں ’’ٹی بی‘‘ کے مرض کے سدباب اور علاج کے لئے بنائیں گئیں تھیں جو اس وقت ایک موذی اور ناقابل علاج مرض سمجھا جاتا تھا۔ اس کو بنانے والے فارماسیسٹس نے یہ بات نوٹ کی کہ ان ادویات نے ’’ٹی بی‘‘کے علاج میں تو خاطر خواہ فائدہ نہیں دکھایا لیکن ان ادویات کو استعمال کرنے والے مریضوں کے مزاج پر ان کے بہت خوشگوار اثرات مرتب ہوئے۔ جب سے اب تک یہ ادویات ڈپریشن کو رفع کرنے کے لئے استعمال کروائی جاتی ہیں۔

8- ’’پیس میکر‘‘ (Pace Maker)

دل کے امراض میں سے ایک مرض دل کی دھڑکن بے ترتیب ہونا بھی ہے۔ یہ مرض بڑھاپے یا کسی بھی وجہ سے دل کے کمزور ہو جانے کے باعث لاحق ہو جاتا ہے۔ ایک امریکی انجینئر ’’ولسن گریٹ بیچ‘‘ (Wilson Great Batch) انسانی دل کی دھڑکنوں کو ریکارڈ کرنے کے لئے ایک آلہ بنانے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ وہ بھول سے ایک غلط برقی عنصر اس آلے میں لگا بیٹھا۔ جب اس آلے کو دل کی دھڑکن نوٹ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس نے دل کی بے ترتیب دھڑکن کو دوبارہ صحیح ردہم میں ترتیب دے دیا ہے۔ 1960ء میں یہ ’’پیس میکر‘‘ پہلے انسان کے جسم میں لگا دیا گیا اور یہ جب ہی سے انسانی زندگیاں بچانے کے کام آ رہا ہے۔

9- ’’اینٹی بائیوٹک‘‘ (Antibiotice)

اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے سائنسدان ’’الیگزینڈ فلیمنگ ‘‘(Alexander fleming) کی لیبارٹری کے فرش پر ہر طرف کاغذ اور ’’بیکرز‘‘ بکھرے ہوئے تھے۔ پلیٹوں میں مختلف اقسام کے بیکٹریاز کو معائنے کے لئے رکھا ہوا تھا۔ ایک دن سائنسدان نے دیکھا کہ اس پلیٹ میں پھپھوندی لگی ہوئی ہے جس میں پیپ کا موجب بننے والے جرثومے رکھے ہوئے تھے اور پھپھوندی نے ان جرثوموں کو ختم کر دیا تھا۔ ’’فلیمنگ‘‘ نے اس پھپھوندی پر مزید تحقیق کی اور اس کے نتیجے میں اینٹی بائیوٹک وجود میں آئیں۔ اس دریافت پر ’’فلیمنگ‘‘ کو 1945ء میں نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔

10۔ ’’ایکس رے‘‘ (X rays)

1895ء میں ’’ولہالم روینجین‘‘ (Wilhelm Roentgen)نے حادثاتی طور پر ہی ایکس ریز دریافت کیں۔ ایک بار اس نے لاشعوری طور پر ا لیکٹرونک بیم (برقیاتی شعاع) کے سامنے اپنا ہاتھ رکھا تو اسے فوٹو گرافک پلیٹ ہر اپنے ہاتھ کا عکس نظر آیا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ وہ عکس ہاتھ کے اندرونی حصے کا تھا۔ اس نے نوٹ کیا کہ تابکاری شعاع، ٹھوس اشیاء اور اجسام میں سے گزرتے ہوئے ایک سائے جیسا عکس بناتی ہے۔ آج ہم جسم کے اندر ہونے والی کسی بھی تبدیلی کو دیکھنے کے لئے ایکس ریز کا استعمال کرتے ہیں۔

11- ’’مائیکرو ویو اون‘‘(Micro wave Oven)

اگلی مرتبہ جب بھی آپ اپنا کھانا سیکنڈوں میں گرم کریں تو ’’پرسی سپنیر‘‘ (Percy Spencer) کو ضرور یاد کرنا نہ بھولئے گا جو ایک امریکی موجد تھا۔ اس اون کی ایجاد سے پہلے مائکرو ویوز صرف ریڈارز میں استعمال ہوتی تھیں۔ ایک دن ’’سپینر‘‘ جو بحریہ کا ایک ریڈار سپیشلسٹ تھا‘ نے محسوس کیا کہ جب وہ مائکروویو پیدا کرنے والے آلے کے سامنے کھڑا تھا تو اس کی جیب میں موجود چاکلیٹ بار پگھل کر ایک چپچپی سی شکل اختیار کر گیا تھا اور اس طرح یہ حادثہ 1945ء میں مائیکرو ویو اون کی ایجاد کا باعث بنا۔

The post سوچا کچھ، ہوا کچھ اور۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2r7ad1i
via IFTTT

بُک شیلفFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

کتنے آدمی تھے؟
مصنف: ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی
صفحات: 376، قیمت: 500 روپے
ناشر: قریشی انٹرپرائزز، کراچی

لفظوں اور جملوں کی دل چسپ ترتیب و تحریف سے معنی خیز شگفتگی دکھانے والے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی یہ ’سلور جوبلی‘ تصنیف ہے۔ اس کتاب میں اُن کی روایتی تخلیقیت کی مثال کے لیے یہ عنوانات ملاحظہ کیجیے ’بیوی ’ڈانٹ‘ کام، باس زندہ ذلت باقی، جس گدھے میں جان ہوگی وہ گدھا رہ جائے گا، جنون سے اور ’رسک‘ سے ملتی ہے آزادی اور یہ شادی یہ تیرے پراسرار بندے وغیرہ۔ کتاب کے مندرجات میں حسب روایت زبان و بیان پر ان کی مضبوط گرفت اور محاوروں اور روزمرہ کا برجستہ استعمال اپنی شان دکھا رہا ہے۔

مصنف کے یہ اوصاف ان کے مزاح نگاری کو چار چاند لگاتے ہیں اور بدقسمتی سے ہمیں آج کے لکھنے والوں میں زبان پر ایسا عبور ذرا کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ وہ ایسے ’تعمیری مزاح‘ کے قائل ہیں، جو آپ کو مسکرانے کے ساتھ ساتھ سوچنے پر بھی مجبور کرے، اُن کا یہ رنگ یہاں بھی واضح ہے۔ اُن کی تحریر میں برسبیل تذکرہ در آنے والے مشاہدات و تجربات، مثالیں اور محاورے قاری کو آخر تک اپنی گرفت میں لیے رکھتے ہیں، یہی نہیں، ساتھ ہی وہ اپنی وسیع مطالعے کے بگھار سے دو چند بھی کرتے جاتے ہیں۔

یہ کتاب پانچ حصوں میں تقسیم ہے، حصہ اول بہ عنوان ’سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘ 33 مضامین پر استوار ہے، حصہ دوم میں اسپین کا مختصر سفرنامہ شامل ہے، حصہ سوم میں ’یہ خاکے اپنی فطرت میں ہلکے ہیں نہ بھاری ہیں‘ چھے عدد خاکے رقم کیے گئے ہیں، حصہ چہارم میں مختلف تقاریب میں پڑھے گئے نو مضامین سجے ہیں، جب کہ حصہ پنجم ’اردو ہے جس کا نام۔۔۔‘ میں دو مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ ’فلیپ‘ پر کتاب کے مندرجات کے دل چسپ اقتباسات درج ہیں، جب کہ پچھلے سرورق پر مصنف کے تعارف کو جگہ دی گئی ہے، جو مختصر ہونے کے باوجود پوری جگہ میں پھیل گیا ہے۔

اردو بستی لندن سے
مصنف: یشپ تمنّا
صفحات: 160، قیمت: 350 روپے
ناشر: اردو ورثہ، ناظم آباد، کراچی

لندن میں کسی زمانے میں اردو کے نام وَر مشاہیر ادیب پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے، اور بہت سے دیگر اہل علم کی آمدورفت بھی جاری رہتی تھی، تب اُسے اردو کے تیسرے بڑے مرکز کے طور پر یاد کیا جاتا تھا۔ آج بھی برطانیہ میں جنوبی ایشیائی باشندوں کی تعداد 22 لاکھ سے زیادہ ہے، جن میں نصف سے زیادہ نے آنکھ وہیں کھولی۔ اس کتاب میں لندن میں رقم ہونے والے اردو ادب پر اظہار خیال کیا گیا ہے، یہ تمام مضامین گذشتہ بیس، پچیس برس کے دوران تحریر کیے گئے، بقول ناشر سیدہ تحسین فاطمہ ’’یشپ تمنا‘‘ کا لہجہ ذرا تیکھا سا ہے۔

ان کی نثر ان کے شعر کی طرح اکثر سچ بولتی ہوئی نظر آتی ہے۔‘‘ ظفراقبال کے ذیل میں وہ لکھتے ہیں کہ اگر ان کی کتاب ’’لاتنقید‘‘ سے دُہرائی گئی باتیں حذف کردیں، تو کتاب کی ضخامت ایک چوتھائی کم ہو سکتی ہے۔ اس کتاب میں اردو سے وابستہ مختلف شخصیات کے ساتھ کچھ کتب پر بھی اظہارخیال کیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں انہوں نے انگریزی کو ذریعہ اظہار بنانے والوں کے تذکرے میں وہاں کارفرما ادبی ایجنٹ کا انکشاف کیا ہے کہ جو آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ آپ اپنی کتاب میں کیسا مواد شامل کریں، جو آپ کی کتاب کی اشاعت اور فروخت میں معاون ہو۔

کتاب: تنہائی
مصنف: یشپ تمنّا
صفحات: 176، قیمت: 350 روپے
ناشر: اردو ورثہ، ناظم آباد، کراچی

یہ اس کتاب کی دوسری اشاعت ہے، 2011ء میں یہ شعری مجموعہ پہلی بار شایع ہوا، جس میں سے کلام ’اکادمی ادبیات پاکستان‘ کے سالانہ انتخاب میں بھی شامل ہوا۔ اس کتاب کی بہت سی شاعری کو وہ اپنی شریک حیات کی رفاقت کے مرہون منت کہتے ہیں۔ ایک طرف ان کی غزل میں ہجر و وصل کے عنوانات ہیں، تو وہیں ان کے اندر کی بے تابیاں نظموں کی صورت استوار نظر آتی ہیں، جن میں محبت کے ساتھ سماجی المیے بھی نوحہ گر ہیں۔ کتاب کے مندرجات میں ہجرت، فاصلے، وصل، جدائی، سفر و مسافت کے ساتھ کہیں کہیں دوسرے رنگ بھی دکھائی دیتے ہیں جیسے؎

میں معرفت کے ہوں اب اس مقام پر کہ جہاں

کیا گناہ بھی تو خدشۂ ثواب رہا

اسی طرح جدائی کے موضوع پر ان کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے؎

بچھڑ کر اس سے ایسے مطمئن ہوں

کہ جیسے بوجھ اترا کوئی سر سے

کہیں ہمیں ان کے مزاج میں پہناں درد کی خبر ملتی ہے؎

ہجر کے لطف بھی انوکھے ہیں

وصل میں بھی عجب ملال سا ہے

ان کی نظموں میں کہیں غم کے ’اسٹیٹس کو‘ سے رہائی کی بات ہے، تو کہیں سماج کے ناگفتنی مسائل پر سخن آرائی ہے۔ آخر میں شامل نثری نظموں کے بعض استعارے بہت خوب ہیں، جس میں نظم ’پوٹلی‘ کا آخری حصہ قابل ذکر ہے۔

مقالات کلیم
مصنف: کلیم احسان بٹ
صفحات: 271، قیمت: 500 روپے
ناشر: کتاب ورثہ، لاہور

اس کتاب میں شامل مقالات میں میر تقی میر، الطاف حسین حالی، علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان وغیرہ کی ادبی خدمات کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب میں شامل 13 مقالوں میں سے چار کا موضوع مرزا اسد اللہ خاں غالب ہیں، جن میں سے ایک مقالے میں غالب، میرؔ کے، جب کہ دوسرے میں مشتاق احمد یوسفی کے ساجھے دار دکھائی دیتے ہیں۔ قرۃ العین حیدر کے شہرۂ آفاق ناول ’آگ کا دریا‘ کے حوالے سے لکھے گئے مقالے میں اس ناول میں ہندی زبان کے استعمال کا جائزہ لیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ محقق نے شریف کنجاہی کی ’چپ جی‘ پر بھی تحقیقی نگاہ ڈالی ہے۔ کلیم احسان بٹ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج، راول پنڈی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، اس سے قبل اُن کی شاعری اور تحقیق وغیرہ پر چھے تصانیف منصۂ شہود پر آچکی ہیں۔ کتاب کے پیش لفظ میں وہ دوٹوک انداز میں لکھتے ہیں کہ ’’ان مضامین کے معیار پر مجھے کوئی اصرار نہیں، بس یہ وہ کوشش ہے جو میں کر سکا، ان میں مضامین میں ایک دو مضامین ہی ایسے ہیں جو فرمائشی ہیں۔

باقی مضامین میں نے اپنی افتاد کے مطابق لکھے ہیں۔‘‘ کسی بھی تحقیقی کتاب میں شامل حوالے اس کتاب کی تحقیق کو معیار کے ایک درجے پر فائز کرتے ہیں، اور اس کتاب میں بھی اس امر کو بطور خاص ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس کتاب کا مقدمہ جامعہ دلی میں اردو کے پروفیسر شیخ عقیل احمد نے لکھا ہے، وہ کہتے ہیں ’’کلیم احسان بٹ ایک باصلاحیت تخلیق کار، محقق اور ناقد ہیں، ان کے مطالعے کا کینوس کافی وسیع ہے، متذکرہ تصنیف میں ان کی جملہ صلاحیتوں کا عکس موجود ہے۔‘‘

کتاب القواعد
مؤلف و مصنف: مظہر حسین گوندل
صفحات: 297، قیمت: 250 روپے

ویسے تو یہ کتاب ششم تا ہفتم جماعت کے نصاب کے لیے ہے، لیکن باذوق قارئین بھی اگر اس کی ورق گردانی کریں، تو اسے بے حد مفید پائیں گے، کیوں کہ اس میں زبان کے تمام بنیادی قواعد اور اسے برتنے کے سلیقے اور قرینے مذکور کیے گئے ہیں۔ اسم اور فعل کی اقسام ، حرف، اعراب، واحد جمع، تذکیر و تانیث، متشابہ الفاظ، سابقے لاحقے، مترادفات، حصہ نحو، کلام، رموز اوقات، روزمرہ محاورے، ضرب المثل، تشبیہہ، استعارے، تلمیح اور ردیف جیسے بہت سے بنیادی عنوانات اس کتاب میں شامل ہیں۔

ساتھ ہی ہر سبق کے ساتھ چوکھٹے میں اس کا اہم نکتہ بھی درج ہے، تاکہ طالب علم کو ذہن نشین کرنے میں آسانی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک باب اصناف ادب پر بھی ہے، جس میں مختصراً ہر صنف سے متعلق بتایا گیا ہے، درحقیقت یہ وہ موضوع ہے کہ جس کے بارے میں بہت سے قارئینِ ادب کا بھی تصور واضح نہیں ہوتا اور وہ بہت سی اصناف کے درمیان امتیاز نہیں کرپاتے۔ اس کے بعد کتاب میں روزمرہ زندگی میں کام آنے والی ضروری تحاریر کے حوالے سے بھی لکھا گیا ہے۔ اس لیے اس جامع کتاب کو درس و تدریس اور اِبلاغیات سے جڑے افراد اور اردو لکھنے، پڑھنے سے شوق رکھنے والے عام قارئین کو ضرور پڑھنا چاہیے، تاکہ زبان دانی سے متعلق بنیادی ترین باتوں سے اچھی طرح آگاہ ہو سکیں۔

گنّا، کھیت سے کھپت تک
مصنف: ڈاکٹر محمد اعجاز رستم
صفحات: 317، قیمت: 1600 روپے
ناشر: ڈیزائن اسٹوڈیو، فیصل آباد

گنّے کا شمار ہمارے ملک میں کاشت کی جانے والی اہم ترین فصلوں میں ہوتا ہے، اس فصل کے حوالے سے عالمی سطح پر ہمارا مقام چوتھا یا پانچواں ہے۔ اس کتاب میں گنّے کی کاشت کے حوالے سے بنیادی معلومات سے لے کر اعداد و شمار تک کا جائزہ لیا گیا ہے۔ پاکستان جیسے زرعی ملک میں مختلف فصلوں سے متعلق ایسی کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے، جس میں جدید تحقیقات کی روشنی میں متعلقہ افراد کو ضروری معلومات فراہم کی جائیں، تاکہ ان سے استفادہ کرتے ہوئے ہماری معیشت مستحکم رہے، یوں تو مصنف کا تعلق فیصل آباد سے ہے، لیکن اس کتاب کے ذریعے وہ ہر قاری کی دسترس میں ہیں اور اپنی ماہرانہ رائے پہنچا رہے ہیں۔ کتاب کا اسلوب سوالاً جواباً ہے، مصنف اِسے معلومات کے متلاشی عام قارئین، طالب علموں، اساتذہ، سائنس دان، کسان، کاشت کار، شوگر مل مالکان اور پالیسی سازوں تک کے لیے مفید قرار دیتے ہیں۔ دیدہ زیب رنگین طباعت سے آراستہ یہ مجلد کتاب چکنے کاغذ پر شایع کی گئی ہے۔

پنکی اور کٹو
مصنف: سمیرا انور
صفحات: 103، قیمت: 200 روپے
ناشر: گلستان کتاب گھر، خانیوال

بچوں کو زبان وبیان سے آگاہ کرنے اور ان کی تربیت میں قصے کہانیوں کو بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے، بدقسمتی سے آج کل بچوں کی تفریح کا یہ بہترین شعبہ عدم توجہی کا شکار ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ جدید ذرایع اِبلاغ میں جدید ترین ذرایع میں شاید پرانی وضع کی کہانیوں اور کرداروں میں اُس طرح کی کشش بھی محسوس نہیں ہوتی، لیکن اس کتاب کی لکھاری چوں کہ خود شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں، اس لیے نئی نسل کو زیادہ قریب سے جانتی ہیں، تب ہی انہوں نے چھوٹی چھوٹی کہانیوں میں جانوروں کو کردار بناتے ہوئے بچوں کے ادبی ذوق کی آب یاری کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کہانیاں جانوروں پر ہونے کے باوجود براہ راست کوئی نہ کوئی سبق اور نصیحت لیے ہوئے ہیں۔ یہ کہانیاں ’کرنیں‘ (ایکسپریس) اور دیگر اخبارات میں شایع ہوچکی ہیں۔ کتاب کے ابتدائی صفحات میں مرزا ظفر بیگ لکھتے ہیں ’’انہوں نے خاص طور پر جنگل کو اپنی سوچ اور تربیت کا بیڑہ کچھ اس طرح اٹھایا کہ خاص طور سے جنگل کو اپنی سوچ اور تربیت کا مرکز بنایا۔ اس میں جانوروں کے کردار کے ذریعے بچوں کی جس خوب صورت انداز سے راہ نمائی کی گئی ہے، اسے بڑے ادیبوں نے بھی سراہا ہے۔‘‘

خاموش دریچے
مصنف: مسلم انصاری
صفحات: 160، قیمت: 300 روپے
ناشر: علم و عرفان پبلشرز، لاہور

یہ کتاب دراصل ایک درد مند دل کے مکالموں پر استوار ہے، کتاب کا نصف حصہ نثر اور نصف شاعری پر محیط ہے۔ صاحب کتاب کی عمر فقط 21 برس ہے، مگر حوادث زندگی نے اس کے تجربات میں نوجوان میں ہی اتنی اداسی، رنج، درد، بے چینیاں ، بے تابیاں، اکتاہٹ، سوالات اور خدشات بھر دیے ہیں کہ وہ اُن کے بے لاگ اظہار سے باز نہ رہ سکا۔ یہ اُسی صورت میں ہوتا ہے جب شعور سنبھالتا ہوا ذہن غیرمعمولی حساسیت لیے ہوئے ہو، جس کے نتیجے میں اپنے گرد وپیش سے آگاہی کسی کاری وار کی صورت کلیجے پر محسوس ہو اور پھر ان وارداتوں سے ابھرنے والی آہیں اس کے وجود سے لبریز ہو کر چھلک پڑیں۔۔۔ ان ’آہوں‘ کو پڑھیے تو خالی کمرے میں بیٹھے کسی تنہا شخص کی خودکلامی کا احساس ہوتا ہے، جو اپنی کیفیت سے مجبور ہو کر بے خودی کے عالم میں بس کہے چلے جاتا ہے۔۔۔ کبھی یہ تصور اور کبھی یقین ہوتا ہے کہ یہ الفاظ اپنے محرک تک پہنچ رہے ہیں اور کبھی تو وہ بھی نہیں ہوتا، مگر وہ اپنے کلام کا اکیلا سامع بنا اس کیفیت میں محو رہتا ہے۔۔۔

’’ارتقاء‘‘
کہانی ایک سرکاری ملازم کی
منصف : سید ارتقا احمد زیدی
صفحات : 468 ، قیمت : 1000 روپے


سید ارتقا احمد زیدی صوبہ بلوچستان کے پہلے آفیسر ہیں جنھوں نے حکوم مغربی پاکستان ، بلوچستان اور وفاقی حکومت میں چالیس سال سے زیادہ عرصے تک خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ مختلف بین الاقوامی فورمز سے بھی جُڑے رہے۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنی سرکاری ذمے داریوں کے متعلق بھی اہم واقعات بیان کیے ہیں۔ ابتدا میں سوانح حیات کا پس منظر بیان کیا گیا ہے، پھر مصنف نے اپنے بچپن کا ذکر کیا ہے، والد کا تعارف، جائے پیدائش، ہندوستان سے پاکستان ہجرت کا واقعہ اور پھر پاکستان آکر پنجاب میں قیام اور پھر ابتدائی تعلیم کا ذکر کیا گیا ہے۔ مصنف کا اندازِ تحریر اس قدر دلچسپ اور سہل انداز میں تفصیلاً تمام واقعات کو بیان کیا گیا ہے کہ قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا کتاب نہیں پڑ رہے بلکہ نگاہوں کے سامنے وہ تمام مناظر گھوم رہے ہیں ۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2HzA2lt
via IFTTT

ہم ادیب شاعر لوگFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

یہ احساس بڑھ رہا ہے اور عام ہوتا جارہا ہے کہ ہم ادیب شاعر لوگ اب معاشرے کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ہمارا معاشرہ اب ہم سے لاتعلق ہوچکا ہے اور اسے ہماری کوئی ضرورت نہیں ہے۔

ہمارے لکھے ہوئے لفظ اور کہی ہوئی بات کی ایک زمانے میں یہ توقیر تھی کہ لوگ اُس کے اثر میں رہتے تھے۔ اُس سے روشنی اور راہ نمائی حاصل کرتے تھے۔ جو سانچا ہم بناتے تھے، معاشرے کے افراد خود کو اُس میں ڈھالنے کی کوشش کرتے تھے۔ کسی چیز کو ہم معیار ٹھہراتے تو وہ لوگوں کے لیے معیارِ زندگی بن جاتی تھی۔ عام آدمی ہی نہیں، اہلِ ثروت، اہلِ دنیا، اہلِ سیاست سبھی ہماری طرف دیکھتے اور ہم سے توانائی اور بصیرت حاصل کرتے تھے۔ اب لیکن، صورتِ حال بدل چکی ہے۔ لکھا ہوا لفظ، کتاب، ادب اور ادیب آج یہ بساط اُلٹ چکی اور اب یہ سب ہاری ہوئی بازی ہے۔

یہ احساس اس دور میں صرف اُن ادیبوں اور شاعروں میں ہی نہیں پایا جاتا جو ادب میں بڑا نام نہیں بناسکے، بلکہ اب تو ایسے لوگ بھی اس کا شکار ہیں جنھوں نے ادب کے حوالے سے دنیا میں بڑی شہرت پائی اور وہ سب کچھ حاصل کیا جو ہر لحاظ سے دنیاوی زندگی کی کامیابی کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ اس سطح کے لوگ بھی اگر ان خیالات کا اظہار کررہے ہیں تو پھر ضروری ہوجاتا ہے کہ اس مسئلے پر غور کیا جائے، اس کی نوعیت کو سمجھا جائے اور دیکھا جائے کہ واقعہ کیا ہے اور اس کے تدارک یا اصلاح کے کیا امکانات ہیں؟

ایسے کسی بھی معاملے میں کوئی قدم اٹھانے سے پہلے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ دیکھا جائے، مسئلے کی نوعیت اور گہرائی کیا ہے، تاکہ اُس کے حل کے لیے بہتر انداز سے کوشش کی جاسکے۔ اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ عہد میں ادبی و علمی، بلکہ ساری ذہنی و فکری سرگرمیوں میں عوامی دل چسپی کم ہوئی ہے۔ تاہم یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ عوامی مزاج میں یہ تبدیلی صرف ہمارے یہاں نہیں آئی ہے، بلکہ یہ ایک گلوبل فینومنا ہے۔ اس کا مشاہدہ عالمی سطح پر دنیا کے مختلف ملکوں میں بہ آسانی کیا جاسکتا ہے۔

دوسری بات یہ کہ ادب سے عوامی دل چسپی میں کمی کا سبب یہ نہیں ہے کہ ادب بے مصرف یا لایعنی ہوگیا ہے، بلکہ عوام کو دوسرے مشاغل میسر آگئے ہیں۔ خصوصاً ٹیکنولوجی کی ترقی اور سوشل میڈیا کے فروغ نے اس حوالے سے بہت اہم کردارا ادا کیا ہے۔ تیسری بات یہ کہ اس عرصے میں سام راجی قوتوں نے بڑے غیرمحسوس انداز میں عالمی سطح پر عوام کی ذہن سازی کی ہے اور انھیں تفریح کا ایک نیا تصور دیا ہے۔ وہ تصور یہ ہے کہ دن بھر کے کام کاج کے بعد آدمی کو تھکن اتارنے اور ذہن کو تازہ کرنے کے لیے ایسی ہلکی پھلکی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اُس کے اضمحلال کو ختم اور اعصاب کو چاق چوبند کرسکیں۔

ہلکی پھلکی تفریح یا لائٹ موڈ بنانے کا یہ مطالبہ یہاں تک لایا گیا کہ بعد میں آسانی سے اس میں وہ چیزیں بھی شامل ہونے لگیں جنھیں تہذیب دار معاشرے میں ناشائستہ، بلکہ مخرب الاخلاق سمجھا جاتا تھا۔ ظاہر ہے، تفریح کے اس تصور کو اپنا اخلاقی نظام رکھنے والے ملکوں میں رواج دینا آسان نہیں تھا۔ اس کے لیے کسی مضبوط جواز کی ضرورت تھی۔ چناںچہ کبھی آزادیِ اظہار، کبھی آزادیِ نسواں، کبھی نئے ذوق، کبھی نئے دنیا کے تقاضوں کو بنیاد بناکر اس کے فروغ کا راستہ ہموار کیا گیا۔ اس جواز کے سہارے ہمارے جیسے معاشرے میں بھی بہت سی ایسی چیزیں رواج پاگئیں جن کے بارے میں اس سے پہلے سوچنا بھی محال تھا۔ یوں تفریح کا تصور اس حد تک بدل گیا کہ آج ابتذال اور تفریح میں فرق کرنا مشکل ہے۔

ادب ویسے تو واعظ و شیخ کے مطلب کی چیز کبھی نہیں رہا کہ اسے صرف وعظ اور نصیحت کے لیے استعمال کیا جاتا، لیکن زندگی کے کسی بھی تجربے کو بیان کرنے کے باوجود ادب بہرحال مبتذل بھی نہیں ہوتا تھا۔ ادب تفریحِ طبع کا سامان تو بے شک کرتا تھا، لیکن تفریح برائے تفریح نہیں۔ تفریح کے ساتھ یہ ذہنوں کو سوچنے کی طرف بھی مائل کرتا تھا۔ زندگی کے معنی کو وسعت دیتا تھا۔ احساس کی بیداری اور رویے کی تشکیل کا سبب بنتا تھا۔ اس لیے کہ اب سے پہلے تفریح کا مقصد محض تھکن اتارنا یا اعصاب کو سلانا نہیں ہوتا تھا، بلکہ وہ انسان کو تازہ دم کرکے، ہمت اور شعور دے کر اس کی زندگی کو بہتر بناتی تھی۔ آج تفریح کو بالکل اس کے برعکس بنا دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ وہ سب سرگرمیاں جو ذہن اور اعصاب کے لیے مسکن دوا کا کام نہیں کرتیں، بلکہ بیداری کا سبب بنتی ہیں، معاشرے میں اْن کا رُجحان بہت کم ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسا کم زور، کم تعلیم یافتہ، پس ماندہ، ترقی پذیر اور ترقی یافتہ سب ہی اقوام میں اپنے اپنے انداز اور اپنی اپنی سطح پر ہوا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ نئی سام راجیت یہی چاہتی تھی۔ اصل میں اُس کا مقصد یہ تھا کہ وہ عوام کی اکثریت کے ذہنوں کو ایسی پینک میں مبتلا کرسکے کہ وہ اس کے ہتھ کنڈوں کو سمجھ نہ پائیں، اس کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہ کرسکیں، بلکہ اس نے جو نشہ آور طریقے اختیار کیے ہیں، اُن کے زیرِاثر عوام کا ازدحام صارفیت کی ترقی میں معاون ثابت ہو، اور دنیا کی بیشتر آبادی کو محض صارف یا خریدار بنا دیا جائے۔ ٹیکنولوجی کے فروغ نے تو آج یہ صورتِ حال پیدا کردی ہے کہ آدمی کی زندگی میں گیجٹس کا استعمال ہی نہیں بڑھ رہا، بلکہ وہ خود بھی ایک روبوٹ جیسی زندگی کے سانچے میں ڈھلتا چلا جارہا ہے۔ یہ بلاشبہہ سام راجیت اور صارفیت کے ہتھ کنڈوں کی شان دار کامیابی ہے۔

اب اگر ہم اپنا قومی اور تہذیبی منظرنامہ سامنے رکھیں تو سچائی کے ساتھ اس کا اعتراف کرنا ہوگا کہ اس صورتِ حال کا سارا الزام صرف سام راجیت کو دینا انصاف کے خلاف ہے۔ رویوں کی اس تبدیلی کا ذمے دار تو ہمارا معاشرہ خود بھی ہے، خصوصاً اس کے تہذیبی ادارے، اور سب سے بڑھ کر اس کے ادیب شاعر۔ اگر آج وہ مضطرب یا افسردہ ہیں تو ان سے پوچھا جانا چاہیے:

کن نیندوں سوتی تھی تو اے چشمِ گریہ ناک

جب معاشرے کے تہذیبی اور اخلاقی رویوں میں بگاڑ پیدا ہورہا تھا، اس وقت ادیب شاعر کہاں تھے؟ وہ تو آتے ہوئے وقت کے قدموں کی چاپ سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں، انھوں نے کیوں نہ دیکھا کہ ہوائیں رْخ بدلتی ہیں، زمانہ قیامت کی چال چلتا ہے۔ اگر وہ یہ سب دیکھتے اور سمجھتے تھے تو چپ کیوں تھے؟

سچ پوچھیے تو ماجرا یہ نہیں، کچھ اور ہے۔ ہم ادیب شاعر لوگ بلاشبہہ وقت کی چاپ کو پہچانتے ہیں۔ ہماری آنکھیں وہ کچھ دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جو معاشرے کے دوسرے افراد نہیں دیکھ پاتے۔ ہم ان مسائل کو سمجھ لیتے ہیں جنھیں دوسرے آسانی سے نہیں سمجھ پاتے۔ ایسا مگر اُس وقت ہوتا ہے جب ہمارے حواس بیدار ہوں، آنکھیں کھلی ہوں، ہمارا ہاتھ معاشرے کی نبض پر ہو اور اس کی دھڑکنیں ہمیں سنائی دیتی ہوں۔ یہ سب اْسی وقت ممکن ہے جب ہمیں اپنی اصل حیثیت کا پتا ہو اور ہم اپنے کام اور اپنی ذمے داریوں کو دنیا کی ہر شے سے مقدم جانتے ہوں۔

اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ وقت کی بدلتی ہوئی چال اور معاشرے میں آتی ہوئی تبدیلیوں کے وقت ہم غافل تھے، سب سے یعنی اپنی حیثیت سے، ذمے داریوں سے اور معاشرے کے احوال سے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ ہم اپنے معاشرے سے بالکل لاتعلق ہوگئے۔ اس لیے کہ ہمارا سارا دھیان خود اپنی ذات پر مرکوز ہوگیا۔ ہمارا کام اپنی تہذیب، اپنے معاشرے کو بنانا ہے، لیکن ہم خود کو بنانے میں مصروف ہوگئے۔ ہماری حیثیت بہت بلند تھی۔ معاشرہ ہمیں عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا، لیکن ہم نے سوچا کہ عزت مل جانے سے آدمی کا پیٹ تھوڑا ہی بھر جاتا ہے۔

پیٹ بھرنے کے لیے تو پیسے چاہییں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم معاشی ضرورت کے لیے کوئی کام ہی نہیں کرتے تھے اور ہمارے پاس بالکل پیسے نہیں ہوتے تھے۔ ہم کام بھی کرتے تھے اور اس کا معاوضہ بھی ملتا تھا۔ اس معاوضے میں ہماری گزر بسر بھی ہوجاتی تھی۔ دو وقت کی روٹی تو عزت سے مل ہی جاتی تھی، لیکن پھر ہم نے مال دار لوگوں کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ اُن سے مقابلے میں پڑگئے۔ ہمارا سماجی مرتبہ تو بلند تھا، لیکن ہمیں مالی حیثیت بلند کرنے کی فکر نے آلیا۔ پہلے ہماری نظروں میں سب سے بلند شے ہمارا کام، ہمارا فن تھا، لیکن پھر ہمیں دنیا اور اس کی آسائشیں بڑی نظر آنے لگیں۔ اُن کی کشش نے ہمارے دلوں میں جگہ بنالی۔ ہم دنیا سے اتنے مرعوب ہونے لگے کہ ہمارا فن ہماری نظروں میں چھوٹا ہوتا چلا گیا۔

یہ کوئی خوش گوار واقعہ نہیں تھا۔ سخت تکلیف دہ اور ناگوار صورتِ حال تھی، لیکن ہم نے مان لیا کہ حقیقت یہی ہے۔ دنیا واقعی بڑی ہے۔ اس کی آسائشیں زیادہ اہم اور بیش قیمت ہیں۔ یہ تسلیم کرنے کے بعد ہماری قوتِ مدافعت بالکل ختم ہوگئی۔ اپنے کام اور اپنی سماجی حیثیت سے ہمارا یقین یکسر اٹھ گیا۔ مال و زر اور دنیا کے حصول کی کوششوں کو پہلے ہم چوہا دوڑ کہا کرتے تھے، لیکن پھر ہم خود اس دوڑ میں شامل ہوگئے۔ ہم جانتے تھے کہ اس دوڑ میں شامل ہونے والے بے حس، خود پرست، اخلاقیات اور اقدار سے عاری ہوجاتے ہیں۔ ہمارا اندازہ سو فی صد درست تھا۔ اس لیے کہ پھر ہم بھی ایسے ہی ہوگئے۔

اس سب کے بعد ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے بہتری کے، فلاح کے خواب دیکھنے چھوڑ دیے یا شعر کہنا، نظم لکھنا اور کہانی بننا چھوڑ دیا— نہیں، بلکہ ہم بہ دستور خواب دیکھتے رہے، مگر اب یہ خواب صرف اپنی ذاتی بہتری، فلاح اور ترقی کے تھے۔ ہمارے شعر، نظم اور کہانی کے سروکار بدل گئے۔ پہلے ہماری آواز میں، ہمارے فن میں ہماری روح کی پکار گونجتی تھی اور اسی گونج میں سماج کا ضمیر بولتا سنائی دیتا تھا، اسی لیے ہمارے شعر، نظم اور کہانی کو پڑھ کر لوگ برملا کہہ اٹھتے:

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

لیکن پھر ہمارا فن صرف اپنے وجود کی پکار ہو کر رہ گیا۔ تب ہم نے دیکھا کہ فن کار کے فن میں اس کی روح شامل نہ ہو تو وہ صرف ڈھول بن کر رہ جاتا ہے۔ ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوا، لیکن ہم نے پروا نہیں کی۔ اس لیے کہ اب ہمارا مقصود دنیا تھی۔ ہم اُس سے دھیان نہیں ہٹا سکتے تھے، کیوںکہ ہم جان گئے تھے کہ:

مسلسل ایک اندیشہ ہے دنیا

اس اندیشے میں ہم ایسے مبتلا ہوئے کہ پھر تو ہماری پوری شخصیت اور سارا کردار ہی بدل کر رہ گیا۔

ہم مزاجاً حساس لوگ ہوتے ہیں، لیکن اب یہ ساری حساسیت صرف ہماری اپنی ذات سے متعلق ہوگئی۔ ہم نے یہ دیکھنا اور سوچنا بالکل چھوڑ دیا کہ ہم دوسروں کے لیے تکلیف دہ تو نہیں ہورہے۔ ہماری توجہ صرف اس پر مرکوز ہوگئی کہ لوگ، معاشرہ اور حالات ہمارے لیے ناموافق ہیں، ہمیں تکلیف پہنچا رہے ہیں، ہم وقت کی ناسازگاری کا شکار ہیں اور پھر ہم نے اپنی فلاح کو مرکزِ نگاہ بنالیا۔

اب ہم اصولوں کی، اخلاق کی اور فرائض کی جب بات کرتے ہیں تو ہمارا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ دوسرے ان باتوں کا خیال رکھیں۔ ہم خود کو ہر اصول، اخلاق اور فرض سے ماورا اور آزاد سمجھتے ہیں۔ ہم حسن کی، سچائی کی اور خیر کی باتیں کرتے ہیں، لیکن یہ سب کھوکھلی باتیں ہیں۔ اب حسن سے ہماری مراد صرف وہ ہے جو ہمیں بھلا لگتا ہے اور ہمارے لیے لذتِ کام و دہن کا باعث ہے۔ ہمارے نزدیک سچائی صرف وہ ہے جو ہم کہہ رہے ہیں، چاہے وہ کتنا ہی غلط اور جھوٹ پر مبنی کیوں نہ ہو۔

ہمارے لیے اب خیر صرف وہ ہے جو ہمیں مطلوب ہے، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ دوسروں کے لیے کتنی ہی ضرر رساں کیوں نہ ہو۔ ہم آزادی اور حقوق کی بات کرتے ہیں، لیکن یہ کہتے ہوئے ہمارے پیشِ نظر صرف یہ ہوتا ہے کہ ہمیں ہر طرح کی آزادی حاصل ہو۔ سماجی، اخلاقی، قانونی، مذہبی اور معاشی کسی بھی سطح پر ہمارے لیے کوئی پابندی نہ ہو۔ ہم جب اور جو چاہیں کرسکیں۔ ہم سے کوئی بھی اور کچھ بھی پوچھنے والا نہ ہو۔ ہمارا معاشرہ، ہمارے دوست احباب اور عزیز ترین رشتے صرف اور صرف ہمارے حقوق یاد رکھیں۔ ہم سے کوئی مطالبہ نہ کیا جائے اور ہماری ہر خواہش، ہر مطالبے کو صرف ہمارے اشارۂ ابرو پر فوراً پورا کردیا جائے۔

یہ سب باتیں اور ساری خواہشیں بے جواز نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں ہم اب کسی الجھن میں بھی نہیں ہیں۔ ہمارا ذہن بالکل صاف ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم بھی تو آخر گوشت پوست کے انسان ہیں۔ ہماری بھی تو ضرورتیں ہیں، خواہشیں ہیں۔ انھیں پورا کرنے کے مواقع ہمیں کیوں حاصل نہ ہوں۔ ہم معاشرے کے لائق فائق لوگ ہوتے ہیں تو لازم ہے کہ ہمیں دوسروں پر برتری حاصل ہو۔ شاعری کو جزوِ پیغمبری کہا جاتا ہے۔ ہمیں معاشرے میں یہی مقام و مرتبہ ملنا چاہیے۔ ہماری باتوں سے امرا، روسا اور اہلِ اقتدار راہ نمائی حاصل کرتے ہیں تو ہمارا درجہ ان سے بلند ہے۔ چناںچہ جو آسائشیں انھیں حاصل ہیں، وہ ان سے پہلے ہمیں ملنی چاہییں۔

گو کہ ہم یہ سب باتیں کھلے بندوں نہیں کہتے، لیکن ان پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا ہمارے کہے بغیر یہ سب کچھ اسی طرح سمجھے اور اسی طرح کرے۔ ضرورت پڑتی ہے تو ہم سیاسی چال بازی سے گریز نہیں کرتے۔ جھوٹ اور منافقت سے کام لینے سے بھی ہم نہیں چوکتے۔ اپنی جبلی خواہشوں کی تکمیل کے لیے اخلاق، اقدار اور اصولوں کی نفی سے ہمیں ذرا تأمل نہیں ہوتا۔ ہم مریضانہ حد تک خود مرکز اور خود پرست ہوگئے ہیں، لیکن بڑی بڑی باتیں کرکے اپنے اس مرض کو چھپاتے اور لوگوں کا دھیان اس سے ہٹاتے ہیں۔ ہم اصول اور حق کے لیے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کردار اور عمل کا حوالہ تو دیتے ہیں لیکن خود اس کردار کو اپنانے سے گریزاں رہتے ہیں۔ ہم کوئی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں، بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے نام کی قربانی بھی دوسرے دیں اور نام ہمارا ہو، عزت ہمیں دی جائے۔

یہ سب سچ ہیں، لیکن ہم اسے ماننا نہیں چاہتے۔ ماننا تو دور کی بات ہے، ہم اس پر بات تک نہیں کرنا چاہتے۔ ہمیں اپنی خامیوں، اپنی کم زوریوں پر بات کرنے سے سخت نفرت ہے۔ ہم صرف اپنی اچھائی، برتری اور عظمت کا چرچا چاہتے ہیں۔ ہماری آرزو ہے کہ معاشرہ ہمارے گن گائے، ہمیں سر آنکھوں پر بٹھائے۔ زہر لگتے ہیں وہ لوگ جو ہمیں عام انسانوں جیسا سمجھتے ہیں۔ عام انسانوں سے کیا، ہم تو اشرافیہ سے بھی بڑھ کر قدر و منزلت کے حق دار ہیں۔ اسی طرح ہمیں وہ لوگ بھی ایک آنکھ نہیں بھاتے جو ہمیں ہمارے ہی بیان کیے ہوئے اصولوں کا پابند دیکھنا چاہتے ہیں یا جو ہمارے ہی مقرر کردہ معیار پر ہمیں پرکھنا چاہتے ہیں۔ گردن زدنی ہیں وہ لوگ جو ہمارے بیان کی تصدیق ہمارے عمل سے چاہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہی ہیں وہ لوگ جن کی اسی ذہنیت کی وجہ سے معاشرہ ہم سے بدظن ہوگیا ہے۔ انھی لوگوں کی وجہ سے ادب کی توقیر اور ادیب کا اعتبار اٹھ گیا ہے۔

مستثنیات سے انکار نہیں۔ تاہم ہماری ادیب شاعر برادری کی اکثریت ایسا ہی سوچتی ہے اور یہی سمجھتی ہے۔ اس صورتِ حال میں خدا لگتی کہیے، ادب پر زوال نہ آئے، لکھا ہوا لفظ بے اثر اور ادیب شاعر بے توقیر نہ ہوں تو پھر کیا ہو—؟

The post ہم ادیب شاعر لوگ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2r7Scjo
via IFTTT

بیساکھی کا تہوار۔۔۔FOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

پنجاب میں گندم کی کٹائی کا عمل شروع ہو چکا ہے، مشرقی پنجاب کے لوگ گندم کی کٹائی کے اس موسم میں بیساکھی کا تہوار مناتے ہیں۔

قیام پاکستان سے قبل متحدہ پنجاب میں یہ تہوار اپنی پوری آب وتاب اورجوش وجذبے کے ساتھ منایا جاتا تھا ۔ گندم کی کٹائی کے موقع پر پنجاب کے گھبرو جوان ڈھول کی تھاپ پرکٹائی شروع کرتے۔ الہڑمٹیاریں بھی سج دھج کر بیساکھی کے گیت گاتی۔ یہ تہوار پورے علاقے کی ثقافتی روایات اور یکجہتی کی علامت ہوتا تھا، لیکن آج یہ صدائیں زمانے کے نشیب و فراز میں کہیں گم ہوکررہ گئی ہیں۔ بیساکھی اب سکھوں کا مذہبی تہوار بن کر رہ گیا ہے۔ اس روز گردواروں میں دن بھر نگر کیرتن اور سکھوں کے مذہبی گیت ‘گروبانی ‘گائی جاتی ہے جبکہ لنگر کا بھی خاص انتظام کیا جاتا ہے ۔

سکھ روایات کے مطابق 1699ء میں سکھوں کے دسویں گورو گوبند سنگھ نے بیساکھی کے موقع پر سنگھ سنگت کو جمع کیا اور انہیں ایک نئی پہچان دی ۔ گورو گوبند سنگھ نے مجمعے سے مخاطب ہوکرکہا تھا کہ ہے کوئی جو خالصہ پنتھ کے لئے قربانی دے۔۔۔گورو کا حکم سن کرایک جوان کھڑا ہوا، گورو جی اسے ایک خیمے میں لے گئے جب واپس آئے تو ان کی تلوار سے خون ٹپک رہا تھا ۔۔۔گورو جی پھر بولے کوئی اور ہے جو خالصہ پنتھ کے لئے قربانی دے، ایک اور شخص آگے بڑھا ، گورو گوبند اسے بھی خیمے میں لے گئے اور جب واپس لوٹے تو پھر تلوار سے خون ٹپک رہا تھا ، اسی طرح گورو گوبند جی نے پانچ افراد کو اندر بلایا اور جب یہ پانچوں لوگ خیمے سے باہر نکلے تو ان کا روپ بدل چکا تھا۔

ان لوگوں کو گورو کے پانچ پیارے کہا جاتا ہے، سکھوں کی مذہبی تقریبات میں آج بھی کئی سکھ ان پانچ پیاروں کا روپ دھارتے ہیں اور ان کو بہت عزت اوراحترام دیا جاتا ہے ۔ گورو گوبند سنگھ نے سکھوں کے لئے پانچ چیزیں لازمی قرار دیں ان میں کچھا، کڑا، کیس یعنی بال ، کنگھی اور کرپان لازمی قرار دیئے۔ سکھ مذہب کے ماننے والے مردوں کو سکھ یعنی شیر اور عورتوں کو شیرنی کا لقب دیا گیا ، یہ دن سکھوں کے لئے خالصہ کا جنم دن کہلاتا ہے ، اس طرح بیساکھی کا ثقافتی تہوار خالصہ جنم دن میں گم ہوکر رہ گیا ۔

سکھ خالصہ جنم دن کا تہوار پاکستان کے شہرحسن ابدال کے گوردوارہ پنجہ صاحب میں مناتے ہیں۔ تین روزہ تقریبات میں بھارت سمیت دنیا بھر سے سکھ یاتری یہاں آتے اورمذہبی رسومات اداکرتے ہیں ۔ اس سال بھی تقریبا 1500 سو سکھ یاتری بھارت جبکہ اڑھائی ہزار سے زائد یورپ اور کینیڈا سے پاکستان آئے ۔ ان بھارتی مہمانوں کا لاہورکے واہگہ بارڈر پر پرتپاک استقبال کیا گیا ، واہگہ ریلوے اسٹیشن پران کے لئے کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا ۔

حسن ابدال میں بیساکھی میلہ منانے آئے ہوئے سردار راجیندر سنگھ روبی نے بتایا کہ اب تو بیساکھی کی خوشیاں وقت کی گرم سرد ہواؤں میں گم ہوکررہ گئی ہیں، انہوں نے بتایا کہ بیساکھی میلے کا آغاز گوردوارہ پنجہ صاحب میں “گرنتھ صاحب”کے پاٹ پڑھنے سے ہوتا ہے۔ مذہبی رسومات کے دوران یاتری گوردوارے کے درمیان واقع تالاب میں اشنان کرتے ہیں۔ سکھ عقیدے کے مطابق اس تالاب میں نہانے سے ان کے تمام کردہ گناہ دھل جاتے ہیں اوروہ گناہوں سے پاک ہو جاتے ہیں ۔گوردوارے میں بہنے والے چشمے کے پانی کو سکھ یاتری مقدس سمجھتے ہوئے اپنے ساتھ بوتلوں میں لے جاتے ہیں تاکہ جو زائرین یاترہ پر نہ آسکے وہ بھی اس سے مستفید ہو سکیں ۔ تقریبات کے آخری دن بھوگ کی رسم اد ا کی جاتی ہے۔

سکھ یاتری گورو نانک کی بیٹھک میں بڑی عقیدت اور انہماک کے ساتھ گرنتھ صاحب کے پاٹ پڑھتے اور سنتے ہیں ۔گوردوارے کے اندر پرشاد پکائے جاتے ہیں، بھارت سے آئے ہوئے ایک سکھ یاتری گورویندر سنگھ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک زمانہ تھا جب بیساکھ کا مہینہ آتا تھا تو پورے علاقے میں لوگ خوشیاں مناتے تھے ، ڈھول کی تھاپ پر لڈیاں اور بھنگڑے ڈالتے تھے اور ہر طرف خوشی کا سماں ہوتا تھا لیکن اب تو لگتا ہے وہ سب ایک خواب تھا ۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب ایک زرعی معاشرہ ہے اور اس کی اقدار، رسم و رواج اور تہوار سب زراعت سے جڑے ہیں، جیسے گندم کی بوائی کے بعد پنجاب کے لوگ لوڑی کا تہوار مناتے تھے اور کٹائی کے وقت بیساکھی کا ۔ ان تہواروں میں پنجاب کے لوگوں کی اپنی دھرتی سے محبت اور زراعت سے جڑی خوشیاں اور جذبات صاف نظر آتے تھے لیکن اب زراعت بھی وہ نہیں رہی اور وہ تہوار بھی ماضی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں اور آنے والی نئی نسل اپنی پنجابی روایات اور تہواروں کو بھولتی جا رہی ہے۔

بیساکھی میلہ اور خالصہ جنم دن منانے پاکستان آنے والے بھارتی سکھ یاتریوں میں پانچ پیارے بھی شامل ہیں جو پاکستان میں قیام کے دوران سکھوں کو امرت دھاری بناٰئیں گے اور کوئی اس مذہب کواختیارکرنا چاہے تو اسے بھی یہ پانچ پیارے ہی سکھ دھرم میں شامل کرتے ہیں، ان پانچ پیاروں کی منفرد پہچان اورانداز تھا ، ایک جیسا لباس اور روپ دھارے ان پانچ پیاروں کے جھتہ دار سردار کرم سنگھ تھے، پانچوں پیاروں کا تعلق امرتسر سے ہے۔

یہ پانچ پیارے ہراس جھتے کا حصہ ہوتے ہیں جو مذہبی رسومات ادا کرنے پاکستان آتا ہے ، سردار کرم سنگھ نے بتایا کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت گورو کے حکم پر عمل کیا اورخود کو سکھ سیوا اور دھرم کے پرچار کے لیے وقف کردیا ہے، سردار کرم سنگھ کے بقول پنج پیارے سکھ دھرم میں ان پانچ لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنی زندگی سکھ دھرم کے اصولوں کے مطابق اوردس گوروں کے حکم تحت گزارنے کا ارادہ کر لیتے ہیں۔ پنج پیاروں نے یہ بھی بتایا کہ تقریب کے دوران ایسے سکھوں کو امرت دھاری کریں گے جو گورو کے سچے اور پکے سکھ بننا چاہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہیں سکھوں میں ایک خاص درجہ اور مقام حاصل ہوگا ، وہ سکھ مذہب کے احکامات پرزندگی بھر عمل درآمد کریں گے، اسی طرح اگرکوئی دوسرے مذہب کا شخص بھی سکھ دھرم اختیارکرنا چاہے تواسے یہ پانچ پیارے امرت دھاری بناتے ہیں ۔

حسن ابدال میں لوگ مقدس تالاب میں نہاتے ہیں، ان کا عقیدہ ہے کہ اس مقدس تالاب میں نہانے سے ان کے گناہ صاف ہوجاتے ہیں اور آئندہ کے لئے برے اعمال سے توبہ کرتے ہیں، یہاں ایک بڑے پتھر پرگورو گوبند سنگھ جی کے ہاتھ کا نشان ہے جسے پنجہ صاحب کہا جاتا ہے، سکھوں کو پاکستان گوردوارہ پربندھک کمیٹی کی طرف سے امرت جل اور پنی پرشاد دیا جاتا ہے جو وہ سوغات کے طور پر واپس اپنے ساتھ لے کرجاتے ہیں۔

اکثر سکھ یاتری یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کی جو تصویر بھارت میں دکھائی جاتی ہے وہ اس کے بالکل برعکس ہے، یہاں مکمل مذہبی آزادی ہے اور یہاں کے مقامی افراد انہیں مہمان کا درجہ دیتے ہیں جبکہ اس کے برعکس بھارت میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں خصوصاً بابری مسجد کو جس انداز میں شہید کیا گیا اور اب گائے کو ذبح کئے جانے کے معاملے کو لے کرمسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے ، دوسری طرف پاکستان میں بیساکھی کا تہوار اقلیتوں کی مذہبی آزادی کا مظہر ہے، کیونکہ اسے مکمل عوامی اور سرکاری سرپرستی حاصل ہے ۔ پاکستان نے اقلیتوں کے تحفظ کے لئے ہمیشہ بھرپور اقدامات کئے ہیں کیونکہ اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا حکم دیا گیا ہے ۔

The post بیساکھی کا تہوار۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2vVtf01
via IFTTT

’’ کُتے کی قبر‘‘۔۔۔ یہ مقام قیام پاکستان سے بلوچستان کا حصہ ہےFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

(سنڈے میگزین کے گزشتہ شمارے میں صوبہ سندھ اور بلوچستان کے سرحدی اور متنازعہ حیثیت اختیار کرجانے والے مقام ’’کُتے کی قبر‘‘ کے بارے میں دیدار سومرو کا مضمون شایع ہوا تھا، جس میں اس مقام کے حوالے سے حکومت سندھ  اور صوبہ سندھ کے منتخب نمائندوں اور سیاست دانوں کا موقف پیش کیا گیا۔ زیرنظرمضمون میں اس علاقے کے بارے میں بلوچستان کا موقف دیا جارہا ہے)

بلوچستان اور صوبہ سندھ کے درمیان سرحدی علاقے ڈھاڈارو (کتے کی قبر) کا تنازعہ شدت اختیار کر گیا۔ دونوں صوبے ڈھاڈارو کی ملکیت کے دعویدار ہیں۔ ڈھاڈاروکیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں سندھ کے شہداد کوٹ اور بلوچستان کے ضلع خضدار کے درمیان واقع ہے، جو سطح سمندر سے 7500 فٹ کی بلندی پر ہے۔ کیرتھر پہاڑی سلسلہ قمبر علی خان میں شامل ہے، بلوچی زبان میں لفظ کتے کی قبر نہیں استعمال ہوتا، یہ سندھی زبان کا لفظ ہے۔ نئی حلقہ بندیوں میں بھی اس کو سندھ کا ہی حصہ دکھایا گیا ہے۔ کتے کی قبر کے علاقے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں گیس کے ذخائر موجود ہیں۔

ڈھاڈارو میں بلوچ قبائل کے ساتھ سندھی قبائل چھٹا اور گھائنچا برادریاں آباد ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بلوچستان کے تیسرے بڑے ضلع خضدار کی تحصیل کرخ کے16 موضع جات کو صوبے سندھ کے علاقہ قمبر شہداد کوٹ میں شامل کیے جانے کے فیصلے نے (کُتے کی قبر) ڈھاڈارو کے مقامی باشندوں سمیت عوامی نمائندوں کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ حلقہ بندیوں میں سندھ میں شامل کیے گئے سن چکو  میں گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ یہ چھوٹا سا علاقہ قیام پاکستان سے اب تک بلوچستان کا حصہ رہا ہے۔ بلوچستان اسمبلی نے ڈھاڈارو کے تنازعے پر قرارداد منظور کرتے ہوئے تنازعے کے حل کے لیے معاملے کو حلقہ بندیوں سے متعلق ایوان کی پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا ہے۔

2013ء تک ہونے والے عام انتخابات میں ڈھاڈارو کا علاقہ خضدار کی صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 39 میں شامل رہا ہے۔ صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی بی 39 سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کا حلقہ انتخاب ہے۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان کے فنڈز سے ڈھاڈارو کے علاقے میں ترقیاتی منصوبوں پر کاموں کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈھاڈارو سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی شہری ڈاکٹر خلیل احمد بہلول نے ڈھاڈارو کو ضلع خضدار کے انتخابی حلقے سے نکال کر قمبر شہداد کوٹ کے حلقہ 203 میں شامل کرنے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں پٹیشن دائر کررکھی ہے۔

حالیہ مردم شماری میں خضدار کی آبادی4لاکھ17ہزار سے بڑھ کر 8 لاکھ 2 ہزار207 ہوگئی ہے۔ اس طرح گذشتہ 20 سالوں کے دوران ضلع کی آبادی میں 3.49فی صد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ مردم شماری میں خضدار کے شہری علاقوں کی آبادی 2 لاکھ77 ہزار جب کہ دیہی علاقوں کی آبادی5 لاکھ 24 ہزار ظاہر کی گئی ہے۔ ضلع میں مردوں کی آبادی4 لاکھ21 ہزار، خواتین کی 3لاکھ 80 ہزار ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کی جانے والی حلقہ بندیوں کے مطابق خضدار کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں حلقہ پی بی39خضدار Iتحصیل خضدار ماسوائے میونسپل کارپوریشن خضدار، تحصیل زہری، سب تحصیل کرخ ، سب تحصیل مولا پر مشتمل ہے۔

پی بی 40 خضدار II خضدار میونسپل کارپوریشن، تحصیل نال (ماسوائے گرگ اور درنالی) پر مشتمل۔ حلقہ پی بی 41 خضدارIII تحصیل وڈھ، سب تحصیل آڑنجی، سب تحصیل سارونہ اور نال کے علاقوں گرک اور درنالی پر مشتمل ہے۔ ان حلقوں میں سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری، سردار اختر جان مینگل، رکن صوبائی اسمبلی سردار اسلم بزنجو کے آبائی حلقے شامل ہیں اور یہ تینوں قدآور شخصیات موجودہ صوبائی اسمبلی کا حصہ ہیں۔ ان حلقوں میں مسلم لیگ ن، بلوچستان نیشنل پارٹی ، جمعیت علماء اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی اور نیشنل پارٹی اپنا اثر رسوخ رکھتی ہیں۔ حلقہ بندیوں میں خضدار کی تحصیل کرخ 16 موضع جات کو سندھ کے علاقہ قمبر شہداد کوٹ میں شامل کرنے کے خلاف، ڈھاڈارو، یونین کونسل سن چکو سمیت خضدار اور کرخ کے عوام سراپا احتجاج ہیں۔

علاقہ سے منتخب نمائندہ رکن بلوچستان اسمبلی سردار اسلم بزنجو نے خضدار کے علاقوں کو قمبر شہداد کوٹ میں شامل کرنے کے خلاف گذشتہ دنوں صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں قرارداد پیش کی جسے ایوان نے اتفاق رائے سے منظور کرلیا۔ رکن بلوچستان اسمبلی سردار اسلم بزنجو نے موقف اختیار کیا ہے کہ خضدار کی تحصیل کرخ کے ایک علاقے سن چکو میں گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں مگر موجودہ حلقہ بندی میں اس علاقے کو بلوچستان کے بجائے سندھ میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ اقدام بلوچستان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اگرچہ یہ چھوٹا سا علاقہ ہے ، مگر یہ شروع دن سے بلوچستان کا حصہ رہا ہے۔ سندھ کی حکومت نے پہلے بھی اس طرح کی کوشش کی تھی، مگر بلوچستان کی حکومت نے یہ کوشش ناکام بنادی تھی۔ اب حلقہ بندی میں اس علاقے کو سندھ میں شامل کیا جانا انتہائی تشویش ناک ہے۔

اس حوالے سے حمایت میں جمعیت علماء اسلام کے رکن بلوچستان اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران کا کہنا ہے کہ ڈھاڈارو سے ملتا جلتا ایک مسئلہ بارکھان میں بھی پیش آیا ہے، جہاں فورٹ منرو کے راستے بلوچستان کی زمینوں کے لیے پنجاب سے بجلی لائی جارہی ہے۔ قانونی طور پر یہ نہیں ہوسکتا۔ ہمیں خدشہ ہے کہ آج وہاں بجلی لائی جارہی ہے کل وہاں بھی خضدار کے علاقے کی طرح مسئلہ پیش آجائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب سے ہماری طرف تجاوزات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔ مشیرخزانہ ڈاکٹر رقیہ ہاشمی کا بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں دونوں معزز اراکین اسمبلی کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اراکین اسمبلی کی تشویش بجا ہے۔ مجھے لگتا ہے اسلام آباد میں بیٹھ کر کچھ مخصوص لوگوں کی نشستیں محفوظ کی گئی ہیں۔

اسپیکر بلوچستان اسمبلی نے مسئلے کو حلقہ بندیوں سے متعلق ایوان کی پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان حکومت اس مسئلے کو حکومت سندھ کے ساتھ اٹھائے گی۔ صوبائی وزراء میر عاصم کرد گیلو اور پرنس احمد علی بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی حکومت اس مسئلے پر چپ نہیں رہے گی اور نقشے منگوا کر اس مسئلے کو ہر فورم پر اٹھاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائے گی کہ بلوچستان کی حدود میں کسی قسم کی تجاوزات نہ ہونے پائیں۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل نے حلقہ بندیوں پراپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی نئی حلقہ بندیوں میں بلوچستان کے علاقوں کو سندھ میں شامل کرنا ناانصافی ہے۔ بلوچستان کے وسائل کو مالِ غنیمت سمجھ کر ہر کوئی لوٹ رہا ہے۔ ہمیں سندھ والوں سے اس کی توقع نہیں تھی کوئی اور ہوتا تو الگ بات تھی کیوںکہ ہم پر جو سخت وقت گزر رہا ہے وہی سندھ والوں پر بھی گزرا ہے۔ اس لیے سندھ والوں کی جانب سے بلوچستان کے ساتھ ایسا اقدام کرنا باعث تعجب ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم بلوچستان کی زمین کا ایک انچ بھی کسی کو نہیں دیں گے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کی گئی حد بندیوں کو مقامی افراد کی جانب سے مسترد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ڈھاڈارو سمیت تمام موضع جات بلوچستان اور ڈسٹرکٹ خضدار کا حصہ ہیں۔ سندھ حکومت وسائل پر قبضہ کرنے کی خاطر ان علاقوں کو سندھ کا حصہ قرار دینے کی ناکام کوششیں کررہی ہے۔

جمعیت علماء اسلام کے مرکزی نائب امیر اور رکن قومی اسمبلی مولانا قمر الدین نے ضلع خضدار کے علاقوں ڈھاڈارو اور کتے کی قبر کو صوبہ سندھ کے علاقے شہداد کوٹ میں شامل کرنے کو لوگوں کے احساسات اور جذبات سے کھیلنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے ضلع خضدار کے آباد اور وسائل سے مالا مال علاقے ڈھاڈارو اور کتے کی قبر کو صوبہ سندھ کے انتخابی حلقے شہداد کوٹ قمبر میں شامل کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن، حکومتِ سندھ کی کچھ شخصیات کے توسط سے یہ نہیں چاہتا کہ ملک کے تمام صوبے اپنی جغرافیائی حدود میں رہ کر ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ تعلق قائم کریں۔

مولانا قمر الدین نے الزام عائد کیا کہ حکومت سندھ ایک سازش کے تحت بلوچستان کے سرحدی علاقوں، جہاں جہاں قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں، کو بلوچستان سے الگ کرکے سندھ میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس کو کسی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ شہداد کوٹ قمبر، پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کا حلقہ انتخاب ہے۔ کتے کی قبر کے علاقے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں گیس کے ذخائر موجود ہیں۔

علاقہ مکینوں کے مطابق تحصیل کرخ کے موضع جات میر گل، چھبوں، ڈھاڈاھارو، دشت لک، گھنٹے سور، کھیڑا، کھچانڈو، کرچھہ، لڑنگ، مننے والا کچھ، چھوٹا پھوڑ، ٹوٹھہ، شوق بارگ، وہڈھ، کھوزئی کو ضلع خضدار سے انتخابی حلقے سے نکال کر شہداد کوٹ قمبر حلقہ 203 میں شامل کردیا گیا ہے، جو عوام کی مرضی و منشاء کے خلاف ہے۔ علاقہ مکینوں کے مطابق یہاں قدرتی وسائل زیادہ ہیں برادر صوبے کے وسائل پر قبضہ کرنے کی روایات نہ صرف صوبائی نفرتوں میں اضافہ کرے گی، بلکہ دو برادر اقوام کو بھی مدمقابل کرے گی۔

اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں پٹیشن دائر کرنے والے ڈھاڈارو کے رہائشی ڈاکٹر خلیل احمد بہلول کا کہنا ہے کہ ان علاقوں سے منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندے ڈسٹرکٹ کونسل خضدار کے معزز رکن ہیں، ان علاقوں کے فوجداری مقدمات بھی لیویز تھانہ کرخ میں درج ہیں۔ ڈھاڈارو کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمارے علاقے کو سندھ میں شامل کرنے کے ذمے دار الیکشن کمیشن آف پاکستان اور صوبہ سندھ ہیں۔ ڈھاڈارو کے علاقے سمیت مختلف موضع جات کو سندھ میں شامل کرنے کے خلاف مختلف سیاسی جماعتوں جن میں بی این پی (مینگل ) جمعیت علمائِ اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی ) پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) نیشنل پارٹی اور دیگر جماعتوں نے شدید احتجاج کیا اور احتجاجی ریلی نکال اور جلسے جلوسوں کا انعقاد کرکے اپنی ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان میں رواں برس مارچ میں مردم شماری کے بعد سے بظاہر سب سے بڑا انتخابی مسئلہ حلقہ بندیوں کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو اس کا پابند نہیں بنایا گیا ہے کہ حلقہ بندیوں پر عام عوام سے رائے لے آئینِ پاکستان کہتا ہے کہ ہر مردم شماری کے شائع شدہ سرکاری اعدادوشمار کی بنیاد پر وفاقی اکائیوں کے درمیان پارلیمانی نشستوں کا تعین کیا جانا چاہیے۔ ماہرین کے مطابق یہ فائدہ مند ہونے کی بجائے نقصان دہ ہے کیوںکہ اس کے لیے ہر مردم شماری کے بعد آئینی ترمیم کی ضرورت پڑتی ہے۔ حلقہ بندیوں کے لیے پاکستانی قانون میں ڈی لمیٹشن آف کانسٹیچوینسیز ایکٹ 1974 ہے۔ اس میں پارلیمان ترامیم اور صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کئی تبدیلیاں متعارف کروائی گئی ہیں۔

لیکن اس میں کئی ابہام ہیں جیسے کہ ہر حلقہ جغرافیائی طور پر ‘جہاں تک ممکن ہو’ کی شرط پر ایک جگہ ہونا چاہیے۔ لیکن قبائلی علاقوں میں تو ایک حلقے کے مختلف علاقوں پر پھیلے ہونے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ جغرافیائی طور پر حلقہ ایک جگہ ہی ہونا چاہیے۔ ہر حلقے میں ووٹروں کی تعداد میں برابری کا فقدان ہے بلوچستان میں پانچ اضلاع پر مشتمل قومی اسمبلی کی ایک نشست رقبے کے لحاظ سے صوبے خبیر پختونخواء کے برابر ہے۔ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو اس کا پابند نہیں بنایا گیا ہے کہ حلقہ بندیوں پر عام عوام سے رائے لے۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ عوامی رائے کے بغیر کی جانے والی حلقہ بندیوں پر تنازعات پیدا ہوتے رہے ہیں۔

The post ’’ کُتے کی قبر‘‘۔۔۔ یہ مقام قیام پاکستان سے بلوچستان کا حصہ ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Fr6UXQ
via IFTTT

گدھوں اور کتوں کی کھالوں کا کیس پولیس نے کمزور کردیاFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

کراچی: گدھوں اور کتوں کی کھالوں کی برآمدگی کیس میں پولیس اور ملزمان کی ساز باز سامنے آگئی اور ملزمان پر قابل ضمانت دفعات لگاکر مقدمہ کمزور بنادیا گیا ہے۔

افغان باشندے سمیت دونوں ملزمان کو عدالت نے قابل ضمانت دفعات کے باعث ضمانت پر رہا کردیا عدالت نے ملزمان کو فی کس 20ہزار روپے کے مچلکے جمع کرانے کے عوض رہا کردیا، کورنگی صنعتی ایریا پولیس نے گرفتار ملزمان افغانی باشندے عبدالحمید اور رضوان کو جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کے روبرو پیش کیا پولیس نے بتایا کہ ملزمان کو علاقہ مکینوں کی نشاندہی پر گرفتار کیا گیا ہے وکیل سرکار کا کہنا تھا کہ پولیس کا کوئی کردار نہیں علاقہ مکین نشاندہی نہ کرتے تو گدھوں اور کتوں کی کھالوں کا کاروبار جاری تھا۔

تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزمان کو گزشتہ روز کورنگی صنعتی ایریا سے گرفتار کیا ملزمان کے گودام سے پولیس نے 40 سے زائد بوریاں برآمد کی جن میں گدھوں اور کتوں کی کھالیں موجود تھیں گودام کے مالک کی تلاش جاری جس کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں ملزمان نے کھالیں افغانستان اور اندرون ملک سے درآمد کی وکیل صفائی نے انکشاف کیا کہ ایف آئی آر میں سیکشن قابل ضمانت ہے ان دفعات کے تحت ملزمان کو جیل نہیں بھیجا جاسکتا اور ان کے موکلوں کو اس سیکشن میں حوالات میں رکھا گیا۔

تفتیشی افسر نے کہا کہ افسران کا دبائو تھا جس کی وجہ سے حوالات میں رکھا، عدالت نے ملزمان کی ضمانت منظور کرلی عدالت نے ملزمان کو فی کس 20ہزار کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا ملزمان کے خلاف تھانہ کورنگی صنعتی ایریا میں مقدمہ درج ہے واضح رہے کہ گزشتہ روز پولیس کے اعلیٰ افسر نے 4 ملزمان کی گرفتاری ظاہر کی تھی لیکن پولیس نے صرف 2 ملزمان کو عدالت میں پیش کیا ریمانڈ پیپر میں گودام کے مالک کی عدم گرفتاری ظاہر کی گئی ہے۔

دریں اثنا جوڈیشل مجسٹریٹ غربی نے کمسن بیٹے کو مار پیٹ کے بعد نالے میں پھینکنے کے الزام میں شقی القلب باپ کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے ہفتے کو پاکستان بازار پولیس نے کمسن بیٹے کو مار پیٹ کے بعد نالے میں پھینکنے کے الزام میں شقی القلب باپ افروز کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے فاضل عدالت میں پیش کیا تھا۔

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ اورنگی ٹائون جرمن اسکول کے قریب جمعرات کی شب نالے سے 6 سالہ کامران کی لاش ملی تھی جو ڈوب کر ہلاک ہوگیا تھا ابتدائی طور پر مذکورہ واقعے سے متعلق کہا گیا تھا کہ کامران کھیلتے ہوئے نالے میں گرا تھا۔

بچے کی لاش ملنے کے بعد پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ کمسن کامران کو اس کے والد نے گھر سے باہر لے جا کر مار پیٹ کی تھی اور بعدازاں اسے نالے میں پھینک دیا تھا جس پر پولیس نے ملزم افروز عالم کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی تو اس نے اعتراف کیا کہ بیٹے کو غصے میں ماردیا ہے ملزم سے مزید تفتیش کے لیے پولیس نے 14 یوم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تاہم عدالت نے 3 روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

The post گدھوں اور کتوں کی کھالوں کا کیس پولیس نے کمزور کردیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Km1z7W
via IFTTT

رابعہ کے اغوا، زیادتی اور قتل کا مجرم مہر علی نکلاFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

کراچی: اورنگی ٹائون میں کمسن رابعہ کے اغوا، زیادتی اور قتل کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات میں پولیس کو ڈی این اے رپورٹ مل گئی جس میں گرفتار ملزم مہر علی زیادتی میں ملوث پایا گیا ہے جبکہ اس کے ملزم والد اور دوسرے ملزم کی ڈی این اے میں زیادتی کی تصدیق نہیں ہوسکی تینوں ملزمان نے کمسن رابعہ کو اغوا کرنے کے بعد قتل کیا تھا۔

رواں ماہ 15 اپریل کو اورنگی ٹائون کے رہائشی بقا محمد کی کمسن بیٹی رابعہ کو نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا جس کے اگلے روز رابعہ کی لاش منگھوپیر تھانے کی حدود نادرن بائی پاس سے مل گئی تھی کمسن بچی کی شناخت کے بعد مشتعل افراد نے منگھوپیر روڈ پر کمسن رابعہ کی میت کوسڑک پر رکھ کر احتجاج کیا اور اس دوران علاقہ میدان جنگ بن گیا اور اس ہنگامہ آرائی کے دوران فائرنگ سے ایک شخص محمد الیاس جاں بحق جبکہ ایک درجن کے قریب پولیس افسر اور اہلکار مشتعل مظاہرین کے پتھرائو سے زخمی ہوگئے تھے۔

پولیس نے واردات کے بعد مقتولہ کے دادا عبدالقادر کی مدعیت میں 4 نامزد ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر کے انھیں گرفتار کرلیا تھا ایک ملزم رحیم تفتیش میں بے گناہ نکلا جسے پولیس نے رہا کردیا تھا۔

ایس ایس پی ویسٹ عمر شاہد حامد نے اپنے دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ مقتولہ اور ملزمان کے ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ 12 دن بعد تفتیشی افسر کو موصول ہوگئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ملزم فضل کے بیٹے مہر علی نے بچی کے ساتھ زیادتی کی اور گلا گھونٹ کر قتل کردیا۔

ایس ایس پی عمر شاہد نے بتایا کمسن بچی کے قتل کا ماسٹر مائنڈ فقیر محمد ہے جس نے اپنے ملازم فضل اور اس کے بیٹے مہر علی کی مدد سے رابعہ کو اغوا کر کے رکشے میں لے کر منگھوپیر تھانے کی حدود میں لے جا کر قتل کر دیا، رابعہ کے قتل سے ایک ہفتے قبل مقتولہ کے والد بقا اور دیگر رشتے داروں نے اورنگی ٹائون تھانے میں فقیر محمد کے خلاف درخواست دی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ فقیر محمد مجھے اور میرے اہلخانہ کو بلاجواز ہراساں کرتا ہے اور دھمکیاں دیتا ہے۔

مرکزی ملزم فقیر محمد مقتولہ بچی کے والد کا ماموں بھی ہے ملزمان اور مقتولہ کے گھر والے رشتے دار بھی ہیں ان کے درمیان عرصے سے دشمنی چل رہی تھی ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا ایک گروپ نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امن و امان کی صورتحال خراب کی تھی ہنگامہ آرائی کا مقدمہ ایس آئی یو سی آئی اے منتقل کر دیا جس کی تفتیش جاری ہے ابھی تک صورتحال واضح نہیں ہوسکی ہے کہ راہ گیر الیاس کس کی فائرنگ سے جاں بحق ہوا تھا، ڈی آئی جی ویسٹ نے پولیس پارٹی کے لیے تعریفی اسناد اور نقد انعامات دینے کا اعلان کیا ہے۔

واضح رہے کہ منگھوپیر میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد ڈی آئی جی ویسٹ موقع پر پہنچے تھے جبکہ آئی جی سندھ نے ڈی آئی جی ایڈمن عاصم قائمخانی کی سربراہی میں ٹیم بھی تشکیل دی تھی تاہم دو ہفتے گزرنے جانے کے باوجود پولیس اس بات کا تعین نہیں کر سکی کہ ہنگامہ آرائی کے دوران فائرنگ سے جاں بحق ہونے والا محمد الیاس کس کی گولی سے زندگی کی بازی ہارا تھا اور یہ معمہ تاحال حل نہیں ہو سکا ہے۔

 

The post رابعہ کے اغوا، زیادتی اور قتل کا مجرم مہر علی نکلا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Fqejqn
via IFTTT

آئل ٹینکرز ذوالفقار آباد ٹرمینل منتقل کرنے کا حکمFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

کراچی: سپریم کورٹ نے شیریں جناح کالونی سے 15 روز میں تمام آئل ٹینکرز ذوالفقار آباد ٹرمینل منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شیریں جناح کالونی میں آئل ٹینکرز کھڑے کرنے سے متعلق سماعت ہوئی آئل ٹینکرز شہر میں داخل ہونے پر عدالت عظمیٰ نے شدید برہمی کا اظہار کیا، بلدیہ عظمیٰ کراچی  کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ذوالفقار آباد آئل ٹینکر ٹرمینل مکمل ہوچکا ہے آئل ٹینکرز مالکان ذوالفقار آباد ٹرمینل جانے کو تیار نہیں آئل ٹینکرز مالکان ہڑتال کردیتے ہیں۔

جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ انھیں پولیس کے ذریعے اٹھاکر شہر سے باہر پھینکیں کیا حکومت کے پاس طاقت نہیں اگر یہ کام نہیں کرنا چاہتے تو آئل کمپنیاں آئل ٹینکروں کو آئل دینا بند کردیں اب ہمارے پاس چائنا کا آپشن موجود ہے حکومت پاکستان کو کہتے ہیں کہ آئل ٹینکرز کے لیے چائنا سے بات کرے شہر میں ایک آئل ٹینکر داخل نہیں ہونے دیں گے عدالت نے ریمارکس دیے کہ حکومت کو چائنا سے آئل ٹینکرز کے ٹھیکے کی ہدایت کردیتے ہیں یہ کام نہیں کرتے تو نہ کریں، چائنا کے آئل ٹینکروں کا آپشن ہمارے پاس موجود ہے۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے اب ہر چیز چائنا کو دو یہی آپشن ہے آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کے رہنما یوسف شاہوانی نے موقف اپنایا ہم وہاں جانے کے لیے تیار ہیں عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ ایک ہفتے میں خود ذوالفقار آباد ٹرمینل منتقل ہوجائیں عدالت نے تنبیہ کی کہ 15 دن بعد پولیس اور رینجرز کے ذریعے شہر سے نکالیں گے عدالت نے 15 روز میں تمام آئل ٹینکرز ذوالفقار آباد ٹرمینل منتقل کرنے کی ہدایت کردی۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے میڈیکل کالجز میں داخلوں سے متعلق تمام میڈیکل کالجز کی معائنہ رپورٹس طلب کرلیں، سپریم کورٹ کراچی رجسٹر میں میڈیکل کالجز میں داخلوں سے متعلق سماعت ہوئی، سیکریٹری صحت فضل اللہ پیچوہو نے 2 میڈیکل کالجز کی رپورٹ پیش کردی، سیکریٹری صحت نے موقف اختیار کیا کہ سرسید اور جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کا معائنہ کرلیا، عدالت نے استفسار کیا کہ ضیا الدین اور آغا خان اسپتال کا معائنہ کیوں نہیں کیا؟

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کیا کررہی ہے، ایک اچھے ادارے کو تباہ کردیا گیا، یہ کام پی ایم ڈی سی کا تھا اور ہم سن رہے ہیں، جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ پیسے لیتے ہیں اور ٹھپہ لگا کر میڈیکل کالجز کے الحاق کی اجازت دے دی جاتی ہے، صرف پیسہ پیسہ پیسہ پیسہ ہی آپ کو چاہیے، آپ لوگ پیسہ کے عوض کالج کی منظوری دے دیتے ہیں، اتنا پیسہ لے کرآپ لوگ کیا کریں گے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ جس طرح آپ لوگوں نے کالج بنانے کی اجازت دی ہے اس میں سے ویسے ہی ڈاکٹر نکلیں گے، جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آپ انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں، پتہ ہے دنیا میں یہ باقاعدہ کرائم سمجھا جاتا ہے۔

عدالت نے پی ایم ڈی سی انچارج سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ معلوم ہے کہ کتنی جانیں آپ کے گلے پڑ سکتی ہیں،عدالت نے تمام میڈیکل کالجز کی معائنہ رپورٹس طلب کرتے ہوئے سماعت 15 دن کے لیے ملتوی کردی۔

 

The post آئل ٹینکرز ذوالفقار آباد ٹرمینل منتقل کرنے کا حکم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2KmbIkV
via IFTTT

Stephen Colbert Reveals Evil Genius Plan To Avoid 'Avengers: Infinity War' Spoilers

0 comments

Stephen Colbert Reveals Evil Genius Plan To Avoid 'Avengers: Infinity War' SpoilersStephen Colbert doesn't want fellow "Avengers: Infinity War" superfans ruining




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2KlaOVT

Alicia Hernandez-Roulet, Matthew Steinhart

0 comments

By Unknown Author from NYT Fashion & Style https://ift.tt/2KpImC2

What’s on TV Sunday: ‘Parts Unknown’ and an Avengers Marathon

0 comments

By ANDREW R. CHOW from NYT Arts https://ift.tt/2KnnOdp

Shab e Barat Ka WazifaFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

Shab e Barat Ka Wazifa


Hum aap ko shab e barat ki raat 3 dafa Surah Yaseen parhne ke fawaid batayengay aur is ki ijazat aam ha. Yani agar aap shab e barat ki raat 3 dafa Surah Yaseen parhengay to aap ko konsay konsay fawaid hasil hongay. Ye fawaid jaan lenay ke baad Insha Allah aap Shab e Barat ki raat zaroor Surah Yaseen parhengay. Aur hamara yehi mashwara ha ke Shab e Barat ki raat saal mein 1 dafa aati ha aur anqareeb aanay wali ha to aap Shab e Barat ki raat 3 dafa Surah Yaseen zaroor parhein. Shab e Barat ki raat Namaz e Isha ada karnay ke baad nawafil ada karein kam se kam 2 rakat nawafil zaroor ada karein nawafil ada karne ke baad Surah Yaseen ki 3 dafa tilawat karein. Lekin agar kisi ki Namazein Qaza ho to wo nawafil ke bajaye Qaza Namazein ada karein kiyounke jis ke zimmay Farz Namazein qaza ho us ki nawafil qabool nahi hoti. 3 dafa Surah Yaseen parhne ke baad Allah Pak se Dua karein aur apni jaiz hajatein Allah Pak ke samnay pesh karein.
Shab e Barat ki raat 3 dafa Surah Yaseen parhne ka sab se pehla faida ye hai ke rizq mein barkat hoti ha, maal o asbab barhte hein. Doosra faida daraziye umar ha yani is se umar mein izafa hota ha, umar lambi ho jati ha aur teesra faida ye ha ke insan nagahani aafaton se mehfooz rehta ha balaon se mehfooz rehta ha. Allah Ta'la hamein is par amal karne ki tofeeq ata farmaye. Ameen


from Islamic Knowledge, Rohani Ilaj, Health & Beauty Tips https://ift.tt/2r8ndno
via IFTTT

ہفتہ، 28 اپریل، 2018

بارہ اکتوبر 1999 نواز شریف حکومت کا تختہ کس نے اور کیوں الٹا اصل کہانی ...

0 comments

Merkel lobbies Trump on trade and Iran

0 comments
Despite the show of unity between the two leaders, their differences on trade were plain to see.

from BBC News - World https://ift.tt/2KifL1C

Israel border clashes: Three Palestinians killed, Gaza officials say

0 comments
The health ministry in Gaza says Israeli forces shot dead three protesters, and more than 300 are hurt.

from BBC News - World https://ift.tt/2I7RLha

Abba announce first new music since 1982

0 comments
The Swedish superstars say the two songs came as a result of their upcoming "virtual reality" tour.

from BBC News - World https://ift.tt/2HBl7Dv

I used YouTube to help deliver my baby

0 comments
Tia Freeman claims to have given birth to her baby alone in a hotel room with the aid of online videos.

from BBC News - World https://ift.tt/2Huddzz

Korean summit: Welcoming Kim Jong-un with pomp and peace rituals

0 comments
South Korea's Moon Jae-in has welcomed the North Korean leader with a series of symbolic rituals.

from BBC News - World https://ift.tt/2FlJ0Ns

How UK greeted previous US presidents

0 comments
Donald Trump is set to become the 12th US president to visit the UK. Here's how his predecessors have fared.

from BBC News - World https://ift.tt/2vTEIgD