ایکسپریس اردو لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ایکسپریس اردو لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 20 مئی، 2018

دوسروں کو گدگدی کرتا دیکھ کر بے اختیار ہنسنے والی انوکھی خاتونFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

کیلیفورنیا: عام حالت میں اگر کسی کو گدگدی کی جائے تو اس کا ہنسنا معمول کی بات ہے لیکن سان ڈیاگو میں ایک خاتون ایسی ہیں جو کسی دوسرے کو گدگدی کرتا دیکھ کر دیوانہ وار ہنسنے لگتی ہیں اور بسا اوقات وہ خود قابو سے بھی باہر ہوجاتی ہے۔

اس خاتون پر یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سان ڈیاگو کے ماہرین تحقیق کررہے ہیں جو اپنی نوعیت کا ایک انوکھا واقعہ ہے۔ اس خاتون کا نام کئی وجوہ کی بنا پر صرف ٹی سی بتایا جارہا ہے اور جب جب یہ کسی دوسرے شخص کو اپنے آپ کا یا کسی اور کو گدگدی کرتے دیکتھی ہیں تو ان کی جلد میں سنسنی پیدا ہوتی ہے اور وہ ہنسنے لگتی ہیں۔

اس کیفیت کے بعد خاتون نے ماہرین سے رابطہ کیا اور کئی ٹیسٹ کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ایک خاص قسم کی کیفیت ’مِرر ٹچ سنیستھیسیا کی شکار ہیں۔ ان کے دماغ کے بعض نیورون عکسی (مرر) اثر کے تحت عین اسی طرح کا برتاؤ کرتے ہیں جب وہ کوئی منظر دیکھتے ہیں۔

یونیورسٹی آف سان ڈیاگو کے سائنس دانوں نے خواتین کو کئی اہم ٹیسٹ سے گزارا جن میں انہیں لطیفوں کی ویڈیو دکھائی گئی، کسی نے ان کے سامنے ٹھنڈے پانی میں ہاتھ ڈالا، یا کسی نے دوسرے کو گدگدایا وغیرہ۔ معلوم ہوا کہ خاتون بظاہر نارمل ہیں لیکن ان کے دماغ کے نیورون کسی گدگدی کی صورت میں عین اسی طرح برتاؤ کرتے ہیں کہ کوئی انہیں گدگدی کررہا ہے۔

اس خاتون نے بتایا کہ اگر کوئی ان کے سامنے مخمل، نرم برش یا ریشم پر ہاتھ پھیرے تو وہ خود عین اس کیفیت کو محسوس کرتی ہیں اسی طرح اگر کوئی برفیلے پانی میں ہاتھ ڈالے تو وہ اپنے ہاتھوں پر نمی تو محسوس کرتی ہیں لیکن انہیں ٹھنڈک کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔

دماغی ماہرین کے مطابق یہ ایک نایاب کیفیت ہے اور دنیا میں ڈیڑھ سے ڈھائی فیصد افراد ہی اس کے شکار ہوتے ہیں۔

The post دوسروں کو گدگدی کرتا دیکھ کر بے اختیار ہنسنے والی انوکھی خاتون appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IvXD7e
via IFTTT

نیہا دھوپیا کم عمرشخص سے شادی کرنے پرتنقید کا نشانہ بن گئیںFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

ہم فحش مواد کیوں دیکھتے ہیں؟FOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

گزشتہ دنوں پاکستانی نژاد برطانوی شہری عابدہ احمد کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام ہوا۔ اس نشست میں موضوع کے حساب سے کچھ نیا تو نہیں تھا البتہ عابدہ کے تجربے اور ان کے خیالات سے کافی کچھ سیکھنے کو ملا۔ عابدہ احمد برطانیہ کی پہلی مسلم خاتون ہے جس نے سیکس ایڈکشن کاؤنسلنگ میں تربیت حاصل کی ہے۔ انھوں نے ڈیویلپمنٹ اسٹڈیز اور انگلش لٹریچر میں ماسٹرز بھی کیا ہوا ہے اور اس وقت “امانہ کاؤنسلنگ” کے نام سے اپنا ادارہ چلا رہی ہیں۔

ہماری گفتگو زیادہ تر فحش مواد کو دیکھنے کی لت میں مبتلا لوگ اور اس سے بچاؤ طریقوں کے ارد گرد ہی گھومتی رہی۔ اس پوری گفتگو کو ایک تحریر میں سمیٹنا مشکل ہوگا، لہذا اس گفتگو کے کچھ چیدہ چیدہ پوائنٹس پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔

بات چیت کا آغاز نادیہ (نام بدل دیا گیا ہے) نامی بائیس سالہ لڑکی کی کیس اسٹڈی سے ہوا۔ نادیہ کو بارہ سال کی عمر میں ہی انٹرنیٹ میں پورن سائٹس (فحش مواد) تک رسائی ملی۔ اور وہ اب تک اس لت سے خود کو باہر نہیں نکال پائی ہے۔ وہ اس وقت یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے۔ گزشتہ سال عمرہ کی ادائیگی کے بعد وہ مزید پریشانی اور ڈپریشن کا شکار رہی۔ نادیہ اس وقت مشاورتی عمل سے گزر رہی ہے اور دوبارہ ایک عام زندگی میں آنے کی کوشش کر رہی ہے۔

مڈل سیکس یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق 11 سے 16 سال کے درمیان 53 فیصد بچے فحش مواد باقاعدہ دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ جبکہ ان میں سے 94 فیصد 14 سال تک پہنچتے ہی یہ مواد دیکھ چکے ہوتے ہیں۔

پورن یا فحش مواد کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو یہ انتہائی حیران کن ہے۔ اس وقت پورن انڈسٹری 97 بلین ڈالر کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے اور اس کی مالیت ایپل، یاہو، گوگل اور نیٹ فلیکس کی مجموعی آمدنی سے بھی زیادہ ہے۔

دنیا میں 50 سے 75 فیصد مرد اور خواتین آن لائن پورن سائٹس کو باقاعدہ دیکھتے ہیں۔ سرچ انجنز کو روزانہ 68 ملین درخواستیں فحش سائٹس تک رسائی کی موصول ہوتی ہیں۔ ان میں سے 25 فیصد لفظ “پورنوگرافی” سرچ کرتے ہیں اور اس میں بھی سب سے پہلا لفظ “Teen” ہوتا ہے۔ Your Brain On Porn نامی مشہور سائٹ کے مطابق روزانہ بیس ہزار نئے اور منفرد لوگ ان سائٹس کو دیکھتے ہیں۔

ہر سیکنڈ تقریباً 30 ہزار لوگ فحش ویب ‌سائٹس کو دیکھتے ہیں۔ ہر منٹ تقریباً 17 لاکھ سے زیادہ فحش ای‌ میلز بھیجی جاتی ہیں۔ جبکہ صرف امریکہ میں ہر گھنٹے بعد تقریباً دو فحش فلمیں ریلیز ہوتی ہیں۔ پوری دنیا میں فحش مواد یکھنے میں جو دس ممالک سر فہرست ہیں، ان میں سے پہلے چھ ممالک اسلامی ہیں۔ پاکستان کے بعد مصر کا نام آتا ہے۔ مصر کے بعد ایران، مراکش، سعودی عربیہ اور ترکی کا نمبر آتا ہے۔ جہاں بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ کے ذریعے فحش مواد دیکھا جاتا ہے۔

سیکس ایڈکشن کی اصطلاح سب سے پہلے اسی کی دہائی میں پیٹرک کارنس کی وجہ سے مشہور ہوئی۔ انھوں نے اسے غیر محفوظ جنسی طرز عمل کا حصہ قرار دیا۔ اگر یہ رویہ مخفی ہو، خود کے لیے یا دوسروں کے لیے نقصان دہ ہو، دردناک احساسات اور تعلقات سے بچنے کے لیے انجام دیا جائے تو پھر یہ سیکس ایڈکشن ہے۔

ایڈکشن یا کسی لت میں مبتلا ہونے کی دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم کیمیائی ہے جس میں ادویات اور شراب وغیرہ، جبکہ دوسری قسم رویے کی ہے جس میں فحش مواد دیکھنا اور جوا وغیرہ شامل ہیں۔ فحش مواد کو دیکھنے کی لت میں مبتلا ہونے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، مگر ٹرپل اے انجن کے نام سے تین وجوہات مشہور ہیں: جن میں پہلی وجہ با آسانی رسائی، دوسری وجہ کم قیمت میں دستیابی اور آخری وجہ شناخت کا ظاہر نہ ہونا بتایا گیا ہے۔

دوران گفتگو ایک سوال مجھے تنگ کر رہا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ کسی طرح میرے سوال کی وجہ سے گفتگو کی روانی میں خلل پڑے یا بات کسی اور سمت چلی جائے۔ موقع ملتے ہی میں نے سوال داغ دیا کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے ہمارا دماغ اس لت کو اپنا لیتا ہے؟ عابدہ نے ہلکی سی مسکراہٹ کا تبادلہ کیا اور اپنے مخصوص برطانوی انگریزی لہجے میں بولنے لگی: ’’لامتناہی انوکھا پن، ڈوپامین (دماغ میں پایا جانے والا مرکب جو عصبی ترسیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے) کا متحرک رہنا جو بھوک کی کفیت پیدا کرے۔ اکثر اوقات یہ فحش مواد ڈوپامین کو اس حد تک متحرک کر دیتا ہے کہ احساس ہونے لگتا ہے کہ اس سے زیادہ خوشی تو کہیں اور مل ہی نہیں سکتی۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑھتی ہوئی شرم کے ساتھ منشیات کا استعمال بھی کیا جائے تو یہ دردناک جذبات سے فرار ہونے کی خواہش میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کی اور بھی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اور انھوں نے بہت ساری مثالوں کا سہارا بھی لیا جو اس سوال کے جواب کو سمجھنے میں کافی معاون تھیں۔

ساتھ بیٹھا ایک ساتھی اس پوری گفتگو کو انتہائی انہماک سے سن رہا تھا۔ آخر وہ بھی ایک سوال کی صورت میں بول ہی پڑا کہ ایک شخص اگر تنہائی میں اپنے لیپ ٹاپ یا موبائل میں یہ مواد دیکھ رہا ہے تو اس سے کسی کو تکلیف کیوں ہو جاتی ہے؟ میرے حساب سے اس کے کوئی خطرناک نتائج تو نہیں بنتے؟ اس سوال کو سن کر عابدہ احمد کچھ دیر تک خاموش رہیں، پھر کہنے لگیں کہ ہماری آج کی گفتگو کا نچوڑ بھی آپ کے اس سوال میں پوشیدہ ہے۔ برطانیہ کی نیو کاسل یونیورسٹی کے محقیقین کے مطابق ورچوؤل ریلیٹی (مجازی حقیقت) کی وجہ سے اب فحش مواد دیکھنے والا صرف اُسے علیحدہ سامع کے طور پر دیکھ ہی نہیں رہا ہوتا ہے بلکہ وہ خود اس کا مرکزی کردار بھی بن جاتا ہے۔ یوں حقیقت اور تصوراتی دنیا کے درمیان فرق کم رہ جاتا ہے اور آپس کے تعلقات خراب ہونے اور نقصان دہ رویے کی حوصلہ افزائی کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق اب جتنا بھی فحش مواد انٹرنیٹ پر اپلوڈ کیا جاتا ہے، اس میں جارحیت دکھایا جا رہا ہے۔ اور اس جارحیت کا ارتکاب کرنے والے زیادہ تر مرد ہی ہوتے ہیں۔ اور حیران کن طور پر نشانہ بننے والی عورت جارحیت پر مبنی جنسی تعلق سے لطف اندوز ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اور ایسے مناظر بلا شبہ معاشرے میں جارحیت اور تشدد کو فروغ دینے کا باعث بن سکتے ہیں۔ البتہ اس حوالے سے ایسی تحقیقات بھی ہیں کہ فحش مواد کا جنسی تشدد کے واقعات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اب تک کی تحقیقات کے بعد ریسرچرز کا یہ بھی خیال ہے کہ مردوں کی اسٹریاٹیم (دماغ کا ایک حصہ جو لذت کا احساس دلاتا ہے) کثرت سے فحش مواد دیکھنے سے سکڑتی ہے۔

فحش مواد کے عادی لوگوں کے بارے میں خیال ہے کہ وہ خاتون کے ساتھ بات چیت کرنے کے بجائے انھیں اکثر جنسی تسکین پہنچانے والی ایک شے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس سے جنسی جذبات، صبر، یادداشت اور توجہ کی کمی بھی واقع ہو جاتی ہے۔ اور ساتھ زنا، طلاق، تشدد اور خودکشی کے واقعات میں اضافے کا خدشہ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔

اکثر جو کچھ ان فحش مواد میں دکھایا جاتا ہے وہ ضروری نہیں کہ حقیقی زندگی میں بھی ہو، کچھ لوگ اس حقیقت کو سمجھے بغیر اپنی حقیقی جنسی زندگی کو بے معنی سمجھتے ہیں یا پھر اس میں خود ہی کوئی خامی و غلطی کا اندیشہ ظاہر کرتے ہیں۔

ایک اور تحقیق سے یہ بات سامنے آگئی ہے کہ جو لوگ فحش مواد دیکھتے ہیں، ان کے زیادہ لوگوں کے ساتھ جنسی تعلقات ہوتے ہیں۔ ان کے معاشقے بھی زیادہ ہوتے ہیں اور رقم ادا کرکے کسی کے ساتھ جنسی تعلق استوار کرنے کے امکانات بھی موجود ہوتے ہیں۔ بحرحال یہ بات بھی حقیقت ہے کہ فحش مواد کے منفی اثرات کا انحصار اس بات پر ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی انسان اس کا استعمال کس طرح کرتا ہے۔

اب ہم سب کے ذہنوں میں جو سوال پیدا ہو رہا تھا اسے عابدہ احمد نے بھانپ لیا اور کہنے لگی: آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس صورت حال سے باہر کیسے نکلا جائے۔! ان کے مطابق اس کے تین درجے ہیں۔ پہلا یہ کہ اس کا سامنا کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ انکار کرنے کے بجائے اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے۔ تیسرا یہ کہ لڑا یا مقابلہ کیا جائے۔

فحش مواد دیکھنے کی عادت میں مبتلا لوگ بہت ساری جگہوں سے مدد لے سکتے ہیں۔ انھیں مشاورتی اداروں سے رابطہ کرنا چاہئے۔ اس حوالے سے بہت سارے اچھے اداروں کا مواد آن لائن بھی موجود ہے جس سے استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ گھر میں اگر یہ خوف ہو کہ کم عمر بچے ایسے مواد تک رسائی حاصل نہ کریں اس کے لیے فلٹرز انسٹال کئے جا سکتے ہیں۔ دماغ، جسم اور روح میں توازن برقرار رکھتے ہوئے اپنے اندرونی اقدار اور توانائیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اپنے جیون ساتھی کے ساتھ مل کر اپنے موجودہ وسائل کو دیکھتے ہوئے ایک خوبصورت معیار زندگی کا خاکہ کھینچ لیں، اس میں کسی سے متاثر ہونے کی ہرگز کوشش نہ کریں۔ مثبت جنسی تعلقات کو سمجھیں۔ دین اور دنیا کو بہتر طریقے سے چلائیں اور ایک کی وجہ سے دوسرے کو مکمل سائیڈ لائن نہ ہونے دیں۔ اپنے توقعات کو اپنے کنٹرول میں رکھیں۔

نیشنل ہیلتھ سروس برطانیہ نے جنسی نشے اور منشیات کے نشے کو ایک جیسا قرار دے کر کہا ہے کہ اس بیماری والے بغیر کسی کنٹرول کے فحش مواد دیکھنے کی عادت میں مبتلا ہوسکتے ہیں جس کے بارے میں وہ سوچتے ہیں کہ یہ ان کے کنٹرول سے باہر ہے۔

ایک سوال جو اس گفتگو کے درمیان میں پوچھا گیا تھا، اسے میں اس تحریر کے آخر میں لکھ رہا ہوں۔ سوال یہ تھا کہ والدین کیا کریں؟ اس سوال کے کچھ جواب تو اوپر آ چکے ہیں۔ عابدہ احمد اس بارے میں مزید کہتی ہیں کہ پہلی اور اہم بات یہی ہے کہ والدین اور بچے آپس میں کھل کر بات چیت کریں۔ خاص کار بچوں کو یہ حوصلہ دیا جائے کہ جو بھی بات یا چیز انھیں اجنبی یا ناگوار لگے اس کا ذکر اسی وقت اپنے والدین کے ساتھ کر سکیں۔ معاشرے کے حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے جنسی تعلیم کو سمجھ سکیں۔ بچے جن سائٹس کو وزٹ کرتے ہیں یا جو ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں ان پر ہمیشہ نظر رکھیں۔ ٹی وی دیکھنے، نیٹ پر بیٹھنے یا ویڈیو گیمز کھیلنے کے وقت کو محدود کر دیں۔ اور اس کا عملی مظاہرہ والدین کو خود ہی کرنا ہوگا۔

بچوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی نظر رکھیں۔ یہ ضرور دیکھیں کہ وہ کس عمر کے لوگوں کے ساتھ دوستی کر رہے ہیں اور اپنے سوشل میڈیا میں کس طرح کا مواد اپلوڈ کر رہے ہیں۔ اور ضرورت کے مطابق اس حوالے سے ان کی تربیت اور رہنمائی بھی کریں۔ انھیں اس بات کی وضاحت کریں کہ حددود میں رہنا کیوں ضروری ہے اور اگر نہ رہا جائے تو کس طرح کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post ہم فحش مواد کیوں دیکھتے ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2rWAYpH
via IFTTT

مسافر طیارے کی جنگی جہاز کی طرح اڑانFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

برلن: کمرشل طیارے ایئربس 350 کی  جنگی طیارے کی طرح عمودی اڑان نے سب کو حیران کردیا۔

جنگی طیاروں کی گھن گھرج کے ساتھ اڑان اور خلا میں راکٹ کی پرواز  تو آپ نے عمومی طور پر دیکھی ہوگی لیکن کبھی کسی مسافر طیارے کو عمودی سمت میں اڑان بھرتے دیکھا ہے؟اگر نہیں تو دل تھام کررکھیں کیونکہ اب ایک پلائٹ نے جنگی طیارے کی طرح عمودی اڑان بھر کر سب کو ہکا بکا کردیا۔

برلن میں ہوئے ایک ایئرشو کے دوران جہاں بہت سے طیاروں نے کرتب دکھائے وہیں ایک ایئربس 350 نے بھی ایسا اسٹنٹ کیا جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پائلٹ نے طیارے کو ایسے ٹیک آف کرایا جیسے ایک جنگی جہاز اڑان بھرتا ہے۔

اس حیران کن ٹیک آف میں طیارہ جیسے ہی زمین سے اوپر اڑتا ہے تو وہ عمودی سمت میں پرواز کرنے لگتا ہے ،اس منظر کو دیکھنے والے دنگ رہ گئے اور  کیمروں کے ذریعے اس یادگار لمحے کو عکس بند کرلیا۔

The post مسافر طیارے کی جنگی جہاز کی طرح اڑان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2GyTTvY
via IFTTT

عدالتی فعالیتFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

محمد مشفع احمد ایڈووکیٹ  (اسکالر لاء ریسرچ)

عدلیہ کے ہر جج پر لازم ہے کہ وہ ہر سائل کو شفاف انصاف فراہم کرے، اس لیے عدلیہ کے باضمیر ججوں نے اپنے حلف کا پاس رکھتے ہوئے اپنے اوپر کی جانے والی تنقید کی پروا نہ کرتے ہوئے عدالتی فعالیت (Judicial Activisim) اور عدالتی جائزہ(Judicial Review) کے طریقے کو اپنایا اور لوگوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی۔ عدالتی فعالیت اور عدالتی جائزہ وہ طریقۂ قانون ہے جس کے ذریعے ججز اپنی ساری زندگی کے تجربے اور اپنے علم و حکمت کی بنیاد پر طالب انصاف کو انصاف فراہم کرتے ہیں، خواہ اس کے لیے قانونی شقوں کو نرم کیا جائے اور راہ میں مزاحم رکاوٹیں دور کرکے انصاف یقینی بنایا جائے، کیوںکہ قانونی عمل کا جاری و ساری رہنا ہی کسی معاشرے کی کام یابی اور آزادی کی ضمانت ہے۔

معاشرہ اور زندگی جب آگے بڑھتی ہے تو سماجی، سیاسی، قانونی مسائل بھی بہ تدریج نئے انداز میں جنم لیتے رہتے ہیں۔ اگر معاشرے کو مسائل حل کرکے آگے نہ بڑھایا جائے، انصاف کا حصول دشوار ہوجائے تو افراتفری اور انارکی جنم لیتی ہے۔ اس لیے فی زمانہ عدالتی فعالیت اور عدالتی جائزہ نہ صرف لوگوں کے مسائل کے حصول میں ممد و معاون ہے بلکہ معاشرے کو آگے بڑھانے اور سیاسی منظر نامے میں تیزی سے تبدیلی، اخلاقی قدروں میں تبدیلی، عوامی مفاد عامہ کی گمبھیر صورت حال، انسانی جبلت کی خودغرضی، لالچ، ہوس، لامحدود اختیارات کی صوبائی نسلی تعصب کے پھنکارتے ہوئے ناگوں کو قابو کرنے کے لیے عدالتی فعالیت موثر کردار ادا کرتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ آج ترقی یافتہ ممالک امریکا، برطانیہ بھی اپنے مسائل کو عدالتی فعالیت ہی سے کنٹرول کرسکے ہیں۔

اس کے علاوہ پارلیمانی نظام میں وزیراعظم، صدارتی نظام میں صدر اور چند لوگ مل کر اگر آمریت مسلط کردیتے ہیں، تو ایسے میں صرف اعلیٰ عدلیہ ہوتی ہے جو ایک طویل جدوجہد کرکے حاصل ہونے والے عدالتی فعالیت اور عدالتی جائزے کے حق کے ذریعے غیرآئینی اور بدنیتی پر مبنی ہر عمل کو، جو مقتدر ادارے جبراً لوگوں پر تھوپ دیتے ہیں، جزوی یا مکمل طور پر غیرآئینی قرار دے، اس کے مرتکب افراد یا اداروں کو سزا دے اور آیندہ کے لیے پیش بندی کرے۔

امریکا میں اسی عدالتی فعالیت اور عدالتی جائزے نے امریکی معاشرے کو بھیانک نسلی امتیاز کی جنگ سے نکال کر دنیا میں ایک اعلیٰ مقام عطا کردیا۔ امریکا کی سپریم کورٹ نے ایک قانون کو موثر بہ زمانۂ ماضی (Retropective Effect) سے نافذ کردیا اور وہ جرم جس کی سزا جرم کے وقت کم تھی بڑھا دی، بلکہ ایک اپیل کے نتیجے میں جو لوگ سزا کاٹ رہے تھے ان کی سزا بھی بڑھا دی، کیوںکہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ منشیات فروشی کے کاروبار میں سزاؤں میں نسلی امتیاز (کالے اور گورے) کو ملحوظ رکھا گیا۔

امریکی معاشرے نے 2010 کے اس فیصلے کو عظیم تر قومی مفاد میں ہضم کرلیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ امریکا میں بدترین نسلی ہنگامے پھوٹ پڑے جن کو (Red Summer 1919) ریڈ سمر 1919 کا نام دیا گیا، جو امریکا کے شمال اور جنوب سے ہوتے ہوئے شکاگو اور واشنگٹن DC تک پھیل گئے۔ ہنگامے اس قدر بڑھے کہ سیاہ فام لوگوں کو مختلف شہروں کی طرف ہجرت کرنی پڑی، جس کے باعث روزگار اور رہائش کے مسائل نے جنم لیا، لیکن عدالتوں نے مسلسل کام کرکے عدالتی فعالیت (Judicial Activism) پر عمل کرتے ہوئے ان حالات کو ٹھیک کردیا۔

جسٹس فرینک مرفی کا نام ممتاز حیثیت رکھتا ہے جنہوں نے اپنے فیصلوں میں مقصدیت اور انفرادیت اُجاگر کرنے کے ساتھ  حقوق انسانی، شخصی انفرادی حقوق کے حوالے سے اعلیٰ اور قابل تقلید فیصلے کیے۔ انھوں نے عدالتی فعالیت پر تنقید کرنے والوں کے جواب میں کہا،’’ہم تمام اکثریت سے منتخب ہونے والے لوگوں کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں، لیکن لوگوں کے بنیادی حقوق کے منافی کسی ایکشن یا قانون کو نظرانداز نہیں کریں گے اور جمہوریت کو کسی طور برباد ہوتا برداشت نہیں کرسکتے۔‘‘ 1803 میں ماربری بہ خلاف میڈیسن Marbury Vs Madison کیس میں، جسے ہم عدالتی فعالیت کی ابتدا کہہ سکتے ہیں، عدالتی جائزہ (Judicial Review) کرکے انتہائی بہادری سے امریکی معاشرے اور نظام کو بچالیا گیا۔

Plessy Vs Ferguson Case کیس کے فیصلے کے تحت کالوں اور گوروں کے علیحدہ اسکول Separate But Equal کی بنیاد پر قائم کردیے گئے تھے، Brown Vs Board of Educationکے کیس میں اعلیٰ عدلیہ نے Separate But Equal کے اصول کو ختم کرکے قوم پر ایک احسان کردیا کہ نسلی امتیاز کی پالیسی جو قانوناً جائز قرار دے دی گئی تھی ختم کردی گئی۔

اسی طرح بھارت میں عدلیہ کی اصل طاقت عدالتی فعالیت ہے۔ 29 ریاستوں اور سات غیرجانب دار علاقوں پر مشتمل بھارت کی آبادی ایک سو بتیس کروڑ افراد سے زیادہ ہے جس میں ہندو، مسلم، سکھ، بدھ مت، جین مت کے پیرکار اور عیسائی آباد ہیں، جہاں نسلی اور مذہبی تعصب ہر لمحہ پھوٹنے کے لیے تیار رہتا ہے، یہ صرف عدلیہ کی فعالیت اور عدالتی جائزے کی قوت ہے جس نے ریاست کو مطلق العنانیت سے روکا ہوا ہے اور جمہوری عمل جاری ہے۔

یہ بھارتی عدلیہ ہے جس نے بڑے بڑے طاق تور لوگوں اور کرپشن مافیا کو تاریخ کے ایک بہت بڑے فراڈ پر سزا سُنائی۔ یہ فراڈ واٹرگیٹ کے بعد سب سے بڑا فراڈ کہلاتا ہے، جس میں بڑے بڑے سیاست داں اور بیورو کریٹس شامل تھے۔ یہ 26 اسپیکٹرم ٹیلی کام 26 Spectrum Case ہے، جس میں 1.76 لاکھ کروڑ روپے کے گھپلے کا تخمینہ لگایا گیا۔ اس معاملے کی تحقیقات 80 ہزار صفحات پر مشتمل تھی۔ چارا گھٹالا کیس جس میں لالوپرشاد (جس نے انڈین ریلوے کو نقصان سے نکال کر فائدے میں داخل کردیا اور جسے دنیا میں سمجھا اور پڑھا جاتا ہے) کو 22 سال پرانے کیس میں سزا ہوئی اور سیاست کے لیے نااہل ہونا پڑا اور بہار کے چیف منسٹر جگن ناتھ مشرا کو مستعفی ہونا پڑا۔ بھارت میں عدلیہ واضح طور پر تین جہتی عدالتی جائزے کے طریقۂ کار پر عمل کرتی ہے۔

(1)۔ مقننہ کی قانون سازی کا عدالتی جائزہ۔ (2)۔ آئینی ترمیمات کا جائزہ۔ (3)۔ افسران اعلیٰ (Authorities) کی انتظامی کارروائیوں کا جائزہ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عدالتی فعالیت کی ابتدا، ہندوستان ٹائمز (نیو دہلی) یکم اپریل 1996 کے مطابق جسٹس سید محمود نے، جو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج تھے، فیصلے میں ایک اختلافی نوٹ (Dissenting Note) لکھ کر کی۔ اس طرح وہ عدالتی فعالیت کے بانی کہلاسکتے ہیں۔

بھارت میں عدالتی فعالیت کے حامی ججز اپنے حلف کے پاس دار، آزاد منش پالیسی ساز اور انسانی حقوق اور آئین کے علم بردار ہیں، اسی لیے انہوں نے معاشرے کا مکمل اعتماد بھی حاصل کر لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھوپال ٹریجڈی کیس اور جیسیکا قتل کیس میں قوت اقتدار اور پیسے کے بھرپور استعمال نے شروع میں سچائی کو زیر کرلیا، مگر عدالتی جائزے نے تمام منفی قوتوں کو بے نقاب کردیا۔

ملائیشیا کے جسٹس وان یحییٰ نے اپنے ایک فیصلے میں لکھا کہ اگر مملکت کا کوئی اعلیٰ عہدے دار اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے تو کوئی بھی شہری Sperited Person چاہے اس کا معاملے سے کوئی براہ راست تعلق نہ بھی ہو تب بھی اگر وہ عدالت سے رجوع کرے تو عدالت کو اس کے تحفظات کا احترام کرنا چاہیے اور اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے مناسب فیصلہ/ کارروائی کرنی چاہیے۔

جسٹس کرشناآیر (Justice Krishna IYer) نے چیف جسٹس پی۔این۔بھگوتی (P.N Bhagwati) کو اپنے ایک خط میں لکھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ عدلیہ عدالتی فعالیت میں سرگرمی دکھائے اور عدالتی ویژن کا مظاہرہ کرے۔ ہم عوام کو بدعنوان افسران کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ ہر گزرتا ہوا گھنٹہ بلکہ ہر گزرتے ہوئے لمحے میں ہم تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہمیں عدالتی ویژن کا مظاہرہ کرنا چاہیے، کیوںکہ عوام فرداً فرداً ہر اتھارٹی کے خلاف کھڑے ہوجائیں تو سوائے افراتفری کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اس لیے یہ وقت کا تقاضا ہے کہ عدالت حکمت و دانائی کا مظاہرہ کرے، تاکہ معاشرے میں امن قائم ہوسکے۔ بالکل اسی طرح جس طرح سپریم کورٹ آف امریکا، صدر یا کانگریس کے کسی بھی فیصلے کا عدالتی جائزہ یا عدالتی نظرثانی کرسکتی ہے۔

پاکستان میں بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کو عدالتی فعالیت اور عدالتی جائزے کا مکمل حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی اتھارٹی یا عدالتی فیصلے کا جائزہ لے کہ وہ عام لوگوں کے بنیادی حقوق سے متصادم تو نہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے تذکرہ کرچکے ہیں کہ اس کی ابتدا سپریم کورٹ آف امریکا نے 1803 میں ماربری بخلاف میڈیسن (Marbury Vs Madison) کیس سے کی۔ اس طرح عدالتی فعالیت (Judicial Activism) اور عدالتی نظرثانی (Judicial Review) کا آغاز ہوا۔ پاکستان میں بھی سپریم کورٹ آف پاکستان نے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کیس PLD 1964 SC 673 میں عدالتی نظرثانی کا حق استعمال کرتے ہوئے یہ فیصلہ (Verdict) دیا کہ معاشرے میں لوگوں کے بنیادی حقوق اصل ہیں، جن کی پامالی ناقابل برداشت ہے۔ ہر وہ فیصلہ جو کسی اتھارٹی یا عدالتی فیصلہ جو بنیادی حقوق کے منافی ہے باطل ہے۔

بے نظیر بھٹو کیس (PLD 1988 SC 615) میں عدالت عالیہ نے یہ اصول اپنایا کہ اگر مفاد عامہ کے کیسز میں بنیادی حقوق کا مسئلہ درپیش ہو تو سخت مروجہ اصولوں کو تبدیل کرکے انصاف بہم پہنچایا جائے تاکہ سخت عدالتی طریقۂ کار بنیادی حقوق کی راہ میں مزاحم نہ ہوں۔ اس طرح بے نظیر بھٹو کیس میں وضع کردہ اصولوں نے انصاف کی فراہمی کو آسان کردیا گیا۔ مشہور کیس ’’درشان مسیح (PLD 1990 SC 513) میں عدالت عالیہ نے ایک ٹیلی گرام / خط کو پٹیشن میں تبدیل کرکے بھٹہ مزدوروں کو انصاف فراہم کیا، کیوںکہ اس ٹیلی گرام / خط میں لکھا تھا کہ مالکان بھٹہ نے مزدوروں، عورتوں اور بچوں کو قید کرلیا ہے۔ جو بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور در بدر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ہمیں انصاف فراہم کیا جائے اور ظلم سے نجات دلائی جائے۔ عدالت عالیہ نے مروجہ سخت اصولوں کو تبدیل کرکے فوری انصاف فراہم کیا اور ان لوگوں کو جبر سے نجات دلائی۔

پاکستان کی عدالتی تاریخ شروع سے کش مکش کا شکار رہی ہے۔ اس رسّا کشی میں عموماً عدالتی فیصلے شدید تنقید کی زد میں رہے ہیں، کیوںکہ ہماری عدلیہ نے اچھے فیصلے بھی دیے ہیں۔ مگر دباؤ میں آکر امراء کو راستہ (Relief) دینے کے لیے کبھی نظریہء ضرورت اور کبھی کیلسن (Kelson) تھیوری کو اپنایا گیا۔ اس طرح لوگوں کو جمہوریت سے دور اور بنیادی حقوق سے محروم کیا گیا۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ظفر علی شاہ کیس (PLD 2000 SC 869) میں پرویز مشرف کو وہ اختیارات عطا کردیے گئے جو خود سپریم کورٹ کو حاصل نہ تھے۔ ایک طرف عدالت عالیہ نے ملک کو جمہوریت کی پٹری سے اُتار دیا اور پرویز مشرف کی غیرجمہوری حرکت کی توثیق کردی بلکہ جو اختیارات سپریم کورٹ کو حاصل نہیں ہیں وہ بھی دے دیے۔ یعنی فرد واحد تین سال تک آئین میں جو چاہے تبدیلی کرلے۔

سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار نے جب آمر کے حکم پر استعفیٰ دینے سے انکار کردیا تو ملک کے عوام نے چوہدری افتخار کو سر پر بٹھا لیا۔ مگر چوہدری افتخار نے بہترین کام کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو 110 بہترین جوڈیشل اذہان سے محروم کردیا اور 110 ذہین ججز فارغ کردیے گئے۔ تاہم چوہدری افتخار نے عدالتی فعالیت اور عدالتی جائزے کے عمل کو تیز کرکے مفاد عامہ کے مسائل حل کرنے اور لوگوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کی بہترین کوششیں کیں۔

یہاں ہم جسٹس حلیم کی خدمات کو فراموش نہیں کرسکتے، جنھوں نے برملا اظہار کیا کہ انڈیا میں ایس پی گپتا بہ خلاف وی۔ایم۔ٹرکنڈی کیس (AIR 1982 SC 149) میں جو اصول وضع کیے گئے ہیں مثلاً حق مداخلت (Locus Standi) کو ختم / نرم کرکے ہم کسی بھی شخص گروپ یا طبقے کو بنیادی حقوق فراہم کرسکتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے عوامی مفاد عامہ کے کیس میں آئین کے آرٹیکل 184(3) کو استعمال کرتے ہوئے انصاف کے دروازے کھول دیے۔

اسما جیلانی کیس (PLD 1972 SC 139) میں جسٹس حلیم نے جسٹس حمود الرحمن کے اس سنہری فیصلے کا سہارا لیا کہ ’’قانون ساکت و جامد نہیں‘‘ اور ’’عدلیہ غلام نہیں ہے۔‘‘

The post عدالتی فعالیت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IuHeQh
via IFTTT

مہاتر محمد کی حیران کن واپسیFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

ساٹھ برس سے حکمرانی کے مزے لینے والی جماعت  کو ایوان اقتدار سے کیسے نکال باہر کیاجاتاہے ؟ ملائشیا میں ہونے والے حالیہ انتخابات اس سوال کا بہترین جواب ہیں۔ اسی ایک سوال اور جواب کو ملائشیا کی پوری تاریخ قراردیاجاسکتاہے۔

گزشتہ ہفتے تک کی حکمران جماعت یونائیٹڈ مالائز نیشنل آرگنائزیشن(امنو) کو عشروں پہلے اقتدارجس شخص نے دلایاتھا، اس کا نام  مہاترمحمد تھا ،  اور اس  سے اقتدارچھیننے والے شخص کا نام بھی مہاترمحمد ہے۔ اس نے ایک حیران کن کارنامہ سرانجام دیاہے اور  ثابت کردیا کہ 92برس کی عمر میں بھی کسی مضبوط پارٹی کا دھڑن تختہ کیاجاسکتاہے۔ اسی مہاترمحمد نے دوعشرے قبل اپنے نائب وزیراعظم اور پارٹی سربراہ انورابراہیم کو گرفتارکرکے جیل میں ڈالاتھا، موخرالذکر پرانتہائی سنگین الزامات عائد کرکے  اسے بدترین سزائیں دیں، اب اسی مہاترمحمد نے اسی انورابراہیم کی مدد سے وزیراعظم نجیب رزاق کوبدترین شکست سے دوچارکیا۔

انسانی تاریخ کے سب سے بوڑھے وزیراعظم مہاترمحمد جون1981ء سے اکتوبر2003ء تک، 22 برس  ’امنو‘کے سربراہ بھی رہے ہیں۔1964ء سے 1999ء تک،  اسی جماعت کا پرچم لہراتے ہوئے مسلسل ہر عام انتخابات میں اپنے مخالفین کو شکست دیتے رہے، گزشتہ ہفتے انھوں نے ’امنو‘ کے امیدوار کو بھی شکست دی اور اپنی دیرینہ مخالف جماعت ’پاس‘ کے نمائندے کو بھی۔ نومئی کو ہونے والے عام انتخابات میں مہاترمحمد اور ان کے اتحادیوں نے 124نشستیں حاصل کیں، یادرہے کہ ملائشیا میںحکومت سازی کے لئے 222نشستوں کی پارلیمان میں 112نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ انتخابی نتائج سامنے آتے ہی بدعنوانی اور اقرباپروری کے الزامات سے لتھڑے ہوئے نجیب رزاقنے اعلان کیا کہ وہ عوامی فیصلے کو قبول کریں گے۔

تازہ انتخابات میں نجیب رزاق کا ’نیشنل فرنٹ‘ محض 79حلقوں میں کامیابی حاصل کرسکا،2013ء کے عام انتخابات میں اس کی سیٹیں133تھیں۔ اب کی بار مہاترمحمد اور انورابراہیم کی قیادت میں ’الائنس فار ہوپ‘ نے مجموعی طور پر113نشستیں حاصل کیں، گزشتہ انتخابات میں ان کے 67نمائندے پارلیمان میں پہنچے تھے۔

کامیابی حاصل کرنے والا اتحاد انورابراہیم کی پیپلزجسٹس پارٹی، مہاترمحمد کی ملائشین یونائیٹڈ انڈیجینئس پارٹی، تان کوک وائی کی ڈیموکریٹک  ایکشن پارٹی اور محمد صابو کی نیشنل ٹرسٹ پارٹی کا مجموعہ ہے،  پیپلزپارٹی جسٹس پارٹی نے48، ڈیموکریٹک  ایکشن پارٹی نے42 ،’ملائشین یونائیٹڈ انڈیجینئس پارٹی‘ نے12 جبکہ نیشنل ٹرسٹ پارٹی(امانہ) نے 11 نشستیں حاصل کیں۔

دوجماعتوں نے اس اتحاد کی حمایت کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیاتھا، ان میں سے ایک ’صباح  ہیریٹیج پارٹی‘  نے 8نشستیں حاصل کیں۔ ملائشیا کی اسلامی تحریک ’ملائشین اسلامک پارٹی‘(پاس) نے بھی 18نشستیں حاصل کیں۔ گزشتہ عام انتخابات میں اس کی نشستیں 21تھیں۔ اگرانتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں کی انفرادی کارکردگی کا جائزہ لیاجائے تو انورابراہیم کی جماعت سب سے آگے رہی، اس نے71نشستوں، مہاترمحمد کی پارٹی نے 52نشستوں  جبکہ نجیب رزاق کے شکست خوردہ اتحاد نے222نشستوں پر انتخاب لڑاتھا۔ نجیب رزاق کے لئے یہ انتخابات سیاسی زندگی اور موت کی حیثیت رکھتے تھے۔

پانچ برس قبل ہی رائے عامہ کے جائزے اشارے دے رہے تھے کہ انورابراہیم اور ان کے اتحادی غیرمعمولی طور پر مقبولیت حاصل کررہے ہیں، مئی 2013ء میں سامنے آنے والی ایک سروے رپورٹ میں بتایاگیا کہ انورابراہیم  کے اتحاد ’الائنس فار ہوپ‘ کو 50.87 فیصد لوگوں کی حمایت حاصل ہے جبکہ نجیب رزاق کا اتحاد47 فیصد پر پہنچ چکاہے۔ اگست2016ء کے ایک جائزے میں ’الائنس فار ہوپ‘  کی عوامی حمایت 59فیصد تک پہنچ گئی جبکہ نجیب رزاق کا گراف 29فیصد تک گرگیا۔

اس کے بعد سامنے آنے والے دیگر جائزے بھی نجیب رزاق کے لئے خوفناک تھے، بالآخر تقریباً وہی کچھ ہوا جس کے اشارے دئیے جارہے تھے۔ مہاترمحمد اور انورابراہیم کے اتحاد کو 55.86فیصد نشستیں ملیں جبکہ نجیب رزاق کے اتحاد کا حصہ 35فیصد رہا۔ یہ ایک ایسے حکمران اتحاد کے خلاف غیرمعمولی نتائج تھے جس نے ملک میں سول مارشل لا قائم کررکھاتھا۔ عدالتیں اس کے اشارہ ابرو پر ناچتی تھیں اور حکومتی مخالفین پر شرمناک الزامات ’’ثابت‘‘ کرتیں اور بدترین سزائیں دیتی رہیں۔

نتائج سامنے آنے کے  اگلے ہی روز مہاترمحمد نے وزیراعظم جبکہ عزیزہ اسماعیل نے نائب وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ عزیزہ اسماعیل مہاترمحمد کے دیرینہ رفیق اور بعدازاں ان کے انتقام کا نشانہ بننے والے انورابراہیم کی اہلیہ ہیں۔دوعشرے قبل مہاترمحمد نے بعض پارٹی لیڈروں کی کاناپھوسی سے اثرلیتے ہوئے اپنے ممکنہ جانشین انورابراہیم کو حکومتی اور پارٹی عہدوں سے فارغ کردیاتھا۔ ’امنو‘ کے بعض لوگ انورابراہیم کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ پارٹی اور ملک میں اصلاحات کی سوچ رکھتے تھے۔ یہ مہاتر محمد ہی تھے جنھوں نے انورابراہیم کو انتہائی سنگین اور شرمناک الزامات کے تحت جیل بھیجا، انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، ان کے لئے انصاف کے سارے دروازے بند کردئیے۔

بعدازاںمہاترمحمد نے وزیراعظم ہاؤس خالی کردیا توکاناپھوسی کرنے والے پارٹی لیڈر اقتدارپر قابض ہوئے، انھوں نے چند برسوں ہی میں ملائشیا کو اس قدربُرے بحران کا شکار کردیا کہ مہاترمحمد سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ نجیب رزاق جیسے لوگ پوری طرح کُھل کھیل رہے تھے کہ مہاترمحمد سیاست سے ریٹائر ہوچکے ہیں۔ انھوں نے کرپشن اور اقرباپروری کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑدئیے، ایسے میں مہاترمحمد اپنے کئے پر پشیمان ہوئے،بالخصوص انھیں وہ لمحات خوب یاد آئے جب کچھ لوگ  انورابراہیم کے خلاف ان کے کان بھرتے تھے۔ اب مہاترمحمد کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ سیاست سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لیں۔

سن 2015ء میں نجیب رزاق کا ایک بڑا سکینڈل سامنے آیا، ان پرالزام تھا کہ انھوں نے700ملین ڈالر کے برابر دولت سرکاری خزانے سے اپنے ذاتی خزانے میں منتقل کی۔ اس پر مخالفت کا ایک شدید طوفان اٹھ کھڑا ہوا، ان سے استعفیٰ کا مطالبہ ملک کے ہرگلی کوچے سے ہونے لگا۔ ان پر سخت تنقید کرنے والوں میں اپوزیشن لیڈر انورابراہیم بھی شامل تھے اور گھر میں بیٹھے مہاترمحمد بھی اس غبن پر تڑپ اٹھے۔چنانچہ انھوں نے فوری طور پر سیاست میں واپس آنے کا اعلان کیا۔ انھوں نے بھی باربار نجیب رزاق سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ وہ30اگست2015ء کو اپنی اہلیہ ہاشمہ کے ساتھ لاکھوں افراد کے ایک مظاہرے میں شریک ہوئے۔آنے والے برسوں میں بھی وہ حکومت مخالف سرگرمیوں کا حصہ بنتے رہے۔

دوسری طرف وزیراعظم نجیب رزاق نے اقتدارپر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے غیرمعمولی اقدامات شروع کردئیے، نائب وزیراعظم کو ہٹادیا، دواخبارات پر پابندی عائد کردی، پارلیمان کے ذریعے ’نیشنل سیکورٹی کونسل بل‘ متعارف کرایا جس نے انھیں بے پناہ اختیارات سے نوازا۔ سن2016ء کے ضمنی انتخابات میںمہاترمحمد نے اپوزیشن جماعت ’امانہ‘ کے امیدواروں کی حمایت کی جبکہ 2017ء میں انھوں نے نئی سیاسی جماعت قائم کی اور اپوزیشن اتحاد میں شمولیت اختیار کرلی۔ اتحاد’ الائنس فار ہوپ‘کے چئیرمین مہاترمحمد بنے، انورابراہیم  قائد کے منصب پر فائز ہوئے جبکہ ان کی اہلیہ عزیزہ اسماعیل  صدر ہیں۔ اسی صف بندی کے ساتھ وہ تازہ انتخابات جیتے ہیں۔

یوں محسوس ہوتاہے کہ مہاترمحمد کی سیاست میں واپسی اور انتخابی کامیابی انورابراہیم کے ساتھ ہونے والے برے سلوک کی تلافی کے لئے ہے۔ یادرہے کہ انورابراہیم کے ساتھ ہونے والے سلوک پر اقوام متحدہ کے ادارے بھی چیخ اٹھے تھے۔ اقوام متحدہ کے ایک ورکنگ گروپ نے ملائشیا کے سابق قائد حزب اختلاف کو سنائی گئی جیل کی سزا کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیاتھا۔’امنو‘ کی حکومت کے دوران میں انورابراہیم کے خلاف مسلسل شرمناک الزامات پر مبنی مقدمات قائم کئے گئے تاہم انورابراہیم  مسلسل ایسے الزامات کی تردید کرتے رہے ۔ا

قوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کا کہناتھاکہ انورابراہیم کو منصفانہ ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا تھا اور انھیں سیاسی وجوہ کی بنا پر پابند سلاسل کردیا گیا تھا۔ ورکنگ گروپ نے کہا کہ مسٹر ابراہیم کی غیر قانونی حراست کا یہ ازالہ ہوسکتا ہے کہ انھیں فوری طور پر جیل سے رہا کردیا جائے اور ان کے سلب کردہ سیاسی حقوق کو بحال کیا جائے۔

اس نے مزید کہا کہ انورابراہیم سے جیل میں کیا جانے والا سلوک بھی تشدد یا دوسرے ظالمانہ طریقوں کی ممانعت سے متعلق بین الاقوامی قواعد وضوابط کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ ملائشیا کے سابق نائب وزیراعظم کے خاندان نے ورکنگ گروپ سے یہ شکایت کی تھی کہ انھیں گندگی سے اٹی ایک کوٹھڑی میں رکھا جارہا ہے اور ان کی کمر میں دائمی تکلیف سمیت دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں مگر اس کے باوجود انھیں فوم کا بالکل پتلا بچھونا دیا گیا۔ یہی انورابراہیم اب اصل حکمران بن چکے ہیں، وزیراعظم مہاترمحمد نے کابینہ کے ارکان کا فیصلہ بھی انورابراہیم کے ساتھ مکمل مشاورت کے بعد کیا۔ یادرہے کہ قیدی انورابراہیم آج کل ہسپتال میں زیرعلاج ہیں، مہاترمحمد ، حکمران اتحاد کے دیگرمرکزی رہنماؤں کے ساتھ مل کر ہسپتال پہنچے ۔

نئے وزیراعظم نے اقتدارسنبھالتے ہی اعلان کردیا کہ ملائشیا کے شاہ ’محمد پنجم‘ انورابراہیم کو مکمل معافی دینے پرآمادہ ہیں، جیسے ہی معافی کا عمل مکمل ہوا، وہ فوری طور پر رہاہوجائیں گے، جس کے بعد مہاترمحمد وزرات عظمیٰ انورابراہیم کے لئے چھوڑ دیں گے۔ظاہر ہے کہ اس سے پہلے انھیں ضمنی انتخاب لڑنا پڑے گا۔

جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں، معافی بورڈ کا اجلاس منعقد ہونے کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ اجلاس شاہی محل میں ہوگا، اس میں بادشاہ اور وزیراعظم دونوں اجلاس میں شریک ہوں گے۔ قوی امکانات ہیں کہ انورابراہیم بہت جلد رہاہوجائیں گے، ممکن ہے کہ یہ سطورشائع ہونے سے قبل ہی۔ انورابراہیم کی بیٹی نورالعزہ کا کہناتھا کہ ان کے والد اجلاس کے خاتمے کے بعد اسی روز رہاہوجائیں گے۔ بظاہر یہی نظرآرہاہے کہ مہاترمحمد اور ان کے اتحادیوں کی کامیابی کے ساتھ ہی ملائشیا میں انورابراہیم کا دور شروع ہوچکاہے، وہ ایک وژنری سیاست دان ہیں، کہاجاتاہے کہ ڈاکٹرمہاترمحمد کی بعض کامیاب پالیسیوں کے پیچھے انورابراہیم تھے۔

تادم تحریر سابق وزیراعظم نجیب رزاق کی بدعنوانیوں کے خلاف قانونی کارروائی شروع ہوچکی ہے، پہلے مرحلے پر انھیں ملک سے باہر جانے سے روک دیاگیاہے۔ یادرہے کہ وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ چھٹیوں پر انڈونیشیا جاناچاہتے تھے۔

وزیراعظم مہاترمحمد  نے تصدیق کی کہ ان کے حکم پر ہی سابق وزیراعظم پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ ان کا کہناہے کہ نجیب رزاق کے خلاف کافی ثبوت موجود ہیں جس کی بنیاد پر یہ کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ ان کے خلاف شکایات کا انبار ہے، جن کی تحقیقات ضروری ہیں۔ ڈاکٹرمہاترمحمد نے 700ملین ڈالر کے غبن کے حوالے سے رپورٹ منگوالی ہے، اس کا مطالعہ کرکے وہ مزید کارروائی کا فیصلہ کریں گے۔ وزیراعظم نے عندیہ دیاہے کہ ایسے تمام افراد کے خلاف بھی کارروائی ہوگی جو بدعنوانیوں میں ملوث تھے یاان سے متعلقہ فیصلوں میں شریک تھے۔ دوسری طرف نجیب رزاق انتخابات میں شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پارٹی اور سیاسی اتحاد کی سربراہی سے مستعفی ہوگئے ہیں۔

وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ آج ملائیشیا میں تاریخی فتح حاصل کی گئی ہے،  وہ صرف قانون کی بحالی چاہتے ہیں، اس لئے انتقامی کارروائی پر یقین نہیں رکھتے۔ تاہم امکانات ہیں کہ ’امنو‘ پر پابندی عائد کردی جائے کیونکہ انتخاب جیتنے کے بعد مہاترمحمد نے ایک جملہ کہاتھا کہ ’امنو‘ کی قانونی حیثیت کا فیصلہ عدالت کرے گی۔وزیراعظم نے اعلان کیاہے کہ وہ سابقہ حکومت کی تمام پالیسیوں پر نظرثانی کریں گے۔ مہاترمحمد اور انورابراہیم اتحاد کے حکومت بنانے کے فوری بعد سٹاک مارکیٹوں میں حیرت انگیز استحکام دیکھنے کو مل رہاہے۔

The post مہاتر محمد کی حیران کن واپسی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2KBinHl
via IFTTT

کانیں کیوں مزدوروں کو کھا جاتی ہیں؟FOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

 کان کَنی دنیا بھر میں بہت مشکل کام تصور کیا جاتا ہے۔ قیمتی معدنیات کرومائیٹ، ماربل، سونا، کوئلہ سمیت سیکڑوں اقسام کے جواہرات ان کانوں میں اللہ نے مقید کر رکھے ہیں۔

انسان ہمیشہ سے رزق کے حصول کے لیے جہاں کئی کئی ہزار میل کا سفر طے کرتا تھا وہیں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ قیمتی معدنیات کی طرف بھی مائل ہونے لگا۔ ان قیمتی معدنیات کو نکالنے اور ضرورت کے استعمال کے لیے شروع کے ادوار میں مختلف طریقے اپنائے جاتے تھے۔

اس دور میں آگ جلانے کے لیے پتھروں کو رگڑ نے کا استعمال کیا جاتا تھا۔ آج ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ مختلف اقسام کی معدنیات کو نکالنے کے لیے کس طرح جان جوکھم میں ڈالنی ہوتی ہوگی۔ سائنسی ترقی کے ساتھ یہ معرکے آسان ہوتے چلے گئے۔ دنیا میں جدت آگئی۔ انسان نے قدرت کے انمول خزانے کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ دنیا کے دیگر بہت سے ممالک کی طرح  پاکستان کو بھی اللہ تعالیٰ نے جہاں رزق کے دوسرے وسائل رکھے ہیں وہیں ان انمول خزانوں سے بھی ہماری زمین کو مالامال کردیا ہے۔

پوری دنیا میں پہاڑوں کے سینے چیر کر اور زمین کی گہرائیوں میں سیکڑوں کلو میٹر  تک اُترنے اور معدنیات کو حاصل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمارا خوب صورت صوبے بلوچستان کی سر زمین بھی ان خزانوں سے مالا مال ہے۔ مسلم باغ، خضدار، قلات اور چاغی کے پہاڑ معدنیات کے خزانے اپنے سینے میں سمائے ہوئے ہیں۔ کوئلے کی صنعت گذشتہ کئی دہائیوں سے ملک کی معیشت کو دوام بخشے ہوئے ہے، جس سے ہزارہا لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ معدنیات کی دوسری کانوں کی نسبت کوئلے کی کانوں میں اکثر حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ان حادثات میں کئی سو افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔

کوئلے کی کانوں میں حادثات تو دنیا بھر میں پیش آتے ہیں، ان کو ماہرین زیادہ تر قدرتی آفات سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن احتیاطی تدابیر کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاتا۔ بلوچستان میں کوئلے کی کانوں کے حادثات میں اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ کئی سال کے دوران ان حادثات میں شدت آتی جارہی ہے۔ بلوچستان میں کان کَنی کی صنعت ایک مقتل میں تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2010ء سے اب تک 200سے زائد افراد کوئلے کی کانوں میں حادثات کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے گئے ہزاروں زخمی اور اپاہج ہوکر اسے تقدیر کا سبب جان کر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان حادثات کی روک تھام کے لیے حکومت اور متعلقہ حکام کی جانب سے کیا اقدام کیے گئے ہیں؟ اس کی تفصیل حالیہ دنوں میں پیش آنے والے دو دل خراش واقعات کی تفصیل کے بعد بیان کریں گے۔

محکمۂ معدنیات کے مطابق کانوں میں حادثات کی روک تھام کے لیے ایک صدی پرانا ایکٹ نافذ ہے، لیکن اگر جائزہ لیا جائے تو اس ایکٹ پر کس قدر عمل درآمد ہوا ہے اور کون کرتا ہے، کون کون اس پر عمل داری کا پابند ہے؟ تو جواب نفی میں ملتا ہے۔ محکمۂ معدنیات نے کوئلہ کی کانوں میں حادثات کو مزدوروں اور ٹھیکے داروں کی غفلت کا نتیجہ قرار دیا ہے، جب کہ مزدور تنظیموں نے حادثات کی بڑی وجہ ٹھیکے داری سسٹم کو قرار دیا ہے۔ کوئٹہ میں کانوں کی ملکیت کس کی ہوتی ہے اور اس نظام کو کون کس طرح چلاتا ہے؟ حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کی داد رسی کس طرح کی جاتی ہے؟ زخمیوں اور متاثرہ خاندانوں کی دل جوئی کے لیے کیا کیا جانا چاہیے؟ ہم نے ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے متعلقہ افراد سے بات چیت کی۔ اس بارے میں انہوں نے جو کچھ بتایا وہ قارئین کی نذر ہے۔

گذشتہ دنوں کوئٹہ سے 60کلو میٹر دور دشوار گزار علاقے مارواڑ اور اس سے کچھ فاصلے پر پی ایم ڈی سی کی کوئلے کی کانوں میں ایک ہی روز میں دو حادثات پیش آئے، جن میں اعداد و شمار کے مطابق 23 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ ان واقعات کی تفصیل یہ ہے کہ مارواڑ کی کوئلے کی کان میں ایک روز کی چھٹی کے بعد 30 سے زائد کان کَن کام کے لیے کان کے اندر گئے۔ صبح 8 بجے کے بعد کام کے دوران اچانک کان میں میتھین گیس بھر گئی جس سے کان کے اندر زور دار دھماکا ہوا اور آگ بھڑک اُٹھی۔ مہر کول مائن ایک قدیم کان ہے، جہاں سے اب تک لاکھوں لوگ روزگار کا حصول کرچکے ہیں۔ کان کے اندر دھماکے کے بعد قریبی دوسری کانوں میں کام کرنے والے مزدور بھی اس کی زد میں آگئے۔

دن گیارہ بجے ہونے والے اس سانحے میں18کانکن جاں بحق اور 9 زخمی ہوئے۔ کئی کانکن زہریلی گیس کے باعث بے ہوش ہوگئے، جنہیں ساتھی مزدوروں نے اپنی مدد آپ کے تحت نکال لیا ۔ بے ہوش ہونے والوں کو گھروں میں منتقل کیا گیا اور کچھ زخمیوں کو جن کی تعداد 9بتائی گئی، کانکنوں نے سول اسپتال پہنچایا۔ یہ وہ عمل تھا جہاں ریسکیو کی ازحد اور فوری ضرورت ہوتی ہے۔ حادثے کا شکار ہونے والی کان کے باہر سیکڑوں دوسرے مزدور جو ارد گرد کی کانوں میں کام کرتے ہیں موقع پر موجود تھے اور اپنے پیاروں کو اس دوزخ سے نکالنے کے لیے بے قرار تھے۔ خیبرپختونخوا کے علاقے شانگلہ سے تعلق رکھنے والے مزدور جل کر خاکستر ہوگئے تھے اور ان کے قریبی لوگ آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ موقع پر موجود تھے۔

بہت طویل اور دشوار گزار علاقے میں فوری طور پر ریسکیو کا کوئی انتظام نہیں تھا، ایسے میں دو کان کن اپنے پیاروں کو نکالنے کے لیے کوئلے کی کان کے اندر اتر گئے اور وہ بھی کان کے اندر زہریلی گیس کا شکار ہوگئے۔ جاں بہ حق ہونے والے ان 18 کان کنوں میں یہ دو مزدور بھی شامل تھے۔ سوال یہ ہے کہ فوری طور پر ریسکیو کا انتظام کیوں نہیں ہوا؟ کیا متعلقہ محکمہ ان حادثات سے جو آئے دن ہوتے رہتے ہیں لاعلم تھا؟ مارواڑ میں ہزاروں کان کنوں کے لیے ایک ایمبولینس تک نہیں تھی۔

دن گیارہ بجے ہونے والے حادثے کے بعد تقریباً 3بجے کے بعد کوئٹہ سے ایدھی اور چھیپا کی ایمولینسیں اور 1122کی ٹیمیں روانہ ہوئیں اور انہیں جائے وقوعہ پر پہنچنے کے لیے 60کلو میٹر کا سفر 3 گھنٹے میں طے کیا، کیوںکہ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے انھیں کچے راستوں، پہاڑی دروں، اونچی اونچی اونچی چٹانوں اور نیچی کھائیوں سے پُر راستوں سے گزر کر اس مقام تک آنا پڑا۔ اس حوالے سے ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ اول تو علاقے میں موبائل فون ہی کام نہیں کرتے ، اس لیے  اطلاع پہنچتے پہنچتے کچھ تاخیر ضرور ہوتی ہے۔ تاہم محکمۂ معدنیات کے چیف انسپکٹر مائنز افتخار احمد، پی ڈی ایم اے کے حکام اور کوئٹہ کی ضلعی انتظامیہ کے حکام بھی موقع پر پہنچ گئے تھے۔

اﷲ اﷲ کرکے ریسکیو کا کام شروع ہوا اور شام کو نعشیں نکالنا شروع کی گئیں۔ عینی شاہدین کے مطابق جب نعشیں نکالی جارہی تھیں اس موقع پر کان کے مالک کو دیکھا گیا جب وہ اپنی گاڑیوں میں تابوت لے کر آیا۔ دوسری طرف کان کے مالک کا کہنا ہے کہ  انہیں جیسے ہی حادثے کی اطلاع ملی وہ موقع پر پہنچ گئے اور انہوں نے خود ریسکیو کے کاموں کی نگرانی کی ۔

بلوچستان گذشتہ کئی سال سے بدامنی کی لپیٹ میں ہے اور کتنے ہی مزدور اس دہشت گردی کی زد میں آئے ہیں۔ متاثرہ علاقے کے لوگوں کے مطابق اب صورت حال تبدیل ہوچکی ہے۔ کچی سڑک پر فرنٹیئر کور کی ہر 5کلو میٹر کے فاصلے پر ایک چیک پوسٹ قائم ہے، جب کہ اوپر پہاڑوں پر بھی فرنٹیئر کور کے جوانوں نے چیک پوسٹیں قائم کرکے وائرلیس کا جدید سسٹم بھی لگادیا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق ریسکیو کے کام میں سب سے پہلے فرنٹیئر کور ہی موقع پر پہنچی اور دوسرے متعلقہ حکام کو فرنٹیئر کور کے ذریعے ہی اطلاع ملی ۔ بہرحال 13نعشیں ایمبولینسز کے ذریعے مرنے والوں کے آبائی علاقے شانگلہ روانہ کردی گئیں۔

ابھی اس حادثے پر ریسکیو کا کام جاری تھا کہ کوئٹہ سے 43کلو میٹر کے فاصلے پر پی ایم ڈی سی کی مائنز میں بھی حادثے کی اطلاع ملی جہاں کانکنی کے دوران مٹی کا تودہ گرنے سے 5کان کن جاں بحق اور 3 زخمی ہوگئے۔ امدادی ٹیموں نے اس  کان کا بھی رخ کیا اور نعشیں نکال کر زخمیوں کو اسپتال منتقل کردیا۔

بلوچستان کی کوئلے اور دوسری کانوں میں کام کرنے والے زیادہ تر لوگ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ افغانستان کے ہزارہ اور دوسرے افراد بھی ان کانوں سے اپنا رزق تلاش کرتے ہیں ۔

بلوچستان کی کوئلے کی کانوں میں حادثات کیوں ہوتے ہیں اور اس کے سدباب کے لیے کیا انتظامات کیے گئے ہیں، حکومت اور متعلقہ محکمے کیا کر رہے ہیں؟ اس حوالے سے چیف انسپکٹر مائنز افتخار احمد نے کہا کہ کہ حکومت اور محکمہ معدنیات کوئلہ کی کانوں میں حادثات کی روک تھام کے لیے اقدامات نہ صرف کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرے گی۔

یہ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ہم ورکرز کی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں اور انہیں ضروری سامان اور حفاظتی آلات فراہم کرتے ہیں اور عموماً کول مائنز کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ حادثات کا سب سے بڑا سبب غیرقانونی مائننگ ہے جو ٹھیکے داروں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس میں یہ ہوتا ہے کہ ٹھیکے دار زیادہ کوئلہ نکالنے کی لالچ میں احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتا۔ مزدوروں کو زیادہ تعداد میں کوئلہ کی کان کے اندر اُتار دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر کام ایک طریقۂ کار کے تحت ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم چیک نہ رکھیں۔ ہم چیک کرتے ہیں لیکن ٹھیکے داری سسٹم بڑا نقصان دہ ہے۔

مائن اونرز حکومتی عہدے داروں کے موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ محمد عباس میر جو حادثے کا شکار ہونے والی کان کے مالک ہیں کہتے ہیں کہ ہر کان کے اندر ہوا کا راستہ چھوڑا جاتا ہے۔ ہماری مائن کے اندر بھی ہوا کا راستہ ہے۔ ہماری مائنز جوائنٹ تھیں، لیکن ان میں ہوا کا راستہ تھا۔ میتھین گیس ہر مائن کے اندر ہوتی ہے۔ احتیاطی تدابیر سب اختیار کرتے ہیں لیکن حادثات میں قدرتی عمل دخل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ورکرز ہمارے بچے ہیں ان ہزاروں ورکرز کے پیچھے لاکھوں افراد کا روزگار ہے۔ حکومت کی جانب سے ہماری اعانت نہیں کی جاتی۔

مائننگ سیکٹر اپنی مدد آپ کے تحت چل رہا ہے۔ بینکوں کے ذریعے لاکھوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔ بلوچستان میں مائننگ کا شعبہ ہی ایسا شعبہ ہے جو بینکوں کو سپورٹ کررہا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کیا ہے؟ کوئی دوسری انڈسٹری نہیں ہے۔ صرف شہر میں کچھ تجارتی مراکز ہیں۔ آپ اس سڑک کی حالت دیکھیں اور دشوار گزار علاقے کو دیکھیں۔ 60کلو میٹر کا فاصلہ 3گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔

اس سڑک سے کروڑوں روپے کا مال گزرتا ہے۔ ہم ورکرز کو 9 مختلف اقسام کی ملازمتیں فراہم کررہے ہیں۔ جنریٹرز، میٹیریل، سریا، بجری، سیمنٹ اور بھٹا انڈسٹری کو سپورٹ کررہے ہیں۔ 2006ء میں مشرف دور میں ایک آرڈیننس پاس ہوا کول انڈسٹری کی نیچرل گیس، فرنس آئل، اسٹیل اور سیمنٹ انڈسٹری سے منسلک کیا جائے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے کام سیدھے ہوجائیں۔ ہم علاقے کے لوگوں کو بھی ملازمتیں دیتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے ہمیں ایک ایمبولینس تک نہیں دی جاتی۔ روڈ اپنی مدد آپ کے تحت بارشوں کے بعد ہم بناتے ہیں۔ صوبائی اور مرکزی PSDPمیں رکھے گئے فنڈز حکومت ورکرز کے لیے استعمال نہیں کرتی اور نہ ہی ہمیں سیکیوریٹی فراہم کرتی ہے۔ فرنٹیئر کور ہمیں سیکیوریٹی دیتی ہے۔ ہمارے اوپر انکم ٹیکس، جنرل سیلز ٹیکس، ودہولڈنگ ٹیکس، ریسکیو ٹیکس عائد ہیں، جو ہم ادا کرتے ہیں۔ ہم نے لوڈنگ اور ان لوڈنگ ورکرز کو بھی ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔ ٹول ٹیکس اور دوسری راہ داریوں کے ٹیکس دیتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں صرف انڈسٹری سے تعلق رکھتی ہیں۔ کوئٹہ سے ایک ٹرک پنجاب کے لیے چلتا ہے جو 32ٹن کوئلے سے لوڈ ہوتا ہے۔ اس ٹرک پر چونگی اور کھانے پینے کے خرچے ہوتے ہیں۔ یہ بڑا سیٹ اپ ہے۔ ایک مزدور کے پیچھے ایک خاندان ہوتا ہے۔ یہ مزدور ہمارے بازو ہیں ان کی بڑی خدمات ہوتی ہیں۔ ہم انہیں صاف پانی دیتے ہیں۔

رہائش کے لیے مکانات دیتے ہیں۔ ہم خود مائن میں اترتے ہیں۔ ریسکیو کاموں کی نگرانی کرتے ہیں۔ صبح نماز کے بعد جوڑی سر اور سردار کی نگرانی میں کام شروع کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ جتنی ترقی اس انڈسٹری میں ہو اس سے سب کا فائدہ ہو۔ ہماری مائن سے کچھ فاصلے پر سرکی کچھ کا علاقہ ہے جہاں سے کوئٹہ کو گیس ملتی ہے۔ وہاں پٹرولیم کی تلاش بھی جاری ہے۔ ان مائنز میں بھی میتھین گیس ہے۔ ہم ان سب چیزوں کو مدنظر رکھتے ہیں۔ ٹھیکے دار فیض محمد کہتے ہیں کہ ایسی بات نہیں کہ ہم دیکھے ان دیکھے سب کو مائنز کے اندر اُتار دیں۔ مائنز سردار ہر چیز کی پیمائش کرتا ہے۔ جو خود مائن کے اندر اترتے ہیں۔ ہم ہر کام کو چیک کرتے ہیں۔ ٹھیکے دار بخت نظر کہتے ہیں کہ ہم وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی اور پی ڈی ایم اے حکام کے شکرگزار ہیں جنہوں نے ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا۔ حادثات کی صورت میں کھانا اور دوسری چیزوں کا اہتمام کیا۔

مائن اونرز نے بتایا کہ فوت ہونے والے ورکرز کو سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق 2لاکھ روپے ہم ادا کرتے ہیں 5لاکھ روپے لیبر ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ دینے کا پابند ہے۔ ورکرز ویلفیئر بورڈ جہیز فنڈ کی صورت میں 20سے 70 ہزار روپے ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم اپنے تئیں بھی ورکرز کے لیے کام کرتے ہیں۔

اس بار محنت کے ساتھ زندگی لُٹا آئے 
جب شانگلہ سے تعلق رکھنے والے کان کَنوں کی میتیں گھروں کو پہنچیں
دوردراز علاقوں میں جاکر روزی کمانے والے مجبور مزدوروں کی کہانی

 آفتاب حسین الپوری

شانگلہ کے 22 غریب محنت کش سانحۂ کوئٹہ میں لقمۂ اجل بنے۔ کئی گھر ویران ہوگئے، ایک ہی گھر کے دو دو افراد کوئلے کی کانوں میں جاں بحق ہوئے، یکے بعد دیگرے واقعات نے شانگلہ کے عوام کے دلوں کو افسردہ کردیا ہے، زندگی کی خواہش ختم ہوکر رہ گئی، اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کمانے والے محنت کش اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ پانچ مئی کو بلوچستان میں یکے بعد دیگرے کوئلے کان سرکنے سے شانگلہ سے تعلق رکھنے والے 22 افراد کی کوئلے کان میں شدید زخمی ہونے کی اطلاعات تھیں۔ شانگلہ میں اس واقعے کی خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔

مسلسل ہلاکتوں کی اطلاع پر علاقے میں قیامت صغریٰ برپا ہوگئی۔ شانگلہ سے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عباد اللہ کوئٹہ روانہ ہوئے اور خود ریسکیو آپریشن کی نگرانی کرتے رہے۔ پہلا واقعہ مارواڑمارگٹ میں جب کہ دوسرا حادثہ پی ایم ڈی سی کوئٹہ میں رونما ہوا۔ پہلے حادثے میں 16جب کہ دوسرے میں 7 افراد جان بحق ہوئے، جن میں سے ایک کی شادی عید کے بعد طے پائی تھی۔ کوئٹہ کی کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے 80 فی صد مزدور شانگلہ سے تعلق رکھتے ہیں، جب کہ ملک کی سطح پر اس علاقے سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کی سب سے بڑی تعداد یعنی65 فی صد مزدور کوئلہ کے کانوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ ان مزدوروں کے لیے کوئٹہ، پشاور ، مردان اور سوات میں کالونیاں موجود ہیں جب کہ شانگلہ میں تاحال کوئی بھی لیبر کالونی، اسکول اور صحت کی سہولیات میسر نہیں۔ معاوضوں کے حوالے سے کوئی خاطرخواہ بندوبست نہیں یہاں تک کہ کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے محنت کشوںکی رجسٹریشن کا بھی کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔

بلوچستان میں کوئلہ کی کانوں میں کام کرنے والے ایک مزدور نے بتایا کہ ہمارے لیے کوئلے کے کانوں میں کسی قسم کا کوئی حفاظتی بندوبست موجود نہیں ہوتا، ہمیں پتا ہوتا ہے کہ ہزاروں فٹ زمین کے اندر اُتر جانے کے بعد کسی بھی وقت کوئی بھی حادثہ رونما ہوسکتا ہے جو جان لیوابھی ثابت ہوسکتا ہے۔ ہر بار کدال مارتے ہوئے کسی بھی وقت گیس یعنی ساندہ پھٹ جانے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ ہمارے لیے وہاں کسی قسم کے علاج و معالجے کا انتظام موجود نہیں، کوئلے کی کانوں کے مالکان مزدوروں کو کسی قسم کی کوئی سہولت نہیں دیتے۔

شانگلہ میں تعلیم اور روزگار کا معقول بندوبست نہیں ہے۔ پورے شانگلہ میں نہ کوئی فیکٹری ہے نہ کارخانہ، جہاں ہم بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے رزق کمائیں، متبادل روزگار نہ ہونے کی وجہ سے بہ امر مجبوری ہم جان پر کھیلتے ہوئے کوئلے کے کانوں میں کام کرتے ہیں۔ ہماری غربت ہمیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنے کمسن بچوں کو بھی اپنے ساتھ لے کر اس جان لیوا مزدوری پر لگادیتے ہیں۔

اس کام میں جب پنجاب کا کوئی محنت کش موت کا شکار ہوجاتا ہے تو اس کا معاوضہ پندرہ لاکھ تک ہوتا ہے جب کہ خیبر پختون خوا میں یہ معاوضہ دو لاکھ روپے ہے اور اس کے حصول کے لیے جو قانونی تقاضے پورے کرنے پڑتے ہیں وہ بھی ورثاء کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس صورت حال سے واقف ہونے کے باوجود خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہیں، بدقسمتی سے شانگلہ میں تا حال کوئی لیبر ہسپتال، لیبر کالونی، ورکنگ فوکس ماڈل اسکول یا ان مزدوروں کے بچوں کے لیے ان کی وفات کے بعد کسی قسم کا متبادل بندوبست بھی نہیں۔ شانگلہ کے مزدوروں کے ساتھ گذشتہ دنوں پیش آنے والے حادثے نے شانگلہ کے عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

دوسری طرف شانگلہ کے مختلف دیہات میاں کلے، شلاؤ، بانڈہ، پیر آباد اور ڈھیرئی کے دُکھ کا شکار عوام اس مشکل میں تھے کہ مکینوں کے لیے یہ بات بھی ایک مشکل تھی کہ 23 افراد کا بیک وقت جنازے، تجہیزو وتکفین اور تدفین کا انتظام کیسے کیا جائے۔ رات گئے تک میتوں کو ایمبولنس اور فلائنگ کوچز کے ذریعے پہنچایا گیا اوریہ سلسلہ صبح چار ساڑھے چار بجے تک جاری رہا۔ اس موقع پر شانگلہ کی تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے خود جنازے اٹھائے اور اس کی تدفین میں حصہ لیا۔ اسی دن وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک نے پشاور میں صحافیوں سے بات چیت میں اسے سانحہ کوئٹہ قرار دیتے ہوئے لواحقین کی زخموں پر نمک پاشی کی تو ان کی جماعت کے سرکردہ راہ نماؤں سمیت ہر کارکن سراپا احتجاج بن گئے۔

شانگلہ سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کے عدم تحفظ و ان کی زندگی سے بے پرواہی پر عوامی حلقوں نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار سے صورت حال پر از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئلے کی کانوں میں مسلسل ہونے والے حادثات کے لیے اعلیٰ ترین کمیشن بنانے کے ساتھ معاوضوں کا طریقۂ کار وضع کیا جائے۔ عوامی حلقوں نے حکومت سے جاں بحق ہونے والے محنت کشوں کے بچوں کے لیے تعلیمی وظیفہ دینے ، صحت کی سہولیات کی فراہمی اور ٹیکنیکل ایجوکیشن سینٹر کے قیام، شانگلہ میں منظور شدہ ورکنگ فورس ماڈل اسکول کے قیام سمیت لواحقین کے گھرانے سے ایک ایک فرد کو سرکاری سطح پر ملازمت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

The post کانیں کیوں مزدوروں کو کھا جاتی ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IVYQE8
via IFTTT

تاریخ پاکستان میں  ُشہرت پانے والے ’نکات‘FOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

نوآبادیاتی نظام تاریخ انسانی کا بدتر ین جابرانہ نظام ہے اور کوئی مانے یا نہ مانے 1492 ء سے یہ نظام آج تک کسی نہ کسی شکل میں دنیا کے بہت سے خطوں میں اپنے اقتصادی اور مالیاتی شکنجوں اور حربوں کے ساتھ موجود ہے۔

اس نظام سے پہلے دنیا بھر میں اگرچہ ہینی بال، سکندر اعظم ،کانسٹنٹائن اعظم، اشوک اعظم، جولیس سیزر، ولیم فاتح، سائیرس اعظم، چنگیزخان، ہلاکوخان اور امیر تیمور جیسے فاتحین نے دنیا کے بیشتر خطوں اور علاقوں میں طویل مدتی حکومتیں قائم کیں مگر یہ حکومتیں روایتی تاریخی انداز کی تھیں۔ ہمارے یعنی برصغیر میں ایسی آخری حکومت مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے 1526-30 ء کے دوارن قائم کی۔

اس نے بھی ہندوستان کے پہلے فاتحین کی طرح مغلوں اور افغانیوں کے مختلف سرداروں کا ساڑھے بارہ ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر تیار کرکے ہندوستان کو فتح کیا اورپھر قدیم جاگیردارانہ نظام کو جاری رکھتے ہوئے انتظامی اور دفاعی لحاظ سے ہندوستان اور افغانستان میں اپنی حکومت تر تیب دی۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق تھا تو وہاں اپنے شہزاے اور دیگر نزدیکی رشتہ داورں کی صوبائی حیثیت کے ساتھ قبائلی سرداروں کی روایتی حکمرانی کو قائم رکھا اور ہندوستان میں صوبائی سطحوں پر اپنے نزدیکی عزیزوں، شہزادوں کو گورنر بنا کر ہندوستان میں اپنے ساتھ لشکر میں آنے والے سرداروں لشکریوں کو ان کے سپاہیوں کی تعداد کے مطابق بڑے بڑے علاقے بطور جاگیر یں دیں لیکن ان جاگیروں میں خصوصا ان راجپوتوں کو بھی شامل رکھا جو اس کے وفادار تھے۔

ان تمام نوابین، راجاؤں اور خوانین کی یہ ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ عام حالات میں اپنے سپاہیوں کے ساتھ پورے علاقے میں امن وامان قائم رکھیں، مقامی پیداوار پر آبادی سے ٹیکس وصول کریں اور اس رقم میں سے ایک حصہ مرکز میں دارالسلطنت میں در بار کو بھیجیں اور باقی خود استعمال کریں۔ ضرورت پڑنے پر ان جاگیرداروں کے لیے ضروری تھا کہ وہ بادشاہ کو اپنی فوج فراہم کریں لیکن وہ جاگیریں جو مذہبی پیشواؤں کو دی جاتی تھیں وہاں عمو ماً کم تعداد میں فوجیں رکھی تھیں۔ یوں فوجی سپلائی سے یہ مستثنیٰ ہوتی تھیں ۔

بابر وہ عظیم بادشاہ تھا جس نے ہندوستان میں پہلی مرتبہ بارود کا استعمال کیا تھا جب کہ اس دور تک بارود کا استعمال چین سے نکل کر یورپ میں زیادہ جدید انداز سے ہونے لگا تھا۔ عرب بھی اس کو اپنے توپ خانے میں استعمال کرنے لگے تھے اس دور میں یورپ سے ہندوستان تک کے بیشتر ساحلوں اور سمندری راستوں پر عربوں کا قبضہ تھا جب کہ ہندوستان میں ہندو آبادی میں مذہبی طور پر سمندری سفر پر پابندی تھی اور سمندر کا سفر کرنے والے کا دھرم نشٹ ہوجا تا تھا۔ 1481 ء سے1492 ء تک سپین میں ریاست آرگوان کے بادشاہ فرڈیننڈ اور ریاست کیسٹائل کی ملکہ ازیبلا نے شادی کر کے متحد ہوکر مسلمانوں کی ریاست غرناطہ کے خلا ف جنگ کی اور 1492 ء میں مکمل فتح کے بعد اسپین میں ایک مسلمان کو نہیں چھوڑا۔ اسی زمانے میں ہندوستان کا نیا بحری راستہ دریافت کرنے کے لیے ملا ح مہم جوئی کر رہے تھے جن میں سے دو اہم رہے۔

واسکوڈی گاما نے ہندوستان کا راستہ دریافت کر لیا اور کولمبس جس کی مالی معاونت اسپین کی ملکہ ازیبلا نے کی تھی اس نے امریکہ دریافت کرلیا، اور اس دور سے یورپ میں نہ صرف صنعتی اقتصادی ترقی شروع ہوئی بلکہ اب بڑی تجارتی کمپنیوں کے ساتھ لندن کے بعد یورپ کے دیگر ملکوں میں بھی اسٹاک ایکسچینج سنٹرل بنکنگ سسٹم کے ساتھ وجود میں آگیا تھا۔

نوآبادیاتی نظام سے قبل بابر کی طرح جب کوئی بیرونی حملہ آور کسی ملک پر حملہ کرکے فتح کرتا تو دو صورتیں ہوتیں ایک یہ کہ وہ یا تو یہاں قتل وغارت اور لوٹ مار کرکے واپس ہو جاتا تو ایک بار ہی اس ملک کی دولت ملک سے باہر جاتی اور اگر یہاں حکومت قائم کرتا اور اس کی نسل کی کئی صدیوں تک بادشاہت قائم رہتی تو یوں جب حکومت قائم ہو جاتی تو اس ملک کی دولت اوروسائل اس ملک میں رہتے، اگر بادشاہ اچھا ہوتا تو دولت رعایا کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو تی اور اگر بادشاہ عیاش ہوتا تو دولت برے لوگوں کے پاس جاتی ، لیکن دولت ملک ہی میں رہتی اور اس کی گردش سے روزگار اور پیداوار میں اضافہ ہوتا رہتا۔ مگر جب سے نوآبادیاتی نظام قائم ہوا تو مغربی اقوام نے دنیا بھر میں اپنی سائنس اور ٹیکنالوجی کی برتری کی بنیادوں پر امریکہ ، لاطینی امریکہ، کینیڈا،آسٹریلیا، ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ملکوں کو فتح کرکے اپنی حکومتیں قائم کرلیںاور پھر ان کی تجارتی کمپنیوں نے ان نوآبادیاتی ملکوں کے نہ صرف خزانے لوٹے بلکہ صدیوں تک ان کے وسائل لوٹتے رہے اور ان وسائل کو اپنے ملکوں میں منتقل کرتے رہے۔

جہاں تک تعلق امریکہ،کینیڈا،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ، وغیرہ کا ہے تو یہاں کی پرانی آبادیاں تقریباً ختم کرکے یہاں اپنی نسلی قومی آبادیوں میں اضافہ کرکے ان ملکوں کی نسلی قومی شناخت ہی کو بدل دیا جبکہ ایشیا اور افریقہ میں یہ نوآبادیاتی نظام اپنی پورے ظلم وجبر کے سا تھ پہلی جنگ عظیم 1914-18 ء تک قائم رہا اور اس جنگ کے بعد سلطنت عثمانیہ کے ختم ہونے، سابق سوویت یونین میں اشتراکی انقلاب کے آنے اور برطانیہ کے بعد امریکہ کے سپر پاور بن کر ابھرنے سے تیزی سے کمزور ہونے لگا۔

یہ وہ دور تھا جب انگریز نے ہندوستان میں اپنی حکومت کو بہت مضبوط کر لیا اور یہاں سے فوجیوں کو لے جا کر جنگ عظیم جیتنے کے بعد اس فکر میں تھا کہ 32 کروڑ کی آبادی اور تقریباً40  لاکھ مربع کلومیٹر رقبے کے اس اہم ملک پر صرف ایک لاکھ مرد جوان انگریزوں کے ساتھ کس طرح اس سونے کی چڑیا کو قابو میں رکھے۔ اگرچہ اس وقت بھی اس ہندوستان میں 530 ریاستوں کے راجے ، مہاراجے ، نوابین اور خوانین اس کے ساتھ تھے جو جاگیردارانہ نظام کے تحت ہندوستان کے عوام سے زیادہ انگریز کے وفادار تھے جب کہ تحصیلداروں، اسسٹنٹ، ڈپٹی اور کمشنروں، اعلیٰ فوجی اور پولیس افسران اور صوبائی گورنروں کے ساتھ بہت مربو ط انداز میں انگریز وائسرائے اور گورنر جنرل سے منسلک ایک بہترین انتظامیہ بیوروکریسی کی تھی، ان میں سے بیشتر اعلیٰ افسران انگریز تھے اور جو مقامی تھے ان کی اکثریت ان نوابین اور راجاوں کے بچوں کی تھی ۔

جن کی خاص تعلیم وتربیت کے لیے انگریزوں نے لاہور میں ایچ ای سن اور ڈیرہ دون میں اعلیٰ اور مہنگے اسپیشل تعلیمی ادارے ، کالج قائم کئے تھے، مگر اس دور تک ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں قومی سیاسی سماجی شعور بیدار ہو چکا تھا، ان کو چھوٹے ہتھیار بندوقیں، دستی بم اور ڈائنامیٹ وار لیس تک بنانے اور استعمال کرنے کے طریقے آگئے تھے۔ ہندوستان کی بیشتر ریاستوں کے راجاوں اور نوابین کی رعایا اب عوام میں بدل گئی تھی اور ہندوستان میں دیگر چھوٹی مذہبی، سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ وجود میں آگئی تھیں جن کی حیثیت اور اہمیت پہلی جنگ عظیم میں بہت بڑھ گئی تھی ۔ اس جنگ میں ہندوستان سے بھرتی کئے جانے والے مسلمان، ہندو اور سکھ لاکھوں فوجی سپاہی اور چند درجن جونیئر فوجی افسران دنیا کے مختلف ملکوں میں انگریز اور اتحادی اعلیٰ اور سینئر فوجی افسران کی کمانڈ میں جرمنی اور ترکی کی سلطنت ِ عثمانیہ کی فوجوں کے خلاف لڑے تھے۔

یہ جنگ ہندوستان کی سرحدوں سے ہزاروں میل دور سمندر پار لڑی جا رہی تھی جب کانگریس اور مسلم لیگ کے اہم لیڈروں نے اس دور کی اہم سیاسی صورتحال کو سمجھتے ہوئے برصغیر کی آزادی و خود مختاری کی جدوجہد شروع کی اور تقسیم بنگال اور تنسیخ بنگال کی رنجشوں کو پسِ پشت ڈال کر ایک ساتھ جدوجہد کرنے کے عزم کا اظہار کیا اس موقع پر عالمی سیاست کے اہم رہنما قائد اعظم محمد علی جناح نے ہند و مسلم اتحاد کو ہمیشہ کے لیے ہندوستان کی آزادی اور استحکام کی بنیاد بناتے ہوئے 1916ء میں ایک ایسا بہترین فارمولہ دیا جو میثاق لکھنو کہلا یا اس مقصد کے لیے آل انڈیا کانگریس اور آل انڈ یا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس لکھنو میں منعقد ہوئے اور یہ میثاق طے پایا کہ ہندو مسلم آبادی کے اختلافات مستقل بنیادوں پر اور پائیدار انداز میں طے کئے بغیر ان کے درمیان کو ئی مستحکم اتحاد قائم نہیں ہوسکتا ، اس وقت ہندوستان میں قانون ساز اداروں کے لیے ہند و مسلم منتخب نمائندوں کے ساتھ ایک تہائی نمائندگی انگریز حکومت کے نامزد اراکین کے حوالے سے ہونی تھی۔

قائد اعظم نے یہ فار مولہ دیا کہ ہندوستان کی سماجی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں بر طانوی پارلیما نی طرز انتخابات کی بجائے جداگانہ طرز انتخاب کے طریقے کو رائج کیا جائے، یعنی مسلم اور ہندو آبادیوں کے تناسب سے صوبائی اور مرکزی قانون ساز اداروں کی نشستیں ہوں اور ان پر کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے ہندو، سکھ، مسلمان نامزد اراکین کو انتخابات میں ٹکٹ دے۔ یوں مسلمانوں کو مجموعی طور پر ایک تہائی نشستیں دی جائیں، قانون ساز ادارے میں جب بھی کوئی ایسا قانون تشکیل دینا ہوجس میں کسی فرقے سے متعلق بات ہو تو جب تک اس میں موجود متعلقہ فرقے سے تعلق رکھنے والے اراکین کی تین چوتھائی اکثریت کی حمایت حاصل نہ ہو اس وقت تک وہ قانون منظور نہ کیا جائے۔

صوبوں میں مسلمانوں اور ہندوں میںاتحاد کو مزید بہتر کرنے کے لیے جن صوبوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں وہا ں قانون ساز اداروں میں ہندوؤں کو کچھ زیادہ نشستیں دی جائیں اور جہاں ہندو اکثر یت میں ہیں وہاں مسلمانوں کو کچھ نشستیں زیادہ حاصل ہوں۔ ایسے نکات پر قائد اعظم کی کوششوں سے میثاق لکھنو کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان طے پا گیا اور پھر اس بنیاد پر ہندوستان میں انگریزوں سے آزادی کے حصول کے لیے مشترکہ جد و جہد شروع ہوئی ۔ جنگ عظیم اول میں انگریزوں کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ جرمنی اور ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے خلاف فتح ہوئی لیکن اس سے ایک سال پہلے اکتوبر 1917 ء میں سابق سوویت یونین میں اشتراکی انقلاب آگیا۔ برطانیہ کمزور اور امریکہ سپرپاور بننے لگا اور ہندوستان میں انگریز آئینی قانونی اصلاحات کے ساتھ آزادی کے پہلے مرحلے میں صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں کے انتخابات کے بعد مقامی آبادی کے نمائندوں کو جمہوری بنیادوں پر اقتدار میں شامل کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے۔

یہ قانون جو بعد میں قانون ِ ہند مجریہ 1935ء کہلا یا اس قانون کو ہندوستان کے مرکزی قانون ساز ادارے کی بجائے برطانیہ کی پارلیمنٹ نے منظور کر نا تھا کہ اگست1928 ء میں کانگریس کی جانب سے نہرو رپورٹ سامنے آئی جس میں مسلم لیگ سے مشاورت کے بغیر میثاق لکھنو کی شقوں کو ردکرتے ہوئے انگریز حکومت کو یہ دھمکی دی گئی تھی کہ اس رپورٹ کو دسمبر1929 ء تک نافذ نہ کیا گیا تو کانگریس پورے ہندوستان میں تحریک عدم تعاون شروع کر دے گی، اس کی منظوری کے لیے دسمبر1928 ء میں آل پارٹیز کانفرنس بلوائی گئی تو قائد اعظم نے سیاسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے کہا کہ اگر کانگریس ان تین پوائنٹ کو اس رپورٹ میں شامل کرتی ہے تو ہم کانگریس کے ساتھ ہیں۔ 1 ۔ مرکزی مجلس ِ قانون ساز میں مسلمانوں کو کم سے کم 1/3 نشستیں دی جائیں ۔2 ۔ مسلمانوں کو پنجاب اور بنگال میں اُن کی آبادی کے مطابق نشستیں دی جا ئیں ۔

3 ۔ تمام باقی اختیارات مرکز کی بجائے صوبوں کو دئیے جائیں۔ لیکن کانگریس نے ان تین پوائنٹ کو شامل نہ کیا اس پر جنوری 1929 ء کو دہلی میں قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کا اجلاس طلب کرکے مشاورت سے اپنے مشہور 14 نکات کا اعلان کردیا۔ ان نکات میں میثاق لکھنو کی شقوں اور درج بالا پوائنٹ کے ساتھ جداگانہ طریقہ انتخاب، ہندوستان میں مسلمانوں کی مذہبی، ثقافتی ، تہذہبی شناخت کے ساتھ سیاسی معاشی ، سماجی حقوق کی ضمانت طلب کی گئی تھی اور ساتھ ہی سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے صوبہ بنانے اور آج صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میںدوسرے صوبوں کی طرح صوبائی اصلاحات کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا ، اس کے بعد دوسرے سال یعنی 1930 ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس الہ آباد میں علامہ اقبال نے کانگریس کے ردعمل میں پاکستان کا تصور پیش کرتے ہوئے الگ مسلم وطن کا مطالبہ کردیا، 1935 ء کے قانون ہند میں جداگانہ طریقہ انتخاب کو تسلیم کرنے کے ساتھ بمبئی سے سندھ کو الگ کرکے صوبہ بنادیا گیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی اصلاحات نافذ کردی گئیں۔

1935ء کے قانون کے مطابق 1937ء میں ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں عام انتخابات ہوئے جن میں کانگریس نے مسلم لیگ کو بری طرح شکست دی اور نو صوبوں میں کانگریس نے اپنی اکثریت کی بنیاد پر اور دو صوبوں میں مقامی جماعتوں کے ساتھ مخلوط صوبائی حکومتیں تشکیل دیںاور اس دوران ہندوستان کے مسلمان کا نگریس کے متعصبانہ رویوں کا شکار ہوئے۔ 1939 ء میں دوسری جنگ عظیم کے آثار نمایاں ہوچکے تھے انگر یز کو اب ہر قیمت پر ہندوستان سے لاکھوں مقامی افرادپر مشتمل فوج اور یہاں کے چالیس کروڑ عوام کی حمایت کی ضرورت تھی حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے کانگریس نے انگریزوں سے مطالبہ کیا کہ ان سے یہ وعدہ کیا جائے کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد انگریز ہندوستان میں اقتدار کانگریس کے حوالے کر کے رخصت ہو جائے گا اس لیے کانگریس نے دباؤ میں اضافہ کرنے کے لیے 1939 ء میں وزارتوں سے استعفے دے دئیے اور تحریک شروع کردی۔

جس کو قائد اعظم نے اس لیے ناکام کیا کہ اُن کے مطابق اس میں مسلمان انگریز کی غلامی کے بعد ہمیشہ کے لیے ہندوؤں کے غلام بن جاتے ،اور جہاں تک تعلق میثاق لکھنو اور نہرو رپورٹ کا تھا تو کانگریس نے 1916 ء میں میثاق لکھنو اس لیے کیا تھا کہ اگر جنگ ترکی اور جرمنی جیت جاتے تو گانگریس اس وقت اچھی پوزیشن میں ہوتی اور ان کی شکست کے بعد اب انہوں نے صرف اور صرف ہندو ازم کو مدنظر رکھا،23 مارچ 1940 ء کو مسلم لیگ نے قرارداد پاکستان منظور کرلی اور پھر 1945-46 ء کے موسم سرما میں ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی کی 30 مسلم نشستوں پر سو فیصد اور صوبائی نشستوں پر 90 فیصد کامیابی حاصل کی اور پھر 14 اگست 1947 ء کو پاکستان بن گیا ۔

ہماری کوتاہیاں تھیں کہ ہم 1956 ء تک ا ٓئین نہ بنا سکے اور نہ ہی عام انتخابات کروا سکے پھر مشرقی اور مغربی پاکستان میں برابری کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کوملا کر ون یونٹ بنا دیا ،جس سے مشرقی پاکستان میںجہاں کل آبادی کا55% تھا محرومی کا احساس بڑ ھتا گیا اور مغربی پاکستان میں بھی سندھ ،خیبر پختونخوا اور بلو چستان میں بھی یہی صورتحال رہی اور جب ایوب خان کے خلاف معاہدہ تاشقند کو بنیاد بناتے ہوئے ذولفقار علی بھٹو نے وزارت خارجہ سے استعفی دے کر تحریک شروع کی تو کچھ عرصے بعد مشرقی پاکستان سے مولانا بھاشانی ، اور عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمن نے بھی عام انتخابات اور پارلیمانی جمہوریت کی بحالی کے ساتھ بنگالیوں کے حقوق کے لیے تحریک شروع کردی اور 5 فروری1966 ء کو لاہور میں شیخ مجیب الرحمن نے اپنے چھ نکات پیش کئے جو یوں تھے۔

1 ۔1940 ء کی قرارداد لاہور کی روشنی میں ایک وفاق پاکستان میںایک ایسے پارلیمانی نظام کی ضمانت دی جائے کہ جس میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہ راست منتخب قانون ساز کوبالا دستی حاصل ہو۔ 2۔مر کز کے پاس صرف دو محکمے دفاع اور امور خار جہ ہو 3۔دونوں حصوں کے لیے الگ الگ لیکن قابل تبادلہ کرنسی کا نظام ہو لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو تو آئین میں ضمانت دی جائے کہ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان سر مایہ کا فرار روکا جائے گا مشرقی پاکستان کا اپنا بنکنگ ریزرو سسٹم ( محفوظ سرمایہ کانظام ) بھی ہو۔ 4 ۔ٹیکس لگانے اور تمام مالیاتی وصولیوں کا اختیار مرکز کی بجائے صرف صوبوں کے پاس ہوگاجو ایک مخصوص شرح سے مرکز کے اخرجات اداکریں 5 ۔ہر صوبہ بیرونی تجارتی معاہدے کرنے میںآزاد ہو اوراپنے حساب کتاب کا واحد حقدار ہو جبکہ دونوں حصوں کے درمیان ملکی مصنوعات کی نقل وعمل پرکسی قسم کا ٹیکس نہ ہو6 ۔ مشرقی پاکستان کو الگ فوج یا نیم فوجی دستے رکھنے کا حق ہو تاکہ ملکی سلامتی اور آئین کے تحفظ کو یقینی بنایاجاسکے۔

1970 ء کے عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن نے ان ہی چھ نکات کو انتخابی منشور بنا کر حصہ لیا اور اس وقت کی قومی اسمبلی کی کل 300 نشستیں تھیں جن میں سے 162 مشرقی پاکستان کی تھیں اور138 مغربی پاکستان کی شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں 160 نشستیں حاصل کیں مغربی پاکستان میں بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے کل 138 نشستوں میں سے 81 نشستیں حاصل کیں ان انتخابات میں دونوں حصوں میں کل 33004065 ووٹ کاسٹ ہوئے عوامی لیگ نے39.2% یعنی کل 12937162 ووٹ حاصل کئے پاکستان پیپلز پارٹی نے18.6% یعنی کل6148923 ووٹ حاصل کئے عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کی 288 تمام کی تمام نشستیں حاصل کیں جب کہ مغربی پاکستان میں عوامی لیگ نے کوئی ایک نشست بھی حاصل نہیں مغربی پاکستان کی چار صوبائی اسمبلیوں میں پنجاب کی کل180 نشستوں میں سے پی پی پی نے 113 اور سندھ کی 60 نشستوں میں سے28 نشستیں حاصل کیں خیبرپختونخوا کی کل 40 نشستوں میں سے پی پی پی نے صرف تین نشستیں لیں یہاں نیشنل عوامی پارٹی نے 13 اور جمعیت علما ِاسلام نے 4 نشستیں لیں ۔

بلو چستان صوبائی اسمبلی کی کل 20 نشستوںمیں سے پی پی پی کو ئی نشست حاصل نہ کر سکی یہاں نیپ نے8 جمعیت علما اسلام نے 2 نشستیں حاصل کیں چونکہ صدر جنرل یحیٰ خان کے مارشل دور میں ایل ایف او کے تحت الیکشن کروائے گئے تھے اس کے مطابق اسمبلی کے پہلے اجلاس سے 90 دن کے اندر نیا آئین بنا نا ضروری بلکہ لازمی تھا ورنہ دوسری صورت میں اسمبلی تحلیل کرکے دوبارہ انتخابات کرانے تھے ،اس لیے بھٹو مجیب مذاکرات شروع ہوئے بھٹو نے یہ تین پوئنٹ رکھے اور کہا کہ چونکہ مجیب کے چھ نکات عوامی لیگ کا منشور ہے اور ملک کا منشور ہمیشہ کے لیے یا طویل مدت کے لیے ہو تا ہے اس لیے اسے قومی اسمبلی مل کر بنائے ، دوئم ایل ایف او سے 90 دن میں آئین بنانے کی شرط ختم کردی جائے یا شیخ مجیب الرحمن اپنے چھ نکات میں سے تین نکات مشرقی پاکستان کی الگ کرنسی ریزرو بنکنگ سسٹم،ایک فوج یا نیم فوجی دستے،اور تمام ٹیکس اور مالیا تی امور کا صرف صوبائی حق ایسے نکات میں ردوبدل کرلیں،کیونکہ اس طرح ویسے ہی ملک کے ٹکڑے ہوجاتے اس بنیاد پر بقول بھٹو انہوں نے پنجا ب اسمبلی کے سامنے کھڑے ہو کر یہ کہا تھا کہ یہاں ہما ری اکشریت ہے اور وہاں تمہا ری، اس لیے ملک کے نئے آئین بنانے میں ہماری شرائط کو بھی شامل کرنا ہو گا۔

اسی نعرے کو انہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ یہا ں ہم وہاں تم لیکن1971 ء میں مشرقی پاکستان میں 15 سے25 مارچ تک جاری رہنے والے بھٹو مجیب مذاکرات ناکام ہو گئے اور25 مارچ کو مشرقی پاکستان میں فوجی کاروائی شروع ہو گئی بھٹو نے اس پوری صور تحا ل پر اپنی مشہور کتا ب گریٹ ٹریجڈی جس کا اردو ترجمہ عظیم المیہ کے نام سے ہوا ہے اس میں مجیب کے عزائم اندرا گاند ھی کی جانب سے بھارتی مداخلت اور عالمی سازش کا ذکر کیا ہے مگر بہت سے لوگ اس سے پوری طرح اتفاق نہیں کرتے ،اب جہاں تک بھٹو کے اپنے تین نکات کا تعلق ہے تو پی پی پی کا انتخابی نعرہ روٹی ،کپڑا ،اور مکان تھا جب کہ بنیادی منشور میں یہ تین نکات اہم تھے اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت اور جمہوریت ہماری سیاست ہے ۔

اس میں شک نہیں کہ بھٹو نے 1972 ء ہی میں ملک کو شدید بحران سے نکال لیا اور پھر ان تین نکات پر جہاں تک عمل کا تعلق ہے تو انہوں نے پہلے 1972 ء کا عبوری آئین نافذ کر کے پارلیمانی نظام بحال کیا پھر 1973 ء کا متفقہ پارلیمانی آئین دیا مگر ساتھ ہی غیر جمہوری طور پر بلوچستان میں پہلے وزیر اعلیٰ عطا اللہ مینگل کی نیپ اور جمعیت علما ِ اسلام کی مخلو ط حکومت ختم کردی جس پر خیبر پختونخوا میں نیپ اور جمعیت علما ِاسلام کی مخلوط حکو مت کے وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود کی حکو مت مستعفی ہوگئی اور بعد میں بھٹو ان دونوں صوبوںمیں اپنی مرضی کی حکومتیں بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

لیکن بلوچستان میں ان کے اقتدار میں رہنے تک مسلح مزاحمت جاری رہی اسی طرح انہوں نے 1977 ء کے عام انتخابات میں غیر جمہوری عمل کو اختیار کرتے ہو ئے د ھاند لی کروائی جہاں تک تعلق اسلام ہمارا دین ہے کے نقطے کا ہے تو یہ اعزاز انہیں حاصل ہے کہ انہوں نے 1974 ء قادیا نیوں کو اقلیت قرار دینے کی علما کی تحر یک پر آئین میں ترمیم کردی انہوں نے آئین میں پہلے ہی ملک کو اسلامی جمہوریہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو قبول کیا تھا اور اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کا ادارہ مشاورت کے لیے قائم کیا تھا ان کے دور میں نہ صرف پہلی مرتبہ امام کعبہ اور امام مسجد نبوی پاکستان تشریف لائے بلکہ سب سے اہم کام انہوں نے یہ کیا کہ عالم اسلام میں اتحا د قائم کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی اور لاہور میں اسلامی سر برہ کانفرنس منعقد کر وائی ،اور جب 1977 میں ان کے خلاف تحریک چلی تو انہوں نے خود ملک میں شراب پر پابندی عائد کردی یہ حقیقت ہے کہ وہ مزاج کے اعتبار سے مذہبی انسان نہیں تھے ۔

جہاں تک تعلق سوشلزم کو معاشی نظام بنانے کی بات تھی تو ایک تو ان کی جماعت میں جا گیر دار اور سرمایہ دار موجود تھے مگر اس کے با وجود انہوں نے نہ صرف زرعی اصلاحات کر کے لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی بے زمین کسانوں کو دی بلکہ بھار ی انڈسٹری سمیت پرائیویٹ بنکوں کو قومی ملکیت میںلیا لیکن ان اصلاحات سے قبل وہ ہمارے سماجی مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے مزدو روں اور خصوصا مزدور لیڈروں کو ان اصلاحات سے ہم آہنگ نہ کرسکے سیاسی بنیادوں پر قومیائے گئے صنعتی یونٹوں میں ضرورت کے مقابلے میں کہیں زیادہ تعداد میں بھرتیوں سے اور لیبر یونینوں کی لیڈر شپ میں سوشلزم کے بنیادی شعور کے فقدان کی وجہ ان کے صنعتی ترقی پر منفی اثرات پڑ ے چونکہ بھٹو کی خا ر جہ پالیسی لا جواب تھی اس کی وجہ سے نہ صرف مشرق وسطیٰ اور سعودی عرب کی جانب سے بڑی رقوم کی گرانٹ آتی رہی اور ساتھ ہی ان کے دور میں35 لاکھ پاکستانی ان ملکوں میں جاکر کام کرکے زرمباد لہ بھیجتے رہے اس لیے صنعتی یونٹو ں کا خسارہ برداشت ہو تا رہا لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ بھٹو کی پالیسیاں انقلابی انداز سے نا فذ العمل نہیں ہوئیں اور اسی لیے یہ بعد میں اپنا تسلسل برقرار نہیں رکھ سکیں یوں بھٹو کے تین نکات اور نعرے ان کے اپنے دور میں بھی پوری طرح موثرثابت نہیں ہوئے لیکن اس کے باجود اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ سرد جنگ کے اہم ترین دور میں تیسری دنیا کے سب سے اہم لیڈر تھے۔

جنہوں نے دنیا میں عالمی استحصالی نظام کو چیلنج کیا۔اس کے بعد جنر ل ضیا الحق کا مارشل لا رہا 1988 ء سے 1999 ء تک نئی قیادت یعنی بینظیر بھٹو ،نواز شریف ایک دوسرے کے خلاف غیر جمہوری انداز اختیار کرتے ہوئے حکومتوں کوآٹھ ویں ترمیم کے تحت گرواتے رہے اور جب اکتوبر 1999 ء کے بعد دونوں جلا وطنی کی زندگی گزاررہے تھے تو آخر کا ر 14 مئی 2006 ء لندن میں ان کے درمیان میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے اور اس پر عمل در آمد کے لیے بینظیر نے بھٹو کی طرح جرات کا مظاہر کیا اور اس جد و جہد میں وہ 27 دسمبر 2007 ء کو راولپنڈی میں شہید ہوگئیں اس وقت تک نائن الیون کے بعد دہشتگردی کے حوالے سے ہونے والے شدید نوعیت کےواقعات ملک میں بڑھنے لگے۔

2008 ء میں پی پی پی کی وفاقی حکومت تشکیل پائی صدر ، آصف علی زرداری ہوئے اور وزیر اعظم پہلے یوسف رضا گیلانی اور بعد میں راجہ پر ویز اشرف ہوئے ان کے دور حکومت میں ان پر کرپشن کے الزامات مسلم لیگ نون کی جانب سے بھی عائد ہوتے رہے لیکن کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی لیکن یہ حقیقت ہے کرپشن کے الزامات کے اعتبار سے پیپلز پارٹی بدنام ہو ئی اور اس کا ووٹ بنک خصوصا پنجاب میں برباد ہو گیا،جب کہ اس دوران عمران خان نے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے کرپشن کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا اور یہ تحریک عوامی سطح پر بہت مقبول ہوئی 2011 ء میں اس کی مقبولیت پر اس وقت پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ نون ،ایم کیو ایم ،سمیت دیگر تما م پرانی سیاسی جماعتیں آئندہ انتخابات کے اعتبار سے سوچنے پرمجبور ہو گئیں ۔

11 مئی 2013 کے عام انتخابات میں جس کے بارے میں تمام سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات عائد کئے لیکن تحریک انصا ف نے اس دھاندلی کو چیلنج کیا ان انتخا بات میں مسلم لیگ ن نے کل ایک کروڑ 48 لاکھ 65 ہزار 585 ووٹ حاصل کئے تحریک انصاف کو 76 لاکھ 79 ہزار 514 ووٹ ملے اور پیپلز پارٹی کو68 لاکھ 50 ہزار 27 ووٹ ملے ،پیپلز پارٹی کے ووٹ مجموعی طور پر کم تھے مگر ان کی نشستیں تحریک انساف کے مقابلے میں قدرے زیادہ تھیں یو ں حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کے تعاون سے پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ لیڈر حزب اختلاف منتخب ہو گئے اور جب نواز شریف کی حکو مت کے خلاف تحریک انصا ف نے دھرنا دیا تو پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت کے حوالے سے ظاہری طور پر اور کبھی درپردہ نون حکومت کو بچانے کی کوشش کی اسی طرح جب پانامہ میں نواز خاندان کا نام آیا تو بھی ان کی کوشش یہ رہی کہ یہ معاملات پارلیمنٹ ہی میں طے کرلئے جائیں مگر بات خود نواز شریف کی جانب سے عدلیہ میں چلی گئی۔

اسوقت جب 5 مئی 2018 ء کو یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں تو نااہل وزیر اعظم نواز شریف ایک طرف کرپشن کے عائد الزامات پر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں تو ساتھ ہی ان الزامات کو اپنے خلاف سازش قرار دے کر عوامی مہم شرو ع کرچکے ہیں کہہ رہے ہیں کہ عوام انہیںاتنی بھاری تعداد میں ووٹ دیں کہ مسلم لیگ ن دوبارہ اقتدار میں آکر ان تمام قوا نین کو ختم کردے جن کی وجہ سے وہ اقتدار سے باہر ہوئے۔ اس پورے تناظر میں 29 اپریل 2018 ء کو مینار پاکستان پر عمران خان نے بھر پور جلسہ کیا جس میں انہوں نے آئند ہ انتخابا ت کے لیے اپنے 11 نکات عوام کے سامنے پیش کئے ہیںاور کہا کہ وہ قوم کو ایک بنانے کے لیے ایک تعلیمی نصاب ،ہیلتھ انشورنس پالیسی ،ٹیکس وصولی سسٹم کو ٹھیک کرنے،نیب کو مضبوط کرنے، کرپشن کے خاتمے،سرمایہ کاری میں اضافہ کرنے ،اور لوگوں کو روز گار دینے کے منصوبے پر عمل کریں اور حکومت میں آکر ملک کو تیزی سے ترقی دیں گے۔

وہ بے گھر عوام کو 50 لاکھ گھر فراہم کریں گے اور ماحول کی بہتری کے لیے 10 ارب درخت لگائیں گے سیاحت کو فروغ دے کر اربوں ڈالر سالانہ زرمباد لہ حاصل کریں گے۔ یہ تمام باتیں درست لیکن ان کی بنیاد پر پاکستان میںبھاری ووٹو ں سے الیکشن جیتنے اور ان نکات کو نافذ عمل کرنے اور قابل فہم اور قابل عمل بنانے کے لیے عمران خا ن نے تفصیلی پروگرام ابھی تک نہیں دیا ہے یہ تمام گیارہ کے گیارہ نکات منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کے لحاظ سے ایک دو سرے سے زنجیر کی کڑیوں کی طرح مربوط ہیں ،یہ حقیقت ہے کہ عالمی مالیاتی نظام میں ار تکاز زر بڑھ گیا ہے۔

یعنی مغربی ترقیافتہ ملکوں کے پاس منجمد سرمایہ زیادہ ہوگیا ہے اور ان کو اس کی بہت زیادہ فکر ہے کہ کس طرح اس منجمد سرمائے کو پوری دنیا میں گردش میں لائیں اس سرمائے میں ایک بڑا حصہ ہم جیسے ملکوں کے کرپٹ افراد کی اس بلیک منی کا ہے جو ملک سے مغرب کے بنکوں میں منتقل ہوتا رہا ہے اور اب ترقی پذیر ممالک کی اکثریت اس قابل بھی نہیں رہے گی کہ وہ قرضے لے کر اد ا کرسکیں اس لیے اب یہ مغربی ممالک خود چاہتے ہیں کہ ان کے سامنے ثبوت آئیں تو وہ کرپشن کا سرمایہ کسی حد تک ان غریب ملکوں کو واپس کردیں تاکہ دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی دو بارہ اس قابل ہوکہ یہ ممالک اور ان کی حکومتیں ان ترقی یافتہ ملکوں سے اجناس اور مصنوعات در آمد کرسکیں اور ترقی یا فتہ ملکوں کے کارخانوں اور مارکیٹوں میں بے روز گاری نہ ہو ،یوں تحر یک انصاف کو اس حوالے سے پورا منصو بہ دینا ہوگا۔

سرمایہ کاری کے لیے امن و امان بنیادی شرط ہے جو ایک طرف بہترین دفاعی صلاحتیوں سے حاصل ہوتی ہے تو دوسری جانب آج کے دور میں اس کے لیے بہتر خار جہ پالیسی کی بھی ضرورت ہو تی ہے ماحولیات ،قدرتی آفات،غربت اور بے روزگاری کی بنیادی وجہ آبادی میں تیزی سے اضافہ اور ناخواندگی اور پست معیا ر تعلیم ہے ان تمام مسائل کی شد ت اس سے کہیں زیادہ ہے جو بیان کی جاتی ہے بلکہ پاکستان کی صورتحال ایسے مریض کی سی ہے جسے مختلف بیماریاں ایسی لگ گئی ہیں ۔

جو ایک دوسرے سے تضاد رکھتی ہیں یعنی اگر پوری توجہ نہ دی جائے ایک کا علاج دوسری بیماری کی شدت کو بڑھاتا ہے دہشت گردی ،قومی اور فرقہ وارانہ تعصبات،کرپشن کے خلاف اقدامات اور قانون سازی میں اصلاحات ،وغیرہ یوں سب سے پہلے ملک کے ان مسائل کے علاج کے لیے قوت مد افعت میں اضا فہ کرنا ہو گا یعنی لیڈر کا کردار صاف ستھر ا ہو اور پوری قوم اس کے ساتھ ہو ،یوں میثاق لکھنؤ اور قائد کے چودہ نکات سے لیکر آج تک ایک صدی گزر چکی ہے اور اب وقت کے ساتھ مسائل اور ان کی شدت میں بھی بہت اضافہ ہو چکا ہے اس لئے اب جو لیڈر جو بول رہا ہے اسے اس کا یقین بھی ہو نا چاہیے کہ وہ اسے کر کے بھی دکھا ئے گا، قائد نے قوم کو ایک ملک دے دیا تھا لیکن آج ملک اور قوم دونوں کی حیثیتوں پر ایک بار پھر سوالا ت اٹھ رہے ہیں جن کا تشفی آمیز اور فوری جواب نہایت ضروری ہے۔

 

The post تاریخ پاکستان میں  ُشہرت پانے والے ’نکات‘ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2KGODJg
via IFTTT

دور جدید کا انوکھا مظہر؛ سڑکیں کیا الیکشن جتوا سکتی ہیں؟FOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

وطن عزیز میں حزب اختلاف کی جماعتیں ن لیگی حکومت پر ایک بڑا الزام یہ لگاتی ہیں کہ اس نے بیشتر سرکاری فنڈز شاہراؤں، سڑکوں، پلوں، ٹرین منصوبوں اور دیگر تعمیراتی پروجیکٹس پر صرف کر دئیے۔بقول ان جماعتوں کے اس کی وجہ یہ کہ تعمیراتی منصوبے عوام کو دکھائی دیتے ہیں۔اسی لیے انھیں متاثر کرنے کی خاطر ایسے منصوبے شروع کیے گئے۔جبکہ تعلیم اور صحت جیسے شعبوں کی بہتری کے لیے ن لیگی حکومت نے بہت کم اقدامات کیے۔

اپوزیشن پارٹیوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ تعمیراتی منصوبوں کے ذریعے کمیشن کھانے کا موقع ملتا ہے۔ اسی لیے لیگی حکومت تعمیراتی پروجیکٹس پر بے انتہا سرکاری پیسا لگاتی ہے تاکہ اپنے پرائے کمیشن سے مستفید ہو سکیں۔

پاکستان کی اپوزیشن پارٹیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ن لیگی حکومت نے لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں بیشتر تعمیراتی منصوبے شروع کرارکھے ہیں ۔جبکہ دیہی علاقوں میں تعمیراتی منصوبے بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص رقم میں سے دیہی علاقوں کو آٹے میں نمک جتنی رقم ملتی ہے۔اس باعث یہ منصوبے دیہی آبادی کی ترقی میں خاص کردار ادا نہیں کرسکے اور وہاں غربت و ناخواندگی عام دکھائی دیتی ہے۔ ن لیگی حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں انفراسٹرکچر کی بہتری سے معیشت مضبوط ہوگی۔

بیروزگاروں کو روزگار ملے گا اور باہمی روابط میں آسانی جنم لینے سے کاروبار پھلے پھولے گا۔اس دعویٰ میں کچھ دم تو ضرور ہے۔ اُدھر غیر جانبدار ماہرین کہتے ہیں کہ تعمیراتی منصوبے بنانا زیادہ سے زیادہ ووٹر اپنی جانب کھینچنے کا طریق کار بھی ہے۔ گویا پاکستان میں سڑکیں، شاہراہیں اور پل وغیرہ بنانے کا عمل اب الیکشن جیتنے کا ایک طریقہ بن چکا جو مثبت اور منفی، دنوں پہلو رکھتا ہے۔حکومت وقت کا حالیہ بجٹ بھی آشکارا کرتا ہے کہ برسراقتدار پارٹی سمجھتی ہے ، تعمیراتی منصوبوں خصوصاً سڑکیں، پل وغیرہ، بنوانے سے وہ عوام کی ہمدردیاں اور ووٹ جیت سکتی ہے۔ حالیہ وفاقی بجٹ میں ن لیگی حکومت نے عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر 800 ارب روپے رکھے ہیں۔ (یہ کل بجٹ کا صرف ’’20 فیصد‘‘ حصّہ ہے۔ بڑے حصے قرضے اتارنے اور دفاع کے نام ہوئے۔)

ان 800 ارب روپے میں سے 210 ارب روپے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو ملیں گے۔ یہ عوامی ترقیاتی رقم کا ’’26 فیصد حصہ‘‘ ہے۔ اس رقم سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی نئی شاہراہیں،سڑکیں اور پل بنائے گی۔ نیز تعمیر کردہ سڑکوں اور پلوں کی مرمت بھی اسی رقم سے انجام پائے گی۔ اس صورتحال سے عیاں ہے، ن لیگی حکومت سمجھتی ہے کہ سڑکیں، شاہرائیں اور دیگر تعمیراتی منصوبے بناکر وہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کرسکتی ہے اور وہ آمدہ الیکشن میں مسلم لیگ ن ہی کو ووٹ دیں گے۔الیکشن کے نتائج ہی عیاں کریں گے کہ ن لیگی لیڈروں کا نظریہ درست ثابت ہوا یا عوام ان کے تعمیراتی منصوبوں سے متاثر نہ ہو سکے۔درج بالا 210 ارب روپے کے علاوہ سی پیک منصوبے کے تحت بھی کئی شاہراہیں اور سڑکیں بن رہی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان قومی و مقامی سڑکوں کی تعمیر سے عام آدمی کو کتنا فائدہ ہوگا۔ کیا وہ غربت، جہالت اور بیماری سے نجات پالے گا؟ اس کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں جنم لیں گی؟اسے عام سہولیات زندگی میسر آ جائیں گی؟

پاکستان کی پہلی موٹروے مسلم لیگ ن ہی نے لاہور تا اسلام آباد تعمیر کرائی۔ اس کا افتتاح 1997ء میں ہوا تھا۔ مگر اکیس سال گزر جانے کے باوجود ماہرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ یہ مطلوبہ نتائج نہیں دے سکی۔ وجہ یہ کہ اکثر اوقات موٹر وے پر خال خال ٹریفک ہی دکھائی دیتی ہے۔ دراصل بیشتر شہری جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہیں۔ اسی باعث بعض ماہرین اسی موٹروے کو سفید ہاتھی قرار دیتے ہیں۔دلچسپ بات یہ کہ ہمارے پڑوس میں بھی اب سڑکوں، شاہراؤں اور پلوں کی تعمیر کو الیکشن جیتنے کا اہم ہتھیار تسلیم کرلیا گیا ہے۔

شاید بھارت کے وزیراعظم، نریندر مودی بھی مشہور برطانوی ماہر معاشیات، جان مینارڈ کینز کے نظریات پر یقین رکھتے ہیں۔ موصوف کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے وہ زیادہ سے زیادہ قرضے لے۔ قرضوں کی رقم سے پھر نئے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں تاکہ ملک میں معاشی ترقی جنم لے سکے۔وزیراعظم مودی نے بھارتیوں کو سہانے سپنے دکھا کر الیکشن 2014ء جیتا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ حکومت سنبھال کر ہر سال ’’ایک کروڑ‘‘ ملازمتیں تخلیق کریں گے تاکہ کروڑوں نوجوان بھارتیوں کو ملازمتیں مل سکیں۔واضح رہے، بھارت میں روزانہ 76 ہزار بچے پیدا ہوتے ہیں۔

بچے پیدا ہونے کی یہی رفتار رہی تو صرف چار سال بعد یعنی 2022ء میں بھارت دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔ دوسری قابل ذکر بات یہ کہ آج بھارت میں 15 سے 64 سال کی عمر والے ستاسی کروڑ نفوس آباد ہیں۔ یہ چین کے بعد قابل ملازمت انسانوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ (چین میں اس عمر والے ایک ارب انسان بستے ہیں)۔بھارت میں ہر سال ایک کروڑ بیس لاکھ نوجوان جاب مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں۔ ان سبھی کو ملازمتیں درکار ہوتی ہیں مگر مودی حکومت بھارتیوں کی توقعات پر پورا نہیں اترسکی۔ بھارت میں ملازمتوں کی کمی ہے جبکہ مودی ’’گڈگورنس‘‘ کا ماسٹر ہوتے ہوئے بھی معیشت کو سدھار نہیں سکے۔ بلکہ ان سے بعض ایسی فاش غلطیاں سرزد ہوئیں کہ انہوں نے حکومت کے اچھے کاموں پر پانی پھیر دیا۔

اگلے سال الیکشن ہیں جسے مودی ہر قیمت پر جیتنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے جنوری 2018ء میں مودی حکومت نے ’’بھارت مالا‘‘ کے نام سے ایک عظیم الشان تعمیراتی منصوبے کا اعلان کردیا۔یہ ن لیگی حکومت کے منصوبے سے کہیں زیادہ بڑا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت 2022ء تک 83,677 کلو میٹر طویل شاہرائیں اور سڑکیں تعمیر کی جائیں گی۔ اس دیوہیکل منصوبے پر ایک سو چھ ارب ڈالر سے زیادہ لاگت آئے گی۔ پاکستانی کرنسی میں یہ تقریباً 5کھرب 30ارب سے زائد بنتی ہے جو ایک زر کثیر ہے۔ اس رقم کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ حکومت پاکستان کا حالیہ قومی بجٹ تقریباً 59کھرب روپے سے زائد تھا۔

اس منصوبے کے تحت پورے بھارت میں شاہرائیں اور سڑکیں تعمیر کی جائیں گی۔ مزید براں پہلے سے بنی سڑکوں کو مزید پختہ بنایا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ کہ ’’بھارت مالا‘‘ منصوبہ کئی سال قبل کانگریس کی حکومت نے بنایا تھا مگر وہ عملی جامہ نہیں پہن سکا۔ اب مودی حکومت نے اسے فائلوں کے انبار سے نکالا اور جھاڑ پونچھ کر اختیار کرلیا۔ وزیراعظم مودی پرانے منصوبوں کو اپنا نیا منصوبہ قرار دینے کے ماہر ہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنے اچھے انتظام یا گڈگورنس کا سکہ دوسروں پر بٹھا سکیں۔بھارت کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر سال تقریباً سوا کروڑ جو نوجوان جاب مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں، ان کی اکثریت زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ اعلیٰ درجے کے ہنرمند ہوتے ہیں۔ اسی لیے شہروں میں ہر پانچ نوجوانوں میں سے صرف تین کو نوکریاں ملتی ہیں جبکہ دیہی معاشرے میں دو میں سے ایک ہی نوجوان ملازمت حاصل کرپاتا ہے۔

کم پڑھے لکھے نوجوانوں کو شعبہ تعمیرات ملازمتیں دے سکتا ہے۔ اسی لیے مودی حکومت نے کھربوں روپے کی لاگت سے ’’بھارت مالا‘‘ منصوبہ شروع کردیا تاکہ لاکھوں بھارتی نوجوانوں کو نوکریاں میسر آئیں اور حکومت کے خلاف غم و غصّہ کم ہوسکے۔ اس منصوبے کا خاطر خواہ اثر ہوا اور اب بھارت میں نئی ملازمتیں تخلیق ہورہی ہیں۔یاد رہے کہ جس ملک میں معاشی ترقی کی سالانہ شرح 2 فیصد ہو، وہ اطمینان بخش سمجھی جاتی ہے۔ لیکن یہ بات ہر ملک پر پوری نہیں اترتی۔ مثال کے طور پر بھارت کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

لہٰذا بھارت کے لیے ضروری ہے کہ اس کی معاشی ترقی کی رفتارکم از کم 7 فیصد سالانہ ہو۔ تبھی نوجوانوں کو ملازمتیں ملیں گی اور کروڑوں بھارتی غربت وجہالت کے پنجوں سے آزاد ہوسکیں گے۔مودی حکومت نے اپنی نیشنل ہائی ویز اتھارٹی اور دیگر متعلقہ محکموں کو خصوصی اختیارات ہیں تاکہ ’’بھارت مالا‘‘ منصوبے کے تحت شاہراہیں اور سڑکیں تیز رفتاری سے بن سکیں۔ بھارت میں اب بھی ’’سرخ فیتے‘‘ کا زور ہے اور افسر شاہی اپنی طاقت دکھانے کے لیے اکثر اوقات منصوبوں کی فائلیں دبا کر بیٹھ جاتی ہے۔ افسر شاہی کو کھڈے لائن لگانے کی خاطر مودی حکومت نے نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کو خصوصی اختیارات تفویض کیے ہیں۔

واضح رہے، بھارت دنیا میں سڑکوں کا دوسرا بڑا نظام رکھتا ہے۔ یہ نظام چھپن لاکھ بتیس ہزار کلو میٹر طویل شاہراؤں اور سڑکوں پر مشتمل ہے۔ اس سے بڑا سڑکوں کا نظام صرف امریکا میں موجود ہے جہاں 67 لاکھ 22 ہزار کلو میٹر سے زیادہ طویل سڑکیں بنی ہوئی ہیں۔مودی حکومت بھارت مالا منصوبے کی تکمیل کے لیے قرضوں، نجی شعبے، ہائی وے ٹول فیس اور وفاقی روڈ فنڈ کی مدد سے درکار ایک سو چھ ارب ڈالر جمع کرے گی۔ ماہرین معاشیات کے کاغذات پر یہ منصوبہ پُرکشش اور بامقصد ہے۔

بھارت حکومت وسیع پیمانے پر شاہرائیں اور سڑکیں بنارہی ہے۔ یوں تعمیراتی سرگرمیوں سے لاکھوں بھارتیوں کو روزگار مہیا ہوگا اور انہیں رقم ملے گی۔ یہ رقم پھر مختلف اشیا خریدنے میں کام آئے گی۔ بھارت میں کاروبار بڑھے گا اور معاشی ترقی جنم لے گی۔ لیکن کاغذات پر بہترین دکھائی دینے والا بھارت مالا منصوبہ کچھ سنگین خامیاں بھی رکھتا ہے۔

ایک بڑی قباحت یہ ہے کہ منصوبہ بھارتی حکومت کے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کردے گا۔ بھارت پر اس وقت ایک ٹریلین سولہ ارب ڈالر کا قرض ہے۔ بھارت حکومت اس قرض پر ’’ہر ایک سیکنڈ میں‘‘ ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے بطور سود ادا کرتی ہے۔ بھاری بھرکم قرضوں کی وجہ سے آج ہر بھارتی بچہ جنم لے، تو اس پر تقریباً ساٹھ ہزار روپے کا قرض پہلے ہی سے چڑھا ہوتا ہے۔دوسری خامی یہ کہ پانچ برس میں تقریباً چوراسی ہزار کلو میٹر سڑکیں تعمیر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بھارتی سرکاری ادارے ہر سال سولہ ہزار سات سو کلو میٹر طویل سڑکیں بنالیں۔یہ ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ ماضی میں بھارتی سرکاری ادارے خوب زور مار کر ہر سال زیادہ سے زیادہ چھ ہزار کلو میٹر کی سڑکیں بناتے رہے ہیں۔

گویا سالانہ ساڑھے سولہ ہزار کلو میٹر طویل سڑکیں بنانے کی خاطر سرکاری اداروں کو دگنی سے بھی زیادہ محنت کرنا ہوگی اور دگنے فنڈز درکار ہوں گے۔تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ سڑکوں کے لیے زمین حاصل کرتے ہوئے بعض اوقات خاصا وقت لگ جاتا ہے۔ وجہ یہ کہ کئی لوگ سڑک کے راستے پر آنے والی اپنی زمین فروخت کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ چنانچہ معاملہ عدالتوں میں چلا جاتا ہے۔ وہاں برسوں بیت جاتے ہیں اور کوئی تصفیہ نہیں ہوپاتا۔مثال کے طور پر دس سال قبل کانگریسی دور حکومت میں دہلی تا بمبئی ’’صنعتی شاہراہ‘‘ بنانے کا اعلان ہوا تھا۔ مگر یہ شاہراہ اب تک نہیں بن سکی۔ وجہ یہی کہ کئی بھارتی شہری اپنی زمینیں اس تعمیراتی منصوبے کی نذر نہیں کرنا چاہتے۔

بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ مودی حکومت نے کھربوں روپے کی لاگت سے سڑکیں بنانے کا جو بھارت مالا منصوبہ شروع کیا ہے، کیا وہ اتنا بوتا رکھتا ہے کہ نریندر مودی کو الیکشن 2019ء میں فتح دلوا دے۔ اگر اس تعمیراتی منصوبے کی بدولت لاکھوں بھارتیوں کو ملازمتیں میسر آئیں تو مودی کی جیت کا امکان روشن ہوسکتا ہے۔لیکن یہ بھی عوام کو اپنے دام میں پھانسنے کی چال نکلی تو مودی صاحب کو گھر واپس جانا پڑے گا۔اب دنیا بھر میں شعور وآگاہی بڑھنے سے خالی خولی نعروں کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔عوام اب ٹھوس کام دیکھتے ہیں ،نری باتیں نہیں!

The post دور جدید کا انوکھا مظہر؛ سڑکیں کیا الیکشن جتوا سکتی ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IxoCzo
via IFTTT

پنڈت وشنودت ملتان والا۔۔۔FOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

ملک اﷲ دتہ نسیم‘ جو ملتان میں اے ڈی نسیم کے نام سے معروف رہے کی شہرت کے بہت سے حوالے تھے، بطور شاعر وہ شہر کے ادبی حلقوں میں ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ ان کی شہرت کا ایک حوالہ انگریزی زبان میں غیرمعمولی مہارت تھی، گورنمنٹ ایمرسن کالج میں سینئر کلرک تھے لیکن انگریزی کے اساتذہ سے بھی زیادہ بہتر اظہارخیال کر سکتے تھے۔

اے ڈی نسیم کی شہرت کا ایک حوالہ ملتان کی ہندی اساطیر سے غیرمعمولی آگاہی بھی تھی۔ انہوں نے ملتان کی منظوم تاریخ بھی لکھنا شروع کی تھی جس میں وہ ملتان کی ہندی اساطیر کو ایک خاص رومانی انداز سے پیش کر رہے تھے۔ اے ڈی نسیم ملتان شہر میں اپنی ایک اور صلاحیت کے حوالے سے بھی معروف تھے، وہ ان کا کلاسیکل موسیقی سے غیرمعمولی لگاؤ تھا ۔

وہ موسیقی کے پارکھ، نقاد اور استاد تھے انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے کے ملتان میں موسیقی کی روایت کو نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ اس کا حصہ بھی رہے، ملتان میں منعقد ہونے والے ہر سنگیت سمیلن میں ان کی شرکت لازمی ہوتی تھی اس کے علاوہ وہ موسیقی کی خانگی مجالس ’جو زیادہ تر ہندوؤں کے گھروں میں منعقد ہوتی تھیں‘ میں بھی شرکت کرتے تھے۔ اے ڈی نسیم نے کچہری سے گھنٹہ گھر جانے والی سڑک پر ایک چوبارہ کرائے پر لے رکھا تھا جہاں استاد عاشق علی خان اور استاد توکل خان جیسے لوگ بھی تشریف لایا کرتے تھے۔ اے ڈی نسیم کلاسیکل موسیقی کے غیرمعمولی پارکھ ہونے کے ساتھ اس فن پر بہت اچھا لکھ بھی سکتے تھے لیکن المیہ یہ ہوا کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں اس موضوع پر ایک ہی مضمون لکھا‘ یہ مضمون بھی ان سے نومبر 1971ء میں ریڈیو ملتان کے افتتاح پر خصوصی طور پر روزنامہ امروز کے لئے لکھوایا گیا۔ اے ڈی نسیم کا یہ طویل مضمون قیام پاکستان سے پہلے کے ملتان میں موسیقی کی روایت کا بھرپور احاطہ کرتا ہے‘ اے ڈی نسیم رقمطراز ہیں:

’’اس دور میں گھر گھر میں گانے کا چرچا تھا، ہندوؤں کے گھروں میں تو خاص طور پر اس فن کی بڑی مقبولیت تھی، صبح سویرے اکثر ہندو گھرانوں میں پرارتھنا گائی جاتی تھی، اکثر مکانوں کی بالائی منزلوں پر ہارمونیم اور ستار کے ساتھ ہندو لڑکیوں کے گانے کی آواز سنی جاتی تھی۔ یہ لڑکیاں اکثر ولیکار، میاں کی ٹوڈی، آسا روی اور للت گاتی تھیں، بعض معزز ہندو گھرانوں کی لڑکیاں شہر کی گائیکہ عورتوں سے بھی اچھا گاتی تھیں، مشہور ادیب اور تھیٹریکل ڈرامہ نویس دیوان آتمانند شرر کی دو بھتیجیاں رمولا اور موہنی بڑی سلجھی ہوئی لڑکیاں تھیں، گورے رنگ اور لانبے قد کی یہ کوئلیں بھڑکیلی ساڑھیاں زیب تن کئے خانگی محفلوں میں ہلچل ڈال دیتی تھیں، انھیں ٹھمری اور غزل پر خاص عبور حاصل تھا، اسی طرح چھاؤنی کے شری کرشن گھڑی ساز کی دو لڑکیاں اکثر گھریلو محفلوں کو اپنے گیتوں سے گرماتی تھیں‘‘۔

ملک اے ڈی نسیم کے اس تاریخی مضمون میں مذکور شری کرشن گھڑی ساز کے خاندان میں جاری موسیقی کی روایت ہی ہماری آج کی گفتگو کا موضوع ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے ملتان کینٹ میں شری کرشن اینڈ سنز کے نام سے گھڑیوں کی ایک دکان تھی جہاں پرانی گھڑیوں کی مرمت کے ساتھ نئی گھڑیاں بھی فروخت کی جاتی تھیں، شری کرشن گھڑی ساز جن کا خاندان راجستھان سے ہجرت کر کے ملتان میں آباد ہوا تھا، ایک متمول کاروباری آدمی تھے۔ پنڈت شری کرشن کے سات بیٹوں میں سے ایک کا نام پنڈت وشنودت ملتان والا تھا جنہوں نے بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں گراموفون میوزک کی دنیا میں بڑا نام کمایا اور ہز ماسٹر وائس میوزک کمپنی سے 1928ء میں گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔ پنڈت وشنودت کی حتمی تاریخ پیدائش معلوم نہیں ہو سکی، ان کی والدہ کا انتقال ان کی کم عمری میں ہی ہو گیا تھا۔

پنڈت وشنودت نے ابتدائی تعلیم ملتان سے ہی حاصل کی، بعدازاں انہوں نے ملتان کے ایک معروف سنگیت ودیالے گروکل سے موسیقی میں ڈپلومہ کیا جو گروکل کانگڑی کی ایک شاخ تھا۔ اپنے سات بھائیوں میں پنڈت وشنودت ہی اپنے والد کے کاروبار کا حصہ بنے، ملتان میں رہتے ہوئے ان کا خاندان بڑا خوشحال تھا، قیام پاکستان سے پہلے انہوں نے اپنے خاندان کے مستقبل کے لئے اچھی خاصی جائیداد بھی خریدی۔ ملتان میں ان کا آبائی گھر گجر کھڈہ کے علاقہ میں تھا جو پنڈت جی کی حویلی کے نام سے معروف تھا۔ پنڈت وشنودت کی پہلی شادی 20 سال کی عمر میں ہوئی تھی لیکن زچگی کے دوران ان کی بیوی اور بچے کی وفات ہو گئی۔ اس کے بعد کئی سال تک انہوں نے شادی نہیں کیِ، جب ان کے خاندان کے لوگ ادھر ادھر بکھر گئے تو ان کے ایک رشتہ دار نے انہیں دوسری شادی کے لئے آمادہ کیا، ان کی دوسری شادی کملا شرما سے ہوئی جن کا تعلق راجھستان سے تھا ۔

پنڈت وشنودت ملتان والا میں موسیقی کی قدرتی صلاحیت تھی، اگرچہ ان کے والد شری کرشن نہیں چاہتے تھے وہ موسیقی سیکھیں اور اسے بطور پروفیشن اپنائیں، اس کے باوجود پنڈت وشنودت اپنے موسیقی کے شوق اور صلاحیت کو وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھاتے رہے۔ انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم گروکل کانگڑی ملتان سے حاصل کی، (گوروکل ملتان جو آریہ سماج تحریک کے زیراہتمام شروع ہوا گروکل کانگڑی کی ہی ایک شاخ تھا پہلے پہل یہ ڈیرہ بدھو میں چودھری رام کشن سکندر آبادی کے عطیہ زمین پر بنایا گیا تھا پھر کچھ تنازعات کی وجہ سے وہاں سے لالہ پر ماننداروڑا کے بنگلہ جو حضوری باغ میں تھا شفٹ ہو گیا ، عملی طور پر یہ گروکل کانگڑی سے الگ تھا ، اس کا انتظام ایک کمیٹی کے سپرد رہا جس کے مہتمم بال کرشن تھے۔

اس ودیالا میں ہندو دھرم کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ موسیقی کی تعلیم بھی دی جاتی تھی، پنڈت وشنودت ملتان والا کے سوا اس ادارہ کا کوئی اور نامور سٹوڈنٹ سامنے نہیں آیا) اس کے بعد وہ ذاتی سطح پر موسیقی کا ریاض کرتے رہے، ہارمونیم بجانے میں بھی انہوں نے خاص مہارت حاصل کی۔ پنڈت وشنودت کی گائیکی کا زمانہ گراموفون ریکارڈ کا زمانہ تھا اس زمانے میں کلکتہ فن و ثقافت کا مرکز تھا جہاں مختلف ریکارڈنگ کمپنیاں فن کاروں کے گراموفون ریکارڈ تیار کرتی تھیں اور انہی ریکارڈز کے ذریعے فن کاروں کو ہندوستان بھر میں شہرت بھی ملا کرتی تھی۔ ملتان سے ان دنوں بہت سے فن کار کلکتہ جاکر ریکارڈنگز کرایا کرتے تھے جن میں پنڈت گنپتی بابو‘ پنڈت بنواری لال، مس بدرو ملتانی‘ لالاں جان اور دیگر فن کار شامل تھے۔

پنڈت وشنودت نے بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں اس دور کی معروف گراموفون کمپنی ہز ماسٹر وائس جو ایچ ایم وی کے نام سے جانی جاتی تھی تک رسائی حاصل کی‘ 1915ء سے لے کر 1928ء تک ان کے بہت سے گراموفون ریکارڈ تیار ہوئے، انہوں نے اپنے فنی کیریئر میں بھجن‘ گیت اور غزلیں ریکارڈ کرائیں۔ پنڈت وشنودت ملتان والا کی گائیکی سن کر ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے عہد میں مروج غزل گائیکی کے انداز سے خاصے متاثر تھے، مدھ لے میں گائی ہوئی ان کی غزلیں الفاظ کی تصویر بناتی چلی جاتی ہیں، ان کی گائیکی کا انداز بھی زوردار ہے، وہ اپنی پاٹ دار آواز میں بڑی طاقت سے سر لگاتے نظر آتے ہیں، گیت اور غزل کے ساتھ ساتھ ان کی گائیکی کا زیادہ تر تعلق دھارمک سنگیت سے رہا ہے، ان کے ہاں غزل گائیکی میں بھی دھارمک مضامین دکھائی دیتے ہیں، اس کے علاوہ ان کی گائیکی میں ہندو قوم پرستی بھی نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے، پنڈت وشنودت ملتان والا کو جس گیت پر ہز ماسٹر وائس کلکتہ سے گولڈ میڈل سے نوازا گیا وہ ان کا گایا ہوا ایک بھجن ہی ہے جس کی شاعری علامہ اقبال کے ترانہ ہند ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ سے متاثر نظر آتی ہے:

ارے پیارا وطن ہمارا پیارا وطن ہمارا

بلبل اگر ہیں ہم تو وہ ہے چمن ہمارا

ارے پیارا وطن ہمارا‘ پیارا وطن ہمارا

تن ہو کہیں وہیں پر رہتا ہے من ہمارا

ہے رام بھی یہیں پر‘ گھنشام بھی یہیں پر

ایسے مہاپرش ہیں، گزرے فنا کہیں پر

پیارا وطن ہمارا، پیارا وطن ہمارا

ایچ ایم وی سے 1928ء میں گولڈ میڈل حاصل کرنے کے باوجود پنڈت وشنودت ملتان والا نے ملتان میں رہتے ہوئے ہی موسیقی کو خیرباد کہہ دیا تھا، اس کے بعد انہوں نے اپنی تمام تر توجہ اپنے خاندانی کاروبار پر مرکوز کر دی تھی لیکن موسیقی سے ان کا تعلق زندگی بھر قائم رہا، ان کے خاندان میں بھی موسیقی کی روایت قائم رہی۔ قیام پاکستان کے بعد پنڈت وشنودت کا خاندان ملتان سے دہلی منتقل ہو گیا تھا ، ہجرت کی وجہ سے انہیں اپنا گھر، کاروبار اور جائیداد بھی چھوڑنا پڑی جسے انہوں نے بڑی محنت سے بنایا تھا، گو 1947ء کی علیحدگی نے ہر چیز کو مسخ کر ڈالا تھا لیکن پنڈت وشنودت بہت زیادہ مضبوط اعصاب کے آدمی تھے۔ تقسیم کے بعد انہوں نے دہلی میں دو بیٹوں کی مدد سے اپنا کاروبار  اسی پرانے نام شری کرشن اینڈ سنز کے نام سے دوبارہ شروع کیا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک بار پھر بڑے بزنس مین بن گئے۔

ان کی ایمانداری اور محنت نے انہیں اس مقام پر پہنچایا کہ وہ کاروبار میں نمایاں کامیابی حاصل کریں، یہ ان کی محنت اور ایمانداری کی شہرت ہی تھی کہ ایک بار انڈیا کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھی اپنی گھڑیاں ان کے پاس مرمت کے لئے بھیجیں ، انہوں نے اس مہارت سے ان گھڑیوں کو ٹھیک کیا کہ پھر دیگر سیاست دانوں نے بھی اپنیگھڑیاں ان کے پاس ٹھیک کرنے کے لئے بھیجیں ۔ پنڈت وشنودت نے دہلی میں اپنے کاروبار کو مزید وسعت دینے کے لئے گولڈ‘ آپٹیکل اور سٹیشنری کا کام بھی کیا لیکن 1970ء میں انہوں نے اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے یہ کاروبار ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ، یوں شری کرشن اینڈ سنز نامی گھڑیوں کی یہ دکان جس کا آغاز ملتان سے ہوا تھا قریباً  سو سال کے بعد 1970ء میں دہلی میں بند ہو گئی۔

پنڈت وشنودت ملتان والا کی دوسری بیوی کملا شرما سے پانچ بچے ہوئے، ان کے سبھی بچے ملتان میں ہی پیدا ہوئے‘ ان سب کا موسیقی سے گہرا تعلق رہا، اپنی اولاد میں موسیقی کا شوق پروان چڑھانے میں ان کا اپنا بڑا کردار تھا ۔ پنڈت وشنودت کے پاس گھر میں ہارمونیم‘ ستار، وائلن، جل ترنگ اور طبلہ جیسے ساز تھے۔ وہ اپنے بچوں کی ایک خاص طرح سے حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ وہ اپنی پسند کا ساز سکیھیں، اس طرح ان کے بچے بھی گائیکی اور سازکاری میں ماہر ہوتے چلے گئے۔ خوش قسمتی سے ان کے فیملی میوزک ٹیچر دیو کی نندن ڈھاون گائیکی کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے ساز کی بھی تعلیم دے سکتے تھے جو ان کے گھر میں موجود تھے۔ پنڈت وشنودت دہلی میں اپنے گھر پر ماہوار میوزک کنسٹرٹ کا اہتمام کرتے تھے تاکہ وہ خود اور ان کے بچے فیملی ممبرز اور دوستوں کے سامنے پرفارم کر سکیں۔

ان محافل میں  50 اور 70 کی دہائی کے کچھ معروف فن کار بھی مدعو کئے جاتے تھے جن کے ساتھ پنڈت وشنودت کے دوستانہ مراسم تھے، یہ تمام فن کار آل انڈیا ریڈیو سے تعلق رکھتے تھے جن میں کے ایل اگنی ہوتری‘ ودیاناتھ سیٹھ‘ آساسنگھ مستانہ‘ سریندر کور اور  ان کی بہن شامل تھیں، ان محافل میں پنڈت وشنودت بھی خصوصی طور پر پرفارم کرتے تھے، اگر وہ گاتے ہوئے بھول جاتے تو ان کی بیوی کملا شرما انہیں گیت کے بول یاد کرا دیا کرتی تھیں، پنڈت وشنودت کے موسیقی کے شوق میں ان کی بیوی کا بھی اہم کردار رہا، وہی ان کے ساتھ گراموفون ریکارڈنگز کے لئے ملتان سے کلکتہ تک کا سفر بھی کرتی تھیں۔

پنڈت وشنودت ملتان والا کی اولاد میں سب سے بڑے بیٹے گوتم دیو شرما تھے جو اپنے خاندانی کاروبار سے منسلک رہے، انہوں نے اپنے شوق سے طبلہ سیکھا وہ اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ موسیقی کی تمام محافل میں طبلہ پر سنگت بھی کرتے تھے۔گوتم شرما کی تین بیٹیاں سچترا، رتنا اور گوری بھی موسیقی کا بہت اچھا ذوق رکھتی ہیں۔ گوتم شرما کے بعد ان کی بیٹی کوسم پنڈت ہیں جنہیں باپ کی طرف سے موسیقی کی وراثت اور صلاحیت ملی، وہ اپنے بچپن سے ہی ایک گلوکارہ کے طور پر پروان چڑھیں، جب وہ چھوٹی سی بچی تھی تب بھی تمام سوالوں کا جواب گا کر دیتی تھی، پنڈت وشنودت نے ان کی صلاحیت کو بروقت پہچانتے ہوئے ان کے لئے ایک میوزک ٹیچر کا اہتمام کیا، انہوں نے اپنے فیملی میوزک ٹیچر دیو کی نندن سے موسیقی کی تربیت حاصل کی اور بہت اچھی گلوکارہ بنیں ۔

ان کی آواز بہت میٹھی، گائیکی گہرے جذبات کی عکاس اور سامعین کو مسحور کرنے کا ہنر رکھتی ہے،  کوسم پنڈت قیام پاکستان سے پہلے لاہور ریڈیو پر بھی گاتی رہیں، پنڈت وشنودت انہیں ملتان سے لاہور ریکارڈنگ کے لئے لے جایا کرتے تھے۔ 1947ء کے بعد انہوں نے جالندھر ریڈیو سے بھی گایا، بعدازاں دہلی ریڈیو پر بھی پرفارم کرتی رہیں۔ کوسم پنڈت نے پنچابی‘ بنگالی اور ہندی زبان میں گائیکی کا مظاہرہ کیا اور آل انڈیا ریڈیو کی ایک مقبول فن کارہ بنیں، ان کے گیت آج بھی آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوتے ہیں۔ پنڈت وشنودت کے دوسرے صاحبزادے مرحوم مدن شرما بھی شوقیہ فن کار تھے، انہیں الیکٹرانکس میں بہت زیادہ دلچسپی تھی، ان کے والد نے انہیں مزید تعلیم کے لئے امریکہ بھیجا، جہاں انہوں نے اپنی فیلڈ میں بہت سی کامیابیاں حاصل کیں، ان کے دو بچے کرش شرما اور جنین شرما ہیں، ان کے بیٹے کرش شرما کی ذات میں ان کی وراثت کا مشترکہ ٹیلنٹ سامنے آیا یعنی دادا کی طرف سے موسیقی اور والد کی طرف سے ٹیکنالوجی کا ٹیلنٹ، کرش شرما نے یو سی ایل امریکہ سے گریجوایشن کیا۔

اس کے بعد انہوں نے موسیقی کو بطور کیریئر اپنایا ۔ ان کا لاس اینجلس میں اپنا میوزک سٹوڈیو ہے جہاں وہ امریکی گلوکاروں کے لئے موسیقی ترتیب دیتے ہیں جن میں کچھ امریکہ کے معروف گلوکار بھی ہیں جیسے رولنگ سٹونز اور دیگر۔ کرش شرما نے 2009ء میں بچوں کے میوزک کے بہترین البم پر گریمی ایوارڈ بھی حاصل کیا ۔ کرش شرما کی ماں اس بات پر فخر کرتی ہیں کہ ان کے دادا وشنودت نے 1928ء میں ہز ماسٹر وائس کا گولڈ میڈل حاصل کیا جبکہ ان کے پوتے نے گریمی ایوارڈ حاصل کیا۔ ان کے خاندان نے پنڈت و شنودت کا گولڈ میڈل بھی کرش شرما کو پیش کر دیا جنہوں نے موسیقی کی دنیا میں اپنی ذاتی صلاحیتوں سے نام کمایا۔ پرتیبھا پنڈت جو پنڈت وشنودت کی منجھلی بیٹی ہیں  نے ستار بجانے کی تربیت حاصل کی۔

انہوں نے ستار نوازی کے حوالے سے پانچ سالہ کورس بھی کیا، کورس کی تکمیل پر ان کا امتحان لینے والوں میں پنڈت روی شنکر جیسے مہان ستار نواز بھی شامل تھے۔ اس موقع پر پنڈت روی شنکر ان کی پرفارمنس سے بہت خوش ہوئے اور اس فن میں آگے بڑھنے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ ہرتیبھا پنڈت نے ستار نوازی کے حوالے سے آل انڈیا ریڈیو کا آڈیشن بھی پاس کیا اور مختلف پروگراموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی رہیں، انہوں نے ستار کے ساتھ ساتھ گائیکی اور اداکاری کی تربیت بھی حاصل کی۔ انہوں نے اپنی چھوٹی بہن رجنی ڈوبے کے ساتھ دہلی آرٹ تھیٹر بھی جوائن کیا جہاں وہ اداکاری کے ساتھ ساتھ اپنی بہن رجنی کے ساتھ مل کر ہیر رانجھا بھی گایا کرتی تھیں ۔ رجنی ڈوبے جو پنڈت وشنودت کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں انہوں نے کم عمری سے ہی گانا شروع کیا اور اپنی بڑی بہن کوسم پنڈت کی طرح پروفیشنل سنگر بنیں ۔ انہوں نے بھی موسیقی کی تعلیم اپنے خاندانی استاد سے حاصل کی ۔ ان کے پاس ایک طاقت ور آواز تھی، انہوں نے آل انڈیا ریڈیو کا آڈیشن بھی پاس کیا ۔ بعد ازاں یہ دہلی آرٹ تھیٹر سے وابستہ ہوئیں اور پنجابی اوپیرا میں بطور لیڈ سنگر پرفارم کرتی رہیں، انہوں نے انڈین ٹی وی پر بھی گایا ۔

پنڈت وشنودت ملتان والا کے ہز ماسٹر وائس کے زیراہتمام بہت سے گراموفون ریکارڈ ریلیز ہوئے لیکن وہ اپنی آواز کے خزانہ کو محفوظ نہ رکھ سکے، ان کی وفات کے بعد ان کے داماد ہرمیندر اتری جو امریکہ میں انجینئر تھے نے وشنودت کے آواز خزانہ کو جمع کرنے کے لئے بہت بھاگ دوڑ کی۔ ان کی یہ مشکل اس وجہ سے آسان ہوئی کہ پرانے دور میں گراموفون سنگرز گانے کے اختتام پر خود اپنا نام اور اپنے شہر کا نام بتاتے تھے۔ اس طرح ہرمیندر اتری ان کے کئی ریکارڈز تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے جن کے آخر میں پنڈت جی اپنا نام بتاتے ہیں ’’پنڈت وشنودت ملتان والا‘‘ اس سلسلہ میں ڈاکٹر سریش چندوانکر جو سوسائٹی آف انڈین ریکارڈ کولیکٹرز کے سیکرٹری ہیں نے بھی ان کی بہت زیادہ مدد کی۔

The post پنڈت وشنودت ملتان والا۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2KEVIKd
via IFTTT

ہفتہ، 19 مئی، 2018

مکہ سے مدینہ جانے والی بس کو حادثہ، 9 عمرہ زائرین جاں بحقFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

ریاض: مکہ سے مدینہ جانے والی زائرین کی بس بے قابو ہو کر پل سے نیچے گر گئی جس کے نتیجے میں 9 زائرین جاں بحق اور 18 زخمی ہو گئے ہیں۔

عرب میڈیا کے مطابق الحجرہ روڈ پر مکہ سے مدینہ عمرہ زائرین کو لے جانے والی بس ڈارئیور کے قابو سے باہر ہو کر پل سے نیچے گر گئی جس کے نتیجے میں 9 افراد جاں بحق اور 18 زخمی ہو گئے ہیں۔ حادثے کے متاثرین کو قریبی اسپتال منتقل کردیا گیا ہے جہاں 6 زخمیوں کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔

سعودی محکمہ شہری دفاع کے ترجمان خالد الساحلی کا کہنا تھا کہ زخمیوں کو ہر ممکن طبی امداد دی جا رہی ہے تاہم 6 زخمیوں کی حالت نہایت تشویشناک ہے۔ جاں بحق اور زخمی ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق ایشیائی ممالک ہے تاہم ابھی تک کسی کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ پولیس نے حادثے کی وجوہات کا تعین کرنے کے لیے تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔

واضح رہے رمضان المبارک میں زائرین کی بڑی تعداد عمرہ کے لیے سعودی عرب کا رخ کرتی ہے جس کے باعث اس ماہ حریمین شریفین میں غیر معمولی رش ہوتا ہے۔

The post مکہ سے مدینہ جانے والی بس کو حادثہ، 9 عمرہ زائرین جاں بحق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IsU1CR
via IFTTT

کراچی میں سال کا گرم ترین دن، ہیٹ انڈیکس 44 ڈگری تک جاپہنچاFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

کراچی: شہر قائد میں سال کا گرم ترین دن ہے اور دن بارہ بجے ہی درجہ حرارت 41 ڈگری تک جاپہنچا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی میں بھی سال کا گرم ترین دن ہے۔ دن 12 بجے درجہ حرارت 41 ڈگری تک جا پہنچا ہے جب کہ ہوامیں نمی کا تناسب 10 فیصدہے، سمندری ہواؤں کی بندش اور حبس کے باعث گرمی کی شدت 44 ڈگری محسوس کی جارہی ہے، شدید گرمی ، پانی کی بندش اور کے الیکٹرک کی جانب سے فنی خرابیوں کے نام پر طویل غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے رمضان المبارک کے ابتدائی ایام میں لوگوں کی مشکلات بڑھا دی ہیں۔

محکمہ موسمیات نے ہفتے کے روز درجہ حرارت 43 ڈگری تک تجاوز کرنے کی پیش گوئی ہے جب کہ گرمی کی شدت مزید 5 روز تک برقرار رہے گی اور درجہ حرارت 40 ڈگری تک رہے گا۔

صوبائی حکومت نے صورت حال سے نمٹنے کے لیے کراچی کی مقامی انتظامیہ کو خصوصی ہدایات جاری کررکھی ہیں، کسی بھی ناخوشگوار صورت حال سے نمٹنے کے لیے شہر کے سرکاری اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہے۔

دوسری جانب سندھ اور بلوچستان میں شدید گرمی کی لہر برقرار ہے، کئی علاقوں میں دن 12 بجے ہی درجہ حرارت 42 ڈگری سے تجاوز کرگیا ہے۔

واضح رہے کہ 2015 میں بھی رمضان المبارک کے دوران شدید گرمی کی لہر آئی تھی جس کی زد میں آکر کم از کم 1600 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

The post کراچی میں سال کا گرم ترین دن، ہیٹ انڈیکس 44 ڈگری تک جاپہنچا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2wUDNx2
via IFTTT

نقیب اللہ قتل کیس کے سرکاری وکیل کو سنگین دھمکیاں ملنے کا انکشافFOCUS NEWS NETWORK(Speacial correspondent ZIA MUGHAL)

0 comments

کراچی: نقیب اللہ قتل کیس کے وکیل استغاثہ سنگین دھمکیوں کی وجہ سے عدالت میں پیش نہیں ہوئے جب کہ سرکاری وکلا نے عدالتی نوٹس وصول کرنے سے معذرت کرلی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی، جیل حکام نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان کو عدالت کے روبرو پیش کردیا۔ مقدمے کی سماعت بند کمرے میں ہوئی۔ تفتیشی افسرنے سی سی ٹی وی فوٹیج پر مشتمل سی ڈی اور دیگر شواہد عدالت کے روبرو پیش کردیئے تاہم مقدمے کے وکیل استغاثہ علی رضا ایڈووکیٹ پیش نہ ہوئے ان کی جگہ دیگر سرکاری وکلا پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران صورت حال اس وقت پیچیدہ ہوگئی جب کہ سرکاری وکلا نے عدالتی نوٹس وصول کرنے سے انکار کردیا، جس پر فاضل جج نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ حیرت ہے سرکاری وکلا نوٹس بھی وصول نہیں کررہے،  میں نے پہلے ہی ہائی کورٹ کو لکھا تھا کہ کیس بھیج رہے ہیں توعملہ اور سرکاری وکیل بھی بھیجیں۔ عدالت نے پیش کردہ سی ڈی کی کاپیاں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ کیس کی مزید سماعت 28 مئی کو ہوگی۔

مقدمے کے وکیل استغاثہ علی رضا عدالت میں پیش نہیں ہوئے، ان کی عدم موجودگی کے باعث دیگر سرکاری وکلا پیش ہوئے۔ سرکاری وکلا نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر میڈیا کو بتایا کہ علی رضا کا کہنا ہے کہ وہ راؤ انوار کے مقدمےمیں پیش نہیں ہوسکتا، اسے دھمکیاں مل رہی ہیں۔

The post نقیب اللہ قتل کیس کے سرکاری وکیل کو سنگین دھمکیاں ملنے کا انکشاف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Lev7od
via IFTTT