![](https://static01.nyt.com/images/2020/03/15/us/15-live-travelrestrictions/merlin_170545167_78fec933-b503-4fe4-b749-67593e0dfbc2-mediumThreeByTwo440.jpg)
By BY ERNESTO LONDOÑO AND AIMEE ORTIZ from NYT U.S. https://ift.tt/2UcD7f3
.FOCUS WORLD NEWS MEDIA GROUP EUROPE copy right(int/sec 23,2012), BTR-2018/VR.274058.IT-
بریشیا کی گلیاں کرفیو زدہ علاقے کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ نہ سڑک پر کوئی ذی روح دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی کوئی دکان کھلی ہے لیکن یہ منظر صرف شمالی اٹلی کے اس قصبے کا نہیں بلکہ دو روز سے اس ملک کا کوئی بھی بڑا شہر ہو یا دیہی علاقہ ہر جانب یہی منظر دکھائی دے رہا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت نے براعظم یورپ کورونا وائرس کا نیا مرکز قرار دیا ہے اور یورپ میں اٹلی وہ ملک ہے جو کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
اٹلی میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 17 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ اس سے 1244 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اطالوی حکام نے اس صورتحال میں پورے ملک میں ’لاک ڈاؤن‘ کا حکم دیا ہوا ہے جس سے ملک کی چھ کروڑ سے زیادہ آبادی متاثر ہوئی ہے۔
پاکستانیوں کی بھی ایک بڑی تعداد اٹلی میں مقیم ہے اور قیصر شہزاد بھی ان میں سے ہی ایک ہیں۔ قیصر اسی بریشیا شہر کے باسی ہیں جہاں گذشتہ دنوں ایک پاکستانی کی کورونا سے ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔
ٹیلیفون پر بی بی سی اردو کی حمیرا کنول سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ 20 برس سے اٹلی میں مقیم ہیں لیکن کورونا کے پھیلاؤ کے بعد جو صورتحال ہے ایسا انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
ان کا کہنا تھا ’ایسے حالات کبھی نہیں دیکھے، ہاں سنتے تھے کہ جنگوں میں ایسا ہوتا ہے۔ یہاں بسنے والے پرانے لوگ بتاتے ہیں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔‘
قیصر کا کہنا تھا کہ ’یہاں ایئرپورٹ، بازار سب کچھ بند اور سڑکیں سنسان ہیں۔ باہر جانا ممنوع ہو گیا ہے اور ایک خوف کی فضا ہے۔ ہمیں کہا گیا ہے کہ اپنے خاندان کے ساتھ گھر کے اندر رہیں۔‘
ان کے مطابق ’ہماری بہتری کے لیے اعلان کر دیا ہے کہ آپ گھر سے بلاضرورت باہر نہیں نکل سکتے۔ آپ مارکیٹ جا سکتے ہیں یا نوکری پر جا سکتے ہیں لیکن احتیاطی تدابیر کے ساتھ۔
قیصر کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد علاقے میں بینکوں کے علاوہ اشیائے خوردونوش کی چند بڑی دکانیں اور فارمیسی ہی کھلی ہیں اور چھوٹی مارکیٹیں اوردیگر سب کچھ بند ہے۔‘
قیصر بطور الیکٹریشن کام کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے ’ہر فیکٹری اور ہر دفتر میں لکھ کر لگا دیا گیا ہے کہ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھیں۔ آپ گھر سے باہر جائیں گے بھی تو کسی بھی دکان یا دفتر میں ایک وقت میں ایک بندہ داخل ہو سکتا ہے اور ایک میٹر فاصلہ بھی لازمی ہے۔‘
ان کے مطابق اس کے علاوہ کسی بھی دفتر اور مارکیٹ میں داخل ہوتے وقت لوگوں کی سکریننگ بھی کی جاتی ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ جو لوگ اب بھی کام پر جا رہے ہیں انھیں ان کے اداروں کے مالکان کی جانب سے خط دیے گئے ہیں اور پوچھ گچھ پر وہ یہ خط دکھا کر ہی جا سکتے ہیں۔
اٹلی میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 17 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ اس سے 1244 افراد ہلاک ہو چکے ہیں
قیصر کا کہنا ہے ’سکول اور یونیورسٹیاں تو دو ہفتوں سے بند ہیں اور والدین کہتے ہیں کہ اب بچے گھر میں رہ کر اکتا چکے ہیں کیونکہ نہ تو اب کوئی ریستوران کھلا ہے نہ سینما گھر اور نہ ہی کوئی پارک ہر سو ہو کا عالم ہے۔‘
شمالی اٹلی میں ہی بلونیا کے علاقے میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ مرکزی بلونیا میں مین چینترو کے علاقے میں سات برس سے مقیم پاکستانی شہری عاطف مہدی بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا ’یہاں چرچ، سکول، مسجدیں سب بند پڑا ہے۔‘
عاطف کا کہنا تھا کہ وہ دودھ پیک کرنے کے کارخانے میں کام کرتے ہیں جہاں ان حالات میں بھی کام ہو رہا ہے۔
انھوں نے بتایا ’ابھی تو ہماری فیکٹری کھلی ہے لیکن اب ہمارے کام کے اوقات کم کر کے صبح چھ سے شام چھ تک کر دیے گئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا ’بہت زیادہ تبدیلی آ گئی ہے۔ پندرہ، بیس دن سے یہ حالات ہیں۔ پہلے رات بارہ سے دو بجے تک مارکیٹس اور کاروبار کھلا ہوتا تھا لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے حکومت کنٹرول نہیں کر پا رہی تھی اس لیے اب انھوں نے اوقات کار بدل دیے ہیں اور کہا ہے کہ کوئی خلاف ورزی کرے گا تو اسے جرمانہ ہو گا۔‘
عاطف کے مطابق لاک ڈاؤن کی وجہ سے بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے پر250 یورو جرمانہ اور قید بھی ہو سکتی ہے۔
ان کے مطابق اگر انھیں بازار تک بھی جانا ہو تو اس کے لیے فارم پر کرنا پڑتا ہے۔
’یہاں باہر مارکیٹ جانے کے لیے انٹرنیٹ سے فارم ڈاون لوڈ کرنا پڑتا ہے۔ اس پر اپنا نام، گھر کا پتا، کام کی نوعیت لکھنی ہوتی ہے۔ راستے میں پولیس چیک کر سکتی ہے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے بعد ان کے علاقے میں اشیائے خوردونوش اور ماسکس کی بھی قلت ہو گئی ہے۔
’ماسک کے بغیر باہر نہیں جا سکتے اور ماسک مل تو رہے ہیں لیکن تعداد بہت کم ہو گئی ہے اور اسی طرح میں نے نوٹ کیا ہے کہ کل شام جب میں مارکیٹ گیا تو بہت سی سبزیاں جیسے شملہ مرچ اور پالک وغیرہ غائب تھیں۔‘
لندن (جی سی این رپورٹ)برطانوی سائنسدانوں نے دعویٰ کیاہے کہ کوروناوائرس کی ویکسین تیاری کے آخری مراحلے میں ہے،جون تک ویکسین عوام کےلئے تیار ہوجائے گی۔نجی ٹی وی ہم نیوز کے مطابق برطانوی سائنسدانوں نے کہاہے کہ کوروناوائرس کی ویکسین تیاری کے آخری مراحلے میں ہے،چوہوں پر ویکسین کا کامیاب تجربہ کر چکے ہیں،لوگوں پرویکسین کا تجربہ کر رہے ہیں۔برطانوی سائنسدانوں کاکہنا ہے کہ جون تک ویکسین عوام کےلئے تیار ہوجائے گی ،فرانسیسی سائنسدان بھی ویکسین بنانے میں مصروف ہیں۔
ایسے حالات میں جب کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے کیے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے معمولات زندگی معطل ہو کر رہ گئے ہیں، اٹلی میں ایک گلی ایسی بھی ہے جہاں کے مکینوں نے یکجہتی کے اظہار کے لیے مل کر گیت گایا ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں اٹلی کے صوبے ٹسکینی کے شہر سیئنا کی ایک گلی کے لوگ مکانوں کی کھڑکیوں میں کھڑے ہو کر گاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے ان کے گانے کو انسانیت کا ’خوبصورت‘ عمل قرار دیا ہے۔
کرونا وائرس نے دنیا کو کیا بنا دیا
ویڈیو کو ٹوئٹر پر پوسٹ کرنے والے صارف نے لکھا: ’میرے آبائی شہر سیئنا کے لوگ ایک ویران گلی میں واقع اپنے گھروں میں کھڑے ہو کر ایک مقبول گیت گا رہے ہیں تاکہ اٹلی میں کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن کے دوران اپنا دل کو گرما سکیں۔اس گانے کا اطالوی زبان میں عنوان ہے’کینٹو ڈیلہ وربینہ‘ (’اور جب سیئنا سو رہا ہے‘)۔ یہ شہر میں مقبول ایک لوگ گیت ہے جو علاقائی فخر کے اظہار کے لیے مخصوص طور پر گایا جاتا ہے۔ گانے میں شہر کے مرکزی سکوائر ’ پیازا ڈیل کیمپو‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ گانا روایتی طور پر ان انتظامی علاقوں’کونٹریڈا‘کے لوگ گاتے ہیں جو قرون وسطیٰ میں فوجیوں کی فراہمی کے لیے قائم کیے گئے تھے۔ یہ علاقے بنانے کا مقصد سیئنا کو موجودہ اٹلی کے ایک اور شہر فلورنس کے غلبے سے آزاد رکھنا تھا۔
مخصوص برادری کے اس گیت نے سوشل میڈیا صارفین کو جذباتی طور پر بہت متاثر کیا ہے۔ بعض صارفین نے اعتراف کیا کہ وہ یہ گیت سن کر رو پڑے۔
ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا: ’گیت میں لوگ ٹوٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اس سانحے کے موقعے پر ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔ یہ تمام عمل بے حد خوبصورت ہے۔’یہ گانا اس مشکل وقت میں خاص طور پر یاد دلاتا ہے کہ انسانی روح ہمارے اندر امید کو زندہ رکھتی ہے۔ ہم اندھیرے میں بہترین انداز میں چمکتے ہیں۔ شکریہ سیئنا۔ تم نے مجھے خوش کر دیا۔‘سوشل میڈیا کے ایک اور صارف نے کہا: ’اس گیت سے چینی شہر ووہان میں کرونا وائرس کی وبا کے دوران بلند عمارتوں میں گائے جانے والے گیتوں کی یاد آتی ہے۔ ہمت سے کام لو اٹلی۔ میں آپ لوگوں کے لیے دعا گو ہوں۔‘کرونا وائرس کی وبا کے پیش نظر اٹلی میں ایک کروڑ 60 لاکھ افراد قرنطینہ (آئیسولیشن) میں ہیں۔ سپرمارکیٹوں اور ادویات کی دکانوں کو چھوڑ کر تمام دکانیں بند کر دی گئی ہیں۔اٹلی میں کرونا وائرس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔ حکام نے تصدیق کی ہے کہ جمعرات کو کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد اضافے کے بعد 15 ہزار سے بڑھ گئی۔
A whole Roman neighborhood singing a popular Italian song “Volare” from their balconies and waving at each other. An amazing flash mob to lift the spirit in these crazy times ❤️ #Italy #coronavirus #forzaitalia #roma #flashmob #love pic.twitter.com/xjeZTeO0GO
— Jenna Vehviläinen (@jennavehvi) March 13, 2020
کیا درجہ حرارت بڑھنے سے کورونا وائرس کی نئی قسم کمزور ہو جائے گی؟ ماہر سمیات تھوماس پیٹشمان بتاتے ہیں کہ موسم بہار سے کیوں امیدیں وابستہ ہیں اور خواتین کیسے کووڈ انیس مرض سے مقابلہ مردوں کی نسبت بہتر طور پر کر سکتی ہیں۔ گرمی کی شدت بڑھنے سے کورونا وائرس کی وبا تھم جائے گی؟ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو نیا کورونا وائرس وبائی زکام کے وائرس جیسا ہو جائے گا۔ اس کے بعد درجہ حرارت میں اضافے سے مرض پھیلانے والا جرثومہ ختم ہو جائے گا جس سے COVID-19 مرض بھی رک جائے گا۔موسم بہار اور گرمی کی شدت بڑھنے سے امیدیں تو وابستہ ہیں لیکن ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ نیا کورونا وائرس بھی وبائی زکام کے وائرس کی طرح کام کرے گا۔ وائرس سے متعلق امراض کے ماہر (وائرالوجسٹ) تھوماس پیٹشمان کا کہنا ہے کہ ماہرین اس بات کی پیش گوئی اس لیے نہیں کر سکتے کیوں کہ، ‘حقیقت یہ ہے کہ ہم اس وائرس کو ابھی تک نہیں جانتے‘۔
وائرس؟ نامعلوم!
اس ضمن میں جرمن شہر ہینوور کے ایک تحقیقی ادارے سے وابستہ تھوماس پیٹشمان کا مزید کہنا ہے، ‘‘اس وائرس کی خاص بات یہ ہے کہ انسانوں کو پہلی مرتبہ اس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چین سے حاصل کردہ ڈیٹا سے ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ یہ وائرس جانوروں سے ایک انسان تک پہنچا اور پھر وہاں سے پھیلنا شروع ہو گیا۔‘‘
وبائی زکام کے وائرس کے برعکس انسانوں کا مدافعتی نظام کورونا وائرس کے جرثومے کے حملے کے لیے تیار نہیں ہے۔
کورونا وائرس: بچنے کے امکانات کتنے
علاوہ ازیں بیرونی صورت حال بھی اس وائرس کے پھیلاؤ کے لیے مددگار ہے، جس میں ایک عنصر درجہ حرارت کا بھی شامل ہے۔ سانس کی نالی کے ذریعے پھیلنے والے وائرس کے لیے سرد موسم سازگار ہوتا ہے۔ پیٹشمان کا کہنا تھا، ”کم درجہ حرارت میں وائرس مستحکم ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے فریج میں رکھا ہوا کھانا زیادہ دیر تازہ رہتا ہے۔‘‘
موسم جب سرد اور خشک ہو جائے!
موسم گرم ہونے کے ساتھ کئی وائرسوں کے لیے حالات سازگار نہیں رہتے۔ پیٹشمان نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ”کورونا وائرس کے گرد چربی کی تہہ ہوتی ہے جو گرمی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ درجہ حرارت بڑھتے ہی تہہ ٹوٹ جاتی ہے۔‘‘
لیکن دیگر جرثوموں کے لیے درجہ حرارت ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر ڈینگی وائرس گرم مرطوب علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ وائرس کو یہ موسم پسند ہے۔ اس معاملے میں وائرس لے جانے والا جاندار (مچھر) مرکزی کردار ادا کرتا ہے جب کہ درجہ حرارت کا کردار ثانوی ہے۔‘‘
سانس کی نالی سے متلعقہ وائرسوں کی منتقلی میں ہوا میں نمی کا تناسب بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ چھینکنے یا کھانسی کی صورت میں جرثومے باہر نکل کر ہوا میں عملی طور پر معلق ہو جاتے ہیں۔ پیٹشمان نے اس بارے میں بتایا ، ”زیادہ نمی کے مقابلے میں سرد اور خشک موسم میں وائرس ہوا میں زیادہ دیر تک معلق رہتا ہے۔‘‘
کورونا کی ئی قسم دیگر وائرسوں کے مقابلے میں کتنی مہلک ہے – گراف میں دیکھیے
یوں سرد اور خشک موسم میں وائرس تیزی سے پھیلتا ہے۔ تاہم ابتدا میں یہ عمل بڑے خفیہ انداز میں ہوتا ہے اور جرثومے سے پہلے رابطے اور بیماری کی علامات ظاہر ہونے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔
خواتین میں مزاحمت مردوں کے مقابلے میں زیادہ
بخار، کھانسی اور ٹھنڈ لگنا وائرل امراض کی علامات ہوتی ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ جسم اس بیرونی حملے آور کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے۔ اس مزاحمت کی شدت کا تعلق متاثرہ مریض کی عمر اور صحت کے ساتھ ساتھ جنس سے بھی ہے۔
اب تک کے دستیاب اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ خواتین میں کورونا وائرس کے خلاف مدافعت مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اسی وجہ سے مرد مریضوں میں شرح اموات 2.8 فیصد ہے جب کہ خواتین میں ہلاکتوں کی شرح 1.7 فیصد ہے۔
پیٹشمان کا اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے کہنا تھا، ”جرثومے کی نشاندہی کرنے والے مدافعتی نظام سے متعلق کچھ جینزایکس کروموسوم میں کوڈِڈ ہوتے ہیں۔ مردوں میں ایک ایکس کروموسوم ہوتا ہے جب کہ خواتین میں دو، اس لیے انہیں اس حوالے سے فوقیت حاصل ہے۔‘‘
شمالی کرہ ارض میں ممکنہ طور پر نئے کورونا وائرس کی وبا موسم بہار کے آغاز کے ساتھ تھم جائے گی۔ تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق جنوبی کرہ ارض کے ممالک آسٹریلیا اور برازیل میں SARS-CoV-2 کے کئی مریض موجود ہیں، اور ان علاقوں میں ابھی خشک اور سرد موسم نے آنا ہے۔
فی الحال اس کی تشخیص کے لیے کوئی ٹیسٹ نہیں تاہم مریض کی میڈیکل ہسٹری، جسمانی معائنہ اورمتاثرہ شخص میں موجود دیگر امراض کی بنیاد پر اس کی تشخ...
جملہ حقوق ©
WAKEUPCALL WITH ZIAMUGHAL
Anag Amor Theme by FOCUS MEDIA | Bloggerized by ZIAMUGHAL