![](https://static01.nyt.com/images/2018/05/22/autossell/Sea_Spider_Sci_Take/Sea_Spider_Sci_Take-mediumThreeByTwo440.jpg)
By JAMES GORMAN and CHRISTOPHER WHITWORTH from NYT Science https://ift.tt/2IUhAkg
.FOCUS WORLD NEWS MEDIA GROUP EUROPE copy right(int/sec 23,2012), BTR-2018/VR.274058.IT-
اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کی رہنما اورنوازشریف کی صاحبزادی نے عدالت کے روبروبیان میں کہا ہے کہ واجد ضیا قابل اعتبارگواہ نہیں اوروہ مجھے کیس میں ملوث کرنے کے لئے عدالت سے جھوٹ بھی بول سکتے ہیں۔
جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی، سماعت کے دوران مریم نوازنے عدالتی سوالنامے کے جواب دیئے۔
مریم نوازنے اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے دوران تفتیش جومواد اوردستاویز اکٹھی کیں وہ قابل قبول شہادت نہیں، جے آئی ٹی رپورٹ میں صفحات 240 سے 290 تک کس نے اورکب شامل کئے انہیں اس کا علم نہیں۔ واجد ضیاء نے جورائے دی اورنتیجہ اخذ کیا وہ قابل قبول شہادت نہیں، انہوں نے اپنی رائے کے حق میں کوئی دستاویزبھی پیش نہیں کی۔
مریم نواز نے کہا کہ یہ درست ہے میں نے ٹرسٹ ڈیڈ کی اصل نوٹرائزاورتصدیق شدہ کاپی جمع کرائی، ورک شیٹ کی تیاری سے میرا کوئی لینا دینا نہیں، ان الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہوں کہ کوئی جعلی دستاویزات میں نے یا کسی اورنے جمع کرائیں، واجد ضیا ء نے یہ الزام تعصب اوربدنیتی کی وجہ سے لگایا، واجد ضیا ہمارے خلاف متعصب ہیں، یہ ثابت ہوچکا کہ واجد ضیا قابل اعتبارگواہ نہیں، وہ مجھے کیس میں ملوث کرنے کے لئے عدالت سے جھوٹ بھی بول سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے کسی بھی گواہ کو سوالنامہ نہ بھجوانے کا فیصلہ کیا تھا جب کہ انہوں نے جرح کے دوران تسلیم کیا کہ جیرمی فری مین کو سوالنامہ بھیجا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کی رہنما کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی اور تفتیشی افسر نے جان بوجھ کر منروا مینجمنٹ کو شامل تفتیش نہیں کیا تاکہ حقائق کو چھپایا جاسکے، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ قطری شہزادہ میری ہدایت پر شامل تفتیش نہیں ہوا ،یہ بات ثابت ہو چکی کہ واجد ضیاء اور جے آئی ٹی نے جان بوجھ کربدنیتی سے حمد بن جاسم کا بیان ریکارڈ نہیں کیا۔ میری اطلاع کے مطابق حسین نواز نے فلیٹس نوے کی دہائی کے آغاز میں نہیں خریدے۔
The post واجد ضیا مجھے ملوث کرنے کے لئے عدالت سے جھوٹ بھی بول سکتے ہیں، مریم نواز appeared first on ایکسپریس اردو.
بیجنگ: چینی وزراتِ دفاع نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکا نے متنازعہ جزائر جنوبی بحیرہ چین کے قریب جنگی بحری جہاز بھیج کر ہماری ملکی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق چینی وزارتِ دفاع کی جانب سے جاری بیان میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ امریکا نے متازع جزائر جنوبی بحیرہ چین کے قریب 2 جنگی بحری جہاز بھیج کر چین کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔ بیان میں واضح کیاگیا ہے کہ امریکی بحری جہازوں نے جنوبی بحیرہ چین کے چار مقامات پر نقل و حرکت کی ہے جس میں ووڈی جزیرہ بھی شامل ہے جہاں چین نے میزائل نصب کر رکھے ہیں۔
چین کی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ جنوبی بحیرۂ چین میں امریکی نقل وحرکت کو روکنے اور امریکا کو خبردار کرنے کے لئے ملکی فضائیہ کے بمبار طیاروں کو پہلی بار جنوبی بحیرہ چین میں بھجوایا ہے جس میں دور تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کا حامل بمبار H-6K بھی شامل ہے۔
دوسری جانب بحرالکاہل میں امریکی بحری بیڑے کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا ہے کہ اس علاقے میں نقل و حرکت کی آزادی کے حوالے سے معمول کی فوجی مشقیں کی جاتی ہیں اور آئندہ بھی ان کو جاری رکھا جائے گا۔
واضح رہے کہ جنوبی بحیرہ چین کا سمندر اہم تجارتی گزرگاہ ہے اور اس پر 6 ممالک اپنے حق کا دعویٰ کرتے ہیں جس میں چین بھی شامل ہے۔ چین پر الزام ہے کہ وہ اس کے وسیع حصے پر اپنے حق کے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے وہاں فوجی نقل و حرکت کرتا ہے۔ جب کہ چین بھی متعدد بارمتنازع جزائر کے قریب امریکی بحری جہازوں کی موجودگی کے واقعات پر اپنا شدید ردعمل دیتے ہوئے اسے سنگین سیاسی اور فوجی اشتعال انگیزی قرار دے چکا ہے۔
The post امریکا ہماری ملکی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی کررہا ہے، چین appeared first on ایکسپریس اردو.
سورج آج دوپہر 2 بج کر 18 منٹ پر عین خانہ کعبہ کے اوپر ہوگا جس کی وجہ سے قبلے کی درست سمت معلوم کی جاسکے گی۔
ماہرین فلکیات کے مطابق ہر سال کی طرح اس سال بھی آج سورج دوپہر 2 بج کر 18 منٹ پر خانہ کعبہ کی بالکل سیدھ میں آجائے گا جس کی وجہ سے کوئی بھی شخص قطب نما استعمال کیے بغیر قبلہ کی درست سمت کا تعین کرسکے گا۔
واضح رہے کہ سال میں 2 مرتبہ سورج کعبۃ اللہ کے عین اوپر سے گزرتا ہے۔ آج 28 مئی کے بعد 15 جولائی کو بھی سورج دوبارہ کعبہ کے عین اوپرسے گزرے گا۔
The post قطب نما کے بغیر آج کعبۃ اللہ کی درست سمت معلوم کی جاسکے گی appeared first on ایکسپریس اردو.
اسلام آباد: وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے درمیان نگراں وزیر اعظم کے معاملے پر ڈیڈ لاک ختم ہوگیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے درمیان نگراں وزیراعظم کے معاملے پر وزیر اعظم آفس میں ملاقات ہوئی جس میں نگراں وزیراعظم کے نام پر مشاورت کی گئی۔
ذرائع کے مطابق حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگراں وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے ہوگیا ہے تاہم وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور خورشید شاہ کچھ دیر بعد مشترکہ پریس کانفرنس کریں گے۔
وزیراعظم سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ نگراں وزیراعظم کے نام پرڈیڈ لاک ختم ہو گیا ہے ہم ثابت کریں گےکہ پارلیمنٹ بالادست ہے اور پارلیمنٹ میں ہی فیصلے ہوتے ہیں،کوشش کر رہے ہیں نگراں وزیراعظم کے نام پراتفاق ہو جائے، اس وقت معاملہ ففٹی ففٹی ہے، وزیر اعظم کے ساتھ میری دوپہر ساڑھے 12 بجے پریس کانفرنس ہے، اس سے قبل ایک اور ملاقات ہوگی، انشاء اللہ نگراں وزیراعظم کے نام پراتفاق ہوجائے گا۔
اس سے قبل وزیراعظم شاہدخاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشیدشاہ کے درمیان نگراں وزیراعظم کے معاملے پر متعدد ملاقاتیں ہوئیں تاہم نگراں وزیر اعظم کے لیے کسی نام پر اتفاق رائے نہ ہوسکا اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس معاملے پر ڈیڈلاک برقرار رہا۔
پیپلزپارٹی کی جانب سے نگراں وزیراعظم کے لیے سابق چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف اور سابق سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی، تحریک انصاف کی جانب سے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی، عبدالرزاق داؤد اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین جب کہ حکومت نے جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی اور جسٹس (ر) ناصرالملک کے نام تجویز کیے ہیں۔
واضح رہے کہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں نگراں وزیراعظم کے لیے اتفاق نہ ہوا تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں جائے گا، وزیراعظم اور خورشید شاہ پارلیمانی کمیٹی میں دو دو نام بھیجیں گے، پارلیمانی کمیٹی چار ناموں میں سے نگراں وزیراعظم طے کرے گی، پارلیمانی کمیٹی بھی طے نہ کر سکی تو فیصلے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا۔
The post وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی ملاقات، نگراں وزیراعظم کے نام پرڈیڈ لاک ختم appeared first on ایکسپریس اردو.
پیرس: فیس بک نے اپنی الیکٹرونک چپس اور پروسیسر بنانے کا اعلان کیا ہے جس کے ذریعے حقیقی وقت میں فیس بک کی ویڈیو کو بہت مؤثر انداز میں فلٹر کرکے اس میں کسی دہشت گردی، خودکشی، قتل اور دیگر جرائم کا پتا لگانا ممکن ہوگا۔
فیس بک سے وابستہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ماہر یان لی کن نے بتایا کہ اس وقت کسی ویڈیو کا مانیٹر کرنے کےلیے بہت وقت اور بہت زیادہ پروسیسنگ قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی فیس بک ویڈیو میں براہِ راست خودکشی یا قتل جیسے جرم کررہا ہے تو ہم اسے فوری طور پر بند کرنا چاہتے ہیں۔
یان لی کن پیرس میں منعقدہ ایک کانفرنس میں اس کا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کمپنی پہلے ہی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے صارفین میں خودکشی کے رحجان پر نظر رکھنے کا کام کررہی ہے۔
فیس بک پر قتل اور خودکشی کی براہِ راست ویڈیوز نشر ہونے کے کئی واقعات براہِ راست نشر ہوچکے ہیں جو ادارے کے لیے دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔ اب فیس بک نئی الیکٹرونک چپس کے ذریعے اس عمل کو مزید بہتر انداز میں روکنے کے قابل ہوسکے گا۔
انٹیل، سام سنگ، اور این ویڈیا جیسے ادارے ایک عرصے سے اے آئی چپس استعمال کررہے ہیں۔ لی کن نے بتایا کہ چپس کے ساتھ ساتھ متعلقہ ہارڈویئر میں بھی تبدیلی کی جائے گی جن میں سرورز، مدر بورڈز اور ڈیٹا سینٹرز تک رابطہ کرنے والی چپس بھی شامل ہیں۔
ٹیکنالوجی تجزیہ نگاروں نے یہ بھی بتایا کہ ہے کہ آکیولس ہیڈ سیٹ کو بہتر بنانے کےلیے بھی فیس بک اپنی ذاتی مائیکروچپس پر کام کررہی ہے۔ اسی طرح خاص اے ایس آئی سی چپس کرپٹوکرنسی کی تلاش میں استعمال ہورہی ہیں۔
فیس بک نے دو اسمارٹ اسپیکرز کا اعلان بھی کیا تھا جنہیں فائیونا اور الوہا کے نام دے گئے تھے۔
The post فیس بک کا ویڈیو مانیٹرنگ کیلئے اپنی مائیکروچپس خود بنانے کا اعلان appeared first on ایکسپریس اردو.
اسکاٹ لینڈ: اسکاٹ لینڈ میں 37 کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ایک جھیل ہے جسے لاک نیس کہا جاتا ہے۔ اس جھیل کی وجہ شہرت ایک اور پراسرار شے بھی ہے جسے لاک نیس کا عفریت کہا جاتا ہے۔ لمبی گردن والی اس مخلوق کو اب تک سینکڑوں افراد نے دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے تاہم اب تک اس کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں مل سکا ہے اور اسی بنا پر اب جھیل کے 300 مقامات پر ڈی این اے نمونے لیے جائیں گے۔
جھیل کی اس فرضی مخلوق کو ’’نیسی‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
سرخی کے عین نیچے دی گئی تصویر آپ نے کئی بار دیکھی ہوگی جس میں لاک نیس کا عفریت صاف دکھائی دے رہا ہے تاہم اس تصویر کو جعلی قرار دیا جاچکا ہے۔ اب نئے منصوبے کے تحت جھیل میں نامیاتی مواد سے ڈی این اے نکالا جائے گا جس کے نگراں یونیورسٹی آف اوٹاگو نیوزی لینڈ کے پروفیسر نیل گیمل ہیں۔
پروفیسر کے مطابق جھیل کے 300 مقامات اور مختلف گہرائیوں سے جلد، پروں، ان کے چھلکوں اور پیشاب وغیرہ کے ڈی این معلوم کرکے ان کا موازنہ موجودہ ڈیٹابیس سے کیا جائے گا اور اگر کوئی نیا ڈی این اے ہاتھ لگا تو اس بنا پر کسی نئی مخلوق کے ڈی این اے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
پروفیسر نیل نے صاف کہا ہے کہ وہ نیسی پر یقین نہیں رکھتے تاہم وہ اس مفروضے پر تحقیق ضرور کرنا چاہیں گے۔ بعض افراد کہتے ہیں کہ یہ وہ قدیم ڈائنوسار پیلیسیوسار ہے جو اب تک زندہ ہے۔ اب تک سینکڑوں افراد نے اس مخلوق کو دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن ثبوت میں بہت کم تصاویر پیش کی ہیں۔
تاہم سائنسدانوں نے کہا ہے کہ اگر نیسی کا ڈی این اے نہ بھی ملا تو لوگ پھر بھی اس پر یقین کرنا نہیں چھوڑیں گے کیونکہ نیسی کو حقیقت ماننے والے افراد پہلے ہی کہتے رہے ہیں کہ نیسی خلائی مخلوق بھی ہوسکتی ہے اور ایسی خلائی مخلوق جس کا ڈی این اے کسی ٹیسٹ سے معلوم نہیں کیا جاسکتا ہے یا پھر نیسی غار میں رہتا ہے اور کبھی کبھار باہر آتا ہے۔
The post لاک نیس عفریت کا پتا چلانے کیلئے جھیل کا ڈی این اے ٹٰیسٹ کرنے کا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.
لندن: سگریٹ نوشی درجنوں لحاظ سے جسم کےلیے نقصاندہ ہے اور اب تازہ خبر یہ ہے کہ سگریٹ نوشی سے خون میں آکسیجن کی کمی ہوتی ہے اور اہم غذائی اجزا پٹھوں اور عضلات تک نہیں پہنچ پاتے جس کا نتیجہ جسمانی کمزوری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
تمباکو نوشی سانسوں کے امراض کے علاوہ پورے جسم کے پٹھے کمزورکرتی ہے۔ اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تمباکو نوشی براہِ راست ٹانگوں میں خون کی رگیں کم کرتی ہے اور اس سے پٹھے کمزور پڑنے لگتے ہیں۔
امریکہ، برازیل اور جاپانی ماہرین نے اپنی نوعیت کی یہ پہلی تحقیق کی ہے جس میں انہوں نے سگریٹ نوشی کے پٹھوں پر منفی اثرات کو نوٹ کیا ہے۔ سائنسدانوں نے 8 ہفتوں تک چوہوں کو تمباکو نوشی کی کیفیت میں رکھا جس میں چوہوں میں تمباکو کا دھواں داخل کیا گیا یا پھر ان میں سگریٹ کے دھویں سے بھرپور ایک محلول شامل کیا گیا تھا۔
آٹھ ہفتوں کے بعد سگریٹ پینے والے چوہوں کی پنڈلیوں میں خون کی باریک رگوں (کیپلریز) سے پٹھوں کی تعداد 34 فیصد تک کم ہوگئیں۔ خون کی باریک رگیں پٹھوں کے اندر سماکر وہاں خون اور دیگر اہم اجزا پہنچاتی ہیں اور رگوں کے غائب ہونے سے خون، آکسیجن اور غذائی اجزا وہاں نہ پہنچ سکے اور ان کے پیروں کے پٹھے کمزور ہونے لگے۔
ڈاکٹروں کے مطابق پٹھوں اور ان سے وابستہ رگوں میں 43 فیصد تک کمی کا مطلب یہ ہے کہ چوہے جلد تھکاوٹ، تکلیف اور کمزوری کے شکار ہوتے ہیں اور یہ صرف اور صرف 8 ہفتوں کو سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہوا۔ تاہم ماہرین یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ سگریٹ کا کونسا مضر کیمیکل اس کی وجہ بنا ہے کیونکہ تمباکو میں ہزاروں مضر اجزا اور کیمیکلز موجود ہوتے ہیں۔
اپنی نوعیت کا یہ پہلا تحقیقی مطالعہ ہے جس سے ظاہر ہوا ہے کہ تمباکو نوشی پٹھوں کے عضلات کےلیے بھی بہت خطرناک ہوتی ہے۔
The post تمباکو نوشی جسمانی طور پر کمزور بھی کرتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.
پشاور: تحریک انصاف کی آج آئینی مدت ختم ہوجائے گی جب کہ نگران وزیراعلی کی نامزدگی کا اعلان بھی آج متوقع ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق خیبرپختونخواہ حکومت کی آئینی مدت آج رات 12 ختم ہورہی ہے اورحکومت کے آخری روز اسمبلی کا الوداعی اجلاس بھی آج ہورہا ہے۔ نگران وزیراعلی کے لیے منظورآفریدی کے نام پراتفاق ہوا ہے تاہم اسمبلی اجلاس میں دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اعتراضات پر وزیراعلی نے نگران وزیراعلی کے معاملے پرمشاورت کی دعوت دے دی ہے جس کے بعد نگران وزیراعلی کی تقرری کا اعلان بھی آج متوقع ہے.
اپوزیشن لیڈرمولانا لطف الرحمان کے مطابق وزیراعلی کے ہمراہ آج پریس کانفرنس کی جاسکتی ہے جس میں نگران وزیراعلی کا اعلان کریں گے اوراس میں واضع ہوجائے گا کہ کیسے نگران وزیراعلی کے نام پراتفاق کیا گیا۔ دوسری جانب وزیراعلی پرویزخٹک اوروزراء سرکاری رہائش گاہوں سے اپنے سامان منتقل کرچکے ہیں۔
واضع رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت دوسری حکومت ہے جو اپنی آئینی مدت پوری کررہی ہے اس سے قبل اے این پی اورپیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی تھی۔
The post خیبرپختونخواہ حکومت کی آئینی مدت کا آج آخری دن appeared first on ایکسپریس اردو.
24مئی بروز جمعرات قومی اسمبلی میں فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کیلئے 31 ویں آئینی ترمیم دوتہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی جسے مختلف حلقوں کی جانب سے خوش آئند قرار دیا جارہا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اس اقدام سے نہ صرف فاٹا کے عوام کے دیرینہ مسائل حل ہوں گے بلکہ ان کی محرومیوں کا خاتمہ بھی ہوجائے گا۔ اس اہم قومی پیش رفت پر ’’ایکسپریس فورم پشاور‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف سیاسی رہنماؤں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
سردارحسین بابک (صوبائی جنرل سیکرٹری وپارلیمانی سیکرٹری عوامی نیشنل پارٹی)
فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام تاریخی اقدام اور خوشی کا موقر ہے۔ اس کے پیچھے برسوں کی عملی اور مسلسل جدوجہد شامل ہے۔ اس حوالے سے اراکین قومی اسمبلی نے سب سے زیادہ جدوجہد کی۔ ہمارے بزرگوں نے ہمیشہ فاٹا اور قبائلی عوام کے لیے آواز بلند کی اور اس مقصد کے لیے صوبائی اسمبلی میں قراردادیں بھی منظور کرائی گئیں۔ فاٹا کے انضمام کے بعد خیبرپختونخوا بہت بڑا صوبہ بن گیاہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور اس میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی بے شمار مواقع میسر ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ قانون سازی کے بعد انضمام کے حوالے سے مرکزی و صوبائی حکومتیں دیگر تمام انتظامات بھی کریں گی جو ہنگامی بنیادوں پر ہونے چاہئیں کیونکہ فاٹا کے لوگوں نے بڑی مشکلات جھیلی ، جانی ومالی نقصان برداشت کیا اور اب بھی لاکھوں قبائلی ملک کے مختلف حصوں میں اپنی زندگی بسرکررہے ہیں۔ انضمام کے بعد عارضی طور پر دیگر مقامات پر مقیم یہ لوگ بھی اپنے علاقوں کو واپس آنا شروع ہوجائیں گے لہٰذا اب حکومتوں کو بھی انتظامی امور کے حوالے سے فوری طور پر اقدامات شروع کردینے چاہئیں۔ ملک کے اندر اور باہر جتنے بھی پختون مقیم ہیں انہیںچاہیے کہ یہاں سرمایہ کاری کو ترجیح دیںتاکہ جہالت ،بے روزگاری و دیگرمسائل کا خاتمہ ہواور صوبے میں معاشی ترقی ہوسکے۔ جب صوبہ سرحد کا نام تبدیل ہورہاتھا تو اس وقت یقینی طور پر ایک سے زائد نام ہمارے سامنے تھے تاہم خیبرپختونخوا کے نام کا انتخاب اسی وجہ سے کیاگیا تاکہ مستقبل میں فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی راہ ہموار کی جاسکے اور اب ہماری جدوجہد بلوچستان کے پختونوں کو یکجا کرنے کے لیے ہے۔ فاٹا، قیام پاکستان سے ہی بفر زون کی شکل میں موجود رہاہے ،جہاں بندوق، منشیات اور مفروروں کو آزادی رہی جو اس خطے کو تباہ کرنے کی سازش تھی لیکن اب انضمام کے بعد قبائلی علاقے خیبرپختونخوا کے اضلاع اور تحصیلوںمیں تبدیل ہوجائیں گے،وہاں پولیس کا نظام ہوگا، تھانے و عدالتیں قائم ہونگی اور انتظامی گورننس کا ڈھانچہ قائم کیاجائیگاجس سے ترقی کا پہیہ چل پڑے گا۔ پاکستان اور افغانستان دو الگ اور آزاد ریاستیںہیں لہٰذا دونوں کو ہی ایک دوسرے کی خود مختاری تسلیم کرنا ہوگی، صرف اسی صورت میں ہمارے مسائل حل ہونگے، اعتماد کی فضا بحال ہوگی ، دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کو فروغ ملے گا اور دہشت گردی سمیت دیگر مسائل پر قابو پایا جاسکے گا۔ فاٹا کے انضمام پر افغانستان کا اعتراض بے معنی ہے۔ ہمارے بعض سینئر حلقوں کی جانب سے فاٹا کے انضمام کی مسلسل مخالفت سمجھ سے بالاترہے۔عرصہ دراز سے اربوں روپے قبائلی عوام کے نام پر آرہے ہیں جو کبھی فاٹا سیکرٹریٹ اور کبھی اسلام آباد میں بیٹھے بااثر افراد کھا جاتے ہیں۔ اس لیے اب فاٹا کے حوالے سے فیصلہ سازی میں عوامی شرکت ضروری ہے۔ فاٹامیں آئندہ سال صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن کرانے سے یقینی طور پر خیبرپختونخوا میں حکومت پر اثرتو پڑے گا لیکن جس طرح تمام سیاسی جماعتوں نے فاٹا کو ضم کرنے کے معاملے پر اتفاق کا مظاہرہ کیاہے اسی طرح وہ اس موقع پر بھی معاملات کو اتفاق رائے سے سنبھالیں گی تاکہ کوئی بحران پیدانہ ہو۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو مل کر لائحہ عمل طے کرنا چاہیے تاکہ فاٹاانضمام کے بعد خیبرپختونخوا میں ترقی کا عمل تیز سے تیز تر ہو تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ اس سارے عمل میں عوام شامل ہوں کیونکہ عوام کی شمولیت سے حقیقی معنوں میں ترقی ہوگی اور کھربوں روپے ضائع نہیں ہوں گے۔ اگر ایک مربوط حکمت عملی مرتب کی جائے تو باجوڑ سے لے کر وزیرستان تک تمام علاقوں میں ترقی ہوگی۔ جو لوگ فاٹا کے معاملے پر ریفرنڈم کی بات کرتے ہیں وہ یہ دیکھیں کہ اے این پی ،تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی ،قومی وطن پارٹی اور مسلم لیگ ایک جانب جبکہ صرف دو جماعتیں الگ کھڑی ہیں تو کیا یہ ریفرنڈم نہیں؟ سوال یہ ہے کہ جے یوآئی کی احتجاجی کال پر کتنے لوگ باہر نکلے؟ انہیں چاہیے کہ فاٹا پر رحم کریں تاکہ وہاں کے مصیبت زدہ لوگ ترقی کرسکیں ، وہاں کے تباہ حال تعلیمی نظام ،شعبہ صحت و دیگرشعبہ جات کا نظام درست کیا جاسکے۔ جے یوآئی نے مرکزی حکومت میں رہتے ہوئے بہت ظلم کیا کہ فاٹا کے انضمام کو تاخیر کا شکار کرایا ورنہ یہ کام کافی پہلے ہوجاتا۔
صاحبزادہ ہارون الرشید (سابق رکن قومی اسمبلی‘ نائب امیر جماعت اسلامی و سابق امیر فاٹا )
یقینی طور پر یہ تاریخی موڑ ہے کہ آج فاٹا خیبرپختونخوا میں ضم ہورہا ہے ،یہ پاکستان کے27 ہزار مربع کلو میٹر رقبہ اور 50 لاکھ کی آبادی پر مشتمل علاقہ ہے جو 70 برسوں سے مشکل میں تھا مگر اب وہاں کے لوگوں کو آئینی ،سیاسی ،سماجی اور قانونی حقوق ملیں گے۔ فاٹا اب خیبرپختونخوا کا حصہ بن چکا ہے، اب فاٹا میں امن قائم ہوگا اورخوشحالی آئے گی جو تمام سیاسی جماعتوں کی طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ ہمارے زمانہ طالبعلمی میں سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد فاٹا کے حوالے سے جدوجہد کیا کرتے تھے ،انہوںنے1985ء میں فاٹا کے حوالے سے آواز اٹھائی جب فاٹا میں سیاست شجر ممنوع کی حیثیت رکھتی تھی۔ انہوں نے باجوڑ سے وزیرستان تک دورے کیے جس کی وجہ سے انہیں جیلوں میں بھی جانا پڑا اور وہ نظر بند بھی ہوتے رہے۔ قاضی حسین احمد نے1997ء میں باجوڑ کے خار بازار چوک میں جلسہ منعقد کیااور یہ وہی جدوجہد ہے جو آج کامیاب ہوئی اور اب تنازعہ بھی ختم ہوگیاہے۔ جو لوگ فاٹا کے انضمام کے مخالف تھے انہیں بھی اب یہ فیصلہ تسلیم کرلینا چاہیے کیونکہ فاٹا کے لوگوں نے 70 برسوں کے دوران بہت سی مشکلات دیکھی ہیں ۔ فاٹا کو خبیرپختونخوا میں ضم کرنے کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کا اتفاق ہے اسی لیے جس طرح تمام سیاسی جماعتوں نے مشترکہ طور پر فاٹاانضمام سے متعلق بل کی منظوری دی، اسی طرح مرکزی و صوبائی حکومتیں بھی اسے سپورٹ کریںگی۔ فاٹا کی شمولیت سے خیبرپختونخوا مضبوط ہواہے، اب این ایف سی ایوارڈ کے تحت خیبرپختونخوا کا حصہ بھی بڑھ جائے گا اور مرکز کی جانب سے فاٹاکے ان علاقوں کو جو اب خیبرپختونخوا میں ضم کیے جارہے ہیں کے لیے الگ سے 100ارب روپے بھی دیئے جائیں گے۔ اس وقت ضرورت شفافیت کی ہے تاکہ بھرپور طریقے سے فاٹا میں ترقی کا عمل شروع ہوسکے۔ ہر سیاسی جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ایشو پر اپنا ایک مخصوص موقف رکھے لیکن جمہوریت اور پارلیمانی نظام کے بھی کچھ تقاضے ہیں کہ جب پارلیمنٹ جمہوری طریقے سے متفقہ یا کثرت رائے سے فیصلہ کر لیتی ہے تو پھر سب کو اسے تسلیم کرلینا چاہیے اور انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ اصل مسئلہ قبائلی عوام کی محرومیوں کا ازالہ کرنا ہے لہٰذا سب مل کر کام کریں۔ فاٹا انضمام کوئی حلال، حرام کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک انتظامی مسئلہ تھا جو آئینی طریقے سے حل ہوگیا لہٰذا اسے تسلیم کرنے میں کسی کو کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے ۔
عبدالجلیل جان (صوبائی سیکرٹری اطلاعات جمعیت علماء اسلام،ف)
فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا بل عجلت میں لایاگیاہے۔ ہم نے کبھی بھی انضمام کی مخالفت نہیں کی بلکہ ہمارا ہمیشہ سے موقف رہاہے کہ جو بھی فیصلہ کیاجائے اس کے بارے میں فاٹا کی عوام سے رائے لی جائے۔ 150 برس قبل سیاہ دن تھا جب ایف سی آر کا کالاقانون قبائلی عوام پر مسلط کیاگیا۔ میرے نزدیک یہ ایک اور سیاہ دن ہے جب ڈنڈے کے ذور پر قبائلی عوام کو خیبرپختونخوا میں ضم کیاگیااوران کی رائے کودبادیاگیاحالانکہ اگر عوام کی رائے لی جاتی تو اس سے بہتری آتی۔ سرتاج عزیز کمیٹی نے 50لاکھ میں سے دو ہزار افراد کی رائے لی تو اسے کسی بھی طور قبائلی عوام کی رائے نہیں کہا جاسکتا۔ وزیر اعظم اور وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر ہمارے ساتھ جس معاہدے پر دستخط کیے تھے اس میں سب سے پہلے فاٹا سے 40ایف سی آرکاخاتمہ شامل تھا۔ تعلیم وصحت کے اداروں کا قیام اور جامع پیکیج جبکہ انضمام کے حوالے سے یہ طے پایاتھا کہ اگر ایسا کرنا مقصود ہواتو اس صورت میں پانچ سالوں کے اندر وہاں کی عوام کی رائے لیتے ہوئے اسے شامل کیاجائیگا،سوال یہ ہے کہ وہ معاہدہ کہاں چلاگیا؟آج جو سیاستدان فاٹا انضمام پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں وہ ذرا خیبر پختو نخوا میں پہلے سے شامل کوہستان ،بٹ گرام ،شانگلہ ،ٹانک اور دیگر پسماندہ علاقوں پر نظر دوڑائیںکہ ان کی حالت کیسی ہے۔ صوبہ اس وقت 375ارب کا مقروض ہے۔ ایسے میں فاٹا کا انضمام ایسا ہی ہے کہ جیسے اسے مرکز کی غلامی سے نکال کر صوبہ کی غلامی میں دے دیاجائے۔ ہم تو حیران ہیں کہ یہ فیصلہ اتنی عجلت میں کیوںکیاگیاہے؟پنجاب میں سرائیکی صوبہ کے قیام کا مطالبہ موجود ہے ،بہاولپورصوبہ کے قیام کا مطالبہ بھی موجود ہے،سندھ میں الگ صوبہ کے قیام کی باتیں ہو رہی ہیں اور ہمارے یہاں صوبہ ہزارہ کے سلسلے میں تحریک بھی موجودہے لیکن اس جانب توجہ نہیں دی جارہی ۔ سوال یہ ہے کہ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے سے پختونوں کی نشستوں میں اضافہ ہواہے یا کمی؟سینٹ اور قومی اسمبلی میں ان کی نشستیں تو کم ہوگئی ہیں،اگر فاٹا کو الگ صوبہ بنایاجاتاتو اس صورت میں اس کا الگ گورنر اور وزیراعلیٰ ہوتا،الگ سیکرٹریٹ اور ادارے ہوتے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ صوبہ کے اراکین وزیراعلیٰ سے بھیک مانگتے رہتے ہیں اور آنے والے وقتوں میں فاٹا کے نمائندے بھی ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہونگے۔ باجوڑ اور وزیرستان کو فنڈز کیسے ملیں گے۔ افسوس ہے کہ پہلے انگریز کا قانون نافذ تھا اور آج واشنگٹن کا قانون مسلط کیا جارہا ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 247 کے تحت یہ قبائلی عوام کا حق ہے کہ ان سے پوچھا جاتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں لیکن عوام کی رائے پر قدغن لگادی گئی اور واشنگٹن کے فیصلے مسلط کیے جارہے ہیں۔ امریکی سفارتخانے کی جانب سے ہمارے فاٹا کے نمائندوں سے رابطہ کیاگیا کہ اس مسئلے پر ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ یہ بھی یاد رکھاجائے کہ امریکہ نے 1995ء میں فاٹا کوخیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی بات کی تھی،اقوام متحدہ بھی انضمام کی باتیں کرتارہاہے اس لیے یہ تمام سیاسی جماعتیں جو آج انضمام کی حامی ہیںوہ لاشعوری طور پر ان کے ایجنڈے پر چل رہی ہیں۔ جب قومی سلامتی کمیٹی گلگت بلتستان کوپانچ سال تک چھوٹ دے سکتی ہے تو فاٹا کو کیوں نہیں؟ فاٹا کی آڑمیں پاٹا کا سٹیٹس بھی ختم کردیاگیا۔ مرکز اب فاٹا کو فنڈز فراہم نہیں کررہا تو انضمام کے بعد وہ فنڈز کیسے دیگا جس کا وعدہ کیاجارہاہے ۔ فاٹا سے 21نشستیں ہوںگی تو اس کا مطلب ہے کہ وزیراعلیٰ فاٹا سے نہیں آسکے گا تو پھر فائدہ کیا۔ میرے نزدیک خوشی کے بجائے اس پر ماتم کرنا چاہیے۔ ترجیح ایف سی آر کا خاتمہ اور اصلاحات تھی لیکن اس کی جگہ انضمام نے لے لی۔ ایم ایم اے کی سطح پر فیصلہ کیاگیاہے کہ جے یو آئی اورجماعت اسلامی یہ معاملہ زیر بحث نہیں لائے گی تاہم اگر صوبہ میں ایم ایم اے کی حکومت بنتی ہے تو ہم یقینی طور پر فاٹا کی عوام سے پوچھیں گے کہ وہ کیا چاہتے ہیں ،خیبرپختونخوا کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر الگ صوبہ چاہتے ہیں۔ صورتحال تو یہ ہے کہ خود ایک شاہ جی گل آفریدی کے علاوہ فاٹا کے ارکان نے قومی اسمبلی میں فاٹابل کے معاملے پر ووٹ نہیں ڈالاجس سے واضح ہوجاتاہے کہ وہ اپنی عوام کا مزاج سمجھ رہے ہیں کہ عوام ایسا نہیں چاہتی۔
طارق احمد خان (سیکرٹری اطلاعات قومی وطن پارٹی )
قومی وطن پارٹی نے اپنے قیام کے بعد ہمیشہ پختونوں اور خصو صاً قبائل کی ترقی و حقوق کے لئے جدوجہد کی ہے۔ آج اگر وفاقی حکومت نے فاٹا کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا تو اس میں قومی وطن پارٹی کا بھی حصہ ہے۔ میں فاٹا سمیت پوری قوم کو اس تاریخی موقع پر مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ہمارے بزرگوں و نئی نسل کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں آج ہمیں یہ تاریخی دن دیکھنانصیب ہوا ہے تاہم اب بھی تھوڑا اورکام باقی ہے۔ ہمیں اس اہم موقع پر بلوچستان کے پختونوں کو بھی نظر انداز نہیںکر نا چاہیے،انہیں بھی ساتھ ملانے کی بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے قومی وطن پارٹی کا موقف بہت واضح ہے کہ بلوچستان کے قبائل کو بھی ایک ایڈمنسٹریشن کے نیچے لایا جائے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ایک مثبت اقدام اٹھایا گیا جس کے آنے والی نسلوں پر اچھے اثرات مرتب ہو ںگے ۔ قبائل نے ایک طویل جدوجہد کے بعد اپنا حق حاصل کیا ہے حالانکہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی انگریز کے نافذکردہ کالے قانون ایف سی آر کو ختم کر دیا جاتا تو قبائل کو اتنی صعوبتیں برداشت نہ کرنا پڑتیں۔ جن عناصر نے فاٹا کے عوام کو آرٹیکل ون کے تحت پاکستان کا شہر ی ہونے کے باوجود بھی ملک سے الگ تھلک رکھا انہوں نے بہت زیادتی کی ہے۔ آج بھی جو لوگ ریفرنڈم کے بات کرتے ہیں یا ایک پختون قوم کو مختلف قبائل کا نام دیکر ان کی جغرافیائی حیثیت کو مد نظر رکھ کر علیحدہ صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں وہ پختونوں وخصو صی طور پر قبائل کے خیر خواہ نہیں ہیں تاہم اب ان لوگوں کی سازشیں ناکام ہو گئی ہیں اور فاٹا خیبر پختونخوا کا حصہ بن گیا ہے۔ جو لوگ اس کو غیروں کے ایجنڈے کی تکمیل قرار دے رہیں وہ قبائل کیساتھ مخلص نہیں ہوسکتے ۔ فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام، جمہوری و پارلیمانی طریقہ کار کے مطابق ہوا ہے لیکن جے یو آئی نے اب بھی اس کو ایشو بنایا ہو ا ہے حالانکہ انہیں چاہیے کہ فاٹا کے عوام اور ملک کے وسیع ترمفاد میں اس فیصلہ کی بھر پور حمایت کریں تاکہ اس پسماندہ علاقے کو ترقی کی راہ پر گامزان کیا جاسکے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آج وہ لوگ بھی انضمام کے خلاف بیانات دے رہے ہیں جو کل تک نعرہ لگاتے رہے کہ ’’چترال سے بولان تک‘‘ تمام قبائل ایک ہیں ۔ دہشت گردی کی جنگ اور سالہا سال سے محروم رکھے جانے کے باعث فاٹا کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے یہاں پر سابق انتظامیہ اور ملکان کی بدعنوانیوںاور زیادتیوں کی وجہ سے صحت ، تعلیم اور زندگی کے دیگر ا ہم شعبوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کے باعث قبائل غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی انتظامیہ فوری طور پر حرکت میں آکر فاٹا کے محروم علاقوں کی بحالی کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کا آغاز کر دے تاکہ ان علاقوں کو صوبہ کے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لایا جاسکے۔ علاوہ ازیں اہم بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے صاحب حیثیت پختونوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبہ اور خصو صی طور پر قبائل کے حالات زندگی بہتر بنانے کے لئے یہاں پر سرمایہ کاری کریں تاکہ یہ پسماندہ صوبہ جو اب بہت بڑا صوبہ بن گیا ہے، ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
ضیاء اللہ آفریدی (سابق صوبائی وزیرورہنما پاکستان پیپلزپارٹی)
فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام ایک طویل جدوجہد کا نام ہے جس میں سب سے زیادہ حصہ پاکستان پیپلزپارٹی کا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی فاٹا پر بات ہو گی تو پاکستان پیپلزپارٹی کا نام ضرورت آئے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی جدوجہد رنگ لے آئی ہے اور آخر کار فاٹا خیبر پختونخوا کا حصہ بن گیا ہے۔ قبائلی عوام کو انکے حقوق دلوانے کیلئے ملک میں سب سے پہلے عملی جدوجہد کا آغاز ذو الفقار علی بھٹو نے1973 ء کا آئین بناتے وقت کیا تھا اور انکی جانب سے زرمک کالج کا قیام و دیگر عملی کوششیں تاریخ کا حصہ ہیں۔بعدازاں بے نظیر بھٹو نے چالیس ایف سی آر کے خلاف عدالت میں رٹ دائر کی۔ ان کے دور میں فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لئے عملی جدو جہد کی گئی اور پیپلز پارٹی کے سابق حکومت میں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کو فاٹا تک توسیع دے کر فاٹا انضمام کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ یہ قبائلی عوام اور ملک بھر کے لئے انتہائی خوش آئند بات ہے کہ فاٹا اب خیبر پختونخوا کا حصہ بن گیا ہے۔ یہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا اور فاٹا کے عوام کو کرپٹ انتظامی نظام سے نجات ملے گی جو فاٹا میں تمام مسائل کی جڑ تھا۔اس بات میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ فاٹا کے انضمام سے صوبہ پر کوئی بوجھ پڑے گا بلکہ تمام سیاسی جماعتوںکی اب یہ ذمہ داری بن گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں کی ترقی کے لئے کام کریں اور عوام کی جانب سے بھی ان پر دباؤ ہو گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس فیصلہ کی حمایت میں کھڑی ہو جائیں کیونکہ اس سے ہماری نسلوں کا مستقبل وابستہ ہے۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ فاٹا دہشت گردوں کی آماجگاہ ہے تو یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ یہاں پر تعلیم کا بندوبست نہیں ہے اور نہ کاروبار و ملازمتوں کے مواقع موجود ہیں تاہم اب جبکہ فاٹا صوبہ کا حصہ بن گیا تویہاں پر نہ صر ف انتظامیہ اپنا سسٹم بنائے گی بلکہ صحت ،تعلیم و دیگر انفراسٹرکچر بھی بن جائے گا۔ اگر چہ ابتدائی طور پر مشکلات پیش آئیں گی تاہم جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا ان مسائل پر قابو پالیا جائے گا۔ میں نے قومی مفاد کی خاطر سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتمام واپس لینے کا فیصلہ کیا ، پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور پارٹی سربراہ آصف علی زرداری کی ہدایت پر میں نے تحریک عدم اعتماد واپس لی ہے تاکہ خیبر پختونخوا میں فاٹا کے انضمام کا بل بھاری اکثریت سے پاس کیا جاسکے۔
The post فاٹا کا کے پی میں انضمام خوش آئند؛ قبائلی عوام کی محرومیاں ختم کرنے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے!! appeared first on ایکسپریس اردو.
لاہور: فلم اسٹارلیلیٰ نے موجودہ دورکی ’ممی ڈیڈی ‘ ہیروئنوںکو ٹف ٹائم دینے کی ٹھان لی، انھوں نے ایک مرتبہ پھرسے سلورسکرین ، ٹی وی پروگراموں کے علاوہ دیگر سرگرمیوں میں بھرپورانداز سے حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
’ایکسپریس‘سے بات کرتے ہوئے اداکارہ لیلیٰ کا کہنا تھا کہ پاکستان فلم انڈسٹری کا شاندارماضی سب کے سامنے ہے۔ فلمی ہیرو، ہیروئنیں اوردیگرفنکاروں کے ساتھ گلوکار، موسیقار، ہدایتکاراور فلم میکرز کے چاہنے والے بڑی تعداد میں موجود تھے لیکن آج کے دورمیں جواداکارائیں بڑے پردے پردکھائی دے رہی ہیں، ان کا کام سب کے سامنے ہے۔ میں نے اپنا فنی سفرفلم سے کیا اوربہت ہی چھوٹی عمر میں فلم میں اہم کردارنبھایا۔
لیلیٰ نے کہا کہ میں یہ بات بخوبی سمجھ سکتی ہوں کہ فلم کا کیا مقام ہے اوراس میں کس طرح سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت اگردیکھا جائے توپاکستانی فلم کے معیارمیں توبہتری دکھائی دے رہی ہے لیکن اس کی شائقین میں مقبولیت نہ ہونے کی وجہ آجکل کی ہیروئنیں بھی ہیں۔ جن میں وہ صلاحیتیں نہیں ہیں، جوایک فلمی حسینہ میں ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ایک مرتبہ پھر سے بھرپوراندازمیں فلم اورٹی وی کے شعبوں میں کام کرنے کی ٹھانی۔
اداکارہ نے کہا کہ ایک طرف تومیں اپنے چاہنے والوں کی خواہش کے مطابق فلم میں کام کرتی دکھائی دونگی اوردوسری جانب ٹی وی پروگرام میں میزبانی کرتی بھی نظرآؤنگی۔ حالانکہ میزبانی کا شعبہ میرے لیے نیا ہوگا لیکن میں نے ہمیشہ ہی چیلنجز قبول کیے ہیں۔
لیلیٰ نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران مجھ سے جیلس لوگوں نے مجھے شوبز سے آؤٹ کرنے کی بہت سی کوششیں کیں اوراس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ، مگراب میں کسی کی باتوں میں نہیں آؤنگی۔ میرا مقصد فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں کام کرتے ہوئے اپنا ایک الگ مقام بنانا ہے، جس کے لیے اب میں نے اپنے ٹارگٹ طے کرلیے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں لیلیٰ نے کہا کہ دنیا بھرکی طرح پاکستان میں فلم کے شائقین کا مزاج بدل چکا ہے۔ اس وقت انٹرنیٹ کادور ہے اورگھربیٹھے لوگوںکو سب کچھ مفت دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایسے میں انہیں سینما گھرتک لانے کے لیے ہمیں ایسی اچھوتی فلمیں بنانے کی ضرورت ہے، جس کودیکھنے کے لیے وہ بار بارسینما گھروںکا رخ کریں۔ اس لیے میں بہت جلد ایک ایسے ہی انٹرنیشنل پراجیکٹ کا حصہ بننے جارہی ہوں۔
The post لیلیٰ نے موجودہ دور کی ’’ممی ڈیڈی‘‘ ہیروئنوں کو ٹف ٹائم دینے کی ٹھان لی appeared first on ایکسپریس اردو.
آج کل سیاسی موسم عروج پر ہے۔ سیاست کے کرتا دھرتا آئے دن میلہ سجاتے ہیں۔ بلاشبہ یہ سیاسی جلسوں کا موسم ہے۔ جیسے جیسے گرمی بڑھ رہی ہے ویسے ویسے سیاسی پارہ چڑھتا جارہا ہے۔ سیاسی جلسہ سے کسی سیاسی جماعت کی طاقت کا پتہ چلتا ہے۔ ہمارے ہاں جلسوں کا انداز ابھی تک روایتی ہے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں پارٹی سربراہان ٹی وی پر اپنا اپنا موقف بیان کرتے ہیں۔ اس طرح پارٹیوں کا لاکھوں نہیں، اربوں روپیہ بچ جاتا ہے؛ اور یہی پیسہ پارٹیاں دوسرے کاموں میں خرچ کرتی ہیں۔
اب انٹرنیٹ کا زمانہ ہے ہر کسی کے پاس موبائل ہے۔ سیاسی جلسوں کی تقاریر اور ٹاک شوز براہ راست سنے جا سکتے ہیں۔ ہر الیکشن کے قریب آتے ہی ہمارے ہاں ایک انوکھا بازار لگتا ہے۔ جسے ’’جمہوریت کا بازار‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس بازار میں الیکشن جیتنے والے گھوڑوں کی بولی لگتی ہے۔ بولی کا انداز بھی بڑا دلچسپ اور نرالا ہے۔ اس میں رنگ، نسل، قد، کاٹھ یا خوبصورتی کو نہیں بلکہ صرف الیکشن جیتنے کی صلاحیت دیکھی جاتی ہے۔ اگر ایک اصطبل میں قیمت پوری نہ لگے تو دوسرے اصطبل کا رخ کیا جاتا ہے، دوسرے میں نہ لگے تو تیسرے کا۔ عرف عام میں انہیں سیاسی فصلی بٹیرے کہا جاتا ہے جو ہوا کا رخ دیکھ کر اپنا رخ بدل لیتے ہیں۔
میں آپ کو ایک دلچسپ کہانی سناتا ہوں۔ ایک شخص شدت مرض سے کوما میں چلا گیا اور پانچ سال کوما میں رہا۔ کوما میں جانے سے پہلے وہ پیپلزپارٹی کا جذباتی کارکن تھا۔ کوما سے ہوش آنے کے چند دن بعد وہ مکمل صحت یاب ہوگیا اور نارمل زندگی گزارنے لگا۔ اس کے علاقے میں ایک سیاسی جلسہ تھا، اسے پتہ چلا تو اس کے جذبات کی انتہا نہ رہی اور وہ خوشی خوشی جلسہ میں شرکت کےلیے چلا گیا۔ جب اس نے اپنے رہنماؤں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، ندیم افضل چن اور بابر اعوان کو دیکھا تو فرط جذبات میں ‘جئے بھٹو’ کے نعرے مارنے شروع کر دیے۔ لوگوں نے اس کی طرف حیرانی سے دیکھا اور کہا کہ یہ پی پی کا نہیں بلکہ پی ٹی آئی کا جلسہ ہے، اور یہ لوگ اب پی پی سے پی ٹی آئی میں شامل ہوچکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے جیالوں نے اسے پاگل سمجھا اور دھکے دینے شروع کردیے۔ اس نے کہا کہ یہ تو وہ پی پی رہنما ہیں جنہوں نے بی بی کے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھائی تھیں؛ اور ان کا منشور روٹی، کپڑا، مکان تھا۔
الیکشن قریب آتے ہی سیاسی وفاداریاں بدلنے کا رجحان زور پکڑ گیا ہے۔ اب پی ٹی آئی کی ہوا ہے۔ ن لیگ، پی پی، ق لیگ اور دوسری جماعتوں کے رہنما جوق در جوق پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کو بھی ٹکٹوں کے سلسلے میں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ جو لوگ سالوں سے پی ٹی آئی کے لیے کام کر رہے ہیں، ٹکٹ ان کا حق بنتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ تحریک انصاف بھی پی پی اور نون لیگ کا آمیزہ بن کر رہ جائے۔
تحریک انصاف کے بڑوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ندیم افضل چن، جسے پی پی نے نام و شہرت دی، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین اور وزیر بنایا، وہ اگر پی پی کا نہیں رہا تو تحریک انصاف کا بھی نہیں رہے گا۔ ہمارے ہاں الیکٹیبلز کا کوئی نظریہ نہیں، وہ صرف اپنا مفاد دیکھتے ہیں اور مشکل وقت میں پارٹی کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ حکومت کی مدت پوری ہونے میں مشکل سے ایک ہفتہ باقی ہے جس کے بعد حکمراں جماعت کی حالت قابل رحم ہوگی۔ کئی ن لیگی ایم این ایز اور ایم پی ایز نے اپنے جلسوں میں شرکت کرنا چھوڑ دی ہے جس سے ان کی ‘وفاداری’ کا پتہ چلتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں کچھ بھی متوقع ہے۔ کچھ سیاسی خاندان وفاداریاں بدل چکے ہیں جبکہ اکثر پر تول رہے ہیں۔
حال ہی میں تحریک انصاف نے اپنا سو دن کا منشور دیا ہے۔ جس میں جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانا بھی شامل ہے۔ وطن عزیز میں اس وقت ایک صوبہ نہیں بلکہ زیادہ صوبوں کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں پنجاب کے تین، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے دو دو صوبے بننے چاہئیں اور گلگت بلتستان صوبہ کو قانونی حیثیت دی جائے۔ دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں جن کی آبادی اور رقبہ ہم سے کم لیکن صوبے زیادہ ہیں۔ سیاسی موسم گرم ہے، دیکھیں سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post سیاسی موسم اور لوٹوں کی نقل و حرکت appeared first on ایکسپریس اردو.
استبول: سفید چھڑی دنیا بھر میں نابینا افراد کے لیے ایک اہم مددگار آلہ تصور کی جاتی ہے۔ اب ترکی کے نوجوان ماہرین نے روایتی چھڑی میں ٹیکنالوجی شامل کرکے اسے اسمارٹ چھڑی میں تبدیل کردیا ہے اور اس ضمن میں کراؤڈ فنڈنگ کے لیے ایک ویب سائٹ بھی بنائی گئی ہے جسے ’وی واک‘ منصوبے کا نام دیا گیا ہے۔
ترکی ینگ گرو اکیڈمی کی جانب سے یہ چھڑی بنائی گئی ہے جسے جدید ٹیکنالوجی کا شاہکار کہا جاسکتا ہے۔ اس میں سب سے اہم بات اس کا الیکٹرانک ہینڈل ہے جسے کسی بھی عام سفید چھڑی سے جوڑ کر اسے اسمارٹ بنایا جاسکتا ہے۔
اس کے بعد چھڑی میں موجود الٹراساؤنڈ سینسر آن ہوجاتا ہے جو سر کی سطح تک کی رکاوٹوں، ناہموار زمین، پانی اور کیچڑ وغیرہ کو قدم رکھنے سے پہلے بھانپ لیتا ہے اور ایک آواز کے ذریعے خبردار کرتا ہے۔ بہت شور کی جگہ پر اس کا ہینڈل اسمارٹ فون کی طرح لرزش پیدا کرتا ہے جسے ہاتھوں پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔
ہینڈل میں آگے کی جانب ایک روشن ایل ای ڈی لگائی گئی ہے جسے اندھیرے میں بینائی والے خواتین و حضرات دیکھ کر چوکنا ہوسکتے ہیں۔ اس کے ٹچ پیڈ کی بدولٹ کسی اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کے ذریعے بھی اس چھڑی کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس میں موجود اسپیکر گوگل میپ اور دیگر ایپس کے ذریعے آواز سے رہنمائی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
وی واک اسمارٹ چھڑی کا سارا سافٹ ویئر اوپن سورس ہے جس میں مزید تبدیلی اور بہتری کی جاسکتی ہے۔ اسے بنانے والی ٹیم نے انٹرنیٹ پر کراؤڈ فنڈنگ کی درخواست کی ہے اور وی واک کے ایک سیٹ کی قیمت پاکستانی 35 ہزار روپے تک ہوسکتی ہے جبکہ یہ اس سال دسمبر تک عام دستیاب ہوگی۔
The post نابینا افراد کے لیے اسمارٹ چھڑی appeared first on ایکسپریس اردو.
کراچی: پاکستان میں تخمِ ملنگا جیسی قدرتی نعمت کو بری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے جو صحت کا ایک خزانہ ہونے کی بنا پر طبی فوائد سے بھرپور ہے۔
صرف شربت اور فالودہ بناتے وقت ہی تخمِ ملنگا کی یاد آتی ہے لیکن تاریخ میں اس بیج کو بطور کرنسی بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ازطق سپاہی جنگ سے پہلے اسے کھاتے تھے کیونکہ یہ توانائی سے بھرپور ہوتا ہے۔ اسی بنا پر تخمِ ملنگا کو دوڑنے والے کی غذا بھی کہا جاتا ہے۔
تخمِ ملنگا کی 28 گرام مقدار میں 137 کیلوریز، 12 گرام کاربوہائیڈریٹس، ساڑھے چار گرام چکنائی، ساڑھے دس گرام فائبر، صفر اعشاریہ چھ ملی گرام مینگنیز، 265 ملی گرام فاسفورس، 177 ملی گرام کیلشیئم کے علاوہ وٹامن، معدنیات، نیاسن، آیوڈین اور تھایامائن موجود ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تخمِ ملنگا میں کئی طرح کے اینٹی آکسیڈنٹس بھی پائے جاتے ہیں۔
اب تخمِ ملنگا کے فوائد بھی جان لیجئے۔
جلد نکھارے اور بڑھاپا بھگائے
میکسکو میں تخمِ ملنگا پر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں قدرتی فینولِک (اینٹی آکسیڈنٹ) کی مقدار دوگنا ہوتی ہے اور یہ جسم میں فری ریڈیکل بننے کے عمل کو روکتا ہے۔ اس طرح ایک جانب تو یہ جلد کے لیے انتہائی مفید ہے تو دوسری جانب بڑھاپے کو بھی روکتا ہے۔
ہاضمے کے لیے مفید
فائبر کی بلند مقدار کی وجہ سے تخمِ ملنگا ہاضمے کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ السی اور تخمِ ملنگا خون میں انسولین کو برقرار رکھتے ہیں اور کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کو بھی لگام دیتے ہیں۔ طبی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ فائبر پانی جذب کرکے پیٹ بھرنے کا احساس دلاتا ہے اور وزن گھٹانے کے لیے انتہائی مفید ہے۔ اس کا استعمال معدے کے لیے مفید بیکٹیریا کی مقدار بڑھاتا ہے۔
قلب کو صحتمند رکھے
تخمِ ملنگا کولیسٹرول گھٹاتا ہے، بلڈ پریشر معمول پر رکھتا ہے اور دل کے لیے بہت مفید ہے۔ اس کا باقاعدہ استعمال خون کی شریانوں کی تنگی روکتا ہے اور انہیں لچکدار بناتا ہے۔ اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کی وجہ سے یہ دل کا ایک اہم محافظ بیج ہے۔
ذیابیطس میں مفید
تخمِ ملنگا میں الفا لائنولک ایسڈ اور فائبر کی وجہ سے خون میں چربی نہیں بنتی اور نہ ہی انسولین سے مزاحمت پیدا ہوتی ہے۔ یہ دو اہم اشیا ہیں جو آگے چل کر ذیابیطس کی وجہ بنتے ہیں۔ اسی لیے ملنگا بیج کا باقاعدہ استعمال ذیابیطس کو روکنے میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔
توانائی بڑھائے
جرنل آف اسٹرینتھ اند کنڈشننگ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق تخمِ ملنگا ڈیڑھ گھنٹے تک توانائی بڑھاتا ہے اور ورزش کرنے والوں کے لیے بہت مفید ہے۔ یہ جسم میں استحالہ (میٹابولزم) تیز کرکے چکنائی کم کرتا ہے اور موٹاپے سےبھی بچاتا ہے۔
ہڈیوں کی مضبوطی
ایک اونس تخمِ ملنگا میں روزمرہ ضرورت کی 18 فیصد کیلشیئم پائی جاتی ہے جو ہڈیوں کے وزن اور مضبوطی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس میں موجود بورون نامی عنصر فاسفورس، مینگنیز اور فاسفورس جذب کرنے میں مدد دیتا ہے اور یوں ہڈیاں اور پٹھے مضبوط رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ زنک اور دیگر اجزا منہ اور دانتوں کی صحت برقرار رکھتے ہیں۔
The post صحت کا خزانہ، تخمِ ملنگا appeared first on ایکسپریس اردو.
یہ 2017ء کے اوائل کی بات ہے، اسرائیل کے بیس یہودی خاندانوں نے فیصلہ کیا کہ وہ امونا نامی علاقے میں نئی بستی تعمیر کریں گے۔ یہ علاقہ مغربی کنارے (ویسٹ بینک) میں واقع ہے۔ مغربی کنارا مجوزہ آزاد فلسطینی ریاست میں شامل ہونا ہے۔ اسی لیے اسرائیل میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم بستی کی تعمیر رکوانے کے لیے اپنے سپریم کورٹ میں پہنچ گئی۔
مقدمہ اسرائیلی سپریم کورٹ کے عیسائی جج، سلیم جبران کے سامنے پیش ہوا۔ جج صاحب کو بخوبی علم تھا کہ مغربی کنارے میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہاں آزاد فلسطینی ریاست قائم کرنے کا منصوبہ ہے مگر اس نے کھلے عام انصاف اور قانون کا خون کر ڈالا۔ جسٹس سلیم جبران نے قرار دیا کہ مغربی کنارے میں جس زمین پر بھی انسانی آبادی موجود نہیں، اسے اسرائیلی حکومت اپنے قبضے میں لے سکتی ہے۔ اس زمین پر پھر یہودی بستیاں بن سکتی ہیں یا اسرائیلی حکومت چاہے تو کچھ بھی تعمیر کرلے۔
اسرائیل کے سپریم کورٹ نے گویا شرمناک کردار ادا کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت کو مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کی قانونی طور پر اجازت دے دی۔ جسٹس سلیم جبران نے یہ بھی قرار دیا کہ مغربی کنارے میں آباد تمام اسرائیلی باشندے اسرائیل کے شہری ہیں۔ لہٰذا اسرائیلی حکومت کا فرض ہے کہ نہ صرف انہیں زندگی کی تمام سہولیات فراہم کرے بلکہ ان کی حفاظت کا بھی پورا بندوبست کردے۔
دنیا کے تمام ممالک میں لوگوں کو اپنی عدالتوں سے بالعموم انصاف مل جاتا ہے۔ اسرائیل شاید واحد ملک ہے جہاں عدالتیں فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کرنے میں اپنی ظالم حکومت کا بھر پور ساتھ دیتی ہیں۔ جسٹس سلیم کے حکم پر اب اسرائیلی حکومت مغربی کنارے میں بنی تمام یہودی بستیوں کی سکیورٹی کے لیے غیر معمولی اقدامات کررہی ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے مغربی کنارے میں ’’چھوٹے چھوٹے اسرائیل‘‘ جنم لے رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ یہودی بستیاں مل کر اسرائیلی مملکت میں شامل ہو جائیں گی۔
اسرائیل کے انتہا پسند مذہبی لیڈر دراصل فلسطین کے علاقوں،مغربی کنارے اور غزہ کو اپنی مملکت کا ہی حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ماضی میں یہ علاقے یہودکی مملکتوں… یہودا اور سامریہ کا حصہ تھے۔ لہٰذا ان کٹر اسرائیلی لیڈروں کی بھر پور کوشش ہے کہ مغربی کنارے کے زیادہ سے زیادہ علاقے پر اسرائیل قابض ہوجائے۔ یہ قبضہ کرنے کا نمایاں ترین طریق کار یہ ہے کہ مغربی کنارے میں یہودی بستی بسالی جائے۔
مغربی کنارے کا رقبہ 5655 مربع کلو میٹر ہے۔ علاقے میں تقریباً 33 لاکھ افراد آباد ہیں۔ ان میں سے 85 فیصد مسلمان ہیں، 12 فیصد یہودی اور بقیہ عیسائی۔ اقوام متحدہ نے 1947ء میں مغربی کنارے کو مجوزہ فلسطینی ریاست میں شامل کیا تھا۔ مگر عربوں نے اقوام متحدہ کا پلان مسترد کردیا۔ بعدازاں اردن کی فوج نے مغربی کنارے میں ڈیرے ڈال دیئے۔
1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے مغربی کنارے پر قبضہ کرلیا۔ تب سے وہ اس علاقے پر قابض چلا آرہا ہے۔ مغربی کنارے کے کچھ علاقوں میں فلسطین اتھارٹی کی حکومت ہے مگر درحقیقت یہ برائے نام ہے۔ اسرائیل جب چاہے مغربی کنارے میں ہر قسم کے اقدامات کرسکتا ہے۔ گویا علاقے کی اصل حاکم اسرائیلی حکومت ہے۔یہی وجہ ہے، اسرائیلی حکومت نے اپنے یہودی شہریوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں اپنی بستیاں قائم کرلیں۔ مشرقی بیت المقدس کو مجوزہ آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بننا ہے۔ اسی خطے میں مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام بھی واقع ہے۔
عام مسلمان مگر نہیں جانتے کہ اسرائیلی حکومت نہایت عیاری اور چالاکی سے مغربی کنارے، مشرقی بیت المقدس اور گولان کی پہاڑیوں کا رقبہ ہتھیا رہی ہے۔ یوں وہ اپنی سرحدیں زیادہ سے زیادہ پھیلانا چاہتی ہے۔ ایک مدعا یہ بھی ہے کہ بالفرض مستقبل میں آزاد فلسطینی ریاست بن بھی جائے، تو وہ اتنی کمزور ہوکہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔
یہ سچائی تو اب سبھی جانتے ہیں کہ اسرائیل کا قیام زمین کی خرید و فروخت کے عمل سے وجود میں آیا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں امیر کبیر یہود نے فلسطینی مسلمانوں سے منہ مانگے داموں زمینیں خریدیں اور پھر وہاں یہودی گھرانے لا بسائے۔ اس طرح ارض فلسطین میں یہود کی آبادی بڑھنے لگی۔ آخر چند ہی عشروں میں آبادی اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ وہ اپنی مملکت بنانے کے خواب دیکھنے لگے۔ امریکا اور برطانیہ نے یہ خواب شرمندہ تعبیر کرنے میں یہود کے ساتھ پورا تعاون کیا۔اب اسرائیلی یہودی مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس پر بھی زمین کی خریدو فروخت کے ذریعے زیادہ سے زیادہ رقبے پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔
اس سلسلے میں مختلف ہتھکنڈے اور حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ایک عام حربہ یہ ہے کہ چند یہودی خاندان مغربی کنارے میں غیر آباد رقبے پر جا بستے ہیں۔ وہ قرب و جوار میں فصل اگاتے یا باغ لگاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ دیگر یہودی خاندان وہاں آجاتے ہیں۔ یوں بستی کے حجم میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ آخر کار اسرائیلی حکومت یہ آڑ لے کر انہیں سہولیات زندگی بہم پہنچانے لگتی ہے کہ وہ اسرائیلی شہری ہیں۔ یوں وہ بستی آخر کار اسرائیل کی ملکیت قرار پاتی ہے۔
پچھلے پچاس برس کے دوران درج بالا طریق واردات کی مدد سے مغربی کنارے میں ’’125‘‘ یہودی بستیاں وجود میں آچکیں جن میں تقریباً چار لاکھ اسرائیلی یہودی بستے ہیں۔ ان بستیوں میں سے چار تو ’’شہر‘‘ کا درجہ پاچکی۔ دیگر بستیوں میں بھی یہود کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ نیز مزید یہودی بستیاں بسانے کا سلسلہ بھی کھلے عام جاری ہے۔ مغربی کنارے میں بعض اوقات مسلمان پیسے کے لالچ میں اپنی زمینیں یہود کو فروخت کردیتے ہیں۔ مگر اب فلسطینی مسلمانوں کے درمیان یہود کو زمین فروخت کرنے والا مسلمان ناپسندیدہ قرار پاتا ہے۔ اس کو غدار سمجھا جاتا ہے کیونکہ یوں وہ ارض فلسطین پر قبضہ جمانے میں یہود کی مدد کرتا ہے۔ معاشرتی بائیکاٹ سے بچنے کی خاطر ہی اب مغربی کنارے میں شاز ہی کوئی مسلمان یہود کو زمین فروخت کررہا ہے۔ یہود تاہم بے آباد زمینوں پر قبضہ کرتے چلے جارہے ہیں اور اس ناجائز، غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل میں انہیں اسرائیلی حکومت کی بھر پور مدد حاصل ہے۔
اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کئی بار مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دے چکی مگر اسرائیلی حکومت کھلے بندوں ان کی تعمیر جاری رکھے ہوئے ہے۔وجہ یہی کہ اسے سپر پاور امریکا کی عیاں اور اکثر یورپی مملک کی درپردہ حمایت حاصل ہے۔ویسے بھی اسرائیل بذات خود ایک خطرناک عسکری طاقت بن چکا ہے۔ اسرائیلی سائنس داں دن رات تحقیق و تجربات کے ذریعے نت نئے ہتھیار ایجاد کر رہے ہیں۔
اب وہ ایسی فوجی طاقت ہے کہ صرف سپر پاورز ہی میدان جنگ میں اس سے ٹکر لے سکتی ہیں۔افسوس ناک امر یہ کہ ترکی اور چند دیگر ملکوں کے حکمرانوں کو چھوڑ کر عالم اسلام کے بقیہ حکمران اپنی سرگرمیوں میں مست الست ہیں۔وہ زیادہ سے زیادہ اسرائیل کے خلاف مذمتی بیان دیتے ہیں۔بہت ہوا تو او آئی سی کی کانفرنس میں شرکت کر لی۔ایسی کانفرنسوں کا نتیجہ ڈھاک کے پات ہی نکلتا ہے۔فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل دیدہ دلیری سے مظالم ڈھا رہا ہے اور عالم اسلام میں کوئی مائی کا لعل نہیں جو اس کو روک سکے۔
ایساکوئی حکمران نہیں جو ارض فلسطین میں یہودی بتسیوں کی ناجائز و غیر اخلاقی تعمیر رکوا دے۔عالم اسلام کے حکمرانوں کے بے عملی اور بے حسی کی وجہ ہی سے اسرائیل نواز امریکی صدر،ڈونالڈ ٹرمپ کو یہ حوصلہ ملا کہ وہ اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کر دے۔اقوام متحدہ کی رو سے بیت المقدس ایک غیر جانب دار علاقہ ہے۔ مگر امریکا کے بظاہر قانون پسند اور انسانی حقوق کے نام لیوا حکمران طبقے نے اقوام عالم کے بنائے قانون کی دھجیاں اڑا دیں۔وہ تو اسرائیلی حکومت کا یہ نقطہ نظر مانتا ہے کہ بیت المقدس اسرائیل کا دارلحکومت ہے۔
فلسطینی مسلمان پورے یروشلم نہیں صرف مشرقی بیت المقدس کو اپنی آزاد فلسطینی ریاست کا داراحکومت بنانا چاہتے ہیں۔وہ اس لیے کہ یہیں مسجد الاقصی اور قبہ الصخرہ واقع ہیں۔ لیکن مشرقی بیت المقدس پہ مکمل قبضے کی خاطر اسرائیلی حکمران طویل عرصے سے ایک سوچے سمجھے منصوبے پر عمل کر رہے ہیں۔
1967ء میں قبضہ کرنے کے بعد اسرائیلی حکومت نے سب سے پہلے مشرقی بیت المقدس میں مقیم مسلمانوں پر مختلف قوانین زبردستی ٹھونس دئیے۔ان کا مقصد اسلامیوں کی روزمرہ زندگی کو مشکل سے مشکل تر بنانا تھا۔اور مدعا یہ تھا کہ مسلمان آخر تنگ آ کر مشرقی بیت المقدس سے چلے جائیں۔مذید براں بھاری معاوضہ دے کر مسلمانوں سے زمینیں خریدنے کا پرانا حربہ بھی آزمایا گیا۔جو فلسطینی کمزور تھے،انھیں ڈرا دھمکا کر ان سے زمینیں چھین لی گئیں۔
جب اسرائیل مشرقی بیت المقدس پہ قابض ہوا تو وہاں دو تین ہزار یہودی رہتے تھے۔بقیہ مغربی بیت المقدس چلے گئے تھے۔آج اس علاقے میں ’’دو لاکھ‘‘یہود بستے ہیں… اور یہ تمام یہودی ان زمینوں پر آباد ہیں جن کے مالک کبھی فلسطینی مسلمان تھے۔گویا اسرائیلی حکومت نے نہایت عیارانہ طریقے سے مسلمانوں کو مشرقی بیت المقدس سے بے دخل کیا اور ان کی زمین وجائیداد پر قابض ہو گئی۔زمینوں پر ایسے شاطرانہ انداز میں قبضہ جمانے کی مثال انسانی تاریخ میں کسی اور ملک میں نہیں ملتی۔
آج مشرقی بیت المقدس میں تقریباً ڈھائی لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔مگر اسرائیلی حکومت نے مختلف حربے اپنا کر ان کا جینا حرام کر رکھا ہے۔اسی لیے ہر سال بہت سے فلسطینی خاندان اپنا گھر بار اونے پونے داموں بیچ کر مغربی کنارے یا غزہ چلے جاتے ہیں۔چناں چہ مشرقی بیت المقدس میں مسلم آبادی رفتہ رفتہ کم ہو رہی ہے۔یہ ایک خطرناک بات ہے کیونکہ اس طرح مستقبل میں وہاں یہود کی آبادی بڑھ جائے گی اور اسرائیلی حکومت کا یہی تو مقصد ہے۔یوں اگر آزاد فلسطینی ریاست قائم ہوئی تو یہود کی اکثریت کے باعث مشرقی بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت بنانا بہت کٹھن مرحلہ بن جائے گا۔
صورت حال سے آشکارا ہے کہ اسرائیل بڑی عیاری وہوشیاری سے بتدریج مشرقی بیت المقدس اور مغربی کنارے پر قابض ہو رہا ہے۔اس کی سرحدیں مسلسل پھیل رہی ہیں اور دنیا بھر میں مسلمان غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔مغربی کنارے میں الفتح تنظیم کی حکومت ہے۔اس کے حکمران زبانی کلامی تو اسرائیلی حکمرانوں پر خوب برستے ہیں مگر یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کے لیے ایک ٹھوس قدم بھی نہیں اٹھا پاتے۔اہم نکتہ یہ کہ الفتح لیڈر اس ضمن میں اسرائیلی حکومت کے خلاف عملی احتجاج بھی نہیں کرتے۔ان کے طرزعمل سے ظاہر ہے کہ الفتح لیڈر اپنا اقتدار بچانا چاہتے ہیں۔انھیں ڈر ہے کہ اگر انھوں نے اسرائیل کے خلاف احتجاج کیا اور عوام کو سڑکوں پر لے آئے تو اسرائیلی حکومت ان کی حکومت ختم کر ڈالے گی۔یوں وہ تمام مراعات اور آسائشات زندگی سے محروم ہو جائیں گے۔
غزہ میں اسلامی تنظیم،حماس کی حکومت ہے۔اس کے لیڈر ذاتی مفادات پر اُمت کے مقاصد کو ترجیح دیتے ہیں۔اسی لیے وہ وقتاً فوقتاً اسرائیل کے خلاف پرزور احتجاج کرتے ہیں۔حال ہی میں جب بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی تو غزہ میں ہزارہا مسلمانوں نے اس موقع پر زبردست احتجاج کیا۔تب اسرائیلی فوجی بھوکے کتوں کی طرح ان پہ پل پڑے۔نہتے ہوتے ہوئے بھی دلیر فلسطینی مسلمانوں نے سینوں پر گولیاں کھائیں اور دنیا والوں بالخصوص عالم اسلام کے بے حس ہم مذہبوں کے دلوں اور ضمیر کو جھنجھوڑ ڈالا۔
سچ یہ ہے غزہ اور مغربی کنارے میں بستے لاکھوں فلسطینی مسلمان ایک دیوہیکل قید خانے میں نہایت تکلیف دہ اور مشکلات سے پُر زندگی گذار رہے ہیں۔اپنے لیڈروں کی نااہلی اور عالم اسلام کی بے حسی کی وجہ سے ان کا مستقبل بھی خوشگوار دکھائی نہیں دیتا۔اب تو روایتی طور پر ان کے دوست عرب ممالک کا جھکاؤ بھی اسرائیل کی جانب ہو رہا ہے۔ایسے معاندانہ حالات میں آزاد فلسطینی ریاست کا قیام مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔
The post اسرائیل کی پھیلتی سرحدیں appeared first on ایکسپریس اردو.
قیام پاکستان کے فورا بعد ہی پا کستان میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں پارلیمنٹ میں آبادی کے اعتبار سے پارلیمانی جمہوریت کے تحت اراکین کی نشستوں کی تعداد کو 1955 ء میں ہی برابری کے اصول کو اپنایا گیا تھا اور ہمارے ہاں تمام علاقوں اور صوبوں کو یک جا کر کے ایک ون یو نٹ بنا دیا گیا حالانکہ مشرقی پاکستان کی آبادی ہمارے تمام علاقوں اورصوبوں سے زیادہ تھی۔
یہ صورتحال 1956 ء کے آئین اور پھر اس کے بعد ایوبی اقتدار میں ان کے صدارتی آئین 1962ء کے تحت بھی جاری رہی۔ اس میں بھی وفاقی بجٹ میں دونوں یونٹوں میں مالی وسائل کی تقسیم ملازمتوں میں حصہ داری کے تناسب جیسے مسائل بنیادی طور پرایسے مسائل تھے کہ جو دونوں حصوں میں خلیج بڑھاتے چلے گئے اور آخر کار دسمبر1971 ء کا سانحہ رونما ہوا اس کے بعد مغربی پاکستان ، پاکستا ن بنا جس میں ایک نئے صوبے کا اضافہ ہوا جو بلوچستان تھا۔ بدقسمتی دیکھئے کہ قائداعظم نے 1927-29 ء میں سندھ اور خیر پختوانخوا کی طرح بلوچستان کو بھی صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ انگریزوں سے کیا تھا لیکن انگریز نے 1935 کے قانون ہند میں سندھ کو تو بمئی سے الگ کردیا اور خیبر پختوانخوا کو صوبائی درجہ ملا اور اصلا حات کی گئیں مگر بلوچستان کو صوبے کا درجہ نہیں دیا گیا پھر جب پاکستان بنا تو یہاں دنیا کی بڑی ہجرت ہوئی۔
پھر بھارت کی جانب سے پانی کی اچانک بندش اور فوراً ہی کشمیر کے مسئلے پر دونوں ملکوں میں جنگ اور پھر قائد اعظم آزادی کے بعد 12 مہینے اور28 دن زندہ رہے اور اس مدت میں سے بھی وہ بیمار ی میں شدت پر بلوچستان زیارت میں تقریبا دو مہینے دس دن زیر علاج رہے۔
اس کے بعد بلوچستان مغربی پاکستان کے کوئٹہ اور قلات دو ڈویژنوں کے طور پر رہا اور 1970ء کے عام انتخابات کے موقع پر پہلی مرتبہ بلوچستان کو صو بے کا درجہ دیا گیا اور اس وقت چونکہ ملک میں جنرل یحییٰ خان کا مارشل لا تھا اس لیے یہاں اس وقت لیفٹیننٹ جنرل ریاض احمد کو پہلا صوبائی گورنر بنا یا گیا اور اس کے بعد 1972ء میں جب پہلے وزیر اعلیٰ سردار عطا اللہ مینگل کی پہلی حکومت بنی تو پہلی مرتبہ یہاں کے احساس محرومی کی کچھ جھلکیاں سب کے سامنے آئیں کہ جب ون یونٹ میں بلوچستان مغربی پاکستان کا حصہ رہا تو ملک کی معاشی، اقتصادی ترقی میں یہ علاقہ ملک کا سب سے پسماند ہ حصہ تسلیم کیا گیا ، صوبے کے پہلے دو صوبائی بجٹ صوبائی حکومت بننے سے قبل آئے۔
مالی سال 1970-71 ء کل حجم 39 کروڑ 56 لاکھ 7 ہزار تھا، اس کے بعد مالی سال 1971-72 کا کل حجم 33 کروڑ 42 لاکھ 35 ہزار تھا، اس کے بعد پہلی منتخب صوبائی حکومت بر سر اقتدار آئی جس نے اپنا پہلا بجٹ پیش کیا جس کا حجم 15 کروڑ 45 لاکھ 54 ہزار تھا جس کا خسارہ 8 کروڑ 29 لاکھ تھا جسے وفاقی حکو مت نے ادا کرنا تھا۔ یہ بجٹ صوبائی وزیر خزانہ احمد نواز بگٹی نے پیش کیا تھا ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1973 ء کا پارلیمانی آئین دیا، اس آئین میں جہاں جمہوریت کے فروغ اور عوام کی بہبو د کے وعدے کئے گئے تھے وہاں صوبوں کے حقوق خصوصاً اقتصادی اور مالی حقوق کے تحفظ کے لیے بھی ایسے آرٹیکلز رکھے گئے جن کے تحت صوبوں کے درمیان وفاقی حکومت کے محاصل میں وفاق اور صوبوں کے حصوں کا تناسب اور پھر تما م صوبوں کے درمیان ان محاصل کی تقسیم کا تناسب اور طریقہ کار طے کیا گیا۔
یوں 1973 ء کے آئین کے مطابق ،،Council of Common Interest ،، مشترکہ مفادات کی کونسل اور اس کے اجلاس میں صوبوں کے وزرا اعلی،ٰ وزرا خزانہ، وزیر اعظم ، وفاقی وزیر خزانہ اور ان سے متعلقہ اعلیٰ افسران مقررہ مدت میں سالانہ چند اجلاس میں صوبوں سے متعلق مالیاتی اقتصادی مسائل کو حل کرنے کی کوششیں کر ینگے۔ اس طرح اس آئین میں صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم کے فارمولے کو این ایف سی ایوارڈ کے نام سے نافذ العمل کیا گیا جس میں وفاق کی جانب سے وصول کئے جانے والے محاصل کی پہلے صوبوں اور وفاق کے درمیان تقسیم کا تناسب اور پھر جو حصہ صوبوں کا ہو اسے صوبوں کے درمیان تقسیم اور اس تقسیم کا تناسب طے کیا گیا۔
یہ 1973 ء کے آئین میں ایک ایسا طریقہ کار ہے جس میں حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے آپس میں صوبوں کے درمیان اور وفاق اور صوبوں کے درمیان مسائل کو پیدا ہونے سے قبل ہی حل کرنے کی حکمت عملی کو اولیت دی گئی تھی، قومی مالیاتی ایوارڈ کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا تھا کہ یہ ایوارڈ ہر پانچ سال بعد وفاق اور صوبوں اور پھر صوبوں کے درمیان طے پائے گا، یوں پہلا قومی مالیاتی ایورڈ 1973 ء کی آئین کے صرف ایک سال بعد 1974ء میں آیا دوسرا ایوارڈ 1979ء تیسرا 1985ء چوتھا 1991 ء میں پانچواں این ایف سی ایوارڈ1995 ء میں چھٹا قومی مالیاتی ایوارڈ1997 ء میں آیا، اس کے بعد اکتوبر 1999 ء میں صدر جنرل پرویز مشروف کے اقتدار میں آنے کے بعد این ایف سی ایوارڈ تو نہیں آیا البتہ اسی کو ایک نیا نام صدارتی حکمنامہ’’ ڈسٹری بیوشن آرڈر 2006 ء ‘‘دیا گیا اور اس کے بعد آخری قومی مالیاتی ایوارڈ 2010 ء آیا تھا ۔
1972 ء میں جب طویل عرصے کے بعد ملک میں پارلیمانی جمہوریت بحال ہوئی تو اس وقت مشرقی پاکستان اپنے 147570 مربع کلو میٹر رقبے کے ساتھ بنگلہ دیش میں تبدیل ہو گیا تھا اور مغربی پاکستان اپنے 797095 مربع کلو میٹر رقبے کے ساتھ پاکستان بن گیا اور اس میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب تھا اور بلوچستان 347190 مربع کلو میٹر رقبے کے ساتھ رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ بن گیا لیکن آئین میں این ایف سی ایوارڈ میں وفاق اور صوبوں میں محاصل کی تقسیم کا تناسب تقریبا نصف نصف تھا اور صوبوں کے درمیان ان محاصل کی تقسیم آبادی کے تناسب پر تھی، یوں جب صوبے کے پہلے وزیر اعلیٰ سردار عطا اللہ مینگل کی حکومت برسر اقتدار آئی اور اس نے اپنا پہلا صوبائی بجٹ مالی سال 1972-73 دیا جس کا حجم 15 کروڑ 88 لاکھ اور خسارہ 8کروڑ 29 لاکھ تھا تو اسی وقت سے یہ سولات اٹھنے لگے کہ اگر این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں میں محاصل کی تقسیم کا تناسب صرف اور صرف آبادی کی بنیاد پر ہی رہا تو بلوچستان کی پسماندگی قیامت تک دور نہ ہوسکے گی۔
واضح رہے کہ 1973ء کا پارلیمانی آئین 1956 ء کے ایک ایوانی آئین کے مقابلے میں دو ایوانی آئین ہے اور اس میں قومی اسمبلی کے ساتھ سینٹ کو بھی قانون سازی میں شریک قرار دیا گیا ہے، مگر سینٹ کی جانب سے بجٹ کی منظوری لازمی نہیں اس زمانے میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا دونوں صوبوں میں نیپ اور جمعیت علما اسلام کی مخلوط صوبائی حکومتیں تھیں اور ان دونوں صوبوں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ چونکہ قومی اسمبلی کے مقابلے میں سینٹ میں چاروں صوبوں کی نمائندگی برابر ہوتی ہے اس لیے اسے زیادہ اختیارات دئیے جائیں، خصوصاً بجٹ کی منظوری اس سے ہو لیکن اس وقت این ایف سی ایوارڈ اور مشترکہ مفادات کی کونسل کی مشاورت آئین کے وہ آرٹیکلز تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں موثر انداز میں قابل عمل بھی تھے اور آئین کا نفاذ بھی نیا نیا تھا۔
اس لئے ان دنوں صوبوں کو یہ یقین تھا کہ مالیاتی اور اقتصادی معاملات میں ان صوبوں کو ان کے حقوق ملیں گے مگر بد قسمتی سے 1972 ء میں قائم ہونے والی بلو چستان کی پہلی صوبائی حکومت کو بھٹو نے تو ڑ دیا جس پر صوبہ خٰیبر پختونخوا میں نیپ اور جمعیت علما اسلام کی حکومت جو وزیر اعلیٰ مفتی محمودکی سربراہی میں قائم تھی اس نے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد بلوچستان میں حکومت کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا لیکن بھٹو نے صوبے میں اپنی مر ضی کی صوبائی حکومت تشکیل دیدی اور پھر اس حکومت کو اتنے ترقیاتی فنڈز ملتے رہے کہ صوبے میں کو ئی مالیاتی بحران رونما نہیں ہوا۔ ان کے دور میں بلوچستان میں روزگار اور پیداوار کی فراہمی کو مد نظر رکھتے ہوئے ترقیاتی منصوبے شروع کئے گئے جن میں کراچی کے نزدیک ضلع لسبیلہ میں حب، وندر اور اوتھل میں انڈسٹریل زون قائم کئے گئے اور یہاں بہت سے صنعتی یونٹ لگئے گئے اسی طر ح کوئٹہ میں سرکی روڈ پر بھی ایک اندسٹریل یونٹ قائم کیا گیا جس میں گھی کے کارخانے کے علاوہ روٹی پلانٹ ،دوسری صنعتیں لگائی گئیں ۔
ضلع لسبیلہ ہی میں کراچی سے نزدیک اس وقت ایشیا کی سب بڑی شپ بریکنگ انڈسٹری لگا ئی گئی، اسی طرح ایران کی مالی معاونت سے کوئٹہ بلیلی اور اوتھل دو ٹیکسٹائل فیکٹریاں لگائی گئیں ۔ بلوچستان کی پہلی یونیورسٹی نے باقاعدگی سے کام شروع کردیا ۔ بولان میڈیکل کالج قائم کیا گیا اور چین کے تعاون سے پاک ایران سرحد پر تفتان کے قریب سندک کے مقام پر تانبے ، چاندی اور سونے کے ذخائردریافت ہوئے اور کان کنی شروع ہوئی۔
بلوچستان کے صوبہ بننے کی وجہ سے یہاں تمام صوبائی محکمے اور ان کے ہیڈ آفس قائم ہوئے صوبائی سول سیکرٹریٹ وجود میں آیا، اس وقت بلوچستان کی کل آبادی 22 لاکھ تھی اور پہلی صوبائی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 23 تھی، یوں صو بہ بننے پر واقعی صوبے میں روز گار اور پیداور میں اضافہ ہوا تھا اور بے روزگاری نہ ہونے کے برابر تھی لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس پانچ، چھ سالہ دور حکومت کے بعد 90% کارخانے بند ہوگئے اور ترقی کے نام پر ناقص منصوبے بنتے رہے۔
2000 ء تا 2005 ء اگرچہ گوادر منصوبہ شروع کیا گیا لیکن اسی دوران بڑے المیے بھی رونما ہوئے۔ اس دور میں بس یہ ہوا کہ ایران کے تعاون سے جو ٹیکسٹائل ملیں کوئٹہ اور اوتھل میں لگائی گئیں تھیں ان کے علاوہ کوئٹہ کے سردار بہادر خان ریلوے ٹی بی سینٹوریم کی عمارتوں کو تین یونیورسٹیوں میں تبدیل کر دیا گیا ، میرانی ڈیم اور سپکزئی ڈیم اور کیرتھر کینال کے منصوبے شروع کئے گئے، اسی دور میں بوستان سے ژوب جانے والی نیروگیج ریلوے لائن جو 1985ء میں بند کردی گئی تھی، اس296 کلو میٹر لمبی ریلوئے لائن کو براڈ گیج ریلوے لائن بنانے کے لیے پی سی ون بھی تیار کرلیا گیا جس پر لاگت کا تخمینہ ایک کروڑ روپے فی کلو میٹر تھا، یوں کل لاگت 2 ارب96 کروڑ روپے تھی مگر اس کے لئے وفاق کی جانب سے فنڈز جاری نہیں کئے گئے ۔
جمہوری جدوجہد کے بعد پورے ملک کی طرح بلوچستان میں بھی 2008 کے عام انتخابات کے بعد صوبا ئی حکومت قائم ہو ئی، اس دور تک وفاق اور صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم کے اعتبار سے 2006 ء کا صدارتی حکمنامہ ’’ڈسٹری بیوشن آڈر‘‘ این ایف سی ایوارڈ کی طرح سے آچکا تھا۔ اس کے بعد 2010 ء میں آئین کی اٹھارویں ترمیم ہوئی جو آئینی لحاظ سے ایک بہت بڑی پیش رفت تھی۔ واضح رہے کہ 1973ء کے آئین میں زیادہ صوبائی خود مختاری کے لیے دس سال کی مدت طے کی گئی تھی یعنی جو اختیارات صوبوں کو 2010 ء میں دئیے گئے وہ آئینی وعدے کے مطابق 1983ء میں مل جانے چاہئیں تھے مگر اس وقت مارشل لاء حکومت کی وجہ سے آئین معطل رہا۔
یوں یہ ادوار ایسے تھے جن میںترقیاتی منصوبہ بندی کی گئی مگر اس دوران پہلے قدرتی آفات نے بلو چستان کو دبوچا، 1997 ء سے 2004 ء سات سالہ شدید اور طویل ترین خشک سالی رہی اور اس کے بعد غیر قدرتی آفات کی صورت رہی یعنی امن و امان کے اعتبار سے بحران بڑھتا گیا۔ 2008 ء کے انتخا بات کے بعد جمہوری اور آئینی طور پر کوششیں شروع ہوئیں۔ یوں2010 ء میں آئین کی اٹھارویں ترمیم کے بعد ہی ساتواں قومی مالیاتی ایوارڈ آیا جس میں صرف آبادی کی بنیاد پر قابل تقسیم محاصل کے تناسب کی جگہ نیا فارمولہ یہ طے پایا کہ آبادی کی بنیاد پر تناسب کی شرح 82.0%، غربت و پسماندگی 10.3%، ٹیکس وصولیاں 5.0% اور رقبہ اور گنجا نیت کی نیاد پر شرح تناسب 2.7% ہوا۔ واضح رہے کہ 2006 ء کے ڈسٹری بیوشن آڈر کے تحت پہلے ہی، مرحلہ وار وفاق کا حصہ کم ہو کر 46.5% اور صوبوں کا حصہ 57,5% کے تناسب سے طے پا گیا تھا۔
یوں 2010 ء سے 2013-14 ء کے مالی سالوں میں بلوچستان کی صوبائی حکومت مالی اعتبار سے قدرے بہتر پوزیشن میں رہی کہ اس تک صوبائی خود مختاری کے مر احل جاری تھے اور ملازمین اور محکموں کا پورا بوجھ مالی لحاظ سے صوبوں پر نہیں پڑا تھا لیکن اس کے بعد صوبے کو نئے مسائل کا سامنا کر نا پڑا کہ اب تعلیم، صحت، امن و امان، زراعت، صنعت،غرض تمام شعبوں کی تمام مالی اور انتظامی ذمہ داریاں اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں پر ہیں، بلوچستان کی بطور صوبہ تشکیل کے بعد 1972ء سے آج تک تما م صوبائی حکومتیں مخلوط صوبائی حکومتیں رہی ہیں اور خصو صاً 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد جب اراکین پارلیمنٹ کو صوابدیدی فنڈز دئیے جانے لگے تو صوبائی بجٹ سازی اراکین کے اپنے حلقوں کی بنیاد پر، ووٹ بنک کی بنیادوں پر فنڈز کی تقسیم کے حوالے سے تقریبا ہر صوبائی بجٹ پر مسائل پید اہونے لگے اور بلوچستان میں تعمیر وترقی کے مربوط عمل کو جن وجوہات کی بنیاد پر نقصان پہنچتا رہا ہے ان میں ایک بڑی وجہ یہ ہے۔
2013 ء کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں صوبائی حکومت کی تشکیل کے فوراً بعد ہی مالی سال 2013 -14 ء کا بجٹ جب پیش کیا جانا تھا تو بہت اُ جلت میں تین رکنی کابینہ تشکیل دے کر صوبائی بجٹ منظور کیا گیا تھا اور اس مالی سال یعنی 2013-14 کے بجٹ کا حجم 1 کھرب 98 ارب روپے تھا اور مالی خسارہ 8 ارب روپے تھا اس بجٹ سے قبل مری معاہدے میں یہ بھی طے پایا تھا کہ پہلے ڈھائی سال کی مدت کے لیے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور بعد کی ڈھائی سالہ مدت کے لیے وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری ہوںگے، یوں ان پانچ برسوں میں پہلے تین صوبائی بجٹ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی مخلوط صوبائی حکومت نے پیش کئے اور پھر دو صوبائی بجٹ نواب ثنا اللہ زہری کی وزرات ا علیٰ کے دور میں پیش کئے گئے اور اب تقریبا پانچ ماہ سے میر عبدالقدوس بزنجو صوبائی وزیر اعلیٰ ہیں۔
دوسرے بجٹ مالی سال 2014-15 ء کا حجم 2 کھرب 15 ارب روپے تھا جس میں خسارہ 15ارب 66 کروڑ تھا، تیسرے بجٹ مالی سال 2015-16 کا حجم 2 کھرب 43 ارب روپے تھا اور خسارہ 26 ارب روپے تھا، چوتھے بجٹ مالی سال 2016-17 ء کے مالی سال کا کل حجم 2 کھر ب 82 ارب روپے اورخسارہ 36 ارب 48 کروڑ روپے تھا۔ مالی سال 2017-18 ء کا پانچواں صوبائی بجٹ 3 کھرب 28 ارب روپے کا تھا جس کا خسارہ 52 ارب روپے تھا اور یہ بجٹ جو آئندہ مالی سال یعنی 2018-19 کا ہے جس کا آغاز یکم جولائی 2018 کو ہوگا اور اختتام 30 جون 2019 ء کو ہوگا۔ یہ وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کی صوبائی حکومت نے پیش کیا ہے۔
جس کا حجم 3 کھرب 52 ارب روپے اور خسارہ 61 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ یہ صوبائی بجٹ پروگرام کے مطابق 11 مئی 2018 ء کو صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جا نا تھا ہم سب اسمبلی پہنچے مگر عین وقت پر بجٹ اجلاس ملتوی کر دیا گیا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ بعض تکنیکی غلطیوں کے باعث یہ تاخیر کی جا رہی ہے جب کہ حزب اختلاف نے یہ الزامات عائد کئے کہ وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کی حکومت کے وزرا اور اراکین میں فنڈز کی تقسیم پر اختلافات ہیں، بہر حال یہ صوبائی بجٹ پھر 14 مئی 2018 ء کو پیش کیا گیا۔ یہ بجٹ صوبائی مشیر خزانہ برائے وزیر اعلیٰ محترمہ ڈاکڑ رقیہ سعید ہاشمی نے پیش کیا جس کی اجازت اسپیکر صوبائی اسمبلی محترمہ راحلیہ حمید درانی نے دی۔
اس بجٹ میں وفاقی بجٹ کی طرح سرکاری مالازمین کی تنخواہوں اور پینشنوں میں 10% اضافے کا اعلان کیا گیا اور مالی سال 2018-19 ء کے دوران 8000 نئی ملازمتیں فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس موقع پر اس بات کی خوشی ہوئی کہ متحرمہ رقیہ سعید ہا شمی نے یہ بتا یا کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے چیرمین،، متھ کیلاش ناتھ کوہلی،، جو نہایت اعلیٰ شہرت کے حامل ہیں ان کے عہدے کی مدت میں حکومت نے توسیع کردی ہے تاکہ آئندہ بھی ملازمتوں کے حصول میں میرٹ اور شفافیت کو برقرا ر رکھا جاسکے ۔ صوبائی حکومت نے تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے اور اس مد میں سب سے زیادہ رقوم مختص کی ہیں جو 43.9 ارب روپے ہیں۔ بلو چستان میں تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے لیے ہائی اسکولوں میں سے بہت سے ہائی اسکولوں کو ہائر سکینڈری اسکولوں کا درجہ دیا جا رہا ہے جبکہ تیس کالجوں میںاب چار سالہ بی ایس پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ اندرون بلوچستان کالجوں میں لیکچراز اور پروفیسروں کے لیے بیچلر لاجز 30 کالجوں میں تعمیر کیئے جائیں گے۔
100 سے زیادہ نئے اسکول تعمیر ہونگے اور اتنی ہی تعداد میں پرائمری اسکولوں کو مڈل اور مڈ ل کو ہائی کا درجہ دیا جائے گا ، بجٹ میں امن وامان کے لیے 34 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اور یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں کے لیے 12 ارب روپے کا اسلحہ خریدا جائے گا ، سی پیک منصوبوں کے لیے اسپیشل پروٹیکشن یونٹ پروگرام کے تحت ہزاروں نوجوانوں کو لیویز اور پولیس میں بھرتی کیا جائے گا ،کوئٹہ میں پینے کے پانی کی قلت کے لیے مانگی ڈیم کے علاوہ ایک بار پھر اس بجٹ میں بھی40 ارب روپے کی لاگت سے شروع کئے جانے والے اس منصوبے کی بات کی گئی ہے جس کے تحت کوئٹہ سے 230 کلو میٹر دور پٹ فیڈر نہر سے پانی کو ئٹہ شہر پہنچا یا جائے گا ، نوحصار ،کچلاک،قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ ،موسیٰ خیل اور قلات میں چھ ڈیمز کی تعمیر اور500 واٹر سپلائی اسکیموں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ، بجٹ میں محکمہ آبپاشی کے لیے 2.8 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ،گوادر میں پانی کی فراہمی کا وارٹ کے مقا م پرپلانٹ کی بحالی کے جاری کام کے لیے 8.3 ارب روپے بھی مختص کئے گئے ہیں۔
جرنلسٹ ویلفر فنڈکو 200 ملین روپے کرنے کے علاوہ کوئٹہ پریس کلب اور ہاکرز کے لیے بھی فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ ا س صوبائی بجٹ میں ثقافت اور سیاحت کے شعبے میں صوبائی سیکرٹری ظفر بلیدی کی کوششیں کامیاب رہیں جنہوں نے بلوچستان میں اس صوبے کی ثقافت اور سیاحت پر توجہ مبذول کراتے ہوئے غیر ترقیاتی مد میں 19.8 کروڑ روپے مختص کر وائے ہیں، اس وقت صوبے میں سیاحت کے فروغ کے 60 سے زائد تفریحی مقا مات کی نشاندہی کی گئی ہے، یوں مجموعی طور پر بلوچستان کا یہ صوبائی بجٹ مالی سال برائے 2018-19 ء ایک متوازن اور قدرے کم خسارے کا بجٹ ہے اور اس اعتبار سے اس صوبائی بجٹ کو عوام دوست بجٹ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس میں تعلیم، صحت، سماجی بہبود، ترقی نسواں کے لیے بھی گذشتہ مالی سالی کے مقابلے میں زیادہ رقوم ر کھی گئی ہیں۔
یہ بجٹ اس اعتبار سے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں حالیہ حکومت کا کو ئی زیادہ مفاد نظر نہیں آتا کیونکہ اس بجٹ میں سے کچھ حصے کو اب عام انتخابات سے قبل قائم ہونے والی نگران حکومت استعمال کرے گی اور باقی رقوم آئند ہ منتخب ہوکر آنے والی صوبائی حکومت استعمال کر سکے گی، وزیر اعلیٰ کی مشیر خزانہ محتر مہ رقیہ سعید ہاشمی نے اپنی بجٹ تقریرمیں ریکو ڈیک منصوبے کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ اس اعتبار سے صوبائی حکومت انٹر نیشنل آ بریٹری میں بھی جائے گی اور اپنے وسائل کے دفاع کی کوشش کرے گی۔ یوں یہ وہ کوششیں ہیں جن کا آغاز ڈاکٹر عبدالمالک نے کیا تھا، اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی حکومت اس سلسلے میں بلوچستان کی کتنی مدد کرتی ہے ۔
بلوچستان کے بارے میں یہ بھی پھر ایک مرتبہ کہا گیا کہ یہ صوبہ رقبے کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کا رقبہ ملک کے کل رقبے کا تقریبا 44% ہے اور اس صوبے کے پاس ملک کے کل ایک ہزار کلو میٹر ساحل میں 775 کلو میٹر طویل ساحل ہے۔ اس بار وفاقی سطح پر ملک کا 70 واں وفاقی بجٹ مالی سال 2018-19 ء پیش کیا گیا اور صوبائی سطح پر بلو چستان کا 38 واں صوبائی بجٹ تھا ، مگر بد قسمتی سے ملکی سطح پر بھی بجٹ خسارہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ تھا اور صوبائی سطح پر بھی خسارہ بڑھا ہے۔ اس بار ملک میں بجٹ کی آمد سے قبل روپے کی قدر میں بھی ماضی قریب کے مقابلے میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ہے اور امریکی ڈالر کی قیمت 119 روپے سے زیادہ ہو چکی ہے۔ یوں صوبائی سطح پر بھی قرضوں کا حجم اور بوجھ بڑھ گیا ہے۔
یہ تلخ حقیقت سامنے ہے کہ نہ تو تنخواہوں میں اضافے سے سر کاری ملازمین کی قوت خرید میں کوئی قابل ذکر اضافہ ہو گا اور نہ ہی غر بت کی موجودہ شرح تناسب اور شدت میں کوئی زیادہ کمی نظر آئے گی۔ یہ چونکہ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکو متوں کی جانب سے آخری بجٹ ہے اس لیے اب الیکشن میں جن عوامی مسائل کے حل کرنے کی بات ہوگی اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کو اپنا پروگرام دینا ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ 2008 ء سے 2018 ء کے دس برسوں میں سیاسی جماعتوں نے صوبائی خومختاری اور حقوق کے لحاظ سے اہم آئینی اور جمہوری کامیایاں حاصل کیں مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ صوبائی سطح پر 1972-73 ء کی پہلی عوامی منتخب صوبائی حکومت کے قیام سے اب تک رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کو بجٹ سازی میں مالیاتی مسائل کا سامنا رہتا ہے کبھی اسے وفاق کی جانب سے خصوصی پیکج دیکر بہلا یا جاتا ہے اور کبھی میگا پروجیکٹ کے طویل مدتی خواب دکھا ئے جاتے ہیں ۔ اس بجٹ میں صوبائی مشیر خزانہ نے یہ بھی بتا یا کہ صوبے کی آبادی میں نوجوانوں کی تعداد 15 لاکھ ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا پندرہ لاکھ آبادی کو اس وسیع رقبے اور وسائل سے مالا مال صوبے میں روز گار فراہم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ان انتخا بات میں ماضی کی طرح بڑا سوال ہو گا۔ اس لیے ابھی سے سیاسی جماعتوں کو حقائق کی بنیادوں پر مستقبل کے لیے لائحہ عمل اور انتخابی منشور دینا چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کی بیروزگاری اور غر بت کی شرح تو زیادہ ہے لیکن کم آ بادی کی وجہ سے اس کا حجم یا تعداد بہت کم ہے اور ایک بہتر اقتصا دی منصوبہ بندی سے ان مسائل کو مستقبل قریب میں آسانی سے چار پانچ سال کی مدت میں حل کیا جا سکتا ہے۔
The post بلوچستان اقتصادی اور مالیاتی مسائل کا شکار کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
راہل گاندھی اب ان حکومتی کمیٹیوں میں بیٹھیں گے جو اہم حکومتی فیصلے اور تقرریاں کرتی ہیں اور وہ انڈین پارلیمان میں طاقتور سمجھے جانے والے وزی...
جملہ حقوق ©
WAKEUPCALL WITH ZIAMUGHAL
Anag Amor Theme by FOCUS MEDIA | Bloggerized by ZIAMUGHAL