مفتی منیب الرحمان
استقبال کے معنی ہیںکسی آنے والے کو خوش آمدید کہنا، اگر وہ محبوب ہے تو اس کیلئے دیدہ ودل فرش راہ کرنا۔ عربی زبان میں اس کیلئے ’’اَھلاًوَّ سَھلاً‘‘ اور ’’مَرحَبًا بِکُم‘‘ کے کلمات استعمال ہوتے ہیں۔ ’’رَحب‘‘ کے معنی کشادگی کے ہیں اور کسی کو ’’مَرحَبًا بِکُمْ‘‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کیلئے ہمارے دل میں بڑی کشادگی ہے کوئی انقباض نہیں ہے۔ قمری سال کے مہینوں میں ’’رمضان‘‘ ہی ایسا عظیم المرتبت مہینہ ہے جس کی شان قرآنِ کریم میں بھی بیان کی گئی ہے اور اس کی بابت رسول اللہﷺ کا ایک خصوصی استقبالی خطبہ بھی منقول ہے۔حضرت سلمان فارسی ؓبیان کرتے ہیں(ایک بار) رسول اللہﷺ نے شعبان کے آخری دن ہمیں ایک (خصوصی) خطبہ ارشاد فرمایا: آپﷺ نے فرمایا: ’’اے لوگو! ایک عظیم مہینہ تم پر سایہ فگن ہونے والا ہے،(یہ) مبارک مہینہ ہے، اس میں ایک رات (ایسی ہے جو) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ میں روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں قیام کو نفلی عبادت قرار دیا ہے۔ جو(خوش نصیب) اس مہینے میں اللہ کی رضا کیلئے کوئی نفلی عبادت انجام دے گا،تواُسے دوسرے مہینوں کے (اسی نوع کے) فرض کے برابر اجر ملے گا اور جو اس مہینے میں کوئی فرض عبادت ادا کریگا، تو اسے دوسرے مہینوں کے (اسی نوع کے) 70فرائض کے برابر اجر ملے گا۔‘‘
یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے، یہ دوسروں سے ہمدردی اور ان کے دکھ درد کے ازالے کامہینہ ہے، یہ ایسا (مبارک)مہینہ ہے کہ اس میں مومن کے رزق میں اضافہ کیا جاتاہے۔ جو شخص اس مہینے میں کسی روزے دار کا روزہ افطار کرائے گا، تویہ اس کیلئے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ بنے گا اور اس کے سبب اس کی گردن نار جہنّم سے آزاد ہوگی اور روزے دار کے اجر میں کسی کمی کے بغیر اُسے اُس کے برابر اجر ملے گا۔حضرت سلمانؓ بیان کرتے ہیں ہم نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ! ہم میں سے ہر کوئی اتنی توفیق نہیں رکھتا کہ روزے دار کا روزہ افطار کرائے، (تو کیا ایسے لوگ افطار کے اجر سے محروم رہیں گے؟)آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ اجر اُسے بھی ملے گا، جو دودھ کے ایک گھونٹ سے یا ایک کھجور سے یا پانی پلا کر ہی کسی روزے دارکا روزہ افطار کرائے۔ اور جو شخص کسی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھلائے گا، تواللہ تعالیٰ اسے (قیامت کے دن) میرے حوض (کوثر) سے ایسا جام پلائے گا کہ (پھر) وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہیں ہوگا۔‘‘
یہ ایسا(مقدّس) مہینہ ہے کہ اس کا پہلاعشرہ نزولِ رحمت کاسبب ہے اور اس کا درمیانی عشرہ مغفرت کیلئے ہے اور اس کاآخری عشرہ نارِجہنم سے نجات کیلئے ہے اور جو شخص اس مہینے میں اپنے ماتحت لوگوں(یعنی خدام اور ملازمین) کے کام میں تخفیف کریگا، تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دیگا اور اسے نارِجہنم سے رہائی عطا فرمادیگا۔(شُعَبُ الایمان لِلبَیہقی :3608)
روزہ ورمضان کے فضائل کے بارے میں رسول اللہﷺ کا ایک جامع اور ایمان افروز خطبہ ہے۔ باہر کی دنیاکے بارے میں تو ہمیں زیادہ معلومات نہیں لیکن ہمارے ہاں ماشاء اللہ! ’’استقبالِ رمضان‘‘ کی محفلیں ہوتی ہیں سو استقبالِ رمضان دراصل ایک وجدانی، روحانی اور باطنی کیفیت کا نام ہے۔پس لازم ہے کہ ہم اپنے آپ کو نظریاتی اور عملی طور پر رمضان المبارک کی اِن بے حساب نعمتوں اور اجروثواب کو اپنے دامن میں سمیٹنے کیلئے آمادہ کریں، بلکہ دوسروں کو بھی راغب کریں تاکہ ایک اجتماعی کیفیت پیداہو اور روزہ ورمضان المبارک کی بدنی ومالی عبادات ہمیں بار معلوم نہ ہوں بلکہ اُن سے روحانی راحت نصیب ہو۔یہ داخلی ترغیب وآمادگی جذبۂ اخلاص ورضا کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے۔‘‘ (الاحزاب:2)‘‘۔ یہاں قلب سے مراد گوشت کا وہ لوتھڑا نہیں ہے، جو انسانی جسم کی رگوں میں جگر سے حاصل ہونیوالا پاک و صاف خون پمپ کرتا ہے کیونکہ ایسے شواہد ملتے رہتے ہیں کہ تخلیق انسانی کی سنّتِ جاریہ کے برعکس خال خال بعض بچوں کے سینے میں پیدائشی طور پر دو دل بھی ہوتے ہیں، بلکہ اس سے مراد قلبِ انسانی کے اندر خیر وشر کی ترغیبات و میلانات کو اپنے اندر جذب کرنے کی وہ استعداد ہے جو قدرت نے ہر انسان کے دل و دماغ میں ودیعت کی ہے اور خیر وشر کی یہ کشمکش جس طرح انسان کے وجود سے باہر کی دنیا میں ہمیشہ سے موجود چلی آرہی ہے، اسی طرح یہ کشمکش انسانی وجود کے اندر بھی برپا ہے ، علامہ اقبال نے کہا ہے:
ستیزہ کاررہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
باطل کی آندھیاں چراغِ مصطفوی کو گل کرنا چاہتی ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’وہ اپنے مونہوں سے (پھونکیں مارکر)اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے، خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘(الصف:7) دوسرے مقام پر فرمایا:’’وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نورکو مکمل کر کے رہے گا، خواہ یہ کافروں کو ناگوار ہو۔‘‘(توبہ:32) پس اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی دل میں کفر اور ایمان، ہدایت اور گمراہی، اللہ کی محبت اور اس سے دوری ، صدقہ وخیرات کرکے غریبوں سے ہمدردی کرنااور سنگ دلانہ ذخیرہ اندوزی اور غیرفطری منافع اور استحصال ،الغرض دو متضاد صفات جمع نہیں ہو سکتیں۔ بدقسمتی سے ہم نفسِ لوّامہ (ضمیر Conscience) اور نفسِ امّارہ کو بیک وقت خوش رکھنا چاہتے ہیں اور اسی کانام دو عملی اور منافقت ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ
باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صَیّاد بھی
ہم ہر چیز کا دو نمبر ایڈیشن ایجاد کرنے کے ماہر ہیں۔ غریبوں اور ناداروں کیلئے افطار کا اہتمام کرنے کی بجائے ہم نے امراء کی عالی شان افطار پارٹیوں کے سماجی کلچر کوپروان چڑھایا اور اسے بااثر حلقوں میں سماجی روابط بڑھانے کا ذریعہ بنایاہے۔ ایک طرف مصنوعی قلت پیدا کر کے معاشرے کے نادار طبقات پر رمضانِ میں غیرمعمولی مہنگائی کا عذاب مسلط کرنا اور دوسری طرف غریب پروری کے اظہار کیلئے چوراہوں اور فٹ پاتھوں پر دستر خوان سجانا۔اور اب تو حال یہ ہے کہ قتل ِ ناحق اورفساد بھی مذہبی عنوان سے کیا جارہا ہے ۔بقول شاعر
کسے خبر تھی کہ ہاتھ میں لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں بھر میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
اسی طرح ہمارے ہاں ایک نیا کلچر متعارف ہوا ہے کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کے خطبے میں ’’اَلوَداع اَلوَداع ماہِ رمضان الوَداع‘‘ پڑھا جاتا ہے۔ گذشتہ سال ایک خطیب نے اس کی بابت دریافت کیا، میں نے انہیں بتایا کہ شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے نہ ہی قرونِ اولیٰ سے یہ شِعار ثابت ہے۔ انہوں نے کہا : ہماری انتظامیہ اور مقتدی کہتے ہیں کہ یہ تو آپ کو خطبے میں پڑھنا ہوگا۔ میں نے کہا: حضور! امام تو دینی رہنما ہوتا ہے غلامی کو آپ نے کب سے شِعار بنالیا ہے۔ ایک کمیٹی کی غلامی کا یہ عالم ہے تو جہاں مذہب غلامی میں آجائے ، وہاں مذہبی آزادی کا تصور کیسے ممکن ہے۔ مزید یہ کہ نعت خواں حضرات کو بھی ایک نیا عنوان ہاتھ آگیا ہے کہ:’’آج رمضان کی الوداع ہے‘‘ کے عنوان سے رقت آمیز لہجے میں اشعار پڑھے جاتے ہیں اور لوگ چار آنسو بہا کر رمضان کے حقوق سے عہدہ برا ہو جاتے ہیں۔اسی طرح سارے لوگوں کی جانب سے ’’توبہ‘‘ کا فریضہ بھی نعت خواں حضرات انجام دیدیتے ہیں ، یہ مذہبی عقیدت اور جذباتیت کا کاروباری استعمال ہے۔
الغرض استقبالِ رمضان تو حدیث سے ثابت ہے اور اس کی حکمت بھی سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان المبارک کی برکات کو اپنے دامنِ ایمان وعمل میں سمیٹنے کا ایک مزاج اور ماحول پیدا ہو کیونکہ جب دلوں کی زمیں زر خیز ہوگی، قبولِ حق کیلئے اس میں نرمی اور لطافت پیدا ہوگی تو ایمان دل میں جڑ پکڑے گا اعمالِ خیر کے برگ وبار پیدا ہوں گے اور شجرِ ایمان ثمر آور اور بار آور ہوگا۔پھر جب عیدالفطر کے چاند کا اعلان ہوتا ہے ،تو سارے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں اور یک دم میلا برپا ہوتا ہے، لگتا ہی نہیں کہ ابھی ابھی رمضان کا پرنور مہینہ گزرا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضانِ مبارک میں جو کیفیت طاری تھی ،وہ عارضی میک اپ کی طرح تھی جس کے اترنے میں کوئی دیر نہیں لگی۔ حالانکہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے : ’’رمضان کی آخری شب میری امت کی بخشش کا فیصلہ ہوگا۔‘‘کسی نے عرض کی:یارسول اللہﷺ! کیا آپﷺ کی مراد شبِ قدر ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا ’’نہیں ، لیکن جب کوئی محنت کرنے والا محنت کرتا ہے اور اپنی ڈیوٹی کو اچھے طریقے سے انجام دیتا ہے ،تو وہ پورے اجر کا حق دار ہوتا ہے۔‘‘(مسند احمد :292 /2)اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ بندۂ مومن کو شبِ عید اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگنے اور بخشش طلب کرنے میں گزارنی چاہیے ۔
The post رمضان المبارک صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت appeared first on Global Current News.
from Global Current News https://ift.tt/2x8UFRK
via IFTTT
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔