![](https://static01.nyt.com/images/2019/10/16/opinion/16lithgow/16lithgow-mediumThreeByTwo440.jpg)
By BY JOHN LITHGOW from NYT Opinion https://ift.tt/2Ml0ccp
.FOCUS WORLD NEWS MEDIA GROUP EUROPE copy right(int/sec 23,2012), BTR-2018/VR.274058.IT-
دبئی(جی سی این رپورٹ) متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والے ڈیزائنر نے دنیا کے مہنگے ترین جوتے تیار کرلیے۔تفصیلات کے مطابق اٹالین نژاد امارتی شہری نے دو روز قبل خالص سونے اور ہیروں اور قیمتی پتھروں سے تیار ہونے والے جوتے نمائش کے لیے پیش کیے۔برطانوی میگزین کی رپورٹ کے مطابق انتووائتری نامی ڈیزائنر نے جوتے میں نایاب شہابی پتھر بھی شامل کیا، خواتین کے ان جوتوں کی قیمت ایک کروڑ 90 لاکھ ڈالر (تقریبا تین ارب روپے) مقرر کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق سینڈل کی ہیل کو خالص سونے سے تیار کیا گیا جبکہ اس کا ڈیزائن دبئی کی مشہور عمارات ’برج الخلیفہ‘ سے ملتا ہے اور ان میں تیس قیراط ہیرے جڑے ہیں۔دبئی میں ہونے والی نمائش میں جوتوں کو پیش کیا گیا جہاں شائقین اس منفرد جوتے کو دیکھنے جمع ہوئے اور جب انہیں قیمت معلوم ہوئی تو ورطہ حیرت میں مبتلا بھی ہوئے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل مہنگے ترین جوتے بنانے کا اعزا برطانوی ڈیزائنر کے پاس تھا۔ اُن کے جوتوں میں بھی سونے اور ہیروں کا استعمال کیا گیا تھا جن کی قیمت ڈیڑھ کروڑ ڈالر تھی۔
کارڈف (جی سی این رپورٹ)پاکستانی خاتون ویٹ لفٹر رابعہ شہزاد نے برطانیہ میں ایک اور میڈل جیت لیا۔ 21 سالہ رابعہ شہزاد نے ایک روز قبل کارڈف میں ویلش اوپن چیمپئن شپ میں سلور میڈل جیتا تھا، اتوار کو بھی انہوں نے ہمپشائر ویٹ لفٹنگ چیمپئن شپ میں حصہ لیا اور اس مقابلے میں بھی گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔ ہمپشائر ویٹ لفٹنگ چمپئن شپ میں ویٹ لفٹرز کو مختلف ویٹ کیٹیگریز میں رکھنے کی بجائے مختلف ویٹس کی لفٹرز کو ایک گروپ میں رکھ کر سینکلیئر پوائنٹس کی بنیاد پر مقابلہ کروایا گیا۔
واضح رہے کہ سینکلیئر پوائنٹس میں انفرادی وزن اور اٹھائے جانے والے وزن کی بنیاد پر پوائنٹس ملتے ہیں۔اس مقابلے میں رابعہ شہزاد نے 144 عشاریہ 48 پوائنٹس حاصل کیے، دوسرے نمبر کی ویٹ لفٹر نے 144 پوائنٹس بنائے تھے۔ 49 کلوگرام کیٹیگری کی رابعہ شہزاد نے اسنیچ میں 40 کلوگرام اور کلین اینڈ جرک میں 52 کلوگرام وزن اٹھایا تھا۔ رابعہ شہزاد کا کہنا ہے کہ یہ ایک مختلف نوعیت کا تجربہ تھا جس میں کامیابی پر وہ بے حد خوش ہیں۔واضح رہے کہ رابعہ شہزاد نے گزشتہ سال بھی آسٹریلیا میں ہونے والی رالف کیش مین اوپن ویٹ لفٹنگ چیمپیئن شپ کی 55 کلوگرام کیٹیگری میں گولڈ میڈل جیت کر پاکستان کا نام روشن تھا۔اس سے قبل وہ دبئی میں ہونے والی ایشین بینچ پریس چیمپیئن شپ میں بھی سلور میڈل جیت چکی ہیں۔
اسلام آباد(جی سی این رپورٹ)چائے پاکستانی شہریوں کا پسندیدہ مشروب قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ بیشتر افراد تو اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔چائے کو صحت کے لیے بھی فائدہ مند سمجھا جاتا ہے مگر وہ بھی اس صورت میں جب اعتدال میں رہ کر پیا جائے، کیونکہ زیادہ پینے سے نقصان بھی ہوسکتا ہے۔مگر صحت کے فوائد یا مقدار کو چھوڑیں، یہ بتائیں کہ اچھی چائے بنانے کا طریقہ جانتے ہیں؟دی گارڈین میں اس حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ درحقیقت ایک کپ اچھی چائے کی کنجی معیاری اجزا کا استعمال ہے اور اس گرم مشروب کو بنانے کے لیے ٹی بیگز کی جگہ پتی استعمال کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے جو اس مشروب کو زیادہ ذائقہ دار بناتی ہے۔اگرچپ ٹی بیگ اگر چائے کو فوری بنانے میں مدد دیتے ہیں مگر ان کا ذائقہ بھی اکثر بے کیف ہوتا ہے۔جہاں تک پانی کی بات ہے تو فلٹر پانی کو ترجیح دیں کیونکہ عام پانی میں منرلز کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے تو یہی وجہ ہے کہ اکثر آپ کو چائے کی سطح پر آئلی جھاگ سا نظر آتا ہوگا۔سیاہ چائے کے لیے پتی ڈال کر پانی کو اچھی طرح ابالیں کہ وہ جوش کھانے لگے ، جبکہ چائے کے کپ میں منتقل کرنے سے پہلے کپوں کو بھی کچھ گرم پانی سے دھو کر گرم کرلیں۔سبز چائے کے لیے پانی کو کچھ ٹھنڈا رکھے یعنی 70 سینٹی سے 80 سینٹی گریڈ تک۔چائے میں دودھ کتنا ڈالا جائے وہ تو ہر ایک کی اپنی پسند کے مطابق ہوسکتا ہے، مگر جب دودھ والی چائے پینا پسند کریں تو اسے مشروب میں اسی وقت شامل کرنا چاہیے جب چائے تیار ہوجائے۔آسان الفاظ میں دودھ چائے میں سب سے آخر میں شامل کیا جانا چاہیے۔چینی ہر ایک کی اپنی پسند کے مطابق شامل کی جاسکتی ہے مگر ماہرین کی رائے میں دودھ پتی میں ہی چینی کو شامل کرنا چاہیے، اس کے علاوہ دیگر اقسام کو بغیر چینی کے ہی پینا چاہیے۔مگر جیسا لکھا جاچکا ہے کہ یہ کوئی حتمی رائے نہیں اور ہر ایک کو اپنی پسند کے مطابق چینی یا دودھ ڈالنا چاہیے کیونکہ اس گرم مشروب کو لطف اندوز ہونے کے لیے پیا جاتا ہے اور اس کے لیے اپنی پسند کا خیال بھی رکھا جانا چاہیے۔
اسلام آباد(جی سی این رپورٹ)آج کل لوگ اپنا زیادہ تر وقت اسمارٹ فونز یا موبائل فونز کی اسکرین پر نظریں جما کر گزارنے کے عادی ہوچکے ہیں اور اس سے جڑے طبی خطرات کو لوگ نظرانداز کردیتے ہیں۔مگر ایسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ناقص جسمانی آسن یا انداز متعدد طبی مسائل جیسے کمر، کہنیوں اور گردن میں دائمی درد، دوران خون کی گردش کے مسائل، سینے میں جلن اور نظام ہاضمہ کے امراض کا باعث بن سکتا ہے۔یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔اولینڈو ہیلتھ سسٹم کی تحقیق میں بتایا گیا کہ امریکا میں بالغ افراد اوسطاً ساڑھے 3 گھنٹے سے زائد وقت روزانہ اسمارٹ فونز استعمال کرتے ہوئے گزارتے ہیں، یعنی وہ طویل وقت تک اپنی گردن نیچے جھکائے رہتے ہیں یا کمر جھکی رہتی ہے۔اس حوالے سے محققین نے سروے میں رضاکاروں سے اسمارٹ فونز کے استعمال اور آنکھوں پر دباؤ، کلائیوں کی تکلیف اور دیگر ممکنہ طبی خطرات کے حوالے سے تشویش کے بارے میں پوچھا گیا تو صرف 47 فیصد نے ناقص آسن پر تشویش کا اظہار کیا۔محققین کا کہنا تھا کہ صرف فون پر اسکرولنگ کرتے نہیں بلکہ ہر اس وقت جیسے کتاب پڑھتے ہوئے، کسی میز پر کام کرتے ہوئے یا صوفے پر ٹی وی دیکھتے ہوئے، جب آپ کا جسمانی وضع ٹھیک نہیں ہوتی، نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ لوگوں کو یہ احساس ہی نہیں وہ اپنے جسم پر اس طرح کتنا دباؤ ڈال رہے ہیں، درحقیقت سر کو محض ایک انچ آگے کی جانب جھکانا کندھوں پر 10 پونڈ کا دباؤ بڑھا دیتا ہے اور اگر سر 4 انچ جھک جائے تو یہ کچھ ایسا ہی جیسے کوئی 8 سالہ بچہ آپ کے کندھے پر بیٹھا ہوا ہو۔تاہم تحقیق میں بتایا گیا کہ ناقص جسمانی آسن سے لاحق ہونے والے بیشتر مشکلات کو چند عام تبدیلیوں سے ریورس کرنا ممکن ہے۔محققین کا کہنا تھا کہ جسمانی مضبوطی کی ورزش جسمانی پوزیشن یا درد کے حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔اسی طرح جو افراد اپنا زیادہ وقت بیٹھ کر اسکرین استعمال کرتے ہوئے گزارتے ہیں، انہیں اپنے دونوں پیر زمین پر رکھنے چاہیے اور ہر گھنٹے بعد کھڑے ہوکر کچھ دیر چلنا چاہیے۔خیال رہے کہ اس سے پہلے کی جانے والی ایک تحقیق میں انتباہ کیا گیا تھا کہ موبائل ڈیوائس پر بہت زیادہ وقت گزارنا درمیانی عمر میں بینائی کے مسائل کا باعث بنتا ہے۔تحقیق کے مطابق موبائل کی اسکرین کمپیوٹر کے مقابلے میں چھوٹی ہوتی ہے اور اس وجہ سے آپ کو آنکھوں کو سکیڑنا پڑسکتا ہے جس سے بینائی پر دباؤبڑھتا ہے۔
حضرت یعقوبؑ طویل سفر کے بعد ’’حران‘‘ میں اپنے ماموں کے پاس پہنچ گئے۔ ماموں، بھانجے کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئے اور اُن کی خُوب خاطر مدارات کی۔ ماموں’’لابان‘‘ کی دو جوان بیٹیاں تھیں، بڑی کا نام’’لیا‘‘ اور چھوٹی کا’’راحیل‘‘ تھا۔ حضرت یعقوبؑ نے ماموں سے چھوٹی بیٹی، راحیل کا رشتہ مانگا، تو ماموں نے اِس شرط کے ساتھ ہاں کر دی کہ وہ چھے سال تک اُن کی بکریاں چرائیں گے۔ جب مدّت گزر گئی اور شرط پوری ہو گئی، تو اُنہوں نے لوگوں کو اکھٹا کر کے دعوت کی اور شادی کر دی۔ رات کو حضرت یعقوبؑ پر انکشاف ہوا کہ شادی تو راحیل کی بجائے بڑی بہن، لیا سے ہوئی ہے۔ حضرت یعقوبؑ نے صبح ماموں سے پوچھا’’ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ مَیں نے تو راحیل سے نکاح کا پیغام دیا تھا۔‘‘ ماموں نے جواب دیا’’ ہمارے ہاں بڑی بیٹی کے ہوتے چھوٹی سے نکاح نہیں ہو سکتا۔ ہاں، اگر تمھیں چھوٹی پسند ہے، تو مَیں اُس سے بھی تمہارا نکاح کر دوں گا، مگر تمھیں مزید سات سال تک بکریاں چرانی ہوں گی۔‘‘ حضرت یعقوبؑ نے مزید سات سال تک بکریاں چرائیں، جس کے بعد اُن کا نکاح چھوٹی بہن سے بھی کر دیا گیا۔( واضح رہے، اُس وقت دو بہنوں کا ایک ہی وقت میں ایک مَرد سے نکاح ہوسکتا تھا)۔مؤرخین تحریر کرتے ہیں کہ حضرت یعقوبؑ کی چار بیویاں تھیں، جن سے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو اولادِ کثیر سے نوازا۔ آپؑ کے12بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی۔ بیٹوں کی شادیاں ہوئیں اور پھر اُن کی اولاد پھیلتے پھیلتے بارہ قبیلوں کی شکل اختیار کرگئی۔ چھوٹی بیوی، راحیل سے دو بیٹے پیدا ہوئے، ایک حضرت یوسف علیہ السّلام اور دوسرے بن یامین۔
ایک دفعہ ایک عیسائی بادشاہ نے چند سوالات لکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجے اور ان کے جوابات آسمانی کتابوں کی رُو سے دینے کا مطالبہ کیا۔ ان میں سے ایک سوال تھا کہ ’’دنیا میں وہ کون سی جگہ ہے، جہاں آغاز سے لے کر قیامت تک صرف ایک دفعہ سورج کی کرنیں پڑیں، نہ پہلے کبھی وہاں پڑیں تھیں نہ آئندہ کبھی پڑیں گی؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہان سوالات کے جوابات لکھ دیں۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہنے اس سوال کا جواب تحریر فرمایا۔ ’’وہ زمین سمندر کی کھاڑی قلزم کی تہہ ہے کہ جہاں فرعون مردود غرق ہوا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے سے دریا خشک ہوا تھا۔ حکم الٰہی سے سورج نے بہت جلد سکھایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام مع اپنی قوم بنی اسرائیل پار چلے گئے اور جب فرعون اور اس کا لشکر داخل ہوا تو وہ غرق ہوگیا اس زمین پر سورج ایک دفعہ لگا پھر قیامت تک کبھی بھی نہیں لگے گا۔
حضرت سلیمان ؑ نے دُعا مانگی’’اے میرے پروردگار! میری مغفرت فرما اور مجھے ایسی بادشاہت عطا کر، جو میرے بعد کسی کو بھی میّسر نہ ہو ۔ بے شک تو بڑا عطا فرمانے والا ہے ‘‘(سورۂ ص 35)۔ حضرت سلیمان ؑ کی یہ دُعا اللہ کے دِین کے غلبے ہی کے لیے تھی، چناں چہ اللہ عزّوجل نے دُعا قبول فرمائی اور اُنھیں عظیم الشّان حکومت عطا فرمائی۔ آپ ہفت اقلیم کے بادشاہ تھے۔ دنیا کی ہر شئے آپؑ کی مطیع اور فرماں بردار تھی۔ ہوا کو حکم دیتے، تو وہ مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر دیتی۔ چرند، پرند ہر حکم کی تابع داری کے لیے حاضر ہوتے۔ سرکش جنّات ہر وقت ہاتھ باندھے احکامات کی بجا آوری کے لیے تیار رہتے اور شیاطین زنجیروں میں جکڑے رہتے۔ سورۃ الانبیاء میں ارشاد ہے’’اور ہم نے تیز ہوا سلیمان ؑکے تابع کر دی، جو اُن کے حکم سے اُس مُلک میں چلتی تھی، جس میں ہم نے برکت دی تھی(یعنی مُلکِ شام) اور ہم ہر چیز سے باخبر ہیں‘‘(آیت 81)۔حضرت حسن بصری ؒفرماتے ہیں کہ’’ ہوا کے مسخر کرنے کا واقعہ حضرت سلیمان ؑکے ساتھ اُس وقت پیش آیا، جب آپؑ اپنے لشکری گھوڑوں کے معائنے میں مصروف تھے۔ اس اثناء میں آپؑ کی عصر کی نماز فوت ہو گئی، چوں کہ اس غفلت کا سبب گھوڑے بنے تھے، لہٰذا اُنھوں نے اپنے اُن خُوب صُورت اور بیش بہا گھوڑوں کو ذبح کر دیا۔ حضرت سلیمان ؑنے جب اپنی سواری کے جانور قربان کر دیے، تو اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اُس سے بہتر سواری عطا فرمادی (قرطبی) اور ہوا کو مسخّر کر دیا۔‘‘حضرت سلیمان ؑ کے ان گھوڑوں کا واقعہ قرآنِ کریم کی سورۂ ص کی آیات 31،32،33میں موجود ہے۔ ارشادِ باری ہے ’’اور ہم نے سلیمانؑ کے لیے ہوا کو مسخّر کر دیا کہ صبح کی منزل مہینے بھر کی ہوتی تھی اور شام کی منزل بھی ‘‘(سورۂ سبا، 12)۔ یعنی حضرت سلیمان ؑمع اعیانِ سلطنت اور لشکر تخت پر بیٹھ جاتے اور جدھر آپؑ کا حکم ہوتا، ہوائیں اُسے اتنی رفتار سے لے جاتیں کہ ایک مہینے جتنی مسافت صبح سے دوپہر تک کی ایک منزل میں طے ہو جاتی اور پھر اسی طرح ایک مہینے کی مسافت دوپہر سے رات تک میں۔ یعنی اس طرح ایک دن میں دو مہینوں کی مسافت طے ہوتی۔ ابنِ ابی حاطم نے حضرت سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے کہ تختِ سلیمانی پر چھے لاکھ کرسیاں رکھی جاتی تھیں، جن پر حضرت سلیمان علیہ السّلام کے ساتھ اہلِ ایمان انسان اور اُن کے پیچھے اہلِ ایمان جنّات بیٹھتے۔ پھر پرندوں کو حکم ہوتا کہ وہ تخت پر سایہ کر لیں تاکہ آفتاب کی تپش سے تکلیف نہ ہو۔ ہوا اُس عظیم الشّان تخت کو اٹھا کر جہاں کا حکم ہوتا، وہاں پہنچا دیتی۔ بعض روایات میں ہے کہ اس ہوائی سفر کے وقت پورے راستے حضرت سلیمان ؑ سَر جُھکائے اللہ کے ذکرو شُکر میں مشغول رہتے‘‘ (ابنِ کثیر)۔
حضرت یحییٰ کثرت سے گریہ وزاری کیا کرتے، یہاں تک کہ آنسوؤں کی وجہ سے رخساروں پر نشان پڑ گئے تھے۔ ابنِ عساکر نے روایت کی ہے کہ ایک روز والدین اُن کی تلاش میں نکلے، تو دیکھا کہ وہ جنگل میں ایک قبر کھودے اُس پر کھڑے زار و قطار رو رہے ہیں۔ والدین نے فرمایا’’ بیٹے! ہم تین دن سے تمھاری تلاش میں ہیں۔‘‘ اس پر آپؑ نے آخرت کے حوالے سے ایسی پُراثر گفتگو کی کہ والدین رو پڑے۔ حضرت یحییٰ بے حد حلیم، رقیق القلب، پاک باز،عابد و متقّی، اِستغنا و قناعت سے سرشار، شرم و حیا کے پیکر اور شیریں کلام تھے۔ نہایت سادہ زندگی بسر کرتے۔ غذا بقدرِ ضروت اور لباس اتنا ہوتا، جو ستر پوشی کے لیے کافی ہو۔
اُنھیں جنگلوں، بیابانوں سے محبّت تھی، زندگی کا زیادہ تر حصّہ وہیں گزارا۔ جہاں درختوں کے پتّے اور شہد بہ طورِ غذا تناول فرماتے، پیاس لگتی تو نہر سے پانی پی لیتے۔ زندگی بھر شادی نہیں کی۔ حضرت عیسیٰ اُون کا لباس پہنتے، جب کہ حضرت یحییٰ ؑ جانوروں کے بالوں کا لباس زیبِ تن کرتے۔
درہم و دینار تھے، نہ کوئی غلام یا باندی۔ کوئی مخصوص ٹھکانا بھی نہ تھا، جہاں رات ہوجاتی، وہیں بسیرا کر لیتے۔ حضرت جبرائیل امینؑ جنگل ہی میں وحی لے کرحاضر ہوئے۔حضرت عبداللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں کہ’’ بچّوں نے حضرت یحییٰ ؑکو بچپن میں کہا ’’ آؤ چل کر کھیل کود کریں‘‘، تو آپؑ نے فرمایا’’ ہم کھیل کود کے لیے پیدا نہیں کیے گئے۔‘‘
حضرت ربیع بن انس فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی نبوّت سب سے پہلے تسلیم کرنے والے حضرت یحییٰ ؑتھے۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’اولادِ آدمؑ میں کوئی ایسا نہیں، جس سے گناہ سرزد نہ ہوا ہو، سوائے حضرت یحییٰؑ کے‘‘ (مسندِ احمد)۔ قرآنِ پاک میں آپؑ کا ذکر اُن چار سورتوں میں آیا ہے، جن میں حضرت زکریا کا بھی ذکر ہے، یعنی سورۂ آلِ عمران، سورۃ الانعام، سورۂ مریم اور سورۃ الانبیاء۔
حکومتی وزرا نے اس بجٹ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ نئے قرض پروگرام کے حصول کے لیے اضافی ٹیکس عائد کرنا آئی ایم ایف کی شرائط ...
جملہ حقوق ©
WAKEUPCALL WITH ZIAMUGHAL
Anag Amor Theme by FOCUS MEDIA | Bloggerized by ZIAMUGHAL