گاندھی جی کے سیکورٹی افسر نے کہا تھاہمیں باپو کو غریب دکھانے کے لئے بہت خرچہ کرنا پڑتا ہے۔۔باپو کو عوامی ریل پر سوار کرنے کے لئے ساری ریل کی سیکورٹی چیک ہوتی ہے۔ پورے راستے میں پولیس سیکورٹی سنبھالتی ہے۔ سیکورٹی اہلکاروں کو غریب دیہاتیوں کے بھیس میں ڈبے میں سوار کیا جاتا ہے۔ ان کو پھٹے پرانے کپڑۓ دھو کر پہنائے جاتے ہیں دو چار ننگ دھڑنگ بچے بھی جامعہ تلاشی کے بغد سوار کئے جاتے ہیں۔مسافروں کی پوٹلیوں میں فرسٹ ایڈ کا سامان رکھا جاتا ہے۔ راستے کے تمام سٹاپ پر بغیر وردی پولیس یا فوج کے جوان تعینات ہوتے ہیں جو خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے علاوہ کسی کو سوار نہیں ہونے دیتے۔باپو کے ساتھ ٹرین میں سوار ان کی بکری کو انڈے، دیسی گھی، بادام اور چلغوزے اور پتہ نہیں کیا کیا کھلایا جاتا ہے۔ باپو قمیض نہیں پہنتے اس لئے انہیں سردی سے بچانے کے لئے کوئلوں کی انگیٹھی ساتھ رکھنا پڑتی ہے۔ دیہاتی خواتین کے لباس میں دو ٹرینڈ نرسیں ہمہ وقت باپو کی خدمت کے لئے موجود ہوتی ہیں۔تب جا کر چمن میں دیدہ ور پیدا ہوتا ہے اور باپو کا عوامی روپ سامنے آتا ہے۔ ۔۔اب پاکستان میں بھی یہی کلچر سامنے لایا جا رہا ہے۔ 360کنال میں رہنے والے، پرائیویٹ جہاز پر سفر کرنے والے ایک ارب پتی شخص کو غریب دکھانے کے لئے جب ٹی وی سکرین پر پیش کیا جاتا ہے تو اس کی قمیض میں سوراخ کر دیئے جاتے ہیںپھر اس کی بیگم کو پڑھایا جاتا ہے کہ انٹرویو مین کیسے غربت اور مفلسی کا رونا رونا ہے۔ کہ میرے میاں کے پاس تین سوٹ ہیں وہ بھی مانگے تانگے کے ہیںکھانا نوکروں سے مانگ کر کھاتا ہے۔ ناشتے میں ایک بسکٹ اور آدھا رس کھانے کو ملتا ہے۔ پھر سوشل میڈیا پر اس کے یوتھئے اس کی سادگی کی قسمیں کھاتے نظر آتے ہیں۔
from Global Current News https://ift.tt/2Nt3lG9
via IFTTT
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔