ہفتہ، 23 فروری، 2019

کس نے کتنا ٹیکس ادا کیا،کون سرفہرست؟تفصیلات منظر عام پر آگئیں(رپورٹ فوکس نیوز)

0 comments

اسلام آباد (جی سی این رپورٹ) فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 30جون2018کو ختم ہونے والے مالی سال کے اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی جانب سے جمع کرائے گئے انکم ٹیکس کی تفصیلات پر مشتمل پارلیمنٹیرینز کی ٹیکس ڈائریکٹری 2017ء جاری کر دی جس کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے 1لاکھ3ہزار روپے اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے 2لاکھ63ہزار روپےٹیکس ادا کیا۔ اراکین قومی اسمبلی میں جہانگیر خان ترین 9کروڑ 73لاکھ روپے ٹیکس ادا کر کے سر فہرست جبکہ اراکین سینیٹ میں طلحہ محمود 4کروڑ 31لاکھ روپے ٹیکس ادا کر کے سر فہرست رہے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور قومی اسمبلی میں موجودہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے 1کروڑ 2لاکھ روپے ، سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار ثنا اللہ زہری نے 1کروڑ روپے، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 80لاکھ72ہزار روپے، سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور موجودہ وزیر دفاع نے 9لاکھ 29روپے ٹیکس ادا کیا۔ ٹیکس ڈائریکٹری 2013کے عام انتخابات کے نتیجہ میں بننے والی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کی ٹیکس تفصیلات پر مشتمل ہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 37لاکھ89ہزارروپے، صدر عارف علوی نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 18لاکھ6ہزار روپے، اسفند یار بھنڈارا 2کروڑ 29لاکھ روپے، قومی اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے 2لاکھ56ہزار روپے، شیخ فیاض الدین 1 کروڑ 40لاکھ روپے،سہیل منصور خواجہ 28لاکھ48ہزار روپے، پیر محمد امین الحسنات نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 67لاکھ 47ہزار روپے، شیخ محمد اکرم نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 50لاکھ62ہزار روپے، اظہر قیوم نہرہ 35لاکھ56ہزار روپے، سردار اویس احمد خان لغاری 4لاکھ67ہزار روپے، سردارمحمد جعفر خان لغاری1 لاکھ92ہزار روپے، محمد بلیغ الرحمان نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 87لاکھ 50ہزار روپے، میاں امتیاز احمد نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 93لاکھ 50ہزارپے، میر عامر علی خان مگسی نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 17لاکھ روپے، سید غلام مصطفی شاہ نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 36لاکھ 43ہزار روپے، سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ ڈاکٹر عذرا فضل 4لاکھ80ہزار روپے، بھون داس32لاکھ روپے، وزیر ریلوے شیخ رشید احمد 7لاکھ26ہزار روپے، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ 2 لاکھ99ہزار روپے، میر عامر علی مگسی 15لاکھ53ہزار روپے، ڈاکٹر شیریں مہر النسا مزاری 15لاکھ 69ہزار روپے، بیلم حسنین 14لاکھ30ہزار روپے، فریال تالپور 28لاکھ 69ہزار روپے، سید غلام مصطفی شاہ 12لاکھ 90ہزار روپے، عبدالستار بچانی 21لاکھ 63ہزار روپے، محمد علی راشد63لاکھ 55ہزار روپے، جام کمال 61لاکھ54ہزار روپے، زیب جعفر 26لاکھ54ہزار روپے، چودھری افتخار ناظر 48لاکھ 64ہزار روپے، حافظ عبدالکریم 35لاکھ57ہزار روپے، حمزہ شہباز شریف82لاکھ68ہزار روپے، خواجہ سعد رفیق 52لاکھ 24ہزار روپے،سابق وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال 3لاکھ68ہزار روپے، سردار ایاز صادق 2لاکھ89ہزار روپے، ڈاکٹر فاروق ستار 1لاکھ 49ہزار روپے، شفقت محمود 10لاکھ95ہزار روپے، خواجہ محمد آصف55لاکھ61ہزار روپے، چودھری پرویز الٰہی 21لاکھ30ہزار روپے، اسد عمر 48لاکھ 49ہزار روپے، چودھری نثار علی خان 17لاکھ23ہزار روپے،وزیر پٹرولیم غلام سرور خان 13لاکھ84ہزار روپے،شیخ آفتاب احمد 11لاکھ 63ہزار روپے، چودھری محمد شہباز بابر35لاکھ53ہزار روپے،میاں عبدالمنان10لاکھ49ہزار روپے،آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے 17 لاکھ75ہزار روپے ٹیکس ادا کیا۔ سینیٹ ارکان میں روزی خان کاکڑ 4کروڑ8لاکھ روپے ٹیکس کے ساتھ دوسرے، فروغ نسیم 2 کروڑ 78 لاکھ روپے کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے، پنجاب سے ممبران میں چودھری اعتزاز احسن 2کروڑ 58لاکھ روپے ، فاروق ایچ نائیک 1کروڑ10لاکھ روپے، سلیم مانڈوی والا 14لاکھ 41ہزار روپے، شیری رحمان18لاکھ48ہزار روپے، اسحاق ڈار 93لاکھ84ہزار روپے، چودھری تنویر خان 30لاکھ39ہزار روپے، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم 31لاکھ82ہزار روپے، نزہت صادق 17لاکھ57ہزار روپے، سعود مجید31لاکھ96ہزار روپے، ظہیر الدین بابر اعوان 47لاکھ 84ہزار روپے، خیبر پختونخوا کے سینیٹرز میں شاہی سید 24لاکھ11ہزار، نوشین عزیز 15لاکھ، نعمان عزیز10لاکھ، بلوچستان سے اراکین میں سینیٹر تاج محمد آفریدی 2کروڑ 93لاکھ روپے، سجاد حسین 49لاکھ69ہزار روپے، عثمان سیف اللہ خان 32لاکھ30ہزار، اشوک کمار 26لاکھ9ہزار، میر کبیر احمد 19لاکھ 12ہزار روپے، میر نعمت اللہ زہری نے 11لاکھ76ہزار روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ اراکین پنجاب اسمبلی میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور قومی اسمبلی میں موجودہ قائد حزب اختلاف محمد شہباز شریف 1کروڑ2لاکھ روپے، حمزہ شہباز شریف 82لاکھ68ہزار روپے، رانا ثنا اللہ خان 12لاکھ20ہزار روپے، چودھری مونس الٰہی 57لاکھ 37ہزار روپے، راجہ اشفاق سرور 1لاکھ 8ہزار روپے، چودھری سرفراز افضل 53ہزار روپے، انجینئرقمر اسلام راجہ نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 4لاکھ17 ہزار روپے، راجہ راشد حفیظ 16لاکھ روپے، شیر علی خان نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 48لاکھ16ہزار روپے، راجہ راشد حفیظ نے 15لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا۔ سندھ اسمبلی میں مراد علی شاہ نے 80لاکھ72ہزار روپے، سید اویس قادر شاہ 1کروڑ92لاکھ روپے، اکرام اللہ خان دھاریجو 12لاکھ 30ہزار روپے، علی نواز خان مہر 21 لاکھ71ہزار روپے، منظور حسین وسان 1کروڑ23لاکھ روپے، سردار خان چانڈیو 65لاکھ 50ہزار روپے، شرجیل انعام میمن 22لاکھ11ہزار، گیانو مال گیان چند12لاکھ 19ہزار روپے، مکیش کمار چاولہ نے 27لاکھ37ہزار روپے ٹیکس ادا کیا۔ اراکین بلوچستان اسمبلی رضا محمد باریچ 20لاکھ روپے، اکبر عسکانی 8کروڑ49کروڑ روپے، میر حمل 25لاکھ90ہزارروپے، راحیلہ حمید خان درانی 22لاکھ 16ہزار روپے، زمرک خان نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 20لاکھ98ہزار روپے، مولانا عبدالواسع 18لاکھ40ہزار روپے، میر سرفراز چکر 16لاکھ 80ہزار روپے، سرفراز احمد بگٹی نے 15لاکھ90ہزار روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے اراکین میں سردار ظہور احمد 1کروڑ 43لاکھ روپے، نوابزادہ ولی محمد خان 60لاکھ89ہزار روپے، نور سلیم ملک 1کروڑ 57لاکھ روپے، جمشید الدین 27لاکھ 60ہزار روپے، فضل شکور خان 37لاکھ 65ہزار روپے، سکندر حیات خان نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 14لاکھ10ہزار روپے، اسد قیصر نے ذاتی اور کاروباری آمدن پر 45لاکھ 48ہزار روپے، اکبر ایوب خان 30لاکھ 54ہزار روپے، محمد شیراز 19لاکھ اور امجد آفریدی نے 63لاکھ 60ہزار روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ ادھر وزیر مملکت برائے ریو نیو حماد اظہر نے ایف بی آر آفس میں ٹیکس پیئرز ڈائریکٹری دو ہزار سترہ کی تقریب سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب چیک کیا جائے گا کہ کس پارلیمنٹیرین نے کتنا ٹیکس دیا اور اس کے اثاثے کتنے ہیں؟، قانون کے شکنجے سے اب کوئی نہیں بچ سکے گا، لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جن کو منتخب کیا وہ کتنا ٹیکس دیتے ہیں۔ منی بجٹ آئندہ ہفتے منظور کرا لیا جائے گا، منظوری سے آف شور اکائونٹس اور اثاثوں پر ٹیکس عائد کیا جا سکے گا۔



from Global Current News https://ift.tt/2GXtA6y
via IFTTT

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔