لندن (جی سی این رپورٹ)6 جون کو یورپ میں ‘ڈی-ڈے’ کی تقریبات منائی جا تی ہیں۔ اس دن دوسری جنگِ عظیم کے دوران سنہ 1944 میں اتحادی فوجوں نے فرانس کو نازی جرمنی سے آزاد کرانے کے لیے دنیا کی تاریخ کا سمندر سے زمین کی جانب سب بڑا فوجی حملہ کیا تھا۔ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ اتحادی فوجیوں نے فرانس کے مغربی ساحل نارمنڈی پر حملہ کیا تھا جہاں ہٹلر کی فوج بھاری توپ خانے اور اس وقت کے مہلک ترین اسلحے کے ساتھ مورچہ زن تھی۔ہٹلر کی آہنی طاقت کے ہوتے ہوئے اتنی بڑی تعداد میں اتحادی فوج کو ساحل پر اتارنے کے لیے تاریخ کا سب سے بڑا بحری بیڑہ تیار کیا گیا تھا جس میں 7000 کے قریب بحری جنگی جہازوں سے لے کر مسلح کشتیاں شامل تھیں۔ان میں کچھ بحری جہاز تو باقاعدہ بھاری توپ خانے سے لیس تھے۔ کچھ خاص قسم کے جہاز جن میں فوجی سوار تھے، ساحل پر اتارنے کے لیے جنگی سازوسامان کے ساتھ سمندر میں موجود تھے اور کچھ ایسے جہاز تھے جنھیں ساحل کے قریب ڈبو کر ان کو عارضی بندرگاہ کے طور پر استعمال کیا جانا تھا۔’ڈی-ڈے’ کے روز آسمان پر 12000 جنگی جہاز مختلف اوقات میں پرواز کر رہے تھے جن کے ذمے عمومی فضائی جنگ کے علاوہ جرمنی کی فضائیہ کو کارروائی کرنے سے روکنا، سمندر سے زمین پر پہچنے والے فوجیوں کی مدد کرنا اور ساحل پر مورچہ زن جرمن فوج کی سپلائی کے رستوں پر حملے کرنا تھا۔ ڈی-ڈے تاریخ کے اُس سب سے بڑے فوجی آپریشن کے آغاز کے دن کو کہتے ہیں جب اتحادی فوج نے سمندر سے نارمنڈی کے ساحل پر فوجی حملہ کیا جو جرمنی کے زیرِ قبضہ تھا۔6 جون کو رات گئے ایک لاکھ بتیس ہزار اتحادی فوجی فرانس کے ساحلی قصبوں پر اتر چکے تھے۔ اس پوری کارروائی میں امریکہ کے تہتر ہزار فوجی شامل تھے۔ کینیڈا کے ساڑھے اکیس ہزار جبکہ برطانیہ کے پونے باسٹھ ہزار فوجی شامل تھے۔اس ایک دن کی کارروائی میں 4414 اتحادی فوجی ہلاک ہوئے اور 9000 زخمی۔جب ‘ڈی-ڈے’ کے پچھتر برس ہونے کی تقریبات فرانس میں نارمنڈی کے ایک ساحلی قصبے گولڈن بیچ میں اور برطانیہ کی بحریہ کے ہیڈکوارٹر پورٹ سمتھ میں منائیں گئیں تو ان میں ان تمام قربانی دینے والی اقوام کا ذکر کیا گیا جن کے فوجی نارمنڈی پر حملہ کرنے والی فوج میں شامل تھے۔
تاہم اس موقعہ پر کسی مسلمان سپاہی یا انڈین سپاہی کا ذکر نہیں کیا گیا۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے اس تاریخ ساز دن میں جو کردار ہندوستان کے سپاہیوں اور مسلمانوں نے ادا کیا اس کا تذکرہ عموماً کم ہوتا ہے۔واشنگٹن میں قائم سینٹر فار گلوبل پالیسی سے وابسطہ ایک عرب محقق حسين يوسف كمال أيبش کے مطابق اس دور میں ’فوجی کارروائی کے وقت عرب نسل کے کم از کم پانچ ہزار چار سو مسلمان سپاہی جرمنی کے خلاف لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے تھے تا کہ جرمنی کو برطانیہ پر حملے سے روک سکیں۔‘ان کی تحریر میں براہ راست ‘ڈی-ڈے ‘میں کسی مسلمان کی شرکت کا ذکر نہیں ہے، تاہم مبصرین کے مطابق کئی ایسے واقعات ہیں جب ہندوستانی سپاہیوں نے یا عرب مسلمانوں نے یورپی طاقتوں کی جنگوں میں اہم کردار اد کیا لیکن بعد میں ان کا ذکر عنقا ہو گیا۔ سنہ 1941 کی ایک تصویر جس میں برطانیہ کی کاؤنٹی سرے کے علاقے ووکنگ میں مسجدِ شاہ جہان کے باہر ’انڈین‘ سپاہی چائے پی رہے ہیں۔ ووکنگ میں برطانوی مسلمانوں کا سب سے پرانا قبرستان بھی ہے۔مثلاً اس وقت سنہ 1941 میں اتحادی فوجیوں کے انخلا کے لیے لڑی گئی ڈنکِرک کی لڑائی کا ذکر کرتے ہوئے ان انڈین سپاہیوں کا ذکر نہیں کیا جاتا ہے جنھیں ممبئی سے فرانس روانہ کیا گیا اور جنھوں نے اپنے خچروں کے ساتھ اہم فوجی مشن سرانجام دیے۔ لیکن مقبولِ عام تاریخ میں ان کا ذکر نظر نہیں آتا ہے۔
پھر فرانس کی فوج میں اکثریت شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے عرب مسلمانوں کی تھی۔ لیکن جب جنگ میں کامیابی حاصل ہو گئی تو اس وقت کے فرانس کے صدر جنرل ڈیگال نے کامیابی کی تقریبات میں مسلمان فوجیوں کو سفید فام سپاہیوں سے تبدیل کر دیا۔برطانیہ کی پچیس لاکھ برٹش انڈین آرمی میں سے چالیس فیصد مسلمان تھے جس کا مطلب ہوا کہ اس میں دس لاکھ کے قریب مسلمان تھے۔اس ‘برٹش انڈین آرمی’ میں سے کم از کم ایک تہائی فوجی جنھوں نے محاذوں پر جنگ لڑی وہ مسلمان تھے، جو کہ کسی بھی گروہ کی تناسب کے لحاظ سے سب سے بڑی تعداد تھی جو اس جنگ میں شامل تھے۔دوسری جنگِ عظیم کے وقت برطانوی وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل نے امریکی صدر رُوزویلٹ کو قائل کرنے کے لیے انڈین آرمی کی ان الفاظ میں تعریف کی تھی کہ یہ کامیابی ‘ناقابلِ تسخیر بہادر انڈین فوجی اور افسران’ کے مرہونِ منت ہے۔دوسری جنگِ عظیم کے وقت سنہ 1942 میں برطانوی فوج کے کمانڈر ان چیف بننے والے فیلڈ مارشل کلاڈ آچنلیک نے اس جنگ کے انجام پر تسلیم کیا کہ برطانیہ ان جنگوں میں سرخرو نہ ہو پاتا اگر اُس کے پاس انڈین فوج نہ ہوتی۔اسی طرح اس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل نے امریکی صدر رُوزویلٹ کو قائل کرنے کے لیے انڈین آرمی کی ان الفاظ میں تعریف کی تھی کہ یہ کامیابی ‘ناقابلِ تسخیر بہادر انڈین فوجی اور افسران’ کے مرہونِ منت ہے۔انھوں نے کہا تھا ‘جیسا کہ برطانیہ نے پہلی جنگ عظیم سے لے کر دوسری جنگِ عظیم لڑیں ہیں، اس کا انڈین آرمی پر انحصار بہت بڑھ گیا ہے، جو کہ ان دونوں جنگوں میں سب سے بڑی رضاکار فوج ہے، کیونکہ لوگوں نے خود سے جنگ کے لیے آمادگی دکھائی تھی، نہ کہ ان کو جبری طور پر بھرتی کیا گیا تھا۔’مراکش کے محققین کہتے ہیں کہ سترہ سو کے قریب ان کے فوجیوں نے ‘ڈی-ڈے’ کی فوجی کارروائی میں براہِ راست حصہ لیا تھا۔ایک اندازے کے مطابق، شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے سوا دو لاکھ سے زیادہ فوجی فرانسیسی فوج کا حصہ تھے۔یہ مسلمان فوجی دوسری جنگِ عظیم کے آخری مہینوں میں فرانس کی کل ہلاکتوں کا باون فیصد تھے۔ شمالی افریقہ کے چالیس ہزار مسلمان فوجی یورپ کی نازی طاقت سے آزادی کے لیے لڑتے ہوئے مارے گئے تھے۔ I ووکنگ کی مسجِ شاہجہان کے سامنے ’انڈین‘ سپاہی نماز ادا کر رہے ہیں۔ یہ تصویر پہلی جنگِ عظیم کے زمانے کی ہے۔بہر حال ‘ڈی-ڈے’ کے تاریخی دن کے موقعے پر آج مسلمانوں کا ایک طبقہ یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں ان کے اہم کردار کو آج کی دنیا کے سامنے اجاگر کیا جائے۔امریکہ اور برطانیہ میں رہنے والے مسلم تنظیمیں اس کردار کو تسلیم کروانے کے لیے اس لیے کوشاں ہیں کیونکہ اس وقت ان ممالک میں ان کو مسلم مخالف ‘اسلامو فوبیا’ کا سامنا ہے۔ سفید فام نسل پسند اور انتہائی دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے گروہ مسلمانوں کو جدید تہذیب کا مخالف قرار دیتے ہیں۔جبکہ مسلمانوں کی دلیل یہ ہے کہ جسے جنگِ عظیم کے بعد تشکیل پانے والی جدید تہذیب کہا جا رہا ہے اس کی بنیاد میں مسلمانوں کا بھی خون ہے۔
غیر سرکاری تنظیم مسلم انسپائر سے وابسطہ صبیرا احسن لکھتی ہیں کہ چالیس ہزار کے قریب ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی کہانی کو پر وقار انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے اور مغربی مورخین بھی اس قربانی کو تسلیم کریں۔ان کا کہنا ہے ‘(دوسری جنگِ عظیم) میں مسلمانوں کے کردار کو ابھی تک تسلیم کیے جانے کی ضرورت ہے اور اس پر مشترکہ انسانی تاریخ اور موضوع کے طور پر مین سٹریم میڈیا میں بات کیے جانے کی اب بھی ضرورت ہے۔‘کامن ویلتھ وار گریوز کمیشن کے مطابق، دونوں عالمی جنگوں میں ایک لاکھ اکسٹھ ہزار انڈین فوج کے سپاہی ہلاک ہوئے۔ ان میں 40 فیصد مسلمان تھے، جبکہ انڈین آبادی میں مسلمانوں کا تناسب صرف پچیس فیصد تھا۔شکاگو یونیورسٹی کے ایک محقق اور پروفیسر، ڈاکٹر عظیم ابراہیم نے اس بارے کہا ہے کہ ‘کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ورثے کو بھلا دیا گیا ہے۔ ان تاریک دنوں میں آزادی کے لیے لڑنے والوں کو یاد کرنا چاہیے، چاہے ان کا کوئی بھی مذہب ہو۔ شاید اس طرح کرنے سے ہم اپنے تعصبات پر قابو پاسکیں۔’
The post دوسری جنگ عظیم،ڈی ڈے کا معرکہ، جانتے ہیں مسلمانوں نے کتنی قربانی دی مگر۔۔۔ appeared first on Global Current News.
from Global Current News http://bit.ly/2ICoBHJ
via IFTTT