انجینئر مختار فاروق
قرآن مجید بلاشبہ اللہ تعالی کا کلام ہے اور کلام متکلم کی صفت ہوتا ہے۔کلام سے متکلم کی شانیں جھلکتی ہیں۔اللہ تعالی کی شان جس طرح ہمہ گیر اور متنوع ہے ، اسی طرح کلام پاک کی شان بھی ہمہ گیر اور متنوع ہے۔ قرآن مجید کیلئے خود قرآن میں الذکر، ذکری ، تذکرہ وغیرہ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ فرمایا:ترجمہ بے شک یہ (کتاب) نصیحت ہمیں نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔ (15۔09) ایک اور مقام پر فرمایا ، ترجمہ یہ (قرآن ) تو نصیحت ہے ، سو جو چاہے اپنے پروردگار تک (پہنچنے) کا راستہ اختیار کرلے۔ (73۔19) پھر ایک اور مقام پر ہے کہ ، ترجمہ اور یہ تو بنی آدم کیلئے نصیحت ہے۔ (74۔31) پھر فرمایا، ترجمہ ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے سرگرداں ہو رہے ہیں ۔ (74۔49) پھر فرمایا ، ترجمہکچھ شک نہیں کہ یہ نصیحت ہے تو جو چاہے اسے یاد رکھے (74۔54۔55)
ذکر کے لفظی معنی ہیں دل میں اللہ کو حاضر کرنا۔ہر کام، نصیحت، عمل، تحریر، تقریر، گفتگو وغیرہ ذکر کے درجے میں ہے جس سے قلب میں اللہ کی یاد تازہ ہوجائے یا دل اللہ کی یاد سے بھر جائے۔ اسی معنی میں ذکر کے لفظ میں اس جانب بھی اشارہ ہے کہ اللہ نے فطرت انسانی میں بعض بدیہی باتیں ڈال دی ہیں۔ ہر انسان کے دل میں اللہ نے اپنی محبت کی کوئی نہ کوئی رمق رکھی ہے۔نیکی اور بدی کی تمیز رکھی ہے۔آخرت کی جواب دہی کا احساس رکھا ہے۔یہ احساس تازہ رہے تو کیا ہی کہنے ۔ہر وہ چیز یا نصیحت ، واقعہ، عمل ، تحریر و تقریر یا منظر جو دل میں اللہ کی یاد دوبارہ تازہ کردے اور انسان کو نسیان سے نکال کر حضوری کی کیفیت میں لے آئے ، یہی ذکر ہے۔ اسی لئے ذکر کے معنی پنجابی یاہندی میں لفظ چیتا کرانا کے بھی کئے گئے ہیں جو اس کے حقیقی مفہوم کے بہت قریب ہے اسی مفہوم میں سورہ ق میں اللہ نے اپنی نعمتوں اور آخرت کے تذکرے کے بعد فرمایا، ترجمہ تاکہ رجوع لانے والے بندے ہدایت اور نصیحت حاصل کریں۔ (50۔8)۔ اسی سورہ میں موت کے تذکرے، دوزخ اور جنت کے مناظر کے بعد فرمایا، ترجمہ لوگ قرآن مجید کی باتوں پر کیوں توجہ نہیں کرتے؟ بعض لوگ قرآن پر متوجہ ہوتے ہیں مگر اس کے لوازم پورے نہیں کرتے۔یقینا قرآن مجید سے فائدہ وہی حاصل کرپاتا ہے جس کا دل زندہ ہو ۔ اندر کا انسان زندہ ہو ۔ضمیر زندہ ہو یا ذرا کمزور اور زنگ آلود ہوگیا ہو تو پھر زیادہ ریاضت اور محنت سے قرآن کو سنے اور بار بار سنے تو شاید بات دل میں اترجائے اور دل کا زنگ دور ہوجائے۔ ایک مقام پر فرمایا ، ترجمہاس میں اس شخص کیلئے نصیحت ہے جو دل (آگاہ ) رکھتا ہے یا دل سے متوجہ ہوکر سنتا ہے۔ (50۔37)
سور الجمعہ میں نماز جمعہ کی اہمیت کے ضمن میں جہاں خصوصی حکم آیا ہے وہاں خطبہ جمعہ کیلئے ذکراللہ کا لفظ ہے جس کی مزید وضاحت احادیث مبارکہ میں آئی ہے۔چنانچہ سنن ابو دائو میں ہے رسول اکرم ہر جمعہ میں سورہ ق کا خطبہ دیا کرتے تھے۔امام نووی نے شرح مسلم میں نبی اکرم کے خطبہ جمعہ کی شان یہی بیا ن کی ہے۔رسول اکرم قرآن پڑھتے تھے اور لوگوں کو نصیحت کرتے تھے۔یعنی جمعہ کے2خطبے دراصل قرآن مجید ہی کے تذکرے سے لبریز 2 مختصر تقریروں کا نام ہیں جس کی وجہ سے قرآن خطبہ جمعہ کو بطور حال ذکر اللہ کہہ رہا ہے کہ خطبہ جمعہ کا مزاج اللہ کے ذکر یعنی قرآن پر مبنی ہونا چاہئے۔
سورہ حدید آیت 167میں قیامت کے دن اہل ایمان کے جنت میں کامیابی سے داخلے اور منافقین کے محروم رہنے اور کفارکے ساتھ انجام بد میں شریک ہوکر جہنم میں داخلے کا ذکر وضاحت کے ساتھ ہے ۔ اب اس مرض سے بچائو کی تدبیر او ر علاج کی صورت توبہ ہے کہ تمہارے دل اب بھی اللہ کی طرف رجوع کریں ، توبہ کریں اور دیگر اہل ایمان کی طرح اللہ تعالی نے جو قرآن مجید یا ذکراتارا ہے اس کے مندرجات کی طرف آکر آمادئہ عمل ہوجائیں تو تمہارے لئے بھی اعلی درجات کے دروازے کھلے ہیں۔سورہ طہ میں حضرت آدم کی تخلیق اور زمین پر تشریف آوری کا تذکرہ فرماتے ہوئے اللہ تعالی نے ہدایت انسانی کیلئے آسمانی ہدایت اور وحی کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ترجمہپھر اگر میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اورقیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔ (20۔124۔123) ۔
The post اللہ کا ذکر appeared first on Global Current News.
from Global Current News https://ift.tt/2TJNiFm
via IFTTT
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔