جمعہ، 12 اپریل، 2019

رشوت کی تباہکاریاں (بی بی سی رپورٹ )

0 comments

مفتی محمد وقاص رفیع
رشوت بد عنوانی کی ایک خاص قسم ہے جس میں پیسے یا تحفہ دینے سے وصول کنندہ کا طرزِ عمل تبدیل ہوتا ہے۔ رشوت کو جُرم سمجھا جاتا ہے۔ قانونی لغتی معنوں میں کسی سرکاری افسر یا کسی عوامی یا قانونی امور کے مجاز کے عمل کو متاثر کرنے کیلئے کسی قدر کی شے کی پیشکش، دینا، وصولی یا مانگنا رشوت کہلاتا ہے۔ رشوت کا مقصد وصول کنندہ کے اعمال پر اثر انداز ہونا ہوتا ہے۔ رشوت پیسہ، چیز، جائیداد، ترجیح، استحقاق، معاوضہ، قدر کی شے، فائدہ یا محض کسی سرکاری یا عوامی اہلکار کے عمل یا ووٹ پر اثر انداز ہونے یا ترغیب دینے کا وعدہ یا عہد، کسی بھی شکل میں دی جا سکتی ہے۔
آج جبکہ زمانہ بہت تیزی کے ساتھ ترقی کررہا ہے اورآئے دن نت نئی ایجادات سامنے آرہی ہیں،ایسے میں رشوت کی کسی خاص شکل و صورت کو متعین نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی صرف کاغذکے چندنوٹوں کے لین دین کو رشوت کا نام دیا جاسکتا ہے بلکہ زمانہ اورحیثیت کے اعتبار سے رشوت کی شکلیں بھی مختلف ہو تی رہتی ہیں۔ چنانچہ اگرکوئی عام آدمی کسی کلرک کورشوت دیتاہے تووہ وہ چندنوٹوں کی شکل میں ہوتی ہے،لیکن اگریہی رشوت کوئی خاص آدمی کسی بڑے عہدیدار، مثلاً وزیریاکسی بڑے صاحبِ منصب کو دیتاہے تووہ کبھی بنگلہ، موٹر کار یا پھرکسی بیرون ملک کے سیاحتی ٹکٹ وغیرہ کی شکل میں ہوجسے وہ ہدیہ یانذرانہ کا نام دیتاہے، لیکن حقیقت میں وہ رشوت کی ترقی یافتہ شکل ہوتی ہے، اس لئے صرف کاغذکے چند نوٹوں کے لین دین ہی کو رشوت کا نام نہیں دے سکتے ،بلکہ اس کے علاوہ بھی ہروہ شے جواپنے جائز یا ناجائز مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے کسی اہل منصب کودی جائے رشوت کہلائے گی ۔ چنانچہ علامہ محمد طاہر پٹنیؒ رشوت کے بارے میںکہتے ہیںکہ اگر کوئی شخص اپنی باطل غرض اورناحق مطالبے کو پورا کرنے کیلئے کسی ذی اختیار یا کارپردازشخص کوکچھ دے تو وہ رشوت کہلاتا ہے ۔ (مجمع البحار)
رشوت کی مذمت پر قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ترجمہ ’’ اور آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے نہ کھائو اور نہ مال کو حاکموں کے پاس رشوت کے طور پر اس غرض سے پہنچائو کہ لوگوں کے مال میں سے تھوڑا بہت (جو کچھ ہاتھ لگے) اس کو جان بوجھ کر جائز طور پر کھائو۔‘‘ایک دوسری جگہ ارشاد ہے: ترجمہ’’ (اے پیغمبر) یہ لوگ جھوٹے سننے والے اور حرام مال (رشوت) کھانے والے ہیں۔‘‘ایک اور جگہ ارشاد ہے ’’اور تم دیکھتے ہو کہ ان میں سے بکثرت لوگ گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں تگ و دو کرتے پھرتے ہیں اور مال حرام کھانے میں تیزگام ہیں۔ (افسوس ان کے ایمانی دعویٰ پر) کیا ہی برے کام ہیں جو شب و روز کررہے ہیں ۔‘‘
اسی طرح احادیث نبویہ میں حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں ’’رشوت لینے والے اوردینے والے پراللہ تعالیٰ کی لعنت برستی ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)ایک دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں دوزخ میں جائیں گے۔‘‘ ( معجم طبرانی) ایک جگہ ارشاد ہے ’’جو بھی گوشت پوست ’’مالِ سُحت‘‘ (مال رشوت ) سے بڑھتا اور پروان چڑھاتا ہے اُس کیلئے دوزخ کی آگ ہی زیادہ موزوں ہے۔‘‘ایک اورجگہ ارشاد ہے ’’ گوشت کا جو پارہ’’ سُحت‘‘ سے پروان چڑھے وہ جنت میں ہرگز داخل نہ ہوگا۔‘‘ ام المومنین حضرت ام سلمہؓبیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’ ’ہوسکتا ہے کہ تم ایک مقدمہ میرے پاس لائو اور تم میں سے ایک کاذب فریق دوسرے کی بہ نسبت زیادہ شیریں کلام اور چرب زبان ہو اور اس کے دلائل سن کر میں اُس کے حق میں فیصلہ کردوں مگر یہ سمجھ لو کہ اگر اس طرح اپنے کسی بھائی کے حق میں سے کوئی چیز تم نے میرے فیصلہ کے ذریعے سے حاصل کی تو دراصل تم دوزخ کا ایک ٹکڑا حاصل کروگے۔‘‘ (بخاری و مسلم) حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور امام ابو دائودؒ نے حضرت عمرؓ سے نقل کیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فیصلہ کرنے کے سلسلے میں رشوت لینے اور دینے والے پر لعنت فرمائی۔ (ترمذی، احمد ، ابن حبان) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے فیصلے کے سلسلے میں رشوت لینے اور دینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘(سنن ابن ماجہ)
اسلام کی نظرمیں جس طرح رشوت لینے اوردینے والاملعون اوردوزخی ہے، اسی طرح اس معاملے کی دلالی کرنے والابھی ملعون ہے۔چنانچہ حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رشوت لینے اوردینے والے اوررشوت کی دلالی کرنے والے سب پرلعنت فرمائی ہے۔ (احمدو طبرانی ) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ تویہاں تک کہتے ہیں کہ قاضی کاکسی سے رشوت لے کراس کے حق میں فیصلہ کرناکفرکے برابرہے،اورعام لوگوں کاایک دوسرے سے رشوت لینا’’سُحت‘‘یعنی حرام کمائی ہے۔(طبرانی)
امام ابوسلیمان خطابیؒ بیان کرتے ہیں کہ رشوت لینے اوردینے والے دونوں شخص گناہ وسزاکے مستحق اس وقت ہوں گے،جبکہ دونوں کامقصدباطل اورناحق کی حمایت کرناہو،کسی پرظلم کرنا یاکراناہویاشرعی حکم کی پامالی ہو،مثلاًایک شخص جس کاایک چیزمیں شرعاًکوئی حق نہیں بنتا،وہ صاحبِ اختیارکورشوت دے کراپنے حق میں فیصلہ کرالیتاہے یاایک چیزکسی شخص کی ملکیت یااس کاحق ہے،اس کے پاس ثبوت بھی ہیں ، جواس نے فراہم کردئیے، مگر دوسرا شخص رشوت کے زور پر صاحبِ اختیارسے اس کیخلاف فیصلہ کرا لیتا ہے ، تاکہ حق دار کو اس کاحق نہ مل سکے،مذکورہ حدیث کی روشنی میں یہ رشوت دینا بلاشبہ لعنت کاسبب ہے۔
علامہ سیدسلیمان ندویؒ نے اسلام سے قبل زمانۂ جاہلیت میں رشوت کے چلن پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھاہے کہ عرب کے کاہن اپنی مفروضہ غیبی طاقت کی بناء پربعض مقدموں کے فیصلے کرتے تھے،اہل غرض ان کواس کیلئے مزدوری یارشوت کے طورپرکچھ نذرانہ دیتے تھے،اس کوحلوان (مٹھائی) کہتے تھے،اسلام آیاتواوہام کایہ دفترہی اڑگیا،اس پر بھی آنحضرت ؐ نے کاہن کے حلوان کی خاص طور سے ممانعت فرمائی ۔ (ترمذی)
رشوت انسانی معاشرے کیلئے ایک ایسا رستا ہوا ناسور اور مہلک مرض ہے جو اُسے موت کی دہلیز پر لاکر کھڑا کرتا ہے اور اُس کے امن وامان اور راحت و سکون کو اختلاف و افتراق اور انتشار و خلفشار میں بدل دیتا ہے، جس کی وجہ سے معاشرتی زندگی میں اخوت ، محبت اور ہمدردی و بھائی چارگی کے رشتے ٹوٹنے لگتے ہیں اور اُن کی جگہ بغض ، نفرت اور عداوت کے کانٹے اگنے لگتے ہیں، جس میں معاشرے کا امن و سکون بہت بری طرح سے اُلجھ کر تار تار ہوجاتا ہے۔
٭…٭…٭

The post رشوت کی تباہکاریاں appeared first on Global Current News.



from Global Current News http://bit.ly/2X5bzrv
via IFTTT

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔