دین اسلام سے پہلے یہ رواج چلا آ رہا تھا کہ جنگ کی صورت میں فاتح مفتوح کے تمام جنگی قیدیوں کو غلام بنا لیا کرتا تھا اور اس سے نہایت ہی غیر انسانی سلوک کیا کرتا تھا۔ نہ صرف فوجیوں کو بلکہ ان کے ساتھ ساتھ مفتوحہ ممالک کے عام لوگوں کو بھی غلام بنا لیا جاتا تھا۔ بین الاقوامی قانون کے تحت، 1950ء میں جنیوا کنونشن کے نافذ ہونے تک یہ سلوک جائز اور درست سمجھا جاتا تھا۔ جنیوا کنونشن سے تیرہ سو برس پہلے ہی قرآن مجید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی مکی زندگی ہی میں جنگی قیدیوں سے انسانی سلوک کرنے کی تلقین فرمائی۔
(نیک لوگ وہ ہیں جو) اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہم تو تمہیں صرف اللہ کی رضا کے لئے کھانا کھلاتے ہیں۔ ہم اس پر تمہاری طرف سے کسی اجر یا شکر گزاری کے طالب بھی نہیں ہیں۔(الدهر 76:8-9)
مسلمانوں کی پہلی باقاعدہ جنگ، جنگ بدر کے موقع پر جنگی قیدیوں سے متعلق یہ قانون بیان کر دیا گیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
جب تمہارا انکار کرنے والوں سے مقابلہ ہو تو ان کی گردنوں پر ضرب لگاؤ، یہاں تک کہ جب تم انہیں قتل (کر کے شکست دے) چکو تو انہیں مضبوطی سے باندھ لو۔ (اس کے بعد ان جنگی قیدیوں کو) بطور احسان رہا کر دو یا پھر فدیہ لے کر چھوڑ دو۔ یہ سب معاملہ اس وقت تک ہو جب تک لڑنے والے اپنے ہتھیار نہ رکھ دیں۔(محمد 47:4)
اس آیت میں جنگی قیدیوں کے ساتھ دو ہی معاملات کرنے کا حکم دیا گیا۔ ایک تو یہ کہ انہیں بطور احسان رہا کر دیا جائے اور دوسرے یہ کہ انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی تمام جنگوں کا اگر تفصیل سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کے بین الاقوامی جنگی قانون کے تحت بسا اوقات دشمن کے جنگی قیدیوں کو غلام بنایا گیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ذاتی طور پر کوشش کر کے انہیں غلامی سے نجات دلائی۔ بسا اوقات آپ نے خود فدیہ ادا کر کے دشمن کے جنگی قیدیوں کو رہائی عطا فرمائی۔ بعض اوقات آپ نے دشمن ہی کی کسی خاتون سے سسرالی رشتہ قائم کر کے مسلمانوں کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ ان جنگی قیدیوں کو آزاد کر دیں اور بعض اوقات آپ نے ذاتی طور پر ترغیب دلا کر ان قیدیوں کو غلامی سے بچایا۔
اسلام کا قانون یہ قرار پایا کہ جو لوگ جنگ میں گرفتار ہوں ان کو یا تو احسان کے طور پر رہا کر دیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑا جائے یا دشمن کے مسلمان قیدیوں سے ان کا مبادلہ کر لیا جائے۔ لیکن اگر یونہی رہا کر دینا جنگی مصالح کے خلاف ہو، اور فدیہ وصول نہ ہو سکے، اور دشمن اسیران جنگ کا مبادلہ کرنے پر بھی رضامند نہ ہو تو مسلمانوں کو حق ہے کہ انہیں غلام بنا کر رکھیں۔ البتہ اس قسم کے غلاموں کے ساتھ انتہائی حسن سلوک اور رحمت و رافت کے برتاؤ کا حکم دیا گیا ہے، ان کو تعلیم و تربیت دینے اور انہیں سوسائئی کے عمدہ افراد بنانے کی ہدایت کی گئی ہے اور مختلف صورتیں ان کی رہائی کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔ (سید ابو الاعلی مودودی، تفہیمات، جلد دوم)
جنگ نہ کرنے والے غیر مسلموں کو غلام بنانے کی ممانعت
ایسے غیر مسلم جو مسلمانوں سے جنگ نہیں کرتے، اسلام میں انہیں قطعی طور پر غلام بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ قدیم عرب میں دنیا کے بین الاقوامی قانون کے تحت فاتح مفتوح کے جنگی قیدیوں کو غلام بنا لیا کرتا تھا۔ ان جنگی قیدیوں میں فوجی بھی شامل ہوتے تھے اور عوام بھی۔ اسلام نے ان لوگوں کے خلاف قطعی طور پر کسی بھی کاروائی کو حرام قرار دیا ہے جو جنگ میں شریک نہیں ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور خلفاء راشدین کے زمانے میں محدود مدت کے لئے صرف ان لوگوں کو غلام بنایا گیا جو کہ جنگ میں شریک ہوا کرتے تھے۔ غیر مقاتلین، خواہ وہ مسلمان ہوں یا نہ ہوں، کے خلاف کسی بھی قسم کی جنگی کاروائی اسلام میں متفقہ طور پر ممنوع ہے۔
(ان لوگوں سے جنگ جائز نہیں ہے) جو کسی ایسی قوم سے جا ملیں جن کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے۔ اسی طرح ان لوگوں کے ساتھ جنگ بھی جائز نہیں ہے جو تمہارے پاس آتے ہیں لیکن وہ لڑائی سے دل برداشتہ ہیں، نہ تم سے لڑنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اپنی قوم سے۔ اگر اللہ چاہتا تو انہیں تم پر مسلط کر دیتا اور وہ بھی تم سے جنگ کرتے۔ اگر وہ تم سے کنارہ کش ہو جائیں اور جنگ سے باز رہیں اور تمہاری طرف صلح کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ نے تمہارے لئے ان پر دست درازی کا کوئی راستہ کھلا نہیں رکھا ہے۔(النساء 4:90)
حدثنا قيس بن حفص: حدثنا عبد الواحد: حدثنا الحسن: حدثنا مجاهد، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (من قتل نفساً معاهداً لم يُرح رائحة الجنة، وإن ريحها ليوجد من مسيرة أربعين عاماً). (بخاري، كتاب الديات، حديث 6914)
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، “جس کسی نے معاہدے میں شریک کسی فرد کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو نہ پا سکے گا اگرچہ اس کی خوشبو (اتنی ہے) کہ چالیس سال سفر کے فاصلے سے بھی آ جاتی ہے۔
حدثنا أحمد بن يونس: أخبرنا الليث، عن نافع: أن عبد الله رضي الله عنه أخبره: أن امرأة وجدت في بعض مغازي النبي صلى الله عليه وسلم مقتولة، فأنكر رسول الله صلى الله عليه وسلم قتل النساء والصبيان. (بخاري، كتاب الجهاد، حديث 3014)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک جنگ میں نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے دیکھا کہ ایک عورت قتل ہوئی پڑی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جنگ میں خواتین اور بچوں کو قتل کرنے سے (سختی سے) منع فرما دیا۔
حمید بن زنجویہ نے کتاب الاموال میں ایک تفصیلی باب قائم کیا ہے جس کا عنوان ہے “باب الحکم رقاب اھل الصلح و ھل یحل سباؤھم ام ھم احرار؟” اس کا معنی ہے کہ “اہل صلح کو غلام بنانے کا حکم اور کیا انہیں غلام بنانا جائز ہے یا وہ آزاد ہیں؟” اس باب میں انہوں نے تفصیل سے بہت سی احادیث و آثار اکٹھے کئے ہیں جن کے مطابق، وہ لوگ جو جنگ میں شریک نہیں ہیں، انہیں غلام بنانا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔
انہوں نے دور صحابہ و تابعین کا یہ متفق اور جاری عمل (سنت) بیان کیا ہے کہ غیر مقاتلین کو قطعی طور پر غلام نہیں بنایا جاتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بعض اھل صلح کو غلطی سے قید کر لیا گیا تو انہوں نے ان سب کو آزاد کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح بنو امیہ کے دور میں بعض بربروں کو غلام بنا لیا گیا تھا۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے خلیفہ بنتے ہی ان سب کو آزاد کرنے کا حکم دیا۔
اس معاملے میں مسلمانوں کے اہل علم میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔
عہد رسالت میں متحارب قوتیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے جنگ کرنے والے چارطرح کے تھے:
· قریش مکہ: یہ وہ لوگ تھے جن کے سامنے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے دین اور انسانیت کی دعوت پیش کی۔ انہوں نے نہ صرف اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اس دعوت کی راہ میں شدید روڑے اٹکائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جب مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کی تو یہ اب بھی باز نہ آئے اور طرح طرح سے مدینہ میں مسلمانوں کو تنگ کرنے لگے۔
· عرب کے یہود: مدینہ میں جو یہودی آباد تھے، میثاق مدینہ کے تحت وہ اسلامی حکومت کے شہری قرار پائے تھے۔ مسلمانوں اور ان کے درمیان معاہدہ تھا کہ کسی ایک فریق پر کسی بھی حملے کی صورت میں وہ مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ اس معاہدے کے تحت یہود کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کر دی گئی تھی۔ جب اہل مکہ نے مسلمانوں پر مختلف حملے کئے تو انہوں نے بجائے مسلمانوں کا ساتھ دینے کے الٹا ان کے خلاف سازشیں کیں۔ اس جرم کی پاداش میں انہیں مدینہ سے جلاوطن کیا گیا تو یہ خیبر میں جا کر آباد ہو گئے اور وہاں قلعہ بند ہو کر مدینہ پر حملے کی تیاری کرنے لگے۔
· لوٹ مار کرنے والے وحشی عرب قبائل: عرب کے اطراف میں ایسے قبائل بکھرے ہوئے تھے جن کا پیشہ ہی لوٹ مار کرنا تھا۔ چونکہ مدینہ ایک زرعی علاقہ تھا اور یہاں زرعی پیداوار کے علاوہ جانوروں کی چراگاہیں بھی تھیں، اس وجہ سے مدینہ ان لوگوں کا خاص ہدف تھا۔ مدینہ کی ریاست سے انہیں یہ خطرہ لاحق تھا کہ اگر یہ ریاست مضبوط بنیادوں پر مستحکم ہو گئی تو انہیں لوٹ مار کا پیشہ ترک کرنا پڑے گا۔ اس وجہ سے یہ لوگ مدینہ پر بار بار حملہ آور ہونے کی منصوبہ بندی کرتے رہے۔
· سلطنت روم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اسلام کی دعوت قیصر روم، ہرقل (Herculeas) کے سامنے بھی رکھی۔ ہرقل ایک صاحب علم بادشاہ تھا۔ اس نے قریش مکہ کے وفد سے حضور کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اس نے اپنے ماتحت حبشہ کےبادشاہ نجاشی کے اسلام قبول کر لینے پر بھی ان سے کوئی تعرض نہ کیا۔ اس حقیقت کو پہچاننے کے باوجود ہرقل، اپنے ساتھیوں اور مذہبی علماء کے دباؤ پر، آپ سے جنگ کرنے پر تیار ہو گیا۔ رومی افواج کی ایک بڑی جنگ مسلمانوں کے ایک گروہ سے موتہ کے مقام پر ہوئی۔ جنگ تبوک میں ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی بذات خود آمد کا سن کر مقابلہ کرنے سے پہلوتہی کی کیونکہ اہل کتاب ہونے کے ناتے اسے یہ علم تھا کہ خدا کے رسول کے سامنے کوئی فوج ٹھہر نہیں سکتی۔
عہد رسالت میں جنگی قیدی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے دس سال کے عرصے میں ان چاروں گروہوں سے جنگ کرنے کے لئے 72 سے زائد مہمات روانہ کیں۔ اگر ان تمام جنگوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جنگی قیدیوں کے ساتھ یہی دو معاملات کئے۔ اس کے علاوہ بسا اوقات آپ کے زمانے میں جنگی قیدیوں کو غلام بھی بنایا گیا لیکن سیرت طیبہ کو اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے ایسے واقعات محض استثنائی حیثیت رکھتے ہیں۔
جن جنگی قیدیوں کو غلام بنایا گیا، انہیں بھی ہمیشہ کے لئے غلام نہیں بنایا گیا بلکہ ان کی حیثیت قیدیوں کی سی تھی۔ قیدیوں کو سرکاری جیل میں رکھنے کی بجائے مختلف افراد کے حوالے کر دینے کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں عرب معاشرے میں جیل کا ادارہ معرض وجود میں نہیں آیا تھا۔ یہی وجہ تھی قیدیوں کو ایک جگہ رکھنے کی بجائے مختلف افراد کی تحویل میں دے دیا جاتا۔ یہ افراد ان قیدیوں کے ساتھ اس طرح سے معاملہ کرتے:
· دوران قید، قیدیوں کی ہر بنیادی ضرورت کا خیال رکھا جاتا۔ قیدیوں کے ورثا سے رابطہ کر کے ان سے فدیہ وصول کیا جاتا اور قیدیوں کو رہا کر دیا جاتا۔
· قیدیوں سے کچھ عرصہ خدمت لینے کے بعد انہیں رہا کر دیا جاتا۔
· دوران قید، قیدیوں کی اخلاقی تربیت کی جاتی۔ انہیں اسلام کی تعلیمات سے روشناس کروایا جاتا۔ اگر کوئی قیدی اسلام قبول کر لیتا تو اسے فوراً آزاد کر دیا جاتا۔
· سرکاری سطح پر ان قیدیوں کے بدلے، دشمن کی قید میں موجود مسلمان قیدیوں کا تبادلہ کر لیا جاتا۔
· ان قیدیوں کو وہی انسانی حقوق فراہم کئے جاتے تھے جن کی تلقین اسلام نے غلاموں اور زیر دستوں سے متعلق کی تھی۔
· قیدیوں کو اپنی گرفتاری کے فوراً بعد مکاتبت کا حق حاصل ہوتا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے واضح طور پر یہ تلقین فرما دی تھی کہ دشمن کے جو افراد جنگ میں حصہ نہ لیں، ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے۔ اس دور میں عام رواج تھا کہ خواتین بھی فوج کے ساتھ آیا کرتی تھیں۔ ایک طرف وہ شعر و نغمہ کے ذریعے اپنے سپاہیوں کے حوصلے بڑھاتیں اور دوسری طرف زخمیوں کی خبرگیری کرتیں۔
ایسی خواتین جنگ میں براہ راست شریک ہوا کرتی تھیں۔ ان کے ساتھ پوری دنیا میں یہ معاملہ کیا جاتا تھا کہ انہیں گرفتار کر کے طوائف بنا دیا جاتا تھا۔ اسلام میں چونکہ قحبہ گری کی مکمل ممانعت موجود ہے، اس وجہ سے اگر ایسی خواتین جنگی قیدی بنائی جاتیں تو انہیں مسلم معاشرے میں جذب کرنے کا یہ طریق کار وضع کیا گیا کہ انہیں مختلف افراد کی تحویل میں دے کر ان کے خاندان کا حصہ بنا دیا جاتا اور کچھ عرصے میں یہ مسلم معاشرے کا حصہ بن کر آزاد ہو جایا کرتی تھیں۔
پچھلے ابواب میں ہم تفصیل سے بیان کر چکے ہیں کہ اس خاتون کو کم و بیش وہی حقوق حاصل ہوا کرتے تھے جو اس شخص کی آزاد بیوی کو حاصل ہوتے تھے۔ ایسی خواتین کو اگر اپنا آقا پسند نہ ہوتا تو انہیں یہ سہولت حاصل تھی کہ یہ فوری طور پر مکاتبت یا سرکاری مدد کے ذریعے اس سے نجات حاصل کر سکتی تھیں۔
ان خواتین کو فوری طور پر آزاد نہ کرنے کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ بہرحال یہ خواتین دشمن فوج سے تعلق رکھتی تھیں اور ان کے شوہر اور بھائی وغیرہ جنگ میں مارے جا چکے ہوتے تھے۔ ان خواتین کو مسلم معاشرے سے فوری طور پر کوئی ہمدردی بھی نہ ہوا کرتی تھی۔ انہیں فوری طور پر آزاد کر دینے کا نتیجہ یہی نکلتا کہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے انہیں عصمت فروشی کا سہارا لینا پڑتا جس کا نتیجہ معاشرے کی اخلاقی تباہی کے سوا اور کچھ نہ نکل سکتا تھا۔ اس کی بجائے ان کے لئے باعزت راستہ یہ نکالا گیا کہ انہیں مختلف افراد کی ذرا کم درجے ہی کی سہی لیکن بیوی بنا دیا جاتا اور کچھ ہی عرصے میں جب یہ مسلم معاشرے کا حصہ بن جاتیں تو انہیں ام ولد، مکاتبت اور سرکاری امداد کے قوانین کے تحت آزاد کر دیا جاتا۔
مسلم معاشروں کے برعکس دیگر معاشروں میں یہ طریق کار اختیار کیا گیا تھا کہ جنگ میں حاصل ہونے والی خواتین کو لونڈی بنا کر عصمت فروشی پر مجبور کر دیا جاتا اور انہیں اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ آقا کو بھی ایک طے شدہ رقم فراہم کرنا پڑتی۔ اسلام نے اس کے برعکس ان کی عفت و عصمت کو برقرار رکھنے کا طریقہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں بے شمار خواتین کو آزادی نصیب ہوئی۔
from Global Current News https://ift.tt/2XqSTUa
via IFTTT
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔