لاہور،اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک،اے پی پی) وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ ہمارے فیصلوں سے قومی معیشت آئی سی یو سے نکل آئی ، معیشت کا بحرانی مرحلہ ختم ہو گیا ہے، زرمبادلہ جس تیزی سے باہر جا رہا تھا اس پر قابو پا لیا ہے۔نظام حکومت چلانے اور ترقیاتی اخراجات تو دور کی بات ہے اس وقت صرف سود کی ادائیگی کیلئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ترقی میں بنگلہ دیش اور افریقی ممالک بھی ہم سے آگے نکل گئے ،ہم صرف یہی پوچھتے رہے کہ کل کیا کرنا ہے ، برادرانہ مشورہ ہے کہ ایمنسٹی سکیم سے فا ئدہ اٹھالیں بعد میں گلہ نہ کر یں ، سود کی ادائیگی کے لیے 800 ارب سے زیادہ قرض لیا گیا، ہم خطرناک حد سے بھی آگے چلے گئے،ٹیکس کا نظام آسان بنائیں گے ، اتنے سوال رشتے کے وقت لڑکی والے نہیں کرتے جتنے ایف بی آر پو چھتا ہے۔پیر کووسط مدتی اقتصادی فریم ورک کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے وزیر خزانہ اسدعمر نے کہا کہ فریم ورک دستاویزمیں اس بات کا احاطہ کیا گیا ہے کہ آئندہ چار، پانچ سالوں میں ہم نے معیشت کو کس طرح آگے لے کر جانا ہے، فی الوقت فریم ورک میں اعداد و شمار نہیں دیئے گئے کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہماری بات چیت آخری مراحل میں ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ تمام تر تفصیلات طے ہونے کے بعد اعداد و شمار بھی جاری کئے جائیں گے۔اس دستاویز کے اندر آپ کو اعدادو شمار نظر نہیں حکمت عملی دکھائی دے گی۔یہ فریم ورک آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر ہو چکا ہے۔ترجیحات میں ان کا مشورہ بھی شامل ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت کے بڑے لمبے چوڑے درس دیئے جاتے ہیں لیکن مجھے عملی طور پر جمہوریت پر یقین کم نظر آتاہے،ہم یقین رکھتے ہیں کہ ایک حقیقی جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کی اہمیت اور اس کا ایک خصوصی رول ہے ۔قوم کے بڑے فیصلے پارلیمان کے اندر کئے جائیں ، ہم سمجھتے ہیں کہ پارلیمان کوہی اقتصادی اور دیگر فیصلوں کا مرکز ہونا چاہیے، اس مقصد کیلئے اس دستاویز کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھی ارسال کیا جا رہا ہے تاکہ ان سے بات چیت اور مشاورت ہو اور ان کی ان پٹ کے بعد اس کو حتمی شکل دی جا سکے۔ تحریک انصاف کی حکومت ملکی معیشت کے فیصلے آنے والے انتخابات نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے کر رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کی معیشت کے 3 بنیادی مسائل ہیں، میڈیا میں یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ اس میں عوام کی دلچسپی کی کیا چیز ہے ؟عوام کی دلچسپی کی چیز ہے روزگار۔عوام کی دلچسپی کی چیز ہے مہنگائی ،عوام کی دلچسپی کی چیز یہ ہے کہ ایک عام آدمی یہ سمجھے کہ اس کے بچوں کی زندگی اس سے بہتر نظر آئے ،دنیا میں سب ایک ایک کر کے ہم سے آگے چلے گئے اور ہم صرف یہی پوچھتے رہ گئے کہ کل کیا کرنا ہے کیونکہ ہم اس کام کو کرنے کو تیار نہیں ہیں جس کا فائدہ آج سے 3 سال یا 5 سال یا 20 یا30 سال بعد نظر آئے، اگر ہم صرف نیوز سائیکل یاصرف الیکشن سائیکل کے لئے معیشت کے فیصلے کریں گےتو پاکستان کا جو پوٹینشل اور پاکستانیوں کا جو حق ہے ہمیں حاصل نہیں ہوگا،حکومت اتنا پیسہ جمع نہیں کرسکتی جو ملک کی ترقی اور حکومت کے کاروبار کیلئے درکار ہے، پاکستان کی برآمدات اتنا زر مبادلہ کمانے کے لئے ناکافی ہیں جس سے ہم درآمدات کے پیسے نہیں دے سکتے۔ہم اتنی بچت نہیں کرسکتے جس سے سرمایہ کاری کی جاسکے اور معیشت کی ترقی کی رفتار تیز کی جاسکے، ہمارا سفر اگست 2018 میں شروع ہوا ، ہمیں جن فوری فیصلوں کی ضرورت تھی وہ یہ نہیں تھے جن سے اس سفر کا آغاز کروں اور طویل اور پائیدار معاشی شرح نمو و ترقی کی طرف جاسکوں ، ہمیں اس وقت آئی سی یو میں جو مریض(قومی معیشت) ملا تھااس کا آپریشن کر کے اس کی جان بچانی تھی اور کم سے کم وقت میں اسے نارمل وارڈ کے اندر لے کر آنا تھا،الحمد للہ وہ فیصلے بھی ہو گئے ۔معیشت کے بڑے بڑے ماہرین نے کچھ نے ڈرانے کے لئے اور کچھ نے نیک نیتی سے کہا کہ فوری طور پر آئی ایم ایف کے پاس نہ گئے تو نہیں بچ سکتے لیکن قوم اور دنیا نے دیکھا ہم نے وہ فیصلے کئے ہیں ۔اس سے بہتری آئی ہے ،آئی سی یو سے مریض (قومی معیشت)نکل آیا ہے اور اب پاکستان کی معیشت کا بحرانی مرحلہ ختم ہو گیا ہے،ابھی استحکام کے مرحلے میں ہیں، آسان الفاظ میں یہ کہوں گا کہ میرے ہاتھ میں جو چیز بچی تھی جو زرمبادلہ بچا تھاوہ اتنی تیزی سے نکل رہا تھا کہ مجھے اس کو روکنے کے لئے اپنی مٹھی بہت سختی سے بند کرنی پڑی، اب بحران کا مرحلہ ختم ہونے کے بعد ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ آہستہ آہستہ اس مٹھی کو کھولا جائے لیکن ابھی بھی اگلا ڈیڑھ سال ہم معیشت کے استحکام کے مرحلے سے گزریں گے، اسوقت صورتحال یہ ہے کہ حکومت پاکستان کو کار حکومت چلانے کے لئے جو پیسہ چاہیے وہ تو دور کی بات ،جو ملک کے دفاع کے لئے پیسہ چاہیے وہ دور کی بات ہے جو پیسہ ترقیاتی اخراجات کے لئے چاہئے وہ دور کی بات ہے ہم تو سود ادا کرنے کے لئے قرضے لے رہے ہیں ،معاشی زبان میں اسے ابتدائی خسارہ کہتے ہیں اور پاکستان کا ابتدائی خسارہ منفی ہوچکا ہے۔ پچھلے سال یہ منفی دو اعشاریہ دو تھا،یعنی 800ارب سے زیادہ قرضے صرف سود کی ادائیگی کے لئے لئے گئے ہیں ،یہ خطرناک حد سے بھی آگے چلے گئے ہیں۔ ایف بی آر نے ریونیو پر زیادہ توجہ دی اور معیشت کی ترقی کی رفتار پر کمپرومائز کردیاجبکہ معیشت ترقی کرے گی تو اس سے ریونیو بڑھیں گے۔آپ ڈنڈے مار کر پیسے جمع کرسکتے ہیں لیکن جب تک ہائی گروتھ کا ماحول پیدا نہیں ہوگا معیشت نمو نہیں کرے گی ،ٹیکس اصلاحات میں ایڈمنسٹریشن آف پالیسی کو الگ کرنا بہت ضروری ہے، ٹیکس پالیسی یونٹ الگ بن رہا ہے اس کے اندر ماہرین لائے جا رہے ہیں، اس وقت مصنوعی ذہانت کی دنیا ہے ۔ڈیٹا اور بگ دیٹا کی دنیا ہے ۔ٹیکنالوجی کا استعمال ضروری ہے ، ایف بی آر میں ٹیکنالوجی بیک گراؤنڈ کے لوگوں کو شامل کیا ہے ،ان کا کنکشن نادرا کے ساتھ کیا ہے قانون میں ترامیم کی ہیں ۔ڈیٹا نادرا اور ورلڈ بینک کے ساتھ شیئر کیا جا چکا ہے ۔انہوں نے کہاکہ معذرت کے ساتھ کہتا ہوں کہ ٹیکس کوئی نہیں دینا چاہتا،میں صرف پاکستان کی بات نہیں کررہا، دنیا کی بات کر رہا ہوں امریکہ میں کہتے ہیں دو چیزوں سے کوئی بھاگ نہیں سکتا ایک موت اور دوسر ان کی ٹیکس ریونیو سروس،ٹیکس نظام میں آسانی پیدا کریں گے، اتنے سوال تو بیٹی کا رشتہ کرتے وقت بھی نہیں پوچھتے جتنے ایف بی آر پوچھتا ہے، مثال کے طور پر یہ بتائیں مئی 2017 میں بجلی کا بل کتنا دیا تھا،کے الیکٹرک سے جا کے پوچھو، لوگوں کی زندگی کیوں مشکل کرتے ہو،اس بجٹ کے اندر سادہ اور آسان ٹیکس سسٹم دیں گے،ٹیکس جمع کرانے کا طریقہ پہلے سے آسان ہوگا۔سرکاری شعبہ میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کا عمل جاری رہے گا ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ایکسچینج ریٹ ملکی ترقی کا پیمانہ نہیں ہے، ایک زمانہ میں پاکستان کی کرنسی کی قدر جاپانی کرنسی سے زیادہ تھی لیکن جاپان کی فی کس آمدنی پاکستان سے کہیں زیادہ تھی، ماضی میں مصنوعی طریقہ سے روپے کی قدر برقرار رکھی گئی جس سے مسائل پیدا ہوتے گئے،وسط مدتی اقتصادی فریم ورک کے اطلاق اور عملدرآمد کے نتیجہ میں روزگار کے زیادہ مواقع پیدا ہوں گے، ہاؤسنگ اور ٹورازم کی صنعت کو فروغ حاصل ہو گا، افراط زر اور غربت میں کمی آ جائے گی جبکہ 40 ارب ڈالر برآمدات کا ہدف بھی حاصل ہو گا۔ انہوں نے کہاکہ ایمنسٹی سکیم لا رہے ہیں، برادرانہ مشورہ ہے کہ ایمنسٹی سکیم سے فا ئدہ اٹھالیں بعد میں گلہ نہ کر یں، انشاء اﷲ 5سال بعد جب نیا وزیر خزانہ یہاں پر خطاب کرے گا تو اسے یہ نہیں کہنا پڑے گا کہ گزشتہ حکومتوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے اقتصادی فریم ورک دستاویز کی تیاری میں سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا، وزارت خزانہ اور ذیلی و منسلک اداروں کے اہلکاروں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس کی تیاری میں عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اقتصادی ماہرین سے بھرپورمشاورت کی گئی ہے اور ان سے فیڈ بیک حاصل کیا گیا ہے۔
The post appeared first on Global Current News.
from Global Current News http://bit.ly/2P6mcI9
via IFTTT
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔