اتوار، 7 اپریل، 2019

ماہ شعبان کی فضلیت (بی بی سی رپورٹ )

0 comments

مفتی محمد وقاص رفیع
ماہِ شعبان اسلامی تقویم کے اعتبار سے آٹھواں مہینہ کہلاتا ہے۔’’شعبان‘‘ عربی میں پھیلانے اور شاخ در شاخ ہونے کو کہتے ہیں۔ چوں کہ اِس مہینے میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نفلی روزے رکھنے اور نیک عمل کرنے والے کو شاخ در شاخ برابر بڑھنے والی نیکی اور خیر و بھلائی کا موقع میسر آتا ہے اِس لئے اِس مہینے کو ’’شعبان‘‘ کہا جاتا ہے۔
اِس ماہ میں رسول اللہ ﷺ بڑی کثرت سے نفلی روزے رکھتے اور اِس کے چاند اور تاریخوں کے یاد رکھنے کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ شعبان کے چاند (اور اس کی تاریخوں) کی حفاظت کا جتنا اہتمام فرماتے تھے اتنا کسی اور مہینے کے چاند اور تاریخوں کا اہتمام نہیں فرماتے تھے۔(سنن دار قطنی) حضرت انس بن مالکؓسے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو نبی کریم ﷺ یہ دُعامانگا کرتے ترجمہ:’’ اے اللہ! رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہمارے لئے برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا!۔‘‘ (مسند احمد) حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ؐﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ رمضان (کے صحیح حساب) کی غرض سے شعبان کے چاند ( اور اس کی تاریخوں کے حساب) کو خوب اچھی طرح محفوظ رکھا کرو!۔‘‘(مستدرک حاکم)
علامہ شلبیؒ نے لکھا ہے کہ شعبان کا چاند دیکھنے کا اہتمام کرنا واجب ہے۔ اسی طرح شعبان کی 29 تاریخ کی شام کو غروب کے وقت رمضان کا چاند دیکھنے کی کوشش کرنا واجب علیٰ الکفایہ ہے۔‘‘ (حاشیۃ الشلبی علیٰ تبیین الحقائق: 1/317)
کسی بھی مہینے کی عظمت و افضلیت کے پرکھنے کا معیار اُس میں کی جانے والی عبادات پر موقوف ہے۔ گوکہ اکثر و بیشتراسلامی مہینے اجتماعی طور پر اپنے اندر بے شمار فضائل اور خوبیاں رکھتے ہیں لیکن انفرادی طور پر ہرمہینے میں بعض ایسے مخصوص فضائل و برکات اور محاسن و انوارات پائے جاتے ہیں کہ کوئی دوسرا اسلامی مہینہ اُن کی ہم سری نہیں کرسکتا۔ چنانچہ ایک روایت میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓبیان کرتی ہیں کہ ’’ میں نے نبی اکرم ﷺ کو (رمضان کے علاوہ) کسی اور مہینہ میں شعبان کے مہینہ سے زیادہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپ ﷺکچھ دنوں کے علاوہ پورے ہی (ماہِ شعبان کے) روزے رکھتے تھے بلکہ پورے مہینے کے روزے رکھتے تھے۔‘‘ (جامع ترمذی)ایک اور روایت میں حضرت عائشہؓسے روایت ہے کہ’’ رسول اللہ ﷺ کو (نفلی) روزے رکھنے کے اعتبار سے (اور مہینوں کی بہ نسبت) شعبان کا مہینہ (سب سے) زیادہ پسند تھا، بلکہ آپؐ شعبان کے روزوں کو رمضان کے مہینے تک رکھتے تھے۔‘‘ (سنن نسائی)
حضرت انس بن مالکؓسے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ سے پوچھا گیا کہ رمضان کے بعد افضل روزہ کون سا ہے؟ تو آپﷺنے فرمایا ’’رمضان کی تعظیم و احترام کی وجہ سے شعبان کا روزہ سب سے افضل ہے۔‘‘پوچھا گیا کہ افضل صدقہ کون سا ہے ؟ تو آپ ؐنے فرمایا ’’ رمضان میں صدقہ کرنا سب سے افضل ہے۔‘‘ (جامع ترمذی)
لیکن اِس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ بعض روایات میں ایک تو پندرہ شعبان کے بعد اور دوسرے شعبان کے آخر یعنی رمضان کے شروع ہونے سے ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھنے کی ممانعت آئی ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ سرکارِ دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا’’جب شعبان کا آدھا مہینہ باقی رہ جائے تو تم روزہ نہ رکھا کرو!۔‘‘ (ترمذی)
اسی طرح شعبان کے آخر یعنی رمضان کے شروع ہونے سے ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھنے کی بعض احادیث میں ممانعت آئی ہے۔ چنانچہ حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ فخر ِدوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تم رمضان کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے روزے نہ رکھا کرو ! جب تک کہ رمضان کا چاند نہ دیکھ لیا کرو! یا شعبان کے مہینہ کے تیس دن پورے نہ کرلیا کرو! (ہاں! جب رمضان کا چاند دیکھ لیا کرو) تو رمضان المبارک کے روزے رکھنا شروع کردیا کرو! جب تک کہ شوال کا چاند نہ دیکھ لیا کرو! یا 30 دن رمضان المبارک کے پورے نہ کرلیا کرو!۔‘‘ (سنن ابو داؤد) یہ اور اِن جیسی دیگر احادیث کی روشنی میں جمہور صحابہؓ و تابعین اور فقہاء و آئمۂ مجتہدین نے بیان کیا ہے کہ شک کے دن اور29 یا 30 شعبان کو روزہ رکھنا مکروہ اور ممنوع ہے، بلکہ اگر کوئی شک کے دن رمضان کا روزہ سمجھ کر روزہ رکھے گا اور بعد میں اسی حساب کو سامنے رکھ کر شرعی اُصولوں کے بغیر29 یا 30 دن کے بعد عید منائے گا تو اس کو بعد میں اس روزہ کی قضاء کرنی پڑے گی۔ (جامع ترمذی)
٭٭٭

The post ماہ شعبان کی فضلیت appeared first on Global Current News.



from Global Current News http://bit.ly/2U1DkPX
via IFTTT

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔